• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
چوتھا جواب
کسی وقت بھی ہوسکتا ہے کہ دشمن عناصر کسی مسلمان کا ایمان خرید لیں، یا دوسرے مذاہب کی تبلیغی جماعتیں محض روپیہ کے بل بوتہ پر مسلمانوں کو مرتد کرنے لگ جائیں جیسا کہ آج کل ہمارے ملک میں ہو رہا ہے، لہٰذا اس کے انسداد کے لیے بھی ضروری ہے کہ اسلامی حکومت کے پاس کوئی غیر متبدل قانون ہو، جو اس بڑھتے ہوئے سیلاب کو روک سکے، اور یہی وہ قانون ہے ، جو حدیث مذکور کی صورت میں ہمیں دیا گیا ہے، یہ ہے اس کا دینی پہلو!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
پانچواں جواب
اسلام ایک عسکری نظام ہے، خانقاہی نظام نہیں ہے، اور مسلمانوں کا بچہ بچہ اسلامی فوج کا سپاہی ہے، یہاں آپ کے کان تلواروں کی جھنکار سنیں گے اور آپ کی آنکھ غازیوں کے وہ جھرمٹ دیکھے گی، جو شہادت کی لازوال دولت حاصل کرنے کے لیے جنگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں کود رہے ہیں، یہاں وہ پروانے نظر آئیں گے، جو کسی کے جمال جہاں آرا پر رہ رہ کر قربان ہو رہے ہیں، برق صاحب آپ کے نزدیک تو جہاد ہی روح اسلام ہے، لہٰذا اس مسئلہ پر جو کچھ لکھا جائے گا، وہ تو آپ کو پسند ہونا ہی چاہیے، یہ تو صحیح ہے کہ حکومت کسی شہری کو زبردستی فوج میں شامل نہیں کرتی اور یہ لا اکراہ فی الدین کا ایک منظر ہے، لیکن جب کوئی شخص خود فوج میں شامل ہو جاتا ہے، تو پھر وہ خود فوجی خدمات سے سبکدوش نہیں ہوسکتا، اور اگر وہ خود فوجی خدمات سے علیحدگی اختیار کرے، اور کسی فوجی ضابطہ کو ماننے سے انکار کردے، تو حکومت کا فوجی قانون اس کو برداشت نہیں کرسکتا، حکومت فوراً اس کو سزائے موت دے گی، اور یہ من بدل دینہ فاقتلوہ کا منظر ہے۔
بالکل اسی طرح اسلام ایک فوجی نظام ہے، حکومت الٰہیہ کسی کو اس بات پر تو مجبور نہیں کرتی کہ وہ اسلام میں داخل ہو جائے، لیکن جب کوئی شخص خود بخود اس فوجی نظام میں ہو جاتا ہے، تو پھر اس کو علیحدگی کا اختیار باقی نہیں رہتا، اور اگر کوئی شخص خود علیحدگی اختیار کرے، تو اس کی سزا عام دنیاوی قانون کے لحاظ سے بھی، اور دینی قانون کے لحاظ سے بھی موت کے سوا کچھ نہیں، لہٰذا اس اسلامی عسکری نظام میں سے جس وقت بھی کوئی شخص نکلے گا، اس کو موت کی سزا دی جائے گی، یہ ملازمت کی طرح عارضی چیز نہیں بلکہ یہ چیز دائمی ہے، اور مسلمان مہد سے لے کر لحد تک اسلام کا ایک سپاہی ہے، وہ کسی وقت بھی خود اپنے آپ کو اس فوجی نظام سے علیحدہ نہیں کرسکتا، اور کیونکہ فوج کا سپاہی مقررہ معیاد تک کے لیے ملازم ہوتا ہے، اس معیاد کے بعد حکومت اس کو علیحدہ کردیتی ہے، اور اگر وہ علیحدہ نہ کرے تو اس کا بھی اس کو اختیار ہے ٹھیک اسی طرح جو شخص ایمان لا کر اسلامی عسکری نظام میں شامل ہو جاتا ہے، وہ اپنی پوری زندگی اسلام کی وفاداری میں گزارنے کا عہد کرتا ہے، لہٰذا اس مقررہ میعاد میں وہ خود علیحدگی اختیار کرنا تو کجا اگر وہ علیحدہ ہونے کی درخواست بھی کرے، تو حکومت وقت کو اختیار ہے، کہ اسے علیحدگی کی اجازت نہ دے، اس اختیار کے استعمال پر اعتراض صحیح نہیں۔
فوجی ملازمت کیونکہ عارضی ہوتی ہے، لہٰذا حکومت سوچ سکتی ہے کہ اب فلاں سپاہی کو سبکدوش کردیا جائے تو مضائقہ نہیں، لیکن اسلامی فوج کی رکنیت عارضی نہیں بلکہ دائمی ہوتی ہے۔ لہٰذا حکومت کے لیے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ کسی اسلامی سپاہی کو فوجی رکنیت سے علیحدہ کردے۔ جو شخص اسلامی فوج نظام میں داخل ہوتا ہے، وہ اس معاہدہ کی پابندی کے ساتھ داخل ہوتا ہے کہ اب موت تک اس نظام سے وابستہ رہے گا۔ اگر وہ اس معاہدہ کے ساتھ آنا چاہتا تو نہ آئے، اس پر جبر نہیں کیا جائے گا، لیکن جب وہ آجائے گا، تو پھر اپنے معاہدہ کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا اور اگر کرے گا تو یقینا موت کی سزا پائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ایک شبہ اور اس کا ازالہ
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مرتد کو بہ حیثیت ایک ذمی کے برداشت کرلیا جائے۔ تو کیا حرج ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک کوئی شخص فوج میں داخل نہ ہو، شہری کی حیثیت سے رہ سکتا ہے، وہ جہاں چاہے جائے آئے، اس پر کوئی پابندی نہیں لیکن فوج میں داخل ہونے کے بعد اس کو اس قسم کی آزادی نہیں رہتی وہ ایک ضابطہ کا پابند ہوتا ہے، وہ فوجی اسرار سے واقف ہوتا ہے، اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، ذمی محض ایک شہری ہے اور مسلم ایک سپاہی ہے، جو شخص مسلم ہے، وہ گویا اسلامی فوج کے اسرار سے بھی واقف ہے، اور جو ذمی ہے وہ اسلامی فوج کا رکن بن ہی نہیں سکتا، لہٰذا وہ فوجی اسرار سے واقف بھی نہیں ہوسکتا، لہٰذا کسی ایسے شخص کا جو فوجی اسرار سے واقف ہو، خود فوج سے نکل جانا بڑا اہم معاملہ ہے یہ بغاوت کے مترادف ہے، وہ شخص اسلامی عسکری ضابطہ کا انکار کرتے ہی دوسری صف میں کھڑا ہوگیا، وہ کسی وقت بھی اسلامی نظام کے لیے خطرہ بن سکتا ہے، لہٰذا اسلامی نظام کی بقاء کی خاطر اس کا قتل کوئی اہمیت نہیں رکھتا، بلکہ اس کا قتل ضروری ہو جانا ہے، اور یہی اس حدیث کا عسکری و سیاسی پہلو ہے، برق صاحب حدیث کیا ہے، در بے بہا ہے، اسی قسم کے جواہر ہیں، جو امام بخاری، امام مسلم وغیرہ نے اپنی کتابوں میں جمع کردئیے ہیں، ان کی قدر وہی کرسکتا ہے، جو اس کا قدر دان ہو ''قدر گوہر شاہ بداند یا بداند چوہری'' کیونکہ بمصداق '' ہمارا تمہارا خدا بادشاہ'' اور بفحوائے حدیث پاک '' لا ملک الا اللہ'' کوئی بادشاہ نہیں سوائے اللہ کے (صحیح مسلم) آپ بادشاہ تو بن نہیں سکتے، لہٰذا جوہری بننے کی کوشش کیجئے اور اگر جوہری بھی نہیں بن سکتے، تو پھر کسی جوہری سے پوچھ لیا کیجئے، مگر افسوس جو جوہری آپ کو ملا وہ آپ کا اصطلاحی ملا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
برق صاحب ایمان بالغیب، ایمان باللہ، ایمان بالرسول کا تقاضا یہی ہے کہ جو کچھ ہمیں اللہ کی طرف سے بذریعہ رسول ملے، اس پر ایمان لائیں، اپنی عقلوں کو معیار نہ بنائیں، اگر ہم ایسا کریں تو پھر ہمارا ایمان رسول پر تو نہ ہوا بلکہ عقل پر ہوا، پھر عقلیں ہر ایک کی علیحدہ علیحدہ ہیں، ایک ہی بات کسی کی عقل میں آتی ہے، اور کسی کی عقل میں نہیں آتی، لہٰذا کسی ایک کی عقل کو معیار نہیں بنایا جاسکتا، ہوسکتا ہے کہ کسی حکم کی مصلحت کسی بھی شخص کی سمجھ میں نہ آئے، لیکن اس کے باوجود ہمیں اس حکم کو تسلیم کرنا ہوگا، اس لیے کہ وہ حکم اس ہستی کی طرف منسوب ہے جو مخفی مصالح سے واقف ہے، جہاں انسانی عقول کی رسائی نہیں ہوسکتی، ہمارا صرف اتنا فرض ہے کہ ہم یہ دیکھ لیں کہ جو حکم ہم تک پہنچ رہا ہے اس کا ذریعہ کیا ہے، اگر ذریعہ صادق القول، معتبر، پرہیزگار لوگوں کا ہے، تو پھر ہمیں اس کو تسلیم کرنا ہوگا محض عقل کی کسوٹی پر رکھ کر اس کا انکار کردینا شکست خوردہ ذہنیت، احساس کمتری، بے ایمانی شقاق، ہٹ دھرمی، ہمچنیں دیگرے نیست کے سوا کچھ نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
باب ۱۶
'' غلامی اور اسلام''

غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
لارڈ ہیڈلے فاروق جب مسلمان ہوئے تو آپ نے انگلستان کی مسجد میں اسلام پر ایک تقریر کی جس میں اسلام کی خوبیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے، آخر میں کہا۔
قرآن میں ایک نقص بھی ہے کہ وہ حکومت کرنے کے تو سب گُر بتاتا ہے، لیکن یہ نہیں بتاتا کہ اگر مسلمان غلام ہو جائے تو وہ کیا کرے، سارے قرآن میں غلام مسلمان کے لیے ایک ہدایت موجود نہیں۔
بدیگر الفاظ لارڈ فاروق یہ کہہ گئے کہ قرآن جہانبانوں کا دستور العمل ہے، نہ کہ غلاموں کا۔ (دو اسلام ص ۲۹۶)
ازالہ
برق صاحب کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں نہ غلام اور لونڈیوں کا تذکرہ ہے، نہ ان کے متعلق احکام ہیں، جو کچھ ہے بس حدیث میں ہے، لہٰذا حدیث ہی قابل اعتراض ہے، لیکن اس میں برق صاحب کی زبردست غلطی ہے، بلکہ خوش فہمی ہے، لارڈ ہیڈلے نے بھی قرآن کا سرسری مطالعہ کیا، اور اسی طرح برق صاحب نے بھی، ورنہ قرآن کا عالم ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہے، اب میں غلامی کے سلسلہ میں قرآنی آیات پیش کرتا ہوں، سنیے:
{ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ } (البقرۃ)
نیکی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں مال خرچ کرے، اقرباء کو دے، یتامی، مساکین، مسافر اور سائلین کو دے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں خرچ کرے۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان غلام ہوسکتا ہے اور اس کو آزاد کرانے میں روپیہ خرچ کرنا نیکی ہے، اور یہ بھی انفاق فی سبیل اللہ کی ایک مد ہے۔
{ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی } (البقرۃ)
اے مسلمانو! تم پر قتل کے معاملہ میں قصاص فرض کردیا گیا ہے، آزاد کے بدلے میں آزاد قاتل قتل کیا جائے، غلام کے بدلہ میں غلام قاتل کو قتل کیا جائے، اور عورت کے بدلہ میں قاتلہ کو قتل کیا جائے۔
یہ نہیں ہوسکتا کہ قتل تو کرے آزاد اور سزا میں کسی غلام کو قتل کردیا جائے، یہ تفریق اسلام میں نہیں، جو قتل کرے، وہی سزا بھگتے، اس آیت سے ثابت ہوا کہ اسلامی معاشرہ میں غلام ہوسکتے ہیں اور ان کے لیے قانون قصاص وہی ہوگا، جو آزاد مرد و عورت کے لیے ہے:
{ وَلَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَتْکُمْ وَلَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَکُمْ } (البقرۃ)
مشرکہ عورتوں سے نکاح مت کرو، جب تک وہ ایمان نہ لائیں اور مومنہ لونڈی بہتر ہے مشرکہ سے، اگرچہ وہ مشرکہ تم کو اچھی ہی کیوں نہ معلوم ہو، اور مشرک مردوں سے نکاح مت کرو، جب تک وہ مومن نہ ہو جائیں اور مومن غلام بہتر ہے مشرک سے اگرچہ وہ مشرک تم کو اچھا ہی کیوں نہ معلوم ہو۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلم معاشرہ میں مسلمان لونڈی، غلام ہوسکتے ہیں اور ان سے آزاد مرد و عورت کا نکاح کیا جاسکتا ہے۔
{ وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ } (النساء)
اگر تمہیں یتیم بچیوں کے حق میں انصاف نہ کرنے کا اندیشہ ہو، تو دوسری عورتوں سے جو تمہیں پسند ہو نکاح کرلو، دو سے تین سے، چار سے ، اگر یہ اندیشہ ہو کہ بیویوں کے درمیان انصاف نہ کر سکو گے، تو پھر ایک ہی بیوی کردیا لونڈی رکھ لو۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ لونڈیاں رکھی جاسکتی ہیں، ان سے صحبت کی جاسکتی ہے، ان کے درمیان مساوات رکھنا بھی لازم نہیں ہے اور یہ لونڈیاں مسلمان ہی ہوسکتی ہیں، اس لیے کہ کافرہ اور مشرک عورت سے تعلق رکھنا حرام ہے۔
{ وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ فَتَیٰتِکُمُ الْمُؤْمِنٰتِ وَاللہُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِکُمْ بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ فَانْکِحُوْھُنَّ بِاِذْنِ اَھْلِھِنَّ وَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّ لَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْھِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ } (النساء)
جن لوگوں کو آزاد عورتوں سے نکاح کا مقدور نہ ہو، وہ مسلمان لونڈیوں سے نکاح کرلیں، اللہ کو تمہارے ایمان کا خوب علم ہے، بعض تمہارے بعض سے ہیں، ان لونڈیوں سے ان کے مالکوں کی اجازت سے نکاح کیا کرو، اور قاعدہ کے مطابق ان کا مہر بھی دیا کرو، وہ لونڈیاں خفیہ یا علانیہ بدکاری کے لیے نہ رکھی جائیں پس جب وہ منکوحہ بن جائیں اور پھر کوئی بے حیائی کا کام کر بیٹھیں تو ان کو آزاد عورتوں کی سزا سے نصف سزا دی جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اس آیت سے بھی ثابت ہوا کہ مسلم معاشرہ میں مسلمان لونڈیاں ہوسکتی ہیں، ان کے آقا ہی ان کے نکاح کرنے یا نہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، ان لونڈیوں کو مہر بھی دینا چاہیے، وہ اگر زنا کریں، تو ان کو نصف سزا دی جائے۔
کیا اب بھی آپ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن ، لونڈی غلاموں کے احکام سے خاموش ہے:
{ حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّھٰتُکُمْ ... وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ } (النساء)
تم پر تمہاری مائیں حرام ہیں ... اور شوہر والی عورتیں بھی حرام ہیں، مگر لونڈیاں اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔
{ وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنَ اِحْسَانًا ... وما مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ } (النساء)
اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی قسم کا شرک مت کرو، والدین کے ساتھ احسان کرو ... اور لونڈی غلام کے ساتھ بھی احسان کرو۔
{ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ۔ اِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ } (المعارج)
اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سوائے بیویوں اور لونڈیوں کے کہ ان کے ساتھ صحبت کرنے میں وہ ملامت کے قابل نہیں۔
{ وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ ... وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ اَوْ اٰبَآئِہِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُولَتِہِنَّ ... اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُنَّ } (النور)
مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ... اور اپنی زینت کو کسی پر ظاہر نہ کریں، سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے باپوں کے، یا خاوند کے باپوں کے ... یا اپنے غلاموں کے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان عورتیں اپنے غلاموں کے سامنے اپنی زینت کا اظہار کرسکتی ہیں، ان سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
{ وَلَا تُکْرِہُوا فَتَیٰتِکُمْ عَلَی الْبِغَآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا } (النور)
دنیا کمانے کی غرض سے اپنی لونڈیوں کو زنا کاری پر مت مجبور کرو، اگر وہ لونڈیاں پاک دامن رہنا چاہئیں۔
برق صاحب اگر وہ پاک دامن نہ رہنا چاہیں، تو بظاہر آیت مذکورہ بالا سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ پھر ان کو زنا کاری پر مجبور کیا جاسکتا ہے ، کیا اس سے قحبہ خانہ کھولنے کی اجازت نہیں نکلتی؟ کیا بظاہر اس آیت پر اعتراض وارد نہیں ہوتا؟ آخر غلط فہمی کا شکار صرف حدیث ہی کیوں ہے۔
{ وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُونَ الْکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ فَکَاتِبُوْہُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْہِمْ خَیْرًا وَّاٰتُوہُمْ مِّنْ مَّالِ اللہِ الَّذِیْٓ اٰتٰکُمْ } (النور)
اور جو لونڈی غلام مکاتب بننا چاہیں، تو ان کو مکاتب بنا لیا کرو، بشرطیکہ تم یہ سمجھو کہ یہ ان کے حق میں بہتر ہے اور اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے ان مکاتبین کو بھی دیا کرو۔
{ وَاَنکِحُوْا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَآئِکُمْ } (النور)
اور جو غیر شادی شدہ ہوں، ان کا نکاح کردیا کرو، اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو صالح ہوں، ان کا بھی نکاح کردیا کرو۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمان لونڈی، غلام کو صالح ہونا چاہیے اور یہ کہ صالح مومن بھی غلام ہوسکتا ہے، برق صاحب اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غلاموں کو اپنے آقا کا عبدکہا ہے، کیوں صاحب اگر یہی بات حدیث میں ہوتی، تو کیا ہوتا؟ کیا کہنے والا یہ نہ کہہ دیتا کہ کیونکہ یہ حدیث شرک کی تعلیم دیتی ہے۔ لہٰذا یہ موضوع ہے ، جعلی ہے، کہئے اب اس آیت کے متعلق کیا کہا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
{ وَّلَا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَنْ تَاْکُلُوْا مِنْ بُیُوتِکُمْ اَوْ بُیُوتِ اٰبَآئِکُمْ ... اَوْ مَا مَلَکْتُمْ مَّفَاتِحَہٗٓ } (النور)
کوئی خرچ نہیں اگر تم اپنے گھروں میں سے کھاؤ یا اپنے باپوں کے گھروں میں سے کھاؤ ... یا جن کنجیوں کے تم مالک ہو۔
{ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ۔ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوْنَ ... وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ ۔ اِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ } (مومنون)
بے شک فلاح پائی مومنین نے ، جو اپنی نماز میں عاجزی کرتے ہیں ... اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سوائے بیویوں اور لونڈیوں کے کہ ان کے بارے میں انہیں کوئی ملامت نہیں۔
{ وَالَّذِیْنَ یُظٰہِرُوْنَ ْمِنْ نِّسَآءِ ہِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْریْرُ رَقَبَۃٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآ سَّا } (مجادلہ)
جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار سے کریں، پھر تلافی کرنی چاہیں، تو ان کو ہاتھ لگانے سے پہلے ایک غلام آزاد کریں۔
{ فَکَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُھُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ } (الانعام)
جو شخص قسم کھا لے، تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ دس مساکین کو اوسط درجہ کا کھانا کھلائے یا کپڑے پہنائے، یا ایک غلام آزاد کرے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غرض یہ کہ قرآن مجید میں اس قسم کی بیسیوں آیات ہیں، جن میں لونڈی غلاموں کے متعلق احکام بیان کئے گئے ہیں، چند آیات بطور نمونہ اوپر نقل کی گئی ہیں، ان آیات سے مندرجہ ذیل احکام نکلتے ہیں:
(۱) لونڈی غلاموں کی آزادی کے لیے روپیہ خرچ کرنا نیکی ہے۔
(۲) اگر غلام کسی کو قتل کردے تو وہ غلام ہی قتل ہوگا نہ کہ آزاد آدمیوں میں سے کوئی دوسرا شخص
(۳) مسلمان لونڈی غلام ہوسکتے ہیں اور ان سے آزاد مرد و عورت نکاح کرسکتے ہیں۔
(۴) جنگ میں گرفتار ہونے والی لونڈیوں سے نکاح کیا جاسکتا ہے اور ان میں مساوات کرنا لازمی نہیں، نہ ان کی تعداد مقرر ہے۔
(۵) لونڈیوں سے صحبت کی جاسکتی ہے، اگرچہ وہ شوہر والی ہوں۔
(۶) مسلمان لونڈیوں سے ان کے مالکوں کی اجازت سے نکاح کیا جاسکتا ہے، لونڈیوں کو مہر بھی دینا چاہیے۔
(۷) لونڈی غلام اگر زنا کریں، تو ان کو نصف سزا ملے گی۔
(۸) لونڈی غلاموں کے ساتھ نیکی کرنی چاہیے۔
(۹) آزاد عورتیں اپنے غلاموں کے سامنے آسکتی ہیں۔
(۱۰) لونڈیوں کو دنیا کمانے کے لیے زنا پر مجبور کرنا منع ہے خصوصاً جبکہ وہ پاکدامن رہنا چاہیں۔
(۱۱) لونڈی غلام کو مکاتب بنانا چاہیے، بشرطیکہ اس میں بہتری ہو۔
(۱۲) لونڈی غلام کو مکاتب بنانا چاہیے، بشرطیکہ اس میں بہتری ہو۔
(۱۳) مالک اپنے غلاموں کے گھر میں سے بغیر اجازت کھا پی سکتے ہیں۔
(۱۴) اظہار، قتل خطا، اور قسم کے کفارہمیں غلام آزاد کرنا فرض ہے، وغیرہ وغیرہ۔
غرض یہ کہ اتنے احکام موجود ہوتے ہوئے یہ دعویٰ کرنا کہ قرآن میں مسلمان لونڈی اور مسلمان غلام کے وجود کا سرے سے ذکر ہی نہیں بڑی زبردست غلط فہمی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ایک شبہ اور اس کا ازالہ
یہاں یہ شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا غلام تو ہو سکتا ہے اور اس کا وجود بے شک قرآن سے ثابت ہے، لیکن ایک مسلمان ایک کافر کا غلام نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ '' قرآن جہانبانوں کا دستور العمل ہے نہ کہ غلاموں کا'' (دو اسلام ص ۲۹۶) مطلب یہ کہ کوئی مسلمان کبھی محکوم ہو ہی نہیں ہوسکتا، وہ ہمیشہ حاکم ہوگا، اور کافر محکوم، اور اس وجہ سے قرآن میں ایسا کوئی حکم نہیں کہ مسلمان اگر غلام ہو، اور کافر آقا ہو، تو وہ کیا کرے، تو اس کا جواب سنیے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ وَ قَالَ الَّذِی اشْتَرٰہُ مِنْ مِّصْرَ لِامْرَاَتِہٖٓ اَکْرِمِیْ مَثْوٰہُ عَسٰٓی اَنْ یَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا } (یوسف)
جس شخص نے مصر میں یوسف علیہ السلام کو خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا اس کو اچھی طرح رکھنا شاید یہ ہمارے کام آئے یا ہم اسے بیٹا بنا لیں۔
ظاہر ہے کہ یوسف علیہ السلام فروخت ہوئے اور عزیز مصر کے ہاں بہ حیثیت غلام کے رہے کیونکہ قرآن سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس نے ان کو بیٹا بنایا ہو، پھر کیا ہوا، سنیے:
{ وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ اٰتَیْنَاہُ حُکْمًا وَعِلْمًا } (یوسف)
اور جب وہ جوان ہوئے تو ہم نے ان کو علم و حکمت عطا فرمائی (یعنی نبوت یا کم از کم دولت ایمان سے سرفراز فرمایا)
اس کے بعد اس عورت کے عاشق ہونے کا قصہ شروع ہوتا ہے، پھر کیا ہوا، سنیے:
{ وَ قَالَ نِسْوَۃٌ فِی الْمَدِیْنَۃِ امْرَاَتُ الْعَزِیْزِ تُرَاوِدُفَتٰھَا عَنْ نَّفْسِہٖ } (یوسف)
شہر کی عورتوں نے کہا کہ عزیز کی بیوی اپنے جوان (غلام) سے خواہش کرتی ہے۔
اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ وہ غلام تھے، ورنہ عورتیں ان کو بیٹا کہتیں۔
{ یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ } (یوسف)
یوسف علیہ السلام نے کہا اے قید خانہ کے ساتھیو، کیا کئی متفرق رب بہتر ہیں، یا ایک اللہ زبردست۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ یوسف علیہ السلام قید خانہ میں بھی رہے، اور یہ بھی ثابت ہوا کہ ایک مومن کافروں کے ہاں قید ہوسکتا ہے۔
{ قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ} (یوسف)
یوسف علیہ السلام نے بادشاہ سے کہا مجھے ملک کے خزانوں پر مامور کردیجئے میں حفیظ اور علیم ہوں۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ مومن کافر حکومت کا ملازم بھی ہوسکتا ہے۔
 
Top