• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ابو ذر نے حضور سے پوچھا کہ کیا آپ نے خدا کو دیکھا ہے، فرمایا، ہاں میں نے دیکھا، وہ ایک نور ہے۔ (مسلم ج۱، ص۳۴۱)
لیکن یہی ابو ذر اگلی حدیث میں کہتے ہیں:
میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا آپ نے اللہ کو دیکھا تھا، فرمایا '' ھو نور انی اراہ'' وہ نور ہے، میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں۔
یعنی ایک حدیث میں دیکھنے کی نفی ہے، اور دوسری میں اثبات۔ (دو اسلام ص ۳۱۹)
ازالہ
جس حدیث کو برق صاحب نے اگلی بتایا ہے، وہ پہلی حدیث ہے اور جس کو برق صاحب نے پہلی حدیث کی حیثیت سے پیش کیا ہے، وہ اگلی حدیث ہے، برق صاحب نے دوسری حدیث کو پہلے نقل کیا، اور پہلی کو بعد میں بات در حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ہی حدیث ہے جس کو برق صاحب دو حدیثیں سمجھ رہے ہیں، اس حدیث کو امام مسلم نے تین سندوں سے بیان کیا ہے، حدیث زیر بحث کو حضرت قتادہ سے روایت کرنے والے تین محدث ہیں، ایک محدث نے اس روایت کو مختصر ذکر کیا ہے، اس اختصار ہی کی وجہ سے برق صاحب کو غلط فہمی ہوئی، امام مسلم نے اس غلطی کو دور کرنے کے لیے فوراً حضرت قتادہ کے دوسروں شاگردوں کی سندیں نقل کردیں، اور یہ بتا دیا کہ پہلے صاحب کی روایت میں یہ نقص ہے، جس کو دور کرلیا جائے، حدیث کے جس حصہ کو وہ صاحب چھوڑ گئے ہیں، دوسرے اصحاب نے اسے بیان کیا ہے، اور وہ حصہ امام مسلم نے آگے بیان کیا ہے، گویا اس طرح حدیث کا متن محفوظ ہوگیا، اب ذیل میں دونوں سندوں کے متن درج ذیل ہیں، مقابلہ کیجئے تضاد کہاں ہے۔
سند اول: حضرت ابو ذر پوچھتے ہیں آپ نے اللہ کو دیکھا تھا، آپ فرماتے ہیں نور الی اراہ وہ نور ہے، اسے کیونکر دیکھ سکتا ہوں۔
سند ثانی و ثالث: ان سندوں میں وہ الفاظ جو پہلی سند میں رہ گئے ہیں مذکور ہیں، یعنی آپ نے یہ بھی فرمایا تھا '' رایت نورا'' میں نے ایک روشنی دیکھی تھی۔
ان تینوں اسناد کو ملا کر حدیث کا پورا متن اس طرح ہوا '' نورانی اراہ رأیت نورا'' وہ تو نور مجسم ہے، میں اسے کیونکر دیکھ سکتا ہوں، ہاں میں نے ایک روشنی دیکھی تھی۔
امام احمد کی مسند میں یہ دونوں ٹکڑے ایک ہی متن میں بیان ہوئے ہیں، الفاظ یہ ہیں:
قد رایتہ نور انی اراہ (فتح بانی مع بلوغ الامانی یعنی مسند احمد جز ۲۰، ص۲۰۹)
امام مسلم کی دانائی کی داد دینی چاہیے کہ پہلے تو انہوں نے مختصر حدیث کو مکمل کیا، پھر مزید غلط فہمی کو کرنے کے لیے فوراً اس روشنی کی تشریح میں ایک اور حدیث نقل کردی ، جس کے الفاظ یہ ہیں:
حجابہ النور
یعنی اللہ کا حجاب بھی نور ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو روشنی دیکھی تھی، وہ حجابات کی روشنی تھی نہ کہ اللہ تعالیٰ کے ذاتی روشنی ، بتائیے کہاں تضاد ہے۔
برق صاحب نے جو یہ الفاظ نقل کئے ہیں'' ہاں میں نے دیکھا تھا وہ ایک نور ہے'' معلوم نہیں یہ الفاظ کا ترجمہ ہے، صحیح مسلم میں اس قسم کی کوئی عبارت نہیں، جس کا یہ ترجمہ ہو، معلوم نہیں برق صاحب نے یہ ترجمہ کہاں سے نقل فرمایا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
مشہور واقعہ ہے کہ حضور نے اپنی ایک زوجہ کے ہاں جا کر شہد کھایا، چند دیگر ازواج نے سازش کرکے حضور سے کہا کہ آپ کے منہ سے بدبو آتی ہے، جس پر حضور نے قسم کھالی کہ میں آیندہ شہد نہیں کھاؤں گا، اور معاً یہ آیت نازل ہوئی، اے رسول ایک حلال چیز کو حرام کرنے کے اختیارات تمہیں کس نے دئیے ہیں، کیا تم بیویوں کو خوش کرنے کے لیے یہ کر رہے ہو۔ (قرآن)
اس واقعہ کو تجرید بخاری ص ۸۵۶ کی ایک حدیث میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ حضور نے زینب کے ہاں شہد کھایا، اور حضرت عائشہ و حفصہ نے سازش کی ، لیکن ایک اور حدیث (تجرید البخاری ۸۹۳) میں بتایا گیا ہے کہ شہد حفصہ کے ہاں کھایا گیا تھا، اور سازش حضرت عائشہ ، حضرت سورہ اور حضرت صفیہ نے کی تھی، یہ اتنا بڑا واقعہ تھا کہ اس پر تہدید بھی نازل ہوئی، لیکن پھر بھی ہمارے راوی نہ بتا سکے کہ حقیقت کیا تھی، کیا انہی روایات کو وحی کہا جاتا ہے۔ (دو اسلام ص ۳۱۹۔ ۳۲۰)
ازالہ
یہ سازش کس نے کی تھی؟ اگر یہ نہ معلوم ہوسکا، تو کون سا دینی حکم ناقص رہ گیا، بلکہ اس میں بھی اللہ کی مصلحت تھی کہ سازش کرنے والی بیوی کا نام لوگوں کو معلوم نہ ہو، تاکہ کسی بیوی کو اس معاملہ میں دوسروں کے سامنے شرمندگی کا موقع نہ ہو، وہ ستار، اللہ تو پردہ پوشی فرماتا ہے، اور آپ چاہتے ہیں راوی اسے ظاہر کردیں، اور صحیح نام بتا دیں، یہ ناممکن ہے، اور اللہ کی مصلحت و ستاری کے منافی ہے قرآن نے بھی ناموں کی صراحت نہیں کی، نہ واقعہ کی تفصیل بیان کی، صرف ایک اصول اور حکم بیان کردیا خاموش ہوگیا، اب بتائیے یہ اصولی حکم دین کی جان ہے یا وہ تفصیلات؟ قرآن و حدیث میں دین کی نفی ہوتی ہیں، اور جہاں تک دین و عبرت کی باتیں ہوتی ہیں، وہاں تک ان میں تفصیل ہوتی ہے اور جہاں باتوں سے دین و عبرت کا تعلق نہیں ہوتا، وہاں صرف اشارے ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات حقیقت کو بالکل مستور رکھا جاتا ہے، مثلاً اصحاب کہف کی تعداد کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مختلف اقوال بیان کیے اور پھر بھی یہ نہیں بتایا کہ وہ کتنے ہیں، بس اتنا کہہ دیا کہ ان کی صحیح تعداد کو صرف اللہ ہی جانتا ہے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ تین مختلف غلط اقوال بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ صحیح تعداد بیان کردی جاتی، تینوں مختلف اقوال کا بطلان بھی ہو جاتا، اور صحیح تعداد بھی معلوم ہوجاتی لیکن اہم واقعہ لیکن پھر بھی قرآن یہ نہ بتا سکا کہ وہ کتنے تھے کیا اب ہم یہ کہنے کے مجاز ہیں کہ '' یہی وہ وحی ہے جس ایمان لانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے'' ہرگز ہمیں یہ اختیار نہیں ہے کہ ایسی باتیں منہ سے نکالیں، ایسی غیر ضروری چیزوں کو وقعت نہیں دیتا، تعداد کا تعلق دین سے نہیں ہے، لہٰذا اس سے خاموشی برتی گئی تو کوئی اعتراض نہیں، اسی طرح سازش کرنے والی بیوی کو آشکارانہ کیا گیا، کیونکہ اس کا تعلق دین سے نہیں، اگر اس بیوی کا نام نہ بھی معلوم ہو، تو بھی دینی احکام میں کسی قسم کا نقص نہیں آتا۔
برق صاحب جن احادیث کو وحی کہا جاتا ہے، وہ تو وہ احادیث ہیں، جن سے دینی احکام شبہ ہوتے ہیں، جن کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول و فعل سے ہوتا ہے، بیویوں کا نام بیان یہ تو صحابہ کا فعل ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نام بیان نہیں کئے، اب اگر یہ نام محفوظ نہ ہوں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ بعض صحابہ کے گمان صحیح نہیں نکلے، انہوں نے اپنے قیاس سے نام تو بتائیے لیکن قیاس ٹھیک نہیں تھا، اور اللہ کو یہی منظور تھا نتیجہ یہ نکلا کہ بعض صحابہ کا ظن و تخمین اگر خلاف واقعہ ہوا۔ اس سے حدیث نبوی پر کیا اثر پڑتا ہے، بلکہ ظن و تخمین تو اگر نبی کا بھی ہو، تو اس سے ان دینی احکام پر کوئی اثر نہیں پڑتا، جن کو وہ نبی ظن و تخمین سے نہیں، بلکہ قطعی یقین کے ساتھ اللہ کی طرف سے خبردار کرتا ہے۔ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ احادیث میں جو کچھ ہو، بس صحیح اور مطابق واقعہ ہو، تو یہ نہیں ہوسکتا، یہ چیز تو قرآن میں بھی نہیں ہے، قرآن میں کافروں کے غلط اقوال نقل ہوئے ہیں، شیطان کا غلط قیاس موجود ہے بلکہ یہاں تک ہے کہ '' اغوتینی'' شیطان نے کہا کہ اے اللہ تو نے ہی مجھے گمراہ کیا ہے، پھر تو قرآن میں اس غلط قیاس کی تردید ہے، نہ اس گمراہی کے الزام کی تغلیط، اسی طرح اصحاب کہف کی تعداد کے سلسلہ میں تین غلط اقوال نقل کئے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ
پس ثابت ہوا کہ اگر کوئی شخص غلطی کرے، اور اس غلطی کو ایک سچا آدمی نقل کردے تو اس سچے آدمی پر کوئی حرف نہیں آتا، لوگوں کے غلط اقوال نقل کرنے سے قرآن کو غلط نہیں کہہ سکتے، اسی طرح کسی شخص کی غلطی یا غلط فہمی بیان کرنے سے کتب حدیث غلط نہیں ہوسکتیں، صحابہ نے ناموں کے بتانے میں قیاس کیا، قیاس میں اختلاف ہوگیا، محدثین نے اس اختلاف کو نقل کردیا، تو اس سے نفس حدیث پر کیا ۔ اس کے گمان کو وحی کسی نے نہیں کہا، ہاں وہ حدیث وحی ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کے دینی احکام کی تشریح میں قولاً و فعلاً صادر ہوئی ہے، اور ایسی ہر حدیث بالکل محفوظ ہے، اور اس پر لازماً لازمی ہے۔
برخلاف اس کے کسی شخص کے قیاس پر ایمان لانا ضروری نہیں، خواہ وہ حدیث کی کتاب میں ہو، مثلاً شیطان کا یہ قیاس کہ میں آدم علیہ السلام سے بہتر ہوں، یا یہ کہ مجھے اللہ نے گمراہ کردیا کی صحت پر ایمان نہیں ہے، ہمارا ایمان محض اللہ تعالیٰ کی خبر پر ہے، یہ صحیح ہے کہ اس نے یہ قیاس کیا تھا، اسی طرح یہ بھی صحیح ہے کہ بعض صحابہ نے حضرت عائشہ کا نام بتایا تھا۔ ان دونوں قیاسوں کی صحت پر ہمارا ایمان نہیں اور نہ ان غلط قیاسوں کے بیان کرنے والے یا نقل کرنیوالی کتابیں ناقابل اعتبار ہیں، اس طرح غلط گمانوں، غلط قیاسوں کو نقل کرنے سے کتاب غیر معتبر ہے، تو پھر یہ اعتراض قرآن پر بھی ہوگا۔ نعوذ باللہ من ہذہ الخرافات۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
صفحات گزشتہ میں ہم حضرت انس کی یہ روایت نقل کرچکے ہیں کہ کس طرح حضرت جبریل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ بچپن میں چیر کر دل کا وہ حصہ کاٹ ڈالا تھا، جس پر شیطان کا غلبہ ہوا کرتا ہے، اس واقعہ کے متعلق ابو ذر کہتے ہیں کہ جبریل چھت پھاڑ کر گھر میں اتر آیا تھا اور اس نے آپ کا سینہ چیرا تھا۔ (مسلم ج۲، ص۳۲۴)
چھت پھاڑنے کی بھی خوب کہی، ایک نوری مخلوق کہ جس کا نہ کوئی حجم ہے، نہ وزن ، چھت پھاڑنے کی کیا ضرورت تھی، اور اگر بالفرض وزن و حجم تھا، تو کیا گھر میں داخل ہونے کے لیے کوئی دروازہ موجود نہیں تھا؟ سب کچھ تھا۔ (دو اسلام ص ۳۲۰)
ازالہ
برق صاحب آپ نے یہ نہیں بتایا کہ رات کے وقت وہ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ یا بند تھا اگر بند تھا ، تو پھر چھت کو پھاڑ کے آنے میں کیا تعجب ہے اگر بند نہیں تو اس کا ثبوت کیا حوالہ دیجئے۔
دوسرا اعتراض برق صاحب کا یہ ہے کہ نوری مخلوق کے لیے دروازہ کی ضرورت ہی کیا ہے، میں کہتا ہوں کہ روشنی بھی ایک نور ہی ہے لیکن روشنی بغیر روشن دان، سوراخ، دروازہ یا کھڑکی کے کمرہ میں نہیں ہوتی، کیا کسی بند مکان میں آپ نے روشنی کو آتے دیکھا ہے، پھر روشنی کی شعاعوں کے لیے بھی ضرورت ہے، وہ ہے واسطہ (M edium) سائنسدانوں نے واسطہ کو ضروری سمجھا اور جب ان کی سمجھ میں کوئی واسطہ نہیں آیا، تو ایک فرضی واسطہ بنا بیٹھے، جس کا نام انہوں نے ایتھر (ETher) رکھ لیا، بتائیے کیا نور کے لیے بھی کسی واسطہ کی ضرورت ہے؟ سائنس تو یہی کہتی ہے کہ نور کے لیے شفاف واسطہ کی ضرورت ہے، لہٰذا نوری مخلوق کے لیے بھی واسطہ کی ضرورت ہے، آخر یہ کیا مشکل بات ہے، جو آپ کی سمجھ میں نہیں آتی۔
برق صاحب ذرا برق کو ملاحظہ فرمائیے، کتنی غیر مرئی چیز ہے، لیکن اس کو واسطہ اور راستہ کی ضرورت ہے، جب تک اس کے لیے برقی موصل نہ ہو، وہ گزر نہیں سکتی، اگر موصل ہو تو ٹھیک، ورنہ وہ چھتوں کو پھاڑتی ہوئی ، دیواروں کو توڑتی ہوئی اپنا راستہ بنا لیتی ہے، اسی پر فرشتوں کو قیاس کرلیجئے، اور پھر اس پر اللہ تعالیٰ کی مصلحت کو اور چسپاں کرلیجئے، ان شاء اللہ آپ کی سمجھ میں آجائے گا، رہا حکم کونی تو وہ بھی قدرت کا ایک کرشمہ ہے، اس کے ذریعہ سے ہر ناممکن چیز ممکن ہو جاتی ہے، اس حکم سے اس وقت بحث نہیں، اس وقت تو بحث سائنس کی روشنی میں ہو رہی ہے، اللہ تو سب کچھ کرسکتا ہے، لیکن عادت الٰہی یہی ہے کہ پہلے سبب پیدا کرتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
لیکن جب تک ہمارے علماء داستان میں ڈرامائی رنگ نہ بھر لیں، انہیں تسلی نہیں ہوتی۔ (دو اسلام ص ۳۲۰۔ ص۳۲۱)
ازالہ
برق صاحب قرآن شریف میں ہے:
{ قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ فَلَمَّا رَاٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ قَالَ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ } (النمل)
ایک ذی علم شخص نے کہا کہ میں ملکہ سبا کے تخت کو اتنی دیر میں لا سکتا ہوں، جتنی دیر میں آپ کی پلک جھپکے (اتنی دیر میں وہ تخت آگیا) تو اس کو دیکھ کر سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ یہ میرے رب کا فضل ہے۔
کیا یہ بھی ڈرمائی رنگ ہے؟ دوسری آیت ملاحظہ فرمائیے:
{ وَ اٰتَیْنٰہُ مِنَ الْکُنُوْزِمَآ اِنَّ مَفَاتِحَہٗ لَتَنُؤٓاُ بِالْعُصْبَۃِ اُولِی الْقُوَّۃِ } (القصص)
ہم نے قارون کو اتنے خزانہ دئیے تھے کہ آدمیوں کی ایک طاقتور جماعت کنجیوں کے بوجھ کی متحمل نہ ہوسکتی تھی۔
یہ تو کنجیوں کا حال ہے، تو پھر خزانوں کے وزن کا اللہ ہی حافظ ہے، کیا یہ بھی ڈرامائی رنگ ہے؟ برق صاحب قرآن شریف کو آپ غور سے پڑھ لیں، تو کم از کم حدیث کے متعلق آپ کی غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی، کیا مذکورہ بالاآیتوں کے بیان کو بھی آپ علماء کی رنگ آمیزی کہہ سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ حدیث میں ایسی بات آئی اور آپ کو تعجب ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اسی واقعہ کو مالک بن صعصعہ خواب کا واقعہ بتاتے ہیں اور میرے خیال میں یہ صورت زیادہ قرین قیاس ہے۔ (دو اسلام ص ۳۲۱)
ازالہ
جب یہ بات تھی تو بلاوجہ آپ نے اس حدیث پر اعتراض کیا۔
انتباہ
برق صاحب نے اس شق صدر کو جو ایام طفولیت میں ہوا تھا، اور اس شق صدر کو جو واقعہ معراج میں ہوا تھا، ایک ہی واقعہ سمجھا، اور اسی لیے انہوں نے ان دونوں احادیث کو بطور تعارض نقل کیا ہے، کیونکہ دونوں واقعات علیحدہ علیحدہ ہیں، اس لیے تفصیلات میں فرق ہونے سے تعارض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کاش لکھنے سے پہلے وہ اس پر غور کرلیتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ابو موسیٰ حضور سے روایت کرتے ہیں کہ مردوں میں بڑے بڑے کامل انسان ہو گزرے ہیں، لیکن عورتوں میں آسیہ زوجہ فرعون، اور مریم بنت عمران کے بغیر کوئی اور عورت درجہ کمال تک نہیں پہنچی اور یاد رکھو کہ جس طرح ثرید کھانوں کا سردار ہے اسی طرح عائشہ تمام عورتوں کی سردار ہے۔ (بخاری جلد ۲، ص ۱۶۱)
خلاصہ یہ کہ حضرت عائشہ خیر النساء ہیں لیکن ایک اور حدیث میں مذکور ہے:
کہ امت عیسیٰ کی بہترین عورت مریم تھی، اور میری امت کی بہترین خدیجۃ الکبری ہیں (بخاری ۲، ص ۱۶۴)
یعنی خدیجۃ الکبری خیر النساء ہیں۔
ایک اور حدیث میں حضرت فاطمہ کو جنتی عورتوں کا سردار قرار دیا گیا ہے (ملاحظہ ہو بخاری ۲، ص ۱۸۴)
اب ہم کیا سمجھیں کہ خیر النساء کون ہے۔ (دو اسلام ص ۳۲۱)
ازالہ
یہ تو صحیح ہے کہ پہلی حدیث کے مطابق حضرت عائشہ تمام عورتوں سے افضل ہیں، تمام اگلی اور پچھلی عورتوں کی سردار ہیں، اب دوسری حدیث کا مطلب سنیے، حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
خیر نساء ھم مریم بنت عمران وخیر نساء ھا خدیجہ بنت خویلد قال ابوکریب واشار وکیع الی السماء ولارض۔ (صحیح مسلم)
آسمان و زمین کی بہترین عورت مریم بنت عمران ہیں اور بہترین عورت خدیجہ ہیں۔
اس حدیث میں تو یہ نہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا تمام عورتوں کی سردار ہیں، یا حضرت مریم تمام عورتوں کی سردار ہیں، ہاں دونوں کا شمار دنیا کی بہترین عورتوں میں ہے۔
تیسری حدیث جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے متعلق ہے، اس میں حضرت فاطمہ کی منقبت میں تین قسم کے جملہ ہیں، جو ایک دوسرے کی تشریح کرتے ہیں:
(۱) سیدۃ نساء اہل الجنہ
جنتی عورتوں کی سردار
(۲) سیدۃ نساء ھذہ الامۃ
اس امت کی عورتوں کی سردار
(۳) سیدۃ نساء المومنین
مومنین کی عورتوں کی سردار (یعنی اس حدیث کی روشنی میں ازواج مطہرات مستثنیٰ ہوگئیں)۔
تینوں حدیثوں کا خلاصہ یہ ہوا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا اس امت کے مومنین کی عورتوں کی سردار ہونگی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا تمام عورتوں کی سردار ہیں، اور حضرت خدیجہ روئے زمین کی بہترین عورتوں میں سے ہیں، لہٰذا کوئی اشکال نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسرا جواب
ان تینوں کا جواب ایک اور طریقہ سے بھی ہوسکتا ہے، فرض کیجئے، حضرت مریم ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا عورتوں کی سردار ہیں، تو اس کی مثال اس طرح دی جاسکتی ہے یعنی ایک کمانڈان چیف تمام فوج کا سردار ہوتا ہے، وزیر دفاع بھی فوج کا سردار ہوتا ہے، وزیراعظم بھی فوج کا سردار ہوتا ہے اور پھر بادشاہ یا صدر بھی فوج کا سردار ہوتا ہے، ہر ایک کی سرداری میں فرق ہوتا ہے، لیکن ہیں سب سردار، یہاں بھی اسی طرح آپ فرض کرسکتے ہیں کہ حضرت فاطمہ بھی سردار اور ان سے اوپر حضرت مریم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا بھی سردار، اور ان سب کے اوپر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا بھی سردار۔ کہئے اب کیا اشکال رہا، اس اشکال کو دور کرنے کے بعد میں پوچھتا ہوں کہ اگر یہ گتھی نہ بھی سلجھے تو آخر یہ دین کا کونسا ایسا حکم ہے جس کو نہ سمجھنے سے عمل میں کوتاہی ہوگی، اگر ان تینوں احادیث کا خلاصہ ہم اتنا ہی مان لیں کہ یہ چاروں عورتیں بہترین عورتیں ہیں، تو بتائیے ہمارے ایمان میں کون سی کمی آجائے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تیسرا قرآنی جواب
اچھا اب ان احادیث کا جواب قرآن کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے، قرآن میں ہے:
{ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ } (اٰل عمران)
تم بہترین امت ہو۔
وفضلنا ھم علی العلمین (جاثیۃ)
ہم نے بنی اسرائیل کو تمام عالم پر فضیلت دی تھی۔
''عالمین'' جملہ '' رب العالمین'' کا بھی ایک جز ہے اور اس کا مفہوم کتنا وسیع ہے یہ آپ کو بھی معلوم ہے۔
پہلی آیت سے معلوم ہوا کہ '' خیر امت'' امت محمدیہ ہے اور دوسری آیت سے معلوم ہوا کہ '' خیر امت'' امت موسوی ہے، اب بتائیے کہ خیر امت (بہترین امت) کون ہے؟ جو تطبیق کی صورت آپ یہاں پیدا کریں گے، وہی احادیث میں بھی پیدا کی جاسکتی ہے، بشرطیکہ آپ پیدا کرنے کی کوشش کریں، برق صاحب اسی لیے تو میں بار بار کہتا ہوں کہ حدیث کو سمجھنے کے لیے قرآن کے بڑے گہرے مطالعہ کی ضرورت ہے۔ فللہ الحمد
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باب ۱۹
'' چند دلچسپ احادیث''

غلط فہمی
آج گھر گھر ریڈیو موجود ہے، رات کے نو بجے پہلے ریڈیو کے پاس بیٹھ کر انگلستان لگائیے پھر ٹوکیو، اور اس کے بعد امریکہ، آپ کو معاً یقین ہو جائے گا کہ زمین کا سایہ (رات) نصف دنیا پر ہے، اور نصف دیگر پہ آفتاب پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے، اس حقیقت کی وضاحت کے بعد اب ذرا یہ حدیث دیکھئے۔
... آپ نے فرمایا کہ سورج بعد از غروب خدائی تخت (عرش) کے نیچے سجدہ میں گر جاتا ہے، رات بھر اسی حالت میں پڑا دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت مانگتا رہتا ہے، چنانچہ اسے مشرق سے دوبارہ نکلنے کی اجازت مل جاتی ہے، لیکن ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ اسے اجازت نہیں ملے گی، اور حکم ہوگا کہ لوٹ جاؤ ... چنانچہ وہ مغرب کی طرف سے نکلنا شروع کردے گا۔ (دو اسلام ص ۳۲۳)
ازالہ
اگر سورج کے چلنے پر اعتراض ہے، تو یہ قرآن سے بھی ثابت ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{ وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَھَا } (لیس)
سورج اپنے مستقر کی طرف چلتا رہتا ہے ۔
اور جدید سائنس نے بھی اب اس زمانہ میں سورج کی حرکت کو تسلیم کرلیا ہے۔
اب رہا سجدہ کرنا ، تو یہ بھی قرآن سے ثابت ہے، سنیے:
{ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ یَسْجُدُلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَالدَّ وَآبُّ وَکَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ } (الحج)
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آسمان و زمین کی تمام مخلوقات، سورج، چاند، تارے، پہاڑ، درخت، جانور اور بہت سے آدمی اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں۔
لہٰذا سجدہ کرنے کا جو اعتراض حدیث پر ہے، وہی قرآن پر ہوگا، نعوذ باللہ منہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اگر ہم رات کے دس بجے پاکستان ریڈیو سے دنیا کو یہ حدیث سنائیں اور کہیں کہ اس وقت سورج عرش کے نیچے سجدہ میں پڑا ہوا ہے، تو ساری مغربی دنیا کھلکھلا کر ہنس دے اور وہاں کے تمام مسلمان اسلام چھوڑ دیں۔ (دو اسلام ص ۳۲۴)
ازالہ
برق صاحب یہ عبارت اس طرح بھی تبدیل کی جاسکتی ہے اگر ہم دن کے بارہ بجے بھارت ریڈیو سے یہ آیت دنیا کو سنائیں اور کہیں کہ اس وقت سورج سجدہ میں پڑا ہوا ہے، اور ہمالیہ پہاڑ بھی سجدہ میں پڑا ہوا ہے، تو مغربی دنیا ہی نہیں ساری دنیا کھل کھلا کر ہنس دے، اور پھر کیا کہے، یہ آپ خود سوچ لیں۔
برق صاحب آپ نے یہ سمجھ لیا کہ جس طرح ہم سجدہ کرتے ہیں، اسی طرح تمام مخلوق سجدہ کرتی ہے، بس یہی اصلی غلط فہمی ہے، ہر ایک مخلوق کی نماز ، تسبیح، سجدہ علیحدہ علیحدہ ہے، اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے:
{ قُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلٰوتَہٗ وَتَسْبِیْحَہٗ } (نور)
ہر چیز اپنی نماز اور تسبیح کو جانتی ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
{ وَلٰکِنْ لَا تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ } (الاسراء)
لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے۔
اب معلوم ہوا کہ سورج و چاند اور پہاڑ وغیرہ سجدہ تو کرتے ہیں، لیکن ان کے سجدہ کی کیفیت کا ہمیں علم نہیں، لہٰذا حدیث اپنی جگہ پر صحیح ہے، لیکن کیفیت کا ہمیں علم نہیں کہ سورج سجدہ کس طرح کرتا ہے عرش کے نیچے جانے کا کیا مطلب ہے؟ اجازت چاہنے کا کیا مطلب ہے؟ وغیرہ وغیرہ
ان باتوں کا علم اللہ تعالیٰ کے سوائے کسی کو نہیں اور نہ ان کے پیچھے پڑنا چاہیے، برق صاحب آپ سائنس کی روشنی میں بھی اگر اس حدیث کا مطلب کرنا چاہتے تو کرسکتے تھے ، آپ نے تو نہیں کیا، لیکن میں کئے دیتا ہوں، ملاحظہ فرمائیے:
انھا تذھب
سورج غروب ہو جاتا ہے۔
حتی تسجد تحت العرش
اور اللہ کے حکم تکوینی اور قوانین حرکت کے ماتحت اپنی حرکت کو جاری رکھتا ہے۔
فتستاذن فیوذن لھا
وہ ہر لمحہ اور ہر آن اذن الٰہی کا منتظر رہتا ہے اور کیونکہ آگے بڑھنے کی ممانعت نہیں ہوتی، لہٰذا اسی کو آگے بڑھنے کی اجازت سمجھ کر وہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔
ویوشک ان تسجد
لیکن قیامت کے قریب ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ وہ انہی قوانین حرکت کے ماتحت آگے بڑھنا چاہے گا۔
فلا یقبل منھا
لیکن اب اس کو آگے بڑھنے کی منظوری نہیں دی جائے گی۔
فیقال لھا ارجعی من حیث جئت
اور اس سے کہا جائے گا کہ اب اس مستقر سے واپس ہو جا، اور اسی طرف چلا جا جس طرف سے تو آرہا ہے (یہ مستقر یا Trring Point وہ جگہ ہے جہاں رک کر وہ فوراً واپس ہوگا)
فتطلع من مغربھا الخ
پس وہ مغرب سے طلوع ہوگا (قرآن کی آیت '' الشمس تجری المستقرلھا'' کی یہی تفسیر ہے)
بتائیے ان معنوں میں کیا اشکال ہے ، برق صاحب بات در حقیقت یہ ہے، کہ کچھ تو آپ سمجھے نہیں، اور کچھ مترجم نے رنگ آمیزی سے ترجمہ کیا، مثلاً ''رات بھر اسی حالت میں پڑا دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت مانگتا رہتا ہے'' حالانکہ متن میں یہ عبارت نہیں ہے پورا متن اوپر نقل کردیا گیا ہے ملاحظہ فرمائیے:
برق صاحب مذکورہ بالا معنی میں نے کر تو دئیے ہیں لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ کے علم میں بھی یہی معنی ہیں، لہٰذا میں تو اس حدیث پر بلا کیف ایمان لاتا ہوں اور اس کی تاویل کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں، یہ معنی مادی لوگوں کی خاطر کردئیے گئے ہیں تاکہ وہ بجائے مذاق اڑانے کے، ان معنوں کے ماتحت ہی حدیث پر ایمان لے آئیں، تو بھی غنیمت ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
{ حَتّٰی ۔ٓ اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَھَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَۃٍ } (الکھف)
ذوالقرنین جب وہاں پہنچے، جہاں سورج غروب ہوتا ہے، تو دیکھا کہ وہ کیچڑ کے ایک چشمہ میں غروب ہو رہا ہے۔
اب آپ فرمائیں، اس سائنس کے زمانہ میں ریڈیو پاکستان سے مغرب کے وقت یہ آیت اگر سنا دی جائے تو کیا ہوگا ، اللہ تعالیٰ غلط فہمی سے بچائے۔ آمین
 
Top