• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
حدیث زیر بحث اور قرآن مجید
برق صاحب تو حدیث کی تائید میں تاریخی حوالہ کا مطالبہ کرتے تھے۔ ہم حدیث کی تائید میں قرآن مجید کی آیات پیش کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًاوَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ } (اٰل عمران)
سب سے پہلا گھر جو انسانوں کی عبادت کے لیے بنایا گیا وہ ، وہ ہے جو مکہ میں ہے، برکت والا اور عالمین کے لیے ہدات۔
اگر اس سے مراد بنائے ابراہیمی ہے، تو جو اعتراض حدیث پر تھا، وہی قرآن پر ہوگا، ابراہیم علیہ السلام سے پہلے سیکڑوں پیغمبر دنیا میں تشریف لائے، کیا کسی نے مسجد نہیں بنائی؟ سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام نے مسجد بنائی، یہ بات بالکل قرین قیاس نہیں ہوسکتی، برق صاحب بات دراصل یہ ہے کہ آپ تو خیر صحیح حدیث کو مانتے تو ہیں کہیں کہیں آپ کو غلط فہمی ہوجاتی ہے، بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو قطعا حدیث کو نہیں مانتے، حدیث پر لغو قسم کے اعتراض کرتے رہتے ہیں، معلوم نہیں کس وجہ سے وہ اس قسم کا اعتراض قرآن پر نہیں کرتے اور پھر اس کی صحت کا انکار نہیں کرتے، غالباً اس کی وجہ یہی ہوگی کہ وہ اپنے گمان میں یہ سمجھتے ہیں کہ پھر ہمیں مسلمان کون کہے گا حدیث کی مخالفت اور قرآن کی موافقت سے بہرحال نادان لوگ ہمیں مسلمان تو سمجھ لیتے ہیں، اور ہماری بات سن لیتے ہیں اور مان لیتے ہیں اگر قرآن کا انکار کریں، یا اس پر اعتراض کریں، تو کوئی کچھ سنے گا ہی نہیں حالانکہ وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں، وہ مسلمان رہ کر بھی قرآن کا انکار کرسکتے ہیں، وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کو ایک مانتے ہیں، قیامت پر فرشتوں پر کتب سماوی پر اور رسولوں پر ہمارا ایمان ہے، لیکن یہ قرآن وہ قرآن نہیں ہے، جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا تھا، اس میں تحریف ہوچکی ہے، اور مسلمانوں کا ایک جم غفیر اس تحریف پر ایمان رکھتا ہے اور خود قرآن کی عبارت بھی اس کی شاہد ہے، وہ یہ کہ ہم اس بات پر کبھی یقین نہیں کرسکتے کہ ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کوئی مسجد تھی ہی نہیں اوریہ کہ روئے زمین پر سب سے پہلی مسجد بنائے ابراہیمی ہے یہ ایک تاریخی غلطی ہے، جو کسی دشمن اسلام نے پیغمبر اسلام کو بدنام کرنے کے لیے قرآن میں داخل کردی ہے، وغیرہ وغیرہ ، کاش یہ لوگ حدیث کا انکار کرنے سے پہلے قرآن پر بھی نظر ڈال لیتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
حدیث زیر بحث کی تائید میں ایک اور قرآنی شہادت
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
{ وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرَھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ } (البقرۃ)
اور وہ وقت یاد کرو جب حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کعبہ کی بنیادوں کو اٹھا رہے تھے، اور وہ دعا کر رہے تھے کہ ہمارے رب اس خدمت کو ہم سے قبول فرما، بیشک تو سمیع و علیم ہے۔
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں، اول بنیادیں پہلے سے موجود تھیں جن کو اٹھایا جا رہا تھا یعنی کعبہ کبھی پہلے تعمیر ہوچکا تھا، جس کی بنیادیں باقی رہ گئی تھیں، حافظ عماد الدین ابن کثیر لکھتے ہیں:
وفی ھذا السیاق ما بدل علی ان قواعد البیت کانت مبنیۃ قبل ابراھیم (تفسیر ابن کثیر جاول، ص۱۷۹)
یعنی اس سیاق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کعبہ کی بنیادیں تعمیر ابراہیم علیہ السلام سے پہلے موجود تھیں۔
مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
القواعد التی کانت قواعد البیت قبل ذلک
یعنی کعبہ کی بنیادیں پہلے سے موجود تھیں (تفسیر ابن کثیر جلد اول ، ص۱۷۹)
دوم کعبہ کی تعمیر میں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام بھی شریک تھے دوسری آیت میں ارشاد باری ہے:
{ رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّم } (ابراہیم)
(ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں) اے ہمارے رب میں نے اپنی اولاد کو اس بنجر وادی میں تیرے باحرمت گھر کے پاس آباد کردیا ہے۔
اس آیت سے ظاہر ہے کہ اسمٰعیل علیہ السلام کے آباد کرنے سے پہلے وہاں کوئی باحرمت مسجد موجود تھی، جس کے قرب کو حاصل کرنے کے لیے حضرت اسمٰعیل کو وہاں آباد کیا گیا، آباد کرنے کا واقعہ اسمٰعیل علیہ السلام کی شیر خوارگی کے زمانہ میں واقعہ ہوا تھا، ظاہر ہے کہ اس وقت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کردہ کعبہ کی عمارت وہاں موجود نہ تھی، کیونکہ وہ تو بعد میں نبی اور اسمٰعیل علیہ السلام کی جوانی کے زمانہ میں بنائی گئی وہ بھی اس تعمیر میں شریک تھے، اگر آباد کرنے کا واقعہ بعد کا واقعہ ہے، تب تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کرنے کے بعد اس باحرمت گھر کی قربت و برکت حاصل کرنے کے لیے حضرت اسمٰعیل کو وہاں آباد کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آباد پہلے کیا گیا، اور کعبہ بعد میں بنایا گیا، آباد اس لیے کیا گیا کہ یہاں اللہ کا باحرمت گھر تھا، ورنہ اس بے آب و گیاہ ریگستان میں آباد کرنے کا کوئی مقصد نہیں نظر نہیں آتا، کسی دوسری اچھی جگہ بھی آباد کیا جاسکتا تھا، اور وہاں مسجد تعمیر ہوسکتی تھی، لہٰذا ان دونوں آیتوں سے ثابت ہوا کہ کعبہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بہت پہلے ہوچکی تھی، مرور ایام سے یا طوفان نوح میں اس کی عمارت منہدم ہوگئی تھی، صرف بنیاد باقی رہ گئی تھی اور اسی بنیاد پر ابراہیم علیہ السلام نے ازسر نو کعبہ کی تعمیر کی تھی ، اس کی مزید تائید میں قرآن مجید کی یہ آیت ملاحظہ فرمائیے، اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم کو حکم دیتا ہے۔
{ وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ } (حج )
اور حج کرنے کے لیے لوگوں میں اعلان کردو۔
پھر فرمایا:
{ ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَھُمْ وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ } (حج)
اے ابراہیم! جب لوگ حج کرنے آئیں اور قربانی کرچکیں تو پھر وہ نہائیں دھوئیں، اپنی نذریں پوری کریں اور اس بیت قدیم کا طواف کریں۔
(بیت عتیق کے معنی پرانا گھر، مفتاح اللغات) اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو جو حج کا حکم دیا، تو اس کعبہ کو بیت قدیم کہا، اگر یہ ابراہیم علیہ السلام ہی نے بنایا ہوتا تو بیت جدید کہنا چاہیے تھا، بیت قدیم کہنے سے یہ ثابت ہوگیا کہ یہ گھر بہت پرانا تھا، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے صدیوں پہلے بنایا گیا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
اب بیت المقدس کے متعلق قرآن کا فیصلہ سنیے، جب آگ کی تلاش میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر پہنچے تو آواز آئی:
{ اِنِّیْٓ اَنَا رَبُّکَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ اِنَّکَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی } (طٰہ)
اے موسیٰ میں تمہارا رب ہوں، تم اپنی جوتیاں اتار دو، تم مقدس میدان میں کھڑے ہو۔
اس آیت سے ظاہر ہے کہ طور پہاڑ اور اس کا میدانی علاقہ پہلے سے مقدس تھا، اور یہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ جب وہاں پہلے سے کوئی بیت مقدس چلا آرہا ہو، جس کی وجہ سے آس پاس کا علاقہ بھی محترم قرار دے دیا گیا ہو، پس اس آیت سے ظاہر ہوا کہ سلیمان علیہ السلام تو کجا موسیٰ علیہ السلام سے بھی بہت پہلے یہاں کوئی بیت مقدس موجود تھا، جس کی وجہ سے تمام قرب و جوار کا علاقہ بابرکت و باحرمت تھا، اسی برکت اور حرمت کا ذکر قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت میں بھی موجود ہے:
{ سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ } (بنی اسرائیل)
پاک ہے وہ جو لے گیا راتوں رات اپنے بندے کو کعبہ سے بیت المقدس، وہ بیت المقدس جس کے آس پاس علاقے کو ہم نے بابرکت بنایا ہے۔
غرض یہ کہ بیت المقدس اور اس کے آس پاس کا علاقہ مقدس و بابرکت تھا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ جوتیاں اتار دو، دوسری جگہ ارشاد ہے:
{ فَانْتَقَمْنَا مِنْھُمْ فَاَغْرَقْنٰھُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّھُمْ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ کَانُوْا عَنْھَا غٰفِلِیْنَ۔وَ اَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَھَا الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا وَ تَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ } (الاعراف)
ہم نے قوم فرعون سے انتقام لیا، اور ان کو دریا میں غرق کردیا، اس وجہ سے کہ انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا، اور اس سے غفلت برتی، اور ہم نے کمزور قوم کو اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا، جہاں کہ ہم نے برکت رکھی تھی، اور بنی اسرائیل پر تیرے رب کی نعمت پوری ہوگئی۔
اس آیت میں بھی شام وفلسطین کی برکت کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ موسیٰ علیہ السلام ہجرت کرکے وہیں چلے گئے تھے، اور یہ برکت اس سرزمین میںموسیٰ علیہ السلام سے قبل ایک زمانہ سے چلی آرہی تھی۔
ایک اور آیت ملاحظہ فرمائیے:
{ یٰقَوْمِ ادْخُلُوْا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللہُ لَکُمْ } (المائدہ)
(حضرت موسیٰ نے فرمایا) اے قوم ارض مقدس میں داخل ہو جاؤ، یہ اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے۔
موسیٰ علیہ السلام کا اس سرزمین کو مقدس فرمانا، اسی وقت صحیح ہوسکتا ہے، جب وہ زمین پہلے سے مقدس چلی آرہی ہو، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جب تک وہاں کوئی بیت مقدس نہ ہو، محض زمین مقدس نہیں ہوسکتی پس ثابت ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ سے صدیوں پہلے اس سرزمین میں بیت المقدس تعمیر ہوچکا تھا، قرآن سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ بیت المقدس کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا، ہاں یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام سے بہت پہلے بیت المقدس کو تعمیر کیا گیا تھا، اور اگر ہم یہ بھی فرض کرلیں کہ سلیمان علیہ السلام نے بیت المقدس کو بنایا تھا، تو یہ بنائے ثانیہ ہوگی نہ کہ بنائے اولیں، اس لیے کہ بنائے اولین تو موسیٰ علیہ السلام سے بھی پہلے بن چکی تھی۔
اس تمام بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ حدیث زیر بحث میں کعبہ اور بیت المقدس کی بنائے اولیں کا ذکر ہے جو ابراہیم علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام سے بہت پہلے بنائی گئی تھیں، اور ان دونوں بنائے اولیں کی درمیانی مدت چالیس سال تھی، کاش برق صاحب قرآن مجید کا غور سے مطالعہ فرماتے تو ان دونوں عمارتوں کی بنائے اولین کا ثبوت انہیں قرآن ہی میں مل جاتا، اور یہ غلط فہمی نہ ہوتی، حقیقت یہ ہے کہ حدیث فہمی میں غلطی ہوتی ہی اس وقت ہے جب کہ اس ضمن میں قرآن مجید سے پوری طرح واقفیت نہیں ہوتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اگر ہم یہ کہہ دیں ممکن ہے کہ امریکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دریافت کیا تو کیا آپ مان لیں گے۔ (دو اسلام ص۱۸۴)
ازالہ
یہ بات اگر آپ اپنی طرف سے کہیں گے تو ہم نہیں مانیں گے، اگر آپ آیت یا حدیث پیش کریں گے تو ہم ضرور مان لیں گے، آیت اور حدیث کا تعلق ایمان سے ہے، ہمارا ایمان ہے کہ آیت یا حدیث کی خبر غلط نہیں ہوسکتی، اس کا صحیح ہونا یقینی ہے ، لہٰذا یقینی چیز کو تاریخی خرافات کے بل بوتے پر ہم ہرگز نہیں چھوڑ سکتے، مثلاً ہمارا ایمان ہے کہ قرآن کے مطابق سب سے پہلی مسجد کعبہ ہے، لیکن کعبہ تاریخی روایات کی بنا پر اور خود قرآن کی تصریح کی بنا پر ابراہیم علیہ السلام کا بنایا ہوا ہے ، لہٰذا اس کے سب سے پہلی مسجد مان لینے سے یہ اشکال پیدا ہوگا کہ گویا ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کوئی مسجد بنی ہی نہیں، اور یہ ناممکن ہے۔ لہٰذا اس اشکال کو دور کرنے کے لیے ہم یہی کہیں گے کہ ممکن ہے کہ سب سے پہلے آدم علیہ السلام نے اس کو بنایا ہو، اور ابراہیم علیہ السلام نے صرف تجدید کی ہو، لیکن اس اشکال کی وجہ سے ہم کبھی یہ نہ کہیں گے کہ یہ آیت ہی محل نظر ہے، ممکن ہے انسانی اضافہ ہو، برق صاحب کا یہ کہنا کہ ''ممکن ہے ایسا ہوا ہو'' یا '' تاویل کرنا'' اسی لیے ضروری ہوتا ہے کہ یقینی چیز پر شک نہیں کیا جاسکتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
سیرت کی تمام کتابیں اس حقیقت میں متفق ہیں کہ حضور علیہ السلام کی عمر تریسٹھ برس تھی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت بھی اس کی تصدیق کرتی ہے۔
عن عائشۃ ان النبی ﷺ تو فی وھو ابن ثلاث وستین
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ سال کی عمر میں رحلت کی۔ (بخاری جلد ۲، ص۱۷۵)
لیکن حضور کے خادم خاص حضرت انس جو ۱۲۶۸۔ احادیث کے راوی بھی ہیں، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ساٹھ برس تھی... ۔ (دو اسلام ص ۱۸۵)
بے شمار کتب سیرت کی شہادت اور ابن عباس رضی اللہ عنہ و عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کی روشنی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت قطعاً غلط ہے۔ حیرت ہے کہ امام بخاری نے اس غلط روایت کو اپنی صحیح، میں کیوں جگہ دی اور زیادہ حیرت اس امر پر کہ جس انس کو اپنے آقا، رہبر اور پیغمبر کی عمر تک معلوم نہیں تھی اس کی باقی ۸۳ روایات کو امام بخاری نے کیسے صحیح سمجھ لیا۔ (دو اسلام ۱۸۶)
ازالہ
برق صاحب کو غلط فہمی ہوئی، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے دہائیوں کا ذکر کیا ہے، اور تین سال کی مدت کو غیر اہم سمجھ کر چھوڑ دیا ہے، یہ نہیں کہ انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر معلوم نہیں تھی، معلوم تھی اور ضرور معلوم تھی، انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
قبض رسول اللہ ﷺ وھو ابن ثلاث وستین۔ (صحیح مسلم)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ۶۳ برس کی عمر میں ہوئی۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کو اصلی عمر بھی معلوم تھی اور کبھی اکائیوں کو حذف بھی کردیا کرتے تھے، اور صرف دہائیوں کا ذکر کردیتے تھے، لہٰذا صرف دہائیوں کی روایت بالکل صحیح ہے اور اسی وجہ سے امام بخاری نے اس کو اپنی صحیح میں شامل کرلیا، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے شمائل نبوی کے ضمن میں بہت سی احادیث مروی ہیں جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا حلیہ اور اخلاق ہمارے سامنے آجاتا ہے، برق صاحب کی وارد کردہ مذکورہ بالا روایت ہی میں حضرت انس کے یہ الفاظ بھی ہیں:
ولیس فی رأسہ ولحیتہ عشرون شعرۃ بیضا۔
وفات کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی اور سر میں بیس بال بھی سفید نہیں تھے۔
غرض حضرت انس رضی اللہ عنہ نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ بڑی باریک بینی سے کیا ، حتیٰ کہ سفید بالوں کی تعداد کے متعلق بھی معلومات فراہم کردیں، بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ یہ بال کہاں کہاں تھے۔ (صحیح مسلم)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ وَاَرْسَلْنٰہُ اِلٰی مِائَۃِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَ } (صفات)
اور ہم نے یونس کو رسول بنا کر بھیجا، ایک لاکھ آدمیوں کی طرف یا اس سے کچھ زیادہ کی طرف۔
کیا اس آیت سے یہ غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو صحیح تعداد معلوم نہ تھی، پہلے ایک لاکھ کہا پھر فرمایا '' یا کچھ زیادہ ہوں گے، کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اللہ بھی خوب ہے، جس کو صحیح تعداد بھی معلوم نہ تھی، پھر کیا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اللہ کو تو ہر بات کا علم ہے، اس کو تعداد کے متعلق شک ہونا ناممکن ہے۔ لہٰذا یہ آیت ہی محل نظر ہے؟ کسی دشمن اسلام یہودی کا کارنامہ ہے؟ نعوذ باللہ من ذلک۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ایک طرز بیان ہے، اس میں شک کی گنجائش نہیں، اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ کا ایک طرز بیان ہے (یعنی اکائیوں کو حذف) اور شک کی اس میں بھی گنجائش نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
عطار بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا تورات میں حضور پر نور کے متعلق کوئی آیت موجود ہے، کہا کیوں نہیں، آپ کے متعلق یہ آیت تورات میں موجود ہے۔
{ یا ایھا النبی انا رسلناک شاھدا ومبشرا ونذیراً وحزرا للامیین انت عبدی ورسولی سمیتک المتوکل لیس بفظ ولا غلیظ۔ الخ }
اے رسول ہم نے تمہیں شاہد، بشیر، نذیر، اور ان پڑھ عربوں کا محافظ بنا کر بھیجا ہے، تو میرا بندہ اور رسول ہے... تو نہ ترش مزاج ہے اور نہ تند طبیع الخ۔
تورات کو '' الف'' سے '' یا'' تک پڑھ جاو، یہ الفاظ کہیں نہیں ملیں گے۔ (دو اسلام ص۱۸۶۔ ۱۸۷)
ازالہ
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کے اصل الفاظ یہ ہیں:
واللہ انی الموصوف فی التورٰۃ ببعض صفتہ فی القراٰن
اللہ کی قسم آپ کی بعض صفتیں جو قرآن میں ہیں تورات میں بھی ہیں۔
اس کے آگے وہ الفاظ ہیں، جو برق صاحب نے نقل کئے ہیں، یہ حدیث صرف عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ہی سے مروی نہیں ہے، بلکہ دارمی میں بھی مشہور یہودی عالم حضرت عبداللہ بن سلام سے بھی مروی ہیں۔ (ملاحظہ ہو مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین) عطاء کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرو سے یہ حدیث سننے کے بعد مشہور یہودی عالم کعب احبار سے ملا، تو انہوں نے اس کی تصدیق کی بلکہ کچھ اور زائد صفات بتائے جو تفسیر ابن جریر میں محفوظ ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر جلد ۲، ص۲۵۳)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی لڑکا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا جب وہ بیمار ہوا، تو حضور اس کی عیادت کو گئے، اس لڑکے کا باپ اس کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا، اور تورات پڑھ رہا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے قسم دے کر پوچھا کہ کیا میری صفت تورات میں ہے، اس نے کہا نہیں، لڑکے نے بستر مرگ پر کہا، بے شک آپ کی صفت تورات میں ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور یہ کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ (مشکوٰۃ باب اسماء النبی صلی اللہ علیہ وسلم )
اسی طرح کی ایک روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی کے مقروض تھے، اس نے آپ کے ساتھ کچھ زیادتی بھی کی اور بعد مسلمان ہوگیا، پھر کہا۔
واللہ مافعلت بک الذی فعلت بک الا لانظر الی نعتک فی التوراۃ۔
میں نے جو کچھ آپ کے ساتھ کیا اس لیے کیا کہ میں آپ کی صفات کو جو تورات میں ہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
پھر اس شخص نے بھی آپ کی صفات میں تورات کے وہی الفاظ نقل کئے، جو برق صاحب کی نقل کردہ حدیث میں ہیں۔ (مشکوٰۃ باب فی اغلاقہ)
الغرض تورات میں آپ کی توصیف ہونا یہ ایک مسلمہ امر ہے جو بتواتر ثابت ہے لیکن برق صاحب کو اس سے انکار ہے، برق صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو توصیف تورات میں ہے، اس کا ذکر تو قرآن میں بھی ہے، تو کیا قرآن کا بھی انکار کیا جاسکتا ہے، قرآن میں ہے۔
{ اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ...اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ } (اعراف)
جو لوگ رسول نبی امی کی پیروی کرتے ہیں، جس کے اوصاف کا ذکر تورات اور انجیل میں ہے ... وہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔
دوسری جگہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
{ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَائَھُمْ } (البقرۃ)
اہل کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح پہچانتے ہیں، جیسے اپنے بیٹوں کو۔
تیسری جگہ ارشاد ہے:
{ مَثَلَھُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَمَثَلُھُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ } (الفتح)
رسول کے صحابہ کی صفات بھی تورات و انجیل میں موجود ہیں۔
لیجئے، اب تو قرآن سے ثابت ہوگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات تورات میں موجود ہیں، اب کیا قرآن کی آیت بھی صحیح نہیں، اس لیے کہ موجودہ تورات میں آپ کی کوئی صفت موجود نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ممکن ہے کہ آپ یہ کہہ دیں کہ اجی صاحب! تورات میں تو اس قدر تحریف ہوچکی ہے کہ اس کی کوئی کل سیدھی نہیں رہی، یہ آیت ملے تو کہاں ہے؟ اس کے دو جواب ہیں، اول اگر تحریف ہوچکی تھی تو ابن عمر نے وہ آیت کہاں سے دیکھ لی تھی۔ (دو اسلام ص ۱۸۷)
ازالہ
بے شک ہم یہی کہتے ہیں کہ تورات محرف ہوچکی ہے، لہٰذا یہ عبارت اس میں نہیں، اب سوال یہ ہے کہ پھر عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو کہاں سے معلوم ہوا، اس کے دو جواب ہیں:
اول یہ حدیث اگرچہ موقوف ہے لیکن حکماً مرفوع ہے، اس لیے کہ عبداللہ بن عمرو اس قسم کی خبر خود نہیں دے سکتے، بلکہ انہوں نے یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوگی، اور پھر اس کو بیان کیا ہوگا، یہ حدیث اخبار غیب میں سے ہے، اور اس کی تصدیق ایمان بالرسول کا نتیجہ ہے، اس کی تکذیب رسول کی تکذیب ہے، اور ایمان بالرسول کا تقاضا یہ ہے کہ اس حدیث کی روشنی میں موجودہ تورات کو محرف سمجھا جائے، اور یہی ہمارا اصلی جواب ہے۔
دوم: انا جیل کے اس وقت چار متد اول نسخے ہیں، جو عیسائی دنیا میں مستند مانے جاتے ہیں حالانکہ حقیقتاً انجیل کے صرف یہی چار نسخے نہیں، اور بھی ہیں، ان میں سے بعض نسخے اب بھی مل جاتے ہیں جو کہیں کہیں کسی کتب خانے میں دبے پڑے ہیں، ان میں سے ایک نسخہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فارقلیط والی پیشین گوئی موجود ہے لیکن ان چار مشہور نسخوں میں سے یہ پیشین گوئی خارج کردی گئی ہے، ہوسکتا ہے کہ تورات کے بھی ایک سے زیادہ نسخے عہد رسالت میں پائے جاتے ہوں، اور کسی غیر مشہور نایاب نسخہ میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے یہ صفات دیکھ لیے ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
عجیب و غریب
برق صاحب نے تاریخی حوالے اور مسیح مصنفین کی تصریحات کا تذکرہ کیا ہے، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ تورات میں تحریف ہوئی، لیکن ان تمام تاریخی مندرجات اور محققین کے فیصلوں کو صحیح تسلیم نہیں کیا، بلکہ قرآن کی روشنی میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش فرمائی ہے کہ تورات میں تحریف نہیں ہوئی، بلکہ وہ اب بھی ویسی ہی موجود ہے، جیسے نازل ہوئی تھی ہم بھی برق صاحب کی خاطر اسے تسلیم کیے لیتے ہیں، لیکن مشکل یہ ہے کہ وہ اپنی ہی کتاب کے صفحہ ۳۴۷ پر لکھتے ہیں کہ ہر وہ حدیث بلا دریغ ٹھکرا دی جائے، جو مسلمہ تاریخی واقعات کی تردید کرتی ہو۔ (دو اسلام) تو اب ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ تحریف تو مسلمہ تاریخی واقعہ ہے، لہٰذا جس آیت سے تحریف کی تردید ہوتی ہو، وہ قابل رو ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اگر مسلمہ تاریخی واقعہ کے خلاف آیت صحیح ہوسکتی ہے تو حدیث صحیح کیوں نہیں ہوسکتی؟ یا پھر یہ کہیے کہ یہ معیار ہی غلط ہے، اس لیے کہ اس معیار پر تو قرآن بھی پورا نہیں اترتا تفصیل کے لیے آخری باب ملاحظہ فرمائیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
آخر یہودیوں میں بھی ایسے ہزارہا اشخاص موجود ہوں گے جنہیں اپنی کتاب سے اسی طرح محبت ہوگی، جس طرح ہمیں قرآن سے۔ (دو اسلام ص۱۸۸)
ازالہ
جی ہاں! انہیں ایسی ہی محبت ہوگی ، جس طرح ایک عظیم نام نہاد مسلم فرقہ کو قرآن سے ہے، جو قرآن کو محرف خیال کرتا ہے، یا جس طرح ہمارے پیٹ پرست علماء کو معنوی تحریف کے وجود قرآن سے محبت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
دوم: حضرت مسیح نے اعلان کیا تھا، جب تک زمین و آسمان نہ ٹل جائیں ایک نقطہ یا شوشہ تورات سے ہرگز نہیں ٹلے گا، اگر تورات محرف ہوچکی تھی، تو حضرت مسیح اتنے زور سے یہ اعلان کیوں کرتے۔ (دو اسلام ص ۱۸۸)
ازالہ
برق صاحب گویا آپ کے نزدیک موجودہ اناجیل میں جو کچھ ہے، سب صحیح ہے، حالانکہ یہ اناجیل تحریف شدہ بلکہ وضع کردہ کتابیں ہیں، ان کے مضامین میں تناقض و تضاد ہے، قاضی محمد سلیمان صاحب سلمان منصورپوری سابق جج ریاست پٹیالہ تحریر فرماتے ہیں:
ان میں اتنا تناقض موجود ہے کہ تطبیق دینا سخت دشوار ہے، آدم کلارک ، نورٹن اور ہارون صاحب انجیل کے مشہور شارح ہیں، تینوں کا متفقہ قول ہے کہ تطبیق کی کوئی صورت موجود نہیں، پادری فرنچ کو اقرار ہے کہ ان انجیلوں کی چار پانچ آیتوں میں تحریف بھی ہوئی ہے، نیز وہ یہ بھی اقرار کرتا ہے کہ ان میں چھوٹی موٹی تیس ہزار غلطیاں موجود ہیں۔(رحمۃ للعالمین جلد ۳، ص۳۱۶۔ ۳۱۷)
برق صاحب آپنے انجیل کی اصل نازل شدہ عبارت نقل نہیں کی، بلکہ صرف ترجمہ کا ترجمہ نقل فرمایا ہے، لہٰذا ہم نہیں کہہ سکتے کہ '' نقطہ یا شوشہ'' سے کیا مراد ہے، اگر اس سے رسم الخط مراد ہے تو برق صاحب وہ تو معدوم و ناپید ہے، جس زبان میں تورات نازل ہوئی ، اس زبان میں تورات کہیں نہیں، اور اگر اس سے احکام مراد ہیں، تو یہ بھی ٹل گئے، عیسیٰ علیہ السلام نے بہت سے احکام کو بدل دیا، قرآن میں ہے:
{ وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰۃِ وَ لِاُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ } (ال عمران)
عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : میں تورات کی تصدیق کرتا ہوں اور میں اس لیے آیا ہوں کہ بعض چیزیں جو تم پر حرام کی گئی تھیں، ان کو حلال کردوں۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام نے بہت سے احکام کو بدل دیا تھا، ورنہ تورات کی موجودگی میں انجیل کی ضرورت ہی نہ تھی، لہٰذا تورات کا شوشہ تک نہ بدلنا مہمل ہے، یا پھر نزول انجیل لغو وعبث فعل ہے، الغرض یہ قول جو برق صاحب نے نقل کیا ہے عیسیٰ علیہ السلام کی طرف غلط منسوب ہے۔
 
Top