- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
(۱۶) ایک پاگل عورت نے زنا کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا اس کو سنگسار کردو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ادھر سے گزرے پوچھا کیا معاملہ ہے ، لوگوں نے کہا یہ مجنون عورت ہے، اس نے زنا کیا ہے۔ حضرت علی نے فرمایا اس کو واپس لے چلو، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا:
یا امیر المومنین اما علمت ان رسول اللہ ﷺ قال ان القلم رفع عن ثلاثۃ عن المجنون حتی یبرأ وعن النائم حتی یستیقظ وعزا الصبے حتی یعقل قال قال بلی قال نما بال ھذہ ترجم قال لا شئی قال فارسلھا قال فارسلھا قال فجعل یکبر۔ (ابوداؤد۔کتاب الحدود)
'' یعنی اے امیر المومنین! آپ کو نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تین آدمی مرفوع القلم ہیں۔ مجنون جب تک تندرست نہ ہو۔ سونے والا جب تک نہ جاگے اور بچہ جب تک سمجھ دار یعنی بالغ نہ ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا! مجھے معلوم ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا پھر کس لیے اس کو سنگسار کیا جا رہا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا کوئی وجہ نہیں تو حضرت علی نے کہا پھر اس کو چھوڑ دیجئے حضرت عمر نے اس کو چھوڑ دیا اور اللہ اکبر کہا۔''
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں حدیث کو حجت جانتے تھے اور مرکز ملت کو اس کا تابع عمرو بن میمون کہتے ہیں:
(۱۷) کنا وقوفا بجمع فقال عمر بن الخطاب ان المشرکین کانوا لا یفیضون حتی تطلع الشمس فکانوا یقولون اشرق ثبیروان رسول اللہ ﷺ خالفھم فافاض عمر قبل طلوع الشمس ۔ (ترمذی کتاب الحج)
'' یعنی ہم مزدلفہ میں ٹھہرے ہوئے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک مشرکین مزدلفہ سے واپس نہ ہوتے تھے۔ جب تک سورج نہ نکل آئے۔ اور وہ کہتے تھے کہ اے ثبیر روشن ہو جا! اور تحقیق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کی پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی مزدلفہ سے طلوع شمس سے پہلے چلیے۔''
اس مسئلہ میں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سنت پر عمل کیا۔ یعلی بن امیہ کہتے ہیں:
(۱۸) قلت لعمر بن الخطاب لیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلٰوۃ ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا فقد امن الناس فقال عمر رضی اللہ عنہ عجبت مما عجبت متہ فسالت رسول اللہ ﷺ عن ذلک فقال صدقۃ تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلوا صدقتہ ۔ (نسائی کتاب تقصیر الصلوۃ فی السفر)
'' یعنی میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم نماز میں کمی کرو جب تمہیں یہ خوف ہو کہ کافر تم کو فتنہ میں مبتلا کردیں گے'' لیکن اب تو بالکل امن اب نماز میں قصر کیوں کیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس چیز سے تمہیں تعجب ہوا ہے مجھے بھی ہوا تھا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ نے فرمایا یہ ادبار کا احسان ہے۔ جو اللہ نے تم پر کیا ہے پس احسان کو قبول کرو (یعنی امن و امان کے سفر میں بھی قصر کرتے رہا کرو)۔''
امن کی حالت میں قصر کرنا بظاہر قرآن کے خلاف ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ بغیر چون و چرا سے تسلیم کرتے ہیں۔ اور تسلیم ہی نہیں کرتے بلکہ خلاف قرآن حدیث کی تبلیغ بھی کرتے تھے۔
یا امیر المومنین اما علمت ان رسول اللہ ﷺ قال ان القلم رفع عن ثلاثۃ عن المجنون حتی یبرأ وعن النائم حتی یستیقظ وعزا الصبے حتی یعقل قال قال بلی قال نما بال ھذہ ترجم قال لا شئی قال فارسلھا قال فارسلھا قال فجعل یکبر۔ (ابوداؤد۔کتاب الحدود)
'' یعنی اے امیر المومنین! آپ کو نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تین آدمی مرفوع القلم ہیں۔ مجنون جب تک تندرست نہ ہو۔ سونے والا جب تک نہ جاگے اور بچہ جب تک سمجھ دار یعنی بالغ نہ ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا! مجھے معلوم ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا پھر کس لیے اس کو سنگسار کیا جا رہا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا کوئی وجہ نہیں تو حضرت علی نے کہا پھر اس کو چھوڑ دیجئے حضرت عمر نے اس کو چھوڑ دیا اور اللہ اکبر کہا۔''
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں حدیث کو حجت جانتے تھے اور مرکز ملت کو اس کا تابع عمرو بن میمون کہتے ہیں:
(۱۷) کنا وقوفا بجمع فقال عمر بن الخطاب ان المشرکین کانوا لا یفیضون حتی تطلع الشمس فکانوا یقولون اشرق ثبیروان رسول اللہ ﷺ خالفھم فافاض عمر قبل طلوع الشمس ۔ (ترمذی کتاب الحج)
'' یعنی ہم مزدلفہ میں ٹھہرے ہوئے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک مشرکین مزدلفہ سے واپس نہ ہوتے تھے۔ جب تک سورج نہ نکل آئے۔ اور وہ کہتے تھے کہ اے ثبیر روشن ہو جا! اور تحقیق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کی پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی مزدلفہ سے طلوع شمس سے پہلے چلیے۔''
اس مسئلہ میں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سنت پر عمل کیا۔ یعلی بن امیہ کہتے ہیں:
(۱۸) قلت لعمر بن الخطاب لیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلٰوۃ ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا فقد امن الناس فقال عمر رضی اللہ عنہ عجبت مما عجبت متہ فسالت رسول اللہ ﷺ عن ذلک فقال صدقۃ تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلوا صدقتہ ۔ (نسائی کتاب تقصیر الصلوۃ فی السفر)
'' یعنی میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم نماز میں کمی کرو جب تمہیں یہ خوف ہو کہ کافر تم کو فتنہ میں مبتلا کردیں گے'' لیکن اب تو بالکل امن اب نماز میں قصر کیوں کیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس چیز سے تمہیں تعجب ہوا ہے مجھے بھی ہوا تھا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ نے فرمایا یہ ادبار کا احسان ہے۔ جو اللہ نے تم پر کیا ہے پس احسان کو قبول کرو (یعنی امن و امان کے سفر میں بھی قصر کرتے رہا کرو)۔''
امن کی حالت میں قصر کرنا بظاہر قرآن کے خلاف ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ بغیر چون و چرا سے تسلیم کرتے ہیں۔ اور تسلیم ہی نہیں کرتے بلکہ خلاف قرآن حدیث کی تبلیغ بھی کرتے تھے۔