• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
''حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تین چیزیں منحوس ہیں گھوڑا، عورت اور مکان'' ... اس ارشاد کا مقصد تو یہی ہوسکتا ہے کہ لوگ ان منحوس چیزوں سے بچیں، لیکن لوگ کیسے بچ سکتے ہیں، جب خود حضور نے ایک گھوڑا، گیارہ بیویاں اور نومکانات اپنے قبضے میں رکھے تھے، اگر کوئی ہم سے پوچھ بیٹھے، کہ کیا یہ قول اسی رسول کا ہے... جس نے فرمایا تھا کہ ''نکاح میری سنت ہے'' ... تو ہم کیا جواب دیں گے۔'' (دو اسلام ص: ۳۱۳، ۳۱۴)
قرآن مجید میں ہے:
ازالہ
{کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَبَعَثَ اللہُ النَّبِیّٖنَ} (البقرۃ)
''سب لوگ ایک ہی جماعت تھے پس اللہ نے نبیوں کو بھیجنا شروع کر دیا۔''
بتایے جب سب ایک ہی راستہ پر گامزن تھے، متفق و متحد تھے، کہیں اختلاف و افتراق کا نام و نشام نہیں تھا، تو پھر نبیوں کے بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا اختلاف پیدا کرنے کے لیے؟ قرآن کی اس آیت سے تو یہی نکلتا ہے؟ کیا یہ قرآن پر اعتراض نہیں ہے؟ لیکن قرآن کی دوسری آیات سے ثابت ہوتا ہے، کہ شروع میں لوگ متحد تھے، جب اختلاف کرنے لگے، تو نبیوں کی ضرورت محسوس ہوئی اور نبی بھیجے جانے لگے، یہ آیات مذکورہ بالا آیت پر سے اعتراض کو دور کر دیتی ہے، ایک آیت کی تشریح دوسری آیت کر دیتی ہے، اور غلط فہمی کا ازالہ کر دیتی ہے یہی حال حدیث کا ہے، ایک حدیث کی تشریح دوسری جگہ موجود ہوتی ہے، اگر کہیں مجمل حدیث ہو، تو غلط فہمی کا امکان تو ضرور ہے لیکن اس کا ازالہ دوسری احادیث سے ہوسکتا ہے جو آگے پیچھے موجود ہوتی ہیں، مگر اس کے لیے تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے، برق صاحب نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ کی حدیث نقل کی ہے، ان ہی عبداللہ بن عمر رضی اللہ سے دوسری جگہ اس حدیث کی تشریح موجود ہے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان کان الشؤم فی شئی ففی الدار والمرأۃ والفراس (صحیح بخاری)
''نحوست اگر کسی چیز میں ہوتی تو ان تین چیزوں میں بھی ہوتی، گھر، عورت، گھوڑا۔''
حضرت سہل کی روایت کا بھی یہی مضمون ہے، الفاظ یہ ہیں:
ان کان فی شئی ففی الفرس والمرأۃ والمسکن (صحیح بخاری)
''اگر نحوست کا کوئی وجود ہوتا، تو ان تین چیزوں میں بھی ہوتا، گھوڑا، عورت،گھر۔''
اب اس حدیث کا پس منظر ملاحظہ فرمایے، ایام جاہلیت میں لوگوں کا خیال تھا کہ فلاں فلاں چیزوں میں نحوست ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باطل عقیدہ کی تردید ان الفاظ میں کر دی، کہ نحوست کا کوئی وجود نہیں، اگر ہوتی تو ان محبوب تریں چیزوں میں بھی ہوتی جن سے کنارہ کشی ناممکن ہے کیا نحوست کی وجہ سے ان چیزوں کو چھوڑاجاسکتا ہے ہرگز نہیں، جب یہ نہیں ہوسکتا تو پھر محض نحوست کےوہم سے دوسری چیزوں کو چھوڑنا لا یعنی ہے، یہ تو ہے حدیث کا منشا، ہاں قرآن میں ضرورنحوست کا ذکر ملتا ہے، قوم عاد پر جو عذاب بھیجا گیا، وہ منحوس دنوں میں بھیجا گیا تھا، ارشاد باری ہے:
{اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِیحًا صَرْصَرًا فِیْ یَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ} (القمر)
''ہم نے ان پر دائمی منحوس دن میں سخت آندھی کا عذاب بھیجا تھا۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
''کیا جن عورتوں نے لاکھوں انبیاء و اولیاء پیدا کیے جن کی گود میں لقمان و افلاطون کھیلے... وہ منحوس ہیں، اور ہم مسعود؟'' (دو اسلام ص: ۳۱۴)
ازالہ
یہ تو اوپر ثابت کیا جاچکا ہے، کہ عورت منحوس نہیں ہے اور یہ کہ برق صاحب حدیث کا مطلب غلط سمجھے ہیں، تاہم ایک بات عرض ہے کہ کیا یہ عبارت محض جذبات کو بھڑکانے کے لیے نہیں ہے کیا اس میں مبالغہ و رنگینی نہیں ہے، برق صاحب یہ عبارت اس طرح بھی ترتیب دی جاسکتی ہے۔
''کیا جن عورتوں نے لاکھوں شیطان کے انبیاء اور اولیاء پیدا کیے جن کی گود میں فرعون و ہامان کھیلے جنہوں نے کافر، چور، ڈاکو، بدمعاش، رہزن، سفاک، فجار، شرابی لوگوں کو جنم دیا، مسعود ہیں؟ کیا جن عورتوں نے ابو لہب، ابوجہل اور دیگر اشرار کو اپنے دودھ سے پرورش کیا، کیا وہ منحوس نہیں؟ اور سنیے عزیز مصر کی زبان سے قرآن کیا کہتا ہے:
{اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ} (یوسف)
''اے عورتوں بے شک تمہارا مکر و فریب بہت زبردست ہوتا ہے۔''
کیا یہ ان ہی عورتوں کے متعلق ہے، جنہوں نے بڑے بڑے انسان پیدا کیے تھے، قرآن کہتا ہے:
{اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلًا} (الاحزاب)
''بے شک انسان بڑا ہی ظالم اور جاہل ہے۔''
کیا یہ انہی انسانوں کے متعلق ہے جن میں لاکھوں انبیاء اور اولیاء پیدا ہوئے برق صاحب حدیث پر اعتراض کرنے سے پہلے ذرا قرآن کا بھی مطالعہ کر لیا کیجئے، قرآن کہتا ہے:
{ وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَر شَیْئٍ جَدَلاً } (کہف)
انسان بڑا ہی جھگڑالو ہے۔
کیا ان انسانوں کے زمرے میں انبیاء بھی شامل ہیں، اگر نہیں، تو کیوں؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے، تو شیطان پادتا ہوا بھاگ جاتا ہے، اور اذان کے بعد واپس آجانا ہے ... واپس آکر نمازی پر مسلط ہو جاتا ہے، اسے بھولی ہوئی باتیں یاد دلانا شروع کردیتا ہے، یہاں تک کہ نمازی بھول جاتا ہے اور اسے یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھیں۔
شیطان کا اذان کی عربی عبارت سے گھبرانا ... لیکن نماز کی لمبی چوڑی دعاؤں کی پرواہ نہ کرنا اور نمازی پر سوار رہنا ایک ایسی منطق ہے، جو شاید کسی عقلمند کی سمجھ میں کبھی بھی نہ آئے۔ (دو اسلام ص ۳۱۴، ص۳۱۵)
ازالہ
اذان شعائر اسلام میں سے ہے، اعلائے کلمۃ الحق ہے، اللہ وحدہ لا شریک لہ کی توحید کا اعلان ہے، اور اس اکیلے کی عبادت کی طرف دعوت عام ہے، یہ ہیں وہ وجوہ جن کی بنا پر شیطان اذان سے دور بھاگتا ہے، یہ آواز اس کو بری لگتی ہے، اس سے اس کو ڈر محسوس ہوتا ہے، اور وہ خوفزدہ ہو کر بھاگتا ہے، اور نہیں چاہتا کہ اس دعوت توحید کا عام اعلان اس کے کان تک پہنچے، اسی طرح جب اقامت ہوتی ہے، تو کیونکہ اس میں بھی وہی اعلان ہوتا ہے، اس لیے شیطان دور ہو جاتا ہے، برق صاحب نے لکھا ہے کہ '' جب نمازی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے'' حالانکہ ترجمہ صحیح یہ ہے کہ '' جب نماز کی اقامت ہوتی ہے''۔
اس کے علاوہ بھی اس میں کوئی اور مخفی راز ہو، تو ہم کو کیا علم ہم لوگ غیب پر ایمان لانے والے ہیں عالم روحانیات و عالم مثال میں رسول کے بیان کی تصدیق کرتے ہیں، اور اس کو بے چون و چرا تسلیم کرتے ہیں، اس کے کنہ اور رموز سے واقف ہونا ہمارے لیے ضروری نہیں، اگر ہم رسول کی بات کو اس وقت تسلیم کریں۔ جب وہ ہماری عقل میں آجائے تو پھر ہمارا ایمان عقل پر ہوا نہ کہ رسول پر، بلکہ اس طرح رسول کی تکذیب ہوئی کہ اگر کوئی بات ہماری سمجھ میں نہ آئے، تو ہم یہ کہہ دیں کہ ہمیں آپ کی یہ بات تسلیم نہیں اور گویا آپ نے جو بات ہمیں بتائی ہے، وہ غلط ہے، کسی صحیح حدیث کو اس طرح جھٹلایا نہیں جاسکتا، کیونکہ اس اصول پر تو پھر قرآن بھی پورا نہیں اترتا، قرآن میں ہے کہ مرتے وقت فرشتے مرنے والے سے باتیں کرتے ہیں، وہ جواب دیتا ہے، لیکن یہ چیز ہماری عقل میں نہیں آتی، تو کیا اس کو تسلیم نہ کریں؟
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ برق صاحب نے اس کو مان لیا ہے، اس کے آگے وہ لکھتے ہیں:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
چلو مان لیتے ہیں کہ شیطان بلند آواز سے گھبراتا ہے، اس لیے بھاگ نکلنا ہے، لیکن یہ تو فرمائیے کہ اگر نماز میں بھول صرف شیطانی تسلط کی وجہ سے ہوتی ہے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیوں بھول جایا کرتے تھے ... کیا یہ شیطان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی تسلط پا سکتا تھا۔ (ص۳۱۵)
ازالہ
برق صاحب بھول شیطان کی طرف سے بھی ہوتی ہے اور فطرۃً بھی ہوتی ہے، بھول سے صرف اللہ تعالیٰ مستثنیٰ ہے، قرآن میں ہے:
{ لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَلَا یَنٰسٰی } (طٰہ )
میرا رب نہ بھٹکتا ہے نہ بھولتا ہے۔
شیطان کی طرف سے جو بھول ہوتی ہے اس کی مثال مندرجہ ذیل آیت میں ہے:
{ اِنِّیْ نَسِیْتُ الْحُوْتَ وَمَا اَنْسَانِیْہُ اِلاَّ الشَّیْطَانُ اَنْ اَذْکُرَہٗ } (الکھف)
موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی نے کہا کہ میں مچھلی کو بھول گیا اور آپ سے اس کا ذکر کرتا مجھے شیطان ہی نے بھلا دیا۔
دوسری آیت میں ہے:
{ قَالَ لَا تُواخِذْنِیْ بِمَا نَسِیْتُ } (الکھف)
موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر میری گرفت نہ کیجئے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام بھی بھولتے تھے ، ان کے ساتھی کی بھول شیطان کی طرف سے تھی، اور خود ان کی بھول فطرۃً واقع ہوئی تھی، اور اس لحاظ سے بھول کی دو قسمیں ہوئیں، لیکن دونوں آیتوں کو ملا کر نتیجہ نکالا جائے، تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بھول جس طرح پہلی مرتبہ شیطان کی طرف سے تھی، دوسری مرتبہ بھی شیطان کی طرف سے تھی، تو پھر وہی اعتراض قرآن پر ہوگا ، جو حدیث پر ہے یعنی موسیٰ علیہ السلام پر شیطان تسلط پاسکتا تھا، ہم اس نتیجہ کے اخذ کرنے سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں، اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کی بھول فطری تھی، جو انسان کی تخلیق میں شامل ہے۔
اس بحث کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ نماز میں بھول شیطان کی وجہ سے بھی ہوسکتی اور فطرۃً بھی ہوسکتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھول فطرۃً تھی، نہ کہ شیطان کی وجہ سے اور یہ چیز اس حدیث میں بھی موجود ہے، جس کا حوالہ برق صاحب نے دیا ہے، نماز کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انما انا بشر مثلکم انسی کما تنسون (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
یعنی میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں، اسی طرح بھولتا ہوں، جس طرح تم بھولتے ہو۔
گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود صراحت کردی کہ میری بھول انسانی فطرت کے تقاضہ سے واقع ہوئی تھی، برق صاحب حدیث میں اس کی صراحت موجود تھی، پھر بھی آپ نے اس کو شیطانی بھول سمجھ لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فطری بھول کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ وَاذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ } (الکھف)
اور جب آپ بھول جایا کریں، تو اللہ کا ذکر کیا کیجئے۔
اور سنیے قرآن کیا کہتا ہے:
{ وَاذْکُرْ عَبْدَنَآ اَیُّوبَ اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ } (ص)
اور ہمارے بندے ایوب کا ذکر کیجئے جب انہوں نے اپنے رب سے کہا کہ شیطان نے مجھے سخت تکلیف اور عذاب میں مبتلا کردیا ہے۔
بتائیے ایوب علیہ السلام رسول تھے یا نہیں؟ اگر تھے تو ان پر شیطان کا تسلط کیسے ہوگیا، کیا شیطان ایوب علیہ السلام پر بھی تسلط و قابو پاسکتا تھا، اب کیا کریں، اس آیت کو قرآن سے نکال دیں کیونکہ اس آیت سے ایک رسول کی توہین ہوتی ہے، کیا ایوب علیہ السلام کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ اے اللہ یہ میرے اعمال کی وجہ سے ہے، کیونکہ تو فرماتا ہے:
{ وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ } (الشوری)
اور جو مصیبت تم کو پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔
لہٰذا اے اللہ میرے گناہوں کو معاف فرما، اور اس مصیبت کو دور فرما، لیکن کہا تو یہ کہ شیطان نے مجھ پر غلبہ حاصل کرلیا ہے، وہ مجھے عذاب یعنی سزا دے رہا ہے، ان کو تو یہ کہنا چاہیے تھا کہ اے اللہ یہ مصیبت و سزا بھی تیری ہی طرف سے ہے، کیونکہ تو فرماتا ہے:
{ کُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللہِ } (النساء)
یعنی ہر راحت و مصیبت اللہ کی طرف سے ہے۔
اور تو ہی فرماتا ہے:
{ وَلَنَبْلُوْنَّکُمْ بِشَیْئٍ } (البقرۃ)
اور ہم ضرور تمہاری آزمائش کریں گے۔
تواب یہ مصیبت تیری ہی طرف سے ہے، اور تیری آزمائش ہے، اے اللہ اب اس آزمائش کو ختم کردے، لیکن ان الفاظ میں سے کچھ بھی نہیں کہا بلکہ قرآن کی ان دونوں (بظاہر) متضاد باتوں کو چھوڑ کر یہ کہا کہ شیطان نے مجھے مصیبت میں مبتلا کردیا ہے، کیا یہ جملہ الہامی تعلیم کے خلاف نہیں ہے اگر ہے، تو بتائیے اس آیت کا ہم کیا جواب دیں، غیر مسلموں کو اس کا کیا مطلب بتائیں، برق صاحب در حقیقت غلط فہمی سے کچھ کا کچھ ہو جایا کرتا ہے، اور اس کی زد میں صرف حدیث ہی نہیں قرآن بھی آسکتا ہے، اللہ ایسی غلط فہمیوں سے پناہ میں رکھے، بلاوجہ حدیث پر اعتراض کرنے سے کیا فائدہ جب غلط فہمی سے اس سے زیادہ بڑا اعتراض قرآن پر ہوسکتا ہے۔
بقول برق صاحب '' کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔'' (دو اسلام ص۳۱۹)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
آنحضرت کے سامنے کسی نے کہا کہ فلاں شخص دن چڑھے تک سویا رہا، آپ نے فرمایا:
کہ شیطان اس کے کانوں میں موت گیا، اس لیے سویا رہا۔
لیکن اسی جلد کے صفحہ ۱۷۷ پر یہ روایت دی ہوئی ہے۔
عمران بن حصین کہتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ حضور کے ہم سفر تھے، پچھلی رات تک ہم چلتے رہے سحر کے قریب لیٹ گئے، اور دیر تک سوئے رہے ... سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق بیدار ہوئے، آپ نے حضور کے سرہانے کھڑے ہوکر بلند آواز سے تکبیر کہنا شروع کردی، چنانچہ آپ بیدار ہوئے، اور نماز پڑھائی۔
اگر کوئی پوچھ بیٹھے کہ کیا حضور کے دن چڑھے تک سوئے رہنے کی وجہ بھی وہی تھی، جو اوپر والی حدیث میں دی گئی ہے، تو بغیر اس کے کیا کہیں گے کہ استغفر اللہ استغفراللہ۔ (دو اسلام ص ۳۱۵۔ ۳۱۶)
ازالہ
برق صاحب دونوں حدیثوں کا موقع و محل علیحدہ علیحدہ ہے، آپ نے دونوں کو ایک ہی سیاق و سباق میں پیش کردیا، اور یہی اصل غلط فہمی ہے، پہلی حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
ما زال نائما حتی اصبح ماقام الی الصلوٰۃ قال ذلک رجل بال الشیطان فی اذنہ (صحیح بخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر ہوا کہ فلاں شخص ہمیشہ دن چڑھے تک سوتا رہتا ہے نماز نہیں پڑھتا، آپ نے فرمایا اس شخص کے کان میں شیطان نے پیشاب کردیا۔
یہ ہے اس شخص کی حقیقت ہے جو ہمیشہ دیر سے اٹھتا ہے، پھر یا تو نماز پڑھتا ہی نہیں، اور اگر پڑھتا ہے، تو بے وقت ، تو گویا اس پر شیطان کا تسلط ہو چکا ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بھی اس مضمون کو ادا کیا ہے:
{ وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ } (الزخرف)
اور جو اللہ کے ذکر سے غافل ہو جائے تو ہم اس پر شیطان کو مسلط کردیتے ہیں، پس وہی اس کا ساتھی ہوتا ہے۔
اگر کوئی پوچھ بیٹھے کہ ایوب علیہ السلام پر جو شیطان کو تسلط دیا گیا تھا، کیا وہ بھی اسی قبیل سے تھا، تو ہم سوائے اس کے اور کیا کہیں گے کہ استغفر اللہ استغفر اللہ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو نیند آئی، اور آپ دیر سے اٹھے، وہ ایک دن کا واقعہ ہے، جو جہاد سے واپسی کے وقت سفر میں پیش آیا، کافی رات تک سفر جاری رہا، اور اس کے بعد آپ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آرام کرنے کے لیے لیٹ گئے، کیونکہ ساری رات کے تھکے ہوئے تھے، لہٰذا فطرۃً آنکھ دیر سے کھلی، یہاں دیر سے آنکھ کھلنے کو اللہ کے ذکر سے غفلت برتنے پر کس طرح محمول کیا جاسکتا ہے، اور جب اللہ کے ذکر سے غفلت نہیں، تو شیطان کا تسلط کیسے ہوسکتا ہے، برخلاف اس کے جو شخص روزانہ خواب غفلت میں پڑا رہتا ہے، اللہ کے ذکر سے جی چراتا ہے، جاگ کر بھی نماز نہیں پڑھتا (جیسا کہ حدیث اول میں ہے) تو ایسے شخص پر شیطان کا تسلط ہوتا ہے، یہ ہے ان دونوں احادیث کا مطلب۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
حضور کا ارشاد ہے '' جب تم میں سے کوئی شخص قضائے حاجت کے لیے بیٹھے، تو وہ قبلہ کی طرف منہ نہ کرے نہ پیٹھ ... اور یہ بھی ملاحظہ ہو:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا کے پاس والے مکان کی چھت پر چڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضور علیہ السلام قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے قضائے حاجت فرما رہے ہیں کس کو صحیح سمجھیں؟ (دو اسلام ص ۳۱۶)
ازالہ
دونوں کو صحیح سمجھئے کیونکہ دونوں صحیح ہیں اور اپنے اپنے محل پر واجب العمل اورقابل عمل ہیں، ان ہی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جن کی روایت آپ نے نقل کی ہے، ان دونوں حدیثوں کے تعارض کو رفع کردیا ہے، غالباً وہ وضاحت آپ کی نظر سے نہیں گزری، ایک صاحب نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی اونٹنی کو بٹھایا اور اس کو اپنے اور قبلہ کے درمیان کرکے پیشاب کرنے بیٹھ گئے، ان صاحب نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا، کیا اس سے منع نہیں کیا گیا، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
بلی انما نھی عن ھذا فی الفضاء فاذا کان بینک وبین القبلۃ شئی یسترک فلا باس (ابوداؤد)
بے شک اس سے منع کیا گیا ہے لیکن یہ ممانعت کھلی فضا میں ہے ، اگر تمہارے اور قبلہ کے درمیان کوئی چیز حائل ہو، تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
اس تشریح سے معلوم ہوا کہ ممانعت اس وقت ہے جب کوئی سترہ نہ ہو، اور جب کوئی سترہ سامنے ہو، تو پھر ممانعت نہیں، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے پاخانہ میں قضائے حاجت فرما رہے تھے، لہٰذا آپ کے اور قبلہ کے درمیان دیوار حائل تھی، یہ تضاد کی صورت نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
صعب بن جثامۃ اللیثی کہتے ہیں کہ میں نے حضور کے پاس ایک گورخر بھیجا، آپ نے لوٹا دیا ... اور فرمایا کہ میں نے احرام باندھا ہوا ہے، ورنہ ضرور لے لیتا۔ (مسلم ج۳، ص ۲۳۳)
سال حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ابو قتادہ بھی تھا، جس کے بغیر باقی سب نے احرام باندھا ہوا تھا، اثنائے سفر میں ایک گورخر نظر آگیا، ابو قتادہ سوار ہو کر اس کے پیچھے دوڑ پڑا، اور آخر اسے برچھے سے مار لیا، ذبح کرکے پکایا اور صحابہ کو پیش کیا، صحابہ نے حضور سے پوچھا کہ کیا ہم کھالیںِ فرمایا کھالو، یہ حلال ہے۔ (مسلم ج ۳، ص ۲۲۶، دو اسلام ص ۳۱۷)
ازالہ
آپ نے ان دونوں احادیث کو تعارض کی مثال میں پیش کیا ہے، حالانکہ تعارض بالکل نہیں ہے پہلی حدیث سے جو نتیجہ آپ نے نکالا ہے، وہ بھی صحیح نہیں، احرام میں شکار کا گوشت کھانا جائز ہے، بشرطیکہ (۱) خود شکار نہ کیا ہو (۲) شکار کے سلسلہ میں کسی قسم کی مدد نہ کی ہو،یا اشارہ نہ کیا ہو، اور (۳) شکار کرنے والے نے محرم کی نیت سے شکار نہ کیا ہو، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صید البرلکم حلال وانتم حرم مالم تصیدوہ او یصاہ لکم (ابوداؤد)
بری شکار کا گوشت حالت احرام میں تمارے لیے حلال ہے، بشرطیکہ تم نے خود شکار نہ کیا ہو، یا شکار تمہارے لیے نہ کیا گیا ہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی محرم کو پیش کرنے کے لیے اگر شکار کیا جائے تو وہ شکار اس محرم کے لیے حرام ہے، حضرت صعب نے جو گورخر آپ کو پیش کیا تھا، وہ انہوں نے آپ ہی کے لیے شکار کیا تھا، اور اسی وجہ سے اس کا ایک حصہ نہیں بلکہ سالم گورخر آپ کی خدمت میں پیش کردیا، اور اسی لیے آپ نے قبول نہیں فرمایا، اور جو گوشت ابو قتادہ نے پیش کیا، وہ کھا لیا، اس لیے کہ وہ شکار آپ کی نیت سے نہیں کیا گیا تھا، لہٰذا تطبیق کی صورت تو دونوں حدیثوں میں موجود ہے، لیکن برق صاحب نے تحقیق نہیں کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
یہی حدیث ذرا آگے ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے:
... اور کچھ گوشت ہم حضور کے پاس لے گئے، آپ نے خود تو نہ کھایا، لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم کو اجازت دے دی۔ ذرا آگے اسی واقعہ کو یوں پیش کیا گیا ہے۔
... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کچھ باقی ہے؟ صحابہ نے کہا صرف ایک ٹانگ باقی ہے، چنانچہ آپ نے وہ ٹانگ لی، اور کھا گئے۔ (دو اسلام ص ۳۱۷۔ ۳۱۸)
ازالہ
برق صاحب نے ان دونوں عبارتوں کو تضاد کی شکل میں پیش کیا ہے، یعنی ایک جگہ ہے کہ آپ نے گوشت نہیں کھایا، دوسری جگہ ہے کہ آپ نے کھایا، برق صاحب کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں میں کون سی بات صحیح ہے، اور کون سی غلط؟ اس کے متعلق عرض ہے کہ ''آپ نے خود تو نہ کھایا'' کے الفاظ حدیث میں تو ہیں ہی نہیں، آپ پوری صحیح مسلم پڑھ جائیے، ایسے الفاظ آپ کو کہیں نہ ملیں گے جن کا یہ ترجمہ ہو جو برق صاحب نے نقل کیا ہے، در حقیقت صاحب کو اس جگہ بڑا زبردست دھوکا ہوا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ایک ہی بات کو اتنی متضاد صورتوں میں پیش کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا قیامت تک حقیقت کو نہ پاسکے، بایں ہمہ ہمارے ملا ہر طرف سے شور مچا رہے ہیں کہ یہ وحی ہے خبردار جو اس کی صحت و صداقت پر شبہ کیا، ورنہ تمہیں کافر بنا کر جہنم میں اوندھا لٹکا دیں گے۔ (دو اسلام ص ۳۱۸)
ازالہ
'' آپ نے خود تو نہ کھایا'' حدیث میں نہیں ہے، لہٰذا تضاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پھر ترجمہ بھی برق صاحب نے صحیح طور پر پیش نہیں فرمایا، بعض صحابہ پہلے ہی کھا چکے تھے، اور بعض نے کھانے سے انکار کردیا تھا، پھر یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، صحابہ نے مسئلہ پوچھا آپ نے فرمایا، کھالو، صحابہ نے کھایا، کچھ دیر بعد آپ نے پوچھا '' کچھ بچا ہے'' لوگوں نے کہا ایک پنڈلی بچی ہے، آپ نے وہ پنڈلی لے کر تناول فرمالی، بتائیے، اس میں کیا تضاد ہے؟ لہٰذا کیوں نہ کہا جائے کہ یہ وحی ہے اگر تضاد ہوتا، تو وحی نہ کہتے، جب تضاد نہیں تو پھر وحی ماننے میں کیا عذر ہے۔
پھر برق صاحب یہ بھی یاد رکھیے کہ یہ پورا واقعہ وحی نہیں سمجھا جاتا، بلکہ اس پورے واقعہ سے جو نتیجہ نکلا وہ یہ مسئلہ ہے کہ محرم بعض شرائط کے ساتھ شکار کا گوشت کھا سکتا ہے، اور یہ مسئلہ ہے جو من جانب اللہ وحی ہے، کہئے اس مسئلہ کے وحی ہونے سے کیا امر مانع ہے، اور اگر کچھ شبدہ گیا ہو ، تو سنیے قرآن کیا کہتا ہے:
{ وَاُوْحِیَ اِلٰی نُوْحٍ اَنَّہٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِکَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ۔ وَ اصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا وَ لَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِنَّھُمْ مُّغْرَقُوْنَ } (ھود)
اور اللہ نے نوح علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ تمہاری قوم کے لوگ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے بجز ان کے جو ایمان لاچکے، لہٰذا ان کے افعال پر تم غم مت کرو اور ہمارے حکم سے ایک کشتی بناؤ اور ظالموں کے حق میں مجھ سے کچھ مت کہنا یہ سب غرق کئے جائیں گے۔
دوسری آیات سنیے:
{ وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا۔ اِنَّکَ اِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا } (نوح)
اور نوح علیہ السلام نے کہا اے میرے رب روئے زمین پر ایک بھی کافر کو نہ رہنے دے، اگر تو ان کو زندہ چھوڑے گا، تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے، اور ان کی اولاد بھی فاجر اور کافر ہی ہوگی۔
سورۂ ہود کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کو بذریعہ وحی خبر دی گئی کہ اپنی قوم کے ایمان لانے سے نا امید ہو جاؤ، یہ ایمان نہیں لائیں گے، سورۂ نوح سے معلوم ہوتا ہے کہ خود حضرت نوح علیہ السلام ان کے اور ان کی اولاد کے ایمان لانے سے نا امید ہوگئے، تو بد دعا کردی، پہلی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کہیں نوح علیہ السلام ظالموں کے لیے دعا نہ کر بیٹھیں، اس لیے اللہ نے دعا کی ممانعت کردی، برخلاف اس کے دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بہت سخت بد دعا کی، سوال یہ ہے کہ اللہ کو تو ان کی نیت کا علم تھا، پھر ممانعت کی کیا ضرورت تھی؟ اللہ تعالیٰ نے تو خود کہہ دیا تھا کہ یہ سب غرق ہوں گے، پھر یہ کہنے کی کیا ضرور تھی کہ ان میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑئیے۔
برق صاحب کیا حقیقت کو آپ پاگئے؟ یہ وہ وحی ہے، جس کی صحت و صداقت پر آپ کو بھی کچھ شبہ نہیں، اب اگر غلط فہمی اس کی آیات میں تضاد کا گمان پیدا کردے، تو ہم سوائے اس کے اور کیا کہیں کہ ہمارے فہم کا قصور ہے، نہ کہ آیات کا یہی حال احادیث کا ہے، کاش آپ انصاف کریں اور تحقیق و تطبیق صحیح کے بعد لکھا کریں، آخری باب میں قرآن میں سے چند مزید تضاد پیش کروں گا، اور پھر بتاؤں گا کہ یہاں تضاد کا رفع کرنا کتنا مشکل ہے، لیکن پھر بھی ہم اس کو وحی مانتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
حضور کا فرمان ہے، احرام میں ایسے کپڑے مت پہنو، جن پر زعفران یا اور کوئی خوشبو لگائی گئی ہو۔
لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ احرام باندھتے اور توڑتے وقت میں حضور پر خوشبو چھڑکا کرتی تھی ... سوال پیدا ہوتا ہے کہ احرام میں خوشبو لگانا جائز ہے یا ناجائز۔ (دو اسلام ص ۳۱۸)
ازالہ
پہلی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حالت احرام میں ایسے کپڑے نہ پہنے جائیں، جو زعفران یا درس سے رنگے گئے ہوں، درس ایک قسم کی گھاس ہوتی ہے، برق صاحب نے اس کا ترجمہ '' کوئی اور خوشبو'' کیا ہے، یہ صحیح نہیں، اس حدیث میں خوشبو لگانے یا نہ لگانے کا کوئی ذکر نہیں، لہٰذا تضاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دوسری حدیث میں برق صاحب نے خلوق کا ترجمہ '' خوشبو'' کیا ہے، یہ بھی صحیح نہیں، خلوق زعفران کی ایک مرکب خوشبو ہے، اور کیونکہ حالت احرام میں زعفرانی کپڑے کی ممانعت ہے، لہٰذا آپ نے اس شخص کو کپڑے اتارنے کا حکم دیا (نہ کہ دھونے کا جیسا کہ برق صاحب نے ترجمہ نقل کیا ہے) اور بدن پر جو خلوق لگی ہوئی تھی، اس کو دھونے کا حکم دیا، لیکن خوشبو کی وجہ سے نہیں، بلکہ زعفرانی رنگ کی وجہ سے اور اس چیز کی صراحت حدیث میں موجود ہے، آپ فرماتے ہیں:
اغسل عنک اثر الصفرۃ (مسلم)
اپنے بدن سے زردی کا اثر دھو ڈالو۔
اب جن حدیثوں میں ہے کہ احرام باندھنے سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خوشبو لگایا کرتے تھے، ان میں اور ان میں کوئی تعارض نہیں، برق صاحب کو غلط فہمی ہوئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھنے کے بعد خوشبو نہیں لگاتے تھے، بلکہ احرام سے پہلے خوشبو لگایا کرتے تھے، جیسا کہ حدیث میں صراحت ہے، حضرت عائشہ فرماتی ہیں:
کنت اطیب رسول اللہ ﷺ ثم یطوف علی نسائہ ثم یصبح محرما ینصخ طیبا۔ (صحیح مسلم جٍ۱، ص۴۸۹)
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خوشبو لگایا کرتی تھی، پھراس کے بعد آپ اپنی بیویوں سے ملنے جایا کرتے تھے۔ پھر صبح کو آپ احرام باندھ لیا کرتے تھے اور خوشبو کی مہک آپ کے بدن مبارک سے آیا کرتی تھی۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ احرام سے پہلے اگر خوشبو لگائی جائے اور خوشبو کی مہک احرام باندھنے کے بعد بھی آتی رہے، تو یہ جائز ہے، بلکہ سنت ہے۔
 
Top