• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
م: لیکن حدیث کی حجیت پر ایک اور آیت موجود ہے۔
ب: فرمائیے:
م: اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (اللہ اور رسول دونوں کی اطاعت کرو) اللہ نے قرآن دیا ہے اور رسول نے حدیث، اس لیے دونوں پر ایمان لانا فرض ہے۔
ب: آپ نے پوری آیت نہیں پڑھی { واولی الامر منکم} چھوڑ گئے ہیں، ساری آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہوا (اللہ، رسول اور حاکم وقت جو تم میں سے ہو کو مانو) اگر رسول کی اطاعت کا یہی مطلب ہے کہ آپ کے تمام اقوال پر ایمان لاؤ، تو پھر حاکم وقت کے اقوال پر بھی ایمان لانا پڑے گا کیونکہ اللہ نے اس کی اطاعت کا بھی ویسے ہی حکم دیا ہے۔ (دو اسلام ص۱۱۰۔ ۱۱۱)
ازالہ
جی نہیں اللہ نے حاکم وقت کے اقوال پر ایمان لانے کا حکم نہیں دیا، بلکہ اس کے آگے فرمایا ہے کہ:
{ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللہِ وَالرَّسُوْلِ }
اگر تم کسی معاملہ میں اختلاف کرو تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ۔
یعنی امت کو حاکم وقت سے اختلاف کا اختیار دیا، اس کے قول پر ایمان لانے کا حکم نہیں دیا، بلکہ اختلاف کرکے اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا، گویا قول رسول خود سند ہے، اس سے اختلاف کرنے کا نہ اختیار ہے، نہ کسی دوسری طرف رجوع کا حکم ہے، بلکہ صاف ارشاد ہے:
{ وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرُّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَسَآءَت مَصِیْرًا } (النساء)
جو شخص ہدایت کے ظاہر ہو جانے کے بعد رسول کے خلاف چلے اور مومنین کے راستہ سے علیحدہ کوئی راستہ اختیار کرے تو ہم اس کو اُدھر ہی جانے دیں گے اور دوزخ میں داخل کردیں گے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔
یعنی رسول کے خلاف چلنا مسلمانوں کا راستہ نہیں، بلکہ کافروں کا راستہ ہے، دوسری آیت میں اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ رسول سے اختلاف کرنے کے اختیار کو سلب کرلیا گیا ہے، ارشاد ہے:
{ وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللہُ وَرَسُوْلُہٗ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَ مَنْ یَّعْصِ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا } (الاحزاب)
کسی مومن مرد یا عورت کے لیے حلال نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملہ میں فیصلہ کردیں تو پھر ان کو اس معاملہ میں اختیار باقی رہے اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔
قول و فعل میں رسول سے اختلاف رکھنا، تو بہت بڑی بات ہے، اللہ تعالیٰ تو یہ بھی برداشت نہیں کرتا کہ کوئی شخص دل میں بھی کسی قسم کا اختلاف رکھے ارشاد باری ہے:
{ فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا } (النساء)
آپ کے رب کی قسم لوگ ہرگز مومن نہیں ہوسکتے جب تک وہ اپنے تمام اختلافات میں آپ کو حکم نہ مان لیں پھر جو فیصلہ آپ نے کیا ہو، اس سے اپنے دل میں تنگی محسوس نہ کریں بلکہ بسر و چشم اسے قبول کریں۔
کیونکہ ایمان کا اصلی تعلق دل سے ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے رسول سے دل میں اختلاف رکھنے کو بھی کفر بتایا، اور قسم کھا کر فرمایا کہ ایسا شخص مومن نہیں ہوسکتا، اسی بنا پر یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ قول رسول پر ایمان لانا فرض ہے، اگر قول رسول پر ایمان لانا فرض نہ ہوتا، تو اختلاف کی گنجائش نکل سکتی تھی، اور کم از کم پوشیدہ طور پر تو اختلاف رکھا جاسکتا تھا، لیکن یہاں ان باتوں کی قطعاً گنجائش نہیں، بلکہ غیر مشروط طور پر سر جھکا دینا لازم ہے، قرآن میں متعدد مقامات پر رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، کہیں اللہ اور رسول کے الفاظ ساتھ، ساتھ آئے ہیں، اور کہیں صرف رسول کی اطاعت کا ذکر ہے۔ مثلاً :
{ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ } (نور)
اور نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ دو، اور رسول کی اطاعت کرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
لیکن امیر کی اطاعت کا حکم صرف ایک آیت میں ہے، پھر اُس آیت میں بھی حکم امیر کو آخری سند کا درجہ نہیں دیا گیا، بلکہ اس سے اختلاف کی اجازت دی گئی، اور آخری سند اللہ اور رسول کو بتایا گیا، اس وضاحت کے بعد یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ رسول اور حاکم وقت کی اطاعت کی نوعیت ایک ہی ہے، دونوں اطاعتوں میں بڑا فرق ہے، لہٰذا ان دونوں اطاعتوں کا مقابلہ قطعاً غیر صحیح ہے حاکم کی اطاعت کو کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت نہیں فرمایا، مگر رسول کی اطاعت کو عین اپنی اطاعت فرمایا، ارشاد باری ہے:
{ وَمَنْ یُطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ }
جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
پس ثابت ہوا کہ کجا اطاعت رسول اور کجا اطاعت حاکم۔ چہ نسبت خاک رابا عالم پاک۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
صحیح فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
م: تو کیا اقوال رسول قابل ایمان نہیں؟
ب: کیوں نہیں! بشرطیکہ ہمیں کہیں سے کوئی قول رسول مل جائے۔ (دو اسلام ص ۱۱۱)
مؤدبانہ گزارش
برق صاحب کی مندرجہ بالا عبارت غلط فہمی کے عنوان سے نہیں لکھ سکتا تھا اس لیے کہ اس عبارت میں برق صاحب نے اقوال رسول کو قابل ایمان تسلیم کیا ہے، یہ حقیقتاً صحیح فہمی اور حق کا اعتراف ہے، یہاں پہنچ کر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ہمارا اور آپ کا اختلاف ہی ختم ہوگیا، جو آپ کا عقیدہ وہی ہمارا، لہٰذا اب آپ سے ایک مؤدبانہ گزارش ہے وہ یہ کہ براہِ کرام اپنے موجودہ رویہ میں کچھ اصلاح کیجئے۔ اس لیے کہ جس چیز پر ایمان لانا ضروری ہو، اس کو ماخذ قانون اور حجت شرعیہ تسلیم نہ کرنا شان ایمان نہیں، پھر بقول آپ کے اقوال رسول قرآن حکیم کی تشریح میں اور دائرہ ایمان میں شامل ہیں، تو پھر ان کا من جانب اللہ تسلیم نہ کرنا، کسی مومن کو تو زیب نہیں دیتا پھر یہ کہنا بھی کسی طرح صحیح نہیں کہ جو تشریح من جانب اللہ ہو، جس پر ایمان لانا لازمی ہو، وہ غیرمحفوظ ہو، گویا ایمان کے لوازمات ضائع ہوگئے، قرآن کے الفاظ تو موجود ہوں، لیکن یہ نہ معلوم ہو کہ قرآن کے بھیجنے والے کا منشاء ان الفاظ سے کیا تھا، اور جو چیز منشا الٰہی کو بتانے والی تھی وہ موجود نہیں ، بتائیے کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ دین کی حفاظت ہے، کیا یہ اہانت اسلام نہیں، قرآن بھی محفوظ ہے، اور اس کی تشریح بھی موجود ہے، اور یہ تشریح کہاں محفوظ ہے، اس کے لیے بھی زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں آپ اپنی کتاب کا بیسواں باب (ص۳۴۱، ۳۴۳) ملاحظہ فرمائیں، آپ کی عبارتوں کے اقتباسات میں اسی باب میں گزشتہ صفحات میں نقل کرچکا ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
اللہ نے ہمیں قوانین کی ایک کتاب یعنی قرآن دے کر اپنے رسول کو ہمارا میرا اور اولی الامر بنا دیا، تاکہ وہ ان قوانین کو نافذ کرسکے، اور ہمیں حکم دے دیا کہ رسول کی اطاعت کرو، رسول خدا جب تک بقید حیات رہے، صرف انہیں قوانین کی تعمیل کراتے رہے، جن کی تفصیل قرآن میں دی ہوئی تھی اور آج بھی ہم پر رسول خدا کی اطاعت قرآنی احکام کی حد تک فرض ہے۔ (دو اسلام ص ۱۱۲)
ازالہ
جب رسول ایسا حاکم نہیں جو خود حاکم بن بیٹھا ہو، یا لوگوں نے اس کو اپنا حاکم بنا لیا ہو، بلکہ وہ اللہ کا مقرر کیا ہوا حاکم ہے، تو پھر اس کی فرمانروائی منصب رسالت سے علیحدہ کوئی چیز نہیں اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مقام پر رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے حالانکہ ہر مقام پر امیر کی اطاعت کا حکم ہونا چاہیے تھا، اس لیے کہ جب رسول صرف تلاوت قرآن کی حد تک رسول ہے، اور اس کے بعد وہ ایک عام حاکم کی طرح ہے، تو پھر بار بار بلکہ ہر بار یہ کہنا کہ رسول کی اطاعت کرو، نعوذ باللہ دھوکا دینے کے مترادف ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہر کلام میں وضاحت ہوتی ہے، اور کوئی کلام مبہم اور گمراہ کن نہیں ہوتا، اس لیے یہی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ رسول کی اطاعت بہ حیثیت منصب رسالت ہے، نہ کہ بہ حیثیت حاکم، لہٰذا ایسا حاکم جس کو اللہ نے مقرر کیا ہو، جس کی حکمرانی منصب رسالت کے ساتھ وابستہ ہو، جب کوئی حکم نافذ کرے گا، یا کسی قانون کی تشریح کرے گا، تو اس کا وہ طریقہ نفاذ اور اس کی تشریح قانون من جانب اللہ ہی ہوگی، اور ہر لحاظ سے بالکل منشاء الٰہی کے موافق ہوگی، اور اگر ایسا نہ ہو تو کہا جائے گا کہ قانون الٰہی کے نفاذ اور اس کی تشریح میں روز اول ہی سے غلطی نے راہ پالی، اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ فلاں قانون کی تشریح کیا ہے، اور اس کو کس طریقہ سے نافذ کیا جائے، اللہ تعالی نے قسم کھا کر فرمایا:
{ مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی } (نجم)
یعنی رسول نہ کبھی گمراہ ہوا نہ کبھی بہکا۔
{ وَمَا یَنْطِقْ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی } (نجم)
اس کی زبان وحی الٰہی کی ترجمانی کرتی ہے۔
بھلا ایسے حاکم کی فرمانروائی کو دوسرے حاکموں کی فرمانروائی سے کیا نسبت؟ اگر رسول کی اطاعت قرآن کی حد تک فرض ہے اور اس کے علاوہ نہیں، تو پھر بلاوجہ اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ قرآن کے بجائے رسول کا لفظ استعمال کرکے دنیا کو غلط فہمی میں مبتلا کیا، کیوں نہ ہر جگہ قرآن کی اطاعت کا حکم دیا، کیا اللہ تعالیٰ بھی بھول جایا کرتا ہے، یا قصداً ایسا کرتا ہے کہ کہنا کچھ چاہتا ہے اور کہتا کچھ ہے؟ نعوذ باللہ من ذٰلک۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
م: آپ کا مطلب غالباً یہ ہے کہ اگر رسول قرآنی احکام کے علاوہ کسی اور چیز کا حکم دے تو آپ اس کی تعمیل نہیں کریں گے۔
ب: یہ آپ نے فرض ہی کیوں کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے علاوہ کسی اور چیز کا حکم دینے کی بھی جرأت کرسکتے تھے، انہیں بار بار کہا جا رہا تھا '' بِلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ ''اے رسول تم وہ احکام امت تک پہنچاؤ جو ہم تمہیں دے رہے ہیں، کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس صریح حکم سے سرتابی کی جرأت کرسکتے تھے؟ لفظ رسول کے معنی ہی قاصد ایلچی اور چٹھی رساں ہیں، تو ایک قاصد خود کیسے آقا بن سکتا ہے۔ (دو اسلام ص ۱۱۲)
ازالہ
جی ہاں وہ خود آقا نہیں بن سکتا، بلکہ بنایا جاتا ہے، جس چٹھی کو وہ لے کر آتا ہے، اسی چٹھی میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ چٹھی رساں کی اطاعت کرنا یہ ہمارا چٹھی رساں ہے، لیکن تمہارا حاکم ہے، اس کی اطاعت کرو، بس یہی میری اطاعت ہے، اس سلسلہ میں متعدد آیات اس چٹھی میں موجود ہیں جن کو اوپر نقل کیا جاچکا ہے، کیا اس کے بعد بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ خود حاکم بن بیٹھا؟ ہرگز نہیں اگر رسول کی حیثیت اتنی ہی ہے کہ وہ چٹھی پہنچا دے، اور اس سے زیادہ کچھ نہیں، تو پھر اس کا درجہ ہر انسان سے کم ہوا، اس لیے کہ چٹھی بھیجنے والے، اور چٹھی وصول کرنے والے کے درمیاں چٹھی رساں محض ایک ذریعہ ہوتا ہے، اہم شخصیتیں تو وہ ہیں جو چٹھی کو بھیجنے والی اور چٹھی کو وصول کرنے والی ہیں، چٹھی رساں کی حیثیت دونوں کے درمیان محض ایک ملازم کی سی ہوتی ہے اور بس اگر یہی درجہ آپ رسول کو دینا چاہتے ہیں، تو بس پھر ایمان کا اللہ ہی حافظ ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ } (اٰل عمران)
تحقیق اللہ نے مومنین پر بڑا احسان کیا جب کہ ان میں ان ہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا کہ ان میں ان ہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے اور ان کے قلوب کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے ورنہ اس سے پہلے وہ صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔
برق صاحب کیا چٹھی رساں کے یہی فرائض ہیں، خدارا غور کیجئے مزکی و معلم انسانیت کو آپ چٹھی رساں بنا رہے ہیں، العیاذ باللہ، حقیقت تو یہ ہے کہ رسول کی حیثیت اس شخص کی سی ہے جو کہ بادشاہ کی طرف سے کسی صوبہ کا گورنر مقرر کیا جاتا ہے، بادشاہ کی طرف سے چند ہدایات اس کو دی جاتی ہیں، اور وہ ان کی روشنی میں اس صوبہ پر حکومت کرتا ہے، وہ چٹھی رساں نہیں ہوتا کہ چٹھی حوالہ کی اور چل دیا، بلکہ رسول اللہ کی طرف سے منتخب ہوتا ہے اور مطاع عالم بنا کر بھیجا جاتا ہے، وہ ہدایت کا نسخہ دے کر رخصت نہیں ہو جاتا، بلکہ اپنی اطاعت اور فرمانروائی کا ڈنکہ بجاتا ہے، وہ آتا ہے اور علی الاعلان کہتا ہے:
{ فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِیْعُوْنَ } (نوح)
اللہ سے ڈرو اور صرف میری اطاعت کرو۔
اور اطاعت اور فرمانروائی کا یہ منصب وہ اپنے لیے خود اختیار نہیںکرتا، بلکہ اس منصب پر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فائز ہوتا ہے، ارشاد باری ہے:
{ وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَسُوْلٍ اِلاَّ لِیُطَاعَ بِاِذْنَ اللہِ } (النساء)
ہر رسول کی اطاعت اللہ کے حکم سے کی جاتی ہے۔
تفصیل کے لیے تمہید ملاحظہ فرمائیں، تمہید میں یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ سنت بھی وحی کے ذریعہ نازل ہوئی ہے۔ لہٰذا '' بلغ ما انزل'' میں وہ بھی شامل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
آپ ایک چھوٹا سا نکتہ پیش نظر رکھیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو حیثیتیں تھیں، وہ پیغمبر بھی تھے اور بشر بھی، بہ حیثیت پیغمبر ہم ان کی اطاعت پر مامور ہیں، اور بہ حیثیت بشر، اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں مکمل آزادی دے رکھی ہے کہ ہم چاہیں تو کھانے، پینے، چلنے، بولنے،لیٹنے اور سونے میں حضور کی روش اختیار کریں۔ یا حدود شریعت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی پسند، اپنے مذاق، اپنے ملک و ماحول اور اپنے رجحان سے کام لیں۔ (دو اسلام ص ۱۱۲۔ ۱۱۳)
ازالہ
اگر کھانے پینے سے یہ مراد ہے کہ ہم اپنی پسند کی چیزیں کھائیں اور پئیں اور ہم پر یہ لازمی نہیں کہ جو کی روتی اور کھجور ہی کھائیں تو بے شک آپ نے ٹھیک فرمایا ان چیزوں کے سنت دینی ہونے کا کوئی قائل نہیں، لیکن کھانے پینے کے جو اصول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائے ہیں ان سے ہم تجاوز نہیں کرسکتے اور نہ اس معاملہ میں ہمیں اختیار دیا گیا ہے کہ خواہ ان اصولوں کے مطابق عمل کریں خواہ ان کو ترک کرکے دوسرے اصول اختیار کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اسلامی معاشرہ کی تشکیل کی اور اصول و ضوابط مقرر فرمائے۔ ان اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کرنا بے شک جرم ہے مثلاً آپ نے ہم کو الٹے ہاتھ سے کھانے پینے سے منع فرمایا۔ اب ہم اپنے ماحول یعنی مغربی تہذیب کے غلبہ سے متاثر ہو کر الٹے ہاتھ سے کھانا پینا شروع کردیں تو یہ کسی طرح جائز نہیں۔ بلکہ اس سے مسلم معاشرہ کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ اسی طرح اندھا دھند تقلید، نقالی، اور احساس کمتری کے جراثیم اسلامی تہذیب کو فنا کردیں گے۔ پس ایک تو ہوئی رسول کی طبعی پسند اور ایک ہوئی اصولی و تشریعی پسند طبعی پسند کی مثال لو کی کھانا ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ لَوکی کھائیں۔ لیکن لَوکی ہو یا کوئی دوسری چیز اس کے کھانے کے جو آداب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دئیے ہیں وہ ہمارے اسلامی تہذیب و شریعت کا جزو لاینفک ہیں ان میں ہمیں اختیار نہیں کہ خواہ ان پر عمل کریں خواہ اپنے ماحول یا اپنی پسند کے مطابق دوسری قوم کی نقالی کرتے پھریں۔ اسی طرح زراعت و تجارت ، جہاد و سفر، لین دین کے وہ تمام ذرائع جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں رائج تھے یا جن کو خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال فرمایا سنت نہیں کہے جاسکتے مثلاً جہاد میں تیرو کمان کا استعمال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا لیکن دور حاضرہ میں اس کے استعمال کو سنت کوئی نہیں کہتا نہ اس ایٹمی دور میں تیرو کمان کے استعمال کے کار ثواب ہونے کا کوئی قائل ہے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ جہاد اور اسی طرح کے دوسرے معاملات کے متعلق جو اصول آپ نے مقرر فرمائے وہ چاہے ہم قبول کریں چاہے ان کی جگہ دوسرے اصول اپنی پسند و ماحول کے مطابق وضع کرلیں۔ یہ ہرگز جائز نہیں۔ یہ حدود شریعت ہیں اور غالباً اسی وجہ سے برق صاحب نے بھی ''حدود شریعت'' کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اگر ان کا یہی منشاء ہے تو ہمیں ان سے اتفاق ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
تاریخ میں ایسے واقعات موجود ہیں کہ بعض اوقات صحابہ نے آپ کے بشری ہدایات یا مشورہ پہ عمل نہیں کیا تھا، مثلاً جب آپ کے غلام زید نے اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہی، تو آپ نے فرمایا '' امسک علیک زوجک''(طلاق مت دو) لیکن زید نے یہ مشورہ قبول نہیں کیا، اسی طرح جنگ بدر کے قیدیوں کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اصرار تھا کہ انہیں قتل کردیا جائے لیکن حضور نہ مانے، اور وحی نے عمر رضی اللہ عنہ کی تائید کردی۔ (ص۱۱۳)
ازالہ
برق صاحب نے جو مثالیں ذکر کی ہیں ، یہ احکام اصول اور ضوابط کی مثالیں نہیں ہیں، بلکہ بقول برق صاحب یہ مشورے ہیں، اور مشورہ ہوتا ہی اس لیے ہے کہ جس کو مشورہ دیا جارہا ہے، وہ مانے یا نہ مانے، لہٰذا مشورہ کو حکم و ہدایت کے ذیل میں لانا بہت بڑی غلط فہمی ہے، مزید براں جنگ بدر کے قیدیوں کا معاملہ تو اس جگہ قطعاً بے محل ہے، اس لیے فدیہ لے کر قیدیوں کو رہا کردینا یہ اکثریت کی رائے تھی، اسی وجہ سے اس پر عمل کیا گیا، مشورہ سے جو معاملات طے ہوتے ہیں، وہ قانون اور ضوابط نہیں بنتے، قانون اور ضوابط تو صرف احکام الٰہی ہوتے ہیں، جو بذریعہ وحی نازل ہوتے ہیں اور کسی قانون و ضابطہ کے بنانے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مشورہ نہیں لیا، مثلاً جب آپ نے الٹے ہاتھ سے کھانا پینا منع فرمایا تو اس سے پہلے کوئی مجلس مشاورت قائم نہیں کی، بلکہ بغیر مشورہ کے اس ضابطہ کا اعلان فرمایا، لہٰذا اس ضابطہ کو ماننا ہم پر فرض ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
حضور نے گیارہ نکاح کئے تھے لیکن ہمیں اس کی اجازت نہیں۔ (دو اسلام ص ۱۱۳)
ازالہ
یہ اختیار کی مثال نہ ہوئی بلکہ جبر کی مثال ہوئی یعنی ہم مختار نہیں بلکہ مجبور ہیں، کہ چار سے زیادہ نکاح نہ کریں، حالانکہ قرآن سے اس کی صریح ممانعت ثابت نہیں ہوتی، پھر فعل سنت بھی اس کی تائید کرتی ہے کہ چار سے زیادہ نکاح کیے جاسکتے ہیں، لیکن قولی حدیث کے ذریعہ اللہ کے رسول نے اس آزادی کو ہم سے سلب کرلیا، اور ہم کو چار سے زیادہ نکاح کرنے کی ممانعت کردی، الغرض ایک فعلی سنت سے روکنے والی دوسری قولی سنت ہے، ہمارے اختیار کو اس میں کہاں دخل ہے؟
برق صاحب آپ سے ایک سوال ہے وہ یہ کہ چار سے زیادہ نکاح کرنے کی ممانعت قرآن میں ہے یا نہیں؟ (۱) اگر ہے، تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گیارہ نکاح کرنے کی اجازت قرآن کی کس آیت میں ہے؟ اگر قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں تو پھر یا تو یہ اجازت کسی دوسری وحی میں آئی ہوگی، یا یہ کہنا پڑے گا کہ نعوذ باللہ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآنی احکام کی خلاف ورزی کرتے تھے؟ چونکہ قرآنی احکام کی خلاف ورزی آپ سے قطعاً ناممکن ہے، لہٰذا اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم قرآن کے علاوہ بھی وحی کا آنا تسلیم کریں، اور اسی وحی کو حدیث کہتے ہیں۔
(۲) اگر قرآن میں چار سے زیادہ نکاح کی ممانعت نہیں تو پھر وہ ممانعت کس جگہ ہے؟ ظاہر ہے کہ اس ممانعت کا مقام حدیث میں ہوگا، پس ثابت ہوا کہ حدیث بھی ماخذ قانون اور حجت شرعیہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
حضور نے ایک اندھے سے بے التفاتی فرمائی تھی جس پر سورہ عبس نازل ہوئی اور ملک العرش نے اپنے محبوب کو ایک ہلکی سی ڈانٹ پلا دی۔ (دو اسلام ص ۱۱۳)
ازالہ
برق صاحب کا منشا یہ ہے کہ اندھے سے بے التفاقی سنت ہے، لیکن اس سنت پر عمل کرنا منع ہے یا یہ کہ اس سنت پر عمل کرنا اللہ کو ناپسند ہے، گویا سنت کوئی واجب الاتباع چیز نہیں، بلکہ سنت کو کوئی دینی اہمیت حاصل نہیں، اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لغزشیں ہوتی تھیں اور اللہ تنبیہ نازل فرماتا تھا، برق صاحب نے در حقیقت سنت کا مطلب سمجھا ہی نہیں، سنت دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فعل یا قول ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کا بھی صاد ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیات طیبہ اور حیات طیبہ میں جو اقوال و افعال آپ سے صادر ہوئے سب پر اللہ کا صاد ہے، پوری زندگی میں یہ دو تین مثالیں ہی ایسی ملتی ہیں جن سے معمولی سی لغزش کا ثبوت ملتا ہے اور یہی وہ مثالیں ہیں جو ہمارے لیے موجب اطمینان ہیں، انہی مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال پر کس طرح اللہ تعالیٰ کی تنقیدی نظر پڑ رہی ہے، اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے { اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا} '' آپ ہماری نظروں کے سامنے ہیں'' رسول سے اول تو غلطی ہوتی نہیں، اور اگر کبھی ذرا سی بھی غلط ہوتی ہے تو فوراً وحی الٰہی خبیش میں آجاتی ہے، اور اس کی اصلاح کردی جاتی ہے، اگر رسول کے افعال پر اللہ خاموش رہتا ہے، تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ ان افعال سے راضی ہے اگر ناراض ہوتا تو ضرور تنبیہ کرتا جس طرح ان دو تین واقعات کے سلسلہ میں تنبیہ کا نزول ہوا، گویا اس اصلاح کے بعد اب پوری زندگی اللہ کی منظور و مقبول ہوئی، لہٰذا ثابت ہوا کہ جن اعمال سے اللہ راضی ہے، وہ رسول کے اعمال ہیں، اگر ان کی پیروی کرلی، تو اللہ راضی ہو جائے گا، اور یہی مومن کا مقصد حیات ہے، اللہ تعالیٰ نے بھی اس آیت میں رسول کی حیات طیبہ کی پیروی کو اسوہ حسنہ فرمایا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے { لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} اللہ تعالیٰ کی تنقید، پھر اصلاح، پھر منظوری پھر یہ آیت کیا اس بات کا قطعی ثبوت نہیں کہ رسول کی زندگی کی پیروی میں ہی نجات ہے۔
اس مقام پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ کیوں ذرا ذرا سی بات پر تنبیہ کرتا ہے، کبھی اندھے سے بے التفاقی پر تنبیہ کرتا ہے، باوجود اس کے اصل غلطی بظاہر اس اندھے ہی کی تھی کہ عین دوران تقریر ٹوک دیا، اور آپ کے فارغ ہونے تک صبر نہیں کیا، پھر اس بے التفاقی سے جو آپ کی نیت تھی وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں، بیویاں مال و دولت کی خواہش کرتی ہیں، تو اللہ تعالیٰ مداخلت کرتا ہے، آپ شہد کو نہ کھانے کا عہد کرتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ خفگی کا اظہار فرماتا ہے، آخر اس کی کوئی وجہ ہے یا یہ سب کچھ یوں ہی ہو رہا ہے بات در حقیقت یہ ہے کہ رسول کا ہر قول و فعل قانون کا درجہ رکھتا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ اصلاح فرما دیتا ہے تاکہ کوئی ایسا قانون نہ بن جائے، جو اللہ تعالیٰ کی منشا کے خلاف ہو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو دو تین قانونی لغزشیں ہوئیں، ان کی اصلاح ہوگئی، لہٰذا اب ہم بے کھٹکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کو اپنے لیے ضابطہ حیات اورماخذ شریعت تسلیم کرتے ہوئے اس کا اتباع کرسکتے ہیں، کیونکہ آپ کی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے تنقیدی معیار پر پوری اتری، لہٰذا اس نے حکم دے دیا کہ اب اس زندگی کی پیروی کرو گے تو ہدایت ملے گی ورنہ نہیں، ارشاد باری ہے:
{ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ } (اعراف)
رسول کی پیروی کرو تاکہ تمہیں ہدایت نصیب ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
قرآن کے گنے ہوئے چند سادہ سے ابدی احکام کے سوا ہم کسی اور ہنگامی حکم یا وقتی ہدایت کے لیے قطعاً مامور نہیں۔ (دو اسلام ص ۱۱۳۔ ۱۱۴)
ازالہ
ایک طرف تو آپ یہ تحریر فرماتے ہیں کہ اقوال رسول گویا وقتی ہدایت ہیں، اور (ص۱۱۱ )پر آپ تحریر فرما چکے ہیں کہ اگر اقوال رسول مل جاتے تو مجھے یقین ہے کہ ہر لفظ قرآن حکیم کی تشریح ہوتا، اور قرآن پہ ایمان لاتے ہی وہ ہمارے دائرہ ایمان میں شامل ہو جاتے معلوم نہیں، ان میں سے کون سی تحریر صحیح ہے وقتی ہدایت کس طرح دائرہ ایمان میں داخل ہوسکتی ہے، بات دراصل یہ ہے کہ سچی بات آپ کے قلم سے نکل گئی ہے، اور وہ یہ کہ اقوال رسول دائرہ ایمان میں شامل ہیں۔
اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ قرآن کے علاوہ جتنے احکام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دئیے، وہ سب ہنگامی تھے، تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ پانچ وقت کی نماز بھی ہنگامی حکم تھا، اور اس میں تخفیف یا اضافہ کیا جاسکتا ہے، الٹے ہاتھ سے کھانے پینے کی ممانعت سیدھے ہاتھ سے استنجا کرنے کی ممانعت وقتی ہدایات تھیں۔ اور اب اگر ان پر عمل نہ کیا جائے، تو کوئی گناہ نہیں ، گویا یہ تمام ہدایات ابدی حیثیت کی حامل نہیں، کیا کوئی عقلمند انسان ایسی بات تسلیم کرسکتا ہے؟
 
Top