- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
م: لیکن حدیث کی حجیت پر ایک اور آیت موجود ہے۔
ب: فرمائیے:
م: اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (اللہ اور رسول دونوں کی اطاعت کرو) اللہ نے قرآن دیا ہے اور رسول نے حدیث، اس لیے دونوں پر ایمان لانا فرض ہے۔
ب: آپ نے پوری آیت نہیں پڑھی { واولی الامر منکم} چھوڑ گئے ہیں، ساری آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہوا (اللہ، رسول اور حاکم وقت جو تم میں سے ہو کو مانو) اگر رسول کی اطاعت کا یہی مطلب ہے کہ آپ کے تمام اقوال پر ایمان لاؤ، تو پھر حاکم وقت کے اقوال پر بھی ایمان لانا پڑے گا کیونکہ اللہ نے اس کی اطاعت کا بھی ویسے ہی حکم دیا ہے۔ (دو اسلام ص۱۱۰۔ ۱۱۱)
ازالہ
جی نہیں اللہ نے حاکم وقت کے اقوال پر ایمان لانے کا حکم نہیں دیا، بلکہ اس کے آگے فرمایا ہے کہ:
{ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللہِ وَالرَّسُوْلِ }
اگر تم کسی معاملہ میں اختلاف کرو تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ۔
یعنی امت کو حاکم وقت سے اختلاف کا اختیار دیا، اس کے قول پر ایمان لانے کا حکم نہیں دیا، بلکہ اختلاف کرکے اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا، گویا قول رسول خود سند ہے، اس سے اختلاف کرنے کا نہ اختیار ہے، نہ کسی دوسری طرف رجوع کا حکم ہے، بلکہ صاف ارشاد ہے:
{ وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرُّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَسَآءَت مَصِیْرًا } (النساء)
جو شخص ہدایت کے ظاہر ہو جانے کے بعد رسول کے خلاف چلے اور مومنین کے راستہ سے علیحدہ کوئی راستہ اختیار کرے تو ہم اس کو اُدھر ہی جانے دیں گے اور دوزخ میں داخل کردیں گے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔
یعنی رسول کے خلاف چلنا مسلمانوں کا راستہ نہیں، بلکہ کافروں کا راستہ ہے، دوسری آیت میں اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ رسول سے اختلاف کرنے کے اختیار کو سلب کرلیا گیا ہے، ارشاد ہے:
{ وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللہُ وَرَسُوْلُہٗ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَ مَنْ یَّعْصِ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا } (الاحزاب)
کسی مومن مرد یا عورت کے لیے حلال نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملہ میں فیصلہ کردیں تو پھر ان کو اس معاملہ میں اختیار باقی رہے اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔
قول و فعل میں رسول سے اختلاف رکھنا، تو بہت بڑی بات ہے، اللہ تعالیٰ تو یہ بھی برداشت نہیں کرتا کہ کوئی شخص دل میں بھی کسی قسم کا اختلاف رکھے ارشاد باری ہے:
{ فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا } (النساء)
آپ کے رب کی قسم لوگ ہرگز مومن نہیں ہوسکتے جب تک وہ اپنے تمام اختلافات میں آپ کو حکم نہ مان لیں پھر جو فیصلہ آپ نے کیا ہو، اس سے اپنے دل میں تنگی محسوس نہ کریں بلکہ بسر و چشم اسے قبول کریں۔
کیونکہ ایمان کا اصلی تعلق دل سے ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے رسول سے دل میں اختلاف رکھنے کو بھی کفر بتایا، اور قسم کھا کر فرمایا کہ ایسا شخص مومن نہیں ہوسکتا، اسی بنا پر یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ قول رسول پر ایمان لانا فرض ہے، اگر قول رسول پر ایمان لانا فرض نہ ہوتا، تو اختلاف کی گنجائش نکل سکتی تھی، اور کم از کم پوشیدہ طور پر تو اختلاف رکھا جاسکتا تھا، لیکن یہاں ان باتوں کی قطعاً گنجائش نہیں، بلکہ غیر مشروط طور پر سر جھکا دینا لازم ہے، قرآن میں متعدد مقامات پر رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، کہیں اللہ اور رسول کے الفاظ ساتھ، ساتھ آئے ہیں، اور کہیں صرف رسول کی اطاعت کا ذکر ہے۔ مثلاً :
{ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ } (نور)
اور نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ دو، اور رسول کی اطاعت کرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
م: لیکن حدیث کی حجیت پر ایک اور آیت موجود ہے۔
ب: فرمائیے:
م: اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (اللہ اور رسول دونوں کی اطاعت کرو) اللہ نے قرآن دیا ہے اور رسول نے حدیث، اس لیے دونوں پر ایمان لانا فرض ہے۔
ب: آپ نے پوری آیت نہیں پڑھی { واولی الامر منکم} چھوڑ گئے ہیں، ساری آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہوا (اللہ، رسول اور حاکم وقت جو تم میں سے ہو کو مانو) اگر رسول کی اطاعت کا یہی مطلب ہے کہ آپ کے تمام اقوال پر ایمان لاؤ، تو پھر حاکم وقت کے اقوال پر بھی ایمان لانا پڑے گا کیونکہ اللہ نے اس کی اطاعت کا بھی ویسے ہی حکم دیا ہے۔ (دو اسلام ص۱۱۰۔ ۱۱۱)
ازالہ
جی نہیں اللہ نے حاکم وقت کے اقوال پر ایمان لانے کا حکم نہیں دیا، بلکہ اس کے آگے فرمایا ہے کہ:
{ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللہِ وَالرَّسُوْلِ }
اگر تم کسی معاملہ میں اختلاف کرو تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ۔
یعنی امت کو حاکم وقت سے اختلاف کا اختیار دیا، اس کے قول پر ایمان لانے کا حکم نہیں دیا، بلکہ اختلاف کرکے اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا، گویا قول رسول خود سند ہے، اس سے اختلاف کرنے کا نہ اختیار ہے، نہ کسی دوسری طرف رجوع کا حکم ہے، بلکہ صاف ارشاد ہے:
{ وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرُّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَسَآءَت مَصِیْرًا } (النساء)
جو شخص ہدایت کے ظاہر ہو جانے کے بعد رسول کے خلاف چلے اور مومنین کے راستہ سے علیحدہ کوئی راستہ اختیار کرے تو ہم اس کو اُدھر ہی جانے دیں گے اور دوزخ میں داخل کردیں گے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔
یعنی رسول کے خلاف چلنا مسلمانوں کا راستہ نہیں، بلکہ کافروں کا راستہ ہے، دوسری آیت میں اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ رسول سے اختلاف کرنے کے اختیار کو سلب کرلیا گیا ہے، ارشاد ہے:
{ وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللہُ وَرَسُوْلُہٗ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَ مَنْ یَّعْصِ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا } (الاحزاب)
کسی مومن مرد یا عورت کے لیے حلال نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملہ میں فیصلہ کردیں تو پھر ان کو اس معاملہ میں اختیار باقی رہے اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔
قول و فعل میں رسول سے اختلاف رکھنا، تو بہت بڑی بات ہے، اللہ تعالیٰ تو یہ بھی برداشت نہیں کرتا کہ کوئی شخص دل میں بھی کسی قسم کا اختلاف رکھے ارشاد باری ہے:
{ فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا } (النساء)
آپ کے رب کی قسم لوگ ہرگز مومن نہیں ہوسکتے جب تک وہ اپنے تمام اختلافات میں آپ کو حکم نہ مان لیں پھر جو فیصلہ آپ نے کیا ہو، اس سے اپنے دل میں تنگی محسوس نہ کریں بلکہ بسر و چشم اسے قبول کریں۔
کیونکہ ایمان کا اصلی تعلق دل سے ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے رسول سے دل میں اختلاف رکھنے کو بھی کفر بتایا، اور قسم کھا کر فرمایا کہ ایسا شخص مومن نہیں ہوسکتا، اسی بنا پر یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ قول رسول پر ایمان لانا فرض ہے، اگر قول رسول پر ایمان لانا فرض نہ ہوتا، تو اختلاف کی گنجائش نکل سکتی تھی، اور کم از کم پوشیدہ طور پر تو اختلاف رکھا جاسکتا تھا، لیکن یہاں ان باتوں کی قطعاً گنجائش نہیں، بلکہ غیر مشروط طور پر سر جھکا دینا لازم ہے، قرآن میں متعدد مقامات پر رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، کہیں اللہ اور رسول کے الفاظ ساتھ، ساتھ آئے ہیں، اور کہیں صرف رسول کی اطاعت کا ذکر ہے۔ مثلاً :
{ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ } (نور)
اور نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ دو، اور رسول کی اطاعت کرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔