- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
غلط فہمی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خسرو پرویز شاہ ایران ... اور ہرقل قیصر روم... کی طرف خطوط بھیجے اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دی، ہرقل نے قاصد رسول کی بڑی تعظیم کی، لیکن کسری (شاہ ایران) نے خط پھاڑ ڈالا، اور قاصد کو ڈانٹ ڈپٹ کر نکال دیا، جب حضور کو اس سلوک کی اطلاع ملی، تو آپ نے ایک پیشن گوئی کی،قیصر کے حسن سلوک، اور کسریٰ کی بدتمیزی کا تقاضا تو یہ تھا کہ حضور صرف نسل کسری کے خاتمہ کی پیشگوئی فرماتے اور ہرقل کے لیے سی طرح محبت کا اظہار کرتے، جس طرح وہ نجاشی سے کیا کرتے تھے،لیکن جو پیش گوئی بخاری میں موجود ہے، وہ ہماری اس تمنا کو پورا نہیںکرتی۔
عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ قال اذا ھلک کسری فلا کسری بعد واذا ھلک قیصر فلا قیصر بعدہ۔ (دو اسلام ص۱۷۷۔ ۱۷۸)
ابوہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا، کسری کے تباہ ہونے کے بعد کوئی اور کسری نہیں ہوگا، اور نہ قیصر کے بعد کوئی اور قیصر۔
ازالہ
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دی گئی کہ کسریٰ نے آپ کا نامہ مبارک چاک کر ڈالا تو آپ نے یہ پیشین گوئی نہیں فرمائی، جو برق صاحب نے نقل کی ہے، بلکہ آپ نے اس وقت صرف یہ فرمایا تھا کہ:
ان یمزقوا کل ممزق (صحیح بخاری)
یعنی وہ پارہ پارہ ہو جائیں گے۔
اور فرمایا ''مزق کسری ملکہ'' کسری نے اپنی سلطنت کو چاک کر ڈالا (رحمۃ للعالمین جلد ۳، ص ۲۰۵، بحوالہ بیہقی) کیونکہ خسرو نے انتہائی ذلیل و گستاخانہ حرکت کی تھی، لہٰذا اس کے حق میں یہ بد دعا اور پیشین گوئی فرمائی، اور فعل نازیبا کی سزا میں وہ اور اس کی سلطنت دونوں کے پرخچے بہت جلد اڑ گئے، اس واقعہ کو اس پیشین گوئی سے جس کو برق صاحب نے نقل فرمایا ہے، کوئی تعلق نہیں، برق صاحب نے غلط فہمی سے اس پیشین گوئی کے پس منظر میں اس واقعہ کو پیش کردیا۔
برق صاحب کا یہ فرمانا کہ ہرقل کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح محبت کا اظہار کرتے جس طرح نجاشی کے لیے کیا کرتے تھے، کسی طرح بھی صحیح نہیں، اس لیے کہ نجاشی مسلمان ہوگئے تھے، اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کیا کرتے تھے، برخلاف اس کے ہرقل مسلمان نہیں ہوا بلکہ اسلامی فوجوں کے مقابلہ میں جنگ کرتا رہا، بھلا دونوں بادشاہوں کو ایک پلڑے میں کیسے رکھا جاسکتا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ دوست، دشمن، وفادار و باغی، کفر و ایمان برابر ہیں، اور ان میں کوئی فرق نہیں ایک بادشاہ وفادار، اطاعت گزار، دوسرا نافرمان، باغی، اور دونوں کے ساتھ یکساں برتاؤ کا مطالبہ، کیا یہ تعجب خیز نہیں؟ قابل اعتراض بات تو برق صاحب خود کر بیٹھے، اور غلط فہمی سے صحیح بخاری پر اعتراض کردیا۔
ایک غلط فہمی برق صاحب کو یہ بھی ہوئی کہ وہ بد دعا اور پیشین گوئی کو ایک سمجھ بیٹھے، قیصر کے حق میں جو الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے، وہ پیشین گوئی توکہے جاسکتے ہیں، لیکن بد دعا سے ان کا کوئی تعلق نہیں، لہٰذا برق صاحب کا یہ فرمانا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے با ادب شخص کے لیے بد دعا کیوں کی، صحیح نہیں، آپ نے بد دعا نہیں کی، بلکہ ایک پیشین گوئی فرمائی تھی، اور وہ پیشین گوئی با ادب کافر تو کجا، مسلم، وفادار، اطاعت گزار کے لیے بھی کی جاسکتی ہے، جیسا کہ مسلمانوں کے زوال کے متعلق مختلف پیشین گوئیاں احادیث میں موجود ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خسرو پرویز شاہ ایران ... اور ہرقل قیصر روم... کی طرف خطوط بھیجے اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دی، ہرقل نے قاصد رسول کی بڑی تعظیم کی، لیکن کسری (شاہ ایران) نے خط پھاڑ ڈالا، اور قاصد کو ڈانٹ ڈپٹ کر نکال دیا، جب حضور کو اس سلوک کی اطلاع ملی، تو آپ نے ایک پیشن گوئی کی،قیصر کے حسن سلوک، اور کسریٰ کی بدتمیزی کا تقاضا تو یہ تھا کہ حضور صرف نسل کسری کے خاتمہ کی پیشگوئی فرماتے اور ہرقل کے لیے سی طرح محبت کا اظہار کرتے، جس طرح وہ نجاشی سے کیا کرتے تھے،لیکن جو پیش گوئی بخاری میں موجود ہے، وہ ہماری اس تمنا کو پورا نہیںکرتی۔
عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ قال اذا ھلک کسری فلا کسری بعد واذا ھلک قیصر فلا قیصر بعدہ۔ (دو اسلام ص۱۷۷۔ ۱۷۸)
ابوہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا، کسری کے تباہ ہونے کے بعد کوئی اور کسری نہیں ہوگا، اور نہ قیصر کے بعد کوئی اور قیصر۔
ازالہ
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دی گئی کہ کسریٰ نے آپ کا نامہ مبارک چاک کر ڈالا تو آپ نے یہ پیشین گوئی نہیں فرمائی، جو برق صاحب نے نقل کی ہے، بلکہ آپ نے اس وقت صرف یہ فرمایا تھا کہ:
ان یمزقوا کل ممزق (صحیح بخاری)
یعنی وہ پارہ پارہ ہو جائیں گے۔
اور فرمایا ''مزق کسری ملکہ'' کسری نے اپنی سلطنت کو چاک کر ڈالا (رحمۃ للعالمین جلد ۳، ص ۲۰۵، بحوالہ بیہقی) کیونکہ خسرو نے انتہائی ذلیل و گستاخانہ حرکت کی تھی، لہٰذا اس کے حق میں یہ بد دعا اور پیشین گوئی فرمائی، اور فعل نازیبا کی سزا میں وہ اور اس کی سلطنت دونوں کے پرخچے بہت جلد اڑ گئے، اس واقعہ کو اس پیشین گوئی سے جس کو برق صاحب نے نقل فرمایا ہے، کوئی تعلق نہیں، برق صاحب نے غلط فہمی سے اس پیشین گوئی کے پس منظر میں اس واقعہ کو پیش کردیا۔
برق صاحب کا یہ فرمانا کہ ہرقل کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح محبت کا اظہار کرتے جس طرح نجاشی کے لیے کیا کرتے تھے، کسی طرح بھی صحیح نہیں، اس لیے کہ نجاشی مسلمان ہوگئے تھے، اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کیا کرتے تھے، برخلاف اس کے ہرقل مسلمان نہیں ہوا بلکہ اسلامی فوجوں کے مقابلہ میں جنگ کرتا رہا، بھلا دونوں بادشاہوں کو ایک پلڑے میں کیسے رکھا جاسکتا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ دوست، دشمن، وفادار و باغی، کفر و ایمان برابر ہیں، اور ان میں کوئی فرق نہیں ایک بادشاہ وفادار، اطاعت گزار، دوسرا نافرمان، باغی، اور دونوں کے ساتھ یکساں برتاؤ کا مطالبہ، کیا یہ تعجب خیز نہیں؟ قابل اعتراض بات تو برق صاحب خود کر بیٹھے، اور غلط فہمی سے صحیح بخاری پر اعتراض کردیا۔
ایک غلط فہمی برق صاحب کو یہ بھی ہوئی کہ وہ بد دعا اور پیشین گوئی کو ایک سمجھ بیٹھے، قیصر کے حق میں جو الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے، وہ پیشین گوئی توکہے جاسکتے ہیں، لیکن بد دعا سے ان کا کوئی تعلق نہیں، لہٰذا برق صاحب کا یہ فرمانا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے با ادب شخص کے لیے بد دعا کیوں کی، صحیح نہیں، آپ نے بد دعا نہیں کی، بلکہ ایک پیشین گوئی فرمائی تھی، اور وہ پیشین گوئی با ادب کافر تو کجا، مسلم، وفادار، اطاعت گزار کے لیے بھی کی جاسکتی ہے، جیسا کہ مسلمانوں کے زوال کے متعلق مختلف پیشین گوئیاں احادیث میں موجود ہیں۔