باب ۱۶
'' غلامی اور اسلام''
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
لارڈ ہیڈلے فاروق جب مسلمان ہوئے تو آپ نے انگلستان کی مسجد میں اسلام پر ایک تقریر کی جس میں اسلام کی خوبیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے، آخر میں کہا۔
قرآن میں ایک نقص بھی ہے کہ وہ حکومت کرنے کے تو سب گُر بتاتا ہے، لیکن یہ نہیں بتاتا کہ اگر مسلمان غلام ہو جائے تو وہ کیا کرے، سارے قرآن میں غلام مسلمان کے لیے ایک ہدایت موجود نہیں۔
بدیگر الفاظ لارڈ فاروق یہ کہہ گئے کہ قرآن جہانبانوں کا دستور العمل ہے، نہ کہ غلاموں کا۔ (دو اسلام ص ۲۹۶)
ازالہ
برق صاحب کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں نہ غلام اور لونڈیوں کا تذکرہ ہے، نہ ان کے متعلق احکام ہیں، جو کچھ ہے بس حدیث میں ہے، لہٰذا حدیث ہی قابل اعتراض ہے، لیکن اس میں برق صاحب کی زبردست غلطی ہے، بلکہ خوش فہمی ہے، لارڈ ہیڈلے نے بھی قرآن کا سرسری مطالعہ کیا، اور اسی طرح برق صاحب نے بھی، ورنہ قرآن کا عالم ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہے، اب میں غلامی کے سلسلہ میں قرآنی آیات پیش کرتا ہوں، سنیے:
{ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ } (البقرۃ)
نیکی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں مال خرچ کرے، اقرباء کو دے، یتامی، مساکین، مسافر اور سائلین کو دے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں خرچ کرے۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان غلام ہوسکتا ہے اور اس کو آزاد کرانے میں روپیہ خرچ کرنا نیکی ہے، اور یہ بھی انفاق فی سبیل اللہ کی ایک مد ہے۔
{ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی } (البقرۃ)
اے مسلمانو! تم پر قتل کے معاملہ میں قصاص فرض کردیا گیا ہے، آزاد کے بدلے میں آزاد قاتل قتل کیا جائے، غلام کے بدلہ میں غلام قاتل کو قتل کیا جائے، اور عورت کے بدلہ میں قاتلہ کو قتل کیا جائے۔
یہ نہیں ہوسکتا کہ قتل تو کرے آزاد اور سزا میں کسی غلام کو قتل کردیا جائے، یہ تفریق اسلام میں نہیں، جو قتل کرے، وہی سزا بھگتے، اس آیت سے ثابت ہوا کہ اسلامی معاشرہ میں غلام ہوسکتے ہیں اور ان کے لیے قانون قصاص وہی ہوگا، جو آزاد مرد و عورت کے لیے ہے:
{ وَلَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَتْکُمْ وَلَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَکُمْ } (البقرۃ)
مشرکہ عورتوں سے نکاح مت کرو، جب تک وہ ایمان نہ لائیں اور مومنہ لونڈی بہتر ہے مشرکہ سے، اگرچہ وہ مشرکہ تم کو اچھی ہی کیوں نہ معلوم ہو، اور مشرک مردوں سے نکاح مت کرو، جب تک وہ مومن نہ ہو جائیں اور مومن غلام بہتر ہے مشرک سے اگرچہ وہ مشرک تم کو اچھا ہی کیوں نہ معلوم ہو۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلم معاشرہ میں مسلمان لونڈی، غلام ہوسکتے ہیں اور ان سے آزاد مرد و عورت کا نکاح کیا جاسکتا ہے۔
{ وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ } (النساء)
اگر تمہیں یتیم بچیوں کے حق میں انصاف نہ کرنے کا اندیشہ ہو، تو دوسری عورتوں سے جو تمہیں پسند ہو نکاح کرلو، دو سے تین سے، چار سے ، اگر یہ اندیشہ ہو کہ بیویوں کے درمیان انصاف نہ کر سکو گے، تو پھر ایک ہی بیوی کردیا لونڈی رکھ لو۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ لونڈیاں رکھی جاسکتی ہیں، ان سے صحبت کی جاسکتی ہے، ان کے درمیان مساوات رکھنا بھی لازم نہیں ہے اور یہ لونڈیاں مسلمان ہی ہوسکتی ہیں، اس لیے کہ کافرہ اور مشرک عورت سے تعلق رکھنا حرام ہے۔
{ وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ فَتَیٰتِکُمُ الْمُؤْمِنٰتِ وَاللہُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِکُمْ بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ فَانْکِحُوْھُنَّ بِاِذْنِ اَھْلِھِنَّ وَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّ لَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْھِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ } (النساء)
جن لوگوں کو آزاد عورتوں سے نکاح کا مقدور نہ ہو، وہ مسلمان لونڈیوں سے نکاح کرلیں، اللہ کو تمہارے ایمان کا خوب علم ہے، بعض تمہارے بعض سے ہیں، ان لونڈیوں سے ان کے مالکوں کی اجازت سے نکاح کیا کرو، اور قاعدہ کے مطابق ان کا مہر بھی دیا کرو، وہ لونڈیاں خفیہ یا علانیہ بدکاری کے لیے نہ رکھی جائیں پس جب وہ منکوحہ بن جائیں اور پھر کوئی بے حیائی کا کام کر بیٹھیں تو ان کو آزاد عورتوں کی سزا سے نصف سزا دی جائے۔