• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ابوہریرہ سے روایت ہے ... کہ قیامت کے دن سب سے پہلے لوگ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور شفاعت کی التجا کریں گے، وہ کہیں گے کہ میں نے تو دانہ گندم کھا لیا تھا، اس لیے اللہ کے سامنے جانے سے ڈرتا ہوں، پھر ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے، وہ کہیں گے کہ میں نے تین جھوٹ بولے تھے، اس لیے مجھے معاف کرو ... آخر میں لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں گے اور آپ اللہ کے حضور میں روانہ ہو جائیں گے ...
کیا دلچسپ حدیث تراشی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ابراہیم علیہ السلام سے بھی بڑھا دیا، جن کی اتباع کا آپ کو بار بار حکم دیا گیا تھا { فَاتَّبِعُوْا مِلَّۃَ اِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفًا } (تم موحد ابراہیم کے آثار قدم پہ چلو) اور آپ پر تین جھوٹ بولنے کا الزام بھی لگا دیا۔ (دو اسلام ص ۲۸۷۔ ۲۸۸)
ازالہ
پہلی غلط فہمی تو یہ ہے کہ آیت کا ترجمہ صحیح نہیں کیا گیا، صحیح ترجمہ یہ ہے کہ '' تم اتباع کرو موحد ابراہیم کی ملت کا'' اور ملت سے مراد اسلام ہے اور یہ اللہ کا دین ہے، تو مطلب یہ ہوا کہ اس اسلام کی پیروی کرو، جو ابراہیم علیہ السلام نے پیش کیا تھا، نہ کہ وہ نام نہاد ملت ابراہیمی جس کو کفار مکہ یا اہل کتاب پیش کرتے تھے۔
دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ برق صاحب کے خیال میں ابراہیم علیہ السلام کا مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہے اور اس کے لیے بطور دلیل انہوں نے یہ آیت پیش کی ہے حالانکہ یہ آیت ایک الزامی جواب ہے، جو مشرکین عرب اور اہل کتاب کو دیا گیا ہے، کیونکہ یہ لوگ اس بات کا دعویٰ کرتے تھے کہ ہم دین ابراہیمی پر ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اصلی دین ابراہیمی پر تو اے رسول تم ہو، اور تم اسی اصلی ملت کی پیروی کئے چلے جاؤ، ان کے کہنے کی پروا مت کرو، یہ لوگ مشرک ہیں، اور ابراہیم علیہ السلام مشرک نہیں تھے، پھر یہ دین ابراہیمی پر کیسے ہوسکتے ہیں، اب آیت ملاحظہ فرمائیے:
{ مَا کَانَ اِبْرٰھِیْمُ یَھُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ } (ال عمران)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے اور نہ عیسائی بلکہ موحد مسلم تھے، اور وہ مشرکین میں سے نہیں تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الغرض اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ اور اہل کتاب کے دعویٰ کو باطل کردیا، اور یہ ثابت کردیا کہ ہمارا رسول ہی ابراہیمی دین پر ہے، اور اپنے رسول سے کہہ دیا کہ تم ان کی ملامت کی پرواہ مت کر، اور اصلی دین ابراہیمی کی پیروی کئے چلے جاؤ۔
برق صاحب ایک اور آیت ملاحظہ فرمائیے:
{ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللہُ فَبِھُدٰہٰھُمُ اقْتَدِہْ } (الانعام)
تمام رسولوں کو اللہ نے ہدایت دی تھی پس اے رسول تم بھی انہی کی ہدایت کی پیروی کرو۔
یہاں اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو تمام رسولوں کے نقش قدم پر چلنے کا حکم دے رہا ہے، تو بتائیے کیا سب رسول، نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہوئے، گویا جماعت مرسلین میں سب سے کم درجہ کے نبی آپ ہیں، اور یہ غالباً آپ بھی تسلیم نہیں کریں گے، ابراہیم علیہ السلام بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کا راستہ ایک ہے، یعنی اسلام ، بس اس پر چلنے کی ہدایت کی جا رہی ہے اس میں افضل و مفقول کا کوئی سوال نہیں، اب رہا یہ سوال کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل ہیں یا نہیں، تو یہ بات خود قرآن سے ثابت ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا } (اسراء)
عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا۔
{ وَلٰکِنْ رَسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ } (الاحراب)
آپ اللہ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے۔
خاتین النبیین کے الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ جب آپ سب سے افضل ہیں، اور افضل سب سے بعد میں ہی آیا کرتا ہے، بادشاہ کی سواری جب نکلتی ہے تو جلوس آگے آگے ہوتا ہے، اور بادشاہ سب سے آخر میں، مشاعرہ میں سب سے بڑے شاعر کو سب سے آخر میں اپنا کلام سنانے کا وقت دیا جاتا ہے، جلسہ عام میں سب سے زیادہ معزز عالم کو سب کے آخر میں تقریر کا موقع دیا جاتا ہے۔ اسی اصطلاح میں خاتم الشعراء اور خاتم المحدثین استعمال ہوتے ہیں، الغرض سب کے بعد میں آنے والا رعاقب، سب سے افضل ہوتا ہے، بہت سے پیغمبر آئے، لیکن ان کے آنے کے بعد پیغمبر کی ضرورت باقی رہی، لہٰذا پیغمبر آتے رہے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے پیغمبر بن کر آئے کہ کسی پیغمبر کے آنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی، کیا یہ دلیل افضیلت نہیں:
{ قُلْ یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْض } (الاعراف)
کہہ دیجئے اے لوگو میں تم سب کی طرف اس اللہ کی طرف سے رسول بن کر آیا ہوں، جو اللہ کہ تمام آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے۔
{ وَمَا اَرْسَلْنَاکَ اِلاَّ کَافَّۃً لِلنَّاسِ بَشِیْرًا وَ نَذِیْرًا } (سباء)
اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام اقوام عالم کے لیے رسول ہیں، برخلاف اس کے آپ سے پہلے جتنے بھی نبی آئے، وہ اپنی اپنی قوم کی طرف رسول بن کر آئے، عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ رَسُوْلاً اِلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ } (ال عمران)
وہ بنی اسرائیل کے لیے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔
خود ابراہیم علیہ السلام جن کو برق صاحب افضل الانبیاء سمجھتے ہیں، اپنی قوم ہی کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے اور دوسری قوموں کی طرف دوسرے رسول بھیجے گئے گئے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{ فَلَمَّارَآٰ اَیْدِیَھُمْ لَا تَصِلُ اِلَیْہِ نَکِرَھُمْ وَ اَوْجَسَ مِنْھُمْ خِیْفَۃً قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰی قَوْمِ لُوْطٍ} (ھود)
جب ابراہیم علیہ السلام نے فرشتوں کو دیکھا کہ کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے، تو ڈر سے فرشتوں نے کہا ڈرو نہیں، ہم لوط علیہ السلام کی قوم کی طرف بھیجئے گئے ہیں۔
اس سے ثابت ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں لوط علیہ السلام اپنی قوم کی طرف رسول تھے اور وہاں ابراہیم علیہ السلام کی رسالت نہیں تھی۔
{ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ } (اٰل عمران)
اے رسول کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو، تو میری اتباع کرو، اللہ تم کو محبوب بنا لے گا۔
بتائیے جس شخص کا متبع محبوب الٰہ ہو، وہ خود کتنا بڑا محبوب ہوگا، لہٰذا اگر ابراہیم علیہ السلام اللہ کے خلیل ہیں، تو آپ اللہ کے حبیب ہیں۔
احادیث میں آپ کی فضیلت کے متعلق بہت کچھ ہے، کاش آپ انہیں بھی تسلیم کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
آپ پر جھوٹ بولنے کا الزام بھی لگا دیا۔ (دو اسلام ص ۲۸۸)
ازالہ
جھوٹ کا ذکر تو قرآن میں موجود ہے، ارشاد باری ہے:
{ وَ تَاللہِ لَاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ ۔ فَجَعَلَھُمْ جُذٰذًا اِلَّا کَبِیْرًا لَّھُمْ لَعَلَّھُمْ اِلَیْہِ یَرْجِعُوْنَ } (الانبیاء)
ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ اللہ کی قسم میں تمہارے ان بتوں کی گت بناؤں گا، جب تم لوگ چلے جاؤ گے پس انہوں نے تمام بت توڑ ڈالے سوائے بڑے بت کے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔
پھر جب وہ مشرکین بت خانہ میں آئے تو بہت برہم ہوئے اور پوچھا:
{ ءَاَنْتَ فَعَلْتَ ھٰذَا بِاٰلِھَتِنَا یٰٓاِبْرٰھِیْمُ۔ قَالَ بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُھُمْ ھٰذَا فَسْئَلُوْھُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ } (الانبیاء)
اے ابراہیم ہمارے ان معبودوں کے ساتھ یہ حرکت تم نے کی ہے، ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا، نہیں بلکہ یہ کام اس بڑے بٹ نے کیا ہے ان بتوں ہی سے پوچھو، اگر یہ بولتے ہیں۔
یہ قرآن کی آیات آپ کے سامنے ہیں، اگر یہ جھوٹ نہیں، تو معلوم نہیں پھر جھوٹ کس چیز کا نام ہے اگر یہ جھوٹ ہے، تو پھر اعتراض کا رخ قرآن کی طرف ہوگا، بتائیے کیا کیا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اچھا مان لیا کہ آدم نے دانہ کھایا ... لیکن حضرت عیسیٰ نے کیا قصور کیا تھا کہ انہیں شفاعت کی اجازت نہیں مل سکی ... یوسف علیہ السلام میں کیا کمی تھی۔ (دو اسلام ص ۲۸۸)
ازالہ
پہلی بات تو یہ یاد رکھیے کہ عدم ذکرے عدم شئے لازم نہیں آتا، دوسرے یہ ضروری نہیں کہ ہر نبی اپنا قصور یاد کرکے ہی اس کام کا اپنے کو اہل نہ سمجھے، بلکہ ہوسکتا ہے کہ بے قصور ہوں، پھر بھی وہ اپنے آپ کو اس کام کا اہل نہ سمجھیں، مثلاً عیسیٰ علیہ السلام کے جواب میں صرف اتنا ہے کہ میں اس کام کا اہل نہیں ہوں تم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے کسی قصور کا ذکر نہیں کیا پھر بھی خود کو اس کام کا اہل نہ سمجھا۔
حدیث میں صرف بڑے بڑے رسولوں کا ذکر ہے، باقی کو بھی ان ہی پر قیاس کیا جاسکتا ہے یہ نہیں ہوسکتا، کہ حدیث میں فرداً فرداً لاکھوں پیغمبروں کے پاس جانا مذکور ہو، پھر یہ بھی ممکن ہے کہ وہ لوگ خود ہی باقی انبیاء کے پاس نہ جائیں، یہ سمجھ کر کہ جب اتنے بڑے بڑے نبیوں نے جواب دے دیا، تو دوسروں کے پاس جانا لا حاصل ہے، پھر اس غلط فہمی کا جواب خود حدیث میں موجود ہے، یعنی جب وہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے، تو عیسیٰ علیہ السلام اس شخص کی نشاندہی کریں گے، جس کے لیے یہ کام مخصوص ہے، اور اس طرح لوگ ہر نبی کے پاس جانے کی زحمت سے بچ جائیں گے اور سیدھے ان کی ہدایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے، اس وقت آپ کو شفاعت کی اجازت ملے گی اور آپ شفاعت کریں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق تو خود حضور کا ارشاد موجود ہے کہ آپ اکرم الناس تھے ... ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور سے کسی نے پوچھا کہ دنیا کا بہترین انسان کون ہے، فرمایا سب سے بڑا پرہیزگار کہا میرے سوال کا یہ مطلب نہیں تھا، فرمایا: تو پھر حضرت یوسف علیہ السلام ۔ (بخاری جلد ۲، ص۱۵۲)
حیرت ہے کہ اس اہم کام یعنی شفاعت کے لیے دنیا کا بہترین انسان کیوں منتخب نہ ہوسکا۔ (ص ۲۸۸)
ازالہ
حدیث مذکور میں خود اس غلط فہمی کا ازالہ موجود ہے اکرم الناس تو آپ نے اسی کو فرمایا، جو سب سے زیادہ متقی ہو، اور یہی قرآن میں بھی ہے:
{ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقَاکُم } (الحجرات)
یعنی اللہ کے ہاں اکرم الناس وہ ہے، جو سب سے زیادہ متقی و پرہیزگار ہے۔
ظاہر ہے کہ امت مسلمہ کے عقیدہ کے مطابق اور قرآن و حدیث کی صراحت کے بموجب سب سے زیادہ متقی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں، لہٰذا شفاعت کبری کا حق سوائے آپ کے اور کس کو ہوسکتا ہے اب رہا یہ سوال کہ پھر یوسف علیہ السلام کس لحاظ سے اکرم الناس ہیں، تو اس کی وجہ دوسری ہے، وہاں مکرم سے مراد مکرم بلحاظ نسب ہے، اور یہ حدیث میں موجود ہے، صحابہ نے کہا، ہم یہ نہیں پوچھ رہے تو آپ نے ارشاد فرمایا:
فیوسف نبی اللہ ابن نبی اللہ ابن بنی اللہ ابن خلیل اللہ (مشکوٰۃ)
بلحاظ نسب تو یوسف علیہ السلام ہیں، کیونکہ وہ خود بھی نبی، نبی کے بیٹے ہیں، نبی کے پوتے ہیں، خلیل اللہ کے پڑپوتے ہیں۔
یعنی بلحاظ نسب یوسف علیہ السلام کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا، اس لیے کہ وہ خود بھی نبی ہیں، اور ان کی میں پشتیں نبوت سے سرفراز ہیں، کیونکہ اللہ کے ہاں انساب کی کوئی اہمیت نہیں، بلکہ تقویٰ کی اہمیت ہے لہٰذا شفاعت کبریٰ اسی شخص کو مل سکتی ہے، جو تقویٰ کے زیور سے سب سے زیادہ آراستہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اگر کسی طالب العلم کو ایک سال پہلے یہ معلوم ہو جائے کہ وہ امتحان میں کچھ لکھے یا نہ لکھے وہ بہر رنگ کامیاب ہو جائے گا، تو وہ یقینا کام چھوڑ کر آورہ گردی شروع کردے گا۔ (دو اسلام ص۲۸۸)
ازالہ
طالب علم کام کرنا اس وقت چھوڑ سکتا ہے، جب اسے کامیابی کا یقین ہو، شفاعت کے سلسلہ میں یقین نہ قرآن سے حاصل ہوتا ہے نہ احادیث سے، بلکہ قرآن و حدیث کی تصریحات کی بناء پر اصل چیز جس پر شفاعت کا دار و مدار ہے، وہ انسان کا اپنا عمل ہے، پس نجات دو چیزوں پر موقوف ہوئی، ایک عمل، دوسرے شفاعت، لہٰذا ایسا کون بے وقوف ہوگا، جو صرف ایک شرط کو پورا کرے گا، اور دوسری کو چھوڑ دے گا، حالانکہ شرط شفاعت تو شرط عمل ہی پر موقوف ہے، حدیث شفاعت میں یہ چیز موجود ہے ، یعنی جن کو قرآن روک لے گا، ان کے حق میں شفاعت نہیں ہوگی، کہیے کیا اعتراض ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
رسول اللہ رو رہے تھے ... کہ اللہ نے جبریل سے کہا، اے جبریل محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ اور اسے ہماری طرف سے کہو کہ ہم تمہیں تمہاری امت کے متعلق خوش کریں گے اور مغموم نہ ہونے دیں گے (مسلم) اس وعدہ کی رو سے ہم سب کو جنت میں تو پہنچ ہی جانا ہے، پھر کام کیوں کریں، نماز کیوں پڑھیں ، روزے کیوں رکھیں، اور جہاد کے خوفناک مصائب کیوں برداشت کریں۔ (دو اسلام ص۲۸۹)
ازالہ
ایک مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے، وہ اللہ کی خوشی میں خوش ہوتا ہے، لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس چیز ہی سے خوش ہوں گے، جس سے اللہ خوش ہوگا سفارش آپ اس ہی کی کریں گے جس کی سفارش کرنے سے اللہ خوش ہوگا، لہٰذا ایسا موقع تو کوئی آئے گا ہی نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سفارش کرنا چاہیں اور سفارش قبول نہ ہو، اور پھر سفارش قبول نہ ہونے پر آپ کو ملال ہو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو خود اسی کی سفارش سے خوش ہوں گے جس کی سفارش کی اجازت ہوگی، اور جس کی سفارش کی اجازت نہ ہوگی، اس سے آپ خود بیزار ہوں گے ، مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ امت کے بہت سے لوگوں سے آپ فرمائیں گے۔
سحقا سحقا (صحیح بخاری و مسلم )
یعنی دور ہو جاؤ، دور ہو جاؤ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعض لوگوں سے آپ کو نفرت ہوگی، اور آپ سفارش ہی نہ کریں گے، اور جن سے آپ کو محبت ہوگی، وہ وہی لوگ ہوں گے جو اللہ کے بھی پیارے ہوں گے اور ان ہی کے حق میں سفارش قبول ہونے کے بعد آپ خوش ہو جائیں گے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُوْلٰٓئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ ۔ جَزَآؤُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہٗ } (البینۃ)
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے وہ بہترین مخلوق ہیں، ان کی جزا باغ عدن ہے، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے، وہ اللہ سے راضی اور اللہ ان سے راضی ہوگا، یہ سب کچھ اس کے لیے ہے، جو اللہ سے ڈرتا ہے۔
دوسری جگہ فرمایا ہے:
{ یٰٓاَ یَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ۔ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً ۔ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ ۔ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ } (الفجر)
اے نفس مطمئنہ جا اپنے رب کی طرف تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی، اللہ کے بندوں میں داخل ہو جا، اور میری جنت میں داخل ہو جا۔
ان آیات سے ثابت ہوا کہ ہر صالح مومن کو اللہ تعالیٰ راضی کردے گا، تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سید الاولین والآخرین کو اللہ تعالیٰ راضی نہ کرے گا، ضرور کرے گا ۔ لہٰذا حدیث زیر بحث بالکل قرآن کے مطابق ہے برق صاحب کو غلط فہمی ہوئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسرا جواب
برق صاحب احادیث میں اگر شفاعت کا ذکر ہے، تو احادیث میں یہ بھی ہے کہ آپ کا امتی کون ہے، اور امت سے خارج کون ہے، مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من غش فلیس منی (مسلم)
جو ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
اسی طرح بے نمازی کو آپ نے کافر تک فرمایا ہے، قریب قریب یہی حال روزہ کا ہے، جہاد کے متعلق فرمایا ہے کہ جو شخص نہ جہاد کرے، نہ جہاد کا ارادہ رکھے، تو یہ نفاق کی علامت ہے، اب ان حالات میں یہ بتائیے کہ امتی کون ہے اور امت سے خارج کون ہے؟ بلکہ مختصر اور جامع الفاظ میں آپ نے فرما دیا:
من رغب عن سنتی فلیس منی (بخاری ومسلم)
جو میری سنت سے اعراض کرے، وہ مجھ سے نہیں۔
مطلب یہ کہ جو شخص آپ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرتا ہے، وہی امتی ہے اور اسی کے متعلق آپ اللہ تعالیٰ آپ کو ناخوش نہ کرے گا، کہیے اب حدیث زیر بحث پر کیا اعتراض ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باب ۱۵
'' قرآن سے متصادم احادیث''

غلط فہمی
حدیث ملاحظہ ہو ...
مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ خدا کو ایک مان کر میری رسالت کا اقرار نہ کریں اور صلوٰۃ و زکوٰۃ کے پابند نہ ہو جائیں، اگر وہ ان باتوں کو مان لیں تو پھر میں ان کی جان اور مال سے کوئی تعرض نہیں کروں گا، ہاں جان و مال میں اللہ کے حقوق کسی طرح ساقط نہیں ہوں گے۔ (بخاری جلد ۱، ص ۸)
یہ حدیث کئی طرح سے محل نظر ہے۔
اول: قرآن حکیم نے بدامنی کو روکنے اور مظالم کے انسداد کے لیے جہاد کا حکم دیا ہے نہ کہ قرآن کی تعلیم زبردستی منوانے کے لیے۔ (دو اسلام ص ۲۹۲)
ازالہ
اس غلط فہمی کا ازالہ خود برق صاحب کی تحریر میں موجود ہے، برق صاحب فرماتے ہیں:
قرآن میں بار بار یہی حکم دیا گیا ہے کہ بد عہدوں سے لڑو، لیکن مندرجہ ذیل چار صورتوں میں سے کوئی صورت پیدا ہو جائے، تو جنگ ختم کردو۔
اول: جب فتنہ اور بدامنی ختم ہو جائے ...
دوم: جب دشمن سے صبح ہو جائے...
سوم: جب وہ جزیہ دینے پر راضی ہو جائے ...
چھارم: فان تابوا واقاموا الصلوٰۃ واتوا الزکوٰۃ فحلوا سبیلکم۔
اور اگر وہ توبہ کرنے کے بعد صلوٰۃ و زکوٰۃ کے پابند ہو جائیں تو پھر ان کے راستہ سے ہٹ جاؤ۔ (دو اسلام ص ۲۹۲، ۲۹۳)
برق صاحب یہ چوتھی وجہ جو آپ نے تحریر کی ہے، وہی حدیث مذکور میں ہے اور اس آیت ہی کی تشریح اس حدیث میں ہے، بلاوجہ آپ نے اس حدیث کو مطلق سمجھ لیا ہے، میدان جنگ میں اگر کافر مسلمان ہو جائیں، اور اس کے عملی ثبوت کے لیے نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، تو ایسے لوگوں سے لڑائی بند کرنی ہوگی ہاں اگر وہ صرف دھوکہ دینے کے لیے مسلمان ہوں، تو حدیث میں اس کی بھی تشریح ہے یعنی ''حسابھم علی اللہ'' اسلامی حکومت ظاہر کی بناء، پر ان کو مسلمان سمجھے گی اور ان کا اصلی حساب اللہ کے ذمہ ہوگا۔ اسلامی حکومت محض دھوکہ اور نفاق کے اندیشہ سے ان پر کفر کا اطلاق نہیں کرے گی، بلکہ اصلی معاملہ کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دے گی۔
 
Top