• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
چند اور احادیث ملاحظہ ہوں:
من قبل امرأتہ رجہا بیدہ فعلیہ الوضوء (موطا ص ۳۲)
''جو شخص اپنی بیوی کو چوم لے، یا صرف چھولے تو اس پر وضو لازم ہو جاتا ہے۔''
لیکن اسی صفحہ پر یہ حدیث بھی موجود ہے۔
عن عائشۃ رضی اللہ عنہا ان النبی قبل بعض نسائہ ثم خرج الی الصلوۃ ولم یتوضا
''حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج میں سے کسی کے بوسے لیے اور پھر وضو کیے بغیر نماز ادا فرمالی۔''
حضور کا حکم وہ اور عمل یہ، کس کی اقتدا کریں۔ (دو اسلام ص...)
ازالہ
مؤطا کی جس روایت کو برق صاحب حدیث سمجھ رہے ہیں، وہ حدیث نہیں ہے، بلکہ ایک صحابی کا قول ہے، برق صاحب کو غلط فہمی ہوتی کہ اسے حدیث سمجھ لیا، لہٰذا برق صاحب کا یہ سوال صحیح نہیں، کہ حضور کا حکم وہ عمل یہ کس کی اقتدا کریں، حدیث صرف دوسری ہے اور اسی پر عمل کرنا چاہیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
صحیح مسلم (جلد اول مع فتح الملہم طبع مجتبائی ص ۴۱۸۵) میں درج ہے... ابی بن کعب رضی اللہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسے شخص کے متعلق فتویٰ پوچھا کہ جو اپنی بیوی کے پاس بغرض مجامعت گیا کام شروع کیا، لیکن انزال سے پہلے ہی اس کی شہوت ختم ہوگئی فرمایا: وہ تمام نجاستوں کو دھولے، اور پھر وضو کرکے نماز پڑھ لے... اسی مسئلہ پر اب مؤطا کا فیصلہ سنیے... عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ کس صورت میں غسل واجب ہو جاتا ہے کہا جب آلہ تناسل کا کا سر عورت کی شرمگاہ کے ابتدائی حصہ میں داخل ہو جائے، تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ (دو اسلام ص: ۱۶۴)
ازالہ
جن احادیث کا ترجمہ برق صاحب نے نقل کیا ہے ان احادیث کا متن بہت ہی مخفی، اور حیا دار الفاظ کا مجموعہ ہے، معلوم نہیں برق صاحب نے اتناع یاں ترجمہ کیوں کیا، خیر۔
برق صاحب نے صحیح مسلم اور موطا میں تضاد سمجھا، ان کے خیال میں صحیح مسلم سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسی حالت میں غسل واجب نہیں اور موطا سے ثابت ہوتا ہے کہ غسل فرض ہے چونکہ برق صاحب نے اس باب میں مؤطا پر اعتراض کیے ہیں، اور اس کی بعض احادیث کو محل نظر سمجھا ہے، لہٰذا ہمارا گمان ہے کہ برق صاحب کے خیال میں ایسی حالت میں غسل واجب نہیں بلکہ ان کی بیان کردہ صحیح مسلم کی حدیث پر عمل ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ برق صاحب کو یہاں بھی غلط فہمی ہوگئی حالانکہ جو کچھ مؤطا میں ہے وہی صحیح مسلم میں بھی موجود ہے امام مسلم کی اپنی صحیح میں پہلے ریاب... ہے۔
باب انما الماء من الماء
''یعنی غسل انزال کی صورت میں فرض ہے۔''
اور اسی عنوان کے ماتحت وہ حدیث... ہے جو برق صاحب نے نقل کی ہے پھر اس باب کے بعد دوسرا باب... ہے۔
باب نسخ الماء من الماء و وجوب الغسل بالتقاء الختانین
''یعنی یہ حکم کہ غسل انزال کی صورت میں فرض تھا، منسوخ ہوا اور بعد میں محض فتنہ کے مقامات ملنے سے غسل فرض کیا گیا۔''
برق صاحب نے شاید اگلا باب نہیں دیکھا، اس باب میں امام مسلم نے کئی حدیثیں روایت کی ہیں، ان میں سے ایک حضرت عائشہ کی حدیث بھی ہے، غرض کہ حضرت عائشہ کی یہ حدیث موطا میں بھی ہے اور صحیح مسلم میں بھی، لہٰذا دونوں کتابوں میں کوئی تعارض نہیں اور نہ مؤطا کی حدیث محل نظر ہے، برق صاحب نے ایک کتاب سے ناسخ اور دوسری سے منسوخ حدیث دیکھی، اور اس طرح انہیں فہمی ہوگئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
سب سے پہلے تو یہ دیکھے کہ اس زمانہ میں سینکڑوں صحابہ مدینہ میں موجود تھے اور عبدالرحمن بن عوف خود بھی فقیہ صحابہ میں شمار ہوتے تھے، اس مضمون پر احادیث بھی لوگوں کو یاد ہوں گی، بایں ہمہ انہوں نے یہ کمال کیا کہ ایک نہایت نازک مسئلہ حضور علیہ السلام کی سب سے کم عمر زوجہ مطہرہ سے جا پوچھا کیا مدینہ بھر میں اس چھوٹی سی بات کو جاننے والا کوئی مرد موجود نہیں تھا کیا کوئی غیر مرد کسی معزز خاتون سے اس قسم کی بات دریافت کرنے کی جرأت کرسکتا ہے اور اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ابن عوف یہ غلطی کر بیٹھے تھے تو حضرت عائشہ کو چاہیے تھا کہ ابن عوف کو اس جسارت پر ڈانٹتیں کہ تم کو حرم نبوی سے ایسا عریاں سوال پوچھنے کی جرأت کیسے ہوئی۔ (دو اسلام ص ۱۶۵)
ازالہ
یہ صحیح ہے کہ سینکڑوں صحابہ مدینہ میں موجود تھے اور اس مضمون پر احادیث بھی لوگوں کو یاد تھیں مثلاً حضرت ابی بن کعب جن سے صحیح مسلم کی روایت برق صاحب نے اوپر نقل کیا ہے فرماتے ہیں:
انما الماء من الماء رخصۃ فی اول الاسلام ثم نہی عنہا وفی روایۃ ثم امرنا بالاغتسال بعدہا (ابوداؤد)
''یعنی صرف انزال کے بعد نہانا یہ رخصت شروع اسلام میں تھی، پھر اس سے روک دیا گیا، اور ہمیں حکم دیا گیا کہ انزال نہ ہو، تب بھی غسل کریں۔''
لیکن سوال یہ ہے کہ پھر حضرت عائشہ صدیقہ سے ہی یہ مسئلہ کیوں پوچھا گیا؟ اس کا جواب بھی صحیح مسلم ہی میں موجود ہے حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں:
اختلف فی ذلک رہط من المہاجرین والانصار فقال الانصاریون لا یجب الغسل الامن الددفق او من الماء وقال المہاجرون بل اذا خالط فقد وجب الغسل قال قال فانا اشغیکم من ذلک فقمت فاذستاذنت علی عائشۃ فاذن لی فقلت لہا یا اماہ او یا امر المؤمنین اسالک عن شئی وانی استجیک فقالت لا تستحی ان تسألنی عما کنت سائلا عنہ امک التی ولدتک فانما ان امک قلت مما یوجب الغسل قالت علی الخبیر سقطت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا جلس بین شعبہا الاربع ومس الختان الختان فقد وجب الغسل (صحیح مسلم)
''وجوب غسل کے سلسلہ میں مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت میں اختلاف ہوا، انصٓر نے کہا کہ بغیر انزال کے غسل فرض نہیں ہوتا، مہاجرین نے کہا غسل فرض ہو جاتا ہے، میں نے کہا میں اس کا تصفیہ کرتا ہوں، میں اٹھا، اور حضرت عائشہ کے پاس گیا اور ان سے اجازت چاہی، انہوں نے مجھے اجازت دی میں نے کہا اے اماں جان میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں، لیکن آپ سے پوچھتے ہوئے شرم آتی ہے، حضرت عائشہ نے فرمایا: شرمائو مت، جو چیز تم اپنی ماں سے جس نے تم کو جنا تھا پوچھ سکتے ہو وہی مجھ سے بھی پوچھ سکتے ہو۔ کیونکہ میں بھی تمہاری ماں ہوں، میں نے کہا غسل کب فرض ہوتا ہے، حضرت عائشہ نے فرمایا: تم باخبر کے پاس آئے ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب مرد اس کی چاروں شاخوں کے درمیان بیٹھ جائے اور ختنہ ختنہ سے مل جائے تو غسل فرض ہوگیا۔''
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اس مسئلہ میں صحابہ کے درمیان اختلاف ہوگیا اور اس اختلاف کی زد میں عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ بھی آگئے اور بعض صحابیوں کے غلط فتوئوں سے ان کو بھی شبہ ہوگیا، لہٰذا وہ بھی اپنی تسلی کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تحقیق کرنے چلے گئے اور اپنی ام محترمہ ام المومنین سے مسئلہ پوچھ کر چلے آئے، حضرت عائشہ نے ان کے سوال پر تعجب کا اظہار بھی کیا، کہ اتنے بڑے صحابی ہوکر بعض نوجوان لوگوں کے فتوئوں سے مرعوب ہوگئے اور شبہ میں پڑ گئے، مؤطا کے اصل الفاظ ملاحظہ ہوں۔
قالت ہل تدری ما مثلک یا ابا سلمۃ مثل الفروخ یسمع الدیکۃ تصرخ فیصرخ معہا اذا جاوز الختان الختان فقد وجب الغسل
''حضرت عائشہ نے فرمایا: تمہاری مثال مرغی کے بچے کی سی ہے، جب وہ چلاتی ہے تو وہ بھی اس کے ساتھ چلانے لگتا ہے جب ختنہ ختنہ سے مل جائے تو غسل فرض ہوگیا۔''
الغرض اس اختلاف کے دوران میں ہی ان دونوں صحابیوں کو اس سوال کے پوچھنے کی جرأت ہوئی عبدالرحمن بن عوف نے انفرادی طور پر پوچھا اور حضرت ابو موسیٰ نے صحابہ کرام کے نمایندہ کی حیثیت سے پوچھا اور ان سب کو مطلع کر دیا، حضرت عمر رضی اللہ نے اس کے بعد حکم دیا کہ خبردار اب کوئی اس کے خلاف فتویٰ نہ دے۔ (تسہیل القاری شرح صحیح بخاری)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
کیا کوئی غیر مرد کسی معزز خاتون سے اس قسم کی بات دریافت کرنے کی جرأت کرسکتا ہے اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ابن عوف یہ غلطی کر بیٹھے تھے، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو چاہیے تھا کہ ابن عوف کی اس جسارت پر ڈانٹتیں کہ تم کو حرم نبوی سے ایسا عریاں سوال پوچھنے کی جرأت کیسے ہوئی، یا خاموشی اختیار فرما لیتیں، اور اگر خواہ مخواہ کوئی جواب دنیا ہی تھا تو کنایہ داستارہ سے کام لیتیں یہ آلہ تناسل کا سر شرمگاہ میں داخل ہونا، ایسے الفاظ ہیں جو ایک حیاء اور شریف خاتون اپنے شوہر کے سامنے بھی منہ سے نہیں نکال سکتی چہ جائیکہ غیر مردوں کے سامنے۔ (دو اسلام ص ۱۶۵)
ازالہ
یہ تو اوپر بتایا جاچکا ہے کہ کن حالات میں یہ مسئلہ پوچھنے کی ضرورت پیش آئی بات تو ضرور شرم کی تھی لیکن مسئلہ کی تحقیق اس سے زیادہ اہم تھی، سوال جس سے پوچھا گیا، وہ بے شک معزز خاتون ہے لیکن ساتھ ساتھ وہ ماں بھی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَاَزْوَاجُہٗ اُمَّہَاتُہُمْ} (الاحزاب)
''نبی کی بیویاں مؤمنین کی مائیں ہیں۔''
برق صاحب قرآن میں تو اس سے بھی زیادہ شرم کی آیتیں ہیں، چند آیات ملاحظہ ہوں:
(۱) {اَفَرَأَیْتُمْ مَا تُمْنُوْنَ اَ اَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَہٗ اَمْ نَحْنُ الْخَالِقُوْنَ} (واقعہ)
''کیا تم نے دیکھا کہ جب تم ... ٹپکاتے ہو تو کیا تم اس کو پیدا کرتے ہو یا تم۔''
(۲) {فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّا خُلِقَ، خُلِقَ مِنْ مَائٍ دَّافِقٍ} (طارق)
''انسان کو چاہیے کہ دیکھے وہ کس چیز سے بنایا گیا ہے وہ کود کر آنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔''
(۳) {وَمَرْیَمَ بْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُوْحِنَا} (تحریم)
''اور مریم بنت عمران جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی، پس ہم نے اس کی شرم گاہ میں اپنی روح پھونک دی۔''
(۴) {فَلَمَّا تَفَشَاہَا حَمَلَتْ حَمْلاً} (الاعراف)
''جب مرد نے عورت کو ڈہانک لیا تو وہ حامل ہوگئی۔''
(۵) {اَلَمْ یَکُنْ نُطْفَۃً مِنْ مَنِیٍّ یُّمْنٰی} (القیامۃ)
''کیا انسان ایک قطرہ نہیں تھا... کا جو ٹپکائی گئی تھی۔''
برق صاحب کیا ان آیات کا عریاں ترجمہ نہیں ہوسکتا؟ بے شک ہوسکتا ہے اور یہ وہ آیتیں ہیں مردوں، عورتوں اور کنواری لڑکیوں کے سامنے تلاوت کی جاتی رہیں اور تلاوت کی جاتی ہیں لڑکوں اور لڑکیوں کو پڑھائی جاتی ہیں اور سمجھائی جاتی ہیں فرمایے: ان کو پڑھاتے وقت شرم آئے گی یا نہیں برق صاحب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{نساء کم حرث لکم فاتوا حرثکم انی شیتم} (البقرۃ)
''تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں پس اپنی کھیتیوں میں آئو جس طرح تم چاہو۔''
کیا کنواری لڑکی اپنے باپ یا استاد سے یا لڑکا اپنی ماں یا استانی سے ان تمام آیات کی تشریح پوچھ سکتا ہے اگر لڑکا اپنی ماں سے ان آیات کی تشریح کرا سکتا ہے تو اگر کسی شخص نے اپنی محترم ماں سے غسل کے وجوب کا سوال کرلیا اور ایسے وقت کرلیا، جس وقت اور کوئی اس مسئلہ کو حل کرنے والا نہ رہا تھا، تو کیا غضب ہوگیا، برق صاحب اگر آپ علم الحیوانات کے درس میں شریک ہوئے ہیں، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہاں کیاکیا ہوتا ہے وہ کون سی چیز ہے جو پڑھائی نہیں جاتی اور جس کی تشریح نہیں کی جاتی اور وہ بھی ایسی جماعت میں جس میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بیٹھی ہوتی ہیں اور اکثر پڑھانے والے بھی جوان ہی ہوتے ہیں، بورڈ پر شرمگاہوں کی شکلیں تک کھینچی جاتی ہیں ان پر نام تک لکھا جاتا ہے اور پھر وہ شکلیں کئی کئی دن تک بورڈ پر باقی رہتی ہیں کیا یہ سب کچھ عریانیت ہے؟ نہیں تعلیم و تعلم کے لحاظ سے ایسی چیز عریانیت میں شمار نہیں ہوتی نہ کبھی کسی کو اس کا خیال بھی آتا ہے، عریانیت جب ہوتی ہے کہ مزہ لینے کے لیے یا چھیڑ چھاڑ کے لیے ایسی باتیں صادر ہوتی ہوں برق صاحب یہ حدیث تعلیم و تعلم کے ذیل میں آتی ہے پھر الفاظ کتنے پوشیدہ ہیں کہ عریانیت کا شائبہ بھی اس میں نہیں پایا جاتا ترجمہ صرف اتنا ہے کہ جب ختنہ ختنہ سے مل جائے تو غسل فرض ہو جاتا ہے بتایے کتنا حیا دار جملہ ہے اور پھر مطلب بھی پورا ہوگیا ختنہ کا لفظ کتنا مشہور اور زبان زد خاص و عام ہے حجام کی دکانوں کے بورڈ پر بھی لکھا ہوتا ہے نہ اس میں کوئی عریانیت ہے نہ بے شرمی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے تو در حقیقت استعارہ اور کنایہ ہی سے مطلب ادا کیا تھا اور یہ استعارہ بھی خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلیم کردہ تھا اور اسی کو انہوں نے دہرا دیا نہ معلوم کس رنگیلے سے آپ نے ترجمہ کرا کر اپنی کتاب میں درج کر دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
چونکہ یہ حدیث ہمارے مشاہدہ، عام تجربہ، عورت کے مسلمہ کیفیات نفسی، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بلند مقام سے متصادم ہو رہی ہے، نیز صحیح مسلم کی دو احادیث اس کی تردید کر رہی ہیں، اس لیے ہم اس نتیجہ پر پہنچنے کے لیے مجبور ہیں کہ اس قول کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کرنا درست نہیں۔ (دو اسلام ص ۱۶۵)
ازالہ
مذکورہ بالا بحث اور قرآنی آیات کی روشنی میں ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اس حدیث میں کوئی بات قابل اعتراض نہیں، نہ صحیح مسلم کی احادیث اس کی تردید کر رہی ہیں بلکہ صحیح مسلم کی ناسخ حدیثیں، اس کی تائید کر رہی ہیں، جیسا کہ اوپر لکھا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ملا کہتا ہے کہ میری حدیث کا ہر ہر لفظ محفوظ رہے، اسلام رہے یا نہ رہے، حضور کی منزلت زیادہ ہو یا کم لوگ اسلام پر ہنسیں یا روئیں، میری بلا سے۔ (دو اسلام ص ۱۶۶)
ازالہ
اس عبارت میں رنگ آمیزی کے سوا اور کچھ نہیں، اگر کسی ملا نے ایسا کیا ہو، تو ہم بھی اس پر لعنت بھیجتے ہیں، لیکن کسی عالم دین محدث نے تو ایسا کبھی نہیں کیا، ہر خلاف اسلام موضوع حدیث کے پرخچے اڑا کر رکھ دئیے، بلکہ ملاؤں نے تو اسلام کی تائید میں بھی جو خوش آیند حدیثیں گھڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردی گئی تھیں ان کی غلط نسبت کو واشگاف کردیا، اور اپنی کامل دیانتداری کا ثبوت دیا، لیکن اس کے یہ معنی بھی نہیں کہ وہ ان صحیح واقعات کو بھی جھٹلا دیتے ، جن سے بظاہر اسلام پر اعتراض وارد ہوسکتا تھا، اگر وہ ایسا کرتے تو پھر یہی رویہ ان کا قرآن کے ساتھ بھی ہونا چاہیے تھا ، کیونکہ قرآن میں بھی ایسی آیات پائی جاتی ہیں، جن سے بظاہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی منزلت کو بہت بڑا دھکا پہنچتا ہے مثلاً:
(۱) { اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا ۔ لِّیَغْفِرَ لَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ } (فتح)
بیشک ہم نے آپ کو فتح مبین عطا فرمائی تاکہ آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دے۔
اس آیت اور اس قسم کی دوسری آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معاذ اللہ گناہگار تھے؟
(۲) { يٰٓاَيُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللہُ لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ } (التحریم)
اے نبی آپ ان چیزوں کو کیسے حرام کرتے ہیں جن کو اللہ نے آپ کے لیے حلال کردیا، آپ تو اپنی بیویوں کی رضا کے جویا ہیں۔
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معاذ اللہ شریعت الٰہیہ میں تبدیلی کردیا کرتے تھے، اور وہ بھی محض اپنی بیویوں کو خوش کرنے کے لیے:
(۳) { مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ } (انفال)
نبی کے لیے یہ جائز نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں خوب خونریزی نہ کرلے۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ اسلام خونریزی کو بہت پسند کرتا ہے۔
کیا ان آیات سے دشمنان اسلام کو اسلام پر ہنسنے کا موقع نہیں ملتا؟ برق صاحب کیا آپ کی مذکورہ بالا عبارت میں ''حدیث'' کی جگہ ''آیت'' کا لفظ چسپاں نہیں ہوسکتا؟ اگر احادیث کو اس معیار پر رکھ کر رد کردینا جائز ہے، تو آیات کے ساتھ بھی یہی رویہ اختیار کرنا چاہیے یا نہیں، اگر نہیں تو آخر اس فرق کی کیا وجہ ہے، تفصیل کے لیے بیسواں باب ملاحظہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
لیلۃ القدر کی تردید کرتے ہوئے برق صاحب لکھتے ہیں:
اس میں کلام نہیں کہ قرآن حکیم میں لیلۃ القدر کا ذکر آیا ہے { اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ} '' ہم نے یہ قرآن لیلۃ القدر یعنی فیصلہ کن رات میں اتارنا شروع کیا۔'' (دو اسلام ص ۱۶۷)
ازالہ
برق صاحب! لیلۃ القدر کے معنی آپ نے '' فیصلہ کن رات'' کے کس طرح کردئیے، اس کے لیے آپ نے کوئی دلیل نہیں دی، پھر '' انزلنا'' کے معنی ''اتارنا شروع کیا'' کیسے ہوگئے؟ حالانکہ اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ '' ہم نے اتارا'' کیونکہ آپ ایک اعتراض سے بچنا چاہتے تھے، جو بغیر حدیث کے حل نہیں ہوسکتا اس لیے آپ نے معنوں میں تھوڑا سا تصرف کردیا، برق صاحب آخر اس سے کیا فائدہ! کیوں نہ حدیث کی روشنی میں ترجمہ کردیا جائے، نہ اعتراض رہے نہ تصرف کی ضرورت ، بہرحال اتنا ضرور ثابت ہوا کہ قرآن پر سے اعتراض دور کرنے کے لیے آپ مفہوم قرآن میں تصرف کرلیتے ہیں، لیکن حدیث کے لیے آپ اس کو بھی گوارا نہیں فرماتے، کاش آپ غور فرمائیں۔
مزید برآں آپ کی تحریر سے روز روشن کی طرح یہ بات ظاہر ہے کہ لیلۃ القدر وہ رات ہے جس رات کو قرآن اترنا شروع ہوا تھا، وہ رات گزر گئی، اور اب کبھی نہیں آتی، حالانکہ اس نظریہ کی تردید خود قرآن میں موجود ہے، ارشاد باری ہے:
{ تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْہَا بِاِذْنِ رَبِّہِمْ مِّنْ کُلِّ اَمْرٍ } (قدر)
اس رات کو فرشتے اور روح الامین اپنے رب کے حکم سے تمام احکام لے کر اترتے ہیں۔
کیونکہ اب اگر یہ رات گزر گئی تو الفاظ اس طرح ہونے چاہیے تھے '' اس رات کو فرشتے اترتے تھے تنزل'' مضارع کا صیغہ ہے، لہٰذا اس کے صحیح معنی ''اترتے ہیں'' لہٰذا یہ رات بار بار آتی ہے، اور یہی حدیث کا مقصد ہے، قرآن و حدیث میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اگر واقعی لیلۃ القدر ہر رمضان میں آتی ہے تو وہ گزشہ تین سو برس میں شب بھر جاگنے والے چوکیداروں، ریلوے ملازموں، ملاحوں، ہوا بازوں، اور مورچے میں ڈٹے ہوئے فوجیوں کو کیوں نظر نہ آئی۔ (دو اسلام ص ۱۶۸)
ازالہ
مذکورہ بالا قرآنی تشریح کے بعد ان الفاظ میں کوئی جان نہیں ہے، مادی باتوں سے روحانیات کا مذاق نہیں اڑایا جاسکتا، جب قرآن سے یہ ثابت ہے کہ یہ رات بار بار آتی ہے تو اب اس اعتراض کا رخ قرآن کی طرف مڑ جاتا ہے، معاذ اللہ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی } (النجم)
انسان کو وہی ملتا ہے جو اس نے کوشش کی۔
اس نے اور چوکیداروں نے اس رات کے لیے محض اللہ کی رضا جوئی کی خاطر کوئی کوشش نہیں کی، لہٰذا ان کو وہ رات کیسے مل سکتی تھی، محض اس رات کو جاگنا، اس رات کو پانا نہیں، بلکہ اس رات کو جاگ کر اللہ کو راضی کرلینا درحقیقت اس رات کو پانا ہے، یعنی اس رات کی فضیلت سے فیض یاب ہونا ہی حقیقت میں روشنی کو پانا ہے، لیکن اس کے لیے بھی محض اس رات کی عبادت، رکوع و سجود کوئی وقعت نہیں رکھتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
کم من قائم لیس لہ من قیامہ الا السھر (دارمی)
بہت سے نماز پڑھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو سوائے جاگنے کے اور کچھ نہیں ملتا۔
برق صاحب! چوکیدار اور ملاح تو کجا نماز میں شب گزارنے والوں کو بھی اس رات کا فیض حاصل نہیں ہوتا، اس کے لیے توحید خالص ، انابت الی اللہ، تقویٰ اور خشیت الٰہی کی ضرورت ہے۔
{ اِنَّمَا یَتَقَبَّلَ اللہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ } (مائدہ)
اللہ تو صرف اہل تقویٰ کے اعمال قبول کرتا ہے۔
حدیث کا جواب اوپر نقل کیا گیا، باقی رہا مسلمانوں کے من گھڑت افسانے و احوال و مشاہدات تو ان کے ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ چند آیات پہلے قرآن میں موجود تھیں لیکن بعد میں نکال دی گئیں، مثلاً:
لولا ان یقول الناس زاد عمر رضی اللہ فی کتاب اللہ لکتبتھا الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموھا فانا قد قراناھا۔ (موطا ص۳۴۸)
اگر لوگ مجھے یہ نہ کہتے کہ عمر بن خطاب نے قرآن میں اضافہ کردیا تو میں یہ آیت اس میں شامل کردیتا '' الشیخ والشیخۃ ...'' کہ جب کوئی بوڑھا اور بڑھیا زنا کے مرتکب ہوں تو انہیں سنگسار کردو، ہم یہ اسی قرآن میں پڑھتے رہے۔ اگر پڑھتے رہے تو نکالی کس نے؟ اور اگر نکال دی گئی تھی تو اللہ کا وعدہ حفاظت قرآن کیا ہوا۔ (دو اسلام ص ۱۶۸)
ازالہ
اس حدیث کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے سعید بن مسیب ہیں، اور انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کو نہیں سنا، علامہ ابن القطان لکھتے ہیں:
ان سعیدًا لم یسمع من عمر الانعیہ النعمان بن مقرن قال ومنھم من تکرہ مطلقا (نصب الرایہ الاحادیث الہدایہ، کتاب الجنایہ ص۳۲۹)
یعنی سعید نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کچھ نہیں سنا سوائے نعمان بن مقرن کی نعی کے بلکہ بعض تو مطلق سننے کا انکار کرتے ہیں۔
لہٰذا سند حدیث منقطع ہے، اور یہ حدیث ضعیف ہے، اور ضعیف حدیث کے ہم جواب دہ نہیں، اس کا ضعف ہی اس کے لیے کافی ہے، اور ضعیف حدیث پر اعتراض کرنا بھی فضول ہے، پھر اس حدیث کا متن صحیح بخاری کی اس حدیث کے بھی خلاف ہے، جو اگلی غلط فہمی کے ازالہ کے تحت درج کی جا رہی ہے لہٰذا یہ حدیث خود ہمارے نزدیک بھی ثابت نہیں، جواب دینے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
اس موضوع پر ایک حدیث بخاری میں بھی موجود ہے:
عن عمر بن الخطاب قال ان اللہ بعث محمدا ﷺ وانزل علیہ الکتاب فکان فیما انزل اٰیۃ الرجم۔
عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنا کر بھیجا، اور اس پر ایک کتاب نازل فرمائی، جس میں آیت رجم بھی موجود تھی۔
یعنی امام بخاری نے بھی تسلیم کرلیا کہ قرآن میں آیت رجم موجود تھی، لیکن یہ نہیں بتایا وہ گئی کہاں؟ (دو اسلام ص۱۶۹)
ازالہ
اس سے پہلے کہ ہم صحیح بخاری کی اس حدیث کا جواب دیں، یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ زنا کی سزا کا پس منظر اور اس کی تاریخ پر ایک ہلکی سی روشنی ڈالی جائے، اس سلسلہ کی سب سے پہلی سزا قرآن کی اس آیت میں ہے:
{ وَ الّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآئِکُمْ فَاسْتَشْھِدُوْا عَلَیْھِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ فَاِنْ شَھِدُوْا فَاَمْسِکُوْھُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللہُ لَھُنَّ سَبِیْلًا } (النساء)
جو عورتیں زنا کریں، تو ان پر چار گواہ پیش کرو، پس اگر وہ شہادت دیں، تو ان کو گھروں میں قید رکھو، یہاں تک کہ موت ان کا کام تمام کردے، یا اللہ ان کے لیے کوئی اور سبیل یعنی سزا مقرر فرما دے۔
کیونکہ زنا عموماً عورت کے حق میں زیادہ معیوب سمجھا جاتا ہے، اور اس وجہ سے بھی کہ جب تک عورت کی طرف سے رضا مندی نہ ہو، مرد کی تمام کوششیں بے کار ہو جاتی ہیں، سب سے پہلے عورت پر سزا نافذ کی گئی، تاکہ عصمت کے قلعہ کو زیادہ محفوظ و مضبوط بنا دیا جائے، اس کے بعد سزا کی حدود کو اور زیادہ بڑھا دیا گیا، اور یہ آیت نازل کی گئی جو مندرجہ ذیل ہے، اور جس کا ذکر مؤطا کی روایت میں موجود ہے اور جو بعد میں منسوخ کردی گئی۔
الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموھما الح
بوڑھا اور بوڑھی جب زنا کریں تو انہیں سنگسار کردو۔
کیونکہ بوڑھے اور بوڑھی کا زنا کرنا بہت زیادہ قبیح تھا، لہٰذا پہلے ان پر سزا کو نافذ کیا گیا، جو ان اور کنواری عورتوں کے متعلق ابھی تک کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا، اور وہ بدستور محبوس رہا کرتیں، اسی طرح جوان مردوں کے متعلق بھی کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں آخری حکم نازل فرمایا، جس کا ذکر مندرجہ ذیل حدیث میں ہے:
عن عبادۃ بن الصامت قال کان النبی ﷺ اذا انزل علیہ کرب لذلک وتر بدلہ وجھہ قال فانزل علیہ ذات یوم فلقی کذلک فلما سری عنہ قال خذوا عنی فقد جعل اللہ لھن سبیلا الشیب جلد مائۃ ثم رجم بالحجارۃ والبکر جلد مائۃ ثم نفی سنۃ۔ (صحیح مسلم)
عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی تھی، تو آپ مشقت محسوس کرتے تھے، چہرہ متغیر ہو جاتا تھا، ایک دن آپ پر وحی نازل ہوئی، اور یہی کیفیت ہوگئی، پھر جب وہ کیفیت زائل ہوگئی، تو آپ نے فرمایا، مجھ سے یہ احکام سیکھ لو بے شک اللہ نے ان کے لیے سبیل (سزا ) مقرر کردی، شادی شدہ کو سو کوڑے مار کر رجم کردیا جائے، اور کنوارے کنواری کو سو کوڑے مار کر ایک سال کے لیے جلاوطن کردیا جائے۔
(اس حدیث اور اس قسم کی بے شمار احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آیا کرتی تھی) اللہ تعالیٰ کے اس حکم میں سو کوڑے کی سزا شادی شدہ اور غیر شادی شدہ دونوں کے لیے مشترک تھی، اللہ تعالیٰ نے اس سزا کو قرآن کی آیت کی صورت میں نازل فرما کر مصحف میں شامل کردیا، اور غیر مشترک سزا کو احادیث کی صورت میں رہنے دیا گیا۔
اب رہ گیا، برق صاحب کا یہ اعتراض کہ وہ آیت کہاں گئی، جس کا ذکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا روایت میں ہے، تو اس سلسلہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا پورا بیان درج ذیل کیا جاتا ہے، حضرت عمر فرماتے ہیں:
ان اللہ قد بعث محمدا ﷺ بالحق وانزل علیہ الکتاب فکان مما انزل علیہ اٰیۃ الرجم قرأناھا ودعیناھا وعقلناھا فرجم رسول اللہ ﷺ ورجمنا بعدہ فاخشی ان طل بالناس زمان ان یقول قائل مانجد الرجم فی کتاب اللہ فیضلوا بترک فریصۃ انزلھا اللہ وان الرجم فی کتاب اللہ حق علی من زنی اذا احصن۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
بے شک اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اور آپ پر شریعت نازل کی، اس نازل کردہ شریعت میں رحم کا حکم بھی ہے، ہم نے اسے پڑھا ہے، محفوظ کرلیا ہے اور سمجھ لیا ہے پھر (عملاً بھی) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا ہے، اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا ہے، میں ڈرتا ہوں کہ ایک مدت گزرنے کے بعد کہنے والا یہ نہ کہے کہ شریعت میں رجم کا کوئی حکم نہیں ہے پس لوگ اللہ کے ایک فرض کو جس کو اللہ نے نازل فرمایا ہے ترک کرکے گمراہ نہ ہو جائیں، حالانکہ یہ حقیقت کا رجم کا حکم شریعت الٰہیہ میں اب بھی حق و ثابت ہے، اس پر جو شادی شدہ ہو کر زنا کرے۔
برق صاحب اب بتائیے، حدیث پر کیا اعتراض ہے، اعتراض اس لیے پیدا ہوا کہ آپ نے کتاب اللہ کے معنی قرآن کردئیے، اور پھر ہم سے سوال کرنے لگے کہ قرآن میں تھی، تو کہاں گئی؟ یہ آیت قرآن میں تھی ہی نہیں، حدیث میں تھی، اور بقول حضرت عمر رضی اللہ عنہ حدیث میں اب بھی موجود ہے، اور جو آیت قرآن میں تھی یعنی بوڑھے اور بوڑھی کو سنگسار کرنے کی آیت وہ منسوخ ہوگئی اور اب قرآن میں نہیں ہے، اس کا حکم بھی منسوخ اور تلاوت بھی منسوخ ہاں اگر یہ تعجب ہو کہ قرآن میں نسخ کیسا تو یہ بھی کوئی عجیب بات نہیں، یہ بات تو خود قرآن سے ثابت ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(۱) {مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَا نَاتِ بِخَیْرٍ مِنْھَا اَو ْمِثْلِھَا} (البقرہ)
''جب ہم کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اس کو بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی آیت نازل کر دیتے ہیں۔''
اس آیت سے ثابت ہوا کہ قرآن کی آیات میں نسخ ہوا ہے۔
(۲) {وَاِذَا بَدَّلْنَا اٰیَۃً مَکَانَ اٰیَۃٍ وَاللہُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوْا اِنَّمَا اَنْتَ مُفْتَرٍ بَلْ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ} (النحل)
''اور جب کبھی ہم نے ایک آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دی، اور اللہ خوب جانتا ہے جو نازل کرتا ہے تو ان لوگوں نے کہا کہ آپ خود گھڑنے والے ہیں، بات یہ ہے کہ ان میں اکثر لوگ جانتے ہی نہیں۔''
(۳) {اِنَّ اللہَ لَا یَسْتَحِْیُ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَۃً فَمَا فَوْقَہَا} (البقرۃ)
''بے شک اللہ نہیں شرماتا کہ مچھر کی مثال بیان فرمائے یا اس سے بھی ادنیٰ تر مخلوق کی۔''
کفار نے اعتراض کیا ہوگا کہ وہ بھی کوئی اللہ ہے جو مچھر کی مثال بیان فرماتا ہے اللہ نے اس کے جواب میں یہ آیت اتاری لیکن وہ آیت جس میں اللہ نے مچھر کی مثال بیان فرمائی تھی اور جس پر کفار نے اعتراض کیا تھا، کہاں گئی قرآن میں تو نہیں ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ بعض آیتیں ضرور منسوخ ہوئی ہیں۔
(۴) {سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسٰی اِلاَّ مَاشَآءَاللہِ} (الاعلیٰ)
''ہم آپ کو پڑھائیں گے پس آپ نہیں بھولیں گے سوائے اس کے جو اللہ ہی بھلانا چاہے۔''
اس آیت سے ظاہر ہے کہ ضرور کچھ نہ کچھ بھلانا اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادے میں تھا ورنہ اس استثناء کی کوئی ضرورت نہ تھی۔
ان آیات کی روشنی میں اگر کسی حدیث میں یہ ملتا ہے کہ فلاں آیت منسوخ ہوگئی، تو آخر اعتراض کی کون سی بات ہے، جو اعتراض حدیث پر ہوگا، وہی پھر قرآن پر بھی ہوگا۔ (معاذ اللہ)
 
Top