- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
غلط فہمی
''حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تین چیزیں منحوس ہیں گھوڑا، عورت اور مکان'' ... اس ارشاد کا مقصد تو یہی ہوسکتا ہے کہ لوگ ان منحوس چیزوں سے بچیں، لیکن لوگ کیسے بچ سکتے ہیں، جب خود حضور نے ایک گھوڑا، گیارہ بیویاں اور نومکانات اپنے قبضے میں رکھے تھے، اگر کوئی ہم سے پوچھ بیٹھے، کہ کیا یہ قول اسی رسول کا ہے... جس نے فرمایا تھا کہ ''نکاح میری سنت ہے'' ... تو ہم کیا جواب دیں گے۔'' (دو اسلام ص: ۳۱۳، ۳۱۴)
قرآن مجید میں ہے:
ازالہ
{کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَبَعَثَ اللہُ النَّبِیّٖنَ} (البقرۃ)
''سب لوگ ایک ہی جماعت تھے پس اللہ نے نبیوں کو بھیجنا شروع کر دیا۔''
بتایے جب سب ایک ہی راستہ پر گامزن تھے، متفق و متحد تھے، کہیں اختلاف و افتراق کا نام و نشام نہیں تھا، تو پھر نبیوں کے بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا اختلاف پیدا کرنے کے لیے؟ قرآن کی اس آیت سے تو یہی نکلتا ہے؟ کیا یہ قرآن پر اعتراض نہیں ہے؟ لیکن قرآن کی دوسری آیات سے ثابت ہوتا ہے، کہ شروع میں لوگ متحد تھے، جب اختلاف کرنے لگے، تو نبیوں کی ضرورت محسوس ہوئی اور نبی بھیجے جانے لگے، یہ آیات مذکورہ بالا آیت پر سے اعتراض کو دور کر دیتی ہے، ایک آیت کی تشریح دوسری آیت کر دیتی ہے، اور غلط فہمی کا ازالہ کر دیتی ہے یہی حال حدیث کا ہے، ایک حدیث کی تشریح دوسری جگہ موجود ہوتی ہے، اگر کہیں مجمل حدیث ہو، تو غلط فہمی کا امکان تو ضرور ہے لیکن اس کا ازالہ دوسری احادیث سے ہوسکتا ہے جو آگے پیچھے موجود ہوتی ہیں، مگر اس کے لیے تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے، برق صاحب نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ کی حدیث نقل کی ہے، ان ہی عبداللہ بن عمر رضی اللہ سے دوسری جگہ اس حدیث کی تشریح موجود ہے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان کان الشؤم فی شئی ففی الدار والمرأۃ والفراس (صحیح بخاری)
''نحوست اگر کسی چیز میں ہوتی تو ان تین چیزوں میں بھی ہوتی، گھر، عورت، گھوڑا۔''
حضرت سہل کی روایت کا بھی یہی مضمون ہے، الفاظ یہ ہیں:
ان کان فی شئی ففی الفرس والمرأۃ والمسکن (صحیح بخاری)
''اگر نحوست کا کوئی وجود ہوتا، تو ان تین چیزوں میں بھی ہوتا، گھوڑا، عورت،گھر۔''
اب اس حدیث کا پس منظر ملاحظہ فرمایے، ایام جاہلیت میں لوگوں کا خیال تھا کہ فلاں فلاں چیزوں میں نحوست ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باطل عقیدہ کی تردید ان الفاظ میں کر دی، کہ نحوست کا کوئی وجود نہیں، اگر ہوتی تو ان محبوب تریں چیزوں میں بھی ہوتی جن سے کنارہ کشی ناممکن ہے کیا نحوست کی وجہ سے ان چیزوں کو چھوڑاجاسکتا ہے ہرگز نہیں، جب یہ نہیں ہوسکتا تو پھر محض نحوست کےوہم سے دوسری چیزوں کو چھوڑنا لا یعنی ہے، یہ تو ہے حدیث کا منشا، ہاں قرآن میں ضرورنحوست کا ذکر ملتا ہے، قوم عاد پر جو عذاب بھیجا گیا، وہ منحوس دنوں میں بھیجا گیا تھا، ارشاد باری ہے:
{اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِیحًا صَرْصَرًا فِیْ یَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ} (القمر)
''ہم نے ان پر دائمی منحوس دن میں سخت آندھی کا عذاب بھیجا تھا۔''
''حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تین چیزیں منحوس ہیں گھوڑا، عورت اور مکان'' ... اس ارشاد کا مقصد تو یہی ہوسکتا ہے کہ لوگ ان منحوس چیزوں سے بچیں، لیکن لوگ کیسے بچ سکتے ہیں، جب خود حضور نے ایک گھوڑا، گیارہ بیویاں اور نومکانات اپنے قبضے میں رکھے تھے، اگر کوئی ہم سے پوچھ بیٹھے، کہ کیا یہ قول اسی رسول کا ہے... جس نے فرمایا تھا کہ ''نکاح میری سنت ہے'' ... تو ہم کیا جواب دیں گے۔'' (دو اسلام ص: ۳۱۳، ۳۱۴)
قرآن مجید میں ہے:
ازالہ
{کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَبَعَثَ اللہُ النَّبِیّٖنَ} (البقرۃ)
''سب لوگ ایک ہی جماعت تھے پس اللہ نے نبیوں کو بھیجنا شروع کر دیا۔''
بتایے جب سب ایک ہی راستہ پر گامزن تھے، متفق و متحد تھے، کہیں اختلاف و افتراق کا نام و نشام نہیں تھا، تو پھر نبیوں کے بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا اختلاف پیدا کرنے کے لیے؟ قرآن کی اس آیت سے تو یہی نکلتا ہے؟ کیا یہ قرآن پر اعتراض نہیں ہے؟ لیکن قرآن کی دوسری آیات سے ثابت ہوتا ہے، کہ شروع میں لوگ متحد تھے، جب اختلاف کرنے لگے، تو نبیوں کی ضرورت محسوس ہوئی اور نبی بھیجے جانے لگے، یہ آیات مذکورہ بالا آیت پر سے اعتراض کو دور کر دیتی ہے، ایک آیت کی تشریح دوسری آیت کر دیتی ہے، اور غلط فہمی کا ازالہ کر دیتی ہے یہی حال حدیث کا ہے، ایک حدیث کی تشریح دوسری جگہ موجود ہوتی ہے، اگر کہیں مجمل حدیث ہو، تو غلط فہمی کا امکان تو ضرور ہے لیکن اس کا ازالہ دوسری احادیث سے ہوسکتا ہے جو آگے پیچھے موجود ہوتی ہیں، مگر اس کے لیے تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے، برق صاحب نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ کی حدیث نقل کی ہے، ان ہی عبداللہ بن عمر رضی اللہ سے دوسری جگہ اس حدیث کی تشریح موجود ہے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان کان الشؤم فی شئی ففی الدار والمرأۃ والفراس (صحیح بخاری)
''نحوست اگر کسی چیز میں ہوتی تو ان تین چیزوں میں بھی ہوتی، گھر، عورت، گھوڑا۔''
حضرت سہل کی روایت کا بھی یہی مضمون ہے، الفاظ یہ ہیں:
ان کان فی شئی ففی الفرس والمرأۃ والمسکن (صحیح بخاری)
''اگر نحوست کا کوئی وجود ہوتا، تو ان تین چیزوں میں بھی ہوتا، گھوڑا، عورت،گھر۔''
اب اس حدیث کا پس منظر ملاحظہ فرمایے، ایام جاہلیت میں لوگوں کا خیال تھا کہ فلاں فلاں چیزوں میں نحوست ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باطل عقیدہ کی تردید ان الفاظ میں کر دی، کہ نحوست کا کوئی وجود نہیں، اگر ہوتی تو ان محبوب تریں چیزوں میں بھی ہوتی جن سے کنارہ کشی ناممکن ہے کیا نحوست کی وجہ سے ان چیزوں کو چھوڑاجاسکتا ہے ہرگز نہیں، جب یہ نہیں ہوسکتا تو پھر محض نحوست کےوہم سے دوسری چیزوں کو چھوڑنا لا یعنی ہے، یہ تو ہے حدیث کا منشا، ہاں قرآن میں ضرورنحوست کا ذکر ملتا ہے، قوم عاد پر جو عذاب بھیجا گیا، وہ منحوس دنوں میں بھیجا گیا تھا، ارشاد باری ہے:
{اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِیحًا صَرْصَرًا فِیْ یَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ} (القمر)
''ہم نے ان پر دائمی منحوس دن میں سخت آندھی کا عذاب بھیجا تھا۔''