• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تقدیر کا فائدہ
تقدیر سے یہ نتیجہ نکالنا کہ ہم مجبور ہیں لہٰذا تدبیر کی ضرورت نہیں، تو یہ تقدیر کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے، نہ تقدیر کے مسئلہ کا یہ صحیح استعمال ہے، ہاں اس کا ایک صحیح استعمال ہے، اور وہ خود اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِیْ الْاَرْضِ وَلَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیْرٌ ۔ لِکَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰکُمْ وَاللہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِ } (الحدید)
جو مصیبت دنیا میں آتی ہے یا تمہاری جانوں میں وہ اس کے پیدا کرنے سے پہلے کتاب میں لکھی ہوتی ہے، تاکہ کوئی نقصان ہو جائے تو تمہیں افسوس نہ ہو، اور جو چیز اللہ تمہیں دے اس پر اترا نہ جاؤ، اور اللہ اترانے والے تکبر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔
اس آیت سے تقدیر کا استعمال معلوم ہوگیا اگر نقصان ہو جائے تو یہ نہ ہو کہ بس اسی کے غم میں اپنے آپ کو گھلا دیں، بلکہ یہ کہہ کر تسلی کرلیں کہ نقصان ہوگیا، تو کیا ہوا تقدیر میں ایسا ہی تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے جب نقصان ہو جاتا تھا، تو اپنے گھر والوں کو یہ کہہ کر تسلی دے دیا کرتے تھے کہ ہوگیا ، تو ہوگیا ، تقدیر میں ایسا ہی تھا۔
اور اگر کوئی نعمت مل جائے تو یہ نہ سمجھے کہ میری قابلیت کی بنا پر مجھے ملی ہے، جیسا کہ قارون نے کہا تھا ، اور اس پر وہ اترانے لگے، اللہ کو بھول جائے، بلکہ اس طرح کہے کہ یہ سب کچھ اللہ کا فضل ہے، میں کس قابل ہوں، یوسف علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام نے نعمت الٰہی پانے کے بعد اسی قسم کے الفاظ کہے تھے اور یہ الفاظ قرآن میں موجود ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تقدیر کا اصلی مفہوم
ایک پیشین گوئی کرنے والا پیشین گوئی کرتا ہے اور اس کو چھپوا بھی دیتا ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اسی طرح رونما ہوتا ہے ، جس طرح اس نے پیشین گوئی کی تھی ، لیکن اس واقعہ کے وقوع کے لانے کے سلسلہ میں اس پیشین گوئی کرنے والے کو کوئی دخل نہیں ہوتا، وہ کسی کو مجبور نہیں کرتا، کہ اسی طریقہ سے کرے، جس طرح اس نے اپنی پیشین گوئی میں بیان کیا ہے تحریر کیا ہے، بالکل یہی حال تقدیر کا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی بنا پر جو کچھ ہونے والا تھا وہ سب لکھ لیا ہے، ہوتا سب کچھ اگرچہ اس کے موافق ہے، لیکن کرنے والا اس کام کے کرنے پر مجبور نہیں کیا جاتا، بلکہ جو کچھ وہ کرتا ہے، اپنے اختیار سے کرتا ہے، بات صرف اتنی ہے کہ اس کا وہ فعل پہلے سے اللہ کے علم میں ہوتا ہے، اس سلسلہ میں اللہ کی مدد و توفیق اور ہماری دعائیں بھی کچھ اثر انداز ہوتی ہیں جیسا کہ قرآن و حدیث میں اس کی صراحت ہے، اس سے زیادہ اس مضمون پر کچھ لکھنا اور تقدیر کی گتھی کو سلجھانا اور اس کے پیچھے پڑ جانا، اپنے ایمان کو خطرہ میں ڈالنا ہے، بفحوائے آیت { وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ }اس حکم کے بموجب اس بحث کو ختم کرتا ہوں، برق صاحب یہ پیچیدہ مسائل میں سے ہے اس میں ہاتھ نہ ڈالیے، ہاں مسلمانوں نے جو غلط نتیجہ اس سے نکال رکھا ہے، اس پر جتنا چاہے افسوس کرلیجئے اور بس۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
باب ۱۸
'' متضاد احادیث''

غلط فہمی
دوران تقریر میں (حضور نے) فرمایا، جو تین بچے پیدا کرے گی، اللہ اسے نار جہنم سے بچا لے گا، ایک عورت کہنے لگی، اور دو بچوں والی؟ فرمایا دو والی بھی جنت میں جائے گی۔ (دو اسلام ص ۳۰۵)
ازالہ
برق صاحب حدیث کا صحیح مطلب نہیں سمجھ '' ما منکن امرأۃ تقدم ثلاثۃ من ولدھا''(صحیح بخاری کتاب العلم) اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ '' جس عورت نے تین بچے آگے بھیجے'' (یعنی جس کے تین بچے مر گئے) اس عورت کو جس کے تین بچے مر جائیں، اس مصیبت پر صبر و شکر کرنے کا یہ اجر ملے گا کہ وہ بچے دوزخ سے بچانے کا سبب بن جائیں گے، اگر برق صاحب ذرا آگے دیکھتے تو ان کو اس روایت کے متصل وہ روایت بھی مل جاتی ، جس میں یہ لفظ ہیں ''لم یبلغوا الحنث''یعنی وہ بچے ایسے ہوں کہ بلوغ کو نہ پہنچے ہوں، یعنی معصوم ہوں، کیا ان لفظوں کی موجودگی میں'' تین بچے پیدا کرے گی'' صحیح مطلب ہوسکتا ہے؟ پھر یہی حدیث کتاب الجنائز میں بھی موجود ہے، الفاظ یہ ہیں:
ایما امراۃ مات لھلا ثلاثۃ من الولد۔ (صحیح بخاری)
یعنی جس عورت کے تین بچے مر جائیں۔
پھر اس ہی مضمون کی احادیث حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اس سے پہلے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس روایت کے بعد صحیح بخاری کتاب الجنائز میں موجود ہیں، حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:
ما من الناس من مسلم یتوفی لہ ثلاث لم یبلغوا الحنث (بخاری)
جس کسی مسلمان کے تین نابالغ بچے فوت ہوجائیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
لا یموت لمسلم ثلاث من الولد (بخاری)
اگر کسی مسلمان کے تین بچے مر جائیں۔
الغرض حدیثوں میں '' مر جانے'' کا ذکر ہے، اور برق صاحب نے ترجمہ میں اس کے بجائے ''پیدا کرنا'' لکھ دیا، اور یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، برق صاحب نے بغیر تحقیق اور گہرے مطالعہ کے بعد حدیث کا ترجمہ کیا، اورغلط فہمی سے ترجمہ غلط ہوگیا، کاش وہ پوری کتاب تحقیق کے بعد لکھتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ایک طرف تو عورت کی عظمت کا یہ حقیقت افروز اعتراف اور دوسری طرف اس پرستار محبت کی یہ توہن کہ ... آنحضرت فرماتے ہیں کہ میں نے جہنم کو دیکھا، تو اس میں اکثر آبادی عورتوں کی نظر آئی۔ یعنی ایک طرف تو وہ بچوں والی ماؤں کو جنتی بنایا جا رہا ہے بلکہ ساری جنت ماں کے قدموں میں پھینکی جا رہی ہے اور دوسری طرف اس کے جہنمی ہونے کا بھی ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ (دو اسلام ص۳۰۸)
ازالہ
برق صاحب کا مطلب یہ ہے کہ اولاد کو اگر ماں باپ کی خدمت کے صلہ میں جنت مل سکتی ہے تو وہ ماں ضرور جنتی ہے، واہ! یہ بھی خوب ہے! نیک عمل تو کرے اولاد اور جنت میں جائے ماں! تو گویا ماں کے ذمہ نہ کوئی حساب ہے، نہ کتاب، بس اولاد نے اس کی خدمت کٹی اور وہ جنتی ہوگئی! برق صاحب اولاد کا جنت یا دوزخ میں جانا، ان کے اپنے عمل کے باعث ہے اور عورت کا دوزخ میں جانا ، یا جنت میں داخل ہونا، اس عورت کے اپنے عمل پر منحصر ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر دوزخ میں بہت سی عورتوں کو دیکھا تو اس کو اس مقصد سے عورتوں کے سامنے بیان کردیا کہ وہ احسان فراموشی اور غیبت وغیرہ جرائم سے باز ہیں، یہ ایک قسم کی ترہیب ہے اعتراض کی اس میں کیا بات ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
چوریاں کریں تو مرد، ڈاکے ڈالیں تو مرد ... بوڑھوں اور عورتوں کو نہایت بے رحمی سے قتل کریں تو مرد ... لیکن جہنم میں جائیں تو عورتیں، کیوں؟ کیا اللہ کے عدل و انصاف کا یہی تقاضہ ہے۔ (دو اسلام ص ۳۰۸)
ازالہ
برق صاحب دنیا کی پوری آبادی میں کتنے مرد ہیں، جو اس قسم کے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں، بہ مشکل دس میں سے ایک، اچھا اب بتائیے کہ دنیا کی آبادی میں کتنی عورتیں ایسی ہیں جو شرک و بدعات، احسان فراموشی، غیبت، ترک نماز، بدگمانی وغیرہ سے ملوث ہیں، آبادی کے ہر گھر کی عورتوں میں آپ کو یہ باتیں ملیں گی، بہت کم ایسی عورتیں ہوں گی، جو ان لغویات سے بچی ہوں گی، یہ باتیں اگرچہ مردوں میں بھی ہوتی ہیں، لیکن عورتوں کے مقابلہ میں بہت کم نمازیں پڑھیں، تو روزے رکھیں تو مرد، تبلیغ کریں تو مرد، حق کی خاطر جیل میں جائیں تو مرد، جہاد کریں تو مرد، نبوت سے سرفراز ہوں تو مرد، ولی کامل ہوں تو مرد، عالم دین ہوں تو مرد، پھر کیوں نہ جنت میں مردوں کی کثرت ہو، برق صاحب ان باتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے بتائیے کہ دوزخ میں کس کا تناسب زیادہ ہونا چاہیے، مردوں کا یا عورتوں کا؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
عورت کی نافرمانی کی مزید تشریح اس حدیث میں دیکھئے ...
اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو ہم بستری کے لیے بلائے اور وہ انکار کردے ، اور شوہر ناراض ہو کر لیٹ جائے تو اس عورت پر فرشتے صبح تک لعنت برساتے رہتے ہیں۔
یہ تھا اصلی سبب جس پر مولانا کو اتنی احادیث گھڑنا پڑیں، عورت کے انکار کی کئی معقول وجوہات ہوسکتی ہیں۔ (دو اسلام ص۳۰۹)
ازالہ
برق صاحب کو یہ حدیث اس حدیث کے خلاف معلوم ہوتی ہے، جس میں ہے کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے، یا جس عورت کے دو یا تین بچے فوت ہو جائیں، تو اس کے لیے جنت ہے، بے شک عورت اگر بچوں کے مرنے پر صبر و شکر کرے، تو اس ابتلا کا اجرا سے ملے گا، اور اگر وہ ناشکری کرئے اور اس جرم کا پلڑا بھاری ہو جائے، تو پھر دوزخ نہیں، تو اور کیا ملے گا کیا یہ قرآن کا اٹل قانون نہیں ہے، عورت کا مرد کے بستر سے پر آنے سے انکار کرنا بھی اس کی ایک قسم کی ناشکری ہے، نافرمانی ہے۔
برق صاحب کا یہ فرمانا کہ انکار کی کئی معقول وجوہات ہوسکتی ہیں، بالکل ٹھیک ہے ، لیکن حدیث میں یہ کہاں ہے کہ معقول وجوہات کی موجودگی میں انکار باعث لعنت ہے، برق صاحب کچھ تو غور کرکے لکھا کیجئے، اچھا اگر کوئی معقول وجہ نہ ہو، تو پھر کیا حکم ہے؟ کیا خاوند اس کے ہر قسم کے حقوق ادا کرے اور جب اس کے حقوق ادا کرنے کا وقت آئے تو وہ بغیر کسی معقول وجہ کے انکار کردے، تو کیا یہ جرم دقیع نہیں ہے، اگر ہے، تو پھر کیا اعتراض ہے؟ یہ تو برابر کے حقوق ہیں، اگر مرد بیوی کا حق ادا کرنے سے انکار کردے، تو وہ مجرم ہوگا، اب قرآن کی سنیے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ وَبِالْوالِدَیْنِ اِحْسَانًا } (البقرۃ)
ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
{ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ } (النساء)
عورتوں کو بسترے سے علیحدہ سلاؤ ، اور انہیں مارو۔
ایک جگہ تو ماں کی یہ عزت کہ احسان کرو، جھڑکو مت، اُف بھی مت کرو، اور دوسری جگہ اسی پیاری اماں کے متعلق یہ ارشاد کہ اسے مارو، برق صاحب کیا یہ بھی تضاد ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ پیاری اماں کی مرضی جو برق صاحب نے قائم کی ہے، جذبات کو تو بھڑکا سکتی ہے لیکن حقیقت کو نہیں بدل سکتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں یزید بن ابو سفیان کو ایک فوج کا سپہ سالار بنا کر شام کی طرف روانہ کیا، تو ساتھ مندرجہ ذیل ہدایات بھی دیں۔
کسی عورت ، بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا، کوئی پھل والا درخت نہ کاٹنا ... کسی درخت کو ہرگز نہ جلانا ...
حضور نے بنی نضیر کے کچھ درخت جلا دئیے تھے اور کچھ کاٹ کر رکھ دئیے تھے۔ (ص ۳۱۰)
ازالہ
برق صاحب نے ان دونوں واقعات کو متعارض احادیث کی حیثیت سے پیش کیا ہے، پہلی غلط فہمی تو یہ ہوئی کہ برق صاحب پہلی روایت کو بھی حدیث ہی سمجھ بیٹھے، حالانکہ وہ قول صحابی ہے، خیر، دوسری غلط فہمی یہ ہوئی کہ وہ یہ سمجھے کہ یہ دونوں ہدایات ایک ہی جیسے مواقع کے لیے ہیں، لہٰذا دونوں میں تضاد ہے۔
بات یہ ہے کہ دونوں ہدایتیں علیحدہ علیحدہ مواقع اور محل سے تعلق رکھتی ہیں، علیحدہ علیحدہ کوائف اور حالات کے ماتحت ان دونوں پر عمل ہوگا، جنگلوں یا شہروں کے درختوں کا بغیر کسی معقول وجہ کے جلا دینا کاٹ دینا بے شک ممنوع ہے، لیکن وہ درخت جو میدانِ جنگ میں واقع ہوں، ان کے وجود سے اسلامی فوج کو نقصان پہنچتا ہو، اور دشمن فوج کو فائدہ پہنچتا ہو، جنگ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہو، تو بتائیے کیا ایسے درختوں کا کاٹنا بھی جرم ہے، نہیں بلکہ جنگی مصالح کے مدنظر ایسا کرنا فرض ہے، اب بتائیے ، ان دونوں میں کیا تضاد ہے، پھر یہ درخت جو کاٹے گئے، اللہ کے حکم سے کاٹے گئے معلوم نہیں آپ نے قرآن کا گہرا مطالعہ کئے بغیر اعتراض کیوں کیا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ اَوْ تَرَکْتُمُوْہَا قَآئِمَۃً عَلٰٓی اُصُوْلِہَا فَبِاِذْنِ اللہِ } (حشر)
جو درخت تم نے کاٹے یا جو تم نے کھڑے رہنے دیجئے، تو یہ کام اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا تھا۔
لیجئے، اب تک تو حدیث پر اعتراض تھا، اب وہی اعتراض قرآن پر آگیا، اب کیا کیا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
پھر بلاوجہ اور بلا ضرورت درختوں کو کاٹنا، مسافروں کو سائے ... سے محروم رکھنا... یہ رسول کے شایان شان تھا ... اس لیے یہ حدیث قابل اعتماد نہیں۔ (دو اسلام ص ۳۱۱)
ازالہ
بغیر کسی وجہ کے تو کاٹے نہیں گئے، اگر آپ نے وجہ تلاش نہیں کی، تو اس میں حدیث کا کیا قصور ہے، یہ درخت اس لیے کاٹے گئے تھے کہ مسلمان بغیر ان کے کاٹے آگے نہیں بڑھ سکتے تھے اور کافروں کو ذلت و شکست نصیب نہ ہوتی، اگر تاریخ میں آپ نے نہیں پڑھا تھا، تو قرآن میں دیکھ لیا ہوتا، اس کی وجہ تو خود قرآن بتاتا ہے:
{ وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِیْنَ } (حشر)
تاکہ اللہ فاسقوں کو ذلیل کرے۔
گویا درخت کاٹنے کی وجہ خود قرآن میں موجود ہے، یعنی کافروں کی شکست اور ذلت کا یہ ایک آسان ذریعہ تھا، میدان جنگ کھل جانے سے مسلمانوں کے لیے لڑائی آسان ہوگئی، اور ان کافروں کو بہت جلد شکست نصیب ہوئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک مہم پر روانہ کرنے سے پہلے فرمایا کہ اگر فلاں فلاں مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا، سو جب ہم چل پڑے ، تو کہا ان لوگوں کو جلانا مت، بلکہ قتل کر ڈالنا، اس لیے کہ آگ سے عذاب دینا، صرف اللہ کا کام ہے۔
آگ سے عذاب دینا صرف اللہ کا کام ہے، لیکن ...
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ چند آدمی مدینہ میں آکر بیمار ہوگئے، حضور نے انہیں اجازت دے دی کہ وہ سرکاری اونٹنیوں کا دودھ پئیں، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، جب وہ شفا یاب ہو کر ترو تازہ ہوگئے، تو انہوں نے رکھوالے کو مار ڈالا، اور اونٹنیوں کو ہانک کر چل دئیے ... آپ نے انہیں مندرجہ ذیل سزائیں دیں۔
(الف) پہلے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے
(ب) پھر لوہے کی سلاخیں گرم کرکے ان کی آنکھوں میں پھیریں۔
(ج) اس کے بعد انہیں گرم ریت پر پھینک دیا، وہ تڑپ تڑپ کر پانی مانگتے رہے، لیکن کسی نے نہ دیا، اور ہلاک ہوگئے۔
یہ بے رحمی رحمتہ للعالمین کی شان سے بعید ہے، مزید برآں قرآن نے قاتل کے لیے صرف سزائے موت تجویز کی ہے، نہ کہ یہ تین سزائیں بیک وقت۔ (دو اسلام ص ۳۱۱)
ازالہ
برق صاحب کے نزدیک ان دونوں احادیث میں یہ تعارض ہے کہ پہلی حدیث میں ہے کہ '' آگ سے مت جلاؤ'' اور دوسری میں ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوہے کی سلاخیں گرم کرکے آنکھوں میں پھیریں اور گرم ریت پر انہیں ڈال دیا، برق صاحب ان دونوں میں فرق تو ضرور ہے، دوسری میں آگ سے جلانے کا کوئی ذکر نہیں، کہاں آگ میں جلا کر مار ڈالنا اور کہاں گرم سلائی پھیرنا، مگر خیر آپ کی خاطر میں اس کو تضا دہی مانے لیتا ہوں، اب سنیے:
پہلی حدیث میں ایک اسلامی قانون ہے، کہ کسی شخص کو سزا میں جلانے کا اختیار حکومت کو نہیں ہے، دوسری حدیث میں ایک قرآنی قانون پر عمل ہے، اچھا اب یہ بتائیے کہ اگر کسی ظالم نے کسی شخص کو آگ میں جلا کر مارا ہو، تو اس ظالم کی سزا کی کیا نوعیت ہوگی؟ قرآن کی آیت سنیے:
{ فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ} (البقرۃ)
جو شخص تم پر زیادتی کرے، تو تم بھی اس پر اس ہی جیسی زیادتی کرو۔
کہیے اس قرآنی حکم کی تعمیل فرض تھی یا نہیں، اگر تھی تو پھر یہ جلانے کا عذاب اللہ کی طرف سے ہوا، بندوں کی طرف سے نہیں، بندوں نے تو صرف اللہ کے حکم کی تعمیل کی، اور اگر آپ یہ فرمائیں کہ اس جلانے والے ظالم کو صرف تلوار سے قتل کردیا جائے تو پھر میں پوچھنے کا حق رکھتا ہوں، کہ کیا یہ برابری کا قصاص ہے، کیا اس سزا سے خوف ناک مظالم کا انسداد ہوسکتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ خوفناک مظالم کے انسداد کے لیے اسی جیسی خوفناک سزا ہونی چاہیے، ورنہ ایک آدمی آگ میں جل کر جان دے اور دوسرا آناً فاناً تلوار کی ضرب یا بجلی کے جھٹکے سے مر جائے، کیا یہ انصاف کا خون کرنا نہیں ہے کیا یہ قانون قصاص کا نقص نہیں ہے، اللہ تعالیٰ تو خود فرماتا ہے:
{ اَلْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ } المائدہ
آنکھ کے بدلے آنکھ پھوڑی جائے، دانت کے بدلے دانت توڑا جائے اور اسی طرح تمام زخموں کا قصاص لیا جائے۔
کہیے کیا قصاص کی یہ سزائیں بے رحمی کا مظاہرہ نہیں کرتیں، بے شک کرتی ہیں، لیکن ان بے رحمیوں کے انسداد کا یہی ایک ذریعہ ہے، اور اسی لیے رحیم و کریم اللہ کا یہ قانون ہے کہ '' جیسا کرو ویسا بھرو'' انہوں نے جیسا چرواہوں کے ساتھ کیا تھا، ویسا ہی ان کے ساتھ کیا گیا، حدیث میں موجود ہے:
انما سمل النبی صلی اللہ علیہ وسلم اعین اولئک لانہم سملوا اعین الرعاء (صحیح مسلم باب حکم المحاربین)
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی آنکھوں میں گرم سلائی اس لیے پھر دائی تھی کہ انہوں نے چرواہوں کی آنکھوں میں گرم سلائی پھیری تھی۔''
ایک اور حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہم عطش من عطش اٰل محمد (نسائی ج:۲، ص: ۱۵۰، کتاب المحاربۃ)
''اے اللہ ان لوگوں کو پیاسا مارا جنہوں نے آل محمد ؐ کو پیاسا مارا۔''
ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے مسلمان چرواہوں کی آنکھوں میں گرم سلائی پھروائی تھی، اور ان کو پیاسا مارا تھا، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
{اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَ اَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ} (المائد: ۳۲)
''جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور ملک میں فساد برپا کرتے ہیں۔ ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کر دیے جائیں، یا پھانسی دیے جائیں، یا مخالف سمت کے ہاتھ پیر کاٹ ڈالے جائیں، یا انہیں جلا وطن کر دیا جائے۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
دیکھا آپ نے قرآن میں قتل کے علاوہ بھی سخت سزائیں ہیں، کیا یہ بھی بے رحمی ہے۔
الغرض جو کچھ مظالم انہوں نے کیے تھے، وہی ان پر دہرائے گئے، لوٹ مار کی سزا میں قرآن کے حکم کے ماتحت ان کے پیر کاٹے گئے، قتل کی سزا میں قتل کیے گئے، آنکھوں میں سلائی پھیرنے اور دوسری زیادتیوں کی سزا میں بطور قصاص ان پرویسی ہی سزا نافذ کی گئی، اور اس طرح قرآن کے ہر حکم پر عمل کیا گیا، یہ ہیں وہ عبرت ناک سزائیں جن سے امن عالم برقرار رہتا ہے، اور کسی کو کسی پر ظلم ڈھانے کی ہمت نہیں ہوتی، آپ سزائوں کو تو دیکھتے ہیں، لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ یہ ایک سزا اپنے جیسے سینکڑوں واقعات کا انسداد کرتی ہے، اگر ایک دفعہ کی بے رحمی سے متعدد بے رحمیوں کا استیصال ہوتا ہے تو یہ سودا بہت سستا ہے۔
نہ معلوم برق صاحب کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی اور اگر آپ اس کو اب بھی بے رحمی ہی سمجھیں تو کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ سو کوڑوں کی سزا بھی بے رحمی ہے آنکھ کے بدلے آنکھ پھوڑنا بھی بے رحمی ہے، چوری کی سزا میں ہاتھ کاٹنا بھی بے رحمی ہے، کیا آپ ان تمام سزائوں کو قرآن میں سے نکال دیں گے؟ اگر نہیں تو پھر ان سب بے رحمیوں کے ساتھ اس حدیث کی سزائوں پر بھی صبر کیجیے آپ کو رحم آتا ہے لیکن قرآن کو دیکھیے کہ وہ سو کوڑوں کی سزا دیتے وقت رحم کرنے سے منع کرتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بے رحمی کا حکم دیتا ہے ارشاد ہے:
{وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللہِ} (النور)
''ان دونوں پر کسی قسم کا رحم نہیں آنا چاہیے اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔''
خلاصہ یہ ہے کہ سزائوں کا نافذ کرنا بے رحمی نہیں ہے، اور اگر رحم آبھی جائے تو اس رحم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ سزا کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔
 
Top