- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
خلاصہ باب
کسی آیت میں کسی نیک عمل کا ذکر ہے اور کسی آیت میں کسی کا، ان تمام آیات سے اعمال کی فہرست تیار ہوتی ہے، وہ اسلام ہے ، بالکل اسی طرح کسی حدیث میں کسی عمل کی فضیلت مذکور ہے، اور کسی میں کسی عمل کی، موقع اور محل کے لحاظ سے کہیں کسی کا ذکر ہے اور کہیں کسی کی اہمیت ، ان تمام احادیث سے جو اعمال کی فہرست تیار ہوگی، وہ ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے، کسی ایک آیت یا کسی ایک حدیث کو مورد طعن ٹھہرانا، یا صرف اسی آیت یا حدیث کے عمل پر تکیہ کرلینا کسی عالم کا قول ہے نہ فعل، اگر کسی ملا نے ایسا کہا ہے یا کیا ہے، تو وہ خود اس کا ذمہ وار ہے، جس حدیث میں ذکر کو جہاد سے افضل کہا گیا ہے، وہاں ذکر میں وہ چیز بھی شامل ہے، جس کو آپ کی اصطلاح میں ''اللہ کا پروپیگنڈا'' کہتے ہیں، یعنی توحید کی اشاعت، اللہ کی حاکمیت کاپرچار، قوانین الٰہیہ کی تبلیغ، اور جب یہ چیزیں بھی ذکر اللہ میں شامل ہوں، تو یقینا وہ جہاد سے افضل ہے، کیونکہ جہاد تبلیغ کے بعد آیا کرتا ہے، اگر تبلیغ نہ ہو تو جہاد کالعدم ہوگا، پھر جہاد میں جو تکلیف پہنچتی ہے، وہ بہت کم عرصہ کے لیے ہوتی ہے، لیکن تبلیغ میں جو مصائب اور تکالیف جھیلنی پڑتی ہیں، وہ جہاد کی تکالیف سے کہیں زیادہ ہیں، ایک آدمی ہوتا ہے اور سب اس کے مخالف، حکومت کے مظالم کا نشانہ صرف وہی ایک آدمی ہوتا ہے، نہ اس کے پاس دفاع ہوتا ہے ، نہ قوت کو وہ حکومت اور عوام کا مقابلہ کرسکے ، وہ بالکل مجبور ہوتا ہے اور خندہ پیشانی سے سب کچھ برداشت کرتا ہے، یہ ہے اللہ کا ذکر! کہاں جہاد اور کہاں یہ؟
(تفصیل کے لیے باب اول ملاحظہ ہو)
کسی آیت میں کسی نیک عمل کا ذکر ہے اور کسی آیت میں کسی کا، ان تمام آیات سے اعمال کی فہرست تیار ہوتی ہے، وہ اسلام ہے ، بالکل اسی طرح کسی حدیث میں کسی عمل کی فضیلت مذکور ہے، اور کسی میں کسی عمل کی، موقع اور محل کے لحاظ سے کہیں کسی کا ذکر ہے اور کہیں کسی کی اہمیت ، ان تمام احادیث سے جو اعمال کی فہرست تیار ہوگی، وہ ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے، کسی ایک آیت یا کسی ایک حدیث کو مورد طعن ٹھہرانا، یا صرف اسی آیت یا حدیث کے عمل پر تکیہ کرلینا کسی عالم کا قول ہے نہ فعل، اگر کسی ملا نے ایسا کہا ہے یا کیا ہے، تو وہ خود اس کا ذمہ وار ہے، جس حدیث میں ذکر کو جہاد سے افضل کہا گیا ہے، وہاں ذکر میں وہ چیز بھی شامل ہے، جس کو آپ کی اصطلاح میں ''اللہ کا پروپیگنڈا'' کہتے ہیں، یعنی توحید کی اشاعت، اللہ کی حاکمیت کاپرچار، قوانین الٰہیہ کی تبلیغ، اور جب یہ چیزیں بھی ذکر اللہ میں شامل ہوں، تو یقینا وہ جہاد سے افضل ہے، کیونکہ جہاد تبلیغ کے بعد آیا کرتا ہے، اگر تبلیغ نہ ہو تو جہاد کالعدم ہوگا، پھر جہاد میں جو تکلیف پہنچتی ہے، وہ بہت کم عرصہ کے لیے ہوتی ہے، لیکن تبلیغ میں جو مصائب اور تکالیف جھیلنی پڑتی ہیں، وہ جہاد کی تکالیف سے کہیں زیادہ ہیں، ایک آدمی ہوتا ہے اور سب اس کے مخالف، حکومت کے مظالم کا نشانہ صرف وہی ایک آدمی ہوتا ہے، نہ اس کے پاس دفاع ہوتا ہے ، نہ قوت کو وہ حکومت اور عوام کا مقابلہ کرسکے ، وہ بالکل مجبور ہوتا ہے اور خندہ پیشانی سے سب کچھ برداشت کرتا ہے، یہ ہے اللہ کا ذکر! کہاں جہاد اور کہاں یہ؟
(تفصیل کے لیے باب اول ملاحظہ ہو)