- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
غلط فہمی
ہاں تو ہم عرض کر رہے تھے کہ اقوال رسول اڑھائی سو برس تک کروڑوں زبانوں پہ گھومتے رہے، کہیں مجبوراً اضافے ہوئے اور کہیں عمداً کہیں حافظہ سے اتر گئے اور کہیں انسانی اقوال حضور کی طرف منسوب ہوگئے، دراصل اقوال رسول کی تعداد پانچ سات ہزار سے زیادہ نہیں ہوگی، لیکن جب امام بخاری کا زمانہ آیا، تو ان کی تعداد چودہ لاکھ سے متجاوز ہوچکی تھی۔ (دو اسلام ص۱۳۰)
ازالہ
اس کا جواب کئی مرتبہ گزر چکا ہے، لیکن کیونکہ برق صاحب اسے بار بار دہرا رہے ہیں تو ہم بھی پھر عرض کرتے ہیں کہ یہ بالکل غلط ہے کہ اقوال رسول ڈھائی سو برس تک صرف کروڑوں زبانوں پر گھومتے رہے، نہیں بلکہ سینوں اور سفینوں میں محفوظ رہے، کیا امام مالک کی مؤطا ، امام شافعی کی کتاب الام، امام عبدالرزاق کی مصنف، امام احمد کی مسند وغیرہ وغیرہ ڈھائی سو سال بعد کی لکھی ہوئی کتابیں ہیں، نہیں ہرگز نہیں، بلکہ عہد رسالت سے لے کر امام بخاری کے عہد تک تدوین حدیث کی ایک مسلسل تاریخ ہے، ہر زمانہ میں کتابیں لکھی جاتی رہیں، پہلی صدی کی تمام تصنیفات دوسری صدی کی تصنیفات میں سمو دی گئیں، اور ان دوسری صدی کی تصنیفات سے منتخب کردہ اسناد کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کردیا، پھر امام بخاری کی یہ تصنیف بھی ڈھائی سو سال بعد کی تصنیف نہیں ہے امام بخاری کا انتقال ۲۵۶ھ میں ہوا، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے ۲۴۶ سال بعد لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ صحیح بخاری دو سو پچاس سال بعد تصنیف ہوئی ہو، امام بخاری کی زندگی میں یہ کتاب ان سے لاکھوں طلباء نے نقل کی اور اس کام کے لیے کم از کم مدت اگر ہم ۴۰ سال فرض کرلیں، تو صحیح بخاری کی تصنیف کا زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے ۳۴۶۔۴۰=۲۰۶ سال بعد قرار پاتا ہے ۲۰۶ کو ۲۵۰ بنا دینا تحقیق کے یکسر منافی ہے۔
برق صاحب یہ بالکل صحیح ہے کہ اقوال رسول کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے اور یہی حقیقت بھی ہے، صحیح احادیث کی تعداد ہزاروں ہی میں ہے، یہ چودہ لاکھ جو برق صاحب نے نقل کی ہیں، یہ احادیث کی تعداد نہیں ہے، بلکہ ان چند ہزار صحیح احادیث کی اسناد ہیں، اور ہر سند کو ایک حدیث کا نام دے دیا گیا ہے، یہ ہے غلط فہمی کی اصل وجہ۔
برق صاحب فرماتے ہیں کہ ڈھائی سو سال تک اقوال رسول کروڑوں زبانوں پرگھومتے رہے اگر یہ صحیح ہے، تو پھر احادیث کے متواتر ہونے میں کیا شبہ رہا اور متواتر کی صحت میں شبہ نہیں ہوتا لہٰذا امام بخاری نے اگر ان متواتر غیر مشتبہ صحیح احادیث کو جمع کر دیا، تو اعتراض کیا ہے، گویا برق صاحب کی اپنی عبارت سے احادیث متواتر ہونے کی وجہ سے محفوظ تھیں، اور انہیں محفوظ احادیث کو ضبط تحریر میں لا کر قیامت تک کے لیے محفوظ کردیا گیا۔ فللہ الحمد
ہاں تو ہم عرض کر رہے تھے کہ اقوال رسول اڑھائی سو برس تک کروڑوں زبانوں پہ گھومتے رہے، کہیں مجبوراً اضافے ہوئے اور کہیں عمداً کہیں حافظہ سے اتر گئے اور کہیں انسانی اقوال حضور کی طرف منسوب ہوگئے، دراصل اقوال رسول کی تعداد پانچ سات ہزار سے زیادہ نہیں ہوگی، لیکن جب امام بخاری کا زمانہ آیا، تو ان کی تعداد چودہ لاکھ سے متجاوز ہوچکی تھی۔ (دو اسلام ص۱۳۰)
ازالہ
اس کا جواب کئی مرتبہ گزر چکا ہے، لیکن کیونکہ برق صاحب اسے بار بار دہرا رہے ہیں تو ہم بھی پھر عرض کرتے ہیں کہ یہ بالکل غلط ہے کہ اقوال رسول ڈھائی سو برس تک صرف کروڑوں زبانوں پر گھومتے رہے، نہیں بلکہ سینوں اور سفینوں میں محفوظ رہے، کیا امام مالک کی مؤطا ، امام شافعی کی کتاب الام، امام عبدالرزاق کی مصنف، امام احمد کی مسند وغیرہ وغیرہ ڈھائی سو سال بعد کی لکھی ہوئی کتابیں ہیں، نہیں ہرگز نہیں، بلکہ عہد رسالت سے لے کر امام بخاری کے عہد تک تدوین حدیث کی ایک مسلسل تاریخ ہے، ہر زمانہ میں کتابیں لکھی جاتی رہیں، پہلی صدی کی تمام تصنیفات دوسری صدی کی تصنیفات میں سمو دی گئیں، اور ان دوسری صدی کی تصنیفات سے منتخب کردہ اسناد کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کردیا، پھر امام بخاری کی یہ تصنیف بھی ڈھائی سو سال بعد کی تصنیف نہیں ہے امام بخاری کا انتقال ۲۵۶ھ میں ہوا، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے ۲۴۶ سال بعد لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ صحیح بخاری دو سو پچاس سال بعد تصنیف ہوئی ہو، امام بخاری کی زندگی میں یہ کتاب ان سے لاکھوں طلباء نے نقل کی اور اس کام کے لیے کم از کم مدت اگر ہم ۴۰ سال فرض کرلیں، تو صحیح بخاری کی تصنیف کا زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے ۳۴۶۔۴۰=۲۰۶ سال بعد قرار پاتا ہے ۲۰۶ کو ۲۵۰ بنا دینا تحقیق کے یکسر منافی ہے۔
برق صاحب یہ بالکل صحیح ہے کہ اقوال رسول کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے اور یہی حقیقت بھی ہے، صحیح احادیث کی تعداد ہزاروں ہی میں ہے، یہ چودہ لاکھ جو برق صاحب نے نقل کی ہیں، یہ احادیث کی تعداد نہیں ہے، بلکہ ان چند ہزار صحیح احادیث کی اسناد ہیں، اور ہر سند کو ایک حدیث کا نام دے دیا گیا ہے، یہ ہے غلط فہمی کی اصل وجہ۔
برق صاحب فرماتے ہیں کہ ڈھائی سو سال تک اقوال رسول کروڑوں زبانوں پرگھومتے رہے اگر یہ صحیح ہے، تو پھر احادیث کے متواتر ہونے میں کیا شبہ رہا اور متواتر کی صحت میں شبہ نہیں ہوتا لہٰذا امام بخاری نے اگر ان متواتر غیر مشتبہ صحیح احادیث کو جمع کر دیا، تو اعتراض کیا ہے، گویا برق صاحب کی اپنی عبارت سے احادیث متواتر ہونے کی وجہ سے محفوظ تھیں، اور انہیں محفوظ احادیث کو ضبط تحریر میں لا کر قیامت تک کے لیے محفوظ کردیا گیا۔ فللہ الحمد