- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
تقدیر کا فائدہ
تقدیر سے یہ نتیجہ نکالنا کہ ہم مجبور ہیں لہٰذا تدبیر کی ضرورت نہیں، تو یہ تقدیر کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے، نہ تقدیر کے مسئلہ کا یہ صحیح استعمال ہے، ہاں اس کا ایک صحیح استعمال ہے، اور وہ خود اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِیْ الْاَرْضِ وَلَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیْرٌ ۔ لِکَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰکُمْ وَاللہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِ } (الحدید)
جو مصیبت دنیا میں آتی ہے یا تمہاری جانوں میں وہ اس کے پیدا کرنے سے پہلے کتاب میں لکھی ہوتی ہے، تاکہ کوئی نقصان ہو جائے تو تمہیں افسوس نہ ہو، اور جو چیز اللہ تمہیں دے اس پر اترا نہ جاؤ، اور اللہ اترانے والے تکبر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔
اس آیت سے تقدیر کا استعمال معلوم ہوگیا اگر نقصان ہو جائے تو یہ نہ ہو کہ بس اسی کے غم میں اپنے آپ کو گھلا دیں، بلکہ یہ کہہ کر تسلی کرلیں کہ نقصان ہوگیا، تو کیا ہوا تقدیر میں ایسا ہی تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے جب نقصان ہو جاتا تھا، تو اپنے گھر والوں کو یہ کہہ کر تسلی دے دیا کرتے تھے کہ ہوگیا ، تو ہوگیا ، تقدیر میں ایسا ہی تھا۔
اور اگر کوئی نعمت مل جائے تو یہ نہ سمجھے کہ میری قابلیت کی بنا پر مجھے ملی ہے، جیسا کہ قارون نے کہا تھا ، اور اس پر وہ اترانے لگے، اللہ کو بھول جائے، بلکہ اس طرح کہے کہ یہ سب کچھ اللہ کا فضل ہے، میں کس قابل ہوں، یوسف علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام نے نعمت الٰہی پانے کے بعد اسی قسم کے الفاظ کہے تھے اور یہ الفاظ قرآن میں موجود ہیں۔
تقدیر سے یہ نتیجہ نکالنا کہ ہم مجبور ہیں لہٰذا تدبیر کی ضرورت نہیں، تو یہ تقدیر کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے، نہ تقدیر کے مسئلہ کا یہ صحیح استعمال ہے، ہاں اس کا ایک صحیح استعمال ہے، اور وہ خود اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِیْ الْاَرْضِ وَلَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیْرٌ ۔ لِکَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰکُمْ وَاللہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِ } (الحدید)
جو مصیبت دنیا میں آتی ہے یا تمہاری جانوں میں وہ اس کے پیدا کرنے سے پہلے کتاب میں لکھی ہوتی ہے، تاکہ کوئی نقصان ہو جائے تو تمہیں افسوس نہ ہو، اور جو چیز اللہ تمہیں دے اس پر اترا نہ جاؤ، اور اللہ اترانے والے تکبر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔
اس آیت سے تقدیر کا استعمال معلوم ہوگیا اگر نقصان ہو جائے تو یہ نہ ہو کہ بس اسی کے غم میں اپنے آپ کو گھلا دیں، بلکہ یہ کہہ کر تسلی کرلیں کہ نقصان ہوگیا، تو کیا ہوا تقدیر میں ایسا ہی تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے جب نقصان ہو جاتا تھا، تو اپنے گھر والوں کو یہ کہہ کر تسلی دے دیا کرتے تھے کہ ہوگیا ، تو ہوگیا ، تقدیر میں ایسا ہی تھا۔
اور اگر کوئی نعمت مل جائے تو یہ نہ سمجھے کہ میری قابلیت کی بنا پر مجھے ملی ہے، جیسا کہ قارون نے کہا تھا ، اور اس پر وہ اترانے لگے، اللہ کو بھول جائے، بلکہ اس طرح کہے کہ یہ سب کچھ اللہ کا فضل ہے، میں کس قابل ہوں، یوسف علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام نے نعمت الٰہی پانے کے بعد اسی قسم کے الفاظ کہے تھے اور یہ الفاظ قرآن میں موجود ہیں۔