- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
غلط فہمی
ابوہریرہ سے روایت ہے ... کہ قیامت کے دن سب سے پہلے لوگ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور شفاعت کی التجا کریں گے، وہ کہیں گے کہ میں نے تو دانہ گندم کھا لیا تھا، اس لیے اللہ کے سامنے جانے سے ڈرتا ہوں، پھر ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے، وہ کہیں گے کہ میں نے تین جھوٹ بولے تھے، اس لیے مجھے معاف کرو ... آخر میں لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں گے اور آپ اللہ کے حضور میں روانہ ہو جائیں گے ...
کیا دلچسپ حدیث تراشی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ابراہیم علیہ السلام سے بھی بڑھا دیا، جن کی اتباع کا آپ کو بار بار حکم دیا گیا تھا { فَاتَّبِعُوْا مِلَّۃَ اِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفًا } (تم موحد ابراہیم کے آثار قدم پہ چلو) اور آپ پر تین جھوٹ بولنے کا الزام بھی لگا دیا۔ (دو اسلام ص ۲۸۷۔ ۲۸۸)
ازالہ
پہلی غلط فہمی تو یہ ہے کہ آیت کا ترجمہ صحیح نہیں کیا گیا، صحیح ترجمہ یہ ہے کہ '' تم اتباع کرو موحد ابراہیم کی ملت کا'' اور ملت سے مراد اسلام ہے اور یہ اللہ کا دین ہے، تو مطلب یہ ہوا کہ اس اسلام کی پیروی کرو، جو ابراہیم علیہ السلام نے پیش کیا تھا، نہ کہ وہ نام نہاد ملت ابراہیمی جس کو کفار مکہ یا اہل کتاب پیش کرتے تھے۔
دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ برق صاحب کے خیال میں ابراہیم علیہ السلام کا مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہے اور اس کے لیے بطور دلیل انہوں نے یہ آیت پیش کی ہے حالانکہ یہ آیت ایک الزامی جواب ہے، جو مشرکین عرب اور اہل کتاب کو دیا گیا ہے، کیونکہ یہ لوگ اس بات کا دعویٰ کرتے تھے کہ ہم دین ابراہیمی پر ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اصلی دین ابراہیمی پر تو اے رسول تم ہو، اور تم اسی اصلی ملت کی پیروی کئے چلے جاؤ، ان کے کہنے کی پروا مت کرو، یہ لوگ مشرک ہیں، اور ابراہیم علیہ السلام مشرک نہیں تھے، پھر یہ دین ابراہیمی پر کیسے ہوسکتے ہیں، اب آیت ملاحظہ فرمائیے:
{ مَا کَانَ اِبْرٰھِیْمُ یَھُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ } (ال عمران)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے اور نہ عیسائی بلکہ موحد مسلم تھے، اور وہ مشرکین میں سے نہیں تھے۔
ابوہریرہ سے روایت ہے ... کہ قیامت کے دن سب سے پہلے لوگ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور شفاعت کی التجا کریں گے، وہ کہیں گے کہ میں نے تو دانہ گندم کھا لیا تھا، اس لیے اللہ کے سامنے جانے سے ڈرتا ہوں، پھر ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے، وہ کہیں گے کہ میں نے تین جھوٹ بولے تھے، اس لیے مجھے معاف کرو ... آخر میں لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں گے اور آپ اللہ کے حضور میں روانہ ہو جائیں گے ...
کیا دلچسپ حدیث تراشی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ابراہیم علیہ السلام سے بھی بڑھا دیا، جن کی اتباع کا آپ کو بار بار حکم دیا گیا تھا { فَاتَّبِعُوْا مِلَّۃَ اِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفًا } (تم موحد ابراہیم کے آثار قدم پہ چلو) اور آپ پر تین جھوٹ بولنے کا الزام بھی لگا دیا۔ (دو اسلام ص ۲۸۷۔ ۲۸۸)
ازالہ
پہلی غلط فہمی تو یہ ہے کہ آیت کا ترجمہ صحیح نہیں کیا گیا، صحیح ترجمہ یہ ہے کہ '' تم اتباع کرو موحد ابراہیم کی ملت کا'' اور ملت سے مراد اسلام ہے اور یہ اللہ کا دین ہے، تو مطلب یہ ہوا کہ اس اسلام کی پیروی کرو، جو ابراہیم علیہ السلام نے پیش کیا تھا، نہ کہ وہ نام نہاد ملت ابراہیمی جس کو کفار مکہ یا اہل کتاب پیش کرتے تھے۔
دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ برق صاحب کے خیال میں ابراہیم علیہ السلام کا مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہے اور اس کے لیے بطور دلیل انہوں نے یہ آیت پیش کی ہے حالانکہ یہ آیت ایک الزامی جواب ہے، جو مشرکین عرب اور اہل کتاب کو دیا گیا ہے، کیونکہ یہ لوگ اس بات کا دعویٰ کرتے تھے کہ ہم دین ابراہیمی پر ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اصلی دین ابراہیمی پر تو اے رسول تم ہو، اور تم اسی اصلی ملت کی پیروی کئے چلے جاؤ، ان کے کہنے کی پروا مت کرو، یہ لوگ مشرک ہیں، اور ابراہیم علیہ السلام مشرک نہیں تھے، پھر یہ دین ابراہیمی پر کیسے ہوسکتے ہیں، اب آیت ملاحظہ فرمائیے:
{ مَا کَانَ اِبْرٰھِیْمُ یَھُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ } (ال عمران)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے اور نہ عیسائی بلکہ موحد مسلم تھے، اور وہ مشرکین میں سے نہیں تھے۔