• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
خلاصہ
خلاصہ یہ ہوا کہ:
(۱) غلام اگر نیک اور صالح ہو، تو اسے دوہرا اجر ملے ۔
(۲) غلام اگر جرم کرے، تو اس کو نصف سزا دی جائے۔
(۳) غلام اسی طرح رہے، کھائے اور پئے جس طرح مالک اور مالک کی اولاد۔
بتائیے یہ زندگی کیا بری ہے کہ دوہرا اجر اور نصف سزا، اور کھانے پینے کی تکلیف نہیں، بے فکری، دل جمعی، مساوات، کون ہے جو اس ضابطہ پر قربان نہ ہو جائے، یہی وجہ ہے کہ راوی کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے۔ یہ تو بہت ہی عمدہ زندگی ہے، کہ ایک مسلمان کی غلامی میں دن کٹ جائیں دنیا کا فکر نہ ہو، اور عاقبت سدھر جائے۔
یہ راوی کی ایک نیک خواہش ہے، اور آپ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، راوی دین و دنیا میں سکون و بے فکری کی زندگی کا مشتاق ہے، اور اس کون و بے فکری کی خواہش وہ کر رہا ہے کیا دین و دنیا میں سکون تلاش کرنا کوئی قبیح فعل ہے، اگر نہیں تو پھر راوی کی اس پاکیزہ خواہش پر اعتراض کرنا فضول ہے، اس کو اس سکون کے لیے غلامی کی زندگی کو پسند کرنا پڑا، غلامی کی زندگی اس سکون وبے فکری کا محض ایک وسیلہ ہے۔ لہٰذا ایک بہت بڑے مقصد کے پیش نظر راوی نے غلامی کی زندگی کا اشتیاق ظاہر کیا۔ لیکن ایک اس سے بھی زیادہ بڑے مقصد کی خاطر اس سکون زندگی کو قربان کردیا، اور آزاد رہتے ہی کو ترجیح دی، گویا راوی کے نزدیک بھی آزادی کو غلامی پر ترجیح ہے، لیکن معلوم نہیں کہ برق صاحب کیا سمجھ بیٹھے، عاقبت کی فکر، قیامت کی دہشت، خوف خدا یہ چیزیں بعض اوقات انسان کو ایسی ہی خواہش کی طرف راغب کردیتی ہیں، کہ جس میں عاقبت کی فکر سے نجات مل جائے کوئی پھول بن جانے کی خواہش کرتا ہے اور کوئی پتی، کوئی کہتا ہے۔
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
برق صاحب راوی تو مسلمان کی غلامی میں رہنے کی خواہش کرتا ہے، اور آپ اس کو غیروں کی غلامی کی طرف کھینچ رہے ہیں، کہاں مسلمان کی غلامی اور کہاں کافر کی غلامی، آپ نے دونوں کو گڈ مڈ کردیا، مسلمان کی غلامی ایک جنت ہے، نعمت ہے، کافر کی غلامی عذاب ہے، لعنت ہے راوی تو مسلمان کی غلامی کی خواہش کرتا ہے، لیکن پھر بھی اس نے غلامی کو اختیار نہیں کیا، آزادی ہی کو ترجیح دی، یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی کسی وقت یہ کہہ دے کاش میں پھول ہوتا کہ لوگوں کے کام آتا، پھر کرنا بود ہو جاتا ، نہ حساب ہوتا، نہ کتاب ، نہ عاقبت کی فکر ہوتی، نہ دنیا کے مصائب میں الجھتا، لیکن کیا یہ حقیقت ہے کہ ایسا کہنے والا پھول بننا ہی پسند کرتا ہے، اور انسانی زندگی پر اس کو ترجیح دیتا ہے، نہیں ہرگز نہیں، یہ آرزو ہونا، اور وہ بھی کسی خاص مقصد کی خاطر اور بات ہے اور حقیقتاً اسے پسند کرنا اور بات ہے، اس کی یہ نیک خواہش دراصل درس عبرت ہے، جو دوسروں کو بھی عاقبت کی فکر کی طرف برانگیختہ کرتی ہے، غلامی کی خواہش کی طرف نہ جائیے، یہ خواہش دراصل درس عبرت ہے کہ انسان دنیا اور آخرت کے سکون کا متلاشی رہے، عیش و راحت میں خدا کو نہ بھول جائے، بلکہ خدا سے غافل کرنے والے عیش و آزادی سے ایسی غلامی کو ترجیح دے، جو خدا ترس بنا دے، برق صاحب راوی کی یہ خواہش فائدہ اٹھانے کی چیز ہے، نہ کہ اعتراض کرنے کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
پھٹکار اس جعلساز پر جس نے یہ حدیث تراش کر اسلام کے بنیادی مقصد پہ اس قدر خوفناک حملہ کیا، اور مسلمانوں کو سریر جہانبانی سے اٹھا کر غلامی کے متعفن سنڈاس میں پھینکنے کی کوشش کی۔ (دو اسلام ص ۲۹۹)
ازالہ
حدیث تو یہ ہے نہیں! راوی کا قول ہے، لہٰذا جعلسازی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہاں یہ سوچئے کہ نبی ہو، اور قید میں رہنے کی خواہش کر رہا ہو، محکومی کی زندگی گزارنا پسند کرے، اور ملازم ہو جائے، اور اپنے حاکم کے قانون پر چلتا رہے، کیا یہ زندگی کسی نبی کے شایان شان ہے؟ کیا یہ زندگی آپ کو پسند ہے؟ اگر پسند نہیں، تو پھر قرآنی آیات (سورہ یوسف) کے متعلق کیا خیال ہے؟ کیا آپ کو یہ پسند ہے کہ مومن ہو کر دارالحرب میں رہے، کمزوری و بے بسی میں دن گزارے، یا اسلامی حکومت کے معاہدہ کا فرقوم میں اپنی زندگی گزارے ، ان کا محکوم سن کر رہے۔ ان کے قانون کی اطاعت کرے، اگر یہ باتیں آپ کو پسند نہیں، تو پھر سورۂ نساء کی مذکورہ بالا آیات کے متعلق کیا خیال ہے؟ اور ان آیات کے متعلق کیا خیال ہے، جن آیات میں بنی اسرائیل کے فرعون کے غلام ہونے کا ذکر ہے، لڑکیوں کے قتل کا ذکر ہے، ان کی بے بسی اور لاچاری کا ذکر ہے، کیا وہ مسلمان تھے یا نہیں؟ اگر تھے تو ان کی جہانبانی کہاں چلی گئی۔
برق صاحب اگر غلط فہمی ہو جایا کرے، تو اعتراض کرنے سے پہلے سوچ لیا کیجئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اعتراض کی زور دور تک پہنچ جائے، یا کہیں دار الٹا آپڑے، یوسف علیہ السلام کا قید و بند کی زندگی کو ترجیح دینا اس لیے تھا کہ وہ پاک دامن رہنا چاہتے تھے، گویا ایک مبارک مقصد کی خاطر گری ہوئی زندگی کو انہوں نے پسند کیا، اسی طرح تبلیغ اسلام کی خاطر انہوں نے محکوم بننا پسند کیا اور وزارت مالیات و زراعت کے عہدہ کی خواہش کی، گویا تبلیغ اسلام کے مبارک مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے ایک گری ہوئی محکومیت کی زندگی کو پسند کرلیا، اگر مبارک مقاصد کی براری کے لیے ایک پست قسم کی زندگی کو اختیار کرنا قابل اعتراض ہے، تو پھر برق صاحب یہ اعتراض قرآن ہوگا، اب سوچ لیجئے، اور اگر مبارک مقاصد کی خاطر ان آیات کی روشنی میں محکومیت اور قید و بند زندگی کو اختیار کرنا عیب نہیں، بلکہ نیک عمل ہے، تو پھر ایک مبارک مقصد کی خاطر غلامی کی زندگی کی خواہش کرنا کون سا عیب ہے، کہ اس پر اعتراض کیا جائے۔
برق صاحب جب آپ گھڑی ہوئی احادیث نقل کر رہے تھے، تو ہم بھی آپ کے ساتھ تھے لیکن اب تو آپ صحیح احادیث نقل کر رہے ہیں اور صرف اس وجہ سے آپ ان پر اعتراض کررہے ہیں کہ ان کا منشاء نہیں سمجھے اور منشاء اور مطلب صرف اس لیے نہیں سمجھ سکے، کہ آپ نے قرآن کو غور سے نہیں پڑھا، کوئی صحیح حدیث کسی قرآنی آیت کے خلاف نہیں، ہاں غلط فہمی کی تو بات ہی دوسری ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلامی کا انسداد
غلامی کے انسداد کے متعلق کچھ لکھنا اگرچہ میرے موضوع سے خارج ہے، تاہم بعض لوگوں کے شبہ کے ازالہ کی خاطر اس مسئلہ کو بھی واضح کر رہا ہوں، اسلام کسی آزاد کو زبردستی غلام بنانے کی اجازت نہیں دیتا، نہ کسی آزاد کو پکڑ کر غلام کی حیثیت سے بیچنے کی اجازت دیتا ہے، حدیث میں اس کی سخت ممانعت ہے، لہٰذا کسی آزاد کو غلام بنانا یا اس کو بیچنا تو مسلمان کے لیے قطعاً حرام ہے، اور نہ کوئی اسلامی حکومت اس بات کی اجازت دے سکتی ہے کہ اس کے ملک میں آزاد لوگوں کو پکڑ کر اغوا کیا جائے اور پھر ان کو غلام بنایا جائے اور بیچا جائے لہٰذا یہ جو مسائل قرآن و حدیث میں غلاموں کے متعلق بالتفصیل پائے جاتے ہیں، ان لوگوں کے متعلق ہیں جو پہلے سے غلام چلے آرہے ہوں یا اسلام کے جنگی قوانین کے ماتحت غلام بنائے جائیں، اس رسم کا کلی انسداد اس لیے نہیں کیا گیا کہ:
(۱) دارالحرب میں اس پر پابندی لگانا اسلامی حکومت کے اختیار میں نہیں، وہاں اگر آزاد کو پکڑ کر غلام بنالیا جائے، اور پھر اتفاقاً اس غلام کو اسلامی حکومت میں لا کر بیچا جائے ، تو اب اس پر پابندی لگانا اسلامی حکومت کے اختیار میں ہے، حکومت چاہے، تو غلاموں کی درآمد بند کردے اور چاہے تو درآمد کی اجازت دے دے، لیکن اجازت دے دینا زیادہ مناسب ہے، اور اس کے بہت وجوہ ہیں۔
اول: اگر وہ اسلامی حکومت میں نہ بیچ سکیں گے، تو پھر کسی کافر حکومت میں بیچیں گے اور لازماً وہ ایسا کریں گے، اس لیے کہ ان کا تو پیشہ یہی ہے، لہٰذا ایک فرد جو ایک اسلامی معاشرہ میں رہ کر اسلامی معاشرہ کا ایک فرد بننے والا تھا، مسلمان اس سے محروم ہوگئے، اسلامی ممالک میں ان کا خرید لینا ہی مناسب ہے، تاکہ مسلمانوں کی تعداد بڑھتی رہے، ایک کافر جو اگر اسلامی حکومت میں نہ خریدا جاتا تو کافر ہی مرتا، اور ابدی عذاب میں گرفتار ہوتا، اس ابدی عذاب سے ان کو نجات دلانا انسانی (اسلامی فریضہ ہے پھر تبلیغ اسلام بھی اسلامی حکومت کے فرائض میں سے ہے، اگر اس تبلیغ کا ایک ذریعہ یہ بھی ہو کہ کوئی شخص اسلامی قانون کی رو سے وہ بہت جلد آزاد بھی ہو جائے، تو یہ کیا برا ہے۔ ایسے غلام کو خرید لینا ہی بڑے دور رس نتائج و مصالح کا حامل ہے اور یہ اس مسئلہ کا دینی پہلو ہے۔
دوم: یہ لوگ ان غلاموں کے ساتھ انتہائی بے رحمی کا سلوک کرتے ہیں، لونڈیوں کو بیچتے ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ہر قسم کی نازیبا حرکات کا ارتکاب کرتے ہیں اور کراتے ہیں۔ ایک ہی لونڈی مختلف مقامات اور مختلف لوگوں کے ہاتھ بیچی جاتی ہے، اور پھر وہ کہیں سے کہیں جا پہنچتی ہے، ہر جگہ، ہر خریدنے والا، اس کی عصمت کو خراب کرتا ہے، اگر کوئی مسلمان ایسی لونڈی یا کسی مظلوم غلام کو خرید لے تو اس کے ساتھ یہ احسان ہوگا، وہ ظلم و استبداد کے پنجہ سے نجات پائے گا اور اس کو مومن کی غلامی کے زیر سایہ راحت و سکون اور پاکدامنی کی زندگی میسر ہوگی، وہ بالکل اسی طرح رہے گا، کھائے گا اور پئے گا، جس طرح آقا اور آقا کی اولاد رہتے ہیں، کھاتے ہیں، اور پیتے ہیں، ایسے غلام یا لونڈی کو خرید لینا انسانیت پر احسان عظیم ہے، یہ ہے اس کا اخلاقی پہلو۔
سوم: دوسرے نکاح پر قرآن بھی پابندی لگاتا ہے اور برادری کا رسم و رواج بھی کوئی شخص بہ مشکل ہی پہلی بیوی کی موجودگی میں اپنی بیٹی کو زوجیت میں دینا گوارا کرے گا، اس طرح یہ ہوگا کہ مسلمان صرف ایک ہی بیوی کرسکیں گے، لونڈی کے سلسلہ میں یہ پابندی نہیں، لہٰذا باآسانی لونڈی کو اپنی زوجیت میں لیا جا سکتا ہے، اس طرح تکثیر آبادی کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے ، اگر مسلمان اس تکثیر آبادی کے مسئلہ کو اہمیت دیتے اور بیک وقت کئی نکاح کرتے رہتے، تو آج ہندوستان میں ان کی کثریت ہوتی اور وہ کسی علاقہ سے نکالے نہ جاتے، یہ ہے، اس مسئلہ کا سیاسی پہلو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(۲) جہاد قیامت تک کے لیے فرض ہے۔ لہٰذا میدان جنگ میں قیدیوں کا مسلمانوں کے قبضہ میں آنا ہمیشہ جاری رہے گا، اور کیونکہ یہ چیز بند ہونے والی نہیں، لہٰذا غلامی کا کلی انسداد بھی نامناسب ہے۔ یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ قیدیوں کو آزاد کردیا جائے، انہیں غلام بنایا ہی نہ جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ کام اللہ تعالیٰ کے کرنے کا ہے، نہ کہ ہمارے کرنے کا ہم تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہیں، اب رہی یہ بات کہ آخر اس میں اللہ تعالیٰ کی کیا مصلحت ہے، تو اپنی مصلحت کو وہ خود ہی خوب جانتا ہے، ہماری سمجھ میں صرف ایک بات آتی ہے کہ اس طرح غلام و لونڈی کی حیثیت سے کافروں کو اپنے پاس رکھتا تبلیغ اسلام کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کی صحبت میں رہنے والے غلام الا ماشاء اللہ سب کے سب مسلمان ہوگئے اور مسلمان آقاؤں کے اخلاق کریمانہ سے اتنے متاثر ہوئے کہ آزاد ہونے کے بعد بھی آقا کی خدمت سے علیحدہ ہونا پسند نہیں کیا ، ان ہی کی صحبت میں رہے، علم دین حاصل کیا، انہی میں سے اکثر وہ لوگ ہیں جو علم و فضل میں آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے اور دین کے سچے خدمت گار ثابت ہوئے، غلام بن کر آئے تھے اور مسلمانوں کے امام بن کر دنیا سے گئے۔
یہی وجوہ ہیں، جن کی بنا پر غلامی کا کلی انسداد نہیں کیا گیا، کچھ عرصہ ہوا کہ غلامی کے سلسلہ میں ایک صاحب سے میری گفتگو ہوئی، کافی بحث ہوئی، لیکن وہ اس مسئلہ کو اسلام کے لیے باعث ننگ ہی سمجھتے رہے، اس گفتگو کے چند ہی روز بعد مسلمانوں کی ایک مملکت کے خاص دارالحکومت میں ایک شخص اپنی سالی کو اغوا کرکے لایا، اور اس کے ساتھ ناروا حرکات کا مرتکب ہوتا رہا، اس کو چکلے میں بٹھانے پر مجبور کرتا رہا، پھر کچھ دن کے بعد ایک بڑے افسر کے ہاں ملازم رکھ کر چلا گیا، اس عورت نے کچھ سکون کا سانس لیا، مہینہ بھر بعد پھر آیا، اس کو زبردستی تانگہ میں سوار کیا، وہ روتی رہی ، چلاتی رہی لیکن وہ دن دہاڑے افسروں کی بستی میں سے اسے کشاں کشاں لے گیا، اور وہ سب دیکھتے رہے۔ اور حالات سے واقف ہوتے ہوئے بھی اس عورت کی امداد نہ کرسکے، بالآخر ایک صاحب نے اسے خرید لیا اور اس طرح اس کی جان بچی۔
اب بتائیے، یہ عورت ظلم ناروا، اور بد افعالی کی لعنتوں سے بچ کر اگر ایک شخص کے رحم و کرم کے زیر سایہ، اسلامی قانون کے عطا کردہ اختیار و جواز سے اس کی ماتحتی میں رہے، تو یہ اس کے لیے بہتر ہے، یا اس ظالم کے ماتحت چکلے میں بیٹھنا اس کے لیے بہتر ہی؟ اس واقعہ کے بعد پھر ان صاحب سے گفتگو ہوئی، اب وہ اس مسئلہ کی اہمیت کے قائل ہوگئے اور کہنے لگے کہ بے شک ایسے حالات میں لونڈی یا غلام کا خرید لینا بہت زیادہ ضروری ہے، اور اس لونڈی یا غلام کے لیے یہ غلامی بھی بہت بڑی نعمت ہے، اگر ایسے ممالک میں ایسے حالات میں لونڈی، غلام کو نہ خریدا جائے تو یہ انسانیت پر ظلم ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غلاموں کی رہائی کے لیے اسلام نے کیا کیا
مسلمانوں کو یہ تو اجازت دی گئی ہے کہ وہ غلام خرید لیں، یا میدان جنگ کے قیدیوں کو غلام بنا لیں، لیکن پھر اسلام نے ساتھ ہی ساتھ ان کی آزادی کے ذرائع بھی فراہم کردئیے بلکہ بعض حالات میں ان کی آزادی کو فرض قرار دیا، اب اگر کسی مسلمان کے قبضہ میں کوئی غلام آجاتا ہے، تو اس کے لیے دو ہی صورتیں ہوتی ہیں۔
اول: یا تو اسے آزاد کردے، اور قرآن و حدیث میں اس کی بڑی ترغیب ہے، مسلمان اس ترغیب سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اور سینکڑوں غلام آزاد ہوتے رہے ہیں۔
دوم: اسے غلام بنا کر رکھے ایسے غلام کو آزادی کی منزل تک پہنچانے کے لیے بھی اسلام نے بہت سی سہولتیں مہیا کی ہیں، مثلاً:
ظہار، قسم، قتل خطا وغیرہ کے کفارہ میں غلام آزاد کیا جائے۔
غلام کو طمانچہ مارے تو اسے آزاد کردے
لونڈی سے بچہ پیدا ہو جائے تو آقا کی وفات کے بعد وہ آزاد ہے، آقا کی زندگی میں بھی اس کو بیچنا منع ہے۔
سورج گہن یا چاند گہن کے موقع پر غلام کو آزاد کیا جائے۔
پھر مدبر اور مکاتب کرنے کی تدابیر بتائی گئیں۔
غرض کہ ان کی آزادی کے لیے کئی ذرائع مہیا کردئیے اور اگر وہ آزاد نہ بھی ہوں تو ان کے ساتھ نیک سلوک کی وصیتیں فرمائی گئیں۔ مثلاً:
جو آقا پہنے وہی اسے پہنایا جائے، جو آقا کھائے وہی وہ کھائے اور آقا کے ساتھ بیٹھ کر کھائے، اولاد کی طرح عزیز ہو، اس کو بھائی سمجھا جائے، اس کو مارا نہ جائے، اس کو ہلکا کام دیا جائے، اگر مشکل کام دیا جائے، تو آقا اس کے ساتھ کام کرکے اس کی مدد کرے، وہ صالح ہو تو اس کا نکاح کردیا جائے وہ گناہ کر بیٹھے تو سزا آدھی ملے، نیکی کرے، تو دوہرا اجر پائے، دنیا کی فکر سے آزاد ہو۔
یہ ہے مومن کے غلام کی زندگی کیوں نہ اس پر آزادی نثار ہو۔ اور کیوں نہ کسی راوی کے دل میں یہ خواہش گزرے کہ میں غلام ہوتا ، تو کیا اچھا ہوتا، مسلمان جب غلام کو خریدتا ہے، تو صرف ظلم ہی سے اس کو نجات نہیں دیتا، بلکہ اس کو یہ زندگی عطا کرکے اس کے لیے جنت کا سماں پیش کرتا ہے، کیا مسلمانوں کو روک دیا جائے کہ وہ مظلوموں کو ایسی زندگی عطا کرنے سے باز رہیں، اگر ایسا کیا جاتا، تو یہ انسانیت پر ظلم کے مترادف تھا، اور بے رحمی کا انتہائی خوفناک مظاہرہ، اسی وجہ سے اسلام نے غلامی کو کلیۃً مسدود نہ کرکے عاقبت اندیش ہیں وہ لوگ جو غلامی کو ظاہری نگاہ سے دیکھتے ہیں، نہ اس کے دینی پہلو پر غور کرتے ہیں نہ اخلاقی ، انسانی پہلو پر اور اسلام پر اعتراض کرنے لگتے ہیں، کاش اعتراض سے پہلے وہ ہر مسئلہ پر کافی غور و خوض کرلیتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
نوٹ
صفحہ نمبر ۲۹۲ پر برق صاحب نے ایک حدیث کے متن کا کچھ حصہ چھوڑ دیا ہے، اور نیچے حاشیہ پر لکھا ہے کہ '' یہ لفظ نہ پڑھ سکا'' اس سے معلوم ہوتا ہے کہ برق صاحب نے حدیث کا گہرا مطالعہ نہیں کیا، ورنہ انہیں معلوم ہوتا کہ یہ لفظ کیا ہے، جوان سے پڑھا نہیں گیا، پھر اگر صحیح بخاری میں پڑھا نہ جا سکا تھا، تو کیا حدیث کی کسی کتاب میں پڑھا نہ گیا، مگر معلوم ہوتا ہے کہ برق صاحب باوجود ڈاکٹر ہونے کے تحقیقات سے روگردانی کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ غلط فہمیاں ہو جاتی ہیں، اللہ انہیں ہدایت دے اور معاف فرمائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
باب ۱۷
'' تقدیر''

غلط فہمی
اس مضمون پر قرآن میں بیسیوں آیات موجود ہیں، اور نوع انسانی کی ہزارہا سالہ تاریخ پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ یہ دنیا دارالمکافات ہے، جہاں صرف اپنی محنت کام آتی ہے، اور بے عمل بدعمل، کامل اور سہل انگار افراد و اقوام کا انجام ذلت و رسوائی کے بغیر اور کچھ بھی نہیں (دو اسلام ص ۳۰۱) ... یہ تھا تقدیر کا قرآنی تخیل، اب ذرا '' حدیثی تخیل'' ملاحظہ ہو۔
حضور فرماتے ہیں کہ نطفہ رحم میں پہنچ کر چالیس دن کے بعد منجمد سا خون بنتا ہے پھر وہ لوتھڑے کی شکل اختیار کرلیتا ہے، اس کے بعد اللہ ایک فرشتے کو بھیجتا ہے کہ جاؤ اور لوتھڑے کے اعمال زندگی، رزق، موت اور سعادت و شقاوت کا فیصلہ ابھی لکھ لو، اور اس کے بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے...
اس حدیث تراش نے یہ نہ بتایا کہ جب ایک شخص کے اعمال، رزق اور سعادت کا فیصلہ اس کی پیدائش سے پہلے ہی ہو جاتا ہے، تو پھر اللہ نے انسانی ہدایت کے لیے اتنے پیغمبر کیوں بھیجے۔ (دو اسلام ص ۳۰۲)
ازالہ
برق صاحب یہ بتائیے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بچہ کو پیدا کرتا ہے، تو اسے علم ہوتا ہے کہ بچہ دنیا میں کیا کرے گا یا علم نہیں ہوتا، اگر علم نہیں ہوتا، تو پھر اللہ عالم الغیب نہیں ایسا اسلامی اللہ تو ہو نہیں سکتا، یہ تو ایک عیب ہے، اور اللہ تعالیٰ اس عیب سے پاک ہے، اگر یہ کہا جائے کہ اللہ کو علم ہوتا ہے، تو پھر یہ بتائیے کہ یہ علم ہونا، اس انسان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ دنیا میں اس کے علم کے مطابق کام کرے، اگر مجبور کرتا ہے تو لکھ لینے کا پھر کیا قصور رہا ، اور اگر تم مجبور نہیں کرتا، تو پھر اس کا قبل از وقت لکھ لینا بھی مجبور نہیں کرتا، لہٰذا حدیث اعتراض سے بالکل پاک و صاف ہے۔
اب اس حدیث کی تائید میں قرآنی آیات سنیے، بعد میں بتاؤں گا کہ اصل معاملہ کیا ہے:
{ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّ رَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُھَا وَ لَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ } (الانعام)
اللہ جانتا ہے، جو کچھ خشکی میں ہے اور جو کچھ سمندر میں ہے اور جو پتہ گرتا ہے، اس کا بھی اس کو علم ہے، زمین کے اندھیروں میں جو دانہ پڑا ہوا ہے، وہ بھی اسے معلوم ہے اور کوئی خشک و تر چیز ایسی نہیں جس کا حال لوح محفوظ میں نہ ہو۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کے علم میں ہر چیز ہے، لہٰذا اس کو یہ بھی علم ہوگا کہ بندہ اپنی زندگی میں کیا کرنے والا ہے، اسی علم کی بناء پر اس نے سب کچھ لکھ لیا ہے، اب اگر لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہونے پر اعتراض نہیں، تو بوقت پیدائش قسمت میں لکھا جانے پر کیا اعتراض ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
{ وَ اِنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اِلَّا نَحْنُ مُھْلِکُوْھَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ اَوْ مُعَذِّبُوْھَا عَذَابًا شَدِیْدًا کَانَ ذٰلِکَ فِی الْکِتٰبِ مَسْطُوْرًا } (بنی اسرائیل)
کوئی بستی ایسی نہیں ہے، جس کو ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کریں یا عذاب شدید میں مبتلا نہ کریں اور یہ سب کچھ لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔
{ مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِیْ الْاَرْضِ وَلَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیْرٌ } (الحدید)
جو مصیبت دنیا میں آتی ہے یا تمہاری جانوں میں آتی ہے، وہ اس کے پیدا کرنے سے پہلے کتاب میں لکھی ہوتی ہے اور بے شک یہ چیز اللہ کے لیے آسان ہے۔
بتائیے جو مصیبت پہلے سے لکھی ہوئی ے، وہ تو آکر رہے گی، اس کوٹالنے کی کوشش ... ہے، اگر وہ ٹل جائے تو اللہ کا علم ناقص ہو جائے گا اور یہ ناممکن ہے۔
{ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اِنَّ ذٰلِکَ فِیْ کِتٰب } (الحج)
کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ کو علم ہے، ہر اس چیز کا جو آسمان میں ہے اور جو زمین میں ہے اور سب کتاب میں مسطور ہے۔
{ وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللہِ رِزْقُھَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّھَا وَ مُسْتَوْدَعَھَا کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ } (ھود)
زمین میں رہنے والے ہر جاندار کا رزق اللہ کے ذمہ ہے، وہ جانتا ہے کہ کہاں اس کا مستقر ہے اور کہاں اس کی آخری آرام گاہ ہے، یہ سب کچھ روشن کتاب میں لکھا ہوا ہے۔
اب اگر رزق بھی لکھا ہوا ہے، تو پھر اس کی زیادتی کے لیے جدوجہد کیا معنیٰ!!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
{ وَ اِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآئِنُہٗ وَ مَا نُنَزِّلُہٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ } (الحجر)
اور ہر چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم مقررہ مقدار ہی میں اسے نازل کرتے ہیں۔
اگر مقدار مقرر ہے، تو پھر اس کی زیادتی کے لیے جدوجہد بے کار ہے۔
{ وَ لَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیْعٰدِ وَ لٰکِنْ لِّیَقْضِیَ اللہُ اَمْرًا کَانَ مَفْعُوْلًا } (الانفال)
اور اگر تم وعدہ کرتے تو وعدہ میں اختلاف ہوتا (اور پھر یہ کام نہ ہوتا) لیکن اللہ کو وہ کام کرنا تھا ، جس کا وہ فیصلہ کرچکا تھا۔
ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے تحریر کردہ فیصلہ کو بروئے کار لانے کے لیے ایسے حالات پیدا کردئیے، کہ مسلمانوں اور کافروں کے مابین لڑائی ہو کر رہی، یہ تحریر کردہ فیصلہ اور اس کے لیے حالات کو سازگار بنانا، تقدیر ہی تو ہے، اور یہی حدیث میں ہے۔
{ لَوْ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ } (الانفال)
اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے سے یہ نہ لکھا ہوتا تو جو فدیہ تم نے لیا، اس پر عذاب عظیم نازل ہوتا۔
سوال یہ ہے کہ وہ کیا چیز تھی، جو لکھی ہوئی تھی ، اگر یہ لکھا ہوا تھا کہ ہم معاف کردیں گے تو گویا یہ معانی ان کی تقدیر میں لکھی ہوئی تھی، اور اگر فدیہ لینا قسمت میں لکھا ہوا تھا، جس کی وجہ سے مسلمان فدیہ لینے پر مجبور تھے، تو عذاب بھیجنا نامناسب تھا اور اسی وجہ سے ٹال دیا گیا، دونوں حالتوں میں تقدیر کے لکھنے جانے کا ثبوت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
{ وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ وَ لِنُعَلِّمَہٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ وَ اللہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ } (یوسف)
اس طرح ہم نے یوسف علیہ السلام کو ملک میں ٹھکانا دیا، اور یہ اس لیے کہ ہمیں اس کو احادیث کا علم دینا تھا، اور اللہ تعالیٰ اپنے کام پر غالب ہے۔
یعنی بھائیوں نے تو یوسف علیہ السلام کی ذلت کے لیے کیا کیا تدبیریں کیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ کرلیا تھا کہ ایسا کرنا ہے وہ کرکے رہا، اور ان کی تمام تدابیر بے کار ثابت ہوئیں، انہیں غم ملنا تھا وہ مل کر رہا، انہیں نبوت ملنی تھی، وہ مل کر رہی، انہیں حکومت و عزت ملنی تھی، وہ مل کر رہی، تقدیر کا کتنا واضح ثبوت ہے اور تدبیر کی ناکامی کا کتنا زبردست مظاہرہ۔
{ قُلْ لَنْ یُصِیْبَنَا اِلاَّ مَا کَتَبَ اللہُ لَنَا } (التوبۃ)
اے رسول کہہ دیجئے کہ ہم کو کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی، مگر جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے۔
اس آیت میں تقدیر کا کتنا کھلا ثبوت ہے، اور حدیث مذکور کی کتنی زبردست تائید ہے، '' تلک عشرۃ کاملۃ'' اس قسم کی بہت سی آیات ہیں، جن سے تقدیر کا ثبوت ملتا ہے، معلوم نہیں برق صاحب نے ان آیات کا مطالعہ کیوں نہیں فرمایا۔
 
Top