- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
غلط فہمی
آپ کہہ سکتے ہیں کہ جب یہ صورت حالات ہے تو پھر مسلمان بننے کی ضرورت کہاں باقی رہ جاتی ہے، عیسائی رہ کر بھی نیک عمل کئے جاؤ، نہ قرآن پر ایمان لانے کی ضرورت اور نہ رسول پہ، سارے اسلام سے چھٹی مل گئی، یہ سوال اسلام کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے، اسلام کسی زبانی اقرار کا نام نہیں، بلکہ نیکی کا نام ہے، اگر ایک عیسائی نیکی کر رہا ہے، تو وہ قرآن کی رو سے مسلمان ہے، رسول و قرآن کا صحیح پیرو وہی ہے۔ (دو اسلام ص ۱۹۳)
ازالہ
اس کے جواب میں کچھ آیات اوپر نقل ہوئیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن پر ایمان لانا ضروری ہے، اگر ایک شخص نیکی تو کرتا ہے، لیکن قرآن کے متعلق کہتا ہے کہ (نعوذ باللہ) ایک شخص نے اُسے گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کردیا، تو کیا وہ شخص مسلمان کہلا سکتا ہے، ہرگز نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ اِلٰٓی اِبْرٰھٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ مَآ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ۔ فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِیْ شِقَاقٍ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللہُ وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ } (البقرۃ)
(اے مسلمانو! اہل کتاب سے کہہ دو) کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو نازل ہوا ہم پر اور جو ابراہیم، اسمٰعیل، اسحق اور یعقوب اور اسباط پر نازل ہوا، اور جو صحائف موسیٰ اور عیسیٰ اور جملہ انبیاء کو دئیے گئے، ان پر بھی ایمان لائے ہم ان میں سے کسی ایک کی بھی تفریق نہیں کرتے اور ہم صرف اللہ کے مطیع ہیں، پس اگر وہ اس طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لائے ہو، تو وہ ہدایت یاب ہوگئے، اور اگر منہ موڑیں، تو وہ شقاق میں مبتلا ہیں، اللہ ان سب کے خلاف آپ کے لیے کافی ہے اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ جب تک وہ مسلمانوں کی طرح قرآن پر ایمان نہ لائیں، ہدایت نہیں پاسکتے، دوسری آیت ملاحظہ فرمائیے:
{ قُلْ اٰمَنَّا بِاللہِ وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ۔ وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ } (اٰل عمران)
اے رسول آپ کہہ دیجئے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو ہم پر نازل ہوا، اس پر ایمان لائے اور اس پر بھی ایمان لائے جو ابراہیم، اسمٰعیل، اسحاق، یعقوب اور اسباط پر نازل ہوا ، اور موسیٰ اور عیسیٰ اور جملہ انبیاء پرنازل ہوا، ہم ان میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے، اور ہم اسی کے مسلم ہیں، اور جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی دین اختیار کرے گا، وہ اس سے ہرگز قبول نہیں ہوگا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں سے ہوگا۔
اس آیت میں پھر بڑے زور کے ساتھ اہل کتاب کو قرآن پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے، قرآن اور جملہ کتب سماوی پر ایمان لانے کی دعوت دے کر فرمایا، یہ ہے اسلام ، اب جو شخص اس کو اختیار نہیں کرے گا، وہ تباہ و برباد ہوگا، اور اس کا دین قبول نہیں ہوگا، اس آیت سے معلوم ہوا کہ اسلام، قرآن پر ایمان لانے اور قرآن پر عمل کرنے کا نام ہے، نہ یہ کہ قرآن کی تکذیب کرے، اس کا مذاق اڑائے، بس نیکی کرتا رہے، تو وہ مسلمان ہوگیا، ہرگز ایسا نہیں ،
آپ کہہ سکتے ہیں کہ جب یہ صورت حالات ہے تو پھر مسلمان بننے کی ضرورت کہاں باقی رہ جاتی ہے، عیسائی رہ کر بھی نیک عمل کئے جاؤ، نہ قرآن پر ایمان لانے کی ضرورت اور نہ رسول پہ، سارے اسلام سے چھٹی مل گئی، یہ سوال اسلام کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے، اسلام کسی زبانی اقرار کا نام نہیں، بلکہ نیکی کا نام ہے، اگر ایک عیسائی نیکی کر رہا ہے، تو وہ قرآن کی رو سے مسلمان ہے، رسول و قرآن کا صحیح پیرو وہی ہے۔ (دو اسلام ص ۱۹۳)
ازالہ
اس کے جواب میں کچھ آیات اوپر نقل ہوئیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن پر ایمان لانا ضروری ہے، اگر ایک شخص نیکی تو کرتا ہے، لیکن قرآن کے متعلق کہتا ہے کہ (نعوذ باللہ) ایک شخص نے اُسے گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کردیا، تو کیا وہ شخص مسلمان کہلا سکتا ہے، ہرگز نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ اِلٰٓی اِبْرٰھٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ مَآ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ۔ فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِیْ شِقَاقٍ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللہُ وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ } (البقرۃ)
(اے مسلمانو! اہل کتاب سے کہہ دو) کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو نازل ہوا ہم پر اور جو ابراہیم، اسمٰعیل، اسحق اور یعقوب اور اسباط پر نازل ہوا، اور جو صحائف موسیٰ اور عیسیٰ اور جملہ انبیاء کو دئیے گئے، ان پر بھی ایمان لائے ہم ان میں سے کسی ایک کی بھی تفریق نہیں کرتے اور ہم صرف اللہ کے مطیع ہیں، پس اگر وہ اس طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لائے ہو، تو وہ ہدایت یاب ہوگئے، اور اگر منہ موڑیں، تو وہ شقاق میں مبتلا ہیں، اللہ ان سب کے خلاف آپ کے لیے کافی ہے اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ جب تک وہ مسلمانوں کی طرح قرآن پر ایمان نہ لائیں، ہدایت نہیں پاسکتے، دوسری آیت ملاحظہ فرمائیے:
{ قُلْ اٰمَنَّا بِاللہِ وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ۔ وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ } (اٰل عمران)
اے رسول آپ کہہ دیجئے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو ہم پر نازل ہوا، اس پر ایمان لائے اور اس پر بھی ایمان لائے جو ابراہیم، اسمٰعیل، اسحاق، یعقوب اور اسباط پر نازل ہوا ، اور موسیٰ اور عیسیٰ اور جملہ انبیاء پرنازل ہوا، ہم ان میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے، اور ہم اسی کے مسلم ہیں، اور جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی دین اختیار کرے گا، وہ اس سے ہرگز قبول نہیں ہوگا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں سے ہوگا۔
اس آیت میں پھر بڑے زور کے ساتھ اہل کتاب کو قرآن پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے، قرآن اور جملہ کتب سماوی پر ایمان لانے کی دعوت دے کر فرمایا، یہ ہے اسلام ، اب جو شخص اس کو اختیار نہیں کرے گا، وہ تباہ و برباد ہوگا، اور اس کا دین قبول نہیں ہوگا، اس آیت سے معلوم ہوا کہ اسلام، قرآن پر ایمان لانے اور قرآن پر عمل کرنے کا نام ہے، نہ یہ کہ قرآن کی تکذیب کرے، اس کا مذاق اڑائے، بس نیکی کرتا رہے، تو وہ مسلمان ہوگیا، ہرگز ایسا نہیں ،