باب ۱۱
'' بہترین عمل''
غلط فہمی
جب ملا نے دیکھا کہ مسلمان بننے کے لیے جان دینا پڑتی ہے، تو اس نے بعض دیگر اعمال کی افضیلت پر احادیث گھڑنا شروع کردیں اور جہاد کی وقعت کو گھٹا کر کہیں تو اسے تیسرے یا چوتھے درجے کا عمل بنا دیا، اور کہیں اچھے اعمال کی فہرست ہی سے خارج کردیا۔ (ص ۲۵۶)
ازالہ
برق صاحب قرآن میں بھی ایسی متعدد آیات ہیں، جن میں جہاد کا ذکر نہیں ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ } (حم سجدہ)
جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ تعالیٰ ہے اور پھر اسی پر جمے رہے ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ نہ تم ڈرو، اور نہ غم کھاؤ، اور اس جنت کی بشارت سنو، جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔
اس آیت کی رو سے بس '' اللہ ربنا'' کہہ لے اور اسی پر جما رہے، یعنی اسی کا ورد کرتا رہے تو وہ جنتی ہے، کتنی اچھی آیت ہے، کہ نہ مالی قربانی کی ضرورت، نہ میدان کارزار میں داد و شجاعت دینے کی ضرورت، کیا یہ آیت بھی کسی ملا کی گھڑی ہوئی ہے؟
{ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ۔ الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ۔ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا لَھُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَ مَغْفِرَۃٌ وَّ رِزْقٌ کَرِیْمٌ } (انفال)
مومن تو صرف وہی لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جائیں اور جب ان کے سامنے آیات تلاوت کی جائیں تو ان کا ایمان زیادہ ہو جائے اور وہ اللہ پر توکل رکھتے ہیں، جو لوگ نماز کو قائم کرتے ہیں اور ہماری دی ہوئی دولت میں سے خرچ کرتے ہیں، یہی لوگ سچے مومن ہیں ان کے لیے اللہ کے ہاں درجات ہیں، مغفرت ہے اور بہترین رزق ہے۔
اس آیت میں بھی جہاد کا ذکر نہیں، بس دل کو نرم بنا لے، توکل کرے، نماز پڑھے اور تھوڑا بہت کبھی خرچ بھی کرتا رہے ، خواہ اس خرچ کا محل کچھ ہی ہو، اللہ کے لیے خرچ کرنا بھی ضروری نہیں ہے، بس وہ پکا مومن ہے، حقیقی مسلمان وہی ہے، وہ جنت کا ٹھیکیدار ہے، کہئے اس آیت کے متعلق کیا خیال ہے:
{ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ۔ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فَاعِلُوْنَ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ ۔ اِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ ۔ فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَذٰلِکَ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْعَادُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمَانٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَوَاتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ ۔ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْوَارِثُوْنَ ۔ الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ } (المؤمنون)
بے شک نجات پائی ان مومنین نے جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں اور جو لغو کاموں سے دور رہتے ہیں اور جو زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے بیوی اور لونڈی کے کہ ان کے حق میں وہ قابل ملامت نہیں ہیں ہاں جو ان کے علاوہ تلاش کریں وہ حد سے گزرنے والے ہیں اور جو لوگ امانتوں اور عہدوں کی حفاظت کرتے ہیں اور وہ لوگ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں، یہی لوگ جنت الفردوس کے وارث ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
برق صاحب! دیکھا آپ نے اعمال صالحہ کی کتنی لمبی فہرست ہے، لیکن جہاد کا ذکر کہیں نہیں وہ معارج میں کم و بیس انہی اعمال پر مشتمل پھر ایک لمبی فہرست ہے، لیکن اس میں بھی جہاد کا ذکر نہیں، باوجود اس کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
{ اولئک فی جنت مکرمون } (معارج) ی
ہ لوگ جنت میں عزت والے ہوں گے، ان طویل فہرستوں میں جہاد کا ذکر تک نہ ہونا، یہ ثابت کرتا ہے کہ جہاد کوئی ایسی ضروری چیز نہیں، جس کے بغیر جنت نہ مل سکے، کہئے اب ان آیات کے متعلق کیا خیال ہے، قرآن مجید میں اس قسم کی اور بھی بہت سی آیات ہیں، نجوف طوالت نقل نہیں کرسکتا، مشتے نمونہ از خردارے یہی کافی ہے۔