- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
خلاصہ
خلاصہ یہ ہوا کہ:
(۱) غلام اگر نیک اور صالح ہو، تو اسے دوہرا اجر ملے ۔
(۲) غلام اگر جرم کرے، تو اس کو نصف سزا دی جائے۔
(۳) غلام اسی طرح رہے، کھائے اور پئے جس طرح مالک اور مالک کی اولاد۔
بتائیے یہ زندگی کیا بری ہے کہ دوہرا اجر اور نصف سزا، اور کھانے پینے کی تکلیف نہیں، بے فکری، دل جمعی، مساوات، کون ہے جو اس ضابطہ پر قربان نہ ہو جائے، یہی وجہ ہے کہ راوی کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے۔ یہ تو بہت ہی عمدہ زندگی ہے، کہ ایک مسلمان کی غلامی میں دن کٹ جائیں دنیا کا فکر نہ ہو، اور عاقبت سدھر جائے۔
یہ راوی کی ایک نیک خواہش ہے، اور آپ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، راوی دین و دنیا میں سکون و بے فکری کی زندگی کا مشتاق ہے، اور اس کون و بے فکری کی خواہش وہ کر رہا ہے کیا دین و دنیا میں سکون تلاش کرنا کوئی قبیح فعل ہے، اگر نہیں تو پھر راوی کی اس پاکیزہ خواہش پر اعتراض کرنا فضول ہے، اس کو اس سکون کے لیے غلامی کی زندگی کو پسند کرنا پڑا، غلامی کی زندگی اس سکون وبے فکری کا محض ایک وسیلہ ہے۔ لہٰذا ایک بہت بڑے مقصد کے پیش نظر راوی نے غلامی کی زندگی کا اشتیاق ظاہر کیا۔ لیکن ایک اس سے بھی زیادہ بڑے مقصد کی خاطر اس سکون زندگی کو قربان کردیا، اور آزاد رہتے ہی کو ترجیح دی، گویا راوی کے نزدیک بھی آزادی کو غلامی پر ترجیح ہے، لیکن معلوم نہیں کہ برق صاحب کیا سمجھ بیٹھے، عاقبت کی فکر، قیامت کی دہشت، خوف خدا یہ چیزیں بعض اوقات انسان کو ایسی ہی خواہش کی طرف راغب کردیتی ہیں، کہ جس میں عاقبت کی فکر سے نجات مل جائے کوئی پھول بن جانے کی خواہش کرتا ہے اور کوئی پتی، کوئی کہتا ہے۔
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
برق صاحب راوی تو مسلمان کی غلامی میں رہنے کی خواہش کرتا ہے، اور آپ اس کو غیروں کی غلامی کی طرف کھینچ رہے ہیں، کہاں مسلمان کی غلامی اور کہاں کافر کی غلامی، آپ نے دونوں کو گڈ مڈ کردیا، مسلمان کی غلامی ایک جنت ہے، نعمت ہے، کافر کی غلامی عذاب ہے، لعنت ہے راوی تو مسلمان کی غلامی کی خواہش کرتا ہے، لیکن پھر بھی اس نے غلامی کو اختیار نہیں کیا، آزادی ہی کو ترجیح دی، یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی کسی وقت یہ کہہ دے کاش میں پھول ہوتا کہ لوگوں کے کام آتا، پھر کرنا بود ہو جاتا ، نہ حساب ہوتا، نہ کتاب ، نہ عاقبت کی فکر ہوتی، نہ دنیا کے مصائب میں الجھتا، لیکن کیا یہ حقیقت ہے کہ ایسا کہنے والا پھول بننا ہی پسند کرتا ہے، اور انسانی زندگی پر اس کو ترجیح دیتا ہے، نہیں ہرگز نہیں، یہ آرزو ہونا، اور وہ بھی کسی خاص مقصد کی خاطر اور بات ہے اور حقیقتاً اسے پسند کرنا اور بات ہے، اس کی یہ نیک خواہش دراصل درس عبرت ہے، جو دوسروں کو بھی عاقبت کی فکر کی طرف برانگیختہ کرتی ہے، غلامی کی خواہش کی طرف نہ جائیے، یہ خواہش دراصل درس عبرت ہے کہ انسان دنیا اور آخرت کے سکون کا متلاشی رہے، عیش و راحت میں خدا کو نہ بھول جائے، بلکہ خدا سے غافل کرنے والے عیش و آزادی سے ایسی غلامی کو ترجیح دے، جو خدا ترس بنا دے، برق صاحب راوی کی یہ خواہش فائدہ اٹھانے کی چیز ہے، نہ کہ اعتراض کرنے کی۔
خلاصہ یہ ہوا کہ:
(۱) غلام اگر نیک اور صالح ہو، تو اسے دوہرا اجر ملے ۔
(۲) غلام اگر جرم کرے، تو اس کو نصف سزا دی جائے۔
(۳) غلام اسی طرح رہے، کھائے اور پئے جس طرح مالک اور مالک کی اولاد۔
بتائیے یہ زندگی کیا بری ہے کہ دوہرا اجر اور نصف سزا، اور کھانے پینے کی تکلیف نہیں، بے فکری، دل جمعی، مساوات، کون ہے جو اس ضابطہ پر قربان نہ ہو جائے، یہی وجہ ہے کہ راوی کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے۔ یہ تو بہت ہی عمدہ زندگی ہے، کہ ایک مسلمان کی غلامی میں دن کٹ جائیں دنیا کا فکر نہ ہو، اور عاقبت سدھر جائے۔
یہ راوی کی ایک نیک خواہش ہے، اور آپ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، راوی دین و دنیا میں سکون و بے فکری کی زندگی کا مشتاق ہے، اور اس کون و بے فکری کی خواہش وہ کر رہا ہے کیا دین و دنیا میں سکون تلاش کرنا کوئی قبیح فعل ہے، اگر نہیں تو پھر راوی کی اس پاکیزہ خواہش پر اعتراض کرنا فضول ہے، اس کو اس سکون کے لیے غلامی کی زندگی کو پسند کرنا پڑا، غلامی کی زندگی اس سکون وبے فکری کا محض ایک وسیلہ ہے۔ لہٰذا ایک بہت بڑے مقصد کے پیش نظر راوی نے غلامی کی زندگی کا اشتیاق ظاہر کیا۔ لیکن ایک اس سے بھی زیادہ بڑے مقصد کی خاطر اس سکون زندگی کو قربان کردیا، اور آزاد رہتے ہی کو ترجیح دی، گویا راوی کے نزدیک بھی آزادی کو غلامی پر ترجیح ہے، لیکن معلوم نہیں کہ برق صاحب کیا سمجھ بیٹھے، عاقبت کی فکر، قیامت کی دہشت، خوف خدا یہ چیزیں بعض اوقات انسان کو ایسی ہی خواہش کی طرف راغب کردیتی ہیں، کہ جس میں عاقبت کی فکر سے نجات مل جائے کوئی پھول بن جانے کی خواہش کرتا ہے اور کوئی پتی، کوئی کہتا ہے۔
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
برق صاحب راوی تو مسلمان کی غلامی میں رہنے کی خواہش کرتا ہے، اور آپ اس کو غیروں کی غلامی کی طرف کھینچ رہے ہیں، کہاں مسلمان کی غلامی اور کہاں کافر کی غلامی، آپ نے دونوں کو گڈ مڈ کردیا، مسلمان کی غلامی ایک جنت ہے، نعمت ہے، کافر کی غلامی عذاب ہے، لعنت ہے راوی تو مسلمان کی غلامی کی خواہش کرتا ہے، لیکن پھر بھی اس نے غلامی کو اختیار نہیں کیا، آزادی ہی کو ترجیح دی، یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی کسی وقت یہ کہہ دے کاش میں پھول ہوتا کہ لوگوں کے کام آتا، پھر کرنا بود ہو جاتا ، نہ حساب ہوتا، نہ کتاب ، نہ عاقبت کی فکر ہوتی، نہ دنیا کے مصائب میں الجھتا، لیکن کیا یہ حقیقت ہے کہ ایسا کہنے والا پھول بننا ہی پسند کرتا ہے، اور انسانی زندگی پر اس کو ترجیح دیتا ہے، نہیں ہرگز نہیں، یہ آرزو ہونا، اور وہ بھی کسی خاص مقصد کی خاطر اور بات ہے اور حقیقتاً اسے پسند کرنا اور بات ہے، اس کی یہ نیک خواہش دراصل درس عبرت ہے، جو دوسروں کو بھی عاقبت کی فکر کی طرف برانگیختہ کرتی ہے، غلامی کی خواہش کی طرف نہ جائیے، یہ خواہش دراصل درس عبرت ہے کہ انسان دنیا اور آخرت کے سکون کا متلاشی رہے، عیش و راحت میں خدا کو نہ بھول جائے، بلکہ خدا سے غافل کرنے والے عیش و آزادی سے ایسی غلامی کو ترجیح دے، جو خدا ترس بنا دے، برق صاحب راوی کی یہ خواہش فائدہ اٹھانے کی چیز ہے، نہ کہ اعتراض کرنے کی۔