- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
غلط فہمی
''سینکڑوں ایسے صحابہ ہو گذرے ہیں جنہوں نے آغاز میں حضور ک مخالفت کی، تکلیفیں دیں اور آپ پر چڑھائی کی، لیکن بعد میں حلقہ بگوش اسلام بن گئے اور ان کے پچھلے گناہ اس نیک عمل کے پیچھے چھپ گئے۔'' (دو اسلام ص: ۲۷۹)
ازالہ
یہ تو تسلیم ہے کہ ان کے برے اعمال نیک اعمال کے پیچھے چھپ گئے لیکن سوال یہ ہے کہ ان برے اعمال کی سزا انہیں ملی یا نہیں اگر نہیں ملی تو کیا دوزخ میں ان کو جانا پڑے گا، اور اگر مل گئی تو کیا ملی؟ اگر آپ فرمائیں کہ وہ نادم ہوئے، اور اسلام قبول کرلیا، بس یہ ندامت ہی ان کی سزا ہوگئی تو یہ قطعاً تسلیم نہیں کیا جاسکتا، کہ اتنے بڑے بڑے گناہ وہ کریں صحابہ کو قتل کریں اور تکلیفیں پہنچائیں، اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکالیف پہنچائیں بازار طائف میں آپ پر پتھروں کی بارش کریں، پھر زنا کرتے ہوئے، شراب پیتے ہوئے میدان کار زار میں حضور کے مدمقابل پہنچ جائیں اور سزا انہیں کیا ملے، صرف ندامت کیا اسے خلاف عقل نہ کہیں گے برق صاحب کیا یہ قرآن کے خلاف نہیں! قرآن تو کہتا ہے:
{مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا} (النساء)
''جو شخص مومن کو قتل کرے، وہ ابدالاباد دوزخ میں رہے گا۔''
بتائیے ایک شخص تو اس جرم میں ابدلآباد جہنم میں جلتا رہے، اور دوسرا شخص اسی جرم میں صرف ندامت کے بعد چھٹکارا پالے، کیا یہ ناانصافی نہیں؟ اگر ان صحابہ کا گناہ یعنی مومنین کو قتل کرنا معاف نہیں ہوا، تو پھر لازماً ان کو وہی سزا بھگتنی چاہیے، جو قرآنی قانون کے مطابق مقرر ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی کے لیے ندامت اور کسی کے لیے ابدالآباد کا جہنم کا عذاب یہ تو ہوسکتا ہے کہ انہوں نے توبہ کرلی، گناہ معاف ہوگیا، لیکن یہ نہیں ہوسکتا (بقول آپ کے) گناہ تو معاف نہیں ہوا، لیکن سزا معاف ہوگئی، حیرت ہے کہ آپ ایک شخص کے حق میں صرف ندامت کو سزا سمجھ لیں اور دوسرے کے حق میں ابدالآباد جہنم، بات در حقیقت یہ ہے کہ ندامت تو کوئی سزا ہی نہیں اصل سزا تو وہی جہنم کی سزا ہے اور وہ معاف ہوگئی لہٰذا یہ کہنا صحیح ہے، کہ گناہ معاف ہوگیا۔
''سینکڑوں ایسے صحابہ ہو گذرے ہیں جنہوں نے آغاز میں حضور ک مخالفت کی، تکلیفیں دیں اور آپ پر چڑھائی کی، لیکن بعد میں حلقہ بگوش اسلام بن گئے اور ان کے پچھلے گناہ اس نیک عمل کے پیچھے چھپ گئے۔'' (دو اسلام ص: ۲۷۹)
ازالہ
یہ تو تسلیم ہے کہ ان کے برے اعمال نیک اعمال کے پیچھے چھپ گئے لیکن سوال یہ ہے کہ ان برے اعمال کی سزا انہیں ملی یا نہیں اگر نہیں ملی تو کیا دوزخ میں ان کو جانا پڑے گا، اور اگر مل گئی تو کیا ملی؟ اگر آپ فرمائیں کہ وہ نادم ہوئے، اور اسلام قبول کرلیا، بس یہ ندامت ہی ان کی سزا ہوگئی تو یہ قطعاً تسلیم نہیں کیا جاسکتا، کہ اتنے بڑے بڑے گناہ وہ کریں صحابہ کو قتل کریں اور تکلیفیں پہنچائیں، اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکالیف پہنچائیں بازار طائف میں آپ پر پتھروں کی بارش کریں، پھر زنا کرتے ہوئے، شراب پیتے ہوئے میدان کار زار میں حضور کے مدمقابل پہنچ جائیں اور سزا انہیں کیا ملے، صرف ندامت کیا اسے خلاف عقل نہ کہیں گے برق صاحب کیا یہ قرآن کے خلاف نہیں! قرآن تو کہتا ہے:
{مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا} (النساء)
''جو شخص مومن کو قتل کرے، وہ ابدالاباد دوزخ میں رہے گا۔''
بتائیے ایک شخص تو اس جرم میں ابدلآباد جہنم میں جلتا رہے، اور دوسرا شخص اسی جرم میں صرف ندامت کے بعد چھٹکارا پالے، کیا یہ ناانصافی نہیں؟ اگر ان صحابہ کا گناہ یعنی مومنین کو قتل کرنا معاف نہیں ہوا، تو پھر لازماً ان کو وہی سزا بھگتنی چاہیے، جو قرآنی قانون کے مطابق مقرر ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی کے لیے ندامت اور کسی کے لیے ابدالآباد کا جہنم کا عذاب یہ تو ہوسکتا ہے کہ انہوں نے توبہ کرلی، گناہ معاف ہوگیا، لیکن یہ نہیں ہوسکتا (بقول آپ کے) گناہ تو معاف نہیں ہوا، لیکن سزا معاف ہوگئی، حیرت ہے کہ آپ ایک شخص کے حق میں صرف ندامت کو سزا سمجھ لیں اور دوسرے کے حق میں ابدالآباد جہنم، بات در حقیقت یہ ہے کہ ندامت تو کوئی سزا ہی نہیں اصل سزا تو وہی جہنم کی سزا ہے اور وہ معاف ہوگئی لہٰذا یہ کہنا صحیح ہے، کہ گناہ معاف ہوگیا۔