• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ہاں تو ہم عرض کر رہے تھے کہ اقوال رسول اڑھائی سو برس تک کروڑوں زبانوں پہ گھومتے رہے، کہیں مجبوراً اضافے ہوئے اور کہیں عمداً کہیں حافظہ سے اتر گئے اور کہیں انسانی اقوال حضور کی طرف منسوب ہوگئے، دراصل اقوال رسول کی تعداد پانچ سات ہزار سے زیادہ نہیں ہوگی، لیکن جب امام بخاری کا زمانہ آیا، تو ان کی تعداد چودہ لاکھ سے متجاوز ہوچکی تھی۔ (دو اسلام ص۱۳۰)
ازالہ
اس کا جواب کئی مرتبہ گزر چکا ہے، لیکن کیونکہ برق صاحب اسے بار بار دہرا رہے ہیں تو ہم بھی پھر عرض کرتے ہیں کہ یہ بالکل غلط ہے کہ اقوال رسول ڈھائی سو برس تک صرف کروڑوں زبانوں پر گھومتے رہے، نہیں بلکہ سینوں اور سفینوں میں محفوظ رہے، کیا امام مالک کی مؤطا ، امام شافعی کی کتاب الام، امام عبدالرزاق کی مصنف، امام احمد کی مسند وغیرہ وغیرہ ڈھائی سو سال بعد کی لکھی ہوئی کتابیں ہیں، نہیں ہرگز نہیں، بلکہ عہد رسالت سے لے کر امام بخاری کے عہد تک تدوین حدیث کی ایک مسلسل تاریخ ہے، ہر زمانہ میں کتابیں لکھی جاتی رہیں، پہلی صدی کی تمام تصنیفات دوسری صدی کی تصنیفات میں سمو دی گئیں، اور ان دوسری صدی کی تصنیفات سے منتخب کردہ اسناد کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کردیا، پھر امام بخاری کی یہ تصنیف بھی ڈھائی سو سال بعد کی تصنیف نہیں ہے امام بخاری کا انتقال ۲۵۶ھ میں ہوا، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے ۲۴۶ سال بعد لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ صحیح بخاری دو سو پچاس سال بعد تصنیف ہوئی ہو، امام بخاری کی زندگی میں یہ کتاب ان سے لاکھوں طلباء نے نقل کی اور اس کام کے لیے کم از کم مدت اگر ہم ۴۰ سال فرض کرلیں، تو صحیح بخاری کی تصنیف کا زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے ۳۴۶۔۴۰=۲۰۶ سال بعد قرار پاتا ہے ۲۰۶ کو ۲۵۰ بنا دینا تحقیق کے یکسر منافی ہے۔
برق صاحب یہ بالکل صحیح ہے کہ اقوال رسول کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے اور یہی حقیقت بھی ہے، صحیح احادیث کی تعداد ہزاروں ہی میں ہے، یہ چودہ لاکھ جو برق صاحب نے نقل کی ہیں، یہ احادیث کی تعداد نہیں ہے، بلکہ ان چند ہزار صحیح احادیث کی اسناد ہیں، اور ہر سند کو ایک حدیث کا نام دے دیا گیا ہے، یہ ہے غلط فہمی کی اصل وجہ۔
برق صاحب فرماتے ہیں کہ ڈھائی سو سال تک اقوال رسول کروڑوں زبانوں پرگھومتے رہے اگر یہ صحیح ہے، تو پھر احادیث کے متواتر ہونے میں کیا شبہ رہا اور متواتر کی صحت میں شبہ نہیں ہوتا لہٰذا امام بخاری نے اگر ان متواتر غیر مشتبہ صحیح احادیث کو جمع کر دیا، تو اعتراض کیا ہے، گویا برق صاحب کی اپنی عبارت سے احادیث متواتر ہونے کی وجہ سے محفوظ تھیں، اور انہیں محفوظ احادیث کو ضبط تحریر میں لا کر قیامت تک کے لیے محفوظ کردیا گیا۔ فللہ الحمد
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
قرآن کا اسلام بڑا مشکل اسلام ہے، یہاں جان و مال کی قربانی کرنا پڑتی ہے۔ (دو اسلام ص ۱۳۰)
ازالہ
میں کہتا ہوں کہ قرآن کا اسلام تو '' بڑا آسان اسلام'' ہے مشکل تو اس کو ان ''قیود'' نے بنا دیا ہے جو احادیث میں مذکور ہیں، ورنہ
(۱) دعا مانگ لو، صلوٰۃ ادا ہوگئی (۲) پاکیزگی اختیار کرلو، زکوٰۃ ادا ہوگئی
(۳) صلوٰۃ میں ریاح خارج ہو جائے ، وضو سلامت رہے
(۴) ناچ ورنگ کی محفلیں قائم کرو، کوئی ممانعت نہیں
(۵) فنون لطیفہ سے دلچسپی لو، کوئی حرج نہیں
(۶) تاش و شطرنج سے لطف اٹھاؤ کوئی مضائقہ نہیں
(۷) قحبہ خانہ کھولو، کوئی ممانعت نہیں، ہاں کسی عورت کو زبردستی قحبہ خانہ میں مت بٹھاؤ، وغیرہ ''آسان اسلام'' رہا جان و مال کی قربانی کا مسئلہ تو یہ احادیث میں بھی موجود ہے، شمشیر کے سایہ میں جنت کا جو محاورہ برق صاحب نے ص۱۳۰ پر استعمال کیا ہے، وہ حدیث ہی سے ماخوذ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب نے صفحہ ۱۳۱ سے ۱۶۱ تک کچھ گھڑی ہوئی احادیث قلم بند فرمائی ہیں اور ان احادیث کے گھڑنے کا الزام ملا پر لگایا ہے۔
ازالہ
برق صاحب نے تمہید ہی میں '' ملا'' کی تعریف کردی ہے اور ہم نے بھی اس اصطلاحی تعریف کو تسلیم کرلیا ہے (ملاحظہ ہو تمہید کتاب ہذا) اس تعریف کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اتفاق کرتے ہیں کہ بے شک یہ احادیث ملانے گھڑیں فلعنۃ اللہ علی الکاذبین لیکن یہ بتائیے کس عالم نے انہیں تسلیم کیا، محدثین نے ہمیشہ ان کو جھوٹی سمجھا اور موضوعات کی کتابوں میں ان کو جمع کرکے ہمیشہ کے لیے امت مسلمہ کو خبردار کردیا، برق صاحب نے انہیں کتب موضوعات سے ان موضوع احادیث کو نقل فرمایا، تو بتائیے اس میں قصور کس کا ہے؟ ملا کا یا ائمہ حدیث کا؟ جس ملا کو آپ ملزم ٹھہرا رہے ہیں، صدیوں پہلے ائمہ حدیث نے اس کو ملزم ٹھہرایا تھا، آپ نے انہیں کے قول کو دہرا دیا ہے، اور بس۔
انتباہ
ائمہ حدیث کا عقیدہ ہے کہ '' قرآن غیر مخلوق'' ہے اس سلسلہ میں انہیں بڑے بڑے مصائب میں مبتلا ہونا پڑا، لیکن اس عقیدہ سے باز نہیں آئے، ان کی تائید میں کسی ملا نے حدیثیں بھی گھڑ دیں کہ '' قرآن غیر مخلوق ہے'' (ان احادیث کو برق صاحب نے بھی ص۱۴۳ پر نقل فرمایا ہے) لیکن قربان جائیے محدثین کی دیانتداری کے کہ اپنی تائید میں احادیث نہیں ملتی ہیں، تو بجائے خوش ہونے کے ان کو آنکھوں سے لگانے کے، اس پر آشوب زمانے میں اعلان کرتے ہیں کہ یہ احادیث گھڑی ہوئی ہیں، حالانکہ اگر وہ چاہتے تو بطور ہتھیار کے ان احادیث کو استعمال کرسکتے تھے، اور بادشاہ وقت کے سامنے پیش کرکے بحث و ابتلا کا خاتمہ کرسکتے تھے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ، صحیح احادیث میں گھڑی ہوئی احادیث کی آمیزش اس نازک زمانے میں بھی نہیں ہونے دی، تو کیا یہ بات قرین قیاس ہے کہ حالات امن و امان ہیں انہوں نے اس آمیزش کو قبول کرلیا ہوگا، نہیں ہرگز نہیں، صحیح احادیث کادامن تحریف سے بالکل پاک ہے، یہی نہیں بلکہ محدثین نے ان تمام احادیث کو جن میں ان کی اپنی فضیلت تھی اور جن کو برق صاحب نے ص۱۴۸۔ ۱۵۰ پر نقل کیا ہے، جھوٹی قرار دیا۔
انتباہ
'' ھلوا'' کے عنوان کے ماتحت برق صاحب نے چند احادیث نقل فرمائی ہیں، بے شک وہ سب احادیث جھوٹی ہیں، سوائے مندرجہ ذیل حدیث کے
کان النبی ﷺ یحب الحلواء والعسل
حضرت محمد اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو میٹھی چیز اور شہد پسند تھا۔
معلوم نہیں برق صاحب کو اس حدیث میں کیا قباحت نظر آئی کہ گھڑی ہوئی احادیث کے ساتھ اسے شامل کردیا اور پھر مزہ یہ کہ جہاں گھڑی ہوئی احادیث کے متعلق وہ ائمہ حدیث کی تصریح نقل کرتے ہیں کہ فلاں فلاں حدیث گھڑی ہوئی ہے، اس حدیث کے متعلق ایسی کوئی تصریح بھی نقل نہیں فرمائی اور نقل فرماتے بھی کیسے اس لیے کہ یہ حدیث اعلیٰ درجہ کی صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
سوال: بعض حضرت کہتے ہیں کہ تم صحیح وغلط کی الجھن میں کیوں پڑتے ہو، جو حدیث قرآن کے مطابق ہو، وہ لے لو، اور باقی سب کو مسترد کردو۔
جواب: اس سوال کے کئی جواب ہیں۔ اول، جو حدیث قرآن کے مخالف ہے، وہ ہر طبقہ کے ہاں مردود ہے، اور جو قرآن کے موافق ہے، اس کی ضرورت ہی نہیں، اس لیے کہ قرآن کافی ہے۔ (دو اسلام ص ۱۵۰)
ازالہ
ایسی کوئی حدیث نہیں جو صحیح ہو، اور قرآن کے خلاف ہو، لیکن یہ بات مسلمہ ہے کہ جو شخص اپنی رائے سے قرآن کے ایسے معنی کرے جو صحیح حدیث کے مخالف ہوں، تو ایسے معنی مردود ہوں گے نہ کہ حدیث مثلاً ایک صاحب نے '' صلوٰۃ کے معنی پریڈ کیے ہیں، اور دوسرے نے '' نظام ربوبیت'' یہ دونوں معنی صحیح حدیث کے خلاف ہیں، لہٰذا مردود ہیں۔
ایک بات یہ بھی یاد رکھیے کہ قرآن کے مخالف ہونا، اور بات ہے، اور قرآن کی شارح ہونا اور بات ہے، یہ تو کسی حد تک صحیح ہے کہ موافق کی ضرورت نہیں، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ تشریح و توضیح کی بھی ضرورت نہیں، تشریح کی بے شک ضرورت ہے، اور تعبیر تشریح کے قرآن پر عمل نہیں ہوسکتا، مثلاً قرآن میں ہے:
{ وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ } (البقرۃ)
اور جہاں کہیں تو جا رہا ہو، اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لے اور جہاں کہیں تم جا رہے ہو، اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لو۔
کیا قرآن میں کہیں تشریح ہے کہ یہ مسجد حرام کی طرف منہ کس وقت کیا جائے، قرآن سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ چلتے پھرتے اور بحالت سکون و اقامت غرض کہ ہر حالت میں منہ قبلہ کی طرف رہنا چاہیے کیا اس گتھی کو قرآن سے سلجھایا جاسکتا ہے؟ ایک حدیث میں ہے کہ پیشاب پاخانہ کرتے وقت منہ قبلہ کی طرف مت کرو، تو کیا یہ حدیث قرآن کے مخالف ہے؟ کیونکہ قرآن سے تو ہر حالت میں قبلہ کی طرف منہ کرنا لازمی ثابت ہوتا ہے، لہٰذا اس حدیث کا مخالف قرآن ہونا ظاہر ہے، اگرچہ حقیقتاً ایسا نہیں، محض ظاہر بینی سے اس قسم کی غلط فہمیاں ہو جایا کرتی ہیں۔
{ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ } (البقرۃ)
تم جس طرف منہ کرو اس طرف ہی اللہ کا منہ ہے۔
پہلی آیت سے قبلہ کی طرف منہ کرنا لازمی ہوا اور اس آیت نے اس فرضیت کو ساقط کردیا، کیا قرآن سے آپ بتا سکتے ہیں کہ ان دونوں پر عمل کرنے کی کیا صورت ہے؟ بلکہ قرآن تو اس سے آگے بڑھ کریہ کہتا ہے کہ:
{ لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللہِ } (البقرۃ)
مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنا یہ کوئی نیکی نہیں بلکہ نیکی تو یہ ہے خداوند تعالیٰ پر ایمان لائے... وغیرہ وغیرہ۔
اب ان تینوں کا مطلب کوئی کیا سمجھے، جب تک معلم کتاب و حکمت نہ سمجھائے ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔
{ وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّ عَشْرًا} (البقرۃ)
جو مرد تم میں سے مر جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو ان بیویوں کو عدت میں بیٹھنا چاہیے چار مہینے اور دس ۔
کیا آپ قرآن سے بتا سکتے ہیں کہ یہ دس کیا ہیں؟ سال یا مہینے، ہفتے یا دن؟ گھڑیاں یا گھنٹے؟ بس ہی وہ چیزیں ہیں، جن کی وضاحت کے لیے حدیث کی ضرورت ہے (تفصیل کے لیے تمہید ملاحظہ ہو)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی:
دوم: آپ کی اس تجویز کی بنیاد ایک وضعی حدیث پر ہے۔ (دو اسلام ص ۱۵۸)
ازالہ
نہ ہماری یہ تجویز ہے اور نہ ہم وضعی حدیث پر کسی تجویز کی بنیاد رکھ سکتے ہیں، ہمارے ہاں تو ایسی کسی صحیح حدیث کا وجود ہی نہیں، جو قرآن کے مخالف ہونے کی وجہ سے مسترد کردی گئی ہو اور جو حدیثیں قرآن کے مخالف ظاہر ہوئیں، وہ صحت کے درجہ تک پہنچنے سے پہلے ہی زٹل ثابت ہوئیں ہماری تجویز تو یہ ہے کہ قرآن کے معنی وہ کروہ جو صحیح حدیث میں ہوں نہ کہ اپنی رائے سے ایسے معنی گھڑ لو، جو صحیح حدیث کے خلاف ہوں، صحیح حدیث تو قرآن کے معنی کو متعین کرتی ہے، اگر یہ نہ ہو تو قرآن مجید '' شد پریشاں خواب من از کثرت تعبیرہا'' کا مصداق بن جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
مطلب یہ کہ اگر کوئی رتن سنگھ یہ کہہ دے کہ دو اور دو چار بنتے ہیں اور اسے رسول کی طرف منسوب کردے، تو قبول کرلو، اس لیے کہ یہ قول خلاف حقیقت نہیں، بہرحال اس حقیقت سے انکار نہیں ہوسکتا کہ عین مطابق اور حدیث کی اہم کتابوں میں شامل ہیں، محققین کے ہاں جعلی ہیں۔ (دو اسلام ص ۱۵۹)
ازالہ
برق صاحب محدثین یہ نہیں دیکھتے کہ جو بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہے وہ حقیقتاً صحیح ہے یا غلط بلکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ وہ بات حقیقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صحیح منسوب ہے یا نہیں، کیا وہ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا ہوئے ہیں، یا نہیں یہاں سائنس یا ریاضی کے مسلمہ اصول کی تالیف مقصود نہیں ہوتی، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال و اقوال آپ کا طور و طریق، طرز گفتگو، فرز ادا، اسوۂ حیات مقصود ہوتا ہے، اگر کوئی شخص یہ حدیث گھڑ دے کہ '' پانی آکسیجن اور ہائیڈروجن کا مرکب ہے'' تو یہاں یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ فی الواقع یہ بات صحیح ہے یا غلط، بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ فی الواقع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ یہ الفاظ ادا ہوئے تھے یا نہیں؟ پانی کے آکسیجن اور ہائیڈروجن کا مرکب ہونے سے یہ بات لازم نہیں آئے گی کہ در حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی فرمایا تھا کیا آپ اس بات کو قبول کرلیں گے کہ یہ جملہ '' دو اور دو چار ہوتے ہیں'' قرآن کے متن میں شامل کردیا جائے، کیونکہ یہ خلاف حقیقت نہیں، لہٰذا اسے قرآن کی حیثیت سے قبول کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ بقول آپ کے یہ تجویز بری نہیں، تو پھر قرآن کے لیے بھی اس کو برا نہ ہونا چاہیے، رہا یہ کہ بعض احادیث تعلیم قرآن کے عین مطابق ہیں، لیکن پھر بھی جعلی ہیں تو مکرر عرض ہے کہ کسی حدیث کے مضمون کے صحیح ہونے سے یہ کب لازم آتا ہے کہ فی الواقع وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی حدیث ہے، اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے، تو پھر کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ طبییات ، کیمیا، حیاتیات، ریاضی وغیرہ معلوم و فنون کے تمام مسلمات و حقائق حدیث ہیں، اس لیے کہ وہ صحیح ہیں، برق صاحب جہاں حدیث کو تحریف سے بچانا مقصود تھا، یہ بھی مقصود رہا کہ صحیح اور ثابت مضمون کے لیے بھی وہی لفظ محفوظ کیے جائیں، جو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے تھے آپ نے جو احادیث (ص۱۵۹۔ ۱۶۰) پر نقل فرمائی ہیں، اگرچہ مضمون کے لحاظ سے صحیح سہی، لیکن الفاظ کے لحاظ سے صحیح نہیں، اس لیے کہ یہ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا نہیں ہوئے، یہاں ایک بات اور بھی ثابت ہوئی کہ محدثین نے صرف مفہوم کی حفاظت نہیں کی، بلکہ الفاظ حدیث کی بھی حفاظت کی اور اسی وجہ سے ان الفاظ سے دارد شدہ احادیث کو گھڑی ہوئی قرار دیا، محدثین کا یہ کارنامہ ہمارے لیے باعث صد افتخار ہے، اور اس پر ہم نازاں ہیں فللہ الحمد، یہاں ایک بات اور واضح کردوں کہ برق صاحب نے مذکورہ بالا صفحات پر جو جعلی حدیثیں نقل فرمائی ہیں، وہ ان الفاظ سے حدیث کی کسی اہم کتاب میں شامل نہیں ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب لکھتے ہیں:
حدیث طلب العلم فریضہ علی کل مسلم ... کو ابن راہویہ، سخاوی، ابو علی نیشاپوری اور بیہقی نے موضوع قرار دیا ہے۔ (دو اسلام ص ۱۶۰)
ازالہ
برق صاحب نے تذکرۃ الموضوعات کا حوالہ دیا ہے، اور اس کتاب سے نقل کرنے میں ان سے غلطی ہوئی ہے، ان چاروں اماموں میں سے کسی نے بھی اسے موضوع نہیں کہا، امام سخاوی کے الفاظ یہ ہیں:
روی عن انس بطرق کلھا معلولۃ واھیۃ
یعنی یہ روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بہت سی سندوں سے مروی ہے جن میں سے ہر ایک معلول و کمزور ہے۔
مطلب یہ کہ کوئی سند درجہ صحت کو نہیں پہنچتی، امام احمد فرماتے ہیں:
لا یثبت فی ھذا الباب شی وکذا قال ابن راھویہ وابو علی النسیابوری
اس باب میں کوئی سند ثابت نہیں، اور یہی ابن راہویہ اور ابو علی نیشاپوری کا قول ہے۔
یعنی ان تینوں میں سے کسی نے اس کو موضوع قرار نہیں دیا، نہ اس کے واضع کا نام بتایا، صرف اتنا بتایا کہ ہر سند میں کوئی نہ کوئی ضعف ہے، کوئی سند بطریق محدثین ثابت نہیں ہوتی، اب رہ جاتی ہے محدثین کی ایک اصطلاح وہ ہے '' حسن لغیرہ'' یعنی جب سندیں زیادہ ہوں، راوی کذاب نہ ہوں، تو پھر محض حافظہ کی وجہ سے جو شبہ ہے، وہ زائل ہو جائے گا، اور سند کے لحاظ سے نہیں، بلکہ قرائن کے لحاظ سے وہ حدیث ثابت ہو جائے گی، یہی وجہ ہے کہ کسی محدث نے اسے موضوع نہیں کہا، برق صاحب نے امام بیہقی کی طرف جو اس کا موضوع قرار دینا منسوب کیا ہے، وہ بھی صحیح نہیں، امام بیہقی فرماتے ہیں:
متن مشھور و اسنادہ ضعیف وابو عاتکہ من رجال الترمذی لم یجرح بکذب ولا تھمۃ وقد وجدت لہ متابعا من انس ونصفہ الثانی لابن ماجہ ولہ طرق کثیرۃ عن انس یصل مجموعھا مرتیۃ الحسن (تذکرۃ الموضوعات ص۱۷۔۱۸)
یعنی یہ متن مشہور ہے، اسناد اس کی ضعیف ہے ابوعاتکہ ترمذی کے ترجال میں سے ہیں کسی نے اس پر اس قسم کی جرح نہیں کی کہ وہ جھوٹ بولتا ہے نہ کسی نے اس پر جھوٹ کی تہمت لگائی پھر اس کے کئی متابع ہیں جو اس کو حضرت انس سے روایت کرتے ہیں اور آخری حصہ (یعنی طلب العلم فریفتہ علی کل مسلم، ابن ماجہ میں موجود ہے اور حضرت انس سے کثیر تعداد میں اس کے طرق ہیں جن کا مجموعہ اس کو حسن بنا دیتا ہے۔
یہ ہے امام بیہقی کا بیان! انہوں نے کہا کہ یہ موضوع ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ائمہ فن کی تصانیف میں اس طرح کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ حدیث کا مضمون درست تعلیم قرآن کے عین مطابق اور پھر بھی غلط اب فرمائیے احادیث کو جانچنے کے لیے پیمانہ کہاںسے لائیں۔ (ص۱۶۱)
ازالہ
اس کے متعلق اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ مضمون صحیح ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ فی الواقع وہ قول رسول ہے، اور یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ محدثین کرام نے معافی کے ساتھ الفاظ کی بھی حفاظت کی، لہٰذا اب یہ کہنا کہ پیمانہ کہاں سے لائیں کس قدر عجیب ہے، ہر وہ بات جو فی الحقیقت صحیح ہو، قول رسول ہونی چاہیے، کیا یہ بھی کوئی پیمانہ ہے؟ عمدہ عمدہ اقوال گھڑو اور کہہ دو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا ہے۔ آپ اس جھوٹ کو جائز سمجھتے ہیں۔ لیکن محدثین نے اس کے بھی پرخچے اڑا کر رکھ دئیے ہیں اور کسی بات کو بھی خواہ وہ کتنی عمدہ کیوں نہ ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کی اجازت نہیں دی اور محض اجازت ہی نہیں دی بلکہ اس کو کذاب کہہ کر پھر اس کی کسی بات کا اعتبار نہیں کیا۔ اس طرح متن حدیث کو بالکل خالص طریقہ سے محفوظ رکھا۔ اگر عمدہ عمدہ اقوال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کی اجازت دے دی جاتی یا اس سلسلہ میں ذرا سی بھی رابنت برتی جاتی تو پھر وہ کونسی بدعت حسنہ ہے جس کی پشت پر سنت کی سند نہ ہوتی کونسی عمدہ رسم ہے جو دین میں داخل کرکے جزو دین نہ بنا دی گئی ہوتی۔ ان بدعات کا وہ کوہ گراں ہمارے سر پر ہوتا کہ '' اَلا مان الحفیظ'' اس کے نیچے دبے ہوئے اصل دین کا معلوم کرلینا قطعاً ناممکن ہوتا۔ یہ محدثین ہی کا کارنامہ ہے کہ اصلی دین محفوظ ہے اور بعد والوں کی آمیزش اور اضافہ سے اس کو پاک کردیا گیا ہے۔
برق صاحب! پیمانہ کا سوال کرنا آپ جیسے آدمی کی طرف سے عجیب معلوم ہوتا ہے، فرض کیجئے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ سے کہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے تو کیا آپ اس کو تسلیم کریں گے یا نہیں؟ اگر تسلیم نہیں کریں گے تو پھر تین صورتیں ہوں گی۔
اول
آپ یہ کہیں کہ '' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا تو ہے لیکن ہم نہیں مانتے اس لیے کہ قرآن میں پانچ وقت کی تصریح نہیں اور ہم کو صرف قرآن پر ایمان لانے کا حکم ملا ہے نہ کہ حدیث پر اب بتائیے کہ ایسا کہنے کے بعد ایمان بالرسول باقی رہے گا اور اگر باقی رہے تو سوال پیدا ہوگا کہ کیا وہ شخص جو اللہ تعالیٰ پر افتراء کرتا ہے۔ رسول بھی ہوسکتا ہے اور کیا اس کی لائی ہوئی کتاب صحیح ہوسکتی ہے اگر وہ ایک جھوٹ بات کو اللہ کی طرف منسوب کرسکتا ہے تو کیا یہ شبہ نہیں کہ اس نے یہ بھی جھوٹ بولا ہو کہ یہ قرآن اللہ کی کتاب ہے، اور اگر باوجود جھوٹ بولنے کے اللہ پر افتراء کرنے کے قرآن اللہ ہی کی کتاب ہے تو پھر یہ اعتراض پیدا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب پہنچانے کے لیے آدمی بھی وہ منتخب کیا جو جھوٹ بولتا ہے اللہ پر افتراء کرتا ہے۔ کیا حدیث کا انکار تکذیب رسول اور تکذیب قرآن نہیں ہے؟
دوم
آپ یہ کہیں'' اے ابوبکر! آپ جھوٹ بولتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہرگز نہیں فرمایا اور آپ قرآن سے زائد کچھ فرما ہی نہیں سکتے، کیا اس صورت میں یہ لازم نہیں آئے گا۔ کہ آپ ایک صادق کو کاذب سمجھ رہے ہیں اور محض اپنے مفروضہ عقیدہ کی خاطر ایک صادق القول کی بات کو تسلیم نہیں کرتے؟ اگر یہ بات ہٹ دھرمی نہیں تو ہٹ دھرمی پھر کس کا نام ہے؟
سوم
میں سمجھتا ہوں مذکورہ بالا دونوں باتیں آپ نہیں کہیں گے اب رہ جاتی ہے تیسری صورت اور وہ یہ کہ آپ کہیں '' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں فرمایا ہوگا بلکہ آپ کا مطلب کچھ اور تھا اے ابوبکر آپ کو غلط فہمی ہوگئی۔ ویسے ہم آپ کو جھوٹا تو نہیں کہتے لیکن بہرحال آپ انسان ہیں، اور انسان سے غلطی غلط فہمی ہو ہی جاتی ہے لہٰذا ہم اس شبہ کی بنا ء پر آپ کی بیان کردہ بات کو حدیث رسول تسلیم نہیں کرتے'' اس صورت میں ہمیںآپ کے متعلق یہ گمان ہوگا کہ یا تو آپ ضرورت سے زیادہ وہمی ہیں یا علم و فن میں ''ہم چنیں دیگرے نیست'' کا مصداق ہیں کہ کسی کی بات مانتے ہی نہیں۔ خواہ وہ غلط سمجھا ہو یا نہ سمجھا ہو لیکن آپ اسے اس لیے تسلیم نہیں کریں گے کہ آپ کی سمجھ و عقل کے خلاف ہے۔ اور کیونکہ وہ آپ کی عقل و فہم کے خلاف ہے لہٰذا بیان کرنے والا ضرور غلط سمجھا ہے میں سمجھتا ہوں یہ تیسری بات بھی آپ علم و فہم ، حفظ و اتقان۔ صدق و دیانت والے لوگوں کے متعلق نہیں کہہ سکتے۔ بلکہ صادق حافظ، ضابط، علیم و فہیم شخص کی بات کو تسلیم کرنے میں آپ کو کوئی عذر نہیں ہوگا۔ خصوصاً ایسی صورت میں کہ ایسے بیان کرنے والوں کی تعداد ہر طبقہ میں دو دو، تین تین ، چار چار بلکہ دس دس، بیس بیس اور اس سے بھی زیادہ ہو۔
خلاصہ
لہٰذا اب حدیث کو پرکھنے کا معیار خود بخود نکل آیا کہ جو حدیث بھی صادق ، حافظ، ضابط، علیم و فہیم شخص یا اشخاص کے ذریعہ ہم تک پہنچے وہ صحیح ہوگی خواہ ہماری نگاہ میں وہ قرآن سے ٹکرائے یا ہماری عقل سے ٹکرائے۔ ہم اپنی عقل اور فہم قرآن کو قصور وار ٹھہر سکتے ہیں نہ کہ صادق القول ، حافظ ضابط اشخاص کو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207

باب ۷
'' موطا پر ایک نظر''


غلط فہمی
اس میں قطعاً کوئی کلام نہیں کہ امام مالک کا کردار تقدس اور خلوص تمام شبہات سے وراء تر تھا۔ اور کہ انہوں نے صحیح کو غلط سے جدا کرنے کے لیے تمام انسانی ذرائع استعمال کیے ہوں گے۔ لیکن پونے دو سو برس کا عرصہ گزر چکا تھا۔ احادیث بڑھتے بڑھتے اور بگڑتے بگڑتے کیا سے کیا بن چکی تھی اس ذخیرے میں سے قول رسول تلاش کرنا اگر ناممکن نہیں تو دشوار ضرور تھا۔ (دو اسلام ص ۱۶۲)
ازالہ
امام مالک کی ولادت ۹۳ھ میں ہوئی اور یہی سنہ پیدائش برق صاحب نے بھی ص۱۶۲ پر نقل فرمایا ہے گویا امام مالکؒ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے صرف ۸۳ سال بعد پیدا ہوئے تقریباً سترہ سال کی عمر میں وہ فارغ التحصیل ہوچکے تھے۔ گویا موطا کی تصنیف کے وقت صرف سو سال گزرے تھے نہ کہ پونے دو سو برس۔
برق صاحب کا فرمانا کہ احادیث بڑھتے بڑھتے اور بگڑتے بگڑتے کیا سے کیا بن چکی تھیں، کسی طرح بھی صحیح نہیں۔ اس لیے کہ امام مالک اور صحابی کے درمیان ان کی اکثر روایتوں میں صرف ایک ہی راوی ہوتا ہے مثلاً عبداللہ بن عمر کی روایتوں میں صرف امام نافع ہوتے ہیں حضرت نافع کے متعلق ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب مولوی فاضل۔ ایم اے۔ ایل ایل۔ بی ۔ پی۔ ایچ ۔ ڈی (جرمنی) ڈی لٹ (فرانس) پروفیسر اسلامک اسٹڈیز پیرس یونیورسٹی لکھتے ہیں'' طبقات ابن سعد میں سلیمان بن موسیٰ کی روایت ہے کہ ابن عمر کے مولیٰ یعنی نافع کو دیکھا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اسے املاء کرا رہے تھے اور نافع لکھتے جا رہے تھے۔ نافع ایک بہت بڑے عالم اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے سب سے قابل شاگرد تھے۔ اور اپنے آقا (ابن عمر رضی اللہ عنہ کی صحبت میں پورے تیس سال گزار چکے تھے۔ ناگزیر انہوں نے اپنے استاد کے سارے معلومات حاصل کرلیے ہوں گے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فخر سے فرمایا کرتے تھے کہ نافع کا وجود ہم پر اللہ کا ایک بڑا احسان ہے۔'' (پیش لفظ صحیفہ ہمام ص۴۰) حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنی تمام مرویات امام نافع کو لکھوا دیں اور ان سے امام مالک نے نقل کرلیں، لہٰذا ان برویات کو بگڑنے کا کونسا موقع ملا۔ یہی حال دوسری مرویات کا بھی ہے مثلاً امام مالک کے دوسرے بہت بڑے استاد امام محمد بن مسلم زہری ہیں ان کی پیدائش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے ۴۰ سال بعد ہوئی۔ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب لکھتے ہیں'' خلیفہ عمر بن عبدالعزیز'' کے فرمان کی تعمیل میں حضرت ابوبکر بن حزم کے شاگرد ابن شہاب زہری نے حدیثوں کے جمع کرنے کا کام شروع کیا... عمر بن عبدالعزیز کا یہ حکم صرف مدینہ اور مدینہ کے گورنر کے ساتھ ہی مخصوص نہ تھا، بلکہ انہوں نے اسلامی مملکت کے تمام صوبوں کے گورنروں کے نام اسی قسم کا فرمان بھیجا تھا... احادیث اور سنن کے دفاتر مرتب ہو کر دارالخلافہ دمشق آئے اور خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے ان کی نقلیں ممالک اسلامیہ کے گوشہ گوشہ میں بھیجیں۔ (پیش لفظ صحیفہ ہمام ص۳۲)
الغرض امام زہری اور دیگر تابعین ائمہ حدیث نے حدیث کو صحابہ کرام سے براہِ راست حاصل کیا، اور یہی وہ محفوظ و مکتوب سرمایہ حدیث تھا، جو امام مالک کو ملا، اور اس سرمایہ کو امام مالک کے شاگرد ان عظام سے امام بخاری نے نقل فرمایا، لہٰذا بڑھنے اور بگڑنے کا سوال صرف وہم وہی وہم ہے، اور بس۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
ہم موطا کی تعظیم ضرور کرتے ہیں، لیکن وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کے مندرجات واقعی اقوال رسول ہیں اور خصوصاً ان حالات میں اس کی بعض روایات محل نظر ہیں، مثلاً مؤطا میں درج ہے کہ نیند سے بیدار ہونے کے بعد نماز پڑھنے سے پہلے وضو ضروری ہے، اور اذا فمتم الی الصلوٰۃ کی تفسیر ای من المضاجع یعنی النوم دی ہوئی ہے، لیکن صحیح بخاری (کتاب الوضوء) میں حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت سے یہ حدیث دی ہوئی ہے کہ رسول اللہ رات کو جاگے صلوٰۃ تہجد ادا کی... پھر بستر پر دراز ہوگئے، پھر سو گئے، یہاں تک کہ خراٹوں کی آواز آنے لگی، اس کے بعد نماز کے لیے بلانے والا آیا، آپ اٹھ کر اس کے ساتھ چل دئیے اور وضو کئے بغیر نماز پڑھ لی۔ (دو اسلام ص ۱۶۲، ۱۶۳)
ازالہ
موطا کی جو روایت برق صاحب نے نقل کی ہے، وہ حدیث نہیں ہے بلکہ حضرت زید بن اسلم تابعی کا قول ہے، لہٰذا قول تابعی اور حدیث رسول کو تعارض کی مثال میں پیش کرنا صحیح نہیں ہے اور اس سے موطا پر کوئی اعتراض وارد ہوتا ہے کسی شخص کا قول خواہ وہ صحیح ہو یا غلط نقل کردینا کتاب کے لیے موجب نقص نہیں ہوتا، ہاں یہ واضح رہے کہ زید بن اسلم کا قول غلط نہیں ہے، اور نہ وہ صحیح بخاری کی حدیث کے متعارض ہے، محض سونا ناقض وضو نہیں، ہاں ریاح کے خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور چونکہ بستر پر لیٹ کر سونے سے جوڑ ڈھیلے ہو جاتے ہیں، اور ریاح خارج ہونے کا قوی احتمال ہوتا ہے لہٰذا جب سو کر اٹھے، تو وضو کرنا چاہیے، یہ ہے زید بن اسلم کے قول کا مطلب اور یہ مندرجہ ذیل حدیث کے بالکل مطابق ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(۱) العین وکاء السہ فمن نام فلیوضا (ابوداؤد)
آنکھ دبر کا بندھن ہے، پس جو سو جائے وہ وضو کرے۔
(۲) لیس علی من نام ساجداً وضوء حتی یضطجع فانہ اذا اضطجع استرخت مفاصلہ (احمد)
جو سجدہ میں سو جائے، اس پر وضو لازم نہیں جب تک لیٹ کر نہ سوئے، کیونکہ جب لیٹ کر سوئے گا تو جوڑ ڈھیلے ہو جائیں گے۔
لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ مخصوص تھا، آپ کی آنکھیں سوتی تھیں دل نہیں سوتا تھا فرشتوں کا یہ مقولہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے:
ان العین نائمۃ والقلب یقظان (صحیح بخاری)
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ سوتی ہے دل جاگتا رہتا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نیند میں اتنے غافل نہیں ہوتے تھے کہ آپ کو خبر ہی نہ ہو کہ ریاح خارج ہوا ہے یا نہیں، پس اس یقین کی بنا پر آپ سو کر اٹھتے تو بغیر تازہ وضو کئے نماز پڑھ لیتے تھے۔ لہٰذا زید بن اسلم کے قول میں اور صحیح بخاری کی حدیث میں کوئی تعارض نہیں ہے، اگر برق صاحب تحقیق کرلیتے تو یہ الجھن پیدا نہ ہوتی، خود امام مالک نے اپنی مؤطا میں مندرجہ ذیل حدیث نقل کرکے اس الجھن کو دور کردیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
قالت عائشۃ فقلت یا رسول اللہ أتنام قبل ان توتر فقال یا عائشۃ ان عینتی تنامان ولا ینام قلبی (موطا ص ۴۲)
''حضرت عائشہ کہتی ہیں میں نے کہا، اے اللہ کے رسول آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں آپ نے فرمایا: اے عائشہ بے شک تیری دونوں آنکھیں سوتی ہیں، لیکن میرا دل نہیں سوتا۔''
 
Top