- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
غلط فہمی
بہت خوب پہلے تو رسول اللہ سے روایت بالمعنی کرتے ہیں ، پھر راوی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت بالمعنی کی تکرار کرتا ہے، اگر اسی طرح ہر راوی ''بالمعنی'' کے مصرع کا تکرار کرتا رہے تو آخری راوی تک پہنچ کر غریب ''معنی'' کا کچومر نہ نکل جائے گا؟ ناظر ثانی ۔ (حاشیہ دو اسلام ص۱۱۵)
ازالہ
معلوم نہیں کہ یہ ناظر ثانی کون صاحب ہیں ، بہرحال اب ہمیں غلط فہمی ان کی دور کرنی ہے، ناظر صاحب سمجھے نہیں، روایت بالمعنی سے ''معنی'' کا کچومر نہیں نکلے گا، اس لیے کہ معنی کی حفاظت تو ہر راوی کا مطمح نظر رہے گا۔ ہاں آپ یہ کہہ سکتے تھے کہ الفاظ کا کچومر نکل جائے گا، معلوم ہوتا ہے کہ ناظر صاحب کہنا ہی چاہتے تھے غلطی سے بجائے '' الفاظ'' کے '' معنی'' لکھا گیا۔
اس سلسلہ میں یہ وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ کسی راوی کا یہ منشاء نہیں ہوتا کہ بس مفہوم ادا کردو، حدیث کا حق ادا ہوگیا، نہیں بلکہ سو فیصدی ہر راوی اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل الفاظ ہی روایت کیے جائیں، حتیٰ کہ اگر کسی کو دو ہم معنی الفاظ میں شک ہوتا ہے کہ ان میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کون سا لفظ فرمایا تھا، تو وہ دونوں الفاظ کا ذکر کردیتا ہے، اور یہ صاف بتا دیتا ہے کہ مجھے ان دونوں لفظوں کے معاملہ میں شک ہوگیا ہے، کتب حدیث پڑھنے والے اس سے بخوبی واقف ہیں، بتائیے جہاں ہم معنی لفظوں کے سلسلہ میں اتنی سختی اور تشدد ہو، وہاں دوسرے الفاظ کے لیے نرمی، تساہل، مداہنت کا پایا جانا محال ہے، روایت بالمعنی، راوی کبھی اضطراری طور پر تو کردیتا ہے لیکن اپنے اختیار اور امکان کی صورت میں روایت بالمعنی سے احتراز ہی نہیں، بلکہ کراہت کرتا ہے، پھر اگر کسی راوی میں روایت بالمعنی کی ذرا سی بھی عادت پائی جاتی ہے تو محدثین اس کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں اور متن حدیث کی چھان بین میں لگ جاتے ہیں اور اس طرح تحقیق و تفتیش کے بعد حدیث کے اصلی متن کو صحیح حدیث کی شکل میں امت کے سامنے پیش کرتے ہیں، الغرض قولی احادیث میں الفاظ ہی کی حفاظت کی گئی ہے اور اس کی حفاظت کے لیے پورا فن حدیث معیاری طور پر مرتب و مدون ہے، خلاصہ یہ ہوا کہ فن حدیث کا پورا زور حفاظت الفاظ پر ہے نہ کہ مفہوم پر جیسا کہ برق صاحب کے مولانا نے فرمایا ہے۔
بہت خوب پہلے تو رسول اللہ سے روایت بالمعنی کرتے ہیں ، پھر راوی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت بالمعنی کی تکرار کرتا ہے، اگر اسی طرح ہر راوی ''بالمعنی'' کے مصرع کا تکرار کرتا رہے تو آخری راوی تک پہنچ کر غریب ''معنی'' کا کچومر نہ نکل جائے گا؟ ناظر ثانی ۔ (حاشیہ دو اسلام ص۱۱۵)
ازالہ
معلوم نہیں کہ یہ ناظر ثانی کون صاحب ہیں ، بہرحال اب ہمیں غلط فہمی ان کی دور کرنی ہے، ناظر صاحب سمجھے نہیں، روایت بالمعنی سے ''معنی'' کا کچومر نہیں نکلے گا، اس لیے کہ معنی کی حفاظت تو ہر راوی کا مطمح نظر رہے گا۔ ہاں آپ یہ کہہ سکتے تھے کہ الفاظ کا کچومر نکل جائے گا، معلوم ہوتا ہے کہ ناظر صاحب کہنا ہی چاہتے تھے غلطی سے بجائے '' الفاظ'' کے '' معنی'' لکھا گیا۔
اس سلسلہ میں یہ وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ کسی راوی کا یہ منشاء نہیں ہوتا کہ بس مفہوم ادا کردو، حدیث کا حق ادا ہوگیا، نہیں بلکہ سو فیصدی ہر راوی اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل الفاظ ہی روایت کیے جائیں، حتیٰ کہ اگر کسی کو دو ہم معنی الفاظ میں شک ہوتا ہے کہ ان میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کون سا لفظ فرمایا تھا، تو وہ دونوں الفاظ کا ذکر کردیتا ہے، اور یہ صاف بتا دیتا ہے کہ مجھے ان دونوں لفظوں کے معاملہ میں شک ہوگیا ہے، کتب حدیث پڑھنے والے اس سے بخوبی واقف ہیں، بتائیے جہاں ہم معنی لفظوں کے سلسلہ میں اتنی سختی اور تشدد ہو، وہاں دوسرے الفاظ کے لیے نرمی، تساہل، مداہنت کا پایا جانا محال ہے، روایت بالمعنی، راوی کبھی اضطراری طور پر تو کردیتا ہے لیکن اپنے اختیار اور امکان کی صورت میں روایت بالمعنی سے احتراز ہی نہیں، بلکہ کراہت کرتا ہے، پھر اگر کسی راوی میں روایت بالمعنی کی ذرا سی بھی عادت پائی جاتی ہے تو محدثین اس کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں اور متن حدیث کی چھان بین میں لگ جاتے ہیں اور اس طرح تحقیق و تفتیش کے بعد حدیث کے اصلی متن کو صحیح حدیث کی شکل میں امت کے سامنے پیش کرتے ہیں، الغرض قولی احادیث میں الفاظ ہی کی حفاظت کی گئی ہے اور اس کی حفاظت کے لیے پورا فن حدیث معیاری طور پر مرتب و مدون ہے، خلاصہ یہ ہوا کہ فن حدیث کا پورا زور حفاظت الفاظ پر ہے نہ کہ مفہوم پر جیسا کہ برق صاحب کے مولانا نے فرمایا ہے۔