• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خسرو پرویز شاہ ایران ... اور ہرقل قیصر روم... کی طرف خطوط بھیجے اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دی، ہرقل نے قاصد رسول کی بڑی تعظیم کی، لیکن کسری (شاہ ایران) نے خط پھاڑ ڈالا، اور قاصد کو ڈانٹ ڈپٹ کر نکال دیا، جب حضور کو اس سلوک کی اطلاع ملی، تو آپ نے ایک پیشن گوئی کی،قیصر کے حسن سلوک، اور کسریٰ کی بدتمیزی کا تقاضا تو یہ تھا کہ حضور صرف نسل کسری کے خاتمہ کی پیشگوئی فرماتے اور ہرقل کے لیے سی طرح محبت کا اظہار کرتے، جس طرح وہ نجاشی سے کیا کرتے تھے،لیکن جو پیش گوئی بخاری میں موجود ہے، وہ ہماری اس تمنا کو پورا نہیںکرتی۔
عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ قال اذا ھلک کسری فلا کسری بعد واذا ھلک قیصر فلا قیصر بعدہ۔ (دو اسلام ص۱۷۷۔ ۱۷۸)
ابوہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا، کسری کے تباہ ہونے کے بعد کوئی اور کسری نہیں ہوگا، اور نہ قیصر کے بعد کوئی اور قیصر۔
ازالہ
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دی گئی کہ کسریٰ نے آپ کا نامہ مبارک چاک کر ڈالا تو آپ نے یہ پیشین گوئی نہیں فرمائی، جو برق صاحب نے نقل کی ہے، بلکہ آپ نے اس وقت صرف یہ فرمایا تھا کہ:
ان یمزقوا کل ممزق (صحیح بخاری)
یعنی وہ پارہ پارہ ہو جائیں گے۔
اور فرمایا ''مزق کسری ملکہ'' کسری نے اپنی سلطنت کو چاک کر ڈالا (رحمۃ للعالمین جلد ۳، ص ۲۰۵، بحوالہ بیہقی) کیونکہ خسرو نے انتہائی ذلیل و گستاخانہ حرکت کی تھی، لہٰذا اس کے حق میں یہ بد دعا اور پیشین گوئی فرمائی، اور فعل نازیبا کی سزا میں وہ اور اس کی سلطنت دونوں کے پرخچے بہت جلد اڑ گئے، اس واقعہ کو اس پیشین گوئی سے جس کو برق صاحب نے نقل فرمایا ہے، کوئی تعلق نہیں، برق صاحب نے غلط فہمی سے اس پیشین گوئی کے پس منظر میں اس واقعہ کو پیش کردیا۔
برق صاحب کا یہ فرمانا کہ ہرقل کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح محبت کا اظہار کرتے جس طرح نجاشی کے لیے کیا کرتے تھے، کسی طرح بھی صحیح نہیں، اس لیے کہ نجاشی مسلمان ہوگئے تھے، اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کیا کرتے تھے، برخلاف اس کے ہرقل مسلمان نہیں ہوا بلکہ اسلامی فوجوں کے مقابلہ میں جنگ کرتا رہا، بھلا دونوں بادشاہوں کو ایک پلڑے میں کیسے رکھا جاسکتا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ دوست، دشمن، وفادار و باغی، کفر و ایمان برابر ہیں، اور ان میں کوئی فرق نہیں ایک بادشاہ وفادار، اطاعت گزار، دوسرا نافرمان، باغی، اور دونوں کے ساتھ یکساں برتاؤ کا مطالبہ، کیا یہ تعجب خیز نہیں؟ قابل اعتراض بات تو برق صاحب خود کر بیٹھے، اور غلط فہمی سے صحیح بخاری پر اعتراض کردیا۔
ایک غلط فہمی برق صاحب کو یہ بھی ہوئی کہ وہ بد دعا اور پیشین گوئی کو ایک سمجھ بیٹھے، قیصر کے حق میں جو الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے، وہ پیشین گوئی توکہے جاسکتے ہیں، لیکن بد دعا سے ان کا کوئی تعلق نہیں، لہٰذا برق صاحب کا یہ فرمانا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے با ادب شخص کے لیے بد دعا کیوں کی، صحیح نہیں، آپ نے بد دعا نہیں کی، بلکہ ایک پیشین گوئی فرمائی تھی، اور وہ پیشین گوئی با ادب کافر تو کجا، مسلم، وفادار، اطاعت گزار کے لیے بھی کی جاسکتی ہے، جیسا کہ مسلمانوں کے زوال کے متعلق مختلف پیشین گوئیاں احادیث میں موجود ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
کسری کے متعلق یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہوئی، آنحضرت کی رحلت سے صرف دس برس بعد ۶۴۲ء میں جنگ نہادندنے ساسانی خاندان کو ہمیشہ کے لیے مٹا دیا، کچھ عرصہ بعد آخری کسیر (یزدگرد) قتل ہوگیا، اور اس کے بعد آج تک پھر کوئی کسریٰ پیدا نہ ہوا، چاہیے تو یہ تھا کہ قیصر کے متعلق بھی یہ پیش گوئی اسی طرح پوری ہوتی، لیکن اے کاش کہ ایسا نہ ہوا۔ (دو اسلام ص۱۷۸)
ازالہ
کسریٰ کے متعلق اگر یہ پیشین گوئی اس طرح پوری ہوئی کہ خسرو مارا گیا، اور سلطنت ختم ہوگئی تو یہ صحیح نہیں، خسرو کے بعد بھی کئی بادشاہ ہوئے، اسی طرح ہرقل سوم کے بعد بھی کئی بادشاہ ہوئے اگرچہ زیادہ ہوئے پیشین گوئی میں یہ نہیں ہے کہ ایسا کب ہوگا، پیشین گوئی صرف اتنی ہے کہ جب یہ دونوں سلطنتیں اپنے آخری حکمران کے ساتھ ختم ہوگئیں تو پھر دوبارہ ان کی حکومتیں قائم نہیں ہوں گی۔
برق صاحب آپ کو یہ تو اعتراف ہے کہ کسریٰ کے متعلق یہ پیشین گوئی پوری ہوئی، اور حرف بحرف پوری ہوئی، لیکن کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ یہ پیشین گوئی بھی پوری نہیں ہوئی، اس لیے کہ آپ نے تو یہ فرمایا تھا کہ کسریٰ (یعنی خسرو پرویز) ہلاک ہوگیا، تو پھر کوئی کسریٰ نہیں ہوگا، لیکن باوجود اس کے کہ خسرو ہلاک ہوگا، کسریٰ پھر بھی ہوئے، آخر اس وقت آپ کیا جواب دیں گے کسریٰ کی ہلاکت کے بعد اگر ایک کسریٰ کا بھی ہوا ہوتا، تو بھی یہی اعتراض ہوتا کہ پیشین گوئی صحیح نہیں نکلی، لیکن آپ فرماتے ہیں، کہ حرف بحرف پوری ہوئی، جو توجیہ اس کی آپ فرمائیں گے، وہی قیصر کے متعلق بھی سمجھ لیجئے گا۔
کسریٰ خاندان اس لیے جلد ختم ہوگیا کہ اس کے حق میں اس کی ذلیل حرکت کی وجہ سے بد دعا کی گئی تھی، قیصر خاندان اس لیے دیر میں ختم ہوا کہ اس نے کوئی ذلیل حرکت نہیں کی، بلکہ بقول آپ کے قاصد رسول کی بڑی تعظیم کی (دو اسلام ص۱۷۷) نامہ مبارک کی بہت تکریم کی اور حفاظت کے ساتھ خزانہ شاہی میں رکھ دیا (خالص اسلام ص ۲۱۳) اسی شریفانہ حرکت کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے بد دعا نہیں کی، بلکہ فرمایا '' واما ھولاء فتکون لھم بقیۃ'' یعنی ہرقل اور اس کی آل اولاد کے لیے فوری ہلاکت نہ ہوگی، بلکہ وہ ابھی کچھ عرصہ باقی رہیں گے (خالص اسلام مصنفہ علامہ محمد داؤد راز ص۲۱۴) یہ تشریح خود حدیث میں موجود ہے، لہٰذا اعتراض و اشکال کا کوئی موقعہ ہی نہیں برق صاحب ذرا تکلیف گوارا کرتے، تو یہ غلط فہمی دور ہوسکتی تھی۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُھُمْ وَ ھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ } (الانبیاء)
لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا، اور وہ ابھی تک غفلت میں پڑے ہوئے اعراض کررہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ حساب کا وقت قریب آگیا، لیکن زمانہ مشاہد ہے کہ تقریباً ایک ہزار چار سو سال گزار چکے، وقت حساب ابھی تک نہیں آیا، یہ کیسا قرب ہے، بات یہ ہے کہ ہم جس کو بعید سمجھ رہے ہیں، اللہ کے نزدیک وہ قریب ہے، اسی طرح ہوسکتا ہے کہ ہم جس مدت کو دراز سمجھ رہے ہوں، اللہ کے نزدیک وہ قیصر ہو، اگر ہم لفظوں پر اس طرح اڑ جائیں، تو پھر قرآن مجید کو بھی اعتراض سے بچانا مشکل ہو جائے گا مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَھْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللہُ } (نساء)
کیا تم اس شخص کو راہِ راست پر لانے کا ارادہ کر رہے ہو جس کو اللہ نے گمراہ کردیا۔
لیجئے اللہ کا کام گمراہ کرنا بھی ہے کیا بغیر تاویل کے آپ اس آیت کی صفائی کرسکتے ہیں، اس قسم کی ایک دو نہیں سینکڑوں آیات ہیں، جن کی صفائی بغیر تاویں کے ناممکن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
آٹھ سو برس قوموں کی قدرتی عمر ہے، اتنی لمبی زندگی کے بعد اگر کوئی سلسلہ منقطع بھی ہو جائے تو کوئی عقلمند یہ باور نہیں کرے گا کہ اس کا خاتمہ کسی پیشین گوئی کی وجہ سے ہوا تھا۔ (ص۱۷۹)
ازالہ
برق صاحب کو یہاں پھر غلط فہمی ہوئی، وہ بد دعا اور پیشین گوئی کو ایک سمجھ رہے ہیں، کسی کے خاتمہ کا سبب بد دعا کو تو کہا جاسکتا ہے، لیکن پیشین گوئی کو اس خاتمہ کا سبب نہیں کہا جاسکتا پیشین گوئی تو صرف اس کا نام ہے کہ واقعہ کے ظہور سے پہلے اس واقعہ کی خبر دے دی جائے، اگر کسی واقعہ کے متعلق کوئی پیشین گوئی نہ ہو، تب بھی وہ واقعہ تو ظاہر ہو کر رہتا ہے، اس کے وقوع میں پیش گوئی کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اگر حضور نے واقعی یہی فرمایا تھا کہ قیصر کے بعد کوئی اور قیصر نہیں ہوگا، تو آپ کا اشارہ اس قیصر کی طرف ہوگا، جو اس وقت تخت نشین تھا۔ (دو اسلام ص۱۷۹)
ازالہ
اسی اصول پر اس پیشین گوئی کو بھی پرکھئے '' کہ کسری کے بعد اور کوئی کسریٰ نہیں ہوگا'' تو آپ کا اشارہ اس کسریٰ کی طرف ہوگا، جو اس وقت تخت نشین تھا تو پھر ظاہر ہے کہ خسرو کی ہلاکت کے بعد کوئی اور بادشاہ نہیںہونا چاہیے، لیکن ایک نہیں کئی ہوئے، تو پھر پیشین گوئی کا یہ حصہ بھی حرف بحرف نہیں ہوا، لیکن برق صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ کسری والی پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہوئی، تو پھر بتائیے قیصر والی پیشین گوئی کو حرف بحرف پورا ہونے میں کیا امر مانع ہے؟ اگر برق صاحب تھوڑی سی تاویل کرنے کی تکلیف گوارا فرمائیں، تو حدیث کے دوسرے معانی بھی ہوسکتے ہیں، اور ان معانی کی صورت میں نہ کسریٰ والی پیشین گوئی میں اشکال وارد ہوگا، نہ قیصر والی پیشین گوئی میں۔
کسری اور قیصر دونوں نکرہ واقع ہوئے ہیں، لہٰذا نہ کسریٰ سے خسرو مراد ہے، نہ قیصر سے ہرقل کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ کسریٰ اور قیصر نکرہ ہیں، لہٰذا ان دونوں سے مراد حکومت و سلطنت ہے، اور اس لحاظ سے پیشین گوئی میں کوئی اشکال نہیں، کیونکہ ان سلطنتوں کی تباہی کے بعد آج تک کسری اور ہرقل کی حکومتیں پھر دوبارہ قائم نہیں ہوئیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اگر کوئی غیر مسلم ہم سے پوچھ بیٹھے کہ کیا تمہارے نبی( علیہ السلام ) کی تمام پیش گوئیاں ایسی ہی ہوا کرتی تھیں، تو ہم اس طنز کا کیا جواب دیں گے ، بغیر اس کے کہ اس حدیث میں قیصر والا حصہ بعد کا اضافہ تسلیم کریں۔ (دو اسلام ص ۱۸۱)
ازالہ
برق صاحب آپ خاطر جمع رکھئے غیر مسلم احادیث کی طرف رخ نہیں کرے گا، الا ماشاء اللہ تو قرآن پر اعتراض کرے گا، اس اعتراض کو دور کرنے کے لیے تیار رہیے، مثلاً قرآن میں پیشگوئی ہے:
{ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ ئَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ } (البقرۃ)
بے شک جو لوگ کافر ہیں، انہیں آپ ڈرائیں یا نہ ڈرائیں، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
اس پیشین گوئی میں اس بات کی صراحت ہے کہ کافر ایمان نہیں لائیں گے، لیکن زمانہ اور تاریخ ہیں کہ ایک دو نہیں لاکھوں کافروں نے اسلام قبول کیا، ایمان لائے تو کیا اس شہادت کی موجودگی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ پیشین گوئی پوری ہوئی، اگر کوئی غیر مسلم ہم سے پوچھ بیٹھے کہ کیا تمہارے قرآن میں ایسی پیشین گوئیاں مندرج ہیں، تو ہم اس کا سوائے تاویل کے اور کیا جواب دے سکتے ہیں، رہی حدیث زیر بحث تو اس کا جواب اوپر دیا ہی جا چکا ہے۔
مذکورہ بالا آیت پر اعتراض کرتے ہوئے سوامی دیانند لکھتے ہیں:
اور جو جھوٹے راستہ پر ہیں، ان کو یہ قرآن راستہ نہیں دکھلا سکتا، پھر کس کام کا رہا۔
اور اس سے اگلی آیت کے متعلق لکھتے ہیں:
اگر خدا ہی نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگائی ہے اور اس لیے وہ گناہ کرتے ہیں، تو ان کا بھی قصور نہیں، یہ قصور بھی خدا ہی کا ہے۔ (ستھیارتھ پرکاش، باب ۱۴، ص ۶۹۶، ۶۹۷)
اب بتائیے اس قسم کی طنزوں کا سوائے تاویل کے اور کیا جواب ہے، جس طرح یہاں تاویل کی ضرورت ہے، اسی طرح بعض احادیث کی بھی تاویل کرنی پڑتی ہے، سوائے تاویل کے نہ وہاں چارہ ہے،نہ یہاں ، اور اگر تاویل نہ کریں، تو کیا نعوذ باللہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ آیت انسانی اضافہ ہے، انصاف کی ضرورت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
حضرت سلیمان نے ۱۰۱۲ قم میں مسجد اقصیٰ کی بنیاد ڈالی تھی، اگر عام تاریخوں پراعتبار کرتے ہوئے ہم حضرت ابراہیم کی تاریخ وفات انداز ... ۲ قم قرار دیں، اور مکہ کی تعمیر ۲۰۷۰ کے قریب فرض کرلیں، تو تعمیر مکہ اور تعمیر بیت المقدس کے درمیان ۱۰۵۹ برس کا زمانہ بنتا ہے... لیکن بخاری کی ایک حدیث کے مطابق یہ زمانہ صرف چالیس سال بنتا ہے ... ہے کوئی محدث جو اس صریح تاریخی غلط بیانی کی کوئی تاویل پیش کرسکے۔ (دو اسلام ص۱۸۳، ۱۸۴)
ازالہ
برق صاحب صحیح بخاری کا تو اعتبار کیا جاسکتا ہے، یہاں ہر چیز باسند ہے، رہی تاریخ تو اس کا اعتبار کیسے ہوسکتا ہے، وہاں الا ماشاء اللہ ہر چیز بے سند ، من گھڑت، لہٰذا ہم تو یہ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری کی مدت صحیح ہونی چاہیے، اور تاریخ کی غلط لیکن بات در حقیقت یہ ہے کہ نہ صحیح بخاری کی مدت غلط ہے نہ تاریخ کی، برق صاحب کو غلط فہمی ہوگئی، تاریخ میں بنائے ابراہیم علیہ السلام اور بنائے سلیمان علیہ السلام کی درمیانی مدت کا ذکر ہے، اور صحیح بخاری میں ان دونوں کی بنائے اولین کی درمیانی مدت کا بیان ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اگر حقیقتاً مسجد اقصیٰ ایک مرتبہ پہلے بن چکی تھی، تو تاریخی ثبوت لائیے، کوئی کتاب سند یا روایت پیش کیجئے۔ (دو اسلام ص ۱۸۴)
ازالہ
تاریخی ثبوت کی ہمیں کیا ضرورت؟ تاریخ کا کیا اعتبار؟ کتاب جو پیش کی جا رہی ہے، وہ صحیح بخاری ہے، سند جو پیش کی جا رہی ہے، وہ ٹھوس و مستند ہے، کتاب بھی اصح الکتب بعد القرآن، مقبول انام، اور سند بھی ٹکسالی بھلا اس کو تقویت دینے کے لیے کسی تاریخ کے ضعیف، غیر مستند حوالہ کی ضرورت ہے؟ ہاں یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ فلاں تاریخی واقعہ کے لیے صحیح بخاری سے تائیداً کوئی روایت پیش کیجئے، لیکن اس کا عکس بالکل نامناسب اور لا یعنی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
حدیث زیر بحث اور تاریخ:
ہمیں ضرورت تو نہیں کہ صحیح بخاری کی تائید میں کوئی کتاب یا روایت پیش کریں، لیکن برق صاحب کی خاطر یہ مطالبہ بھی پورا کیے دیتے ہیں، امام قرطبی فرماتے ہیں:
قدروی ان اول من نبی البیت اٰدم
بے شک روایت کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے کعبہ کو آدم علیہ السلام نے بنایا تھا۔
(حاشیہ نسائی مرتبہ اشفاق الرحمن صاحب مطبوعہ مکتبہ رحیمہ دہلی ص۸۰)
مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ عطاء سعید بن مسیب وغیرہما کہتے ہیں:
ان اٰدم بناہ (تفسیر ابن کثیر ج۱، ص۱۷۳)
اس کو آدم علیہ السلام نے بنایا ہے۔
اشفاق الرحمن صاحب تحریر فرماتے ہیں:
قال الحافظ ابن حجر فی کتاب التیجان لابن ھشام ان اٰدم لما بنی الکعبۃ امرہ اللہ تعالی بالسیر الی بیت المقدس وان یبنیہ فبناہ ونسک فیہ ۔ (حاشیہ نسائی ص۸۰)
حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ ابن ہشام کی کتاب التیجان میں ہے کہ جب آدم علیہ السلام کعبہ تعمیر کرچکے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بیت المقدس کی صرف جانے کا حکم دیا، اور اس کو بنانے کا حکم دیا پس آدم علیہ السلام نے اس کو بنایا اور اس میں عبارت کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
لہٰذا حدیث زیر بحث میں جن عمارتوں کا ذکر ہے، وہ آدم علیہ السلام کی تعمیر کردہ عمارتیں ہیں، نہ کہ ابراہیمی اور سلیمانی عمارتیں لیجئے اب تو تاریخ سے بھی حدیث کی تائید ہوگئی، برق صاحب ذرا تحقیق سے کام لیتے تو یہ غلط فہمی نہ ہوتی، اس کی مزید تائید کے لیے مندرجہ ذیل روایت ملاحظہ فرمائیں:
عن ابن عباس قال لمامر رسول اللہ ﷺ بوادی عسفان حین حج قال یا ابا بکرای واد ھذا قال وادی عسفان قال لقدمر بہ ھود وصالح علی بکرات حمر خطمھا اللیف ازرھم العباء واردیتھم النمار یلیون یحجون البیت العتیق۔ (مسند امام احمد فتح ربانی جز ۲۰، ص۴۲)
یعنی حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کرتے وقت وادی عسفان سے گزرے، تو آپ نے دریافت فرمایا، اے ابوبکر یہ کون سی وادی ہے، انہوں نے عرض کیا یہ وادی عسفان ہے، آپ نے فرمایا، یہاں سے یہود اور صالح علیہ السلام بھی سرخ اونٹنیوں پر گزرے ہیں... وہ حج کرتے تھے اس بیت عتیق (یعنی کعبہ) کا۔
کیونکہ ان دونوں پیغمبروں کا زمانہ ابراہیم علیہ السلام سے پہلے ہے، لہٰذا کعبہ حضرت ابراہیم سے پہلے بھی موجود تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
حدیث زیر بحث اور صحیح بخاری

صحیح بخاری کی حدیث مذکورہ مع اپنے سیاق و سباق کے خود اس کی تشریح کے لیے کافی ہے، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا سوال ملاحظہ فرمائیے، وہ پوچھتے ہیں:
ای مسجد وضع فی الارض اول
روئے زمین پر سب سے پہلے کونسی مسجد بنائی گئی۔
اس سوال کے بعد بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس سے مراد بنائے ابراہیمی ہے کیا ابراہیم علیہ السلام سے پہلے مساجد نہیں تھیں، ضرور تھیں، لہٰذا سوال اپنی جگہ پر واضح ہے کہ انسانی آبادی کے بعد جو مسجد سب سے پہلے بنائی گئی وہ کونسی تھی، اور یہ وہی مسجد ہوسکتی ہے جس کو آدم علیہ السلام نے بنایا ہو، لہٰذا حدیث مذکورہ اعتراض سے بالکل خالی ہے۔
 
Top