• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ابو امامہ کہتے ہیں کہ میں اور عمر بن عبدالعزیز نماز ظہر پڑھ کر معاً حضرت انس بن مالک کے ہاں چلے گئے، کیا دیکھتے ہیں کہ وہ نماز عصر پڑھ رہے ہیں، ہم نے پوچھا یہ کیا؟ کہنے لگے کہ حضور کا وقت عصر یہی تھا۔ (دو اسلام ص ۲۴۸)
ازالہ
اس میں اعتراض کی کیا بات ہے، ان لوگوں نے ظہر کی نماز دیر سے پڑھی ہوگی، یہ قصور ان کا ہے نہ کہ اصلی وقت تھا، عصر کا اصلی وقت مغرب سے تقریباً ۳ گھنٹہ پہلے شروع ہوتا ہے آج کل عوام الناس جس وقت نماز پڑھتے ہیں، وہ آخر وقت ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اس کے بعد برق صاحب نے چند اور اختلاف کے عنوان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ دعائیں نقل فرمائی ہیں، اور ان کو اپنے عمل یا احناف کے عمل سے متعارض سمجھا ہے، برق صاحب بات یہ نہیں ہے جو آپ سمجھے ہیں ، اگر رکوع میں ایک سے زاید دعائیں اورماثور ہیں، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ سب غلط ہیں، بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ وہ بھی سنت ہیں، اور اگر کوئی شخص چاہے تو انہیں بھی پڑھ سکتا ہے اور اگر صرف ''سبحان ربی العظیم'' پر اکتفا کرے، تو یہ بھی کافی ہے، آخر اس میں اشکال کی کونسی بات ہے، اشکال تو اس وجہ سے پیدا ہوا کہ آپ کو بچپن سے ان دعاؤں سے ناواقف رکھا گیا، اگر شروع ہی سے ان کو بھی تعلیم دیا جاتا، تو پھر آپ کو یہ دعائیں عجیب و غریب معلوم نہ ہوتیں، بلکہ آپ خود کہتے کہ جس طرح سورہ فاتحہ کے بعد جو سورت چاہیں پڑھ سکتے ہیں، اسی طرح رکوع میں جو دعائیں چاہیں پڑھ سکتے ہیں، لیکن یہ واضح رہے کہ سبحان ربی العظیم کاپڑھنا زیادہ اہم ہے اس لیے کہ اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔ اگر سورتوں کا اختلاف اعتراض پیدا نہیں کرتا تو دعاؤں کا اختلاف اعتراض کیوں پیدا کرتا ہے۔
غلط فہمی
تو یہ ہے حدیث کی نماز! کیا آپ یہی نماز پڑھا کرتے تھے، اگر نہیں تو پھر کس منہ سے یہ کہا کرتے ہیں، کہ اگر حدیث نہ رہے تو نماز کا نام و نشان مٹ جائے، آپ حدیث کی نماز سے کوسوں بھاگتے ہیں اور پھر حدیث کو شارح صلوٰۃ بھی کہتے ہیں، سمجھ میں نہیں آتا کہ بڑا معمہ کون سا ہے، آپ یا آپ کی حدیث۔ (دو اسلام ص ۲۵۱۔ ۲۵۲)
ازالہ
آپ کی تمام غلط فہمیوں کا جواب اوپر دیا جاچکا ہے، لہٰذا حدیث کی نماز بالکل صحیح ہے اور اسی طریقہ سے افراد جماعت حقہ عاملین بالحدیث نماز ادا کرتے ہیں، حدیث کی نماز سے کوسوں دور وہ بھاگتے ہیں، جنہوں نے اپنے علیحدہ علیحدہ مذہب بنا لیے ہیں، اور جو اپنے مذہب کی خاطر طرح طرح کے حیلوں اور بہانوں سے حدیث کو رد کرتے ہیں، بلکہ سچ پوچھئے تو فتنہ انکار حدیث کو جنم دینے والے یہی لوگ ہیں اور اس فتنہ کی پرورش کرنے والے وہ لوگ ہیں جو آج علی الاعلان میدان میں اتر آئے ہیں، برق صاحب اس جلی اور خفی انکار حدیث سے بچئے، فرقہ بندی سے علیحدہ ہو کر نماز کو سیکھئے ، پھر آپ کو وہی نماز حاصل ہوگی، جو حدیث میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
باب ۱۱
'' بہترین عمل''

غلط فہمی
جب ملا نے دیکھا کہ مسلمان بننے کے لیے جان دینا پڑتی ہے، تو اس نے بعض دیگر اعمال کی افضیلت پر احادیث گھڑنا شروع کردیں اور جہاد کی وقعت کو گھٹا کر کہیں تو اسے تیسرے یا چوتھے درجے کا عمل بنا دیا، اور کہیں اچھے اعمال کی فہرست ہی سے خارج کردیا۔ (ص ۲۵۶)
ازالہ
برق صاحب قرآن میں بھی ایسی متعدد آیات ہیں، جن میں جہاد کا ذکر نہیں ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ } (حم سجدہ)
جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ تعالیٰ ہے اور پھر اسی پر جمے رہے ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ نہ تم ڈرو، اور نہ غم کھاؤ، اور اس جنت کی بشارت سنو، جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔
اس آیت کی رو سے بس '' اللہ ربنا'' کہہ لے اور اسی پر جما رہے، یعنی اسی کا ورد کرتا رہے تو وہ جنتی ہے، کتنی اچھی آیت ہے، کہ نہ مالی قربانی کی ضرورت، نہ میدان کارزار میں داد و شجاعت دینے کی ضرورت، کیا یہ آیت بھی کسی ملا کی گھڑی ہوئی ہے؟
{ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ۔ الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ۔ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا لَھُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَ مَغْفِرَۃٌ وَّ رِزْقٌ کَرِیْمٌ } (انفال)
مومن تو صرف وہی لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جائیں اور جب ان کے سامنے آیات تلاوت کی جائیں تو ان کا ایمان زیادہ ہو جائے اور وہ اللہ پر توکل رکھتے ہیں، جو لوگ نماز کو قائم کرتے ہیں اور ہماری دی ہوئی دولت میں سے خرچ کرتے ہیں، یہی لوگ سچے مومن ہیں ان کے لیے اللہ کے ہاں درجات ہیں، مغفرت ہے اور بہترین رزق ہے۔
اس آیت میں بھی جہاد کا ذکر نہیں، بس دل کو نرم بنا لے، توکل کرے، نماز پڑھے اور تھوڑا بہت کبھی خرچ بھی کرتا رہے ، خواہ اس خرچ کا محل کچھ ہی ہو، اللہ کے لیے خرچ کرنا بھی ضروری نہیں ہے، بس وہ پکا مومن ہے، حقیقی مسلمان وہی ہے، وہ جنت کا ٹھیکیدار ہے، کہئے اس آیت کے متعلق کیا خیال ہے:
{ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ۔ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فَاعِلُوْنَ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ ۔ اِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ ۔ فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَذٰلِکَ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْعَادُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمَانٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَوَاتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ ۔ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْوَارِثُوْنَ ۔ الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ } (المؤمنون)
بے شک نجات پائی ان مومنین نے جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں اور جو لغو کاموں سے دور رہتے ہیں اور جو زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے بیوی اور لونڈی کے کہ ان کے حق میں وہ قابل ملامت نہیں ہیں ہاں جو ان کے علاوہ تلاش کریں وہ حد سے گزرنے والے ہیں اور جو لوگ امانتوں اور عہدوں کی حفاظت کرتے ہیں اور وہ لوگ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں، یہی لوگ جنت الفردوس کے وارث ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
برق صاحب! دیکھا آپ نے اعمال صالحہ کی کتنی لمبی فہرست ہے، لیکن جہاد کا ذکر کہیں نہیں وہ معارج میں کم و بیس انہی اعمال پر مشتمل پھر ایک لمبی فہرست ہے، لیکن اس میں بھی جہاد کا ذکر نہیں، باوجود اس کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے { اولئک فی جنت مکرمون } (معارج) یہ لوگ جنت میں عزت والے ہوں گے، ان طویل فہرستوں میں جہاد کا ذکر تک نہ ہونا، یہ ثابت کرتا ہے کہ جہاد کوئی ایسی ضروری چیز نہیں، جس کے بغیر جنت نہ مل سکے، کہئے اب ان آیات کے متعلق کیا خیال ہے، قرآن مجید میں اس قسم کی اور بھی بہت سی آیات ہیں، نجوف طوالت نقل نہیں کرسکتا، مشتے نمونہ از خردارے یہی کافی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرت سے پوچھا کہ سب سے بہترین عمل کون سا ہے، فرمایا: نماز بہ پابندی وقت، اس کے بعد والدین کی خدمت اور اس کے بعد جہاد (صحیح بخاری جلد ۲، ص۸۹) دیکھا آپ نے نماز کو کہاں رکھا اور جہاد کو کہاں جا پھینکا۔ (دو اسلام ص۲۵۶)
ازالہ
برق صاحب اوپر اعمال صالحہ کی سورۂ مومنون اور سورۂ معارج سے طویل قرآنی فہرستیں پیش کی جاچکی ہیں، ان دونوں فہرستوں میں نماز سے آغاز ہوا ہے اور نماز ہی پر اختتام ہوا ہے، گویا نماز پر بڑا زور دیا گیا ہے ، رہا جہاد تو اس کا ان طویل فہرستوں میں ذکر تک نہیں، اب بتائیے نماز زیادہ اہم ہے یا جہاد، اچھا وہ آیت سنیے، جس میں جہاد کو سب سے پیچھے ڈال دیا گیا ہے۔
{ وَلٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَ الْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ } (البقرۃ)
بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ جو ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر اور قیامت پر اور فرشتوں پر، کتابوں پر، اور نبیوں پر، اور اللہ کی محبت میں رشتہ داروں کو، یتیموں کو، مساکین کو، مسافروں کو، سائلین کو مال دیا، غلاموں کو آزاد کرنے کے لیے خرچ کیا، اور جس نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی، اور جو عہد کو پورا کرنے والے ہیں، جب عہد کرلیں اور جو صبر کرنے والے ہیں غربت میں، بیماری میں، اور جہاد میں، یہی لوگ ہیں جنہوں نے سچ کہا (صدق دل سے ایمان لائے) اور یہی متقی ہیں۔
برق صاحب! دیکھا آپ نے کتنی طویل فہرست ہے، لیکن جہاد فہرست کے اختتام پر ہے، اللہ تعالیٰ نے جہاد کو کہاں جا پھینکا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
حضرت عائشہ نے حضور علیہ السلام سے کہا:
تری الجھاد افضل العمل افلا نجاھد قال لا لکن افضل الجھاد حج مبرور۔
کہ ہماری رائے میں جہاد بہترین عمل ہے، کیا ہم جہاد نہ کریں، فرمایا نہیں، بلکہ حج بہترین جہاد ہے۔
چلو اہل عرب اور ہمارے امرا کی تو جہاد سے خلاصی ہوئی ... بڑہیا جہاد والے کو کیا پڑی ہے کہ جان دے کر گھٹیا جہاد کرتا پھر۔ (دو اسلام ص ۲۵۶۔ ۲۵۷)
ازالہ
برق صاحب نے ترجمہ صحیح نہیں کیا، صحیح ترجمہ یہ ہے:
ہم سمجھتے ہیں کہ جہاد افضل العمل ہے، تو کیا ہم جہاد نہ کریں، آپ نے فرمایا، تم عورتوں کے لیے بہترین جہاد حج مبرور ہے۔
برق صاحب نے '' لکن'' کو '' لکن'' سمجھ کر ترجمہ کیا اور یہی اصلی غلط فہمی ہے، حدیث کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ازواج مطہرات یا عام عورتوں کے لیے حج ہی جہاد ہے، ان کے لیے میدان کارزار میں مردوں کے دوش بدوش لڑنا اور کافر مردوں سے گتھم گتھا ہونا مناسب نہیں، برق صاحب سمجھے کہ گویا یہ حکم مردوں کے لیے ہے، نہیں، ہرگز نہیں، پھر حدیث سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ جہاد بہترین عمل ہے، لیکن یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ حج جہاد سے بہتر ہے، حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حج بھی ایک قسم کا جہاد ہے اور عورتوں کے لیے یہی جہاد بہترین ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
کسی نے حضور سے پوچھا کہ بہترین عمل کون سا ہے ، فرمایا '' خدا و رسول پر ایمان ، اس کے بعد جہاد اور اس کے بعد حج۔
اوپر والی حدیث کے مطابق بہتر عمل حج تھا اور اس کے بعد جہاد، اس حدیث کے مطابق حج سے جہاد بہتر ہے۔ (دو اسلام ص ۲۵۷)
ازالہ
اوپر والی حدیث کا ترجمہ آپ سے غلط ہوگیا تھا، اس لیے آپ کو یہاں بھی الجھن پیش آئی، اس حدیث میں عورتوں کے لیے حج کو بہتر بنایا گیا اور اس حدیث میں حکم عام ہے، یعنی مردوں کے لیے جہاد حج سے افضل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
قرآن لاکھ چلائے کہ ہم جہاد کے بغیر جنت نہیں دیں گے ... لیکن حدیث کہتی ہے کہ اللہ نمازی اور روزہ دار کو بہشت میں بھیجنے پر مجبور ہے۔ (دو اسلام ص ۲۵۸)
ازالہ
قرآن تو صرف '' ربنا اللہ'' کا درد کرنے پر جنت کی بشارت دیتا ہے، جنت میں لے جانے والی عملوں کی طویل فہرست بیان کرتا ہے اور مکر رسہ کرد بیان کرتا ہے، لیکن کہیں جہاد کا ذکر نہیں کرتا، بلکہ بغیر جہاد کے جنت ہی میں نہیں، بلکہ جنت الفردوس میں داخل کردیتا ہے۔
نمازی اور روزہ دار کے لیے جو الفاظ حدیث میں آئے ہیں، وہ یہ ہیں:
کان حقا علی اللہ ان یدخلہ الجنۃ
اللہ پر حق ہے کہ وہ ان کو جنت میں داخل کرے۔
برق صاحب نے '' کان حقا علی اللہ '' کے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مجبور ہے، سنیے اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
کان حقا علینا نصرا لمؤمنون (الروم)
ہم پر مومنین کی مدد کرنا حق ہے۔
برق صاحب! آپ کے لحاظ سے تو آیت کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ مومنین کی مدد کرنے کے لیے مجبور ہے، کہیے کیا قرآن پر بھی یہ اعتراض ہوگا، اگر نہیں تو حدیث نے کیا قصور کیا ہے، بات دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض اعمال کی ادائیگی پر جنت کا وعدہ کیا ہے اور کیونکہ وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا، لہٰذا اس کے لیے وعدہ پورا کرنا بھی ضروری ہے ، کہئے اب وہ عمدہ پورا کرے یا نہیں، اگر کرتا ہے تو گویا بقول آپ کے مجبور ہے، اگر نہیں کرتا، تو وعدہ خلافی ہوتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ایک حدیث ملاحظہ ہو:
کیا میں تمہیں بتاؤں کہ سب سے بہتر عمل کون سا ہے، ایسا عمل جو تمہارے درجوں کو بلند کرے جو سونے چاندی کی قربانی سے بہتر ہو، اور اس جہاد سے بھی اچھا ہو، جس میں تم دوسروں کی گردنیں کاٹتے اور اپنی کٹاتے ہو، لوگوں نے کہا بتائیے، کہا اللہ کا ذکر۔
سب سے زیادہ اللہ کا ذکر ایک بھکاری کرتا ہے، جو ایک ایک سانس میں دس نہ دس مرتبہ اللہ کا نام لے کر بھیک مانگتا ہے، تو گویا اس حدیث کی رو سے بھکاری بہشت کے ٹھیکیدار اور سردار ہوں گے، اور ہم تم سب ان کے خدمت گا۔ (دو اسلام ص ۲۵۸۔ ۲۵۹)
ازالہ
برق صاحب اس حدیث کا جواب باب اول میں دیا جاچکا ہے، یہاں آپ نے اسے دوبارہ نقل کردیا ہے، اوپر قرآنی آیات سے ثابت کیا گیا ہے ، کہ کہیں تو دخول جنت صرف ''ربنا اللہ'' کے ورد پر مل جاتی ہے اور کہیں اور اعمال کی ادائیگی پر جن میں جہاد کا ذکر نہیں، کہیے ایک بھکاری جو صبح سے لے کر شام تک ''ربنا اللہ'' کا نعرہ لگائے وہ جنتی ہے؟ اگر ہے تو پھر کیا قرآن پر بھی وہی اعتراض ہوگا جو حدیث پر ہے؟ درحقیقت یہ اعتراض ہی غلط فہمی پر مبنی ہے (تفصیل کے لیے باب اول ملاحظہ ہو)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
یہ نہ سمجھئے کہ افضیلت جہاد پر حضور کا کوئی قول موجود ہی نہیں، بہتیرے ہیں، لیکن ہمارے واعظین اور دینی راہ نما انہیں چھپائے رکھتے ہیں۔ (دو اسلام ص ۲۵۹)
ازالہ
برق صاحب جو چھپاتے ہیں، وہ قابل مواخذہ ہیں، لیکن داد دیجئے محدثین کو کہ انہوں نے جہاد کی فضیلت میں بے شمار احادیث اپنی کتابوں کی زینت بتا دیں، اور ان کو ملا کی طرح چھپایا نہیں اور یہی وہ احادیث ہیں، جن کو فخر کے ساتھ آپ نے ص۲۶۰، اور ص۲۶۱ پر نقل فرمایا ہے:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
متقین کا مصدر ہے تقویٰ جس کے معنی ہیں حفاظت ، بچاؤ، ڈیفنس، یعنی متقی وہ لوگ ہیں جن کا ڈیفنس مضبوط ہو، جن کی سرحدیں مستحکم ہوں، جو مہیب عسکری طاقت کے مالک ہوں، اور جن کا کردار اتنا بلند ہو کہ ان پر کسی قسم کا حملہ نہ کیا جاسکے۔ (دو اسلام ص ۲۶۲)
ازالہ
برق صاحب ہوسکتا ہے کہ متقی کی تعریف میں یہ اوصاف بھی شامل ہوں، بہرحال ذرا مندرجہ ذیل آیت بھی ملاحظہ فرما لیں، جس میں متقین کے کچھ اوصاف اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں، اور وہ آپ کے قیاسی اوصاف سے بہت زیادہ مستند ہیں۔
{ وَ سَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ۔ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔ وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللہَ } (اٰل عمران)
اپنے رب کی مغفرت کی کی طرف سبقت کرو، اور اس جنت کی طرف بھی، جس کا عرض آسمان و زمین کی وسعت کے برابر ہے، وہ جنت متقی لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے، یعنی وہ لوگ جو خوش حالی اور تنگ حالی ہر حالت میں خرچ کرتے ہیں اور جو غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور وہ لوگ جو فحش کام کرنے کے بعد یا اور کوئی گناہ عظیم کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔
 
Top