• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
اگر ہم ملا کا مذہب قبول کرلیں، تو پھر استنجا بھی اصول دین، منڈا ہوا سر بھی رکن اسلام ، ٹخنوں سے بالشت بھر اونچی شلوار بھی مذہبی فرض منڈی ہوئی مونچھیں ، لمبی داڑھی، مسلمان کیا ہوا، ایک اچھا خاصا جوکر بن کر رہ گیا۔ (دو اسلام ص ۱۱۴)
ازالہ
منڈے ہوئے سر کو تو رکن اسلام کسی نے نہیں کہا، بلکہ سر منڈانا مندرجہ ذیل دو وجوہ کی بنا پر کچھ ناپسندیدہ نظر آتا ہے۔
(۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سر پر بال رکھا کرتے تھے۔
(۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈانا خارجیوں کی نشانی فرمائی تھی۔
استنجا بے شک اصول دین ہے، اس لیے کہ طہارت و نظافت کا ذریعہ استنجا ہی تو ہے، اگر یہ نہ ہو تو، ''وثیابک فھر'' پر کیسے عمل ہوسکتا ہے، نہ معلوم برق صاحب کو کیا سوجھی کہ استنجا کو قابل ملامت سمجھا، اگر ان کا مطلب اس استنجا سے ہے جو جاہل لوگ چلتے پھرتے کرتے ہیں، تو ہمیں بھی ان سے اتفاق ہے یہ طریقہ بے شک حیا سوز اور خلاف سنت ہے، بلکہ بدعت ہے۔
ٹخنوں سے اونچی شلوار یا پائجامہ، پست مونچھیں، اور لمبی داڑھی اسلامی شعار ہے، یہ سب چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں، صحابہ کرام ان پر عمل کرتے تھے، کیا آپ ان کو بھی اسی لفظ سے یاد کریں گے جس لفظ سے ملا کو یاد کیا ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
اگر آپ کسی نو مسلم انگریز کا سر مونڈ کر اوپر ایک موٹا سا پگڑ باندھ دیں، موچھیں، مونڈ ڈالیں، داڑھی ناف تک بڑھا دیں، نیچے ٹخنوں سے بالشت بھر اونچی شلوار پہنا دیں، پگڑ میں مسواک ٹانگ کے ساتھ تسبیح باندھ دیں، اور آنکھوں میں سرمہ ڈال کر اسے انگلستان بھیج دیں، تو دو ہی نتیجے ہوں گے، یا تو انگریز اسے جن سمجھ کر مار ڈالیں گے، اور یا پھر چڑیا گھر میں بند کردیں گے۔ (دو اسلام ص ۱۱۴)
ازالہ
سرمونڈنے کو سنت کس نے کہا؟ بلکہ سر پر بال رکھنا سنت ہے، پھر بالوں کی تحسین و تزئین اور تکریم کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص ہدایات دی ہیں، لہٰذا سرمونڈنے کو رکن اسلام سمجھنا برق صاحب کی بڑی زبردست غلط فہمی ہے۔
'' موٹا سا پگڑ، پگڑ میں مسواک، ٹانگ میں تسبیح'' یہ تو آج تک کسی ملا میں نہیں دیکھیں معلوم نہیں برق صاحب کو ایسے ملا کہاں دستیاب ہوئے تھے۔
موچھیں مونڈنا کوئی انوکھی چیز نہیں ، اس کا تو رواج عام ہے، پھر یورپ میں اس پر تعجب کیوں ہوگا رہا ناف تک داڑھی بڑھانا، تو یہ بھی کوئی انوکھی چیز نہیں، اکثر پادری لمبی لمبی داڑھیاں رکھتے ہیں، البتہ مسلمانوں میں یہ چیز شاذ ہے۔
ٹخنوں سے بالشت بھر اونچی شلوار بھی تعجب کی چیز نہیں، بھلا جن لوگوں کے ہاں گھٹنوں سے اوپر نیکر بلکہ نصف رانوں تک کی شورٹس پہننے کا رواج ہو وہ کیسے ٹخنوں سے اونچی شلوار پر متعجب ہونگے، متعجب تو وہ لوگ ہوتے ہیں، جو احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں، امریکی لباس کو ملاحظہ فرمائیے، ٹخنوں سے اونچی پتلون، کمر تک بلکہ کمر سے بھی اونچی بش شرٹ یا کوئی اور چیز اور پھر اس پر فخر ڈھیلی اتنی کہ معلوم ہوتا ہے کہ گاما پہلوان کی اترن ہے، لیکن بایں ہیئت کذائی انہیں اپنے لباس پر ناز ہے اور مسلمانوں کو ان کی نقالی پر فخر اگر ایسی بش شرٹ پہنے ہوئے ہمارا کوئی بزرگ انہیں دیکھتا، تو یہ کہنے پر مجبور ہوتا کہ اپنے چھوٹے لیکن بے حد موٹے بھائی کی بش شرٹ پہنے ہوئے ہیں، اسی وجہ سے چھوٹی بھی ہے اور ڈھیلی بھی ہے۔
آنکھوں میں سرمہ لگانا بھی کوئی تعجب کی چیز نہیں، یہ تو خوبصورتی کے لیے لگایا جاتا ہے، برق صاحب سرمگین آنکھوں کو بھی بدتہذیبی شمار کرتے ہیں، اور بدتہذیبی شمار کرنے کو انگریزوں کی طرف منسوب کرتے ہیں، بھلا جن کے ہاں ہونٹوں پر سرخی لگانا زینت ہو، وہ سرے کو عجوبہ کیسے سمجھ سکتے ہیں۔
برق صاحب اگر آپ اپنی عبارت کو اس طرح کرلیں تو مناسب ہے '' اگر ہم کسی نو مسلم انگریز کے سر پر بال رکھ کر ان میں تیل ڈال دیں اور مانگ نکال دیں، پھر خوبصورت سا عمامہ باندھ دیں، موچھیں پست کردیں، اور داڑھی چھوڑ دیں، ٹخنوں سے اونچا پاجامہ پہنا دیں، یا تہہ بند باندھ دیں، عمامہ میں اوپر طرہ ہو اور پیچھے شملہ، آنکھیں سرمگیں کردی، سفید جھک لمبا کرتہ پہنا دیں، اور پھر اسے انگلستان بھیج دیں، تو لوگ اس کو فرشتہ سمجھیں گے، اور ہر جگہ اس کا اکرام اور احترام کریں گے۔
برق صاحب اصول دین تو یہ ہے '' ان اللہ جمیل یحب الجمال'' اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے (الحدیث رواہ مسلم) لہٰذا بات اصول دین کی کیجئے، نہ فرضی ملا کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
اسلام میں ہی تو خوبی ہے کہ وہ صرف حقائق پر نظر رکھتا ہے اور ان ظواہر و مناسک کو قابل التفات نہیں سمجھتا۔ (دو اسلام ص ۱۱۴)
ازالہ
اسلام میں تو یہ خوبی ہے کہ وہ ظاہر و باطن کو یکساں دیکھنا چاہتا ہے ، ظاہر باطن کی نمائندگی کرتا ہے، شریعت ظاہری باتوں پر نافذ ہوتی ہے، باطن کا حال سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا، اگر ظاہر بے کار چیز ہے، تو پھر بتایا جائے کہ ہر ملک کی فوج کی وردی الگ الگ کیوں ہے، جھنڈا الگ الگ کیوں ہے؟ بیچز علیحدہ علیحدہ کیوں ہیں، اگر ہم دشمن فوج کی وردی پہن کر لڑیں تو کیا حرج ہے، حقائق پر اس کا اثر کیا ہوگا۔
جماعت مومنین اللہ کا لشکر ہے، اور اس کا بھی ایک طرز ہے جو اس کو غیروں سے ممتاز کرتا ہے، یہ شان امتیاز ہی تو ہے، جس پر ہر قوم کو ناز ہوتا ہے، برق صاحب نہ معلوم کیوں اس امتیازی شان کے خلاف ہیں، کیوں ان ظواہر و مناسک کو قابل التفات نہیں سمجھتے، حالانکہ ان ظاہری مناسک کے ملنے کی دو عظیم الشان پیغمبر اس طرح دعا کرتے ہیں:
(۱) { رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ } (البقرۃ)
حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل دعا کرتے تھے کہ اے ہمارے رب ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بننا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت ایسی بنا جو تیری مطیع ہو، اور اے اللہ ہم کو ہمارے مناسک بتا دے۔اور ہم پر رحمت کے ساتھ متوجہ ہو، بے شک تو تواب اور رحیم ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
قبلہ کی طرف منہ کرنا بھی ظاہری مناسک میں سے ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(۲) { لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ } (البقرۃ)
یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق کی طرف کرو، یا مغرب کی طرف بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا جائے وغیرہ وغیرہ۔
آیت مذکورہ سے ثابت ہوا کہ قبلہ کی طرف منہ کرنا، کوئی خاص نیکی کی چیز نہیں، محض ایک ظاہری چیزی ہے،لیکن اس کے باوجود اس کی اہمیت ملاحظہ ہو، ارشاد باری ہے:
(۳) { وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ } (البقرہ)
اور جس قبلہ کی طرف آپ منہ کرتے ہیں اس کو ہم نے اس لیے قبلہ مقرر کیا ہے کہ ہم جان لیں کہ کون رسول کی اتباع کرتا ہے اور کون کفر کی طرف واپس لوٹ جاتا ہے۔
گویا ان ظاہری چیزوں سے اتباع رسول کے جذبہ کے جذبہ کی جانچ ہوتی ہے، جوان ظاہری چیزوں کو بے حقیقت سمجھتا ہے، وہ گویا جذبہ اتباع رسول سے عاری ہے، حالانکہ اللہ ہم سے اسی کا مطالبہ کرتا ہے، اور ان ظاہری چیزوں کو مسلمانوں کے لیے طرہ امتیاز قرار دیتا ہے، بظاہر عرفات سے طواف کے لیے جانا کوئی اہمیت نہیں رکھتا، لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(۴) { ثُمَّ اَفِیْضُوَا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ } (البقرۃ)
پھر تم طواف کے لیے اسی جگہ سے چلو جہاں سے عام لوگ چلتے ہیں۔ (یعنی قریش جس مقام سے چلتے ہیں وہاں سے مت چلو)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
ایک اور ارشاد گرامی سنیے:
(۵) { وَلَا تَحْلِقُوْا رُءُ وْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْھَدْیُ مَحِلَّہٗ } (البقرۃ)
اور تم لوگ اپنے سر نہ منڈانا جب تک قربانی کا جانور اپنی جائے مقررہ پر نہ پہنچ جائے۔
سر کا منڈانا یا نہ منڈانا کتنی بے حقیقت چیز ہے، نہ یہ کوئی اسلامی حقائق میں سے ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اس ظاہری اور غیر اہم چیز کا حکم دے رہا ہے، اور حکم ہی نہیں دے رہا، بلکہ اگر شرعی عذر کی وجہ سے سرمنڈانا پڑ جائے تو اس کا جرمانہ بھی مقرر فرما رہا ہے، ارشاد ہے:
(۶) { فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِہٖٓ اَذًی مِّنْ رَّاْسِہٖ فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَۃٍ اَوْ نُسُک } (البقرۃ)
پس جو شخص تم میں سے مریض ہو ، یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو، تو وہ (سرمنڈا دے لیکن بطور فدیہ کچھ روزہ رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
ایک اور جگہ ارشاد باری ہے:
(۷) { وَلَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ } (المائدہ)
حالت احرام میں شکار مت مارو۔
بتائیے اس حکم میں کون سے حقائق مضمر ہیں، محض ظواہر میں سے ہے، لیکن حکم اس شد و مد کے ساتھ ہے، آخر کیا بات ہے، اللہ تعالیٰ کیوں ظواہر کو اتنی اہمیت دے رہا ہے، ایک اور مقام پر ارشاد گرامی ہے:
(۸) { یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ } (البقرۃ)
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کردئیے گئے ہیں۔
روزہ بالکل ایک ظاہری چیز ہے جس سے انسان فاقہ مستی اور نفس کشی سیکھتا ہے، اور بقول آپ کے اللہ تعالیٰ کبھی ایسے لغو کاموں کو پسند نہیں کرتا، وہ تو حقائق کو پسند کرتا ہے، اسی سے راضی ہوتا ہے دنیا کی تمام قومیں تو اپنی افواج کے لیے عمدہ سے عمدہ راشن مہیا کرتی ہیں، ان کی ہر قسم کی آسائش کا لحاظ رکھتی ہیں، تاکہ ان میں کسی قسم کی جسمانی کمزوری پیدا نہ ہو جائے، اور اللہ ہے کہ اپنی فوج کو بھوکا رکھ کر اسے دشمن کے مقابلہ میں کمزور دیکھنا چاہتا ہے، معلوم نہیں، اس ظاہری فاقہ مستی سے اللہ تعالیٰ کیوں خوش ہے اس کی کیا مصلحت ہے؟ بہرحال ہم تعمیل کرتے ہیں، اگر ہم ہر چیز کو ظاہری ظاہری کہہ کر چھوڑتے چلے جائیں تو بس پھر اسلام ختم ہو جائے گا، جادو کے متعلق ارشاد باری ہے:
(۹) { لَمَنِ اشْتَرٰہ مَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ } (البقرۃ)
جس نے جادو کو حاصل کیا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔
جادو ایک فن و ہنر (Art) ہے لیکن کیا کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حرام کردیا، محض ظاہری چیز پر اتنا زور دیا، اللہ تعالیٰ کو تو حقائق سے بحث کرنی چاہیے تھی، اور وہ یہ کہ ایسی چیزوں کے متعلق بس یہ حکم نافذ ہوتا، کہ اگر نیک مقاصد کے لیے استعمال کی جائیں تو جائز ہیں، ورنہ ناجائز لیکن ایسا نہیں ہے، تو پھر یہی کہا جائے گا کہ ظواہر اور مناسک پر قرآن بھی زور دیتا ہے، اعتکاف کے متعلق حکم صادر ہوتا ہے:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
(۱۰) { وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ }(البقرۃ)
جب تم مساجد میں اعتکاف کے لیے بیٹھ جاؤ، تو عورتوں سے میل جول مت رکھو۔
یہ کیا راہبانہ زندگی کا سبق ہے؟ نفس کشی کی تعلیم ہے؟ کہا جاسکتا ہے کہ اصل حقیقت تو دل کا پاک و صاف ہونا ہے، محض ان ظاہری ترک لذات سے کیا ہوتا ہے، اب اگر ایسا کہا جائے تو پھر یہ قرآن پراعتراض ہوتا ہے ، نعوذ باللہ پس ثابت ہوا کہ ظاہری مناسک بھی کوئی حقیقت رکھتے ہیں، ان کی بھی کوئی اہمیت ہے، خرید و فروخت کے متعلق ارشاد ہے:
(۱۱) { وَاَشْھِدُوْا اِذَا تَبَا یَعْتُمْ } (البقرۃ)
خرید و فروخت کے لیے گواہ کرلیا کرو۔
بھلا دو پیسے کا نمک خریدیں، تو بھی گواہ کرلیا کریں، یہ کتنی بے حقیقت بات ہے لیکن حکم بظاہر یہی ہے۔ ہاں حدیث سے کچھ تخصیص ہوتی ہے اور معاملات سہل ہو جاتے ہیں۔ عورتوں کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:
(۱۲) { وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ } (نور)
عورتیں غیر محرم کے سامنے اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں۔
یہ حکم بھی بظاہر بے حقیقت معلوم ہوتا ہے ، کیونکہ اصل مقصد تو عفت و پاکدامنی ہے، اور وہ تزکیہ نفس سے حاصل کی جاسکتی ہے، تاہم اللہ تعالیٰ ظواہر پر زور دیتا چلا جاتا ہے، بنی اسرائیل کو حکم ہوتا ہے:
(۱۳) { وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْ لَکُمْ خَطٰیٰکُمْ } (البقرۃ)
شہر کے دروازہ میں جھک کر داخل ہوؤ اور '' حطۃ'' کہو ہم تمہارے سارے گناہ معاف کردیں گے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن حقائق سے بحث کرتا ہے، ظاہرپرستی کو لغو سمجھتا ہے، تو پھر یہ کیوں نہیں کہتا کہ خالص دل سے توبہ کرو تو ہم تمہارے گناہ معاف کردیں گے، اس ظاہری ہیئت پر کہ داخلہ کے وقت تم جھکے ہوئے ہو،کیوں زور دیا جا رہا ہے۔
الغرض اس قسم کے بیسیوں قرآنی احکام ہیں، جن میں ظاہر پرستی کی اچھی خاصی جھلک اور اہمیت پائی جاتی ہے، اب اگر اس قسم کی ظاہر پرستی احادیث میں ہو، تو یہ کہنا کہ یہ ملا کی ایجاد ہے، کس حد تک مبنی بر انصاف ہے، اگر قرآن قبلہ کی طرف منہ کرنے، طواف کو آنے کے لیے جگہ مقرر کرنے، قربانی سے پہلے سر نہ منڈانے ، رمضان کے مہینہ میں نفس کشی ، حالت احرام میں شکار نہ کرنے ، نامحرم کے سامنے زینت چھپانے شہر میں داخلہ کے وقت سجدہ کرنے کے ظاہری حکم دے سکتا ہے، اور ان کو دینی حقائق میں شمار کرتا ہے، تو پھر احادیث کے احکام مثلاً داڑھی چھوڑنا، سیدھے ہاتھ سے کھانا پینا، ٹخنوں سے اونچا پاجامہ پہننا وغیرہ حقائق میں کیوں شمار نہیں ہوسکتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
ملا سے میرا نزاع اس بات پر ہے کہ وہ حدیث کو آگے لا کر بے شمار ظواہر کو جزو اسلام بنانا چاہتا ہے اور میں قرآن کو پیش کرکے ملت کو ان ملائی قیود سے آزاد کرانا چاہتا ہوں۔ (دو اسلام ص۱۱۴)
ازالہ
برق صاحب! حقیقت میں یہ نزاع آپ کا ملا سے نہیں ہے، بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، اس لیے کہ یہ سب باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نزاع گمراہی اور ضلالت ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرُّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَ سَآءَت مَصِیْرًا } (النساء)
اور جو شخص رسول کے خلاف چلے بعد اس کے کہ اس کے پاس واضح طور پرہدایت پہنچ چکی ہو، اور مسلمانوں کے علاوہ کوئی راستہ اختیار کرے تو ہم اس کو ادھر ہی جانے دیں گے جدھر وہ جا رہے ہے۔ اور اس کو دوزخ میں داخل کردیں گے وہ بہت بری جگہ ہے۔
برق صاحب ! رسول کے مقرر کردہ قیود سے آزادی گویا اسلام سے آزادی ہے، پھر نہ قرآن قرآن رہے گا نہ اسلام اسلام رہے گا۔ قرآن بازیچہ اطفال بن کر رہ جائے گا۔ اگر میں اقیمو الصلوٰۃ کے معنی یہ کروں کہ رقص و سردد کی محفل قائم کرو، تو مجھے روکنے والا کوئی نہ ہوگا، اور اگر کوئی روکے تو میں اسے ملا کہا کر چپ کرا دوں گا اس لیے کہ وہ بلاوجہ حدیث کی رو سے پانچ وقت کی پابندی نماز کی لگا کر ہم کو قیود میں جکڑنا چاہتا ہے۔ حالانکہ قرآن ہمیں آزادی دیتا ہے کہ جو مناسب معنی ہوں وہ کر لیے جائیں اور اگر کہیں مرکز ملت بھی میرے معنوں کی تائید کردے تو بس پھر وہ اللہ کا حکم ہوگا۔ اب تو کسی کو چون و چرا کی گنجائش نہ ہوگی ایسے موقع پر سوائے انا للہ پڑھنے کے اور کیا کیا جاسکتا ہے۔ حدیث کے قیود اگر آپ پر بار گزرتے ہیں تو آخر قرآنی قیود کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے قرآن بھی تو قیود و حدود سے بھرا پڑا ہے۔ طلاق کے معاملہ میں قیود عدت کے قیود۔ نکاح کے قیود۔ نماز روزہ کے قیود حج میں طرح طرح کے قیود۔ غرضیکہ کن کن قیود کو بیان کیا جائے۔ آخر ان قیود سے بھی کوئی چھٹکارا ہے اللہ کے یک آزاد بندے کو اتنی قیود میں جکڑ دینا ظلم ہے یا نہیں؟ خاوند مر جائے تو عورت چار ماہ دس دن عدت میں بیٹھے۔ پھر نکاح کرسکتی ہے۔ آخر یہ قید کیوں لگائی گئی ہے۔ کیوں اسے مرد کی طرح آزادی نہیں دی گئی۔ کہ وہ جب چاہے نکاح کرے۔ حکومت وقت کتنے قواعد و ضوابط بناتی ہے جن کی خلاف ورزی جرم ہے آخر یہ قیود تسلیم کرے پڑتے ہیں یا نہیں؟ طوعاً یا کرہاً۔ اور جب غیر نبی کے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط سے چھٹکارا نہیں تو نبی کے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط سے نجات کی کیوں کوشش کی جاتی ہے؟ قواعد کی پابندی تو بہرحال کرنی ہے رسول کے قواعد کی نہ سہی کسی اور کے سہی۔ اب یہ اپنی اپنی پسند ہے کہ کوئی کسی پابندی کو اچھا سمجھتا ہے اور کوئی کسی کو۔ مگر ایک مومن کے لیے رسول کے بتائے ہوئے ضابطے ہی عین ایمان ہیں انہی سے نور ہدایت مل سکتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا۔ وَّ دَاعِیًا اِلَی اللہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا } (الاحزاب)
ہم نے آپ کو شاہد، بشارت دینے والا ڈرانے والا اللہ کے حکم سے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا۔
{ ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ } (جمعۃ)
اللہ نے امیوں میں ایک رسول انہی میں سے مبعوث فرمایا جو اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے ان کا تزکیہ نفس کرتا ہے، اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، ورنہ پہلے تو وہ لوگ صریح گمراہی میں تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
برق صاحب کیا کسی چٹھی رسان میں یہ خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں،اچھا یہ بتائیے کہ چٹھی رساں چٹھی یعنی قرآن لے کر آیا، کیا وہ دے کر چلا گیا؟ اگر نہیں تو پھر وہ کیا کرتا رہا؟ کیا وہ ان پر نگران بنا کر بھیجا گیا تھا کہ اس کی نگرانی میں قرآن پر عمل کیا جائے؟ کیا کسی چٹھی رسان کے یہ فرائض ہوتے ہیں، قرآن اس لیے بھیجا گیا تھا کہ اس کا اتباع کیا جائے، اور یہ چیزیں خود قرآن میں بھی موجود ہیں، جب اصل اتباع قرآن کا کرنا تھا، تو قرآن نے رسول کے اتباع اور اس کی اطاعت پر کیوں زور دیا، اگر رسول کا اتباع صرف قرآن کی حد تک کرنا تھا، تو پھر تو یہ اس حکم میں شامل تھا کہ '' قرآن کا تباع کرو'' رسول کے اتباع کو علیحدہ ذکر کیا، اور بار بار ذکر کیا حتی کہ قرآن کے اتباع کا ذکر اگر دو تین جگہ ہے، تو رسول کے اتباع کا ذکر سو سے زائد مقامات پر ہے، کیا یہ سب فضول ہے رسول کے اتباع سے مراد قرآن کا اتباع تھا، تو آخر قرآن کے اتباع کاذکر بار بار کرنے میںکون سا امر مانع تھا؟ آخر اس میں کیا راز ہے کہ چٹھی میں کل ہدایات موجود ہیں، اور کامل ہدایات موجود ہیں، لیکن پھر بھی چٹھی میں یہ لکھا ہوا ہے کہ چٹھی رسال کی اطاعت کرنا اس کی نافرمانی مت کرنا، آخر یہ کیوں؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
ب: روایت بالمعنی کی تشریح کیجئے:
م: بالکل سادہ سا لفظ ہے کہ احادیث میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ منقول نہیں، بلکہ صرف مطالب منقول ہیں۔
ب: آپ کا مطلب یہ ہے کہ مضمون حضور علیہ السلام کا ہوتا ہے، اور الفاظ راوی کے
م: جی ہاں!
ب: تو آپ ہر حدیث میں یہ کیوں کہا کرتے ہیں قال رسول اللہ ... اگر ہر حدیث راوی کا قول ہے تو پھر وہ قول رسول نہیں ہوسکتی، یہ تو ناممکن ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک ہی قول راوی کا بھی ہو، اور حضور کا بھی مزید براں اگر روایت بالمعنی تسلیم کی جائے، تو اس صورت میں حدیث کبھی وحی خفی نہیں بن سکتی، اس لیے کہ تمام احادیث راویوں کے اقوال ہیں، اور وحی حضور پر آیا کرتی تھی نہ کہ راویوں پر۔ (دو اسلام ص ۱۱۵)
ازالہ
برق صاحب کے مخاطب مولانا بالکل ہی جاہل تھے، ورنہ ایسے جاہلانہ جواب دے کر خاموش نہ ہوتے، برق صاحب آپ کے اس سوال کا جواب خود آپ کی عبارت میں ملاحظہ ہو:
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی صحیح حدیث موجود ہی نہیں، صحیح حدیث کے دو مفہوم ہیں، اول یہ کہ کسی حدیث کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صحیح ہو، یعنی ہم یہ دلائل ثابت کرسکیں کہ یہ قول حضور کی زبان مبارک سے واقعی نکلا، ان معنوں میں کوئی حدیث یقینی طور پر صحیح نہیں، البتہ ظن غالب یہ ہے کہ بعض اقوال صحیح ہوں گے۔ دوم یہ کہ حدیث کا مضمون صحیح ہو، اور ان معنوں میں ہزاروں احادیث صحیح ہیں۔ (دو اسلام ص ۳۴۱)
لیجئے آپ نے خود تسلیم کرلیا کہ بعض احادیث ظن غالب ہے کہ صحیح ہوں گے، اور یہ بھی آپ نے تسلیم کرلیا کہ معنی تو ہزاروں صحیح ہیں۔
اچھا برق صاحب یہ بتائیے کہ اگر کوئی اردو دان جس کو عربی نہ آتی ہو، یہ کہے کہ '' اللہ فرماتا ہے نماز قائم کرو، کعبہ کی طرف منہ کرو، تو یہ صحیح ہوگا یا غلط؟ یقینا صحیح ہوگا، وہ اللہ کے الفاظ ادا نہیں کر رہا، بلکہ اس کا مفہوم ادا کر رہا ہے، اس کے باوجود اگر وہ یہ کہے کہ '' اللہ فرماتا ہے'' اور یہ طریقہ صحیح ہو، تو پھر حدیث کی ادائیگی کے لیے یہ طریقہ صحیح کیوں نہیں۔
روایت بامعنی
اگر کسی قرآنی حکم کو عمل کرنے کا طریقہ مختلف الفاظ میں بتایا جائے اور معنی ان تمام الفاظ کے ایک ہی ہوں تو بتائیے قرآن پر عمل کرنے کا طریقہ متعین ہوگیا، یا نہیں، اب یہی وہ طریقہ ہے جس کے متعلق ہم کہیں گے کہ وحی خفی نے اس کو متعین کیا تھا، یعنی یہی وہ طریقہ ہے، جو من جانب اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کیا گیا تھا، اگر کسی کام کا طریقہ متعین ہو جائے تو اس سلسلہ میں الفاظ کے تعین کا اصرار خود آپ یعنی برق صاحب کے نزدیک بھی لغو ہوگا، ذرا علم کیمیا کی کتابیں اٹھا کر دیکھیے کہ ایک ہی گیس کی تیاری کے لیے ہر کتاب والا ایک ہی طریقہ بیان کرتا ہے، لیکن ہر ایک اپنے الفاظ میں تو کیا اس صورت میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ ہر کتاب والے کے الفاظ علیحدہ علیحدہ ہیں، لہٰذا یہ طریقہ قابل اعتماد نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ وہ طریقہ قابل عمل اور قابل اعتماد ہوگا، اور اس کو کسی بھی کتاب سے اخذ کیا جاسکے گا اور اس کے متعلق یقین سے کہا جاسکے گا، کہ یہی وہ طریقہ ہے، جو اس سلسلہ میں بانی اول سے بتواتر منقول ہے اور یہاں یہی مطلوب ہے، نہ کہ الفاظ اور طریق بیان۔
روایت بالالفاظ
اب رہی یہ بات کہ کیا کوئی قولی حدیث من و عن محفوظ ہے یا نہیں تو برق صاحب صرف اتنا تسلیم کرتے ہیں کہ بعض احادیث ایسی بھی ہیں، لیکن یقینی طور پر نہیں بلکہ ظن غالب ہے کہ صحیح ہوں گی، اس سلسلہ میں ہمارا کہنا یہ ہے کہ ظن غالب کا استعمال وہاں تو ممکن ہے جہاں کسی متن حدیث کی صرف ایک ہی سند ہو، لیکن جہاں دو دو چار چار، دس دس اور بیس بیس بلکہ اس سے بھی زیادہ سندیں ہوں اور الفاظ مشترک ہوں تو پھر ظن غالب نہ ہوگا، بلکہ یقین ہوگا کہ واقعی یہ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا ہوئے ہیں، اور اس قسم کی بہت سی احادیث موجود ہیں۔
 
Top