• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
صحیح فہمی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل امت کے لیے واجب التقلید ہے۔ (دو اسلام ص۲۰۳)
تائید
برق صاحب! آپ کا یہ جملہ کتنا مؤمنانہ جملہ ہے، اسی مؤمنانہ جذبہ سے آپ نے اپنی کتاب تصنیف کی ہمارے حسن ظن اور آپ کی اپنی تحریر کے مطابق معاذ اللہ آپ کی تحریر معاندانہ نہیں، اس کی بنا صرف غلط فہمی ہی ہے، اور اس کے سوا کچھ نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
مانا کہ رسول اللہ ضبط نفس کی نعمت سے بہرہ ور تھے لیکن امت میں کتنے ایسے لوگ موجود ہیں جو معانقہ وغیرہ کے بعد جماع سے رک سکیں گے۔ (دو اسلام ص ۲۰۳)
ازالہ
برق صاحب آپ کی اس عبارت سے ظاہر ہے کہ آپ خود بھی اس بات کے قائل ہیں کہ مباشرت سے مراد جماع نہیں ہے، معلوم نہیں پھر اعتراض کی وجہ کیا ہے، غالباً مباشرت کے جو معنے دوسروں کے حوالہ سے آپ نے نقل کئے ہیں، وہ اس کے محرک ہیں، اگر یہ صحیح ہے تو یہ سارا اعتراض دوسروں پر ہونا چاہیے نہ کہ حدیث پر۔
اب رہی یہ بات کہ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بحالت روزہ مباشرت کی ہے، لہٰذا ہر امتی پر واجب ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کرے، یہاں بھی آپ سے غلط فہمی ہوگئی، اگر روزہ میں مباشرت کرنا، روزہ کا کوئی رکن ہوتا اور اس فعل کا تعلق براہِ راست دین سے ہوتا، تو پھر بے شک ایسا کرنا ہر امتی پر واجب تھا، لیکن روزہ میں مباشرت کرنا روزہ کا رکن ہے، نہ اس کا تعلق براہِ راست دینی امور سے ہے، لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل امت کے لیے صورت جواز پیش کرے گا نہ کہ وجوب پھر اس سلسلہ میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تصریح فرما دی ہے کہ کون اس فعل میں میری تقلید کرسکتا ہے اور کون نہیں، جو شخص خواہشات پر قابو رکھ سکتا ہے وہ اس معاملہ میں آپ کی تقلید کرسکتا ہے اور جو قابو نہیں رکھ سکتا، وہ تقلید بھی نہیں کرسکتا، یعنی اس اجازت و رخصت سے وہ شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے، جو اپنے جذبات پر قابو رکھ سکتا ہے، حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
فاذا الذی رخص لہ شیخ والذی نھاہ شاب (ابوداؤد کتاب الصوم)
یعنی حضور نے بوڑھے کو مباشرت کی اجازت دی اور جو ان کو اس سے منع کردیا۔
اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس فعل کی صرف رخصت ہے نہ کہ وجوب، پھر یہ رخصت بھی عام نہیں بلکہ مقید، غرض یہ کہ احادیث میں تو ہر چیز کی وضاحت ہے، اور اعتراض عدم تحقیق کا نتیجہ پھر یہ بھی یاد رکھئے کہ مباشرت مفسد صوم نہیں ، اس نوعیت سے عقیدۃً حدیث کی تقلید سب کرتے ہیں اور اس عقیدہ کا ہونا فرض وواجب ہے رہا اس کا محرک جماع ہونا تو اس سبب سے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے جوان کو اس سے روک دیا ہے اور جس کی خواہشات کمزور ہوچکی ہوں اور اس وجہ سے وہ اپنی خواہشات پر قابو رکھ سکتا ہو، اس کو رخصت دے دی ہے اور کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی خواہشات پر ہر انسان سے زیادہ قابو تھا، لہٰذا آپ نے اس پر عمل کرلیا اور قابو میں رکھنے والوں کے لیے فعلی اجازت بھی مہیا کردی، اب جو لوگ اسے ناجائز کہتے ہیں اور جن کے اقوال برق صاحب نے ص۱۰۴ پر نقل کئے ہیں وہ ایسی ہی حالت کو ملحوظ رکھ کر کہتے ہیں جس میں اندیشہ تحریک جماع ہو، ورنہ نہیں اور اس سلسلہ میں تمام بحثوں کا یہی خلاصہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
امام بخاری اور مسلم نے تو صرف بوس و کنار اور گھٹنوں سے نیچے استعمال آلت کی اجازت دی تھی، ابوداؤد ایک قدم اور آگے نکل گئے ، کہتے ہیں حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ روزہ رکھ کر مجھے چومتے تھے اور میری زبان چوستے تھے، ایں گل دیگر شگفت۔ (دو اسلام ص ۲۰۵)
ازالہ
برق صاحب انصاف سے بتائیے بخاری و مسلم میں''گھٹنوں سے نیچے استعمال آلت کی اجازت'' آپ نے کہاں دیکھی؟ براہِ کرم اس کا جواب دیجئے گا، ورنہ اپنی غلط فہمی کو دور کرلیجئے گا، بخاری و مسلم میں یہ عبارت نہیں ہے، یہ ایک ملا جی کی تشریح ہے، جس کو آپ بخاری و مسلم کی طرف منسوب کر رہے ہیں، پھر ''زبان چوسنے کا اضافہ'' امام ابوداؤد کی طرف منسوب کرنا کتنی بڑی غلط فہمی ہے، حالانکہ امام ابوداؤد تو خود فرماتے ہیں:
ھذا الاسناد لیس بصحیح
یعنی یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔
(ابوداؤد دعربی مطبوعہ مجتبائی دھلی جلد اول حاشیہ ص۳۳۱)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں '' اس کی سند ضعیف ہے'' (نیل الاوطار کتاب الصوم) زیلعی لکھتے ہیں:
رواہ احمد فی مسندہ وھو حدیث ضعیف قال ابن عدی ولیص لسانھا لا یقولہ الا محمد بن دینار و قد ضعفہ یحیی بن معین وسعد بن اوس قال ابن معین فیہ ایضا بصری ضعیف وقال عبدالحق فی احکام ھذا حدیث لایصح فان ابن دینار وابن اوس لا یحتج بھما۔
یعنی اس کو احمد نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے اور یہ ضعیف ہے ابن عدی فرماتے ہیں ''زبان چوسنے'' کے الفاظ کوئی بیان نہیں کرتا سوائے محمد بن دینار کے اور تحقیق اس کو امام یحییٰ بن معین نے ضعیف کہا ہے اور سعد بن اوس کو بھی امام ابن معین فرماتے ہیں بصری بھی ضعیف ہے اور عبدالحق نے احکام میں فرمایا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں، کیونکہ ابن دینار اور ابن اوس دونوں ہی ناقابل حجت ہیں۔
برق صاحب محدثین تو اسے کھوٹا اور ناکارہ سکہ سمجھ کر مسترد کر رہے ہیں اور آپ فرماتے ہیں کہ محدثین ایک سے ایک بڑھیا حدیث گھڑتے گئے (دو اسلام ص۲۰۵) کہیے یہ محدثین کے ساتھ مذاق تو نہیں ہے؟ برق صاحب کسی پر الزام لگانے کے لیے وہ چیز پیش کی جاتی ہے، جس کو وہ صحیح تسلیم کرتا ہو اور جس کو وہ تسلیم ہی نہ کرتا ہو، اس کو بطور حجت پیش کرنا بعید از عقل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
(حذیفہ) فرماتے ہیں ... روزہ رکھ کر جو شخص بیوی کا تصور باندھے، اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ (دو اسلام ص ۳۰۴۔ ۳۰۵)
ازالہ
برق صاحب یہ بھی کھوٹا سکہ ہے، یہ قول حضرت حذیفہ پر اتہام ہے، امام شوکانی لکھتے ہیں:
قال فی الفتح واسنادہ ضعیف (نیل الاوطار باب تقبیل الصائم)
یعنی حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
سوال: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسود کو تو مباشرت سے روکا، لیکن خود اس فعل کا ارتکاب کرتی رہیں، یہ کیا؟ ... کیا جواب دوں اس سوال کا، نہ صرف اس فعل کا ارتکاب کرتی رہیں، بلکہ دوسروں کو ترغیب دیتی ہیں... محدثین کی ان نیرنگیوں کو کون سمجھے، ہر طرف اختلاف ہر جگہ تضاد۔ (دو اسلام ص ۲۰۵۔ ۲۰۱)
ازالہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خود اس فعل کا ارتکاب کرتی رہیں، یہ کس حدیث میں ہے؟ براہِ کرم اس کا حوالہ دیا جائے، مسئلہ زیر بحث کی اصلیت یہ ہے کہ جو شخص اپنی خواہش قابو میں نہ رکھ سکتا ہو، اس کے لیے بحالت روزہ مباشرت منع ہے ، اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جوان کو اس سے منع فرما دیا اور جو شخص اپنی خواہشات پر قابو رکھ سکتا ہے، اس کے لیے اجازت ہے اور اسی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ایسا کرلیا کرتے تھے اور اسی لیے آپ نے ایک بوڑھے کو اس کی اجازت دی، عبداللہ چونکہ روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے بالکل علیحدہ رہا کرتے تھے پاس تک نہ آتے تھے، ان کی بیوی نے حضرت عائشہ سے شکایت کی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مسئلہ سمجھانے کے لیے یہ بات کہی کہ تم اپنی بیوی کے پاس کیوں نہیں آتے، مطلب ان کا یہ تھا کہ تم اپنی بیوی کے پاس آسکتے ہو، پیار کرسکتے ہو، کھیل سکتے ہو، یہ راہبانہ زندگی تم نے کس سے سیکھی، عبداللہ کو اس پر تعجب بھی ہوا، اور پوچھا کہ کیا پیار بھی کرسکتا ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہاں (موطا امام مالک) گویا حضرت عائشہ کا مقصد مسئلہ سمجھانا اور ان کی شدت کو ختم کرنا تھا، نہ اس میں کوئی ترغیب تھی نہ کچھ اور سیاق و سباق اور پس منظر کو سامنے نہ رکھنے سے ایسی غلط فہمیاں ہو جایا کرتی ہیں، برق صاحب غالباً یہ سمجھتے ہوں گے کہ بیوی کے ساتھ ہنسنا، بولنا، پیار کرنا بغیر شہوت کے ہو ہی نہیں سکتا اور غالباً غلط فہمی کی اصل وجہ یہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
حیا عورت کی فطرت ہے کوئی عورت کسی صورت میں بھی شرمگاہوں (مردانہ ہوں یا زنانہ) کا ذکر نہیں کرتی، آج تک کسی بیوی نے اپنے شوہر سے مباشرت کی التجا نہیں کی اور نہ مرد کے سامنے کبھی عریاں بات کی تو پھر ہم یہ کیسے تسلیم کرلیں کہ حضرت عائشہ غیر مردوں کو اپنے گھر میں اور وہ بھی روزہ کی حالت میں بوس و کنار کی ترغیب دیتی تھیں۔ (دو اسلام ص ۲۰۶۔ ۲۰۷)
ازالہ
بے شک حیا عورت کی فطرت ہے لیکن اظہار حق کے معاملہ میں حیا مذموم ہے، یہی وجہ ہے کہ مسائل کے بیان میں ازواج مطہرات نے اخفائے حق سے کام نہیں لیا، اور کنایوں میں مسائل کو حل کردیا، یہ قطعاً صحیح نہیں کہ کسی زوجہ مطہرہ نے شرمگاہوں کا ذکر کیا ہو، اگر ایسی کوئی حدیث ہو، تو بتائیے پھر یہ بھی بتائیے کہ ڈاکٹری و طب یونانی کے کالجوں اور مدرسوں میں تناسل و توالد پر لیکچر دئیے جاتے ہیں یا نہیں اور آج کل کا گندہ معاشرہ ہوتا ہے، لیکن کبھی کسی نے کہا ہے کہ یہ کیا بے حیائی ہے بلکہ اب تو عام اسکولوں میں اس قسم کی ابتدائی تعلیم لازمی ہوگئی ہے، ہر اسکول میں اعضائے تناسل کے متعلق پڑھایا جاتا ہے اس کی شکلیں تک کھینچی جاتی ہے، پڑھانے والی عورتیں ہوتی ہیں، پڑھنے والی بھی عورتیں ہوتی ہیں لیکن اس تعلیم سے ان دونوں کو روکنے والی کوئی چیز نہیں ہوتی ، یہاں عورت کی فطرت کہاں چلی جاتی ہے۔
برق صاحب آپ بار بار لفظ مباشرت کو جماع کے معنوں میں استعمال کر رہے ہیں، اس سے قارئین کو بڑی غلط فہمی ہوتی ہے۔
پھر یہ بھی صحیح نہیں کہ ''حضرت عائشہ نے غیر مردوں کو اپنے گھر میں بوس و کنار کی ترغیب دی تھی'' جس شخص سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات کہی تھی، آپ ہی کے بیان کے مطابق وہ حضرت ابوبکر کے پوتے عبداللہ تھے (دو اسلام ص ۲۰۶) لہٰذا عبداللہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حقیقی بھتیجے اور محرم تھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی حقیقی پھوپھی تھیں، اب بتائیے کہ وہ محرم تھے یا نا محرم ، معلوم نہیں آپ لکھتے وقت کچھ غور بھی کرتے ہیں یا نہیں؟ اچھا اب یہ بھی بتائیے کہ اماں یا پھوپھی اپنے بچہ کو اس قسم کے مسائل سے آشنا کرتی ہے یا نہیں، خصوصاً اس وقت جب کہ بچہ مسئلہ کو غلط سمجھا ہو، حضرت عائشہ نے عبداللہ کی غلط فہمی دور کرکے مسئلہ سمجھا دیا اور روزہ میں راہبانہ زندگی کو مہمل قرار دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ساری قوم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو کیا پڑی تھی کہ مباشرت کی تلقین کرتی پھریں، آخر حضور علیہ السلام کے حرم میں دس ازواج اور بھی تھیں، ہر صحابی کے گھر میں ایک ایک بیوی تھی خود صحابہ کے منہ میں زبان تھی، پھر کیا وجہ ہے کہ مباشرت کی اکثر احادیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہیں۔ (دو اسلام ص ۲۰۷)
ازالہ
گویا برق صاحب کے خیال میں یہ حدیث صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، یہ عدم تحقیق کا نتیجہ ہے، یہ حدیث زوجہ مطہرہ حضرت ام سلمہ، حضرت عمر فاروق، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ وغیرہ سے مروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
مجھے یوں نظر آتا ہے کہ دشمنان اسلام نے حضرت عائشہ اور حضور علیہ السلام کے وقار کو کم کرنے کے لیے یہ احادیث وضع کیں۔ (دو اسلام)
ازالہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہ بیویوں کے تو آپ بھی قائل ہیں (دو اسلام ص۲۰۷) تو کیا یہ گیارہ بیویوں کا افسانہ بھی کسی دشمن اسلام کا شاخسانہ ہے ، تاکہ اس سے کردار رسول پر بھرپور چوٹ پڑے اور آپ کا وقار ختم ہو جائے اور جب یہ نہیں، تو اظہار مسائل سے وقار ختم نہیں ہوتا یہ بالکل مرعوب ذہنیت ہے۔
یہ حدیث جب دوسرے صحابیوں سے بھی مروی ہے ، تو پھر صرف حضرت عائشہ کا نام لینا غلط فہمی ہے، لہٰذا وضع کا شاخسانہ لغو ہے، آخر دشمنان اسلام کے نام تو لیجئے، امام مالک نے مؤطا میں اس کو ہشام بن عروہ اور عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، عروہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے اور حضرت عائشہ کے حقیقی بھانجے اور تربیت یافتہ ہیں، ہشام انہی عروہ کے لڑکے اور بہت بڑے امام ہیں، اب فرمائیے اس حدیث کے گھڑنے والے حضرت عروہ ہیں، یا امام ہشام یا خود امام مالک ہیں ان میں سے کس کو آپ دشمن اسلام سمجھتے ہیں؟ پھر ان کی یہی ایک سند نہیں بلکہ متعدد اسناد ہیں کس کس امام کو آپ دشمن اسلام سمجھیں گے، کیا قرآن کی اس آیت '' تبتغی مرضات ازواجک''(یعنی اے رسول تم اپنی بیویوں کی رضا کے جو یا ہو) سے رسول اور ازواج کے وقار کو ٹھیس نہیں پہنچتی؟ پھر کس کس چیز کو آپ دشمنان اسلام کا کرشمہ قرار دیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
خلاصہ
روزے کی حالت میں اپنی بیوی کے پاس اٹھنا، بیٹھنا اور خواہشات پر قابو رکھنے والے کے لیے پیار کرنا بالکل جائز ہے، اس سے نہ روزہ ٹوٹتا ہے، نہ روزہ میں کوئی خرابی آتی ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے منہ میں پانی لے کر کلی کرنا، جس طرح منہ میں پانی لینے سے روزہ میں کوئی نقص نہیں آتا، اسی طرح بیوی کو پیار کرنے سے بھی کوئی نقص نہیں آتا اور یہ مثال خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے روزہ کی حالت میں اپنی بیوی کو پیار کیا، پھر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، تو آپ نے فرمایا:
ارأیت لو تمخمضت بما، وانت صائم قلت لا باس بذلک فقال ففیم (ابوداؤد کتاب الصیام)
یہ بتاؤ، اگر تم روزے میں پانی سے کلی کرتے تو کیا ہوتا، میں نے کہا اس میں تو کوئی حرج نہیں آپ نے فرمایا پھر اس میں کیا حرج ہے۔
مطلب یہ کہ معنی میں پانی لینا اگرچہ پانی پینے کا پیش خیمہ ہے، لیکن چونکہ اس سے پانی پینے کی نیت نہیں ہوتی، لہٰذا روزہ میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوتی بالکل اسی طرح پیار کرنا جماع کا پیش خیمہ ہے۔ لیکن جب پیار کرنے سے جماع و شہوت کی نیت نہیں ہوتی، تو ایسا پیار بھی روزہ میں کوئی نقص پیدا نہیں کرتا۔
آپ کہیں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت ہی کافی تھی، عمل کرکے دکھانے کی آخر کیا ضرورت تھی، میں کہتا ہوں اس کی بھی وجہ ہے لیکن اگر وجہ نہ بھی ہو تو بھی جائز کام کرنے میں اعتراض ہی کیا ہے۔ آپ بلاوجہ ڈرر ہے ہیں، وجہ یہ تھی کہ مدعیان تقویٰ کے غلو کو توڑنا مقصود تھا، ایسا نہ ہو کہ کوئی مدعی تقویٰ یہ کہہ دے کہ یہ کام تقویٰ کے منافی ہے، لہٰذا مناسب نہیں عورت سے دور رہنا ہی مستحسن ہے اور اس طرح راہبانہ زندگی کی داغ بیل ڈالی جائے، خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک شخص نے پیار کرنے کو مناسب نہیں سمجھا، بلکہ آپ کے فعل کو یہ کہہ کر ٹالنے کی کوشش کی کہ '' آپ کی کیا بات ہے، آپ نبی ہیں، آپ کرسکتے ہیں'' آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا:
واللہ انی لا تفاکم للہ واخشاکم (صحیح مسلم)
اللہ کی قسم مجھ میں تم سے زیادہ اللہ کا تقویٰ اور اس کی خشیت ہے۔
بلکہ یہاں کتاب فرمایا:
انا اعلمکم بحدود اللہ (نیل الاوطار باب تفصیل الصائم بحوالہ عبدالرزاق)
میں اللہ تعالیٰ کے حدود کو تم سب سے زیادہ جانتا ہوں۔
بے شک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ متقی اور سب سے زیادہ محرم رموز شریعت تھے لہٰذا جو کچھ آپ نے کیا، وہ شریعت کے حدود کے اندر رہ کر کیا اور جو کچھ کیا، وہ جائز تھا، نامناسب نہیں تھا، آپ اور ہم اس کو مناسب کہنے والے کون؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
قرآن شریف میں مذکور ہے:
{ وَ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ قُلْ ھُوَ اَذًی فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَفِی الْمَحِیْضِ وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَ فَاِذَا تَطَھَّرْنَ فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللہُ } (البقرۃ)
لوگ آپ سے حیض کے متعلق پوچھتے ہیں کہہ دیجئے کہ حیض ایک قسم کی غلاظت ہے، اس لیے دوران حیض میں بیویوں سے دور رہیے اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب مت جائیے اور پاک ہونے کے بعد ان سے مباشرت کیجئے۔
اس آیت میں دو حکم دئیے گئے ہیں، اول حیض کی حالت میں عورتوں سے دور رہیے، دوم ان کے قریب مت جائیے ، ذرا دیکھیں کہ حدیث نے اس قریب دور کی کیا تشریح کی ہے۔
عن عائشۃ ... کان یامرنی فاتزر فیبا شرنی وانا حاتض
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حیض کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تہ پوش پہننے کا حکم دیتے اور اس کے بعد مجھ سے مباشرت کرتے تھے۔
...... یہ ہے قریب و دور کی تشریح حدیث میں۔ (دو اسلام ص ۲۰۷۔ ۲۰۸)
ازالہ
آیت مذکور میں '' اذی'' وارد ہوا ہے، برق صاحب نے اس کا ترجمہ غلاظت کیا ہے، حالانکہ یہ لفظ اذیت سے بنا ہے، یعنی حیض ایک قسم کی تکلیف ہے اور اس تکلیف کی حالت میں قربت مناسب نہیں ہے، ہاں جب وہ اس تکلیف سے پاک ہو جائیں تو پھر ان کے پاس آؤ، اس طریقہ سے جس طریقہ سے آنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے یعنی قانون فطرت کے مطابق نہ کہ خلاف وضع فطری کے طور پر، یہ ہے آیت کا منشاء اور مفہوم، آیت میں قربت سے مراد جماع ہے نہ کہ پاس اٹھنا، بیٹھنا اور { فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللہُ } (اللہ کے حکم کے مطابق ان کے پاس آو) اس پر قرینہ ہے ، برق صاحب نے قریب کے معنی پاس بیٹھنے کے سمجھ لیے اور اتنی لمبی چوڑی بحث کر ڈالی، آیت میں جماع کی ممانعت ہے، حدیث میں پاس اٹھنے ، بیٹھنے کی اجازت ، دونوں میں تعارض کہاں ہے، برق صاحب نے بار بار پاس اٹھنے بیٹھنے کے لیے لفظ مباشرت استعمال کیا ہے حالانکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ یہ لفظ اردو میں کچھ دوسرے معنی رکھتا ہے اور غلط فہمی کا موجب ہوسکتا ہے برق صاحب کی تحریر جو کوئی پڑھے گا، وہ یہی سمجھے گا کہ جماع کرتے تھے ، حالانکہ یہ قطعاً غلط ہے۔
 
Top