- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
غلط فہمی
ابو ذر نے حضور سے پوچھا کہ کیا آپ نے خدا کو دیکھا ہے، فرمایا، ہاں میں نے دیکھا، وہ ایک نور ہے۔ (مسلم ج۱، ص۳۴۱)
لیکن یہی ابو ذر اگلی حدیث میں کہتے ہیں:
میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا آپ نے اللہ کو دیکھا تھا، فرمایا '' ھو نور انی اراہ'' وہ نور ہے، میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں۔
یعنی ایک حدیث میں دیکھنے کی نفی ہے، اور دوسری میں اثبات۔ (دو اسلام ص ۳۱۹)
ازالہ
جس حدیث کو برق صاحب نے اگلی بتایا ہے، وہ پہلی حدیث ہے اور جس کو برق صاحب نے پہلی حدیث کی حیثیت سے پیش کیا ہے، وہ اگلی حدیث ہے، برق صاحب نے دوسری حدیث کو پہلے نقل کیا، اور پہلی کو بعد میں بات در حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ہی حدیث ہے جس کو برق صاحب دو حدیثیں سمجھ رہے ہیں، اس حدیث کو امام مسلم نے تین سندوں سے بیان کیا ہے، حدیث زیر بحث کو حضرت قتادہ سے روایت کرنے والے تین محدث ہیں، ایک محدث نے اس روایت کو مختصر ذکر کیا ہے، اس اختصار ہی کی وجہ سے برق صاحب کو غلط فہمی ہوئی، امام مسلم نے اس غلطی کو دور کرنے کے لیے فوراً حضرت قتادہ کے دوسروں شاگردوں کی سندیں نقل کردیں، اور یہ بتا دیا کہ پہلے صاحب کی روایت میں یہ نقص ہے، جس کو دور کرلیا جائے، حدیث کے جس حصہ کو وہ صاحب چھوڑ گئے ہیں، دوسرے اصحاب نے اسے بیان کیا ہے، اور وہ حصہ امام مسلم نے آگے بیان کیا ہے، گویا اس طرح حدیث کا متن محفوظ ہوگیا، اب ذیل میں دونوں سندوں کے متن درج ذیل ہیں، مقابلہ کیجئے تضاد کہاں ہے۔
سند اول: حضرت ابو ذر پوچھتے ہیں آپ نے اللہ کو دیکھا تھا، آپ فرماتے ہیں نور الی اراہ وہ نور ہے، اسے کیونکر دیکھ سکتا ہوں۔
سند ثانی و ثالث: ان سندوں میں وہ الفاظ جو پہلی سند میں رہ گئے ہیں مذکور ہیں، یعنی آپ نے یہ بھی فرمایا تھا '' رایت نورا'' میں نے ایک روشنی دیکھی تھی۔
ان تینوں اسناد کو ملا کر حدیث کا پورا متن اس طرح ہوا '' نورانی اراہ رأیت نورا'' وہ تو نور مجسم ہے، میں اسے کیونکر دیکھ سکتا ہوں، ہاں میں نے ایک روشنی دیکھی تھی۔
امام احمد کی مسند میں یہ دونوں ٹکڑے ایک ہی متن میں بیان ہوئے ہیں، الفاظ یہ ہیں:
قد رایتہ نور انی اراہ (فتح بانی مع بلوغ الامانی یعنی مسند احمد جز ۲۰، ص۲۰۹)
امام مسلم کی دانائی کی داد دینی چاہیے کہ پہلے تو انہوں نے مختصر حدیث کو مکمل کیا، پھر مزید غلط فہمی کو کرنے کے لیے فوراً اس روشنی کی تشریح میں ایک اور حدیث نقل کردی ، جس کے الفاظ یہ ہیں:
حجابہ النور
یعنی اللہ کا حجاب بھی نور ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو روشنی دیکھی تھی، وہ حجابات کی روشنی تھی نہ کہ اللہ تعالیٰ کے ذاتی روشنی ، بتائیے کہاں تضاد ہے۔
برق صاحب نے جو یہ الفاظ نقل کئے ہیں'' ہاں میں نے دیکھا تھا وہ ایک نور ہے'' معلوم نہیں یہ الفاظ کا ترجمہ ہے، صحیح مسلم میں اس قسم کی کوئی عبارت نہیں، جس کا یہ ترجمہ ہو، معلوم نہیں برق صاحب نے یہ ترجمہ کہاں سے نقل فرمایا ہے۔
ابو ذر نے حضور سے پوچھا کہ کیا آپ نے خدا کو دیکھا ہے، فرمایا، ہاں میں نے دیکھا، وہ ایک نور ہے۔ (مسلم ج۱، ص۳۴۱)
لیکن یہی ابو ذر اگلی حدیث میں کہتے ہیں:
میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا آپ نے اللہ کو دیکھا تھا، فرمایا '' ھو نور انی اراہ'' وہ نور ہے، میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں۔
یعنی ایک حدیث میں دیکھنے کی نفی ہے، اور دوسری میں اثبات۔ (دو اسلام ص ۳۱۹)
ازالہ
جس حدیث کو برق صاحب نے اگلی بتایا ہے، وہ پہلی حدیث ہے اور جس کو برق صاحب نے پہلی حدیث کی حیثیت سے پیش کیا ہے، وہ اگلی حدیث ہے، برق صاحب نے دوسری حدیث کو پہلے نقل کیا، اور پہلی کو بعد میں بات در حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ہی حدیث ہے جس کو برق صاحب دو حدیثیں سمجھ رہے ہیں، اس حدیث کو امام مسلم نے تین سندوں سے بیان کیا ہے، حدیث زیر بحث کو حضرت قتادہ سے روایت کرنے والے تین محدث ہیں، ایک محدث نے اس روایت کو مختصر ذکر کیا ہے، اس اختصار ہی کی وجہ سے برق صاحب کو غلط فہمی ہوئی، امام مسلم نے اس غلطی کو دور کرنے کے لیے فوراً حضرت قتادہ کے دوسروں شاگردوں کی سندیں نقل کردیں، اور یہ بتا دیا کہ پہلے صاحب کی روایت میں یہ نقص ہے، جس کو دور کرلیا جائے، حدیث کے جس حصہ کو وہ صاحب چھوڑ گئے ہیں، دوسرے اصحاب نے اسے بیان کیا ہے، اور وہ حصہ امام مسلم نے آگے بیان کیا ہے، گویا اس طرح حدیث کا متن محفوظ ہوگیا، اب ذیل میں دونوں سندوں کے متن درج ذیل ہیں، مقابلہ کیجئے تضاد کہاں ہے۔
سند اول: حضرت ابو ذر پوچھتے ہیں آپ نے اللہ کو دیکھا تھا، آپ فرماتے ہیں نور الی اراہ وہ نور ہے، اسے کیونکر دیکھ سکتا ہوں۔
سند ثانی و ثالث: ان سندوں میں وہ الفاظ جو پہلی سند میں رہ گئے ہیں مذکور ہیں، یعنی آپ نے یہ بھی فرمایا تھا '' رایت نورا'' میں نے ایک روشنی دیکھی تھی۔
ان تینوں اسناد کو ملا کر حدیث کا پورا متن اس طرح ہوا '' نورانی اراہ رأیت نورا'' وہ تو نور مجسم ہے، میں اسے کیونکر دیکھ سکتا ہوں، ہاں میں نے ایک روشنی دیکھی تھی۔
امام احمد کی مسند میں یہ دونوں ٹکڑے ایک ہی متن میں بیان ہوئے ہیں، الفاظ یہ ہیں:
قد رایتہ نور انی اراہ (فتح بانی مع بلوغ الامانی یعنی مسند احمد جز ۲۰، ص۲۰۹)
امام مسلم کی دانائی کی داد دینی چاہیے کہ پہلے تو انہوں نے مختصر حدیث کو مکمل کیا، پھر مزید غلط فہمی کو کرنے کے لیے فوراً اس روشنی کی تشریح میں ایک اور حدیث نقل کردی ، جس کے الفاظ یہ ہیں:
حجابہ النور
یعنی اللہ کا حجاب بھی نور ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو روشنی دیکھی تھی، وہ حجابات کی روشنی تھی نہ کہ اللہ تعالیٰ کے ذاتی روشنی ، بتائیے کہاں تضاد ہے۔
برق صاحب نے جو یہ الفاظ نقل کئے ہیں'' ہاں میں نے دیکھا تھا وہ ایک نور ہے'' معلوم نہیں یہ الفاظ کا ترجمہ ہے، صحیح مسلم میں اس قسم کی کوئی عبارت نہیں، جس کا یہ ترجمہ ہو، معلوم نہیں برق صاحب نے یہ ترجمہ کہاں سے نقل فرمایا ہے۔