• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
مسلمانوں کے لیے معجزہ دکھانے کی کیا ضرورت تھی، وہ تو پہلے ہی سے ایمان لاچکے تھے؟ (دو اسلام ص ۳۳۷)
ازالہ
مسلمانوں کو معجزہ دکھانا ایمان اور اطمینان قلبی کے لیے ہوتا ہے جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلٰی وَ لٰکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَیْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْھُنَّ جُزْئً ا ثُمَّ ادْعُھُنَّ یَاْتِیْنَکَ سَعْیًا وَ اعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ } (البقرۃ)
اور جب ابراہیم علیہ السلام نے کہا، اے رب تو کس طرح مردوں کو زندہ کرے گا، اللہ نے فرمایا کیا تو ایمان نہیں لایا، عرض کیا ایمان تولے آیا، لیکن اطمینان قلبی کے لیے، اللہ نے فرمایا چار پرند پالو، پھر انہیں اپنے سے ہلالو، پھر ہر پہاڑ پر ایک جز رکھ دو، پھر پکارو، وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آئیں گے، اور جان کہ اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے کہا تھا کہ کیا اللہ تعالیٰ ہمارے لیے آسمان سے ایک دستر خوان نازل فرما دے گا، عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اگر تم مومن ہو، حواریوں نے جواب دیا:
{ نُرِیْدُ اَنْ نَّاْکُلَ مِنْھَا وَ تَطْمَئِنَّ قُلُوْبُنَا وَ نَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا } (المائدہ)
ہم چاہتے ہیں کہ ہم اس میں سے کھائیں ہمارے دلوں کو اطمینان ہو جائے اور ہم سمجھ لیں کہ جو آپ نے بتایا بالکل سچ ہے۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ معجزہ کا ظہور اطمینان قلبی اور ازدیا و ایمان کا باعث ہوا کرتا ہے اور نہ صرف مسلمان بلکہ نبی تک اس کی خواہش کرتے ہیں، قرآن مجید میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی خواہش کی، پھر ان کی امت نے بھی اللہ کو دیکھنے کی خواہش کی، تجلیات ربانی کا ظہور ہوا، پھر جو کچھ ہوا، وہ سب کو معلوم ہے، بنی اسرائیل کو بہت سے معجزات دکھائے گئے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ سَلْ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ کَمْ اٰتَیْنٰھُمْ مِّنْ اٰیَۃٍ بَیِّنَۃٍ } (البقرۃ)
بنی اسرائیل سے پوچھئے کہ ہم نے کتنے روشن معجزے ان کو دکھائے تھے۔
پھر ارشاد باری ہے:
{ وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی } (البقرۃ)
اور اے بنی اسرائیل ہم نے تم پر بادلوں کا سایہ کیا، اور تم پر من و سلوی نازل فرمایا۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
{ وَاِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَھُمْ کَاَنَّہٗ ظُلَّۃٌ وَّ ظَنُّوْٓا اَنَّہٗ وَاقِعٌ بِھِمْ } (الاعراف)
اور جب ہم نے بنی اسرائیل پر پہاڑ کو اٹھا کر سائبان کی مانند کردیا اور وہ سمجھے کہ اب یہ ہم پر گرنے والا ہے۔
غرض یہ کہ مسلمانوں کو بھی معجزے دکھائے جاتے رہے ہیں، لہٰذا اعتراض لاعلمی پر مبنی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
آیہ وضو میں صرف ایک اختلاف کی بنا پر کہ کسی نے '' ارجلکم'' کو '' ارجلکم'' پڑھ دیا، پورا ایک فرقہ پیدا ہوگیا۔ (دو اسلام ص ۳۳۶)
ازالہ
جی نہیں! صرف یہی اختلاف نہیں، وہ تو پورے قرآن کو صحیفہ عثمانی کہتے ہیں اور موجودہ قرآن میں سے صرف دس پاروں کو اصلی مانتے ہیں اور وہ بھی بیس جعلی پاروں میں خلط ملط کردئیے گئے ہیں، اس طرح ان کے نزدیک تیس پارے ضائع ہوگئے اور دس پارے مخلوط ہوگئے (ملاحظہ ہو اصول کافی ملخصاً)
پھر ایک فرقہ اور بھی ہے، جو سورہ یوسف کو قرآن سے خارج کردیتا ہے، الغرض قرأت کے معمولی اختلاف سے فرقہ پیدا نہیں ہوتا، ہاں تقلیدی اختلاف سے ہوسکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ام شریک راوی ہیں کہ حضور نے چھپکلی کو مارنے کا حکم دیا تھا، اس لیے کہ یہ اس آگ کو پھونکوں سے بھڑکاتی تھی، جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پھینکا گیا تھا۔ (بخاری ص ۱۵۲، ۲)
بھلا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چھپکلی کا کیا بگاڑا تھا ؟ ... اس کے تنفس میں اتنی طاقت کہاں تھی کہ وہ آگ کے شعلوں میں ذرہ بھر بھی اضافہ کرسکتا۔ (دو اسلام ص ۳۳۷)
ازالہ
حضرت عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ '' پانچ جانور فویسق یعنی موذی ہیں، ان کو حرم میں بھی قتل کردیا کرو، چوہا، بچھو، چیل، کوا، اور پاگل کتا ۔(بخاری)
اسی طرح حضرت عائشہ فرماتی ہیں:
ان النبی ﷺ قال للوزغ القویسق (بخاری)
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپکلی کو بھی فویسق فرمایا۔
جس طرح ان پانچ جانوروں کے موذی ہونے کی وجہ سے قتل کا حکم دیا، اسی طرح چھپکلی کے موذی ہونے کی وجہ سے اس کے بھی قتل کا حکم دیا، جیسا کہ حضرت سعد اور حضرت ام شریک کی روایتوں میں صاف مذکور ہے، یعنی
امر بقتلہ (بخاری جز ۲، ص۱۴۵)
آپ نے اس کو مار ڈالنے کا حکم دیا۔
ام شریک کی ایک روایت میں حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:
امر بقتل الوزغ وقال کان ینفخ علی ابراھیم علیہ السلام (بخاری جز ۲، ص۱۵۱)
آپ نے چھپکلی کو مارنے کا حکم دیا اور آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ ابراہیم علیہ السلام کی آگ کو پھونکتی تھی۔
اس حدیث سے تو یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قتل کی وجہ آگ پھونکنا ہے، بلکہ قتل کی وجہ تو وہی ہے جو اوپر مذکور ہوئی، یعنی اس کا فویسق (زہریلا، موذی) ہونا، ہاں یہ اس کی خباثت کا مزید ثبوت ہے کہ ابراہیم علیہ السلام جیسے برگزیدہ پیغمبر پر آگ پھونکتی تھی ، اگر صرف آگ پھونکنا قتل کا سبب ہوتا، تو الفاظ حدیث اس طرح ہوتے '' امر بقتل الوزغ فانہ کان ینفخ علی ابراھیم علیہ السلام'' جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث میں ہے:
اقتلوا اذا الطفیتین فانہ یطمس البصر (بخاری جز ۲، ص۱۴۵)
آپ نے فرمایا ذوطیفتین سانپ کو قتل کردیا کرو کیونکہ وہ آدمی کو اندھا کردیتا ہے۔
دیکھئے یہاں قتل کا سبب بیان کیا، تو '' فانہ'' فرمایا اور چھپکلی کو مارنے کا حکم دیا تو '' فانہ'' نہیں فرمایا، ہاں اس کے قتل کے حکم کے ساتھ ایک دینی جذبہ کو ملحق کردیا، تاکہ اس جذبہ کے ماتحت اس کے قتل میں سعی بلیغ کی جائے، یہ جملہ معطوفہ کا نفسیاتی پہلو ہے۔
بھلا حضرت ابراہیم نے چھپکلی کا کیا بگاڑا تھا، یہ ایسا ہی سوال ہے، جیسے کوئی پوچھے کہ '' بھلا حضرت آدم علیہ السلام نے ابلیس کا کیا بگاڑا تھا'' جو اس نے ان کو بہکایا، اس کی ذلت تو اللہ تعالیٰ نے کی تھی کہ سجدہ کرنے کا حکم دیا، اور پھر اس کو بہکا کر سجدہ کرنے سے باز رکھا، جیسا کہ خود ابلیس نے کہا تھا:
{ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْم } (الاعراف)
اس لیے کہ تو نے مجھے بہکایا، میں ان کے لیے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھ جاؤں گا۔
بتائیے آدم علیہ السلام کا کیا قصور تھا، ابلیس نے بہکانے کا الزام اللہ تعالیٰ پر لگایا، اللہ تعالیٰ نے کہیں قرآن میں اس الزام کی تردید نہیں کی، تو اب بتائیے آدم علیہ السلام تو بے قصور تھے، پھر ابلیس نے ان سے اور ان کی اولاد سے بدلہ کیوں لیا، یہی وہ فطری شیطنت تھی، جس نے چھپکلی کو مجبور کیا کہ ابراہیم علیہ السلام کی آگ کو پھونکے، ان کا قصور ہو یا نہ ہو، اس کے اس فعل سے فطری شیطنت ظاہر ہوتی ہے۔ بعض جانور فطرۃً بدطینت ہوتے ہیں، مثلاً گرگٹ ، بچھو وغیرہ، چھپکلی کی کوشش کتنی ہی ناکام سہی، لیکن اس نے حتی المقدور کوشش کی، یہ اس کی نیت ہے، جو اس کے باطن کی خباثت کا پتہ دیتی ہے اور نیت ہی پر تمام اعمال کا دار ومدار ہے کامیابی اور ناکامی سے نیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ایک اور حقیقت ملاحظہ ہو:
ابن مسعود کہتے ہیں کہ میں نے جبریل کو دیکھا تھا، اس کے چھ سو پر تھے۔ (بخاری)
صرف ابن مسعود میں کیا خوبی تھی کہ انہیں جبریل نظر آیا کسی اور صحابی کو کیوں دکھائی نہ دیا یہ چھ سو پر آپ نے کیسے گن لیے تھے، اور جبریل کے لیے پروں کی ضرورت ہی کیا تھی؟ وہ ایک نوری جسم ہے پرواز نور کی فطرت ہے جس طرح ہوا آگ اور بادلوں کو پروں کی ضرورت نہیں ہوتی، اسی طرح نور بھی وسائل پرواز سے بے نیاز ہوتا ہے۔ (دو اسلام ص ۳۳۸)
ازالہ
برق صاحب بہت بڑی غلط فہمی آپ سے ہوئی، حضرت عبداللہ بن مسعود نے اپنے متعلق نہیں کہا تھا کہ میں نے جبریل کو دیکھا، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا، پوری حدیث اس طرح ہے:
سمعت زرا عن عبداللہ فکان قاب قوسین اوادنی ناوحٰی الی عبدہ ما اوحٰی قال حدثنا ابن مسعود انہ رای جبریل لہ ست مائۃ جناح ۔
امام شیبانی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت زر کو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آیت '' فکان قاب قوسین اوادنیٰ الخ'' کی تفسیر میں بیان کرتے ہوئے سنا کہ اس آیت میں جس طرف اشارہ ہے، وہ جبریل ہیں اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھا تھا، ان کے چھ سو پر تھے۔
دوسری حدیث اسی کے آگے کتنے صاف الفاظ میں ہے، امام شیبانی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت زر سے اس آیت {فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی}کے معنی پوچھے، تو حضرت زر نے فرمایا:
اخبرنا عبداللہ ان محمدا ﷺ راٰی جبریل لہ ست مائۃ جناح
ہمیں ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل کو دیکھا تھا ان کے چھ سو پر تھے۔
( یعنی بفحوائے آیہ کریمہ دو کمان بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ حضرت جبریل سے تھا نہ کہ اللہ تعالیٰ سے جیسا کہ بعض لوگ کہا کرتے ہیں)۔ (بخاری تفسیر سورہ والنجم)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رویت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہے، نہ کہ رویت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کاش برق صاحب تحقیق فرما لیتے۔
دوسری بات جو برق صاحب نے کہی وہ اس سے بھی زیادہ بڑی غلط فہمی ہے، کاش وہ قرآن کو غور سے پڑھتے، فرشتوں کے پروں کا ذکر تو قرآن میں موجود ہے، سنیے:
{ اَلْحَمْدُ لِلہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا اُولِیْٓ اَجْنِحَۃٍ مَّثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآءُ اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ } (فاطر)
سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے، اور جس نے فرشتوں کو پیغام رساں بنایا ہے، جن فرشتوں کے دو، دو ، تین تین، چار چار پر ہوتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ کرتا ہے پیدائش میں جس کو چاہے بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ فرشتوں کے بازو ہوتے ہیں، دو، تین، چار اور زیادہ بھی۔
برق صاحب یہ بھی آپ نے خوب کہا کہ ہوا ، آگ اور بادلوں کوپروں کی ضرورت نہیں ہوتی کیا آپ کو معلوم نہیں کہ یہ چیزیں بھی آسمان تک نہیں پہنچ سکتیں، ان کی رسائی محدود ہے، اگر یہ چیزیں بے پر کے اڑتی ہیں، تو پھر ہوا آسمان تک کیوں نہیں پہنچ جاتی، کیوں پانچ چھ میل کے بعد ختم ہوجاتی ہے آگ سطح زمین سے بے تعلق نہیں ہوتی، ان چیزوں کا اوپر جانا بھی ایک خاص اصول کا پابند ہے۔ وہ اس سے آزاد نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور سے راوی ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ختنہ اسی برس میں ہوا تھا۔ (بخاری ج۱، ص۱۵۳)
راوی نے یہ نہ بتایا کہ پورے اسی سال تک اس مبارک کام میں کونسی رکاوٹ حائل رہی، جو وفات سے عین پہلے دور ہوئی، اور آپ بآں ضعف و پیری حجام کے سامنے جا بیٹھے، ختنہ کا مقصد صفائی ، صحت اور جنسی لذتوں میں اضافہ ہوتا ہے، اسی برس کے بعد یہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے، تو پھر ختنہ سے فائدہ ؟ (دو اسلام ص ۳۳۸)
ازالہ
حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک کافر گھرانے میں پیدا ہوئے، لہٰذا بچپن میں ختنہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پھر نبوت ملی، تو توحید کا وعظ شروع کردیا، تمام انبیاء علیہم السلام کا یہ دستور رہا ہے کہ پہلے صرف توحید کی اشاعت کا حکم ہوتا ہے اور سارا زور اسی پرصرف ہوتا ہے دوسرے احکام بہت بعد میں نازل ہوتے ہیں، مکہ معظمہ میں ایک طویل مدت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صرف توحید کا درس دیتے رہے، دوسرے شرعی احکام بہت بعد میں نافذ ہوئے، لہٰذا ابراہیم علیہ السلام کو بھی توحید کی تبلیغ میں کافی عرصہ لگا ہوگا، اور جب اسی سال کے ہوئے ہوں گے تو اور احکام شرع کے ساتھ ختنہ کا حکم بھی ملا ہوگا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ وَ اِذِابْتَلٰٓی اِبْرٰھٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ } (البقرہ)
اور جب ابراہیم علیہ السلام کے رب نے چند باتوں میں ان کی آزمائش کی، تو وہ ان سب میں پورے اترے۔
لہٰذا ختنہ کے حکم کی تعمیل میں بھی وہ پورے اترے اور ختنہ کرلی، ہر حکم کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک وقت مقرر ہے، اور اس حکم کے لیے یہی وقت مقرر تھا، اس میں اعتراض کی کیا بات ہے، دیکھئے ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی اور شیر خوار بچے کو بے آب و گیاہ میدان میں چھوڑ جاتے ہیں، لیکن اس وقت کعبہ کی تعمیر نہیں کرتے، حالانکہ اس وقت اس کی زیادہ ضرورت تھی، پھر ایک عرصہ دراز کے بعد ان کو اس بچے کے ذبح کا حکم ہوتا ہے، پھر کافی عرصہ کے بعد وہ کعبہ تعمیر کرتے ہیں اور اسمٰعیل علیہ السلام بھی اس کام میں ان کی مدد کرتے ہیں، پھر اس کو پاک و صاف رکھنے کا حکم ملتا ہے، یہ سب باتیں قرآن میں موجود ہیں اور بتدریج انجام پا رہی ہیں، اسی طرح ختنہ کا حکم بھی مصلحت الٰہی کے مطابق اپنے وقت پر تھا، اسی سال کی عمر اس زمانہ میں کچھ زیادہ عمر نہیں سمجھی جاتی تھی، قرآن میں ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے صرف تبلیغ میں۹۵۰ سال صرف کئے ، خود ابراہیم علیہ السلام کئی سو سال تک زندہ رہے، قاضی محمد سلیمان صاحب سابق مجسٹریٹ درجہ اول ریاست پٹیالہ تحریر فرماتے ہیں:
پھر حضرت ابراہیم نے حضرت اسحق کی شادی ربقہ بنت میتوایل بن نخور برادر حقیقی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کی، حضرت ابراہیم نے ۱۷۵ سال کے بعد انتقال فرمایا۔ (رحمۃ للعالمین ج۲، ص ۳۵)
اس بیان سے معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر بہت زیادہ ہوئی، قاضی صاحب لکھتے ہیں کہ:
۷۵ سال کے تھے، جب خدا کے حکم سے اپنی زاد یوم اور باپ کے وطن سے نکلے۔ (حوالہ مذکور، ص ۳۳)
لہٰذا اسی سال کی عمر میں ختنہ بالکل قرین قیاس ہے، کیونکہ ہجرت کے بعد ہی احکام شریعت کا نزول شروع ہوا ہوگا، پھر ختنہ کے چھ سال بعد حضرت اسمٰعیل پیدا ہوئے، یعنی ۸۶ سال کی عمر میں اور اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام بالکل جوان تھے، ابراہیم علیہ السلام کے بڑھاپے میں تو حضرت اسحاق علیہ السلام پیدا ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ قَالَتْ یٰوَیْلَتٰٓی ءَاَلِدُ وَ اَنَا عَجُوْزٌ وَّ ھٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًا} (ھود)
(حضرت سارہ کو جب حضرت اسحاق کی بشارت دی گئی تو) کہنے لگیں، ہائے افسوس اب میرے بچہ ہوگا، حالانکہ میں بڑھیا ہوں، اور یہ میرے خاوند بھی بوڑھے ہیں۔
لہٰذا ختنہ کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام بوڑھے نہیں تھے، نہ وہ کسی حجام کے سامنے بیٹھے، بلکہ انہوں نے اپنی ختنہ خود کی حدیث کے الفاظ ہیں:
اختتن ابراھیم علیہ السلام
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ختنہ کی۔
لہٰذا حجام کے سامنے بیٹھا ایک مفروضہ تھا، جو غلط نکلا۔
اب برق صاحب کی سمجھ میں آگیاہوگا کہ اسی سال تک اس کام میں کیا رکاوٹ تھی، ورنہ کہنے والا کہتا ہے کہ کم و بیش ۲۰۰ سال تک کیا رکاوٹ تھی، کہ حضرت اسحاق علیہ السلام پیدا نہیں ہوئے اور جب دونوں ماں باپ بوڑھے ہوگئے اور صرف بوڑھے ہی نہیں، بلکہ حضرت سارہ کے الفاظ میں:
{ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌ } (الذاریات)
میں بوڑھی بانجھ ہوچکی ۔
تو ایسے وقت میں حضرت اسحاق علیہ السلام پیدا ہوئے ، بھلا عورت بانجھ ہو، اور خاوند بوڑھا ہو، تو بچہ کیسے ہوسکتا ہے، برق صاحب یہ چیز بھی تو سائنس کے خلاف ہے، عقل کے خلاف ہے، فطرت انسانی اس سے ابا کرتی ہے ، لیکن قرآن میں ایسا ہی ہے، اب بتائیے کس ملا کو برا کہیں، میں کہتا ہوں کہ کسی کو برا کہنے کی ضرورت نہیں، ہر چیز کا انکار کیجئے اور قرآن کو تسلیم کیجئے اور اسی طرح حدیث کو بھی، اگر سائنس اور عقل و فطرت انسانی کے خلاف قرآن کو صحیح تسلیم کرنا لازمی ہے، تو پھر حدیث نے کیا قصور کیا ہے، اللہ تعالیٰ کی مصلحت اللہ ہی جانتا ہے، آپ کو اور ہم سب کو ایسے معاملات میں خاموش رہنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ایمان سلب ہو جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی ہیں کہ ایک دفعہ حضرت سلیمان نے کہا کہ آج رات میں اپنی تمام بیویوں سے جن کی تعداد ایک سو ایک یا نناوے تھی، مجامعت کروں گا ہر بیوی سے ایک شہسوار پیدا ہوگا ، جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا، کسی نے کہا ان شاء اللہ بھی ساتھ کہیے لیکن آپ نے پرواہ نہ کی، چنانچہ تمام بیویوں کے پاس گئے اور بغیر ایک کے کوئی حاملہ نہ ہوئی۔
حضرت سلیمان عہد تاریخ کے انسان ہیں، عام انسانوں جیسا قد، اتنی ہی عمر اور طاقت ، ہم یہ کیسے یقین کرلیں کہ وہ پوری ایک سو بیویوں کے ساتھ مجامعت کی طاقت رکھتے تھے، پھر یہ بھی تو سوچیے کہ اگر ایک بیوی کے ساتھ مجامعت کے لیے کم از کم پندرہ منٹ درکار ہوں، تو تمام کے پاس جانے کے لیے پچیس گھنٹے چاہئیں۔ (دو اسلام ص ۳۳۸، ۳۳۹)
ازالہ
برق صاحب قرآن کہتا ہے:
{ غُدُوُّھَا شَھْرٌ وَرَوَاحُھَا شَھْرٌ } (الانبیاء)
سلیمان علیہ السلام کا تخت اتنی تیزی سے اڑتا تھا کہ صرف صبح کے وقت وہ ایک مہینہ کی مسافت طے کرتا تھا اور شام کے وقت بھی ایک مہینہ کی مسافت طے کرتا تھا۔
اگر حضرت سلیمان علیہ السلام عہد تاریخ کے انسان ہیں تو بتائیے عہد تاریخ میں کہیں آپ کو ایسا تخت ملا ہے، کیا اس زمانہ میں ہوائی جہاز ایجاد ہوچکے تھے؟ کیا اس زمانہ میں ہوائی جہاز ایجاد ہوچکے تھے؟ کیا اس کا کوئی ثبوت ہے؟ ہرگز نہیں اور سنیے:
{ قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ } (النمل)
ایک شخص نے جس کو کتاب کا علم تھا کہا کہ میں بلقیس کے تخت کو آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لادوں گا۔
کیا ایسا کوئی آدمی عہد تاریخ میں ملتا ہے، جس میں یہ کمال ہو، کیا تورات یا قرآن کا کوئی عالم ایسا ہے جس نے کبھی ایسا کرکے دکھایا ہو، تیسری آیت سنیے، سلیمان علیہ السلام فرماتے ہیں:
{ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ } (النمل)
ہم کو پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے۔
کیا عہد تاریخ میں کوئی انسان ایسا ہے جس کو پرندوں کی بولی آتی ہو، اگر یہی باتیں حدیث میں ہوتیں تو برق صاحب آپ کو غلط فہمی ہو جاتی، اور آپ پھر یہ فرما دیتے کہ ہمارے علماء جب تک حدیث میں ڈرامائی رنگ نہ بھر دیں، انہیں مزہ نہیں آتا، اب یہ تو قرآن ہے، اسے کیا کہا جائے، غرض یہ کہ اس قسم کی عجیب و غریب باتیں اگر ان میں اور ان کے اصحاب میں پائی جاتی ہوں، تو کیا تعجب ہے کہ ان میں بے انتہا مردانہ قوت بھی ہو، اور وہ بہ یک وقت سو بیویوں کے پاس جاسکتے ہوں۔
دوسرا اعتراض برق صاحب کا یہ ہے کہ ۱۴ گھنٹے کی رات میں یہ کیسے ممکن ہے ، برق صاحب نے اس کام پر کم از کم پندرہ منٹ لگائے ہیں، حالانکہ کم از کم تو ایک منٹ بھی ہوسکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ تین چار منٹ لگتے ہیں اگر اوسطاً تین منٹ کا حساب رکھا جائے، توکل وقت ۱۰۰ضرب ۳=۳۰۰ منٹ = ۵ گھنٹہ، یعنی ۱۴ گھنٹوں میں سے صرف ۵ گھنٹے صرف ہوں گے، ۹ گھنٹے پھر بھی فاضل بچ جائیں گے غرض یہ کہ حساب کے لحاظ سے بھی حدیث پر کوئی اعتراض نہیں۔
انتباہ
ترجمہ میں برق صاحب نے '' لَمْ یَقُلْ'' کا ترجمہ '' آپ نے پرواہ نہ کی'' کیا ہے، حالانکہ اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ '' آپ نے ان شاء اللہ نہ کہا'' پہلے تو وہ بھول گئے ، اور بھولنا بھی مشیت الٰہی کے ماتحت تھا، جب انہیں یاد دلایا گیا، تو جس طرح ایک انسان انتہائی جوش و خروش میں دوسروں کی بات کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، بالکل اسی طرح سلیمان علیہ السلام پر غلبہ جذبہ جہاد طاری تھا، اور اس میں وہ اس قدر محو تھے کہ یاد دلانے والے کی آواز کی طرف متوجہ نہ ہوئے، تقدیر الٰہی یہی تھی واللہ غالب علی امرہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اگر تعداد زواج پر اعتراض ہے تو سنیے، اکثر بادشاہ متعدد حرمیں رکھا کرتے تھے اور یہ کوئی غیر معروف چیز نہیں تھی، جس پر اعتراض کیا جاسکے، اعتراض تو ناجائز اور غیر معروف کاموں میں ہوتا ہے، پھر ازواج کی کثیر تعداد کا ذکر تو تورات میں بھی موجود ہے، اور جس کو برق صاحب بالکل من و عن محفوظ سمجھتے ہیں، لہٰذا حدیث کی بھی محفوظ ہے، ورنہ یہ اعتراض تورات پر بھی ہوگا اگر یہ اعتراض ہو کہ سلیمان علیہ السلام دنیا دار بادشاہ نہیں تھے کہ دنیاوی عیش و عشرت کے سامان جمع کرتے، بلکہ رسول تھے، لہٰذا ان کی زندگی عام انسانوں سے بالاتر نہیں ہوسکتی، تو یہ اعتراض بھی صحیح نہیں، اس لیے کہ سلیمان علیہ السلام کے محل کا ذکر تو قرآن میں موجود ہے محل بھی اتنا شاندار کہ اس کا فرش بھی شیشہ کا تھا، ارشاد باری ہے:
{ قِیْلَ لَہَا ادْخُلِی الصَّرْحَ فَلَمَّا رَاَتْہُ حَسِبَتْہُ لُجَّۃً وَّکَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْہَا قَالَ اِنَّہٗ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِیْرَ } (النمل)
ملکہ سبا سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہو جاؤ، پس جب ملکہ نے اسے دیکھا تو اس کو پانی سمجھا، اور اپنی پنڈلیاں کھول دیں حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا، یہ تو شیشہ کا محل ہے۔
محل کے ذکر کے ساتھ ان کے خاصے کے گھوڑوں کا ذکر بھی قرآن میں ہے، بلکہ قرآن میں تو یہاں تک ہے کہ ان کی وجہ سے وہ یاد الٰہی سے غافل ہوگئے، سنیے:
{ اِذْ عُرِضَ عَلَیْہِ بِالْعَشِیِّ الصّٰفِنٰتُ الْجِیَادُ [38:31] فَقَالَ اِنِّیْٓ اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَیْرِ عَنْ ذِکْرِ رَبِّیْ حَتّٰی تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ } (ص)
شام کے وقت جب سلیمان علیہ السلام کے سامنے خاصے کے گھوڑے پیش کئے گئے تو کہنے لگے میں اس مال کی محبت میں اپنے رب کی یاد سے غافل ہوگیا، یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا۔
غور کیجئے مضمون بظاہر کس قدر قابل اعتراض ہے، اگر یہی چیز حدیث میں ہوتی تو غلط فہمیاں پیدا ہوتیں اور اسے ملا کی اختراع سمجھ لیا جاتا ، غرض یہ کہ مذکورہ بالا آیتوں سے ثابت ہوا کہ سلیمان علیہ السلام شاہانہ کردفر سے رہا کرتے تھے، اگر اس شاہانہ کردوفر پر کوئی اعتراض نہیں تو بیویوں یا حرموں کی کثیر تعداد پر کیا اعتراض ہے، حرموں کی کثیر تعداد بھی شاہانہ کردفر کا ایک جزو ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
کہاں تک گنوں صاحب! بات لمبی ہو رہی ہے، ورنہ صحاح ستہ میں اس نوع کی سینکڑوں اور احادیث موجود ہیں۔ (دو اسلام ص ۳۳۹)
ازالہ
اول تو آپنے چن چن کر تمام مشکل احادیث کو جمع کردیا اور اللہ کے فضل سے میں نے ان سب کا جواب قرآن مجید اور عقل سلیم کی روشنی میں دے دیا، اب اس قسم کی احادیث باقی تو نہیں ہیں، لیکن اگر آپ کے خیال میں کچھ اور احادیث باقی رہ گئی ہیں، تو پیش کیجئے، ان شاء اللہ اطمینان بخش جواب دیا جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
میرا مقصد احادیث پر تنقید نہیں ہے۔ (دو اسلام ص ۳۳۹)
ازالہ
میرا بھی یہی خیال ہے کہ تنقید آپ نہیں کر رہے بلکہ آپ کو غلط فہمی ہوگئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
بلکہ یہ دکھانا ہے کہ جن مجموعوں کو ''صحیح''کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ان میں بھی ایسے ایسے اقوال بھرے پڑے ہیں، جنہیں سن کر تہذیب کانوں پر ہاتھ دہرے، عقل سلیم بلبلا اٹھے اور کتاب الٰہی کلیجہ تھام کے رہ جائے۔ (دو اسلام ص ۳۳۹، ۳۴۰)
ازالہ
ان تمام احادیث کا جواب قرآن، تہذیب اور عقل و سائنس کی روشنی میں دیا جاچکا ہے اور ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ ان مجموعوں میں کوئی صحیح حدیث ایسی نہیں ہے جس پر کسی قسم کا اعتراض ہوسکے۔
 
Top