• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
ایک اہم سوال: کیا مجامعت کے بعد غسل ضروری ہے؟
کئی جواب: زید بن خالد نے حضرت عثمان سے دریافت کیا کہ اگر کوئی شخص مجامعت کرے اور انزال سے پہلے علیحدہ ہو جائے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے فرمایا شرمگاہ کو دھو ڈالے اور وضو کرلے میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی سنا تھا...۔ (بخاری)
(۲) دخول کے بعد غسل واجب ہو جاتا ہے (موطا ص: ۲۲)
(۳) ابوہریرہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا... غسل واجب ہو جاتا ہے خواہ انزال ہوا یا نہ (صحیح مسلم)
(۴) ابی بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص مجامعت کرے اور انزال سے پہلے علیحدہ ہو جائے تو کیا وہ غسل کرے، فرمایا: وہ صرف وضو کرکے نماز پڑھ لے۔ (صحیح مسلم)
ازالہ
حضرت عثمان کا جواب یہ ہے:
یتوضأ کما یتوضأ للصلوٰۃ (صحیح بخاری)
''یعنی ایسا وضو کرلے، جیسا نماز کے لیے کیا جاتا ہے۔''
ظاہر ہے کہ سواں نماز پڑھنے کے لیے نہیں تھا، بلکہ دوسری ضروریات کے لیے تھا، مثلاً کھانا، پینا، چلنا، پھرنا وغیرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا کان جنبا فارادان یاکل ادینا توضا وضوء للصلوٰۃ (مسلم)
''یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحالت جنب جب کھانے یا سونے کا ارادہ فرماتے تو وضو کرتے جیسا کہ نماز کے لیے وضو کیا جاتا ہے۔''
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ علاوہ نماز کے دوسری ضروریات کے لیے صرف وضو کافی ہے۔
نمبر (۲) اور نمبر (۳) کا مضمون واحد ہے اور یہی حکم ہے جواب باقی ہے اور قیامت تک رہے گا یعنی نماز کے لیے غسل ضروری ہے خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔
حدیث نمبر (۴) ایک منسوخ حدیث ہے جس کو حضرت ابی بن کعب نے بیان فرمایا تھا، ابی بن کعب خود ہی فرماتے ہیں:
انما کان الماء من الماء رخصۃ فی اول الاسلام ثم نہی عنہا (ترمذی)
''یعنی انزال سے غسل کرنا یہ رخصت شروع اسلام میں تھی پھر ہم کو اس سے منع کر دیا گیا۔''
ثم امرنا بالاغتسال بعدہا (ابو داؤد)
''پھر ہمیں اس کے بعد غسل کا حکم دیا گیا۔''
لہٰذا چاروں احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
کیا سمجھے؟... دخول کے بعد غسل ضروری ہے یا غیر ضروری ہے! سمجھنا کیا ہے بھیا! یہ ہے وحی خفی! ہم وحی جلی کو بھی نہیں سمجھ سکتے، ان مخفی اسرار کی تہہ تک کیسے پہنچیں۔ (ص: ۲۳۲)
ازالہ
برق صاحب یہ طنز آپ کو زیب نہیں دیتا، یہ تو اپنے اصطلاحی ملا کے لیے رہنے دیجیے، اگر آپ وحی جلی کو بنیں سمجھ سکتے تو پھر وہ بھی قابل اعتراض ٹھہری، جس طرح کہ وحی خفی سمجھ میں نہ آنے کی وجہ سے قابل اعتراض ہے، آپ سمجھے؟ برق صاحب یہ حقیقت ہے کہ وحی جلی کا سمجھنا آسان کام نہیں، وحی جلی کے سمجھنے کا آسان طریقہ یہی ہے کہ وحی خفی کی تشریح میں اسے دیکھا جائے، اگر ایسا نہ کیا جائے تو صلوۃ کے معنی معلوم ہوں گے نہ عمرہ کے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
کیا غسل سے بچے ہوئے پانی سے وضو جائز ہے؟ (۱) ناجائز ہے۔
(۱) ناجائز ہے۔
ان رسول اللہ نہی ان یتوضا الرجل بفضل الطہورۃ (ترمذی، ابن ماجہ)
''عورت کے غسل سے بچے ہوئے پانی کو وضو کے لیے مت استعمال کرو۔''
(۲) جائز ہے (الف)
عن ابن عباس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یغتسل بفضل میمونۃ (مسلم جلد اول ۴۷۳)
''ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضور حضرت میمونہ کے غسل سے بچے ہوئے پانی سے نہایا کرتے تھے۔'' (دو اسلام ص: ۲۳۲،۲۳۳)
ازالہ
برق صاحب! پہلی حدیث میں حکم عام ہے، دوسری حدیث میں اس کی تحفیص ہے، یعنی یہ حکم میاں بیوی کے درمیان نہیں ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کے محرم ہوتے ہیں پھر دونوں ایک ہی گھر میں رہتے ہیں، اس لیے اس قسم کی پابندی تکلیف بالا یطاق ہے دونوں حدثیں اپنی جگہ پر بالکل صحیح ہیں نامحرم کے بچے ہوئے پانی سے وضو نہیں کرسکتے، اور محرم کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرسکتے ہیں، برق صاحب یہ ایک نفسیاتی اور جنسی مسئلہ ہے وضو کرنے والے کو اس بچے ہوئے پانی سے ایک قسم کا تعلق ہو جاتا ہے اور ایک نامحرم اس تعلق کی وجہ سے اس پانی سے حظ اٹھا سکتا ہے، یہ محض ایک جذباتی چیز ہے، جو بغیر کافی تجربہ اور نفسیاتی و جنسیاتی علوم میں مہارت پیدا کیے سمجھ میں نہیں آسکتی، وضو ایک مقدس فریضہ ہے اور ایک مقدس فریضہ کا پیش خیمہ، لہٰذا اس میں کسی ایسے جذبہ کی آمیزش جس کا تعلق شہوات نفسانی سے ہو، مناسب نہیں تھا، اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا، اور چونکہ یہ چیز محرم کے بچے ہوئے پانی سے پیدا نہیں ہوئی، اس لیے آپ نے اپنے فعل سے اس پر مہر جواز لگا دی، کیسے اب کیا اعتراض ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
کیا آگ کی پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
(۱) ٹوٹ جاتا ہے... زید بن ثابت کہتے ہیں کہ میں نے حضور کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ آگ کی پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد نیا وضو ضروری ہے۔
(۲) نہیں ٹوٹا... ایک مرتبہ حضور نے ایک بکری کا بھنا ہوا بازو تناول فرمایا: اور پھر وضو کیے بغیر نماز پڑھ لی۔ (دو اسلام ص: ۲۳۳،۲۳۴)
ازالہ
پہلی حدیث میں وضو سے مراد نماز کا وضو نہیں ہے، اور ایک حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے، افسوس ہے کہ آپ نے تحقیق نہیں کی وہ حدیث یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھایا۔
نغسل یدیہ ومسح بلل کفیہ وجہہ وذراعیہ درأسہ وقال ہذا الوضوء مما غیرت النار (رواہ الترمذی)
''پھر آپ نے دونوں ہاتھ دھوئے اور دونوں ہتھیلیوں کی تری سے منہ پر، کلائیوں پر اور سر پر مسح کرلیا، اور فرمای: کہ آگ کی پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد کا وضو یہ ہے۔''
یہ ہے وہ وضو جو کھانا کھانے کے بعد سنت ہے یہ وضو صلوٰۃ نہیں، دوسری روایت میں وضو صلوٰۃ مراد ہے وہ نہیں ٹوٹتا، اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو صلوٰہ نہیں کیا، اور پہلے وضو ہی سے نماز پڑھ لی، الغرض کھانا کھانے سے وضو نماز نہیں ٹوٹتا، لیکن کھانا کھا کر دونوں ہاتھ دھو لینے چاہئیں، وغیرہ وغیرہ، ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے، ایک حدیث میں اس کی صاف صراحت ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
قدم الیہ طعام فقالوا الا ناتیک بوضوء قال انما امرت بالوضوء اذا تمت الی الصلوٰۃ (ابو داؤد، ترمذی)
''آپ کے سامنے کھانا لایا گیا تو لوگوں نے کہا وضو کے لیے پانی لائیں آپ نے فرمایا: وضو کا حکم تو صرف نماز کے لیے دیا گیا ہے۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
سوال یہ ہے کہ آیا وضو میں ہاتھ، منہ اور پائوں کو ایک ایک مرتبہ دھونا چاہیے یا زیادہ حدیث کا فیصلہ ملاحظہ ہو:
(۱) حضور ایک مرتبہ دھوتے تھے:
عن ابن عباس قال توضا النبی صلی اللہ علیہ وسلم مرۃ مرۃ (بخاری، کتاب الوضوء)
''ابن عباس کہتے ہیں کہ حضور وضو میں اعضاء کو ایک ایک مرتبہ دھوتے تھے۔''
(۲) دو، دو مرتبہ دھوتے تھے:
عن عبداللہ بن زید ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم توفہا مرتین مرتین (بخاری، کتاب الوضوء)
''عبداللہ بن زید کہتے ہیں کہ حضور وضو میں اعضا کو دو، دو مرتبہ دھوتے تھے۔''
(۳) تین تین مرتبہ دھوتے تھے:
حضرت عثمان بن عفان فرماتے ہیں کہ حضور تین مرتبہ اعضا کو دھوتے تھے اور جو شخص اس طرح وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھ لے، اس کے تمام پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں (بخاری کتاب الوضو، دو اسلام ص: ۲۳۴)
ازالہ
پہلی دونوں حدیثوں کی عبارت بتا رہی ہے کہ دونوں حدیثوں کا تعلق ایک خاص واقعہ سے ہے برق صاحب سے ان دونوں کے ترجمہ میں غلطی ہوئی صحیح ترجمہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک مرتبہ دھویا ''دو، دو مرتبہ دھویا'' نہ یہ کہ دھوتے تھے'' دونوں میں ماضی مطلق کا صیغہ ہے نہ کہ ماضی استمراری کا تیسری حدیث میں عادت مستمرہ کا بیان ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مستمرہ تو یہی تھی کہ آپ تین تین مرتبہ ہر عضو کو دھویا کرتے تھے اور یہی اصلی وضو ہے اسی پر دو ثواب ہے جو حدیث نمبر (۳) میں مذکور ہے، ہاں کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ آپ نے ایک یا دو مرتبہ بھی دھو لیا ہے اس کی صورت محض جواز کی ہے سنت کی نہیں، عرب کے بے آب و گیاہ ریگستانوں میں اکثر پانی کی قلت ہوتی ہے لہٰذا جب کبھی پانی کی قلت ہوئی آپ نے دو مرتبہ یا ایک مرتبہ دھوکر وضو کرلیا اس کا تجربہ ہم کو کراچی کی زندگی میں اکثر ہوا ہے کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ نل سے پانی نہیں آتا جو تھوڑا بہت پانی ہوتا ہے، اسی سے وضو کرنا پڑتا ہے بعض اوقات دو، دو مرتبہ اور بعض اوقات ایک ایک مرتبہ ہر عضو کودھونا پڑتا ہے، اتنا پانی ہی نہیں ملتا کہ تین تین مرتبہ دھویا جائے غیر کامل وضو کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہوئی دوسری وجہ سنیے، حضرت اسامہ رضی اللہ کہتے ہیں:
دفع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من عرفۃ حتی اذا کان بالشعیب نزل فبال ثم توضأ ولم یسبغ الوضوء فقد صلہ الصلوٰۃ، قال الصلوٰۃ امامک فرکب فاما جاء المزدلفۃ نزل فتوضا فاسبغ الوضو ثم اقیمت الصلوٰۃ فصلی المغرب (صحیح مسم باب الافاضۃ من عرفات)
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے چلے جب گھاٹی میں پہنچے تو اترے پیشاب کیا پھر وضو کیا لیکن پورا وضو نہیں کی میں نے کہا: نماز پڑھ لیجیے فرمایا: نماز آگے چل کر پڑھیں گے پس آپ سوار ہوئے۔ اور مزدلفہ پہنچ کر اترے پھر آپ نے پورا وضو کیا، پھر اقامت ہوئی اور آپ نے مغرب کی نماز پڑھی۔''
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علاوہ نماز کے حضور مختصر وضو کرلیا کرتے تھے لیکن نماز کے لیے پورا ہی وضو کرتے تھے لہٰذا اگر کسی حدیث میں مختصر وضو مذکور ہے تو ان دونوں وجہوں میں سے کسی ایک وجہ کی بنا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
''ہم ظہر، عصر اور عشاء کی نماز میں چار چار رکعات پڑھتے ہیں، لیکن ... عمر بن خطاب فرمایا کرتے تھے کہ رات اور دن کی نماز صرف دو، دو رکعت ہے۔'' (دو اسلام ص: ۲۳۵)
ازالہ
حضرت عمر رضی اللہ کے جس قول کو برق صاحب نے نقل فرمایا ہے، اس سے نفل نماز مراد ہے، اس قول کو فرض نماز کی طرف گھسیٹ کر لے جانا زبردست غلط فہمی ہے، حضرت عمر رضی اللہ سے متعدد احادیث میں ظہر، عصر اور عشاء میں چار رکعت ہی ثابت ہیں۔
دوسرے طریقہ سے
حضرت عمر رضی اللہ کا یہ قول سنداً بیان نہیں ہوا، بلکہ مؤطا میں بلا سند بے لہٰذا بے سند چیز کو اعتراض میں مانا خود قابل اعتراض ہے، جو چیز ثابت ہی نہ ہو، اس پر اعتراض فضول ہے۔
تیسرے طریقہ سے
حضرت عمر رضی اللہ کے اس قول کی تشریح ان کے اس قول سے ہوتی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:
صلاۃ السفر رکعتان و صلوۃ الجمعۃ رکعتان والفطر والاضحی رکعتان تمام غیر قصر علی لسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم (ابن ماجہ کتاب تقصیر الصلوۃ)
''سفر کی نماز دو دو رکعت ہے جمعہ، عیدالفطر اور عیدالاضحی کی نمازیں دو رکعت ہیں، یہ پوری نمازیں ہیں ان میں کوئی کمی نہیں ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی یہی ہے۔''
الغرض حضرت عمر رضی اللہ کا زیر بحث قول اول تو ثابت نہیں اور اگر ثابت مان لیا جائے تو اس سے مراد یا تو نفل نماز ہے، یا نماز سفر مراد ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
بخاری میں مذکور ہے، ابو جحیفہ کہتے ہیں کہ ایک دن دوپہر کے وقت حضور باہر تشریف لائے پانی منگوایا،وضو کیا... اور پھر صلوٰۃ ظہر و عصر کی دو، دو رکعتیں پڑھیں۔
اس حدیث میں قطعاً یہ مذکور نہیں ہے کہ آپ سفر پر تھے اور اس لیے آپ نے نماز میں تخفیف کرلی تھی۔ (دو اسلام ص: ۲۳۵،۲۳۶)
ازالہ
اس ہی حدیث میں آگے یہ لفظ ہیں ''وبین یدیہ عنزۃ'' اور بطور سترہ کے آپ کے سامنے ایک برچھی کھڑی کر دی تھی، اس سے صاف ظاہر ہوا کہ یہ مسجد نبوی کا واقعہ نہیں ہے کیونکہ مسجد میں برچھی گاڑنا قرین قیاس نہیں ہے، پھر اس سے ذرا اوپر ابو جحیفہ کی دوسری روایت ہے، اس میں صاف مذکور ہے کہ:
ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی بہم بالبطحاء وبین یدیہ عنزۃ الظہور رکعتین والعصر رکعتین بہ بین یدیہ المرأۃ والحمار (بخاری، کتاب السترۃ)
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو مقام بطحاء میں ظہر و عصر کی دو دو رکعت نماز پڑھائی اور آپکے سامنے برچھی تھی اور آپ کے سامنے سے عورتیں اور گدھے گذر رہے تھے۔''
بطحاء مکہ میں ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ آپ نے دو، دو رکعت سفر میں پڑھائی تھیں صحیح مسلم میں اور بھی زیادہ صراحت ہے، ابو جحیفہ فرماتے ہیں:
ثم لم یزل یصلی رکعتین حتی رجع الی المدینۃ (مسلم باب سترۃ المصلی)
''حضور دو، دو رکعت ہی پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ واپس مدینہ منورہ پہنچے۔''
دیکھا آپ نے احادیث تو پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ یہ سفر کا واقعہ تھا لیکن کیا کیا جانے عدم تحقیق ؟؟ بری چیز ہے اگر آپ تحقیق کرتے تو یہ غلط فہمی کیوں ہوتی۔
ہم نماز عصر کے بعد نقل وغیرہ مکروہ سمجھتے ہیں، اور یہی فیصلہ حضرت عمر رضی اللہ کا بھی تھا ...
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
لیکن حضرت عائشہ فرماتی ہیں...
رکعتان لم یکن رسول اللہ یدعہما سرا وعلانیۃ رکعتان قبل الصبح ورکعتان بعد العصر
''کہ حضور نماز صبح سے پہلے اور نماز عصر کے بعد ہمیشہ دو رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔'' (دو اسلام ص: ۲۳۶)
ازالہ
برق صاحب سے ترجمہ کرنے میں غلطی ہوئی، پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث سنیے:
کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلیہما ولا یصلیہما فی المسجد مخافۃ ان یثقل علی امتہ وکان یحب ما یخفف عنہم (بخاری جلد اول کتاب المواقیت)
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے اور ان دونوں کو مسجد میں نہیں پڑھتے تھے یعنی خفیہ ادا کرتے تھے، اس خوف سے کہ امت پر بوجھ نہ ہو جائے اور آپ امت پر تخفیف پسند کرتے تھے۔''
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عصر کے بعد ان دو رکعتوں کو آپ علانیہ ادا نہیں فرماتے تھے اب حدیث زیر بحث کا صحیح ترجمہ سنیے:
دو رکعتیں ایسی ہیں، جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ علانیہ چھوڑتے تھے اور نہ تنہائی میں چھوڑتے تھے اور وہ دو رکعت فجر سے پہلے کی دو رکعت ہیں، اور عصر کے بعد کی بھی دو رکعت آپ پڑھتے تھے، لفظ علانیہ بتا رہا ہے کہ نہ چھوڑنا فجر کی سنتوں کے متعلق ہے کیونکہ عصر کی سنتیں تو آپ علانیہ پڑھتے ہی نہ تھے۔
جو فیصلہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہے، وہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ہے، آپ نے بھی عصر کے بعد نوافل سے منع فرمایا ہے، مگر کب؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
نھی رسول اللہ ﷺ عن صلوۃ بعد العصر الا ان تکون الشمس بیضاء نقی گرتفعۃ (نسائی)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نفل نماز سے منع فرمایا ہے، مگر سوائے اس کے کہ سورج سفید، چمکدار اور بہت بلند ہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی وقت میں یہ دو رکعت پڑھتے تھے، لہٰذا یہ پڑھنا ممانعت کے وقت میں نہیں تھا، لہٰذا تعارض بھی نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ہم قیام صلوٰۃ کے وقت اقامت میں ہر تکبیر دو مرتبہ کہیں، لیکن مسلم میں درج ہے ... حضرت بلال کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان کی تکبیریں دو دو مرتبہ اور اقامت کی صرف ایک مرتبہ کہے۔ (ص ۴۲۶)
ازالہ
یہ بھی کوئی تعارض کی بات ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان و اقامت کے دو طریقہ تعلیم دئیے ہیں، لہٰذا دونوں صحیح ہیں '' ہم ایسا کرتے ہیں'' اور '' فقہ میں ایسا لکھا ہے'' ان جملوں سے حدیث پر کیا اعتراض ہے، آپ حنفی المذہب معلوم ہوتے ہیں اور حنفی مذہب سب کا سب صحیح بھی نہیں لہٰذا اگر اس میں کوئی بات غلط ہو اور آپ غلط عمل کر رہے ہوں، تو اس غلط مذہب اور غلط عمل کو چھوڑا جائے گا، نہ کہ حدیث کو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ہم پہلی دو رکعتوں میں فاتحہ کے ساتھ کوئی نہ کوئی سورت بھی پڑھتے ہیں، لیکن مسلم میں درج ہے کہ ایک شخص نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا فاتحہ کے ساتھ کوئی سورت پڑھنا ضروری ہے کہا ... اگر کوئی سورت پڑھ لے، تو اچھا ہے، ورنہ فاتحہ ہی کافی ہے اور ہمارے ائمہ فقہ کہتے ہیں کہ صرف فاتحہ سے نماز مکمل نہیں ہوتی۔ (دو اسلام ص ۲۳۷)
ازالہ
آپ حنفی مذہب کے مطابق نماز پڑھتے ہیں، حنفی مذہب میں تو یہاں تک ہے، کہ آخری دو رکعت میں کچھ بھی نہ پڑھے۔ تو نماز ہو جائے گی، کہیے اب آپ کا کیا خیال ہے، آپ اپنے مروجہ مذہب کی غلطی کو صحیح مان کر حدیث کو قابل اعتراض ٹھہراتے ہیں اور یہ اصول ہی غلط ہے، حدیث کے مقابلہ میں فقہ کی بات مسترد کی جائے گی، حضرت ابوہریرہ کا یہ قول مقتدی کے لیے ہے یا آخری یا دو رکعت کے متعلق کیونکہ یہی دونوں باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لا تقروا بشئی من القران اذا جھرت الا بام القران فانہ لا صلوۃ لمن لم یقرأبھا۔ (ابوداؤد)
جب میں بلند آواز سے قرات کروں تو قرآن میں سے کچھ بھی نہ پڑھو، مگر سورۃ فاتحہ کیونکہ اس کے بغیر تو نماز ہی نہیں ہوتی۔
ابو قتادہ فرماتے ہیں :
کان النبی ﷺ یقرأ فی الظھر فی الاولیین بام الکتاب و سورتین وفی الرکعتین الاخرین بام الکتاب ... وھکذا فی العصر (صحیح بخاری ، صحیح مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور سورت پڑھتے تھے اور آخر دو رکعت میں صرف سورہ فاتحہ۔
برق صاحب حنفی مذہب تو ان دونوں احادیث کے خلاف ہے، نہ ان کے ہاں مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ ضروری اور نہ آخری دو رکعت میں سورت فاتحہ ضروری حتیٰ کہ ان کے ہاں تو سورہ فاتحہ پڑھنا نہ امام پر فرض نہ مقتدی پر نہ منفرد پر، اگر چھوٹی سی ایک آیت پڑھ لی جائے، فرض ادا ہو جائے گا۔
 
Top