- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
غلط فہمی
قرآن اور تاریخ ہر دو شاہد ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ لکھ سکتے تھے اور نہ لکھی ہوئی چیز پڑھ سکتے تھے، لیکن بخاری میں ہے، وہ لکھ سکتے تھے، حدیث یوں چلتی ہے کہ حضور ذی قعدہ میں عمرہ کے لیے تشریف لے گئے تو اہل مکہ نے کچھ پابندیاں عائد کردیں اور اس سلسلہ میں ایک تحریری معاہدہ ہے جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تسلیم کرتے ہیں ، کفار مکہ نے رسول اللہ کے الفاظ پر اعتراض کیا ... آپ نے حضرت علی سے فرمایا کہ '' رسول اللہ'' کے الفاظ مٹا دو ... علی نے جواب دیا خدا کی قسم میں آپ کے نام سے رسول کا لفظ کبھی جدا نہ کروں گا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کاغذ اٹھا لیا اور اس پر لکھ دیا ، یہ وہ فیصلہ ہے۔ (دو اسلام ص ۱۹۴۔ ۱۹۵)
ازالہ :
صحیح بخاری کی ایک مختصر حدیث لے کر برق صاحب نے اعتراض کردیا، حالانکہ اس میں کچھ عبارت محذوف ہے جو دوسری سند میں بالصراحت مذکور ہے، جس کا حوالہ برق صاحب نے خود دیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
بخاری کی ایک اور روایت (ج ۲، ص ۱۳۵) بتلاتی ہے کہ حضور نے رسول اللہ کا لفظ کھرچ ڈالا تھا، اور کاتب نے ابن عبداللہ کے الفاظ کا اضافہ کردیا تھا، اسی حدیث پر باقی محدثین اعتماد کرتے ہیں اور تاریخ بھی اسی کی تائید کرتی ہے۔ (دو اسلام ص ۱۹۵۔ ۱۹۶)
لہٰذا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کاغذ کھرچنے کے لیے اٹھایا، پھر اس نے (یعنی کاتب نے، دوسری حدیث کی صراحت کے مطابق) لکھا، نہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا، برق صاحب کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ ''کتب'' کا فاعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھ لیا، لہٰذا حدیث اعتراض سے پاک ہے، ایک حدیث کہیں مختصر ہوتی ہے اور کہیں مفصل، صرف مختصر کو دیکھ کر اعتراض کردینا مناسب نہیں، سنیے قرآن میں ہے:
{ تِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ کَانَ تَقِیًّا ۔ وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّکَ } (مریم)
اللہ فرماتا ہے یہ جنت ہم ان لوگوں کو دیتے ہیں جو پرہیزگار ہوتے ہیں اور ہم نازل نہیں ہوتے مگر تیرے رب کے حکم سے۔
مندرجہ بالا دونوں آیات مسلسل ہیں پہلی آیت میں''نورث'' جمع متکلم کا صیغہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے استعمال کیا ہے، دوسری آیت میں بغیر کسی مرجع کے تبدیلی کے جمع متکلم کا صیغہ ہے، عبارت کے تسلسل کے لحاظ سے اور قواعد کے لحاظ سے بھی ''نتنزل'' میں ضمیر کا مرجع اللہ ہی ہونا چاہیے، تو دوسری آیت کے معنی یہ ہوئے کہ '' اللہ نہیں اترتا مگر رسول کے رب کے حکم سے'' برق صاحب دیکھا آپ نے کتنا شاندار ترجمہ ہے اور یہ نتیجہ ہے آیت کے شان نزول کو ملحوظ نہ رکھنے کا، برق صاحب اگر کسی حدیث کو مختصر دیکھ کر ضمیر کی وجہ سے الجھن پیدا ہوگئی تو یہ الجھن قرآن میں بھی متعدد مقامات پر ہوتی ہے، جیسا کہ ایک مثال آپ کے سامنے ہے، جیسے قرآن میں صحیح معنی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، احادیث میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے، یعنی اصلی مفہوم کو ملحوظ رکھ کر حدیث کا ترجمہ کرنا چاہیے ، تاکہ غلطی راہ نہ پاسکے۔
قرآن اور تاریخ ہر دو شاہد ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ لکھ سکتے تھے اور نہ لکھی ہوئی چیز پڑھ سکتے تھے، لیکن بخاری میں ہے، وہ لکھ سکتے تھے، حدیث یوں چلتی ہے کہ حضور ذی قعدہ میں عمرہ کے لیے تشریف لے گئے تو اہل مکہ نے کچھ پابندیاں عائد کردیں اور اس سلسلہ میں ایک تحریری معاہدہ ہے جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تسلیم کرتے ہیں ، کفار مکہ نے رسول اللہ کے الفاظ پر اعتراض کیا ... آپ نے حضرت علی سے فرمایا کہ '' رسول اللہ'' کے الفاظ مٹا دو ... علی نے جواب دیا خدا کی قسم میں آپ کے نام سے رسول کا لفظ کبھی جدا نہ کروں گا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کاغذ اٹھا لیا اور اس پر لکھ دیا ، یہ وہ فیصلہ ہے۔ (دو اسلام ص ۱۹۴۔ ۱۹۵)
ازالہ :
صحیح بخاری کی ایک مختصر حدیث لے کر برق صاحب نے اعتراض کردیا، حالانکہ اس میں کچھ عبارت محذوف ہے جو دوسری سند میں بالصراحت مذکور ہے، جس کا حوالہ برق صاحب نے خود دیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
بخاری کی ایک اور روایت (ج ۲، ص ۱۳۵) بتلاتی ہے کہ حضور نے رسول اللہ کا لفظ کھرچ ڈالا تھا، اور کاتب نے ابن عبداللہ کے الفاظ کا اضافہ کردیا تھا، اسی حدیث پر باقی محدثین اعتماد کرتے ہیں اور تاریخ بھی اسی کی تائید کرتی ہے۔ (دو اسلام ص ۱۹۵۔ ۱۹۶)
لہٰذا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کاغذ کھرچنے کے لیے اٹھایا، پھر اس نے (یعنی کاتب نے، دوسری حدیث کی صراحت کے مطابق) لکھا، نہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا، برق صاحب کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ ''کتب'' کا فاعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھ لیا، لہٰذا حدیث اعتراض سے پاک ہے، ایک حدیث کہیں مختصر ہوتی ہے اور کہیں مفصل، صرف مختصر کو دیکھ کر اعتراض کردینا مناسب نہیں، سنیے قرآن میں ہے:
{ تِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ کَانَ تَقِیًّا ۔ وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّکَ } (مریم)
اللہ فرماتا ہے یہ جنت ہم ان لوگوں کو دیتے ہیں جو پرہیزگار ہوتے ہیں اور ہم نازل نہیں ہوتے مگر تیرے رب کے حکم سے۔
مندرجہ بالا دونوں آیات مسلسل ہیں پہلی آیت میں''نورث'' جمع متکلم کا صیغہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے استعمال کیا ہے، دوسری آیت میں بغیر کسی مرجع کے تبدیلی کے جمع متکلم کا صیغہ ہے، عبارت کے تسلسل کے لحاظ سے اور قواعد کے لحاظ سے بھی ''نتنزل'' میں ضمیر کا مرجع اللہ ہی ہونا چاہیے، تو دوسری آیت کے معنی یہ ہوئے کہ '' اللہ نہیں اترتا مگر رسول کے رب کے حکم سے'' برق صاحب دیکھا آپ نے کتنا شاندار ترجمہ ہے اور یہ نتیجہ ہے آیت کے شان نزول کو ملحوظ نہ رکھنے کا، برق صاحب اگر کسی حدیث کو مختصر دیکھ کر ضمیر کی وجہ سے الجھن پیدا ہوگئی تو یہ الجھن قرآن میں بھی متعدد مقامات پر ہوتی ہے، جیسا کہ ایک مثال آپ کے سامنے ہے، جیسے قرآن میں صحیح معنی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، احادیث میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے، یعنی اصلی مفہوم کو ملحوظ رکھ کر حدیث کا ترجمہ کرنا چاہیے ، تاکہ غلطی راہ نہ پاسکے۔