• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
احادیث میں بار بار آتا ہے:
وکان املککم لاربہ (بخاری و مسلم موطا وغیرہ) کہ حضور کو اپنی خواہشات پر کہاں ضبط تھا یہ عجیب قسم کا ضبط ہے کہ بقول بخاری و مسلم آپ نہ روزے میں مباشرت سے رکتے تھے، نہ حیض میں۔ (دو اسلام ص ۲۱۰۔ ۲۱۱)
ازالہ
یہ جملہ دوسری احادیث میں نہیں آیا ہے بلکہ مباشرت در حیض اور مباشرت اور صیام کی احادیث ہی میں وارد ہوا ہے، معلوم نہیں برق صاحب نے کس وجہ سے اس کو علیحدہ ذکر کیا ہے، اس کلمہ ہی سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ مباشرت کے معنی وہ نہیں جو ہماری اصطلاح میں لیے جاتے ہیں، پوری حدیث اس طرح ہے کہ '' آپ حالت حیض میں اور حالت صوم میں مباشرت فرمایا کرتے تھے اور آپ کو اپنی خواہشات پر کمال ضبط حاصل تھا (بخاری و مسلم) حضرت عائشہ کے آخری الفاظ بتا رہے ہیں کہ مباشرت سے مراد جماع نہیں، بلکہ پاس اٹھنا، بیٹھنا وغیرہ ہے، برق صاحب اس کے معنی جماع بتاتے ہیں اور یہی غلط فہمی کا اصل سبب ہے، حدیث کا مطلب صاف ہے کہ آپ مباشرت تو کرتے تھے لیکن کمال ضبط کی وجہ سے اور کوئی کام نہیں کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
امام مالک نے بھی یہ احادیث نقل کی ہیں، لیکن حضور کی طرف مباشرت منسوب نہیں کی، صرف بوسے کا ذکر کیا ہے ، بدیگر الفاظ امام مالک بھی یہ سمجھتے تھے کہ مباشرت کی نسبت حضور والا صفات کی طرف مراون تنقیص ہے۔ (دو اسلام ص ۲۱۱)
ازالہ
''مباشرت'' کے معنی پاس اٹھنے، بیٹھنے کے ہیں، اس لحاظ سے بوسہ کچھ مباشرت سے زیادہ ہی ہے لیکن برق صاحب مباشرت کے معنی جماع لے رہے ہیں اور اسی وجہ سے اس کو بوسہ سے زیادہ سمجھ کر موجب تنقیص سمجھ رہے ہیں، امام مالک کی مؤطا میں مباشرت کا لفظ استعمال نہیں ہوا، یہ تو صحیح ہے لیکن جو اس کے معنی ہیں، وہ مؤطا میں موجود ہیں، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حیض کی حالت میں لیٹنا ... پاس لیٹنا اور پاس اٹھنا، بیٹھنا اسی کو تو مباشرت کہتے ہیں اور یہ چیز مؤطا میں موجود رہے، جماع کے معنوں میں یہ لفظ و مؤطا میں ہے نہ کسی دوسری کتاب میں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
بخاری کی حدیث ہے:
عن عائشہ قالت کنت اغتسل انا والنبی ﷺ من انا واحد
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے نہاتے تھے۔
... مطلب یہ کہ حضور ازواج کے ہمراہ برہنہ غسل فرمایا کرتے تھے۔ (دو اسلام ص ۲۱۱)
ازالہ
برق صاحب نے تمام حالات کا جائزہ نہیں لیا، ورنہ یہ غلط فہمی نہ ہوتی۔
اول: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں چراغ نہیں ہوتا تھا، حضرت عائشہ فرماتی ہیں:
کنت انام بین یدی رسول اللہ ﷺ ورجلای فی قبلتہ فاذا سجد غمزنی نقبضت رجلی فاذا قام بسطتھا والبیوت یومئذ لیس فیھا مصابیح (موطا مالک باب صلوٰۃ اللیل)
میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹی ہوتی تھی اور میرے پیر آپ کے قبلہ کی جانب ہوتے تھے، پس جب آپ سجدہ کرتے تو میرے پیر کو دبا دیتے میں پیر سمیٹ لیتی، پھر جب آپ کھڑے ہو جاتے تو میں پیر پھیلا دیتی اور ان ایام میں گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے۔
یعنی تاریکی کی وجہ سے یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ آپ سجدہ کے لیے جھک رہے ہیں، لہٰذا آپ کو پیر دبانے کی ضرورت پیش آتی تھی، اگر اجالا ہوتا تو وہ خود بخود آپ کو سجدہ کے لیے جھکتا دیکھ کر پیر سمیٹ لیتیں، دوسری حدیث سنیے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
فقدت رسول اللہ ﷺ لیلۃ من الفراش فالتمستہ نوفعت یدی علی بطن قدمیہ وھو فی المسجد وھما منصوبتان (صحیح مسلم باب مایقال فی الرکوع السجود)
ایک رات کو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہیں پایا، تو میں نے ٹٹولا تو میرے ہاتھ آپ کے تلووں پر لگے، آپ سجدہ کر رہے تھے اور آپ کے پاؤں مبارک کھڑے تھے۔
ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ آپ کے گھر میں اتنا اندھیرا گھپ ہوتا تھا کہ ایک دوسرے کو دیکھنا محال تھا، لہٰذا حدیث پر جو اعتراض ہے، وہ کالعدم ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھتے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
کان رسول اللہ ﷺ لیصلی الصبح فینصرف النساء متلففات بمر وطھن ما یعرفن من الغسل (موطا امام مالک باب وقوت الصلوۃ۔ بخاری و مسلم)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز ایسے وقت میں پڑھتے تھے کہ عورتیں جب نماز پڑھ کر اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی واپس ہوتی تھیں تو اندھیرے کے سبب سے پہچانی نہیں جاتی تھیں۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز صبح سے فارغ ہونے کے بعد بھی اتنا اندھیرا ہوتا تھا، کہ کسی کو پہچانا نہیں جاسکتا تھا، یہ تو کھلی جگہ کا حال تھا، حجرہ کے اندھیرے کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے، پھر یہ بھی غور فرمائیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بڑی طویل قرأت کیا کرتے تھے، پھر اس سے پہلے کچھ دیر لیٹے رہتے، اس سے پہلے سنتیں پڑھتے تھے، نہانا ان تمام کاموں سے پہلے ہی ہوتا ہوگا، جب نماز کے بعد کھلی جگہ میں اچھی طرح دیکھا نہیں جاسکتا تھا، تو پھر بند حجرے میں شدید تر تاریکی میں کیا نظر آتا ہوگا، پس اس تشریح سے ثابت ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کو برہنہ دیکھ ہی نہیں سکتے تھے، لہٰذا اعتراض فضول ہے۔
رہا برق صاحب کا یہ کہنا کہ یہ چیز سجتی نہیں، دشمن کیا کہیں گے تو جناب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شایان شان تو متنبی کی بیوی سے نکاح کرنا بھی نہیں تھا، دشمن کہتے ہیں جو کچھ کہتے ہیں پھر کیا آپ اس واقعہ کو قرآن سے نکال دیں گے ، برق صاحب یہاں دوسرے کی نگاہ میں سجنے نہ سجنے کا سوال نہیں ہے، یہاں تو آپ کے افعال سے ضابطہ حیات تیار کروایا جا رہا ہے، یہاں مسائل ڈھل رہے ہیں، جائز اور ناجائز میں سنت کے ذریعہ امتیاز پیدا کروایا جا رہا ہے، لہٰذا یہاں ہر وہ چیز ملے گی، جس سے ضابطہ حیات انسانی پر روشنی پڑتی ہو، یہی وجہ ہے کہ رہبر عالم کے اندرونی حالات بھی منظر عام پر لائے گئے، اور یہی تو ضابطہ کا کمال ہے اور ہم اس پر نازاں ہیں اور آپ اس سے شرما رہے ہیں۔
دوم: حدیث میں ہے کہ:
من اناء بینی وبینہ واحد (صحیح مسلم عن عائشۃ)
یعنی ہم ایک ہی لگن سے نہا لیا کرتے تھے، جو ہم دونوں کے درمیان رکھا ہوتا تھا۔
لہٰذا یہ لگن دونوں کے درمیان پر دہ کا کام بھی کرتا ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
خلاصہ
انتہائی تاریکی میں دونوں نہاتے تھے، ایسا اندھیرا ہوتا تھا کہ ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتا تھا، پھر دونوں کے درمیان لگن رکھا ہوتا تھا ، لہٰذا یہ سمجھنا کہ دونوں ایک دوسرے کو برہنہ دیکھتے تھے، بالکل غلط ہے۔
سوم: برق صاحب آپ نے یہ حدیث نقل کرکے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ دونوں برہنہ نہایا کرتے تھے براہِ کرم بتائیے کہ اس میں ''برہنہ'' کس لفظ کا ترجمہ ہے، آخر اس اضافہ کی آپ کو کیا ضرورت پیش آئی اگر ہم یہ کہہ دیں کہ دونوں تہ بند باندھ کر نہایا کرتے تھے دونوں کے درمیان پردہ پڑا ہوتا تھا تو کیا یہ اضافہ ناجائز ہوگا، اگر وہ جائز ہے تو یہ اس سے زیادہ جائز ہے اور شایان شان بھی ہے، کاش آپ نے بجائے اس اضافہ کے یہ اضافہ کردیا ہوتا تو کتنا قرین انصاف تھا۔ حدیث میں برہنہ ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے، لہٰذا اعتراض فضول ہے۔
چہارم: حضرت عائشہ فرماتی ہیں:
ما رأیت فرج رسول اللہ ﷺ قط (ابن ماجہ جلد اول)
میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شرم گاہ کو کبھی نہیں دیکھا۔
اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ آپ اور ازواج مطہرات برہنہ نہیں نہاتے تھے اور اگر بالفرض محال تاریکی میں برہنہ ہو کر نہائے بھی تو ایک دوسرے کو ننگا نہیں دیکھتے تھے، یہ ننگا دیکھنے کا شاخسانہ بالکل فرضی ہے۔
برق صاحب تمام احادیث پر نظر ڈال کر کسی حدیث کا مطلب نکالا کیجئے، تاکہ کبھی غلط فہمی نہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اور سنیے، ابو سلمہ کہتے ہیں کہ میں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھائی ، حضرت عائشہ کے پاس گئے، ان کے بھائی نے ان سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح غسل فرمایا کرتے تھے حضرت عائشہ نے پانی سے بھرا ہوا ایک برتن منگوایا، جس سے آپ نے غسل کیا، اور سر پر بھی پانی ڈالا، درمیان میں ایک پردہ لٹکایا ہوا تھا۔ (بخاری جلد ۱، ص ۳۹) سوال یہ ہے کہ آیا یہ دونوں اس پردے میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو غسل کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے، اگر جواب نفی میں ہے تو غسل رسول کی نمائش کرنے کا مقصد کیا تھا اور اگر اثبات میں ہے، تو پھر۔ (دو اسلام ص ۲۱۲۔ ۲۱۳)
ازالہ
برق صاحب کو غلط فہمی ہوگئی غسل کے معنی صرف نہانے کے نہیں ہیں، بلکہ غسل کے معنی نہانے کے پانی کے بھی ہیں اور ان معنوں میں یہ لفظ صحیح بخاری ہی جگہ جگہ استعمال ہوا ہے، مثلاً: حضرت میمونہ فرماتی ہیں:
وضعت الرسول اللہ ﷺ غسلا (صحیح بخاری کتاب الغسل)
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل رکھا، یعنی نہانے کا پانی رکھا۔
امام بخاری اور امام مسلم کی تبویب اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے کافی ہے، امام بخاری نے اس حدیث پر باب باندھا ہے۔
الغسل بالصاع ونحوہ
یعنی غسل تقریباً ایک صاع پانی سے کرنا چاہیے۔
امام مسلم کی سرخی یہ ہے:
قدر المستحب من الماء فی غسل الجنابۃ
یعنی غسل میں کتنا پانی لینا مستحب ہے۔
اس بناء پر فسالھا عن غسل النبی ﷺ کا مطلب یہ ہوا، کہ انہوں نے نہانے کے پانی کے متعلق سوال کیا، اس سوال کے جواب میں حضرت عائشہ نے کیا کیا، وہ ان ہی الفاظ کے آگے مذکور ہے کہ ''فدعت باناء'' انہوں نے ایک برتن منگوایا اور اس برتن کے ذریعہ یہ بتا دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اتنے پانی سے نہایا کرتے تھے، لہٰذا حدیث مذکور میں غسل کی کیفیت کا بیان نہیں، بلکہ غسل کے پانی کا بیان ہے، نہ اس سے غسل رسول کی نمائش کرنا مقصود تھا، غسل کی کیفیت تو حضرت عائشہ نے زبانی بتائی تھی، ابو سلمہ کہتے ہیں:
قالت عائشۃ کان رسول اللہ ﷺ اذا اغتسل بدأ بیمینہ الخ (صحیح مسلم)
حضرت عائشہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل کرتے تو سیدھے ہاتھ سے شروع کرتے وغیرہ وغیرہ۔
نسائی میں اس طرح ہے، ابو سلمہ کہتے ہیں:
وصفت عائشۃ غسل النبی ﷺ من الجنابۃ قالت کان یغسل یدیہ ثلاثا ...
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کی کیفیت بتائی تو کہا کہ آپ پہلے دونوں ہاتھ دھوتے تھے، وغیرہ وغیرہ۔
غرض یہ کہ غسل کی کیفیت بتانے کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے غسل نہیں کیا، بلکہ جب انہوں نے پانی کی مقدار کا ذکر کیا، تو ابو سلمہ وغیرہ نے تعجب کا اظہار کیا کہ اتنے کم پانی سے کیسے نہایا جاسکتا ہے، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا یہ بالکل ممکن ہے اور اب میں نہانے جا رہی ہوں اور اتنے ہی پانی سے نہاؤں گی پس انہوں نے پردہ ڈالا اور غسل فرمایا اور یہ ثابت کردیا کہ اتنے پانی سے نہانا ناممکن نہیں ، نہانے کا مقصد پر تھا نہ کہ وہ جو برق صاحب سمجھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
چار نامحرم آنکھیں حضرت عائشہ کو غسل کرتا دیکھیں اور امام بخاری کو نہ غیرت آئے، نہ غصہ اور اس حدیث کو قول رسول سمجھ کر اپنی کتاب میں شامل کرلیں، کیا کوئی مسلمان یہ برداشت کرسکتا ہے کہ اس کی بیوی ایک پتلا سا پردہ تان کر سارے محلہ کے سامنے نہائے اور شرعی غسل کا طریقہ بتائے۔ (دو اسلام ص ۲۱۳)
ازالہ
برق صاحب یہ وہی مبالغہ اور رنگ آمیزی ہے جس کا ذکر آپ پہلے کرچکے ہیں، ان میں سے کوئی بات بھی صحیح نہیں، دو آدمیوں کو چار آنکھ کہہ کر عجیب رنگ آمیزی سے کام لیا گیا ہے آپ وہ آدمی بھی کہہ سکتے تھے، پھر آپ نے ان دونوں کو نامحرم کیسے بنا دیا، آپ کی نقل کردہ عبارت میں موجود ہے کہ میں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھائی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ (دو اسلام ص ۲۱۲۔ ۲۱۳) لہٰذا آپ ہی کی کتاب اور خود حدیث کے متن سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ایک تو یقینا حضرت عائشہ کے بھائی تھے اور محرم تھے، اب رہ گئے ابو سلمہ، تو ابو سلمہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھانجے تھے، لہٰذا دونوں محرم تھے، برق صاحب یہ تو بتائیے کہ '' یہ پتلا سا پردہ تان کر سارے محلہ کے سامنے نہائے۔'' یہ کن الفاظ کا ترجمہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
عن ابی ھریرۃ ان النبی ﷺ قال اذا جلس بین شعبھا الاربع ثم جھدھا وجب علیہ الغسل وان لم ینزل (مسلم ج۱، ص۴۸۵)
ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب مرد عورت کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر زور لگانا شروع کردے تو اس کے لیے نہانا ضروری ہوجاتا ہے خواہ انزال ہو یا نہ۔
اب اس بحث کو جانے دیجئے کہ کئی احادیث کی رو سے غسل ضروری نہیں (تفصیل گزر چکی ہے) حدیث کی زبان دیکھئے ماشاء اللہ '' کتنی پاکیزہ اور شستہ'' ہے۔ (دو اسلام ص ۲۱۴)
ازالہ
برق صاحب عربی عبارت تو بے شک ''پاکیزہ اور شستہ'' ہے ناشائستگی تو ترجمہ نے پیدا کردی ہے، صحیح ترجمہ یہ ہے '' جب کوئی مرد عورت کے چاروں شعبوں کے درمیان بیٹھ جائے پھر اس کے ساتھ کوشش کرے تو غسل فرض ہو جائے گا، خواہ انزال نہ ہو، برق صاحب! آپ نے جو ترجمہ کیا ہے، اس سے بھی زیادہ ناشائستہ اور شرمناک ترجمہ ہوسکتا ہے، مترجم کی مرضی پر انحصار ہے، چاہے جیسا ترجمہ کردے، برق صاحب ذرا قرآن مجید کے مندرجہ ذیل کلمات پر غور فرمائیے:
(۱) خلق من ماء دافق (۲) افرایتم ما تمنون (۳) فلما تغشاھا (۴) التی احصنت فرجھا (۵) نساوکم حرث لکم فاتوا حرثکم انی شئتم۔
کیا ان کلمات کے ناشائستہ اور حیا سوز ترجمے نہیں ہوسکتے؟ ہوسکتے ہیں لیکن یہ قصور ترجمہ کا ہوگا نہ کہ متن کا، میرا ایمان اجازت نہیں دیتا، ورنہ میں ان کے ایسے ترجمے پیش کردیتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب لکھتے ہیں:
جب اللہ کے فضل و کرم سے حضور نے قلعہ خیبر کو فتح کرلیا، تو کسی نے کہا صفیہ بنت حیی بڑی خوبصورت لڑکی ہے، اس کا خاوند جنگ میں مر چکا ہے اور وہ ابھی دلہن ہے یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے لیے پسند کرلیا، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور خیال سے نہیں بلکہ صفیہ کی شہرت حسن سن کر اپنے حرم میں داخل کرلیا تھا۔ (دو اسلام ص ۲۱۵)
ازالہ
برق صاحب حدیث کے مختلف اسناد سے بیان کردہ ٹکڑے آپ کی پریشانی کا سبب ہیں آپ نے ان عبارتوں کو جمع کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ ان عبارتوں کو متضاد سمجھ کر اعتراض کردیا ہے۔
برق صاحب لکھتے ہیں:
حضرت صفیہ جنگ خیبر کے اسیروں میں شامل تھیں ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک لونڈی کی درخواست کی، آپ نے فرمایا خود چن لو، اس نے حضرت صفیہ کو منتخب کیا، بعد میں کسی نے کہا کہ یہ ایک رئیس کی بیٹی ہے، اسے لونڈی بنا کر اس سے خدمت لینا ظلم ہے، اس لیے حضور اسے حرم نبوی میں داخل کرلیں، حضور نے یہ تجویز مان لی اور اسے آزاد کرکے نکاح کرلیا۔ (دو اسلام ص۲۱۴۔ ۲۱۵)
یہ دونوں عبارتیں صحیح بخاری ہی سے ماخوذ ہیں، برق صاحب کو پہلی عبارت شایان شان نہیں معلوم ہوئی، وہ دوسری کو صحیح سمجھتے ہیں اور پہلی کو غلط، حالانکہ دونوں صحیح ہیں، اور ایک دوسرے میں اس طرح پیوست ہیں۔
حضرت صفیہ اسیر دل میں شامل تھیں ان کے حسن کا ذکر آپ کے سامنے ہوا، یہ بھی کہا گیا کہ وہ ابھی دلہن ہیں، یہ ذکر ہو ہی رہا تھا کہ حضرت دحیہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک لونڈی کی درخواست کی، آپ نے فرمایا لے لو، انہوں نے حضرت صفیہ کو منتخب کیا (اس موقعہ پر قاضی سلیمان صاحب لکھتے ہیں کہ اس میں اختلاف ہوگیا، لوگوں نے کہا کہ یہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کی سیدہ ہے اور ایسی عورت دحیہ کو مل جانے کی کوئی وجہ نہیں ، رحمتہ للعالمین جلد ۲۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی اس بات کا ذکر آیا، آپ سے عرض کیا گیا کہ یہ ایک رئیس کی بیٹی ہے اور آپ کے سوا کسی کے شایان شان نہیں اس لیے آپ اسے حرم نبوی میں داخل کرلیں، حضور نے یہ تجویز منظور کرلی اور اسے آزاد کرکے نکاح کرلیا۔
حدیث تو بالکل صحیح ہے برق صاحب کو خواہ مخواہ الجھن پیدا ہوگئی، کاش وہ ان عبارتوں کو ترتیب دے کر سمجھنے کی کوشش فرماتے، قصص قرآن میں بھی یہی دقت پیش آتی ہے، کوئی بات کہیں ہے اور کوئی کہیں، بظاہر تضاد نظر آتا ہے، لیکن ترتیب عبارات سے یہ تضاد کالعدم ہو جاتا ہے (قرآن مجید کے اس ظاہری تضاد کو تفصیل سے دیکھنا ہو تو اس کتاب کا بیسواں باب ملاحظہ فرمائیے) مجملاً بطور مثال کے ایک آیت درج ذیل ہے:
{ کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَاحِدَۃً فَبَعَث اللہُ النَّبِیِّیْنَ } (البقرۃ)
سب لوگ ایک ہی جماعت تھے پس اللہ نے نبی بھیجنے شروع کردئیے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سب لوگ ایک ہی صراط مستقیم پر متحد و متفق تھے توپھر نبی بھیجنے کی کیا ضرورت پیش آئی تھی جواب اس کا یہ ہے کہ یہاں بعض عبارت محذوف ہے، جو دوسری جگہ مذکور ہے یعنی ''انہوں نے اختلاف کیا'' لہٰذا آیت مذکور کا ترجمہ اس طرح ہوگا، سب لوگ ایک ہی جماعت تھے (پھر انہوں نے اختلاف شروع کردیا) تو اللہ تعالیٰ نے (اس اختلاف کو رفع کرنے کی غرض سے) نبی بھیجنے شروع کردئیے۔
برق صاحب اس طرح منتشر عبارات کو ترتیب دے کر اعتراض دور کرلیا کیجئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
عن قتادۃ عن انس بن مالک قال کان النبی ﷺ یدور علی نسائہ فی الساعۃ الواحدۃ من اللیل والنھار وھن احدے عشرۃ قال قلت لانس اوکان یطیقہ قال کنا نتحدث انہ اعطی قوۃ ثلاثین رجالاً۔
قتادہ کہتے ہیں کہ مجھے انس بن مالک نے بتایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن ہو یا رات ایک ہی وقت میں اپنی گیارہ بیویوں سے مجامعت فرمایا کرتے تھے، میں نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اتنی طاقت تھی کہا آپ میں تیس مردوں کی طاقت موجود تھی۔ (بخاری)
ملاحظہ کیا آپ نے حضور کی یہ دل چسپ تصویر ! یہ حدیث صریحاً غلط ہے۔ (دو اسلام ص ۲۱۶۔ ۲۱۷)
ازالہ
حدیث تو بالکل صحیح ہے، آپ '' کان یذور'' کا ترجمہ غلط کرکے الجھن میں پڑ گئے، اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے '' دورہ کرتے تھے'' لہٰذا حدیث اعتراض سے بالکل پاک ہے، دوسری حدیث میں اس کی تشریح موجود ہے۔
کان رسول اللہ ﷺ اذا انصرف من العصر دخل علی نسائہ (بخاری کتاب النکاح)
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب عصر سے فارغ ہوتے تو اپنی بیویوں کے پاس تشریف لے جاتے۔
یعنی روزانہ تمام بیویوں کے پاس ملاقات کے لیے اور ان کی خانگی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ دن و رات یعنی چوبیس گھنٹوں میں یہی وہ ساعت تھی، جو سب کے لیے مشترک تھی، اگر ایسا نہ ہوتا، تو ہر بیوی کے پاس نو دن بعد پہنچتے اور اتنے طویل عرصہ تک اس کی خبر نہ لیتے، کہ کس حال میں ہے اور اس پر کیا گزر رہی ہے، برق صاحب اس مشترک وقت میں کسی بیوی کے ہاں ٹھہر جانا کوئی نا انصافی نہیں، اس وقت میں تو سب شریک تھیں اور یہ وقت باری میں شامل نہ ہوتا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
قرآن کہتا ہے انما انا بشر مثلکم کہ رسول تم جیسے بشر ہیں اور ہے بھی درست ہم جیسا قد، ہماری طرح ایک دل، ایک جگر، دو پھیپھڑے نظام جسم ہم جیسا، کھانا، پینا ہم جیسا ... ہو بہو ہم جیسے انسان... لیکن حدیث کہتی ہے کہ ان میں تیس مردوں کی طاقت تھی۔ (دو اسلام ص ۲۱۹)
ازالہ
برق صاحب ظاہری اعضاء کے لحاظ سے تو بے شک سب انسان ایک جیسے ہیں، لیکن کیا آپ کا خیال ہے کہ قوت جسمانی، قوت روحانی، بہادری، ہمت، عقل، حسن وغیرہ کے لحاظ سے بھی سب برابر ہیں، برق صاحب ایک پہلوان بھی آدمی ہے، اور ایک کمزور بھی آدمی ہے کیا دونوں برابر ہیں، کیا ایک پہلوان میں دس، پندرہ معمولی آدمیوں کے برابر طاقت نہیں ہوتی، اگر ہوتی ہے تو یہ کیسے جب کہ دونوں کے ایک دل ایک جگر ہے وغیرہ وغیرہ، موسیٰ علیہ السلام بھی ایک آدمی تھے، لیکن ایک تھپڑ سے ایک قبطی کو ہلاک کردیا (قرآن) اور ہم بھی آدمی ہیں، لیکن کیا ایک تھپڑ سے کسی آدمی کو ہلاک کر سکتے ہیں، یوسف علیہ السلام بھی آدمی تھے، لیکن زنان مصر نے ان کو دیکھ کر ہاتھ کاٹ ڈالے تھے، اور یہ کہا تھا کہ یہ انسان نہیں، کوئی مکرم فرشتہ ہے (قرآن) اور ہم بھی آدمی ہیں، کیا کسی عورت نے ہاتھ کاٹے، برق صاحب ایک نبی جس طرح روحانی قوت میں سب سے اعلیٰ ہوتا ہے اسی طرح جسمانی قوت میں بھی سب سے اعلیٰ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر رکا نہ پہلوان مقابلہ پر آگیا، تو وہ بھی خاک میں غلطاں نظر آیا، اگر کوئی ناقابل تسخیر چٹان سامنے آگئی، تو ایک ہی وار میں پاش پاش ہوگئی حالانکہ اسی چٹان کو توڑنے سے صحابہ عاجز ہوگئے تھے، بہادری کا یہ عالم کہ احد اور حنین کے میدانوں میں اکیلے ڈٹے رہے، برق صاحب آپ اللہ کے رسول کی قوت کو عام انسانوں کے برابر سمجھ رہے ہیں، حیرت ہے، ایک انسان دوسرے انسان سے متعدد باتوں میں مختلف نظر آتا ہے، بعض آدمی ایسے بھی مل جاتے ہیں جو اتنے حیرت انگیز کارنامے انجام دیتے ہیں، جو دوسروں کے لیے ناممکن ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی وہ انسان ہوتے ہیں، اور ایک ہی دل والے ، برق صاحب آپ ہی کی تحریر کردہ عبارت تھوڑے سے تغیر کے ساتھ نقل کرکے آپ سے انصاف کی درخواست کرتا ہوں۔
ہمیں اس رسول پر ناز ہے، جو تیس آدمیوں کی قوت رکھتے ہوئے بھی ہر ترغیب، ہرکشش اور ہر گناہ سے دامن بچا کر نکل گیا تھا۔ (دو اسلام ص ۷۷)
 
Top