- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
غلط فہمی
ابن عمر رضی اللہ عنہ حضور سے روایت کرتے ہیں کہ سورج نکلتے اور ڈوبتے وقت نماز نہ پڑھا کرو اس لیے کہ سورج بوقت طلوع شیطان کے دو سینگوں میں پھنسا ہوا ہوتا ہے۔ (بخاری جلد ۲، ص ۱۳۴)
سورج کی موٹائی ساڑھے بتیس ارب میل ہے، اگر اتنی بڑی چیز شیطان کے دو سینگوں میں سما جاتی ہے ... اتنا بڑا شیطان کھڑا کہاں ہوتا ہوگا؟ (دو اسلام ص ۳۲۴)
ازالہ
برق صاحب کو بڑی غلط فہمی ہوئی، انہوں نے مادی عینک سے اس حدیث کو دیکھا، ایسی حدیثوں پر بلا کیف و تاویل ایمان لانا چاہیے نہ کہ مادی دنیا کے فاصلے ناپنے لگ جائیں، حدیث کا مطلب اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ہم یہ فرض کریں کہ شیطان سورج کے سامنے اس طرح کھڑا ہو جاتا ہے کہ دیکھنے والے کو سورج اس کے دو سینگوں کے درمیان دکھائی دے، اگر ہم اپنی دو انگلیوں کو علیحدہ کرکے آنکھ سے ذرا دو رسورج کی طرف کرلیں، تو سورج دو انگلیوں کے بیچ میں دکھائی دے گا، بس اسی طرح وہ دو سینگوں کے درمیان میں بھی دکھائی دے سکتا ہے، اگرچہ ہماری آنکھیں ان سینگوں کو نہیں دیکھتیں لیکن کیونکہ ہم رسول پر ایمان لاچکے ہیں، لہٰذا مخبر صادق کی اس بات پر بھی ہمارا ایمان بالغیب ہے، اگر ہم ہر بات پر مشاہدہ اور عقل کی رٹ لگائیں، تو پھر '' یومنون بالغیب'' (قرآن) کا مقصد ہی فوت ہو جائے، ہمارے لیے اتنا کافی ہے کہ ہم یہ یقین کرلیں کہ یہ شیطانی اوقات ہیں، ان ہی اوقات میں شیطان کے اولیاء شیطان کی عبادت کرتے ہیں، حدیث کے الفاظ ہیں:
وحینئذ یسجد لھا الکفار (مسلم)
اس وقت کفار سورج کو سجدہ کرتے ہیں۔
کیونکہ یہ وقت سورج پرستوں کی عبادت کا ہے، اور ان سے مشابہت نازیبا ہے، لہٰذا اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اوقات میں نماز پڑھنے سے ممانعت فرما دی ہے، یہ ہے عمل کی چیز اور اسی سے ہم کو کام ہے، باقی رہا اس حدیث کی تاویل تو وہ اللہ ہی کو معلوم ہے ہمیں اس سے کیا بحث شیطان کے طول و عرض سے ہمارے عمل کا کوئی تعلق نہیں۔
جدید سائنس کے مطابق خلا کے فاصلے لا محدود ہیں، ایک ایک تارا سورج سے کئی گنا بڑا ہے، اور وہ ایک سیکنڈ میں کروڑوں روشنی کے سال چلتا ہے اور روشنی کے سال کا ایک ایک سکینڈ ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کے برابر ہے، لہٰذا خلا کی پہنائیوں کا اندازہ لگانا بالکل ناممکن ہے، اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ شیطان کے کھڑے ہونے کی جگہ اس فضا میں موجود ہے یا نہیں۔
برق صاحب اگر کوئی یہ پوچھ بیٹھے کہ اس چشمہ کا طول و عرض کیا ہے جس میں از روئے قرآن سورج غائب ہو جاتا ہے، تو ہمارے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ کیا سورج کا چشمہ میں غائب ہو جانا آج کل کی سائنس کے مطابق ہے؟ جب اس مشاہدہ کی چیز اور مادی دنیا کے حوادثات کے متعلق قرآن کا یہ بیان ہو، اور بغیر تاویل کے اس کا صحیح مطلب سمجھا نہ جاسکتا ہو، تو پھر جو حدیث روحانیات سے تعلق رکھتی ہو، جس کا مشاہدہ اور مادیت سے کوئی تعلق نہ ہو، اس کو بغیر تاویل اس طرح ظاہر ترجمہ سے کس طرح سمجھا جاسکتا ہے، انصاف کیجئے۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ حضور سے روایت کرتے ہیں کہ سورج نکلتے اور ڈوبتے وقت نماز نہ پڑھا کرو اس لیے کہ سورج بوقت طلوع شیطان کے دو سینگوں میں پھنسا ہوا ہوتا ہے۔ (بخاری جلد ۲، ص ۱۳۴)
سورج کی موٹائی ساڑھے بتیس ارب میل ہے، اگر اتنی بڑی چیز شیطان کے دو سینگوں میں سما جاتی ہے ... اتنا بڑا شیطان کھڑا کہاں ہوتا ہوگا؟ (دو اسلام ص ۳۲۴)
ازالہ
برق صاحب کو بڑی غلط فہمی ہوئی، انہوں نے مادی عینک سے اس حدیث کو دیکھا، ایسی حدیثوں پر بلا کیف و تاویل ایمان لانا چاہیے نہ کہ مادی دنیا کے فاصلے ناپنے لگ جائیں، حدیث کا مطلب اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ہم یہ فرض کریں کہ شیطان سورج کے سامنے اس طرح کھڑا ہو جاتا ہے کہ دیکھنے والے کو سورج اس کے دو سینگوں کے درمیان دکھائی دے، اگر ہم اپنی دو انگلیوں کو علیحدہ کرکے آنکھ سے ذرا دو رسورج کی طرف کرلیں، تو سورج دو انگلیوں کے بیچ میں دکھائی دے گا، بس اسی طرح وہ دو سینگوں کے درمیان میں بھی دکھائی دے سکتا ہے، اگرچہ ہماری آنکھیں ان سینگوں کو نہیں دیکھتیں لیکن کیونکہ ہم رسول پر ایمان لاچکے ہیں، لہٰذا مخبر صادق کی اس بات پر بھی ہمارا ایمان بالغیب ہے، اگر ہم ہر بات پر مشاہدہ اور عقل کی رٹ لگائیں، تو پھر '' یومنون بالغیب'' (قرآن) کا مقصد ہی فوت ہو جائے، ہمارے لیے اتنا کافی ہے کہ ہم یہ یقین کرلیں کہ یہ شیطانی اوقات ہیں، ان ہی اوقات میں شیطان کے اولیاء شیطان کی عبادت کرتے ہیں، حدیث کے الفاظ ہیں:
وحینئذ یسجد لھا الکفار (مسلم)
اس وقت کفار سورج کو سجدہ کرتے ہیں۔
کیونکہ یہ وقت سورج پرستوں کی عبادت کا ہے، اور ان سے مشابہت نازیبا ہے، لہٰذا اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اوقات میں نماز پڑھنے سے ممانعت فرما دی ہے، یہ ہے عمل کی چیز اور اسی سے ہم کو کام ہے، باقی رہا اس حدیث کی تاویل تو وہ اللہ ہی کو معلوم ہے ہمیں اس سے کیا بحث شیطان کے طول و عرض سے ہمارے عمل کا کوئی تعلق نہیں۔
جدید سائنس کے مطابق خلا کے فاصلے لا محدود ہیں، ایک ایک تارا سورج سے کئی گنا بڑا ہے، اور وہ ایک سیکنڈ میں کروڑوں روشنی کے سال چلتا ہے اور روشنی کے سال کا ایک ایک سکینڈ ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کے برابر ہے، لہٰذا خلا کی پہنائیوں کا اندازہ لگانا بالکل ناممکن ہے، اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ شیطان کے کھڑے ہونے کی جگہ اس فضا میں موجود ہے یا نہیں۔
برق صاحب اگر کوئی یہ پوچھ بیٹھے کہ اس چشمہ کا طول و عرض کیا ہے جس میں از روئے قرآن سورج غائب ہو جاتا ہے، تو ہمارے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ کیا سورج کا چشمہ میں غائب ہو جانا آج کل کی سائنس کے مطابق ہے؟ جب اس مشاہدہ کی چیز اور مادی دنیا کے حوادثات کے متعلق قرآن کا یہ بیان ہو، اور بغیر تاویل کے اس کا صحیح مطلب سمجھا نہ جاسکتا ہو، تو پھر جو حدیث روحانیات سے تعلق رکھتی ہو، جس کا مشاہدہ اور مادیت سے کوئی تعلق نہ ہو، اس کو بغیر تاویل اس طرح ظاہر ترجمہ سے کس طرح سمجھا جاسکتا ہے، انصاف کیجئے۔