• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
خلاصہ
آیات بالا کا خلاصہ یہ ہوا کہ مومن غلام بھی ہوسکتا ہے، قیدی بھی ہوسکتا ہے اور محکوم بھی مومن غلام اور مومن قیدی کے متعلق ان آیات کی روشنی میں مندرجہ ذیل احکام مستنبط ہوتے ہیں:
(۱) مومن اگر غلام ہو جائے، تو صالح زندگی گزارے، آقا کا وفادار ہے، خیانت نہ کرے، اللہ تعالیٰ کا بندہ بن کر رہے۔
(۲) مومن اگر کافروں کے ہاں قید ہو جائے تو ایسے مقام میں بھی تبلیغ کرتا رہے۔
(۳) مومن اگر محکوم ہو جائے تو امانت داری سے اپنے حاکم کے کام کی نگرانی کرے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ایک شبہ اور اس کا ازالہ
یہاں یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ ممکن ہے کہ عزیز مصر مسلمان ہو، تو اس کا جواب یہ ہے کہ محض امکان سے کوئی بات ثابت نہیں ہوتی، اگر وہ مومن تھا، تو ظاہر ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام پر ہی ایمان لایا ہوگا، اگر یہ صورت ہے تو ناممکن ہے کہ اپنے پیغمبر کو غلام رکھے یا قیدی اور اگر وہ کسی دوسرے پیغمبر پر ایمان رکھتا تھا، اور ان کی پیغمبری سے انکار تھا، تو بھی وہ کافر ہوا، اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت تک یوسف علیہ السلام نبی نہیں ہوئے تھے، تو پھر یہ بتائیے کہ وہ کب نبی بنائے گئے، قرآن سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ جوان ہوتے ہی حکم اور علم دے دئیے گئے تھے اور یہ نبوت کے خصائص میں سے ہے، خصوصاً ''حکم'' تو صرف نبوت ہی کا خاصہ ہے، نہ کہ مومن کا، قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ دونوں الفاظ صرف انبیاء کے متعلق استعمال ہوئے ہیں، الغرض نبوت کے بعد ہی اس عورت کے عشق اور قید و بند کی کہانی شروع ہوتی ہے، پھر تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ عزیز مصر بت پرست تھا، اس کے مکان کے ایک طاق میں بت رکھے رہتے تھے، جب اس کی بیوی نے حضرت یوسف علیہ السلام کو زنا کے لیے بلایا تھا، تو اپنے بتوں پر پردہ لٹکا دیا تھا، لہٰذا یہ شبہ کہ عزیز مصر مسلمان تھا لغو ہے، پھر قرآن مجید سے بھی اس کا کافر ہونا ثابت ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ اِنِّیْ تَرَکْتُ مِلَّۃَ قَوْمٍ لاَّ یُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ کٰفِرُوْنَ ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّۃَ اٰبَآءِ یْٓ اِبْرٰھِیْمَ وَاِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ } (یوسف)
یوسف علیہ السلام نے فرمایا، میں نے اس قوم کے مذہب کو چھوڑ رکھا ہے، اس لیے کہ یہ نہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں نہ آخرت پر، میں تو اپنے آباؤ اجداد ابراہیم، اسحاق، یعقوب کی ملت کی پیروی کرتا ہوں۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ پوری قوم کافر تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
دوسرا شبہ اور اس کا ازالہ
دوسرا شبہ یہ ہوسکتا ہے کہ شاہ مصر مسلمان ہو، تو یہ بھی ثابت نہیں ہوتا، بلکہ اس کے خلاف ثابت ہوتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{ مَاکَانَ لِیَاخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ } (یوسف)
یوسف علیہ السلام اپنے بھائی کو اس بادشاہ کے دین کے مطابق قید نہیں کرسکتے تھے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بادشاہ کا قانون چل رہا تھا، ورنہ یہ کہا جاتا کہ یوسف علیہ السلام کو جو شریعت دی گئی تھی، اس کے مطابق وہ اپنے بھائی کو قید نہیں کرسکتے تھے، پھر وہ قانون بادشاہ کی طرف منسوب نہ ہوتا، بلکہ اللہ کی طرف منسوب ہوتا، دوسرے یہ کہ اس صورت میں یوسف علیہ السلام اپنی منزل من اللہ شریعت کی خلاف ورزی بھی نہیں کرسکتے تھے۔
اوپر قرآنی آیت سے یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ پوری قوم کافر تھی، لہٰذا بادشاہ بھی کافر تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قرآن مجید سے مومنین کے قیدی ہونے کا دوسرا ثبوت
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ اَلَمْ تَرَ اِلَی الْمَلَاِ مِنْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ مِنْ بَعْدِ مُوْسٰی اِذْ قَالُوْا لِنَبِیٍّ لَّھُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ قَالَ ھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا قَالُوْا وَ مَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَ قَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَ اَبْنَآ ئِنَا } (البقرۃ)
کیا آپ نے بنی اسرائیل کی اس جماعت کی طرف نہیں دیکھا، جس نے موسیٰ علیہ السلام کے بعد اپنے نبی سے کہا کہ ہم پر ایک سپہ سالار مقرر کردیجئے کہ ہم اللہ کے راہ میں جہاد کریں، نبی نے فرمایا جہاد فرض کردینے کے بعد، ڈر ہے کہ تم جہاد نہ کرو، کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اللہ کے راستہ میں نہ لڑیں، حالانکہ ہم اپنے وطن سے نکالے گئے اور ہماری اولاد ہم سے چھین لی گئی۔
یہ مؤمنین کی اولاد جو کفار کے قبضہ میں رہ گئی تھی، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ وہاں جہانبائی کرتی تھی یا جہانداری، اگر مغلوب و مقہور تھے، تو اسلام پر عمل کرتے تھے یا نہیں ان کے متعلق قرآن کیا ہدایت دیتا ہے، اگر کوئی ہدایت نہیں دیتا، تو پھر بتائیے کہ قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات ہے یا نہیں؟ اب بھی اگر کچھ شبہ رہ گیا ہو، تو اور سنیے:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تیسرا ثبوت
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَّ دِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓی اَھْلِہٖٓ اِلَّا اَنْ یَّصَّدَّقُوْا فَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّلَّکُمْ وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَ اِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَھُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیْۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓی اَھْلِہٖ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ } (النساء)
جو شخص کسی مومن کوغلطی سے قتل کردے تو اس کو ایک مومن غلام آزاد کرنا چاہیے اور اس کے ورثاء کو پورا فدیہ دینا چاہیے، ہاں اگر وہ معاف کردیں تو خیر، پھر اگر مقتول دشمن قوم سے ہو، لیکن مومن ہو، تو بھی ایک مومن غلام آزاد کرنا چاہیے اور اگر مقتول کسی معاہد قوم سے ہو، تو بھی ایک مومن غلام آزاد کرنا ہوگا، اور پورا فدیہ ادا کرنا ہوگا۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ:
(۱) مومن غلام بھی ہوسکتا ہے۔
(۲) مومن، دشمن و کافر قوم کا فرد بھی ہوسکتا ہے۔
(۳) مومن کسی معاہد کافر قوم کا فرد بھی ہوسکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ دشمن قوم کافرد تو وہی ہوگا جو دارالحرب میں رہتا ہو، جہاں اسلامی حکومت نہ ہو، بلکہ وہاں کی حکومت، اسلامی حکومت سے برسر پیکار رہتی ہو، تو اب بتائیے، وہ مومن جو دار الحرب میں کافروں کی حکومت کے ماتحت رہتا ہے، مومن ہے یا نہیں، اگر ہے تو کیا وہ وہاں جہانبانی کر رہا ہے، یا محکوم بن کر غلامی کے دن گزار رہا ہے، اگر محکوم بن کر غلامی میں اپنی زندگی گزار رہا ہے، تو پھر یہ کہنا کہ مومن کبھی محکوم ہو ہی نہیں سکتا، نہ مومن کو قرآن محکومیت سکھاتا ہے، بلکہ جہانبانی ہی جہانبانی سکھاتا ہے، کتنی بڑی غلط فہمی ہے، یہ چیز خوشنما تو ضرور ہے، لیکن اس کا وجود ہمیشہ ممکن نہیں، کیا مسلمان ہمیشہ حاکم ہی ہوتا ہے، محکوم ہو ہی نہیں سکتا؟ اس آیت کی روشنی میں اور سورۂ یوسف وغیرہ کی روشنی میں یہ عقیدہ ہی سرے سے باطل ہے، جو چیز آپ کو حدیث میں نظر آئی وہی قرآن میں بھی موجود ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ کیونکہ کسی حدیث میں کسی مومن کے کافر کا محکوم یا غلام ہونے کا ذکر نہیں ہے، برخلاف اس کے قرآن میں مومن کے کافر کا غلام اور محکوم ہونے کی صراحت ملتی ہے۔ اگر حدیث قابل اعتراض ہے تو قرآن کا بھی مطالعہ فرمائیے، تاکہ حدیث پر سے اعتراض خود بخود رفع ہو جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
چوتھا ثبوت
اس سلسلہ کی ایک اور آیت ملاحظہ فرمائیے:
{ اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللہِ وَاسِعَۃً فَتُھَاجِرُوْا فِیْھَا فَاُولٰٓئِکَ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَسَآءَتْ مَصِیْرًا۔ اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْدَانِ لَایَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَۃً وَّ لَا یَھْتَدُوْنَ سَبِیْلًا۔ فَاُولٰٓئِکَ عَسَی اللہُ اَنْ یَّعْفُوَ عَنْھُمْ وَکَانَ اللہُ عَفُوًّا غَفُوْرًا } (النساء)
جب فرشتے گنہگاروں کی روح قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں تم کس حالت میں تھے، وہ کہتے ہیں ہم ملک میں کمزور تھے، فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرکے چلے جاتے، پس ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے، مگر ایسے کمزور مرد، عورتیں، بچے، جو کسی تدبیر پر قادر نہ ہوں، نہ ہجرت کی ان کے لیے کوئی سبیل ہو، تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ معاف کردے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور مغفرت کرنے والا ہے۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان مغلوب ہوسکتا ہے اور ایسی حالت میں محکوم و مقہور بن کر رہ سکتا ہے، برق صاحب ایک بات پوچھتا ہوں، وہ یہ کہ اس آیت پر آج کل کیسے عمل ہوسکتا ہے وہ کون سی جگہ ہے، جہاں ہجرت کرکے جائیں اور پوری شریعت پر عمل کرسکیں، اور مزید براں جہانبانی کے فرائض بھی انجام دے سکیں۔
دوسری بات یہ پوچھتا ہوں کہ لارڈ ہیڈلے نے مسلمان ہو کر کس ملک کی حکمرانی کی؟ کہاں جہانبانی کی اور اگر وہ مسلمان ہو کر بھی کافر حکومت کے محکوم بن کر رہے ، تو پھر مسلمان ہونے سے فائدہ کیا ہوا؟ مسلمان تو محکوم ہونا ہی نہیں؟ اب یا تو وہ کافر ہی رہے، ان کا ایمان قبول کرنا عبث رہا، اور یایہ کہا جائے کہ ایک مسلمان محکوم بھی ہوسکتا ہے؟ کاش لارڈ ہیڈلے اس کا جواب دیتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
آج سے تیرہ سو برس پہلے شہنشاہ ہان روما بھی اس قسم کے وسائل سے کام لیتے تھے، انہوں نے بے شمار علماء خرید رکھے تھے، جن کا کام احادیث تراشی تھا۔ (دو اسلام ص ۲۹۸)
ازالہ
یہ بات بالکل بے بنیاد ہے، برق صاحب نے اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا، اور اگر صحیح بھی ہو، تو محدثین نے کسی احادیث تراش کو نہیں چھوڑا۔ ہر ایک کی نشاندہی کردی ہے، براہِ کرم فنون حدیث کا گہرا مطالعہ کیجئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
للعبد الصالح ...ایک نیک غلام دگنے کا اجر کا مستحق ہے، اللہ کی قسم اگر جہاد و حج مانع نہ ہوتے، تو میں موت تک غلام رہنا پسند کرتا۔
تو گویا یہ حدیث کہہ رہی ہے کہ بہترین زندگی دوسروں کی غلامی ہے، یعنی ان کے پنکھے کھینچنا اور نکڑیاں کاٹنا ... بوٹ صاف کرنا ... لعنت ایسی زندگی پر۔ (دو اسلام ص ۲۹۸۔ ۲۹۹)
ازالہ
اس حدیث کو سمجھنے میں برق صاحب کو دو مغالطہ ہوئے پہلا مغالطہ تو یہ کہ جو الفاظ راوی حدیث کے تھے، اس کو حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنا دیا، دوسرا مغالطہ یہ کہ راوی کا جو منشاء تھا، اسے صحیح طور پر سمجھ نہ سکے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
پہلا مغالطہ
یہ قول کہ '' اللہ کی قسم اگر جہاد و حج مانع نہ ہوتے، تو میں موت تک غلام رہنا پسند کرتا'' حدیث نہیں ہے بلکہ راوی کا قول ہے، صحیح مسلم میں راوی کا قول ہونے کی صراحت موجود ہے، کاش برق صاحب تحقیق کرلیتے تو یہ غلط فہمی نہ ہوتی۔
دوسرا مغالطہ
راوی حدیث نے ایسا کیوں کہا؟ اس سلسلہ میں کچھ احادیث سنیے:
(۱) غلام سے اتنا ہی کام لیا جائے، جتنی وہ طاقت رکھتا ہو۔ (صحیح مسلم)
(۲) تمہارے غلام تمہارے بھائی یں، پس غلام کو وہی کھلاؤ، جو خود کھاؤ، اور وہی پہناؤ، جو خود پہنو، اس کو تکلیف دہ کام کرنے کے لیے نہ کہو، اگر کہو، تو اس کی مدد کرو (صحیح بخاری و صحیح مسلم) گویا اس مشکل کام میں آقا اور غلام دونوں شریک ہوں۔
(۳) جب خادم کھانا لے کر آئے، تو اس کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھلاؤ۔ (صحیح مسلم)
(۴) غلام اگر اپنے مالک کی خیر خواہی کرے اور اللہ کی عبادت اچھی طرح کرے تو اس کو دوہرا ثواب ہے۔ (صحی بخاری و صحیح مسلم)
(۵) جو شخص غلام کو طمانچہ مارے اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کردے۔ (صحیح مسلم) ابو مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے غلام کو مار رہا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ لیا، میں نے کہا یہ اللہ کے لیے آزاد ہے، آپ نے فرمایا، اگر ایسا نہ کرتا، تو دوزخ میں جلتا۔ (صحیح مسلم)
(۶) غلام سے بدسلوکی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ (ترمذی)
(۷) غلام سے خوش اخلاقی سے پیش آنا باعث برکت ہے، اور اس سے بداخلاقی سے پیش آتا نحوست ہے۔ (ابوداؤد)
(۸) ایک شخص نے پوچھا کہ خادم کو کتنی مرتبہ معاف کیا جائے، فرمایا ہر روز ستر مرتبہ (ابوداؤد)
(۹) اگر غلام سے نباہ نہ ہوسکے تو اس کو بیچ دو، یہ نہیں کہ اس کو ستاؤ۔ (ابوداؤد)
(۱۰) غلام سے بدسلوکی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا، ان کو اسی طرح عزیز رکھو، جس طرح اپنی اولاد کو، اگر غلام نماز پڑھے تو پھر وہ تمہارا بھائی ہے۔ (ابن ماجہ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
یہ ہیں غلاموں کے حقوق، مسلمانوں نے ان پر عمل کرکے دکھایا، غلام اپنے مالکون سے اتنی محبت کرنے لگے کہ آزاد کرنے کے باوجود انہوں نے اپنے مالکوں کو نہیں چھوڑا، ان ہی کی خدمت میں رہنا پسند کیا، یہ تو وہ چیز ہے، جس پر مسلمان ناز کرسکتے ہیں، یہ ہے ان کا ضابطہ ، جس ضابطہ کے ماتحت وہ غلاموں کو رکھتے ہیں، کیا کوئی اور ایسی قوم ہے، جو اس ضابطہ احادیث کے موافق اپنا ضابطہ بنا سکے، اور پھر اس پر عمل بھی کرکے دکھاوے، افسوس جو چیز احادیث میں قابل فخر ہے، آپ اسی پر اعتراض کرتے ہیں، غلاموں کا وجود آپ کو اچھا معلوم نہیں ہوتا، بالکل صحیح ٹھیک اسی طرح اسلامی شریعت کو بھی غلاموں کا وجود اچھا معلوم نہیں ہوتا، اور اسی لیے شریعت نے موقع بموقع غلاموں کا آزاد کرنا فرض کردیا، اور دیگر مواقع پر ترغیب دے کر اس کو بہت ہی بڑا نیک عمل بنا دیا، ان کو آزاد کرنے کی فضیلت میں بہ کثرت احادیث موجود ہیں۔
 
Top