• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
(۱۶) ایک پاگل عورت نے زنا کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا اس کو سنگسار کردو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ادھر سے گزرے پوچھا کیا معاملہ ہے ، لوگوں نے کہا یہ مجنون عورت ہے، اس نے زنا کیا ہے۔ حضرت علی نے فرمایا اس کو واپس لے چلو، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا:
یا امیر المومنین اما علمت ان رسول اللہ ﷺ قال ان القلم رفع عن ثلاثۃ عن المجنون حتی یبرأ وعن النائم حتی یستیقظ وعزا الصبے حتی یعقل قال قال بلی قال نما بال ھذہ ترجم قال لا شئی قال فارسلھا قال فارسلھا قال فجعل یکبر۔ (ابوداؤد۔کتاب الحدود)
'' یعنی اے امیر المومنین! آپ کو نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تین آدمی مرفوع القلم ہیں۔ مجنون جب تک تندرست نہ ہو۔ سونے والا جب تک نہ جاگے اور بچہ جب تک سمجھ دار یعنی بالغ نہ ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا! مجھے معلوم ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا پھر کس لیے اس کو سنگسار کیا جا رہا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا کوئی وجہ نہیں تو حضرت علی نے کہا پھر اس کو چھوڑ دیجئے حضرت عمر نے اس کو چھوڑ دیا اور اللہ اکبر کہا۔''
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں حدیث کو حجت جانتے تھے اور مرکز ملت کو اس کا تابع عمرو بن میمون کہتے ہیں:
(۱۷) کنا وقوفا بجمع فقال عمر بن الخطاب ان المشرکین کانوا لا یفیضون حتی تطلع الشمس فکانوا یقولون اشرق ثبیروان رسول اللہ ﷺ خالفھم فافاض عمر قبل طلوع الشمس ۔ (ترمذی کتاب الحج)
'' یعنی ہم مزدلفہ میں ٹھہرے ہوئے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک مشرکین مزدلفہ سے واپس نہ ہوتے تھے۔ جب تک سورج نہ نکل آئے۔ اور وہ کہتے تھے کہ اے ثبیر روشن ہو جا! اور تحقیق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کی پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی مزدلفہ سے طلوع شمس سے پہلے چلیے۔''
اس مسئلہ میں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سنت پر عمل کیا۔ یعلی بن امیہ کہتے ہیں:
(۱۸) قلت لعمر بن الخطاب لیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلٰوۃ ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا فقد امن الناس فقال عمر رضی اللہ عنہ عجبت مما عجبت متہ فسالت رسول اللہ ﷺ عن ذلک فقال صدقۃ تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلوا صدقتہ ۔ (نسائی کتاب تقصیر الصلوۃ فی السفر)
'' یعنی میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم نماز میں کمی کرو جب تمہیں یہ خوف ہو کہ کافر تم کو فتنہ میں مبتلا کردیں گے'' لیکن اب تو بالکل امن اب نماز میں قصر کیوں کیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس چیز سے تمہیں تعجب ہوا ہے مجھے بھی ہوا تھا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ نے فرمایا یہ ادبار کا احسان ہے۔ جو اللہ نے تم پر کیا ہے پس احسان کو قبول کرو (یعنی امن و امان کے سفر میں بھی قصر کرتے رہا کرو)۔''
امن کی حالت میں قصر کرنا بظاہر قرآن کے خلاف ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ بغیر چون و چرا سے تسلیم کرتے ہیں۔ اور تسلیم ہی نہیں کرتے بلکہ خلاف قرآن حدیث کی تبلیغ بھی کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
(۱۹) مالک بن ادی کہتے ہیں کہ میں نے کہا کون مجھے سونے کے بدلے درہم دے گا، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہمیں اپنا سونا دکھاؤ، پھر آنا، جب ہمارا خادم آجائے تو ہم تم کو چاندی دے دیں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاں موجود تھے۔ آپ نے فرمایا:
کلا واللہ لتعظینہ ورقہ ادلترون الیہ ذھبہ فان رسول اللہ ﷺ قال الورق بالذھب ربا الاھا وھا ۔ الخ (مسلم کتاب البیوع)
'' یعنی ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا یا تو اس کو چاندی دو ورنہ سونا واپس کردو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ چاندی سونے کے بدلے میں سود ہے۔ اگر نقد نہ ہو۔''
(۲۰) عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
سیاتی قوم یجادلونکم بشبھات القران فخذوھم بالسنن فان اصحاب السنن اعلم بکتاب اللہ ۔ (جامع بیان العلم جلد ۲ص۱۲۳)
'' عنقریب ایک قوم نکلے گی جو قرآن کے شبہات کے ساتھ تم سے مباحثہ و مجادلہ کرے گی۔ پس ان کو سنتوں سے پکڑنا کیونکہ بے شک سنتوں والے ہی اللہ کی کتاب کے زیادہ عالم ہوتے ہیں۔''
(۲۱) عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:
ایاکم واصحاب الرای فانھم اعداء السنن اعیتھم الاحادیث ان یحفظوھا فقالوا بالرای فضلوا واضلوا ۔ (جامع بیان العلم ج۲، ص۱۳۵)
'' یعنی اہل المرائے سے بچنا کیونکہ وہ سنتوں کے دشمن ہوتے ہیں احادیث نے ان کو عاجز کردیا ہے کہ وہ اس کو حفظ کرسکیں یا محفوظ کرسکیں لہٰذا وہ رائے سے کہتے ہیں خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔''
الغرض اس قسم کی بیسیوں روایتیں ہیں جن سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حدیث پر عمل کرنا، حدیث کو حجت ماننا ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا '' حسبنا کتاب اللہ'' کہنے سے یہ مطلب تھا کہ حدیث حجت نہیں صرف قرآن کافی ہے، ایک ایسی بات ہے جس کے لیے کوئی شہادت نظر نہیں آتی، بلکہ جو کچھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے تواتر ثابت ہے، وہ اس کے خلاف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب آگے چل کر تحریر فرماتے ہیں:
یہ کتاب ہمارے لیے کافی ہے حضرت فاروق کا یہ جملہ رسالت پناہ کے حضور میں جسارت بے جا معلوم ہوتا ہے لیکن وہ مجبور تھے۔ (دو اسلام ۳۸)
جواب
برق صاحب کو یہاں بھی غلط فہمی ہوئی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ جملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں تو ضرور کہا، لیکن مخاطب آپ نہیں تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ یہ ہیں:
ان النبی ﷺ غلب علیہ الوجع وعندنا کتاب اللہ حسبنا۔ (صحیح البخاری۔ کتاب العلم)
'' یعنی اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ تکلیف ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب ہے وہ ہمارے لیے کافی ہے۔''
دوسری روایت میں اس سے بھی زیادہ صراحت ہے، حضرت عمر فرماتے ہیں:
ان رسول اللہ ﷺ قد غلبہ الوجع وعندکم القرآن حسبنا کتاب اللہ ۔ (بخاری باب مرض النبی ﷺ)
'' بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف زیادہ ہے۔ تمہارے پاس قرآن ہے ہمارے لیے کتاب اللہ کافی ہے۔''
پس ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ جسارت بے جا حضور کی جناب میں نہیں تھی، بلکہ حاضرین کو ایک مشورہ تھا جس کو انہوں نے قبول نہیں کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
حدیث قرطاس

حدیث زیر بحث حدیث قرطاس کے نام سے مشہور ہے، عموماً لوگوں کے لیے اس میں بہت سے اشکال ہیں، لہٰذا بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اصل مطلب کو بھی اس جگہ واضح کردیا جائے، ابن عباس فرماتے ہیں:
لم اشتد بالنبی ﷺ وجعہ قال ائتونی بکتاب اکتب لکم کتابا۔ (صحیح بخاری کتاب العلم)
'' یعنی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض نے شدت اختیار کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک کاغذ لاؤ۔ میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں۔''
اس کے بعد فرمایا:
لن تضلوا بعدہ ابداً
'' پھر تم ہرگز نہیں بھولو گے۔ ''
یعنی ہوسکتا ہے کہ ویسے تم میری وصیت کو بھول جاؤ لیکن تحریری وصیت کے بعد تو بھولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس فرمان کے بعد ایک مکالمہ شروع ہو جاتا ہے جس کے بعض فقرے مختلف سندوں میں بیان ہوئے ہیں اور بعض بالکل محذوف ہیں، حضرت عمر نے حاضرین سے کہا:
ان رسول اللہ ﷺ قد غلبہ الوجع
'' اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہے۔''
یعنی بہتر ہے کہ اس وقت آپ کو تکلیف نہ دی جائے، پھر کہنے لگے:
وعندکم القران (بخاری باب مرض النبی ﷺ)
'' اور تمہارے پاس قرآن موجود ہے۔''
یعنی اس کی موجودگی میں آپ کو کیوں تکلیف دی جائے۔ بظاہر ان الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی موجودگی میں حدیث کی کیا ضرورت ہے، لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ یا تو لوگوں کے اعتراض پر یا خود بخود چونکے اور کہنے لگے '' حسبنا کتاب اللہ'' ہمارے پاس اللہ کی شریعت ہے، وہ ہمارے لیے کافی ہے کیونکہ کتاب اللہ میں قرآن اور حدیث دونوں شامل ہیں۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی کے قائل تھے، جیسا کہ حدیث رجم میں اوپر گزر چکا ہے لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے جملہ کو صحیح کرلیا۔ حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دو جملے متصل بیان ہوئے ہیں۔ ایک ''تمہارے پاس قرآن ہے'' دوسرے '' ہمارے پاس کتاب اللہ ہے، وہ ہمارے لیے کافی ہے'' اگر یہ دونوں جملے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یکے بعد دیگرے کہے تھے، تو عبارت میں بڑا نقص پیدا ہوجائے گا، پہلے جملہ میں ضمیر مخاطب دوسرے میں ضمیر متکلم، پھر دونوں جملے مل کر عجیب اور بے جوڑ سی عبارت پیدا کرتے ہیں، لہٰذا لازمی ہے کہ دونوں جملے بہ یک وقت نہ کہے گئے ہوں بلکہ کچھ وقفہ کے بعد اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ یا تو وہ خود بخود سمجھ گئے ہوں کہ پہلا جملہ محل اعتراض ہے یا کسی نے اعتراض کیا ہو، جیسا کہ اسی حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ پر کافی اختلاف ہوا، غرض یہ کہ وجہ کوئی بھی ہو، انہوں نے اپنے جملہ کی تصحیح کرلی، پھر جب قرآن کا نام لیا تو اس کے ساتھ '' کافی'' کا لفظ استعمال نہیں کیا، لیکن جب کتاب اللہ کہا تو کافی ہونے کی صراحت کردی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ پر بھی کافی اختلاف ہوا، لوگ خاموش نہیں ہوئے بلکہ
فاختلفوا کثر اللغط فمنھم من یقول قربوا یکتب لکم کتاباً ومنھم من یقول غیر ذلک
'' یعنی اختلاف رائے ہوا اور بہت شور ہونے لگا۔ بعض کہنے لگے کہ قلم دوات لے ہی آؤ تاکہ آپ وصیت تحریر کردیں بعض اس کے علاوہ کوئی بات کہنے لگے۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
یعنی اس وقت ہی ایسی کیا ضرورت ہے کہ آپ کو تکلیف دی جائے یا یہ کہ شریعت اکہیہ کی تکمیل کے بعد اب وصیت تحریر کرانے کی ضرورت بھی کیا ہے، غرض یہ کہ مختلف باتیں کہی گئی ہوں گی جن کو حضرت ابن عباس نے نظر انداز کردیا۔ حدیث کے آیندہ آنے والے الفاظ اس بات کے متقاضی ہیں کہ لوگ تحریر کے کام کوملتوی کرانا چاہتے تھے تاکہ آپ کو تکلیف نہ ہو۔ جب فوری تحریر کی موافقت کرنے والوں نے اصرار کیا تو اس کو ملتوی کرنے والوں نے دریافت کیا ''فقالوا ماشانہ اھجر استقھم'' اسی وقت لکھوانا کیوں ضروری ہے۔ آخر آپ کا کیا حال ہے؟ کیا آپ دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں۔ آپ ہی سے پوچھ لو (یعنی اگر آپ وفات پانے والے ہیں تو خیر اسی وقت لکھوا لیا جائے، ورنہ پھر دیکھا جائے گا) غرض یہ کہ سب اس بات پر متفق ہوگئے کہ آپ سے دریافت کیا جائے '' فذھبوا یردون عنہ '' یعنی لوگ آپ سے پوچھنے لگے یا آپ کے سامنے اس سوال کو پیش کرنے لگے اس سے ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قلم دوات لانے کا حکم احتیاطاً اور مشورۃً دیا تھا۔ اگر یہ حکم ضروری ہوتا تو ضرور آپ دوبارہ ارشاد فرماتے اور صحابہ میں مشورہ اور اختلاف نہ ہوتا، حکم دے کر آپ نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی، بلکہ جب خود صحابہ کرام نے بار بار پوچھا تو فرمایا '' دعونی'' رہنے دو (ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے) بلکہ اس وقت تو تم مجھے اپنی طرف متوجہ بھی مت کرو، آپ کے الفاظ یہ ہیں:
فالذی انا فیہ خیر مما تدعونی الیہ
'' کیونکہ میں جس حالت میں ہوں وہ اس حالت سے بہتر ہے جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو۔''
یعنی جو قرب الٰہی اس وقت مجھے حاصل ہے، وہ میرے لیے تمہاری طرف متوجہ ہونے سے بہتر ہے، رہ گیا وصیت تحریر کرانا، تو زبانی ہی سن لو '' داوساھم بثلاث'' پھر آپ نے صحابہ کو تین وصیتیں کیں، پھر فرمایا:
قوموا عنی ولا ینبغی عندی التنازع۔ (صحیح بخاری)
'' اچھا اب میرے پاس سے چلے جاؤ اور یاد رکھو کہ میرے پاس تم کو اتنا شدید اختلاف نہیں کرنا چاہیے۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
دو شبہے اور ان کا ازالہ
(۱) مندرجہ بالا تشریح میں میں نے '' لن تضلوا بعدہ'' کے معنی کیے ہیں کہ ''اس کے بعد تم ہرگز نہ بھولوگے'' حالانکہ عام طور پر '' تضلوا'' کے معنی گمراہ ہونے کے کیے جاتے ہیں ۔ قرآن مجید میں ہے کہ :
فاتشھدوا شھید بن من رجالکم فان لم یکونا رجلین فرجل وامرآتان ممن ترضون من الشھداء ان تضل احدھما فتذکر احداھا الاخری ۔ (البقرہ)
'' یعنی لین دین کے معاملہ میں تحریر کرتے وقت مسلمان مردوں میں سے دو گواہ کرلیا کرو اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ان گواہوں میں سے جن پر تم راضی ہو، گواہ کرلیا کرو، اس لیے اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری یاد دلا دے۔''
آیت مذکورہ میں '' تضل'' کے معنی بھولنے کے کیے جاتے ہیں، اس لیے کہا اس جگہ ہی مناسب میں اسی طرح حدیث زیر بحث میں بھی بھول ہی کے معنی مناسب ہیں، کیونکہ مکمل شریعت کی موجودگی میں گمراہی کے معنی مناسب نہیں، ہاں بعض احکام کو بھولا جاسکتا ہے، اسی بناء پر تحریر کرنے کا آپ نے ذکر فرمایا۔ اگرچہ لکھوانا لازماً مقصود تو نہیں تھا لیکن اس واقعہ سے ان وصایا کی اہمیت کوبتانا مقصود تھا اور اس طرح ان کی حفاظت مقصود تھی، آیت اور حدیث میں ایک اور مناسبت بھی ہے، وہ یہ کہ دونوں جگہ تحریر کے ذکر میں لفظ '' ضلالت'' کا استعمال ہوا ہے، تحریر کا مقصد محض بھول کے دفعیہ کے لیے ہے۔ لہٰذا ''ضلالت'' کے معنی بھول جانا ہی ہر دو جگہ مناسب ہے۔
(۲) دوسرے یہ کہ میں نے '' کتاب اللہ'' کے معنی '' اللہ کی شریعت'' کے کیے ہیں، حالانکہ عام طور سے کتاب اللہ سے قرآن مجید مراد لیا جاتا ہے، اس کی کئی وجہیں ہیں:
وجہ اوّل: خود اسی حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے '' عندکم القران'' کہا تھا۔ پھر ''عندنا کتاب اللہ'' کہا اور یہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پہلے جملہ کو محل اعتراض سمجھے تھے۔ اسی لیے قرآن کی جگہ کتاب اللہ کردیا۔ تاکہ شبہ پیدا نہ ہو۔
وجہ دوم: خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے، حدیث رجم کو کتاب اللہ کہا ہے۔
وجہ سوم: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ساری زندگی اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ وہ قرآن کے ساتھ حدیث کو بھی حجت سمجھتے تھے۔ لہٰذا '' حسبنا کتاب اللہ'' سے صرف قرآن مراد لینا۔ خود متکلم یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مشار کے خلاف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
حدیث کو کتاب اللہ کہا جاتا ہے
حدیث کو کتاب اللہ کہنا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے، صرف ایک حدیث اس کے ثبوت میں درج کی جاتی ہے، ملاحظہ فرمائیے:
دو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں فیصلہ کے لیے حاضر ہوئے۔
فقال احدھما اقض بیننا بکتاب اللہ وقال الاخر اجل یا رسول اللہ فاقض بیننا بکتاب اللہ
'' ایک نے کہا کتاب اللہ سے ہمارا فیصلہ کیجئے دوسرے نے کہا ہاں، یا رسول اللہ کتاب اللہ سے ہمارا فیصلہ کیجئے۔''
مقدمہ سننے کے بعد آپ نے فرمایا:
اما والذی نفسی بیدہ لا قضین بینکما بکتاب اللہ
'' یعنی قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ضرور تمہارا فیصلہ کتاب اللہ سے کروں گا۔''
اس کے بعد آپ نے فرمایا:
اما ابنک فعلیہ جلدۃ مائۃ وتغریب عامروا ما انت یا انیس فاغد علی امراۃ فان اعترفت فارجمھا فاعترفت فوجھا (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
'' یعنی آپ نے زنا کرنے والے کے باپ سے کہا کہ تیرے بیٹے کو سو درے لگائیں جائیں گے اور ایک سال کے لیے جلا وطن کیا جائے اور اے انیس تم اس عورت کے پاس جاؤ۔ اگر وہ زنا کا اقرار کرے تو اس کو رجم کرو۔ اس نے اقرار کیا۔ اور انہوں نے اسے سنگسار کردیا۔''
سزا جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ قرآن مجید میں کہیں بنیں ہے، پس ثابت ہوا کہ کتاب اللہ سے مراد یہاں حدیث ہے۔
کتاب اللہ کااطلاق نہ صرف قرآن اور نہ صرف حدیث بلکہ پوری شریعت پر بھی ہوتا ہے اور یہ بات خود قرآن مجید سے ثابت ہے، ارشاد باری ہے:
وَ مَا کَانَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ یُّفْتَرٰی مِنْ دُوْنِ اللہِ وَ لٰکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَ تَفْصِیْلَ الْکِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
'' یعنی یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور کا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ قرآن پاک پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور کتاب کی تفصیل کرتا ہے جس کے رب العالمین کی طرف سے ہونے میں کوئی شک نہیں۔''
اس آیت میں مگر کتاب سے قرآن مراد لیاجائے، تو معنی یہ ہوں گے کہ قرآن قرآن کی تفصیل کرتا ہے اور یہ کسی طرح صحیح نہیں، صحیح معنی یہ ہیں کہ شریعت کی تفصیل کرتا ہے احکام شریعت کو علیحدہ علیحدہ بیان کرتا ہے اس آیت سے ثابت ہوا کہ کتاب اللہ کے معنی شریعت الہیہ کے بھی ہیں۔ اور جب قرآن و حدیث اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول سے یہ ثابت ہوچکا کہ حدیث بھی کتاب اللہ ہے تو پھر '' حسبنا کتاب اللہ'' سے حدیث کی مخالفت ایک لا یعنی مشغلہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
یہاں تک صحابہ کرام کے حدیث جمع نہ کرنے کی پہلی مفروضہ وجہ کا جواب تھا، اب دوسری وجہ سنیے اور جواب ملاحظہ فرمائیے:
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
دوم۔ حضور نے حدیث لکھنے سے روک دیا تھا۔ ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن کے بغیر (صحیح لفظ علاوہ ہے نہ کہ بغیر رقم امیر ا کوئی اور قبول قلمبند نہ کرو اور اگر کوئی شخص ایسا کوئی قول لکھ چکا ہو تو اسے مٹا دے۔ صحیح مسلم (دو اسلام ۳۹)
جواب
برق صاحب نے خود ہی اس ممانعت کی دو وجہیں لکھی ہیں، وہ فرماتے ہیں '' اول کہ کہیں غلطی سے احادیث قرآن کے تن میں شامل نہ ہو جائیں اور درحقیقت ہی اس کی اصل وجہ ہے۔ یہ وجہ ثابت اور صحیح ہے برق صاحب نے جس حدیث کو اس سلسلہ میں نقل کیا ہے، اس کا سیاق و سباق ملاحظہ فرمائیے۔ حضرت ابو سعید خدری فر ماتے ہیں:
کنا قعوداً نکتب ما نسمع من النبی ﷺ فقال ما ھذا تکتبون فقلنا مانسمع منک فقال اکتاب مع کتاب اللہ امحضوا کتاب اللہ واخلصوہ ۔ (مسند احمد ج۳، ص۱۲)
'' یعنی ہم بیٹے ہوئے تھے اور جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتے تھے لکھتے جاتے تھے آپ نے دریافت فرمایا یہ تم کیا لکھ رہے ہو ہم نے عرض کیا جو کچھ آپ سے سنتے ہیں لکھ لیتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا کتاب اللہ کے ساتھ ساتھ لکھتے جاتے ہو کتاب اللہ کو علیحدہ لکھو اور اس کو خالص لکھو۔''
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقاً حدیث لکھنے سے منع نہیں فرمایا تھا، بلکہ قرآن کے ساتھ ساتھ لکھنے سے منع فرمایا تھا، اگر حدیث لکھی ہی نہ جائے تو پھر آپ کا حکم '' قرآن کو علیحدہ لکھو'' بے معنی ہو جاتا ہے، اس ہی حدیث سے جس کا ایک حصہ برق صاحب نے نقل فرمایا تھا، ثابت ہوا کہ آپ نے حدیث لکھنے کی اجازت دی، مگر قرآن کے ساتھ لکھنے سے منع فرما دیا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ اس حدیث کی وجہ سے صحابہ نے احادیث کو جمع نہیں کیا، صحیح نہیں کیونکہ یہ تو جمع کرنے کی دلیل ہے نہ کہ جمع نہ کرنے کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
(۲) اس کے بعد برق صاحب اس حکم امتناعی کی دوسری وجہ لکھتے ہیں:
دوم: خود رسول کریم کی زندگی میں ان کے اقوال محرف ہوچکے تھے۔ (دو اسلام ۳۹)
جواب
یہ وجہ قطعاً صحیح نہیں، اولاً اس لیے کہ کسی روایت میں یہ منقول نہیں کہ خود آپ کی زندگی میں آپ کی احادیث محرف ہوچکی تھیں۔
ثانیاً: پہلی وجہ جو اوپر بیان ہوئی وہ صحیح ہے۔ لہٰذا یہ وجہ باطل ہے۔
ثالثاً: یہ وجہ عقلاً بھی محال ہے کسی شخص کے اقوال میں تحریف یا اختلاف اس وقت رونما ہوتا ہے جب وہ موجود نہ ہو، اور جب وہ موجود ہو تو تحریف کرنے کا کوئی موقع ہی نہیں ملتا، اس لیے کہ یہ فوراً گرفت میں آنے والی بات ہے اور کہنے والا خود اس کی تکذیب کرسکتا ہے اور جب ہاتھ میں حکومت ہو تو پھر سزا بھی دے سکتا ہے، اسی طرح اختلاف لفظی یا معنوی کا وقوع بھی محال ہے اور اگر بالفرض محال ایسا ہو بھی جائے تو اس اختلاف کو فوراً رفع بھی کیا جاسکتا ہے۔ غرض یہ کہ قائل کی زندگی میں اس کے قول کے مفہوم میں جو اختلاف پیدا ہوگا وہ عارضی ہوگا دائمی نہیں ،لہٰذا برق صاحب کا یہ کہنا کہ خود آپ کی زندگی میں آپ کے اقوال محرف ہوچکے تھے۔ عقلاً و نقلاً کسی طرح صحیح نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اس کے بعد برق صاحب لکھتے ہیں:
'' فرض کرو ایک محفل میں چھ آدمی گھنٹہ بھر گفتگو کرتے رہے کیا یہ ممکن ہے کہ اختتام مجلس تک وہ تمام گفتگو بالفاظ دہرا سکیں! ناممکن ہے۔'' (دو اسلام ص۳۹)
جواب
برق صاحب جو چیز آپ کے لیے ناممکن ہے ضروری نہیں کہ وہ ہر شخص کے لیے ناممکن ہو اسلامی تاریخی میں اس قسم کی مثالیں ملتی ہیں کہ ایک دفعہ کتاب پڑھی اور پوری کتاب یاد ہوگئی۔ مثلاً امام شافعی، امام بخاری، امام ابن تیمیہ وغیرہ، محدثین کے حافظہ کے متعدد واقعات ہیں، نجوف طوالت نظر انداز کر رہا ہوں، برادرکرم اپنے حافظہ کے پیمانہ سے دوسرے لوگوں کے حافظہ کی پیمائش مت کیجیے۔ پھر عام گفتگو کو درس و تدریس سے کیا نسبت ادرس و تدریس میں سننے والا سنتا اس لیے ہے کہ اس کو محفوظ رکھے ، پھر عام درس و تدریس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ سے کیا نسبت! صحابہ کرام بڑے شوق سے ارشادات نبوی کو سنتے تھے بلکہ عورتیں تک درخواست کرتی تھیں کہ ہمارے لیے بھی کوئی دن مقرر کردیا جائے اور ان کی درخواست پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دن مقرر کر دئیے تھے۔ (بخاری کتاب العلم)
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکثر خاموش رہا کرتے تھے بلا ضرورت کبھی گفتگو نہ فرماتے تھے۔ (رحمۃ للعالمین جلد اول ص۳۵۱) پھر صحابہ کرام آپ سے سوال بھی نہیں کرتے تھے اس لیے کہ قرآن میں اس کی ممانعت تھی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم کو قرآن میں سوال کرنے سے منع کردیا گیا تھا۔ لہٰذا ہم اس بات کے منتظر رہتے تھے کہ کوئی سمجھدار دیہاتی آکر سوال کرے (بخاری کتاب العلم) ایسے حالات میں ارشادات کی قلت ہوگی، اور جتنی قلت ہوگی، اتنی ہی حفاظت زیادہ ہوگی، پھر صحابہ کرام نے آپ کے ارشادات کے جستہ جستہ فقرے بیاں کئے ہیں نہ کہ مسلسل ڈھائی گھنٹہ کی تقریر، اور جستہ جستہ اہم فقروں کا یاد کرلینا کیا مشکل ہے، پھر مسائل کی نوعیت اور بھی مختلف ہے، اس لیے کہ مسئلہ سنتے ہی یاد ہو جاتا ہے، پھر اگر کسی مسائل کے جواب میں بیان کیا جائے تو کم از کم سائل کو تو وہ حفظ ہو ہی جائے گا،پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طویل تقریر کے عادی نہیں تھے۔ متوسط قسم کا خطبہ دیا کرتے تھے (صحیح مسلم) الفاظ ایسی ترتیب سے ادا فرمایا کرتے تھے کہ سننے والا چاہے تو الفاظ شمار کرسکتا تھا (رحمۃ للعالمین جلد ۱، ص ۵۳۱) بحوالہ زاد المعاد، پھر اکثر اوقات ایک ایک بات کو تین تین مرتبہ دہرایا کرتے تھے (صحیح بخاری کتاب العلم) بھلا ان حالات میں ایک مخلص دین سیکھنے والے کے لیے کیا مشکل ہے کہ وہ ارشادات عالیہ کو حفظ کرسکے، یہ ایک فطری چیز ہے اور اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
غلط فہمی
پھر برق صاحب لکھتے ہیں کہ :
'' عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں عراق کا قرآن حجاز سے مختلف ہوگیا تھا... عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا علاج یہ کیا کہ قرآن کے کافی نسخے لکھوا کر قلمرو کے مختلف حصوں میں بھیج دئیے۔'' (دو اسلام ص ۴۰)
جواب
اس واقعہ کی نسبت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف صحیح نہیں، بخاری میں ہے کہ یہ واقعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں پیش آیا تھا، حضرت انس رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں '' افزع حذیفۃ اختلافھم فی القرأۃ'' یعنی حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو لوگوں کے قرأت میں اختلاف کرنے سے اندیشہ ہوا۔ پھر حضرت انس فرماتے ہیں '' ان حذیفہ بن الیمان قدم علی عثمان'' یعنی حضرت حذیفہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور اس اندیشہ کا اظہار کیا، انہوں نے حضرت حفصہ کے پاس سے قرآن شریف منگوایا اور نقلیں کرا کے مختلف ممالک کو روانہ فرمائیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا۔ '' اکتبوہ بلسان قریش'' یعنی قرآن کو قریش کی زبان میں لکھا جائے غرض یہ کہ اختلافِ لب و لہجہ اور اس کی وجہ سے بعض مقامات پر اسم الخط میں اختلاف کا جو اندیشہ تھا اس کا سدباب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نہیں کیا تھا، بلکہ حضرت عثمان نے کیا تھا۔
اسی سلسلہ میں برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
غلط فہمی
'' صحابہ کرام عشق خدا میں ڈوبے ہوئے تھے ... اگر ان عاشقان خدا کو قرآن کی آیات بھول گئی تھیں تو حدیث کے بھولنے پر انہیں کون ملامت کرسکتا تھا۔'' (دو اسلام ص ۴۱)
جواب
صحابہ رضی اللہ عنہم کا قرآن کی آیات بھلا دنیا خلاف واقعہ ہے اور صحیح نہیں معلوم نہیں برق صاحب کس حوالہ سے ایسا لکھ رہے ہیں، اختلاف لب و لہجہ اور چیز ہے اور بھلا دنیا اور چیز ہے پھر روایت زیر بحث میں جو اختلاف مذکور ہے، وہ صحابہ کے متعلق نہیں ہے، بلکہ عام لوگوں کا اختلاف مراد ہے، برق صاحب کو غلط فہمی ہوگئی، صحابہ نہ آیات بھولے نہ احادیث، اگر انفرادی طور پر بھول ہو بھی جائے، تو اکثریت کے مقابلہ میں اس کی کوئی حقیقت نہیں، احادیث کے سلسلہ میں انفرادی بھول کا تدارک کرلیا گیا ہے۔
 
Top