- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
محمد بن عبدالرحمن کے متعلق امام مالک کی یہ رائے ہے کہ وہ ثقہ نہیں لیکن ابو زرعہ اسے ثقہ سمجھتے ہیں۔ (دو اسلام ص ۱۰۲۔ ۱۰۳)
اس کے بعد برق صاحب نے چار نام اور دئیے ہیں جن کو کسی نے ثقہ کہا اور کسی نے غیر ثقہ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں:
کہاں تک گنوں، سینکڑوں ایسے راوی ہیں، جنہیں ایک جماعت سچا سمجھتی ہے ، اور دوسری جھوٹا ... کس کی سنیں اور کس کی نہ سنیں۔ (دو اسلام ص ۱۰۳)
ازالہ
محدثین اگر کسی شخص کی توثیق میں اختلاف کرتے ہیں تو یہ مختلف حالات کے ماتحت ہوتا ہے۔ مثلاً (۱) ایک امام نے کسی راوی کو جوانی کی حالت میں دیکھا، حفظ و اتقان میں معتمد سمجھا، لہٰذا اس کو ثقہ کہہ دیا دوسرے امام نے اس راوی کو بڑھاپے کی حالت میں دیکھا، حافظہ کمزور ہوچکا تھا، غلطی کرنے لگے تھے، لہٰذا اس امام نے اس کو غیر ثقہ کہہ دیا، اب اس کی جوانی کے ایام میں روایت کردہ حدیث قابل اعتماد ہوگی اور بڑھاپے کی نہیں، تاوقتیکہ دوسرے قرائن سے اس کا ضعف دور نہ کردیا جائے۔
(۲) ایک امام نے کسی راوی کے متعلق کہا کہ فلاں شخص کے حق میں ثقہ ہے، دوسرے امام نے اس کو کسی دوسرے شیخ کے حق میں غیر ثقہ قرار دیا، وجہ اس کی یہ ہے کہ پہلے شیخ کے پاس وہ باقاعدگی سے احادیث حاصل کرتا رہا، برخلاف اس کے دوسرے شیخ کے پاس وہ کافی عرصہ نہ رہ سکا، جو کچھ اس سے حاصل کیا، وہ سرسری مطالعہ تھا۔
(۳) بعض راوی ایسے بھی ہیں، جن کا حافظہ ان کی کتابیں جل جانے کے صدمہ سے خراب ہوگیا، اب اگر ایک محدث اس کو ثقہ کہتا ہے، تو اس کے یہ معنی ہیں کہ کتابیں جلنے سے پہلے وہ بالکل قابل اعتماد تھا اور اس زمانہ میں اس کی روایت کردہ احادیث صحیح تھیں، اور اگر کسی محدث نے اس کو ضعیف کہا تو اس کے یہ معنی ہیں کہ کتابیں جلنے کے بعد وہ قابل اعتماد نہیں رہا، اس کی روایت کردہ احادیث مشکوک ہوگئیں یہ اختلاف بھی کوئی وقیع اختلاف نہیں، تحقیق کرنے سے ہر بات کھل کر سامنے آجاتی ہے، اور کسی قسم کا دھوکا نہیں ہوتا۔
(۴) اگر کسی امام نے کسی راوی کو صادق کہا دوسرے نے غیر ثقہ کہا یہ بھی اختلاف نہیں ہے اس لیے کہ محض صادق ہونے سے ثقہ ہونا لازم نہیں آتا، اس قسم کے اختلافات سے فن حدیث پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا، اگر ہم فرض بھی کرلیں کہ یہ اختلاف وقیع ہے تو اس صورت میں تحقیق سے اس کا فیصلہ ہوگا کہ کس امام سے اس کی جرح یا تعدیل میں غلطی ہوئی، محض اس امام کی غلط فہمی یا غلط اطلاع پر فیصلہ نہ ہوگا اگر فیصلہ کرنے کی کوئی صورت ممکن نہ ہو، حالانکہ یہ بھی مفروضہ ہے، تو پھر وہ حدیث ضعیف تصور کی جائے گی اس کے ضعف سے صحیح ثابت شدہ احادیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، دین کے لوازمات اسی حدیث سے ثابت ہوں گے جو صحیح و ثابت شدہ ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دین کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے، لہٰذا جو چیز صحیح و ثابت ہوگی، وہی عند اللہ محفوظ ہوگی، اور جو چیز ضعیف ہوگی وہ گویا غیر محفوظ ہوگی، اور عند اللہ دین میں شامل نہ ہوگی، برق صاحب کا یہ نتیجہ نکالنا کہ اگر بعض خبریں غلط ہوں تو گویا سب ہی غلط ہیں، کسی طرح صحیح نہیں، اگر یہ مان لیا جائے تو دنیا کا انتظام درہم برہم ہو جائے، جو غلط ہوگی وہ اس لیے غلط ہوگی کہ اس کا جھوٹ ہونا ثابت ہو جائے گا، اور جو صحیح ہوگی ، وہ اس لیے صحیح ہوگی کہ اس کی صحت کے لیے شواہد ہوں گے، دونوں کو ایک ہی لکڑی سے ہانکنا خلاف عقل و تجربہ ہے۔
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
محمد بن عبدالرحمن کے متعلق امام مالک کی یہ رائے ہے کہ وہ ثقہ نہیں لیکن ابو زرعہ اسے ثقہ سمجھتے ہیں۔ (دو اسلام ص ۱۰۲۔ ۱۰۳)
اس کے بعد برق صاحب نے چار نام اور دئیے ہیں جن کو کسی نے ثقہ کہا اور کسی نے غیر ثقہ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں:
کہاں تک گنوں، سینکڑوں ایسے راوی ہیں، جنہیں ایک جماعت سچا سمجھتی ہے ، اور دوسری جھوٹا ... کس کی سنیں اور کس کی نہ سنیں۔ (دو اسلام ص ۱۰۳)
ازالہ
محدثین اگر کسی شخص کی توثیق میں اختلاف کرتے ہیں تو یہ مختلف حالات کے ماتحت ہوتا ہے۔ مثلاً (۱) ایک امام نے کسی راوی کو جوانی کی حالت میں دیکھا، حفظ و اتقان میں معتمد سمجھا، لہٰذا اس کو ثقہ کہہ دیا دوسرے امام نے اس راوی کو بڑھاپے کی حالت میں دیکھا، حافظہ کمزور ہوچکا تھا، غلطی کرنے لگے تھے، لہٰذا اس امام نے اس کو غیر ثقہ کہہ دیا، اب اس کی جوانی کے ایام میں روایت کردہ حدیث قابل اعتماد ہوگی اور بڑھاپے کی نہیں، تاوقتیکہ دوسرے قرائن سے اس کا ضعف دور نہ کردیا جائے۔
(۲) ایک امام نے کسی راوی کے متعلق کہا کہ فلاں شخص کے حق میں ثقہ ہے، دوسرے امام نے اس کو کسی دوسرے شیخ کے حق میں غیر ثقہ قرار دیا، وجہ اس کی یہ ہے کہ پہلے شیخ کے پاس وہ باقاعدگی سے احادیث حاصل کرتا رہا، برخلاف اس کے دوسرے شیخ کے پاس وہ کافی عرصہ نہ رہ سکا، جو کچھ اس سے حاصل کیا، وہ سرسری مطالعہ تھا۔
(۳) بعض راوی ایسے بھی ہیں، جن کا حافظہ ان کی کتابیں جل جانے کے صدمہ سے خراب ہوگیا، اب اگر ایک محدث اس کو ثقہ کہتا ہے، تو اس کے یہ معنی ہیں کہ کتابیں جلنے سے پہلے وہ بالکل قابل اعتماد تھا اور اس زمانہ میں اس کی روایت کردہ احادیث صحیح تھیں، اور اگر کسی محدث نے اس کو ضعیف کہا تو اس کے یہ معنی ہیں کہ کتابیں جلنے کے بعد وہ قابل اعتماد نہیں رہا، اس کی روایت کردہ احادیث مشکوک ہوگئیں یہ اختلاف بھی کوئی وقیع اختلاف نہیں، تحقیق کرنے سے ہر بات کھل کر سامنے آجاتی ہے، اور کسی قسم کا دھوکا نہیں ہوتا۔
(۴) اگر کسی امام نے کسی راوی کو صادق کہا دوسرے نے غیر ثقہ کہا یہ بھی اختلاف نہیں ہے اس لیے کہ محض صادق ہونے سے ثقہ ہونا لازم نہیں آتا، اس قسم کے اختلافات سے فن حدیث پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا، اگر ہم فرض بھی کرلیں کہ یہ اختلاف وقیع ہے تو اس صورت میں تحقیق سے اس کا فیصلہ ہوگا کہ کس امام سے اس کی جرح یا تعدیل میں غلطی ہوئی، محض اس امام کی غلط فہمی یا غلط اطلاع پر فیصلہ نہ ہوگا اگر فیصلہ کرنے کی کوئی صورت ممکن نہ ہو، حالانکہ یہ بھی مفروضہ ہے، تو پھر وہ حدیث ضعیف تصور کی جائے گی اس کے ضعف سے صحیح ثابت شدہ احادیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، دین کے لوازمات اسی حدیث سے ثابت ہوں گے جو صحیح و ثابت شدہ ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دین کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے، لہٰذا جو چیز صحیح و ثابت ہوگی، وہی عند اللہ محفوظ ہوگی، اور جو چیز ضعیف ہوگی وہ گویا غیر محفوظ ہوگی، اور عند اللہ دین میں شامل نہ ہوگی، برق صاحب کا یہ نتیجہ نکالنا کہ اگر بعض خبریں غلط ہوں تو گویا سب ہی غلط ہیں، کسی طرح صحیح نہیں، اگر یہ مان لیا جائے تو دنیا کا انتظام درہم برہم ہو جائے، جو غلط ہوگی وہ اس لیے غلط ہوگی کہ اس کا جھوٹ ہونا ثابت ہو جائے گا، اور جو صحیح ہوگی ، وہ اس لیے صحیح ہوگی کہ اس کی صحت کے لیے شواہد ہوں گے، دونوں کو ایک ہی لکڑی سے ہانکنا خلاف عقل و تجربہ ہے۔