• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ابن عمر رضی اللہ عنہ حضور سے روایت کرتے ہیں کہ سورج نکلتے اور ڈوبتے وقت نماز نہ پڑھا کرو اس لیے کہ سورج بوقت طلوع شیطان کے دو سینگوں میں پھنسا ہوا ہوتا ہے۔ (بخاری جلد ۲، ص ۱۳۴)
سورج کی موٹائی ساڑھے بتیس ارب میل ہے، اگر اتنی بڑی چیز شیطان کے دو سینگوں میں سما جاتی ہے ... اتنا بڑا شیطان کھڑا کہاں ہوتا ہوگا؟ (دو اسلام ص ۳۲۴)
ازالہ
برق صاحب کو بڑی غلط فہمی ہوئی، انہوں نے مادی عینک سے اس حدیث کو دیکھا، ایسی حدیثوں پر بلا کیف و تاویل ایمان لانا چاہیے نہ کہ مادی دنیا کے فاصلے ناپنے لگ جائیں، حدیث کا مطلب اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ہم یہ فرض کریں کہ شیطان سورج کے سامنے اس طرح کھڑا ہو جاتا ہے کہ دیکھنے والے کو سورج اس کے دو سینگوں کے درمیان دکھائی دے، اگر ہم اپنی دو انگلیوں کو علیحدہ کرکے آنکھ سے ذرا دو رسورج کی طرف کرلیں، تو سورج دو انگلیوں کے بیچ میں دکھائی دے گا، بس اسی طرح وہ دو سینگوں کے درمیان میں بھی دکھائی دے سکتا ہے، اگرچہ ہماری آنکھیں ان سینگوں کو نہیں دیکھتیں لیکن کیونکہ ہم رسول پر ایمان لاچکے ہیں، لہٰذا مخبر صادق کی اس بات پر بھی ہمارا ایمان بالغیب ہے، اگر ہم ہر بات پر مشاہدہ اور عقل کی رٹ لگائیں، تو پھر '' یومنون بالغیب'' (قرآن) کا مقصد ہی فوت ہو جائے، ہمارے لیے اتنا کافی ہے کہ ہم یہ یقین کرلیں کہ یہ شیطانی اوقات ہیں، ان ہی اوقات میں شیطان کے اولیاء شیطان کی عبادت کرتے ہیں، حدیث کے الفاظ ہیں:
وحینئذ یسجد لھا الکفار (مسلم)
اس وقت کفار سورج کو سجدہ کرتے ہیں۔
کیونکہ یہ وقت سورج پرستوں کی عبادت کا ہے، اور ان سے مشابہت نازیبا ہے، لہٰذا اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اوقات میں نماز پڑھنے سے ممانعت فرما دی ہے، یہ ہے عمل کی چیز اور اسی سے ہم کو کام ہے، باقی رہا اس حدیث کی تاویل تو وہ اللہ ہی کو معلوم ہے ہمیں اس سے کیا بحث شیطان کے طول و عرض سے ہمارے عمل کا کوئی تعلق نہیں۔
جدید سائنس کے مطابق خلا کے فاصلے لا محدود ہیں، ایک ایک تارا سورج سے کئی گنا بڑا ہے، اور وہ ایک سیکنڈ میں کروڑوں روشنی کے سال چلتا ہے اور روشنی کے سال کا ایک ایک سکینڈ ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کے برابر ہے، لہٰذا خلا کی پہنائیوں کا اندازہ لگانا بالکل ناممکن ہے، اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ شیطان کے کھڑے ہونے کی جگہ اس فضا میں موجود ہے یا نہیں۔
برق صاحب اگر کوئی یہ پوچھ بیٹھے کہ اس چشمہ کا طول و عرض کیا ہے جس میں از روئے قرآن سورج غائب ہو جاتا ہے، تو ہمارے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ کیا سورج کا چشمہ میں غائب ہو جانا آج کل کی سائنس کے مطابق ہے؟ جب اس مشاہدہ کی چیز اور مادی دنیا کے حوادثات کے متعلق قرآن کا یہ بیان ہو، اور بغیر تاویل کے اس کا صحیح مطلب سمجھا نہ جاسکتا ہو، تو پھر جو حدیث روحانیات سے تعلق رکھتی ہو، جس کا مشاہدہ اور مادیت سے کوئی تعلق نہ ہو، اس کو بغیر تاویل اس طرح ظاہر ترجمہ سے کس طرح سمجھا جاسکتا ہے، انصاف کیجئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
حدیث کا علم الافلاک آپ پڑھ چکے۔ (دو اسلام ص ۳۲۵)
ازالہ
اب قرآن کا علم الافلاک پڑھیے، قرآن کہتا ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ بالکل سچ کہتا ہے:
{ اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَالدُّنْیَا بِزِیْنَۃِ نِ الْکَوَاکِبِ۔ وَحِفْظًا مِّنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ مَّارِدٍ } (الصافات)
آسمان دنیا کو ہم نے ستاروں سے زینت دی ہے اور ان ستاروں کو سرکش شیطان سے حفاظت کا سبب بنایا ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
{ وَجَعَلْنَاھَا رُجُوْمًا لِلشَّیَاطِیْنَ } (الملک)
اور ان ستاروں کو ہم نے شیاطین کے مارنے کے لیے پتھر بنایا ہے۔
کہیے کیا سائنس بھی یہی کہتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ابوہریرہ آنحضرت سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جہنم نے خدا کے پاس شکایت کی کہ میرا دم گھٹ چکا ہے، اس لیے مجھے سانس لینے کی اجازت دیجئے، اللہ نے کہا تم سال میں صرف دو سانس لے سکتے ہو، چنانچہ اس کی ایک سانس سے موسم گرما اور دوسری سے موسم سرما پیدا ہوگیا۔ (بخاری جلد ۲، ص ۱۴۳)
لیکن یہ سمجھ میں نہ آیا کہ ہر سال گرمیوں کے موسم میں صرف وہی علاقے اس سانس کی لپٹ میں کیوں آتے ہیں، جو خط استوا کے قریب ہیں۔ (دو اسلام ص ۳۲۶)
ازالہ
ہوسکتا ہے کہ جہنم کا تعلق براہِ راست ہماری دنیا سے نہ ہو، بلکہ سورج سے ہو، اور سورج کا تعلق براہِ راست ہماری دنیا سے ہو، لہٰذا سردی، گرمی، جو ہم محسوس کرتے ہیں وہ سورج کے اثر سے کرتے ہیں اور اسی کی طرف اس سردی گرمی کو منسوب کرتے ہیں، حدیث میں گرمی و سردی کے اصل سبب کا بیان ہے، دوزخ کے سانسوں کا اثر سورج قبول کرتا ہے، اور پھر وہ اثر قرب و بعد کے لحاظ سے ہماری دنیا کی طرف بھی منتقل ہوتا ہے۔
حدیث میں یہ نہیں ہے کہ موسم جہنم کے سانس سے پیدا ہوتے ہیں، حدیث میں تو صرف اتنا ہے کہ جاڑوں کے موسم میں جب سخت سردی اور گرمیوں کے موسم میں جب سخت گرمی پڑتی ہے اس کا سبب جہنم کا سانس ہوتا ہے (برق صاحب نے حدیث کا صحیح ترجمہ نقل نہیں فرمایا) یہ دونوں واقع زیادہ سے زیادہ چند دن رہتے ہیں نہ کہ چار پانچ مہینے۔
ہمارا ایمان صرف مشاہدات اور تجربات پر ہی نہیں ہوتا، بلکہ غیب پر بھی ہوتا ہے، لہٰذا جو کچھ حدیث میں ہے، اس پر بھی ہمارا ایمان ہے، صحیح تاویل کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں، لہٰذا اس میں کوئی بھی اشکال نہیں، قرآن میں بھی بہت سی باتیں ایسی ہیں، جن پر ہم ایمان بالغیب لاتے ہیں، خواہ وہ ہماری سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں، مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا آنا، فرشتوں کا وجود سدرۃ المنتہی کا سلیمان علیہ السلام کے تابع ہونا، اور ان کے حکم سے چلنا، اصحاب کہف کا بے آب و دانہ صدہا سال تک سوتے رہتا، کھانے کا سو سال تک نہ سڑنا، حضرت خضر کا خلاف عقل و نقل اور خلاف شروع ایک معصوم بچے کو ایسے گناہ پر قتل کر دینا، جس کا وہ ابھی مرتکب نہیں ہوا تھا، ستاروں سے شیطان کو مارنا وغیرہ وغیرہ بس اسی طرح ہم اس حدیث پر بھی ایمان لاتے ہیں، جہنم سے سورج کا کیا تعلق ہے، یہ قدرت کا ایک خفیہ راز ہے، جس کا کھوج ممکن ہے آئندہ کبھی سائنس کی روشنی میں لگایا جاسکے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے ٹیلی ویژن، کہ اس میں اور جس کی وہ تصویر ہے اس میں کیسا خفیہ تعلق ہے اور آج سے پچاس سال پہلے ہم اس خفیہ راز سے قطعاً ناآشنا تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
حدیث کہتی ہے:
اگر مکھی شربت وغیرہ میں گر جائے تو اسے پوری طرح غوطہ دے کر باہر نکالو، اس لیے کہ اس کے ایک پر میں بیماری ہوتی ہے اور دوسرے میں شفا۔
مکھی بیت الخلا سے اڑ کر آتی ہے پر اور ٹانگیں غلاظت سے لتھڑی ہوئی ہیں، اور مولانا اس کے دوسرے پر میں شفا تلاش کر رہے ہیں۔ (دو اسلام ص ۳۲۷، ۳۲۸)
ازالہ
یہ تو سب مانتے ہیں کہ مکھی جب گندگی پر بیٹھتی ہے تو بہت سے جراثیم اس کے پروں میں چمٹ جاتے ہیں، البتہ شک اس بات میں ہے کہ اس مکھی میں جراثیم کش دوا بھی ہے اس شک کی بنا لاعلمی پر ہے، علامہ بعداللہ القصیمی لکھتے ہیں:
موجودہ دور کے ایک مشہور ڈاکٹر نے ایک سال پیشتر '' جمعیۃ الہدایۃ الاسلامیہ'' میں ایک مفصل مضمون اس بارے میں نقل کیا تھا، جس کا ماحصل یہ ہے:
مکھی گندگی اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں پر بیٹھتی ہے، جوان جراثیم سے بھرے ہوتے ہیں، جو طرح طرح کی بیماریوں کے پھیلانے کا باعث بنتے ہیں، ان جراثیم میں سے بعض اس کے پہلوؤں سے چمٹ جاتے ہیں اور کچھ اس کے پیٹ کے اندر پہنچ جاتے ہیں، اس سے اس کے جسم کے اندر ایک زہریلا مادہ پیدا ہو جاتا ہے، اس مادہ کا نام اہل طب کی اصطلاح میں صبعد البکتریا ہے، لیکن اس مادہ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بہت سی بیماریوں کے جراثیم کو ختم کردیتا ہے اور مبعد الکبتریا کے موجود ہونے کی صورت میں ان جراثیم کا زندہ رہنا، یا انسانی جسم میں کچھ اثر کرنا ناممکن ہو جاتا ہے، نیز مکھی کے ایک پر کا خاصہ یہ ہے کہ وہ مبعد البکتریا کو اس کے پیٹ سے ایک پہلو کی طرف منتقل کرتا رہنا ہے، لہٰذا مکھی جب کسی کھانے یا پینے کی چیز پر بیٹھتی ہے، تو پہلو سے چمٹے ہوئے جراثیم اس میں ڈالٹی ہے تو مبعد البکتریا میں سے جو مادہ قریب ہوتا ہے، ان جراثیم کو فنا کردیتا ہے، ان جراثیم سے بچانے والی سب سے پہلی چیز وہ مبعد الکبتریا ہے، جسے مکھی اپنے پیٹ میں اپنے ایک پر کے پاس اٹھائے ہوتی ہے، لہٰذا چمٹے ہوئے زہریلے جراثیم کو ہلاک اور ان کے عمل کو بے کار کرنے کے لیے یہ چیز کافی ہے کہ پوری مکھی کو کھانے میں ڈبو کر باہر پھینک دیا جائے۔ (یہ ہے موجودہ زمانہ کے ایک مشہور ڈاکٹر کے بیان کا خلاصہ)
اس کے علاوہ انگلستان کے مشہور طبی رسالہ اپنے نمبر ۱۰۳۷ (شائع شدہ ۱۹۲۷ء) میں لکھتا ہے:
کبھی جب سبزیوں اور کھیتوں پر بیٹھتی ہے تو اپنے ساتھ مختلف بیماریوں کے جراثیم اٹھا لیتی ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد یہ جراثیم مر جاتے ہیں اور ان کا اثر زائل ہو جاتا ہے، اور ان کی جگہ مکھی کے پیٹ میں بکتویوفاج نامی ایک مادہ پیدا ہوتا ہے جو زہریلے جراثیم کو ختم کرنے کی خصوصیت رکھتا ہے، اگر تم کسی نمکین پانی میں مکھی کے پیٹ کا مادہ ڈالو، تو تمہیں وہ بکتریوفاج مل سکتا ہے، جو مختلف بیماریاں پھیلانے والے چار قسم کے جراثیم کا مہلک ہے، اس کے علاوہ مکھی کے پیٹ کا یہ مادہ بدل کر بکتریوفابہ کے بعد ایک ایسا مادہ بن جائے گا، جو چار مزید قسم کے جراثیم کو فنا کرنے کے لیے مفید ہوگا۔ (بینات ترجمہ مشکلات الاحادیث النبویۃ ص۱۱۸۔ ۱۲۰)
الغرض حدیث شک و شبہ سے پاک ہے اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک علمی معجزہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
یہ حدیث کسی ایسے ہی مکھی چوس ملا کی ایجاد معلوم ہوتی ہے۔ (دو اسلام ص ۳۲۸)
ازالہ
برق صاحب اگر بہت ہی قیمتی کوئی چیز آپ تیار کر رہے ہوں، مثلاً حلوا سوہن ، خمیرہ گاؤ زبان عنبری جواہر لالا، اور اتفاق سے جب وہ رقیق حالت میں ہو، اس میں مکھی گر جائے انصاف سے بتائیے آپ کیا کریں گے، کیا وہ ساری چیز آپ پھینک دیں گے، یا مکھی نکال پھینک دیں گے، اور وہ چیز استعمال کرلیں گے، پہلی صورت میں تو بہت بڑا مالی نقصان ہوگا۔ غالباً شاید ہی کوئی ایسا کرے اور دوسری صورت میں اس چیز میں مضر جراثیم کی آمیزش ہوگی مادہ چیز بجائے فائدہ پہنچانے کے نقصان پہنچائے گی، حدیث نے ایسے موقع کے لیے آپ کے لیے ایک سستا نسخہ دے دیا ہے کہ نہ مالی نقصان ہو، اور نہ صحت کا نقصان ایسے موقع پر آپ اس نسخہ کو استعمال کرسکتے ہیں اور اگر آپ اس کو پانی کے ہر گلاس پر استعمال کرنا چاہیں، تو پھر آپ کو اختیار ہے، حدیث آپ پر پابندی نہیں لگاتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
مرد کا نطفہ سفید ہوتا ہے اور عورت کا زرد، انزال کے بعد یہ ہر دو قسم کے نطفے مل جاتے ہیں، اگر یہ مرکب مائل بہ سفیدی ہو، تو بچہ پیدا ہوتا ہے، ورنہ بچی۔ (مسلم ج۱، ص ۴۶۸)
ماہرین تولید اس امر پر متفق ہیں کہ عورت کا نطفہ مقدار میں بے حدکم ... اس صورت میں چاہیے تو یہ تھا کہ مجامعت سے ہمیشہ لڑکا پیدا ہوتا، لیکن حالت یہ ہے کہ لڑکیاں زیادہ پیدا ہو رہی ہیں، اور لڑکے کم۔ (دو اسلام ص ۳۲۸، ۳۲۹)
ازالہ
برق صاحب نے ترجمہ صحیح نہیں کیا ہے، متن مع صحیح ترجمہ درج ذیل ہے:
فعل منی الرجل منی المرأۃ أذکرا باذن اللہ واذا علامنی المرأۃ منی الرجل آنثا باذن اللہ (صحیح مسلم)
اگر مرد کا نطفہ عورت کے نطفہ پر غالب آجاتا ہے، تو اللہ کے اذن سے لڑکا ہوتا ہے، اور اگر عورت کا نطفہ مرد کے نطفہ پر غالب آجاتا ہے تو اللہ کے حکم سے لڑکی ہوتی ہے۔
یعنی اصل چیز جو کار فرما ہے، وہ اللہ کا حکم ہے اور یہی وہ راز ہے جس کے متعلق برق صاحب لکھتے ہیں:
یہ فطرت کے وہ رموز ہیں جنہیں کوئی ماہر فطرت آج تک نہیں سمجھ سکا۔ (دو اسلام ص ۳۲۸)
اس موقعہ پر پہنچ کر میں سوال کرتا ہوں کہ جب ان رموز کو آپ سمجھ ہی نہ سکے، تو آپ نے حدیث پر اعتراض ہی کیوں کیا، دوسری بات یہ ہے کہ یہ غلبہ باذن الٰہی ہوتا ہے، لہٰذا مقدار کو اس میں کوئی دخل نہیں، اگر آپ نے علم کیمیا پڑھی ہے، تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ ٹائیٹریشن کرتے وقت ایک قطرہ ایک بہت بڑے محلول پر غلبہ حاصل کرلیتا ہے، لہٰذا غلبہ قوت کے تناسب سے ہوتا ہے نہ کہ مقدار کے تناسب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
خدوخال کے متعلق ارشاد ہوتا ہے، مجامعت کے وقت اگر مرد کا انزال عورت سے پہلے ہو، تو بچہ باپ پہ جاتا ہے، ورنہ ماں پر۔ (بخاری ج۲، ص۱۴۹)
داد دیجئے اس کو کہ فطرت کے ایک نہایت مخفی راز کو کس بے تکلفی، صفانی اور آسانی سے بے حجاب کردیا ہے۔ (دو اسلام ص ۳۲۹)
ازالہ
برق صاحب نے ''سبق'' کے معنی سبقت انزال کردئیے۔ حالانکہ یہ معنی صحیح نہیں دوسری حدیث ہی میں اس کی تشریح ہے، ارشاد گرامی ہے:
اذا علاماء الرجل ماء ھا (صحیح مسلم)
یعنی جب مرد کا نطفہ غالب ہوتا ہے، تو بچہ باپ کے مشابہ ہوتا ہے۔
برق صاحب اگر یہ مخفی راز ہے تو آپ کو کیسے معلوم ہوگیا کہ حدیث قابل اعتراض ہے، آپ اس کو حدیث کا علم التولید کہہ کر متعجب ہیں، لیکن قرآن کے علم التوحید سے متعجب نہیں کہ بغیر مرد کے نطفہ کے بچہ پیدا ہوگیا۔
بچہ کی مشابہت ماں یا باپ سے ہونا، ایک ایسی بات ہے، جس کو عام الفاظ میں ادا کرنا کوئی آسان بات نہیں، اگر آپ علم توالدو تناسل کے ابواب کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ والدین کی خصوصیات جو بچہ میں منتقل ہوتی ہیں، اس کا طریقہ انتہائی دقیق ہے اور اس کا سمجھنا عام انسان تو کجا تعلیم یافتہ حضرات کے لیے بھی جنہوں نے باقاعدہ علم الحیات کا مطالعہ نہ کیا ہو ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے، لیکن اس پورے دقیق اور پیچیدہ طریق کا لب لباب یہی ہے کہ اگر مردانہ خصوصیات کے حامل ذرے غالب رہتے ہیں تو لڑکا پیدا ہوتا ہے، اور اگر اس کے برعکس ہو، تو لڑکی پیدا ہوتی ہے، ایک سائل نے جب اس کے متعلق حضور سے سوال کیا، تو آپ نے ان عام فہم الفاظ میں اس گتھی کو سلجھا دیا، سائل کی بھی تشفی ہوگئی اور حقیقت کے بھی خلاف نہ ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ہاں ایسی اولاد پیدا ہو، جو فرشتوں سے زیادہ پاکیزہ اور ابلیس کی زد سے بالکل باہر ہو، تو لیجئے نسخہ حاضر ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص مجامعت کرنے لگے تو یہ دعا پڑھ لے '' بسم اللہ اللھم جنبنا الشیطان وجنب الشیطان مارزقتنا'' (اے اللہ مجھے اور میری اولاد کو شیطان سے بچا) اس کی اولاد کو شیطان کبھی گمراہ نہیں کرسکے گا ۔ (بخاری)
کتنی امرت دھارا قسم کی دعا ہے کہ نہ قرآن کی ضرورت باقی رہی نہ رسول کی اس لیے کہ قرآن و رسول کا کام تو ہدایت ہے، اور جس بچے کے گمراہ ہونے کا امکان ہی باقی نہ رہا ہو تو قرآن اور رسول اس کے کس کام کے۔ (دو اسلام ص ۳۳۰)
ازالہ
ہمارا کام دعا کرنا ہے، قبول کرنا نہ کرنا اللہ کے اختیار میں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ }
مجھ سے دعا مانگو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
{ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ} (البقرۃ)
میں دعا مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جس وقت بھی دعا مانگے۔
لہٰذا اگر ایسے موقع پر جب کہ جذبات کی رو میں انسان سب کچھ بھول جاتا ہے، کوئی شخص اللہ کو نہ بھولے اس سے گڑ گڑا کر دعا مانگے، تو کیا تعجب ہے کہ قبول ہو جائے اور اگر قبول ہو جائے تو بچہ کا شیطان سے محفوظ رہنا کیا مشکل ہے اور جو شخص شیطان سے محفوظ رہے گا، اس ہی کے کام رسول آئے گا ۔ قرآن بھی آئے گا، حدیث بھی آئے گی اور جو شخص شیطان کے نرغہ میں پھنس گیا، پھر وہ ہدایت پا ہی کیسے سکتا ہے، اس کے لیے تو اللہ اور رسول اور ان کی ہدایت سب بے کار ہے، قرآن مجید میں ہے:
{ وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ } (زخرف)
جو رحمن کے ذکر سے غافل ہوا، تو ہم اس پر شیطان مسلط کردیتے ہیں، بس پھر وہی اس کا ساتھی ہوتا ہے۔
کہیے اس شیطان سے بچنے کے لیے اللہ کو یاد کیا جائے یا نہیں اور اگر پھر بھی اعتراض باقی رہے تو یہ بتائیے کہ قرآن نے '' اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم '' پڑھنے کا حکم کیوں دیا ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
مرغ کیوں بانگ دیتا ہے، گدھا کیوں ہینکتا ہے ... شیر کیوں دھاڑتا ہے ... ان تمام سوالات کا حل تو مشکل ہے، البتہ ایک دو سوالات کے جوابات حاضر ہیں۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب تم مرغ کی صدا سنو، تو اللہ سے فضل کی دعا مانگو کرو، اس لیے کہ اس وقت مرغ کو فرشتہ نظر آیا کرنا ہے۔ اور جب گدھے کی آواز سنو، تو شیطان سے پناہ مانگو، اس لیے کہ وہ شیطان کو دیکھ کر ہینگتا ہے۔ (دو اسلام ص ۳۳۰، ۳۳۱)
ازالہ
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مرغ کو فرشتے دکھائی دیتے ہیں، اور جب وہ کسی فرشتے کو دیکھتا ہے تو اس وقت اذان دینے لگتا ہے۔ لہٰذا جب تم اسے اذان دیتے سنو، تو اللہ کا فضل طلب کرو، قرآن میں ہے:
{ ھُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیٰ عَلَیْکُمْ وَمَلٰئِکَۃُ } (احزاب)
یعنی اللہ اور اس کے فرشتے تم پر رحمت بھیجتے ہیں۔
لہٰذا ایسے وقت میں فضل تلاش کرنا، جب کہ فرشتے فضل و رحمت تقسیم کر رہے ہوں زیادہ مناسب ہے، اسی طرح گدھے کو شیطان نظر آتے ہیں اور ان کو دیکھ کر اس پر بھی شیطنت سوار ہو جاتی ہے، لہٰذا ایسے وقت میں جب کہ شیطان کی آمد و رفت ہو، شیطان سے پناہ مانگنا بہت مناسب ہے۔
یہ چیزیں امور غیب سے ہیں اور ان پر اعتراض لا یعنی ہے، مرغ کا فرشتہ کو دیکھنا اور گدھے کا شیطان کو دیکھنا بظاہر مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے، لیکن اگر آپ غور کریں تو یہ بات بخوبی سمجھ میں آسکتی ہے کہ جانوروں میں بعض باتوں کا ادراک انسان سے زیادہ ہوتا ہے، چیل کے انتہائی بلندی پر اڑنے کے باوجود مرغی کو اس کی موجودگی کا ادراک ہو جاتا ہے، اور بچوں کی حفاظت کے لیے عجیب سی آواز نکالتی ہے، چیونٹی کی قوت شامہ، مور کی قوت سامعہ اور چیل کی توت باصرہ، انسان سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں، مور میلوں دور کی آواز سن لیتا ہے، چیونٹی بہت دور سے خوشبو سونگھ لیتی ہے، چیل بہت اونچائی سے چھوٹی سی بوٹی دیکھ لیتی ہے، جب کوئی آفت آنے والی ہوتی ہے تو سیال گاؤں کے قریب آکر تمام رات روتے ہیں، دیہاتیوں نے اس کا بارہا تجربہ کیا ہوگا اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی شدید طوفان یا زلزلہ آنے والا ہوتا ہے، تو اس کے آنے سے پہلے جنگلی جانور اس مقام کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، ان سب باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض جانوروں میں بعض غیر مرئی اشیاء کو دیکھنے یا محسوس کرنے کی قوت ہوتی ہے، تو پھر کیا عجب ہے کہ مرغ فرشتہ کو دیکھ لیتا ہو، اور گدھا شیطان کو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اگر کوئی شخص کسی محفل میں جا کر تین مرتبہ سلام کرے اور ہر بات کو تین تین دفعہ دہرائے تو آپ اسے کب تک برداشت کریں گے۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور کی یہ عادت تھی کہ وہ تین مرتبہ سلام کہتے اور ہر بات کو تین مرتبہ دہراتے تھے۔ (دو اسلام ص ۳۳۱)
ازالہ
برق صاحب کو غلط فہمی ہوئی ، تین مرتبہ سلام کرنے کا یہ مقصد نہیں کہ ایک شخص کو تین مرتبہ سلام کیا جائے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ کسی کے ہاں تشریف لے جاتے تو باہر کھڑے ہو کر سلام کرتے، اگر جواب مل جاتا ، تو خیر ورنہ دوسری مرتبہ سلام کرتے، اب بھی اگر جواب نہ ملتا، تو تیسری مرتبہ سلام کرتے، اگر تیسری مرتبہ بھی جواب نہ ملتا، تو واپس چلے آتے اور اگر پہلی مرتبہ سلام کرنے کے بعد جواب مل جاتا، تو پھر ملاقات کے وقت دوسرا سلام کرتے اور پھر رخصت ہوتے وقت تیسرا سلام کرتے، اسی طرح جب آپ کو کوئی بات سمجھائی ہوتی تو اس کو تین مرتبہ دہراتے، تاکہ اچھی طرح سمجھ میں آجائے۔
جس حدیث کو برق صاحب نے نقل کیا ہے، اس کے ذرا آگے یہ حدیث بھی ہے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عصر میں ہم لوگوں کو دیر ہوگئی تھی، لہٰذا ہم لوگ جلدی جلدی وضو کرنے لگے اور پیروں پر مسح کرنے لگے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو بلند آواز سے دو تین مرتبہ فرمایا:
ویل للاعقاب من النار (مشکوٰۃ)
یعنی خشک ایڑیوں کے لیے آگ ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خاص خاص جملے آپ مکررسہ کرو ارشاد فرماتے تھے ، تاکہ اچھی طرح ذہن نشین ہو جائیں اور سمجھ میں آجائیں، برق صاحب یہ دینی مسائل ہیں، اور مسائل کو تین تین مرتبہ دہرانا، تاکہ سب لوگ سن لیں اور یاد رکھیں، قابل اعتراض نہیں ہے، بلکہ یہی مناسب ہے، یہ تقریر و تحریر نہیں، جس میں یہ بات معیوب سمجھی جائے، اس تشریح کے بعد وہی حدیث جس کو برق صاحب نے مختصر نقل کیا ہے، پوری سنیے:
عن انس عن النبی ﷺ انہ کان اذا تکلم بکلمۃ اعادھا ثلاثا حتی تفھم عنہ واذا اتی علی قوم فسلم علیھم ثلاثا (صحیح بخاری)
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی مسئلہ بیان فرماتے تو تین دفعہ اس کو دہراتے تاکہ اچھی طرح سمجھ میں آجائے، اور جب کسی قوم سے ملنے جاتے، تو تین مرتبہ سلام کرتے۔
اس تشریح کے بعد اعتراض تو رفع ہوگیا، تاہم میں چاہتا ہوں کہ قرآن مجید سے بھی اس کا جواب دے دوں، قرآن میں موسیٰ علیہ السلام کے قصہ کو بار بار دہرایا گیا ہے، آدم علیہ السلام کے قصہ کو سات مرتبہ دہرایا گیا ہے اور ہر مرتبہ وہی مضمون اسی طرح بہت سے انبیاء کے قصص بار بار دہرائے گئے ہیں، آخر یہ کیوں؟ کیا یہ بھی عجیب ہے یا نہیں؟ آپ کہیں گے الفاظ تو بدل گئے ہیں، لیکن یہ بھی صحیح نہیں، بعض جگہ تو الفاظ بھی وہی ہوتے ہیں، مزید براں سورۂ قمر میں ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں پورے چار مرتبہ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ کو دہرایا ہے:
{ وَلَقَدْ تَّرَکْنْٰہَا اٰیَۃً فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ } (القمر)
ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کردیا ہے، ہے کوئی جو نصیحت حاصل کرے۔
سورہ مرسلات ایک چھوٹی سی سورت ہے، اس میں ایک ہی جملہ
{ وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبِیْنَ }
جھٹلانے والوں کے لیے ویل ہے۔
کو دس مرتبہ دہرایا گیا ہے اور تو اور سورۂ الرحمن جیسی چھوٹی سی سورت میں
{ فَبِاَیِّ اٰلاَّءِ رَبِّکُمَا تُّکَذِّبَانِ }
اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔
کو اتنی مرتبہ دہرایا گیا ہے کہ الامان والحفیظ ، بات در حقیقت یہ ہے کہ جس بات پر زور دینا مقصود ہوتا ہے وہی بار بار دہرائی جاتی ہے، لہٰذا اس قسم کی تکرار اگر قرآن میں ہو تو کوئی عیب کی بات نہیں، اور اگر حدیث میں ہو، تو بھی کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔
 
Top