- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
غلط فہمی
احادیث میں بار بار آتا ہے:
وکان املککم لاربہ (بخاری و مسلم موطا وغیرہ) کہ حضور کو اپنی خواہشات پر کہاں ضبط تھا یہ عجیب قسم کا ضبط ہے کہ بقول بخاری و مسلم آپ نہ روزے میں مباشرت سے رکتے تھے، نہ حیض میں۔ (دو اسلام ص ۲۱۰۔ ۲۱۱)
ازالہ
یہ جملہ دوسری احادیث میں نہیں آیا ہے بلکہ مباشرت در حیض اور مباشرت اور صیام کی احادیث ہی میں وارد ہوا ہے، معلوم نہیں برق صاحب نے کس وجہ سے اس کو علیحدہ ذکر کیا ہے، اس کلمہ ہی سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ مباشرت کے معنی وہ نہیں جو ہماری اصطلاح میں لیے جاتے ہیں، پوری حدیث اس طرح ہے کہ '' آپ حالت حیض میں اور حالت صوم میں مباشرت فرمایا کرتے تھے اور آپ کو اپنی خواہشات پر کمال ضبط حاصل تھا (بخاری و مسلم) حضرت عائشہ کے آخری الفاظ بتا رہے ہیں کہ مباشرت سے مراد جماع نہیں، بلکہ پاس اٹھنا، بیٹھنا وغیرہ ہے، برق صاحب اس کے معنی جماع بتاتے ہیں اور یہی غلط فہمی کا اصل سبب ہے، حدیث کا مطلب صاف ہے کہ آپ مباشرت تو کرتے تھے لیکن کمال ضبط کی وجہ سے اور کوئی کام نہیں کرتے تھے۔
احادیث میں بار بار آتا ہے:
وکان املککم لاربہ (بخاری و مسلم موطا وغیرہ) کہ حضور کو اپنی خواہشات پر کہاں ضبط تھا یہ عجیب قسم کا ضبط ہے کہ بقول بخاری و مسلم آپ نہ روزے میں مباشرت سے رکتے تھے، نہ حیض میں۔ (دو اسلام ص ۲۱۰۔ ۲۱۱)
ازالہ
یہ جملہ دوسری احادیث میں نہیں آیا ہے بلکہ مباشرت در حیض اور مباشرت اور صیام کی احادیث ہی میں وارد ہوا ہے، معلوم نہیں برق صاحب نے کس وجہ سے اس کو علیحدہ ذکر کیا ہے، اس کلمہ ہی سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ مباشرت کے معنی وہ نہیں جو ہماری اصطلاح میں لیے جاتے ہیں، پوری حدیث اس طرح ہے کہ '' آپ حالت حیض میں اور حالت صوم میں مباشرت فرمایا کرتے تھے اور آپ کو اپنی خواہشات پر کمال ضبط حاصل تھا (بخاری و مسلم) حضرت عائشہ کے آخری الفاظ بتا رہے ہیں کہ مباشرت سے مراد جماع نہیں، بلکہ پاس اٹھنا، بیٹھنا وغیرہ ہے، برق صاحب اس کے معنی جماع بتاتے ہیں اور یہی غلط فہمی کا اصل سبب ہے، حدیث کا مطلب صاف ہے کہ آپ مباشرت تو کرتے تھے لیکن کمال ضبط کی وجہ سے اور کوئی کام نہیں کرتے تھے۔