• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
''سینکڑوں ایسے صحابہ ہو گذرے ہیں جنہوں نے آغاز میں حضور ک مخالفت کی، تکلیفیں دیں اور آپ پر چڑھائی کی، لیکن بعد میں حلقہ بگوش اسلام بن گئے اور ان کے پچھلے گناہ اس نیک عمل کے پیچھے چھپ گئے۔'' (دو اسلام ص: ۲۷۹)
ازالہ
یہ تو تسلیم ہے کہ ان کے برے اعمال نیک اعمال کے پیچھے چھپ گئے لیکن سوال یہ ہے کہ ان برے اعمال کی سزا انہیں ملی یا نہیں اگر نہیں ملی تو کیا دوزخ میں ان کو جانا پڑے گا، اور اگر مل گئی تو کیا ملی؟ اگر آپ فرمائیں کہ وہ نادم ہوئے، اور اسلام قبول کرلیا، بس یہ ندامت ہی ان کی سزا ہوگئی تو یہ قطعاً تسلیم نہیں کیا جاسکتا، کہ اتنے بڑے بڑے گناہ وہ کریں صحابہ کو قتل کریں اور تکلیفیں پہنچائیں، اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکالیف پہنچائیں بازار طائف میں آپ پر پتھروں کی بارش کریں، پھر زنا کرتے ہوئے، شراب پیتے ہوئے میدان کار زار میں حضور کے مدمقابل پہنچ جائیں اور سزا انہیں کیا ملے، صرف ندامت کیا اسے خلاف عقل نہ کہیں گے برق صاحب کیا یہ قرآن کے خلاف نہیں! قرآن تو کہتا ہے:
{مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا} (النساء)
''جو شخص مومن کو قتل کرے، وہ ابدالاباد دوزخ میں رہے گا۔''
بتائیے ایک شخص تو اس جرم میں ابدلآباد جہنم میں جلتا رہے، اور دوسرا شخص اسی جرم میں صرف ندامت کے بعد چھٹکارا پالے، کیا یہ ناانصافی نہیں؟ اگر ان صحابہ کا گناہ یعنی مومنین کو قتل کرنا معاف نہیں ہوا، تو پھر لازماً ان کو وہی سزا بھگتنی چاہیے، جو قرآنی قانون کے مطابق مقرر ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی کے لیے ندامت اور کسی کے لیے ابدالآباد کا جہنم کا عذاب یہ تو ہوسکتا ہے کہ انہوں نے توبہ کرلی، گناہ معاف ہوگیا، لیکن یہ نہیں ہوسکتا (بقول آپ کے) گناہ تو معاف نہیں ہوا، لیکن سزا معاف ہوگئی، حیرت ہے کہ آپ ایک شخص کے حق میں صرف ندامت کو سزا سمجھ لیں اور دوسرے کے حق میں ابدالآباد جہنم، بات در حقیقت یہ ہے کہ ندامت تو کوئی سزا ہی نہیں اصل سزا تو وہی جہنم کی سزا ہے اور وہ معاف ہوگئی لہٰذا یہ کہنا صحیح ہے، کہ گناہ معاف ہوگیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
''حضرت عثمان نے چند آدمیوں کو وضو کا طریقہ بتا کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح وضو کیا کرتے تھے جو شخص اس طرح وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھ لے، اس کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
مطلب یہ کہ اگر کوئی شخص باپ کو قتل کرنے کے بعد وضو کرکے دو رکعت پڑھ لے تو گناہ معاف یا کوئی طالب العلم سال بھر کام نہ کرے، اور آخر میں دو رکعت نماز پڑھ لے سستی کا گناہ معاف، اور وہ پاس، یا کوئی شخص درخت سے کود کر ٹانگیں تڑ والے، اور فوراً دو رکعت نفل پڑھے، تو گناہ معاف اور ٹانگیں واپس۔'' (دو اسلام ص: ۴۸۲)
ازالہ
برق صاحب نہ تو حدیث کو سمجھے نہ اپنی مثالوں کو، یہ مثالیں اس حدیث پر چسپاں نہیں ہوسکتیں گناہ دو قسم کے ہوتے ہیں کبیرہ اور صغیرہ اور یہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں، نہ کہ کبیرہ (تفصیل کے لیے باب اول ملاحظہ فرمائیے)
پھر ایک اور لحاظ سے بھی گناہ کی دو قسمیں ہیں، ایک صرف اللہ کا گناہ دوسرا اللہ کے گناہ کے ساتھ بندہ کا گناہ، پہلا گناہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے کہ اسے چاہے تو معاف کر دے اور چاہے تو اس کی سزا دے مثلاً جب کبھی آپ سے کسی کو کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو آپ فوراً یا کچھ دیر بعد اس سے معافی مانگ لیتے ہیں اور وہ معاف کر دیتا ہے تو اس معافی میں کوئی اشکال نہیں نہ کوئی پیچیدگی ہے نہ وہ مثالیں اس معافی کے منافی ہیں جن کو برق صاحب نے اوپر نقل فرمایا ہے (تفصیل کے لیے بابا ۱۲ ملاحظہ فرمائیں) بر خلاف اس کے دوسرا گناہ صرف اللہ کا گناہ نہیں بلکہ بندے کا بھی گناہ ہے لہٰذا یہ گناہ معاف نہیں ہوتا، جب تک بندہ معاف نہ کر دے، یہ ہے اس قسم کی تمام احادیث کا خلاصہ۔
باپ کو قتل کرنا باپ کا جرم ہے، باپ کے عزیز و اقارب کا جرم ہے، پھر یہ کبیرہ گناہ ہے لہٰذا بہر دو صورت اس کے معاف ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کوئی طالب علم سال بھر کام نہ کرے یا کوئی شخص درخت سے کود کر ٹانگیں تڑوالے، تو یہ اس کا اپنا گناہ ہے اس میں اللہ کا گناہ کون سا ہے جو اللہ کو معاف کرنا پڑے اور اگر کوئی گناہ ہے بھی تو اس کی جو سزا مستقبل میں ملتی واں ہے وہ معاف ہوسکتی ہے نہ کر زمانہ ماضی کی سزا برق صاحب خلط مبحث کر دیتے ہیں ہم کہتے ہیں کہ آنے والی سزا معاف ہوتی ہے برق صاحب زمانہ ماضی کی سزائوں کو بیچ میں لے آتے ہیں، حالانکہ ان سے تو ہم بحث ہی نہیں کرتے۔
پھر میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیز مشکل نہیں، وہ ہر چیز پر قادر ہے، اگر وہ بندے کے گناہ معاف کرنے کا ارادہ ہی کرے، تو پھر کیا چیز مانع ہوسکتی ہے باپ کے اعزہ و اقارب بھی معاف کرسکتے ہیں، اللہ تعالیٰ باپ کو بھی معافی دینے پر راضی کرسکتا ہے، جب اس نے خود قرآن مجید میں وعدہ فرمایا ہے کہ سوائے شرک کے وہ ہرگناہ کو معاف کر دے گا تو پھر کیا امر مانع ہے کہ باپ کا قتل معاف نہ ہوسکے، اور یہ اس کی عادت اور قانون کے بھی خلاف نہیں اس لیے کہ شرک کے علاوہ ہر گناہ کو معاف کرنے کا قانون قرآن میں موجود ہے۔
اب رہ گیا طالب علم کا ناکام ہونا تو یہ شخص تو سزا بھگت چکا، اب معافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہاں اگر سزا سے پہلے یعنی دوسرے الفاظ میں امتحان سے پہلے وہ دعا کرتا تو بے شک اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر تھا، کہ اس کے لیے کامیابی کا سبب پیدا کر دیتا، لیکن امتحان ہوچکا سزا مل چکی اب وضو کرکے دو رکعت پڑھنا کیا فائدہ دے سکتا ہے یعنی میدان محشر میں امتحان ہوچکا، سزا مل گئی اور اب دوزخ میں پہنچ کر کوئی شخص معافی مانگے تو بے فائدہ ہے۔
برق صاحب ہم کہتے ہیں کہ زندگی میں معافی مانگے اور آپ مثالیں ایسی دیتے ہیں کہ لوگ مجرم دوزخ میں جاکر معافی مانگے، ظاہر ہے کہ دوزخ میں پہنچ کر معافی نہیں ہوسکتی اور ہم اس میں آپ سے متفق ہیں لیکن زندگی میں نیک اعمال کے صلہ میں معافی ہوسکتی ہے، ہم کہتے ہیں کہ امتحان سے پہلے محنت کرے اور آپ ہمیں الزام دیتے ہیں، کہ امتحان کے بعد محنت کرے حالانکہ دونوں میں بڑا فرق ہے ہمیں الزام دیتے وقت براہ کرم اس فرق کو تو ملحوظ رکھ لیا ہوتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مزید گذارش
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
''مغفرت کے لیے وہ چیزیں ضروری ہیں، اول اس گناہ سے بچنا دوم تلافی مافات کے لیے صحیح اور فطری کوشش۔'' (دو اسلام ص: ۲۸۱)
برق صاحب ہمیں آپ سے اتفاق ہے، اب یہ بتائیے کہ اگر کوئی شخص باپ کو قتل کرکے آئندہ اس گناہ سے بچے، تو ایک شرط تو مغفرت کی پوری ہوگئی،اب اگر وہ وضو کرکے دو رکعت نماز ادا کرلے، تو یہ ایک نیک عمل ہوا اور نیک عمل کے پیچھے بقول آپ کے پچھلے گناہ چھپ جایا کرتے ہیں، لہٰذا یہ نیک عمل اس گناہ کو چھپا لے گا، یہ نیک عمل ایک صحیح اور فطری کوشش ہوگی، اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ خوش ہو جائے، اور گویا یہ عمل تلافی مافات کا کام کرے گا، لہٰذا دونوں شرطیں پوری ہوگئیں، کہیے اب بھی گناہ معاف ہوگا یا نہیں؟ یہ ہے حدیث کا مطلب! قرآن تو اس سے بھی زیادہ عجیب بات کہتا ہے، سنیے:
{قُوْلُوْا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْ لَکُمْ خَطٰیٰکُمْ} (البقرہ)
''تم حطہ کہو تو ہم تمہارے سب گناہ معاف کر دیں گے۔''
اگر صرف حطہ (یا استغفر اللہ) کہنے سے تمام گناہ معاف ہوسکتے ہیں تو دو رکعت نماز سے کیوں نہ معاف ہوں گے اور اگر کوئی تاویل یہاں چل سکتی ہے تو پھر وہی تاویل حدیث میں بھی کیوں نہیں چل سکتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
حدیث کا صحیح مفہوم
ایک آدمی وضو کرنے بیٹھتا ہے، وہ وضو کیوں کر رہا ہے؟ اس سے پہلے وہ کس مشغلہ میں تھا؟ اسے کیوں چھوڑا، اپنے وقت عزیز کو وضو میں کیوں صرف کیا؟ کس چیز نے اس کو تمام کاروبار اور جرائم سے روک دیا: اور دفعۃً روک دیا؟ اب یہ تصور ہے، جو اس کے ذہن میں آتا ہے وہ سوچتا ہے کہ میں بندہ ہوں میرا کوئی مالک ہے، میں مخلوق ہوں میرا کوئی خالق ہے، یہ وضو میں اس کے حکم سے کر رہا ہوں اس کو راضی کرنے کے لیے کر رہا ہوں، پھر اسے خیال آتا ہے کہ اس سے پہلے میں فلاں گناہ کرکے، اسے ناراض کرچکا ہوں، حالانکہ اس وقت بھی میں اس کا بندہ تھا، وہ میرا آقا تھا، مجھ سے برا ہوا کہ میں نے پہلے اپنے خالق کو ناراض کیا، اب ندامت کا تصور پیدا ہوتا ہے، وہ کھڑا ہو جاتا ہے اور دو رکعت نماز ادا کرکے اپنے مالک کو راضی کرنے کی کوشش کرتا ہے، رحمت الٰہی جوش میں آتی ہے اور اس نادم بندے کو ڈھانک لیتی ہے یہ ہے حدیث کا مطلب غالباً اب آپ کی سمجھ میں آگیا ہوگا اور سرف یہی حدیث نہیں بلکہ اس قسم کی جتنی احادیث آپ نے نقل فرمائی ہیں سب سمجھ میں آجائیں گی۔
ہر نیکی انابت الی اللہ کا جذبہ پیدا کرتی ہے اس نیکی کی ادائیگی کے وقت بندے کو محسوس ہوتا ہے کہ میں کہاں ہوں، کیا ہوں مجھے کیا کرنا چاہیے، یہ نیکی میں کسی کے حکم سے کر رہا ہوں، کس کے خوش کرنے کے لیے کر رہا ہوں، اس کو میں نے پہلے ناراض تو نہیں کیا، اگر کیا ہے تو یہ مجھ سے اچھا ہوا یا برا ہوا، یہ تصورات اس کی کایا پلٹ دیتے ہیں اور اس کی برائیوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور پھر وہ ایک نیک اور صالح انسان کی حیثیت سے نمودار ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ احادیث میں جگہ جگہ نیکیوں کی ترغیب دی گئی ہے بظاہر وہ نیکی اس قابل نہیں کہ اس کے گناہوں کا بدل ہوسکے لیکن اس کے یہ ذہنی تصورات اور پھر ذہنی تبدیلی گناہ سے نفرت یہ ہے وہ چیز جو اس نیکی نے پیدا کی، لہٰذا مغفرت کا اصلی سبب وہ نیکی ہی بنی، اس نیکی ہی نے اس کو دوسری طرف موڑ دیا، اور اب وہ صراط مستقیم پر گامزن ہے نیکی سے یہ تصور پیدا ہونا گناہوں کا چھوٹنا قرآن سے بھی ثابت ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَر} (عنکبوت)
''بے شک نماز بے حیائی اور تمام برے کاموں سے روکتی ہے۔''
اب اگر کسی نمازی کی برائیاں دور نہ ہوں تو یہ اس کا قصور ہے کہ اس نے ایک نیک عمل تو کیا لیکن اپنے ذہن کو نہیں بدلا، نماز پڑھتے وقت اس نے نہیں سوچا کہ وہ کیا کر رہا ہے کیوں کر رہا ہے جس وجہ سے وہ یہ کام کر رہا ہے کیا اس وجہ سے فلاں کام نہیں کرنا چاہیے، فلاں کام نہیں چھوڑنا چاہیے، یہ تصورات اس کے ذہن میں نہیں آئے، اس کی نماز نے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا، لہٰذا برائیاں دور نہ ہوئیں، اس میں نماز کا کوئی قصور نہیں، نہ آیت قرآنی کا قصور ہے، یہی حال ان تمام نیکیوں کا ہے جو احادیث میں بیان ہوئی ہیں، اور جن میں مغفرت ذنوب کا تذکرہ ہے اگر ان نیکیوں کو کرنے کے بعد بھی نیکی کرنے والا برائیاں کرتا رہتا ہے، تو ظاہر ہے کہ اس کے ذہن مین کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی، نہ وہ تصورات آئے جو آنے چاہیے تھے، لہٰذا اس کو اس نیکی سے کوئی فائدہ نہیں ہوا اس میں نہ حدیث کا قصور ہے، نہ اس نیکی کا قصور ہے بلکہ اس نیکی کے طریقہ ادائیگی کا قصور ہے، اس کی نیکی ان تصورات سے خالی رہی ہو، جو مغفرت ذنوب کا ذریعہ ہیں، لہٰذا مغفرت نہ ہوسکی۔
برق صاحب حدیث کا مطلب تو اب سمجھ میں آگیا ہوگا اگرچہ قرآن تو بغیر نیکی کے بھی مغفرت ذنوب کی خوشخبری سناتا ہے ہے اور یہ آیت اس باب میں اور اس باب سے پہلے باب (۱۲) میں نقل کرچکا ہوں، اگر بغیر نیکی کے بہت سے گناہ معاف ہوجایا کرتے ہیں، تو پھر نیکی سے معاف ہو جانا کیا بعید ہے، لہٰذا حدیث زیر بحث اعتراض سے بالکل پاک و صاف ہے حدیث اپنی جگہ پر صحیح ہے، یہ اللہ کا فضل ہے وہ جب چاہے اور جس ذریعہ سے چاہے گناہ کو معاف کر رہے، حدیث کو سمجھنے کے لیے قرآن و حدیث کے گہرے مطالعہ کی ضرورت ہے ورنہ قدم قدم پر غلط فہمی ہے سابقہ پڑتا ہے مغفرت ذنوب پر ایک اور زاویہ سے بھی بحث کر چکا ہوں براہ کرم باب اول ملاحظہ فرمائیے:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
''گناہوں کا کتنا عجیب علاج بتایا ہے کہ قتل کرو تو ہاتھ ؟؟ اور قتل معاف اب خیر سے ہمارے علماء چلا رہے ہیں کہ پاکستان میں شریعت نافذ کرو... اگر اس طرح کی شریعت ہماری ہوگئی، تو پہلے ہی دن قیمت آجائے گی، اس لیے کہ ہر آدمی قتل و زنا کے بعد ہاتھ پائوں دھولے گا اور سزا سے بچ جائے گا۔'' (دو اسلام ص: ۲۸۴)
ازالہ
اللہ تعالیٰ گناہ سے بے زار ہے لہٰذا اس کے سد باب کے لیے کچھ طریقے اختیار کرتا ہے، پہلا طریقہ ہے دوزخ کے عذاب سے ڈرانا، دوسرا طریقہ ہے نیکیوں کے ذریعہ مجرم میں ذہنی انقلاب پیدا کرنا، تیسرا طریقہ ہے ''حدود و تعزیمات'' مقرر کرنا، کیونکر پہلے دونوں طریقے ہر حالت میں کارگر نہیں ہوتے اس لیے بعض گناہوں کے روکنے کے لیے تیسرا ذریعہ استعمال کیا جاتا ہے اور کچھ سزائیں دی جاتی ہیں تاکہ ان سزائوں کے خوف سے وہ آئندہ گناہ کا مرتکب نہ ہو، یہ تیسرا طریقہ اور وجہ سے بھی رائج ہے، وہ یہ کہ پہلے دو طریقوں سے صرف اس مجرم کی اصلاح کا امکان ہوتا ہے، لیکن تیسرے طریقہ سے دوسروں کو بھی عبرت ہوتی ہے، اور دوسروں کو اس جرم کے کرنے کی جرات نہیں ہوتی۔
پھر ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بعض گناہوں سے دوسرے انسانوں کی حق تلفی ہوتی ہے، اور جب تک ان کی حق تلفی دور نہ ہو، جرم کی معافی کوئی معنی نہیں رکھتی، لہٰذا اس حق تلفی کا مداوا صرف اسی طرح ہوسکتا ہے کہ یا تو وہ حق حق والے کو مل جائے، یا حق والا حق تلف کرنے والے کو سزا دلوا کر اپنا دل ٹھنڈا کرے، اور اپنے اشتعال انگیز جذبات کو بجھا دے، ورنہ پھر ایک اور جرم کا امکان باقی رہ جاتا ہے، اور پھر اس سلسلہ میں جرائم کا ایک لا محدود سلسلہ قائم ہو جاتا ہے جو نسلاً بعد نسل جاری رہتا ہے، ان بھی وجوہات کی بنا پر حدود مقرر ہیں، برق صاحب تو یہ سمجھتے ہیں کہ گناہ معاف ہی نہیں ہوتا، سزا مل کر ہی رہتی ہے، میں پوچھتا ہوں، دو آدمی قتل کرتے ہیں، ایک مقتول کے وارث قاتل کو معاف کردیتے ہیں، دوسرے مقتول کے ورثاء قاتل کو قتل کروا دیتے ہیں اور یہ دونوں چیزیں قرآن سے ثابت ہیں، تو پھر یہ بتائیے کہ اس دوسرے قاتل کو تو سزا مل گئی، لیکن پہلے قاتل کو کہاں ملی، دونوں برابر کے مجرم تھے، ایک کو سزا نہیں ملی، دوسرے کو سزا ملی، آپ یہ کہیں گے کہ اسے ندامت ہوئی میں کہتا ہوں کہ کیا خبر ندامت بھی ہوئی یا نہیں، ورثاء نے اپنی طرف سے خود ہی معاف کردیا، اور اگر بالفرض ندامت و رسوائی کی سزا، دوسرے کو ندامت و رسوائی کے ساتھ قتل کی سزا پس ثابت ہوا کہ جرم ہوسکتا ہے اور معافی بھی مل سکتی ہے، یہ ضروری نہیں کہ ہر جرم کی سزا مل کر ہی رہے، جب انسانوں میں یہ صفت پائی جاتی ہے کہ وہ معاف کرکے خوش ہوتے ہیں اور یہ ایک نفسیاتی چیز ہے، تو پھر ارحم الراحمین، عفو غفور معاف کرکے کیوں خوش نہ ہوگا، برق صاحب کیوں اللہ تعالیٰ کو آپ غضب کا مجسمہ سمجھتے ہیں کہ وہ گناہ کو معاف کرتا ہی نہیں، اس کو اس وقت تک چین نہیں آتا، جب تک وہ سزا نہ دے لے، یہ سراسر اس کی رحمت سے نا امید ہونے کی مثال ہے، وہ فرماتا ہے:
{ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ اِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ } (زمر)
اے گنہگار بندوں اللہ کی رحمت سے نا امید مت ہو، بے شک اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف کردے گا، بے شک وہ غفور ہے رحیم ہے۔
انسانوں کے متعلق فرماتا ہے:
{ وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ } (الشوری)
جو صبر کرے اور معاف کردے تو یہ بہت اچھا ہے اور بڑے عزم و حوصلہ کا کام ہے۔
دوسری جگہ متقین کی تعریف میں فرماتا ہے:
{ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ } (اٰل عمران)
متقی وہ لوگ ہیں جو غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔
{ وَمَا یُلَقَھَا اِلاَّ ذُوْحَظٍ عَظِیْمٍ } (حم سجدہ)
یہ چیز خوش قسمت لوگوں کو ہی ملا کرتی ہے۔
اپنے رسول کو حکم فرماتا ہے:
{ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ } (آل عمران)
آپ انہیں معاف کردیا کریں اور ان کے لیے مغفرت طلب کیا کریں۔
جب معافی کی صفت اللہ تعالیٰ اپنے رسول میں دیکھنا چاہتا ہے، اپنے بندوں میں دیکھنا چاہتا ہے، اس صفت کو وہ پسند کرتا ہے تو پھر ارحم الراحمین ہو کر اس صفت سے وہ خود محروم ہو، یا ناممکن ہے، نہ یہ اس کے شایان شان ہے، بلکہ وہ ضرور معاف کرتا ہے، جیسے کہ میں پہلے آیات قرآنی سے ثابت کرچکا ہوں کہ وہ معاف کرتا رہتا ہے، معاف کرنے کو پسند کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو یہ دعا سکھائی ہے:
{ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا } (البقرۃ)
ہمیں معاف فرما، ہماری مغفرت فرما۔
اگر وہ معاف ہی نہیں کرتا تو معافی مانگنے کا حکم کیوں دیتا ہے، پس ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ گناہ کو معاف کرتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ دعا بھی کوئی حقیقت رکھتی ہے کہ جس سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں،اگر دعا کی کوئی حقیقت نہ ہوتی، تو اللہ تعالیٰ کیوں فرماتا کہ یہ دعا مانگو، اس کے علاوہ بھی قرآن مجید میں متعدد دعاؤں کی تعلیم دی گئی ہے، لہٰذا دعا اللہ کو بہت پسند ہے اور دعا مطلب برابری، اور گناہوں کی معافی کے لیے ضرور اثر رکھتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
باب ۱۴
'' مسئلہ شفاعت''

غلط فہمی
قرآن حکیم کے طول و عرض میں کہیں مذکور نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم محشر میں شفاعت کریں گے۔ (ص۲۸۵)
ازالہ
قرآن مجید میں مقام شفاعت کا ذکر موجود ہے، ارشاد باری ہے:
{ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا } (بنی اسرائیل)
قریب ہے کہ تیرا رب تجھے مقام محمود میں کھڑا کرے گا۔
یہ مقام محمود ہی تو مقام شفاعت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
البتہ دنیا میں استغفار کا ذکر ضرور ہے، اگر یہ لوگ مغفرت طلب کریں اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت مانگے تو پھر یہ اللہ کو تواب و رحیم پائیں گے۔ (قرآن)
مطلب یہ کہ جو لوگ تلافی مافات کے لیے کمر بستہ ہو جائیں اور حضور ان کی رہبری فرمائیں، تو ان کے پچھلے گناہ چھپ جائیں گے۔ (دو اسلام ص۲۵۸)
ازالہ
استغفار کے معنی رہبری کرنا یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے، یہ معنی قطعاً صحیح نہیں، اس سے پہلے برق صاحب نے استغفار کے معنی چھپانے کے کئے ہیں (دو اسلام ص ۲۷۹) معلوم نہیں کہ کون سے معنی صحیح ہیں؟ اچھا برق صاحب یہ تو بتائیے کہ وہ تلافی مافات بھی کرے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی رہبری بھی فرمائیں، لیکن گناہ پھر بھی معاف نہ ہو، سزا مل کر ہی رہے، تو پھر تلافی مافات کا نتیجہ کیا ہے، تلافی مافات سے آئندہ کی اصلاح ہوگئی، گزشتہ گناہ کے لیے وہ تلافی کوئی فائدہ نہیں دے گی، لوگ تو خیر پچھلے گناہ بھول جائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ تو گناہ بھول بھی نہیں سکتا، اس سے کوئی چیز بھی نہیں سکتی، وہ بقول آپ کے سزا بھی ضرور دیتا ہے، لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ گناہ چھپ سکے نہ سزا ہی سے بچ سکے، یہ ہے مغفرت کے لغوی معنی اختیار کرنے کا نتیجہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اس مضمون کے علاوہ شفاعت کا کوئی اور تخیل قرآن میں موجود نہیں، بلکہ عدم شفاعت پر جا بجا اشارے ملتے ہیں۔ (دو اسلام ص۲۸۵)
ازالہ
برق صاحب آپ نے صرف وہ آیتیں ہی لکھی ہیں، جن میں شفاعت کی نفی کی گئی ہے۔ لیکن وہ آیتیں تحریر نہیں فرمائیں جن میں ایک شرط کے ساتھ شفاعت کا ثبوت ملتا ہے، اور وہ شرط ہے '' اذن الٰہی'' ارشاد باری ہے:
{ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ } (البقرۃ)
اللہ تعالیٰ سے کوئی سفارش نہیں کرسکتا، مگر اس کی اجازت ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ کلیتہً شفاعت کی نفی نہیں ہے، بلکہ اس شفاعت کی نفی ہے جو بغیر اجازت کے ہو، اس سلسلہ میں برق صاحب نے جو آیت پیش کی ہے، وہ مع ترجمہ درج ذیل ہے:
{ وَاتَّقُوْا یَوْمًا لَا تَجُزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَیْئًا وَلَا یُقْبَلُ مِنْھَا شَفَاعَۃٌ }
اس دن سے ڈرو، جب کوئی شخص آپ اپنے آپ کو پیش کرکے دوسرے کو نہیں بچا سکے گا جب کوئی شفاعت قبول نہیں کی جائے گی۔ (دو اسلام ص ۲۸۵)
برق صاحب نے '' ولا یقبل منھا شفاعۃ'' کا ترجمہ صحیح نہیں کیا، صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ''انسان کی طرف سے کوئی سفارش قبول نہیں کی جائے گی'' یعنی کوئی شخص چاہے کہ میں کسی کو اپنا سفارشی خود بنالوں، تو نہیں بنا سکتا اس قسم کی شفاعت اللہ تعالیٰ کے ہاں نہیں ہوگی، کہ مجرم خود کسی کو شفیع بنا کر لائے اور پھر اس کی شفاعت کو اللہ قبول فرمائے، شفیع بنانے نہ بنانے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہوگا، بفحوائے آیت کریمہ:
{ قُلْ لِلہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیْعًا } (الزمر)
کہہ دیجئے تمام سفارشوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
دوسری آیت میں اس سے بھی زیادہ صفائی کے ساتھ شفاعت کا ثبوت ملتا ہے۔
(یَوْمَئِذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَ رَضِیَ لَہٗ قَوْلًا} (طہ)
قیامت کے دن شفاعت نفع نہیں دے گی ہاں مگر اس شخص کو نفع دے گی، جس کے لیے رحمن کی طرف سے سفارش کی اجازت مل جائے اور رحمن اس کے لیے سفارش کو پسند فرمائے۔
تیسری آیت ملاحظہ فرمائیے:
{ لَا یَمْلِکُوْنَ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَھْدًا } (مریم)
وہاں کوئی شفاعت کا اختیار نہیں رکھتا، مگر ہاں جس نے رحمن سے اجازت لے لی ہو۔
چوتھی آیت ملاحظہ فرمائیے:
{ وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلاَّ لِمَنِ ارْتَضٰی } (انبیاء)
نہیں سفارش کرتے مگر جس کے لیے اللہ کی رضا ہو۔
پانچویں آیت ملاحظہ فرمائیں:
{ وَ لَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ } (السباء)
اللہ کے ہاں شفاعت نفع نہیں دے گی، مگر اس کو جس کے لیے اللہ کی اجازت ہو۔
چھٹی آیت ملاحظہ فرمائیے:
{ وَلَا یَمْلِکُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنْ شَہِدَ بِالْحَقِّ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ } (الزخرف)
اور خدا کے علاوہ جن لوگوں کو یہ پکارتے ہیں، وہ سفارش کا اختیار نہیں رکھتے، مگر ہاں وہ جو حق کے ساتھ گواہی دیں اور انہیں علم بھی ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مزید آیات مطالعہ فرمائیں:
{ مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلاَّ مِنْ بَعْدِ اِذْنِہٖ } (یونس)
کوئی سفارش نہیں کرسکتا، مگر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بعد۔
{ فَمَا تَنْفَعُھُمْ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِیْنَ } (المدثر)
منکرین قیامت کو سفارش کرنے والوں کی سفارش کام نہ آئے گی۔
ان تمام آیات سے ثابت ہوا کہ شفاعت نفع دے گی، بشرطیکہ شفاعت کرنے والا شفاعت کی اجازت حاصل کرلے، اگر اجازت مل گئی تو پھر نفع دینا بھی یقینی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں نا انصافی اور ظلم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لہٰذا وہاں نجات اسی کو ملے گی، جو نجات کا اہل ہوگا اور جو نجات کا اہل ہوگا، اسی کے لیے شفاعت کی اجازت بھی دی جائے گی، برق صاحب نے جو حدیث شفاعت نقل کی ہے، اسے پورا نقل نہیں فرمایا، حالانکہ اس میں یہ الفاظ موجود ہیں۔
فیؤذن لی (صحیح مسلم)
پھر مجھے اجازت دی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا:
اشفع تشفع
(اے محمد) شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول ہوگی۔
اس کے بعد حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
فیحد لی حدا (صحیح بخاری و مسلم)
پس میرے لیے حد مقرر کردی جائے گی۔
یعنی میں صرف ان لوگوں کی سفارش کرسکوں گا جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ آپ ان لوگوں کی سفارش کرسکتے ہیں، ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کے حق میں سفارش کی اجازت ہی نہیں ملے گی الغرض اللہ تعالیٰ کے علم و قانون میں جو لوگ نجات کے اہل قرار پاسکتے ہیں، انہیں کے متعلق سفارش کی اجازت ہوگی، حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
الا من حبسہ القراٰن (صحیح بخاری)
(میری سفارش سے لوگ دوزخ سے نکالے جائیں گے) مگر وہ لوگ جن کو قرآن نے روک لیا۔
حدیث مذکور سے تین باتیں ثابت ہوتی ہیں۔
(۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے اور بغیر اجازت کے سفارش نہیں کریں گے۔
(۲) جن لوگوں کی آپ سفارش فرمائیں گے، ان کا تعین بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگا۔
(۳) آپ ان لوگوں کی شفاعت نہیں کرسکیں گے، جو قانون الٰہی کے ماتحت ایسی سزا کے مستوجب ہیں، جو معاف نہیں ہوسکتی۔
بتائیے ان تینوں میں سے کونسی بات ایسی ہے، جو قرآن یا دوسری صحیح احادیث سے ٹکراتی ہے۔
 
Top