- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
غلط فہمی
حضور کا زمانہ تھا، خود سرور کائنات بقید حیات تھے کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے ان کے بیٹے عبداللہ نے پوچھا کہ آپ روایت احادیث سے کیوں اجتناب کیا کرتے ہیں، فرمایا اللہ کی قسم! احادیث میں اختلاف ہوگیا ہے، میں نے حضور کی زبان مبارک سے یہ حدیث ان الفاظ میں سنی تھی۔
من کذب علی فلیتبوا مقعدہ من النار۔
جو شخص کوئی غلط قول میری طرف منسوب کرے گا جہنم میں جائے گا۔
لیکن لوگوں نے اس میں '' متعمداً' کا لفظ (من کذب علی متعمدا) بڑھا لیا ہے۔ (دو اسلام ص ۱۲۳)
ازالہ
برق صاحب آپ کی عقل میں یہ بات کیسے آگئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں اور احادیث میں اختلاف ہوجائے اختلاف دور کرنے والی ہستی موجود ہو، اور نہ وہ اختلاف کو دور کرے، نہ لوگ اس کی طرف رجوع کریں، اور اختلاف کو رفع کریں، آپ نے تو بڑی عجیب و غریب بات کہی ہے۔
برق صاحب! آپ کی وارد کردہ روایت بالکل بے سند ہے لہٰذا بالکل جھوٹی ہے (خالص اسلام ص۱۶۲) عبداللہ بن زبیرنے یہ سوال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد کیا تھا نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں، روایت کے اصل الفاظ ملاحظہ فرمائیے، عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں:
ما لی لا اسمعک تحدث عن رسول اللہ ﷺ کما اسمع ابن مسعود رضی اللہ و فلانا وفلانا قال اما انی لم افارقہ منذ اسلمت ولکنی سمعت کلمۃ یقول من کذب علی متعمد افلیتبوا مقعدہٗ من النار۔ (ابن ماجہ)
کیا بات ہے کہ میں آپ سے اس طرح حدیث نہیں سنتا جس طرح ابن مسعود اور فلاں فلاں شخص سے سنتا ہوں؟ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ نہیں رہا جب سے میں نے اسلام قبول کیا لیکن ایک کلمہ میں نے آپ سے سنا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولے اس کو اپنا ٹھکانا دوزخ میں تلاش کرنا چاہیے۔
یعنی حضرت زبیر اس خوف سے احادیث بیان نہیں کرتے تھے کہ کوئی غلطی نہ ہو جائے، اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ متعمداً کا لفظ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں موجود ہے، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے علاوہ اس لفظ کو روایت کرنے والے صحابہ کی تعداد دو سو تک بتائی گئی ہے، صرف کتب صحاح میں یہ لفظ چودہ صحابہ کی روایت میں موجود ہے (خالص اسلام ص۱۶۲) پس ثابت ہوا کہ برق صاحب کی نقل کردہ روایت بالکل باطل ہے۔
حضور کا زمانہ تھا، خود سرور کائنات بقید حیات تھے کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے ان کے بیٹے عبداللہ نے پوچھا کہ آپ روایت احادیث سے کیوں اجتناب کیا کرتے ہیں، فرمایا اللہ کی قسم! احادیث میں اختلاف ہوگیا ہے، میں نے حضور کی زبان مبارک سے یہ حدیث ان الفاظ میں سنی تھی۔
من کذب علی فلیتبوا مقعدہ من النار۔
جو شخص کوئی غلط قول میری طرف منسوب کرے گا جہنم میں جائے گا۔
لیکن لوگوں نے اس میں '' متعمداً' کا لفظ (من کذب علی متعمدا) بڑھا لیا ہے۔ (دو اسلام ص ۱۲۳)
ازالہ
برق صاحب آپ کی عقل میں یہ بات کیسے آگئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں اور احادیث میں اختلاف ہوجائے اختلاف دور کرنے والی ہستی موجود ہو، اور نہ وہ اختلاف کو دور کرے، نہ لوگ اس کی طرف رجوع کریں، اور اختلاف کو رفع کریں، آپ نے تو بڑی عجیب و غریب بات کہی ہے۔
برق صاحب! آپ کی وارد کردہ روایت بالکل بے سند ہے لہٰذا بالکل جھوٹی ہے (خالص اسلام ص۱۶۲) عبداللہ بن زبیرنے یہ سوال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد کیا تھا نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں، روایت کے اصل الفاظ ملاحظہ فرمائیے، عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں:
ما لی لا اسمعک تحدث عن رسول اللہ ﷺ کما اسمع ابن مسعود رضی اللہ و فلانا وفلانا قال اما انی لم افارقہ منذ اسلمت ولکنی سمعت کلمۃ یقول من کذب علی متعمد افلیتبوا مقعدہٗ من النار۔ (ابن ماجہ)
کیا بات ہے کہ میں آپ سے اس طرح حدیث نہیں سنتا جس طرح ابن مسعود اور فلاں فلاں شخص سے سنتا ہوں؟ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ نہیں رہا جب سے میں نے اسلام قبول کیا لیکن ایک کلمہ میں نے آپ سے سنا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولے اس کو اپنا ٹھکانا دوزخ میں تلاش کرنا چاہیے۔
یعنی حضرت زبیر اس خوف سے احادیث بیان نہیں کرتے تھے کہ کوئی غلطی نہ ہو جائے، اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ متعمداً کا لفظ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں موجود ہے، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے علاوہ اس لفظ کو روایت کرنے والے صحابہ کی تعداد دو سو تک بتائی گئی ہے، صرف کتب صحاح میں یہ لفظ چودہ صحابہ کی روایت میں موجود ہے (خالص اسلام ص۱۶۲) پس ثابت ہوا کہ برق صاحب کی نقل کردہ روایت بالکل باطل ہے۔