• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
حضور علیہ السلام کے بے شمار اقوال و خطبات ہمارے سامنے موجود ہیں، کہیں بھی کسی بات کو تین تین مرتبہ دہرایا نہیں گیا۔ ( دو اسلام ص ۳۳۱)
ازالہ
بے شمار کلمات ہیں جن کو آپ نے دہرایا ہے، ایک مثال تو اوپر بیان ہوچکی اور مثالوں کے لیے کتب احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
حذیفہ کہتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کھاد کے ایک ڈھیر کے قریب آے ، اور میرے سامنے کھڑے ہو کر پیشاب کردیا۔ (بخاری ج۱، ص ۳۶)
امام بخاری میں ہی یہ جرأت تھی کہ اس معلم کائنات و مہبط الوحی کی طرف یہ فعل منسوب کردیا، ورنہ ہم تو حضور کے متعلق اس قسم کی کوئی بات خیال تک لانا گناہ سمجھتے ہیں۔ (ص۲۳۳)
ازالہ
برق صاحب نے ترجمہ میں دو غلطیاں کی ہیں۔
اول: آپ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے سامنے پیشاب کیا، حالانکہ یہ قطعاً صحیح نہیں، بلکہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
قمت عند عقبہ حتی فرغ
میں آپ کے پیچھے کھڑا رہا یہاں تک کہ آپ فارغ ہوئے۔
دوسری طرف دیوار تھی ، حدیث کے الفاظ ہیں:
فاتی سباطۃ قوم خلف حائط فقام
یعنی آپ ایک قوم کے کھاد کے ڈھیر کے پاس آئے، دیوار کے پیچھے آپ کھڑے ہوگئے۔
لہٰذا حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیوار کی طرف منہ کیا، اور حضرت حذیفہ کو اپنے پیچھے کھڑا کیا، اور پھر کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔
دوم: دوسری غلطی یہ ہے کہ برق صاحب نے '' بال'' کا ترجمہ '' پیشاب کردیا'' کیا ہے، حالانکہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ '' پیشاب کیا'' برق صاحب اگر آپ کی مادری زبان اردو نہیں ہے تو خیر آپ قابل معافی ہیں، ورنہ '' بال'' کا ترجمہ '' پیشاب کردیا'' کرکے آپ نے حد ہی کردی کسی اردو دان سے پوچھ لیجئے ''پیشاب کیا'' اور'' پیشاب کردیا'' میں کتنا بڑا فرق ہے۔
برق صاحب کا اعتراض اس حدیث پر کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کے متعلق ہے، یہ صحیح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کرتے تھے، اور سوائے ایک مرتبہ کے آپ کا کبھی کھڑے ہو کر پیشاب کرنا ثابت نہیں اور اس مرتبہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی وجہ بھی حدیث میں موجود ہے:
انما النبی ﷺ بال قائما من جرح کان بما بضہٖ (البیھقی)
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے کھڑے ہو کر پیشاب کیا تھا کہ آپ کے گھٹنہ کے اندر کی طرف زخم تھا۔
بتائیے ایسے عذر کی حالت میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنا ناجائز ہے؟ پھر جو شخص تہ بند باندھے ہوئے کھلی جگہ میں بیٹھ کر پیشاب کرے، تو اس کی رانیں وغیرہ کھل جائیں گی اور کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کا ایک یہ عذر بھی ہوسکتا ہے، برق صاحب آپ تو اسے معیوب سمجھ رہے ہیں، اور یہ صحیح بھی ہے لیکن ذرا کسی مغرب زدہ، تجدید مذہب کے دلدادہ شخص سے پوچھئے تو وہ اس حدیث کو سن کر خوش ہوگا اور ملا کو برا بھلا کہے گا کہ اس نے یہ پابندیاں لگا رکھی ہیں، ورنہ حدیث میں تو کھلی چھٹی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
آپ شاید اس حقیقت سے بے خبر ہوں گے کہ زلزلے آسمانوں میں بھی آیا کرتے ہیں اور اس زور سے کہ اللہ کا تخت تک کانپنے لگتا ہے ...
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ سعد بن معاذ کی موت پر خدائی تخت کانپنے لگ گیا تھا۔
سعد کی موت پر عرش کیسے ہل گیا تھا؟ اسے سمجھنے کے لیے قیامت کا انتظار کیجئے۔ (دو اسلام ص ۳۳۳)
ازالہ
برق صاحب آپ نے صحیح بات کہہ دی ، یہ حدیث ایسی نہیں کہ اسے سمجھا جا سکے نہ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے، جس طرح قرآن میں آیات متشابہات ہوتی ہیں اور ان پر صرف ایمان لایا جاتا ہے ، اسی طرح بعض احادیث بھی متشابہات ہوتی ہیں، اور ان پر صرف ایمان لایا جاتا ہے ان کے اصل مفہوم کاادراک عقل انسانی نہیں کرسکتی، لہٰذا اس حدیث کو سمجھنے کی کوشش ہی آپ کو نہ کرنی چاہیے، قرآن میں ہے:
{ وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَاءِ } (ھود)
اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر ہے۔
بتائیے اس آیت کو کس طرح سمجھیں، دوسری جگہ ارشاد ہے:
{ وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَھُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمَانِیَہٗ } (الحاقہ)
قیامت کے دن تیرے رب کے عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں گے۔
بتائیے اس آیت کا کیا مطلب ہے؟ کیا اللہ تخت پر بیٹھتا ہے؟ کیا اللہ کو فرشتے اٹھا سکتے ہیں، ہماری سمجھ میں تو کچھ نہیں آتا ہم تو اس کا مطلب اللہ کے حوالہ کرتے ہیں، آپ بھی ایسا ہی کیجئے ، اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے:
{ وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ } (بنی اسرائیل)
جس چیز کا علم نہ ہو، اس کے پیچھے مت پڑو۔
لہٰذا ان چیزوں کے پیچھے پڑنا حرام ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ہوسکتا ہے کہ حدیث میں عرش کے ہل جانے سے حاملان عرش کے رنج و ملال کا اظہار ہو، ہوسکتا ہے کہ حقیقتاً عرش ہی کو رنج ہوا ہو، کیونکہ قرآن سے ثابت ہے کہ پتھروں میں خشیت الٰہی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ وَاِنِّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ } (البقرۃ)
بعض پتھر اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں۔
قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد باری ہے:
{ فَمَا بَکَتْ عَلَیْہِمُ السَّمَآءُ وَالْاَرْضُ } (دخان)
ان کی موت پر آسمان اور زمین نہیں روئے۔
گویا بعض لوگوں کی موت پر آسمان اور زمین روتے ہیں، یعنی ان کو رنج و غم ہوتا ہے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ عرش کے رنج و ملال کرنے پر تعجب کا اظہار کیا جائے، جو مطلب ان آیات کا کیا جائے گا وہی مطلب حدیث کا بھی ہوسکتا ہے، لہٰذا اعتراض ہی فضول ہے۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عرش کاہل جانا، کوئی محاورہ ہو، جو انتہائی غم کے موقع پر استعمال ہوتا ہو مثلاً انتہائی غم کے موقع پریہ محاورہ '' زمین کا پاؤں کے نیچے سے نکل جانا'' استعمال ہوتا ہے غور کیجئے، اور انصاف فرمائیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اگر کوئی شخص آپ سے کہے کہ سعدی نے گلستاں سات زبانوں میں لکھی تھی تو آپ کیا سمجھیں گے؟ یہی کہ انہوں نے گلستاں کے سات نسخے تیار کئے تھے، ایک فارسی میں دوسرا عربی میں ... دھلی ہذا القیاس ، لیکن اگر کوئی شخص فارسی کی گلستاں کے متعلق یہ کہے کہ سات زبانوں میں لکھی ہوئی ہے تو آپ اسے یہی کہیں گے کہ سر پر ٹھنڈا پانی ڈال لو ...
حضور نے فرمایا کہ قرآن سات زبانوں میں اتارا گیا ہے۔ (مسلم ج۲، ص ۳۶۳)
کیا سات زبانوں میں اتارنے کا مفہوم یہی ہے کہ ایک ہی آیت سات مختلف زبانوں میں اتری تھی، تو پھر وہ باقی چھ زبانوں کے قرآن کہاں چلے گئے۔ (دو اسلام ص ۳۳۳، ۳۳۴)
ازالہ
حدیث کا مطلب سمجھنے میں برق صاحب کو غلط فہمی ہوئی، ذیل میں متن حدیث مع ترجمہ درج کیا جاتا ہے:
عن ابی بن کعب قال کنت فی المسجد فدخل رجل یصلی فقر اقراۃ انکرتھا علیہ ثم دخ اٰخر فقرا قرأۃ سوی قرأۃ صاحبہ ۔ (صحیح مسلم جلد اول، باب بیان ان القران انزل علیہ سبعۃ احرف)
ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں تھا ایک شخص داخل ہوا، اور نماز پڑھنے لگا ، پس اس نے ایسی قرأت پڑھی کہ مجھے بری معلوم ہوئی، پھر دوسرا شخص داخل ہوا، اس نے دوسرے طریقہ سے قرأت کی۔
حدیث مذکور سے صاف ظاہر ہوا کہ اختلاف پڑھنے کے طریقوں میں لہجہ میں اختلاف تھا، ان پڑھنے والوں کا لہجہ قریش کے لب و لہجہ سے مختلف تھا، لہٰذا حضرت ابی بن کعب کو اس طرح پڑھنا ناگوار گزرا، پھر یہ قضیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، آپ نے ان دونوں کی قرأت کو درست فرمایا، اس پر حضرت ابی بن کعب کے دل میں تکذیب کا خیال پیدا ہوا، اس کے آگے حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
فلما رای رسول اللہ ﷺ ما قد عشینی ضرب فی صدری فقضت عرقا وکانما انظر الی اللہ عزوجل فرقا (صحیح مسلم)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری یہ حالت ملاحظہ فرمائی تو میرے سینے پر ہاتھ مارا میں پسینہ پسینہ ہوگیا، اور ایسا معلوم ہونے لگا، گویا میں اللہ عزوجل کو دیکھ رہا ہوں ڈرتے ہوئے۔
پھر آپ نے جو کچھ فرمایا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عربی زبان کے ساتوں لہجوں میں قرآن پڑھنے کی اجازت اللہ کی طرف سے ہے، ایک اور حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:
ان ھذا القران انزل علی سبعۃ احرف فاقروا ماتیسر منہ (صحیح مسلم)
یہ قرآن سات قرأتوں پر نازل ہوا ہے پس جو قرأت تمہیں آسان معلوم ہو، اس قرأت سے تم تلاوت کرسکتے ہو۔
اس حدیث کی بنا پر قرآن مختلف طریقوں سے آج تک پڑھا جاتا ہے، ہندوستان کی قرأت علیحدہ ہے، مکی قرأت علیحدہ ہے، مصری قرأت علیحدہ ہے، علی ہذا القیاس، مختلف ممالک میں مختلف طریقوں سے پڑھا جاتا ہے، ہماری اردو زبان کو دیکھئے کہ یہ زبان تقریباً تمام ہندو پاکستان میں بولی جاتی ہے، لیکن دہلی اور یوپی کے لہجہ میں ہر جگہ نہیں بولی جاتی ، پنجابیوں کا لہجہ علیحدہ ہے سرحدیوں کا علیحدہ ہے، بنگالیوں کا علیحدہ اور حد تو یہ ہوگئی کہ حیدر آباد دکن کا لہجہ بالکل علیحدہ ہے، بعض لہجے ایسے ہیں کہ کانوں پر بار گزرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود زبان ایک ہی ہے، لہجے بدل رہے ہیں، برق صاحب نے لہجہ کو زبان سمجھ لیا، حالانکہ حدیث میں زبان کا کوئی ذکر نہیں ہے اور یہی غلط فہمی کا اصل موجب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
سیکڑوں حفاظ نے حضور کی مقرر کردہ ترتیب کے مطابق قرآن یاد کرلیا تھا، اور ایک نسخہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں موجود تھا، جو چمڑے کے ٹکڑوں، پتھروں اور پتوں وغیرہ پر لکھا ہوا تھا، جب حضرت صدیق کے زمانہ میں حفاظ قرآن کی ایک خاصی تعداد جنگ یمامہ میں شہید ہوگئی، تو آپ نے نسخہ رسول سے ایک نیا نسخہ تیار کرایا۔ (دو اسلام ص ۳۳۵)
ازالہ
یہ قطعاً صحیح نہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ کے گھر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتب کیا ہوا قرآن موجود تھا، یہ بھی قطعاً صحیح نہیں کہ اسی نسخہ سے حضرت ابوبکر صدیق نے ایک نیا نسخہ تیار کرایا تھا، یہ چیزیں بالکل بے ثبوت ہیں، برق صاحب نے بے حوالہ ان کو نقل کیا ہے، بلکہ احادیث و تاریخ دونوں اس کی تکذیب کرتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ مسجد نبوی میں ایک درخت تھا، جس کے پاس کھڑے ہو کر حضور وعظ فرمایا کرتے تھے، جس روز منبر تیار ہوگیا، اور آپ منبر پر چڑھ کر وعظ کہنے لگے تو اس درخت نے رونا شروع کیا ... حضور صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے، اس درخت پہ ہاتھ پھیرا اور وہ چپ ہوگیا۔
حضور مکہ سے نکلے تو نہ ان کا گھر رویا، نہ درخت نہ کوئی پتھر ... پھر اس مسجد والے درخت کو کیا خاص صدمہ پہنچا تھا۔ (دو اسلام ص ۳۳۶، ۳۳۷)
ازالہ
برق صاحب یہ معجزہ ہے اور معجزے شاذ و نادر ہی صادر ہوا کرتے ہیں، یہ نہیں کہ ساری زندگی ہی معجزہ بن جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
رونے کے لیے احساس، دل، دماغ، پھیپھڑوں، گلے اور دقیق نظام جسمانی کی ضرورت ہے یہ سب کچھ اس درخت میں کہاں سے آگیا تھا۔ (دو اسلام ص ۳۳۷)
ازالہ
برق صاحب قرآن میں ہے:
{ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاؤدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ } (الانبیاء)
اور ہم نے داؤد کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کردیا تھا، وہ پہاڑ تسبیح کیا کرتے تھے۔
کہیے جناب پڑھنے کے لیے منہ کی زبان کی ضرورت ہے یا نہیں، اگر ہے تو منہ اور زباں پہاڑوں میں کہاں سے آگئی تھی اور سنیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ وَاِنَّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ } (البقرۃ)
اور بے شک بعض پتھر ایسے ہیں کہ اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں۔
بتائیے، ڈرنے کے لیے دل و دماغ کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو پھر بغیر دل و دماغ کے پتھروں میں خشیت الٰہی کہاں سے آگئی ہے، برق صاحب یہ معجزہ ہے ، اگر درخت کے دل و دماغ و پھیپھڑے ہوتے تو پھر اس کو معجزہ کون کہتا؟ معجزہ تو یہی ہے کہ ان چیزوں میں سے کوئی چیز نہ ہو، اور پھر درخت روئے، پھر موسیٰ علیہ السلام کے عصا پر غور کیجئے، وہ کس طرح سانپ بن گیا اور سانپ بن کر تمام جادو کے سانپوں کو نگل گیا تھا، نگلنے کے لیے بھی منہ ، گلے، پھیپھڑے اور احساس کی ضرورت ہے یہ چیزیں لکڑی کے عصا کو کہاں میسر؟ معجزہ کہتے ہی اس بات کو ہیں، جو خلاف عادت واقع ہو لہٰذا درخت کے رونے پر اعتراض محض غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اگر آپ کہیں کہ یہ معجزہ تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کو معجزہ دکھانے سے کیوں انکار کردیا تھا اور صاف صاف کہہ دیا تھا '' ھل کنت الا بشرا رسولا'' میں ایک انسان ہوں، جس کا کام اللہ کا پیغام پہنچانا ہے نہ کہ معجزے دکھانا۔ (دو اسلام ص ۳۳۷)
ازالہ
برق صاحب ''نہ کہ معجزے دکھانا'' کن الفاظ کا ترجمہ ہے، قرآن مجید کے متن میں تو ایسی کوئی عبارت نہیں، کیا اسی طرح عضائے موسیٰ اور ید بیضاء کے معجزہ ہونے کا بھی انکار کیا جاسکتا ہے، کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کا کام بھی یہ نہیں تھا کہ معجزے دکھائیں۔
سورہ بنی اسرائیل کو پڑھ کر دیکھئے، کفار مکہ نے کتنے معجزوں کا مطالبہ کیا تھا، یہ کہ دیجئے ، وہ کرکے دکھائیے، آپ ہمارے سامنے آسمان پر سیڑھی لگا کر چڑھ جائیے وغیرہ وغیرہ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ یہ کہہ دیں کہ معجزہ دکھانا میری قدرت میں نہیں ہے، میں تو صرف ایک آدمی اور اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، معجزے دکھانا اللہ کے اختیار میں ہے، وہ ان مطالبات کو پورا کرنے سے عاجز نہیں، وہ اس کمزوری سے پاک ہے، وہ دکھا سکتا ہے، جب وہ چاہے گا، ان معجزات کا ظہور ہو جائے گا بغیر اس کی مشیت کے میں اس مطالبہ کے پورا کرنے سے عاجز اور قاصر ہوں۔
سبحانی ربی
میرے رب اس عجز سے پاک ہے
اس کے بعد یہ الفاظ ہیں:
ھَلْ کُنْتُ اِلاَّ بَشَرًا رَسُوْلاً
میں تو بس ایک انسان اور رسول ہوں۔
میرے ذمہ رسالت کے فرائض انجام دینے ہیں، مجھے اللہ تعالیٰ نے مختار کل بنا کر نہیں بھیجا ہے کہ بغیر اس کی اجازت کے تمہیں معجزے دکھاؤں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ نے کفار کو معجزہ دکھانے سے کیوں انکار کردیا تھا اس کی وجہ اللہ تعالیٰ نے اسی سورت میں بیان فرما دی ہے، ارشاد ہے:
{ وَ مَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلَّآ اَنْ کَذَّبَ بِھَا الْاَوَّلُوْنَ وَ اٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَۃَ مُبْصِرَۃً فَظَلَمُوْا بِھَا وَ مَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا } (بنی اسرائیل)
اور ہمیں معجزہ دکھانے سے یہ امر مانع ہے کہ ان سے پہلے لوگ معجزوں کو جھٹلا چکے ہیں، ثمود کو بطور معجزہ و ہدایت ہم نے اونٹنی دی تھی، لیکن انہوں نے اس کے ساتھ ظلم کیا اور ہم تو معجزے تخویف کے لیے بھیجا کرتے ہیں۔
اس آیت سے واضح ہوگیا کہ پہلی قوموں نے معجزے مانگے، پھر معجزوں کو دیکھنے کے بعد بھی ایمان نہ لائے، اسی طرح یہ لوگ بھی ایمان نہیں لائیں گے اور کیونکہ معجزہ تخویف یعنی عذاب الٰہی کے لیے نہائیہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر منہ مانگا معجزہ دکھا دینے کے بعد وہ قوم ایمان نہیں لاتی، تو پھر عذاب الٰہی نازل ہوتا ہے، گزشتہ قوموں کو اللہ تعالیٰ نے اسی طرح ہلاک کردیا، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کو تباہ کرنا اللہ تعالیٰ کو منظور نہ تھا، اور کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ ان میں سے اکثر لوگ بعد میں ایمان لانے والے ہیں، اور ابھی وقت مقررہ سے پہلے ایمان نہیں لاسکتے لہٰذا یہ بھی تکذیب کردیں گے اور ہلاک ہو جائیں گے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ازراہ ترحم، منہ مانگا معجزہ نہ دکھایا اور پوری قوم کو عام تباہی سے بچا لیا، ہاں جن لوگوں کو بعد میں شق القمر کا معجزہ دکھایا، تو پھر ان کو بہت جلدی بدر کے میدان میں موت کے گھاٹ اتار دیا، یہ بھی اللہ کی رحمت تھی کہ پوری قوم کو شق القمر کے معجزہ میں شریک نہیں کیا، بلکہ اس میں صرف وہی لوگ شریک تھے، جن کی قسمت میں ایمان نہ تھا۔
پھر یہ بھی قطعاً غلط ہے کہ آپ نے کافروں کو کوئی معجزہ ہی نہیں دکھایا، ہاں منہ مانگا معجزہ نہیں دکھایا، اس لیے کہ وہ عذاب کے لیے نہائیہ ہوتا ہے، دوسرے معجزوں کا ثبوت قرآن میں موجود ہے، ارشاد باری ہے:
{ وَاِذَا لَمْ تَاْتِھِمْ بِایَۃٍ قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَیْتَھا } (الاعراب)
اور جب آپ انہیں کوئی معجزہ نہیں دکھاتے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ معجزہ آپ نے کیوں نہیں دکھایا، یعنی مطالبہ کے مطابق معجزہ کیوں نہ دکھایا۔
آپ نے اس کا جواب دیا:
{ اِنَّمَا اَتَّبِعَ مَا یُوْحٰی اِلَیَّ مِنْ رَّبِّیٰ } (الاعراف)
میں تو حکم الٰہی کا اتباع کرتا ہوں یعنی جس معجزہ کا حکم ہوا دکھا دیا، دوسرا نہیں دکھا سکتا۔
اس کے بعد منہ مانگے معجزہ کا وعدہ فرمایا گیا:
{ وَ یَقُوْلُوْنَ لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَقُلْ اِنَّمَا الْغَیْبُ لِلہِ فَانْتَظِرُوْا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ } (یونس)
کافر کہتے ہیں کہ اس پر اس کے رب کی طرف سے معجزہ کیوں نہیں نازل ہوتا، آپ کہہ دیجئے کہ غیب کا علم اللہ کو ہے، پس ایسے معجزہ کے لیے تم بھی انتظار کرو، میں بھی منتظر ہوں۔
کافروں نے جلدی کی تو جواب دیا:
{ سَاُوْرِیْکُمْ اٰیٰتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنَ } (الانبیاء)
جلدی مت کرو، میں عنقریب معجزے دکھانے والا ہوں۔
اس کے بعد وہ معجزہ دکھایا گیا، جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے:
{ اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ۔ وَاِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا وَیَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ۔ وَکَذَّبُوْا وَاتَّبَعُوْٓا اَہْوَآءَہُمْ وَکُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ ۔ وَلَقَدْ جَآئَہُمْ مِنَ الْاَنْبَآئِ۔ مَا فِیْہِ مُزْدَجَرٌ ۔ حِکْمَۃٌ بَالِغَۃٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ ۔ فَتَوَلَّ عَنْہُم } (القمر)
قیامت قریب آگئی اور چاند شق ہو گیا، کافر تو جب کبھی کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو اس سے اعراض کیا ہی کرتے ہیں اور یہی کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے، جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، ان کافروں نے بھی شق القمر کو جھٹلایا اور اپنی خواہشات کی پیروی کی، اور ہر بات کا ایک وقت مقرر ہے اور بے شک ان کو عبرت ناک قصوں کا علم ہوچکا ہے، ان سے ان کو نصیحت ہوسکتی تھی، لیکن یہ ڈرانا بھی ان کے لیے مفید ثابت نہ ہوا، لہٰذا اب آپ بھی ان سے روگردانی فرمائیے۔
یعنی منہ مانگا معجزہ ڈرانے کے لیے ہوتا ہے، ایسا معجزہ دیکھ لیا، پھر بھی انہیں عبرت نہیں ہوئی اور ایمان نہیں لائے تو اب ان کو نصیحت کرنا لاحاصل ہے، اب مقررہ عذاب کا وقت قریب آگیا اے رسول اب آپ بھی ان سے منہ موڑ لیں، یہ باز آنے والے نہیں۔
 
Top