- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
غلط فہمی
مسلمانوں کے لیے معجزہ دکھانے کی کیا ضرورت تھی، وہ تو پہلے ہی سے ایمان لاچکے تھے؟ (دو اسلام ص ۳۳۷)
ازالہ
مسلمانوں کو معجزہ دکھانا ایمان اور اطمینان قلبی کے لیے ہوتا ہے جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلٰی وَ لٰکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَیْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْھُنَّ جُزْئً ا ثُمَّ ادْعُھُنَّ یَاْتِیْنَکَ سَعْیًا وَ اعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ } (البقرۃ)
اور جب ابراہیم علیہ السلام نے کہا، اے رب تو کس طرح مردوں کو زندہ کرے گا، اللہ نے فرمایا کیا تو ایمان نہیں لایا، عرض کیا ایمان تولے آیا، لیکن اطمینان قلبی کے لیے، اللہ نے فرمایا چار پرند پالو، پھر انہیں اپنے سے ہلالو، پھر ہر پہاڑ پر ایک جز رکھ دو، پھر پکارو، وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آئیں گے، اور جان کہ اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے کہا تھا کہ کیا اللہ تعالیٰ ہمارے لیے آسمان سے ایک دستر خوان نازل فرما دے گا، عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اگر تم مومن ہو، حواریوں نے جواب دیا:
{ نُرِیْدُ اَنْ نَّاْکُلَ مِنْھَا وَ تَطْمَئِنَّ قُلُوْبُنَا وَ نَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا } (المائدہ)
ہم چاہتے ہیں کہ ہم اس میں سے کھائیں ہمارے دلوں کو اطمینان ہو جائے اور ہم سمجھ لیں کہ جو آپ نے بتایا بالکل سچ ہے۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ معجزہ کا ظہور اطمینان قلبی اور ازدیا و ایمان کا باعث ہوا کرتا ہے اور نہ صرف مسلمان بلکہ نبی تک اس کی خواہش کرتے ہیں، قرآن مجید میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی خواہش کی، پھر ان کی امت نے بھی اللہ کو دیکھنے کی خواہش کی، تجلیات ربانی کا ظہور ہوا، پھر جو کچھ ہوا، وہ سب کو معلوم ہے، بنی اسرائیل کو بہت سے معجزات دکھائے گئے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ سَلْ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ کَمْ اٰتَیْنٰھُمْ مِّنْ اٰیَۃٍ بَیِّنَۃٍ } (البقرۃ)
بنی اسرائیل سے پوچھئے کہ ہم نے کتنے روشن معجزے ان کو دکھائے تھے۔
پھر ارشاد باری ہے:
{ وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی } (البقرۃ)
اور اے بنی اسرائیل ہم نے تم پر بادلوں کا سایہ کیا، اور تم پر من و سلوی نازل فرمایا۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
{ وَاِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَھُمْ کَاَنَّہٗ ظُلَّۃٌ وَّ ظَنُّوْٓا اَنَّہٗ وَاقِعٌ بِھِمْ } (الاعراف)
اور جب ہم نے بنی اسرائیل پر پہاڑ کو اٹھا کر سائبان کی مانند کردیا اور وہ سمجھے کہ اب یہ ہم پر گرنے والا ہے۔
غرض یہ کہ مسلمانوں کو بھی معجزے دکھائے جاتے رہے ہیں، لہٰذا اعتراض لاعلمی پر مبنی ہے۔
مسلمانوں کے لیے معجزہ دکھانے کی کیا ضرورت تھی، وہ تو پہلے ہی سے ایمان لاچکے تھے؟ (دو اسلام ص ۳۳۷)
ازالہ
مسلمانوں کو معجزہ دکھانا ایمان اور اطمینان قلبی کے لیے ہوتا ہے جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلٰی وَ لٰکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَیْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْھُنَّ جُزْئً ا ثُمَّ ادْعُھُنَّ یَاْتِیْنَکَ سَعْیًا وَ اعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ } (البقرۃ)
اور جب ابراہیم علیہ السلام نے کہا، اے رب تو کس طرح مردوں کو زندہ کرے گا، اللہ نے فرمایا کیا تو ایمان نہیں لایا، عرض کیا ایمان تولے آیا، لیکن اطمینان قلبی کے لیے، اللہ نے فرمایا چار پرند پالو، پھر انہیں اپنے سے ہلالو، پھر ہر پہاڑ پر ایک جز رکھ دو، پھر پکارو، وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آئیں گے، اور جان کہ اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے کہا تھا کہ کیا اللہ تعالیٰ ہمارے لیے آسمان سے ایک دستر خوان نازل فرما دے گا، عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اگر تم مومن ہو، حواریوں نے جواب دیا:
{ نُرِیْدُ اَنْ نَّاْکُلَ مِنْھَا وَ تَطْمَئِنَّ قُلُوْبُنَا وَ نَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا } (المائدہ)
ہم چاہتے ہیں کہ ہم اس میں سے کھائیں ہمارے دلوں کو اطمینان ہو جائے اور ہم سمجھ لیں کہ جو آپ نے بتایا بالکل سچ ہے۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ معجزہ کا ظہور اطمینان قلبی اور ازدیا و ایمان کا باعث ہوا کرتا ہے اور نہ صرف مسلمان بلکہ نبی تک اس کی خواہش کرتے ہیں، قرآن مجید میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی خواہش کی، پھر ان کی امت نے بھی اللہ کو دیکھنے کی خواہش کی، تجلیات ربانی کا ظہور ہوا، پھر جو کچھ ہوا، وہ سب کو معلوم ہے، بنی اسرائیل کو بہت سے معجزات دکھائے گئے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ سَلْ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ کَمْ اٰتَیْنٰھُمْ مِّنْ اٰیَۃٍ بَیِّنَۃٍ } (البقرۃ)
بنی اسرائیل سے پوچھئے کہ ہم نے کتنے روشن معجزے ان کو دکھائے تھے۔
پھر ارشاد باری ہے:
{ وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی } (البقرۃ)
اور اے بنی اسرائیل ہم نے تم پر بادلوں کا سایہ کیا، اور تم پر من و سلوی نازل فرمایا۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
{ وَاِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَھُمْ کَاَنَّہٗ ظُلَّۃٌ وَّ ظَنُّوْٓا اَنَّہٗ وَاقِعٌ بِھِمْ } (الاعراف)
اور جب ہم نے بنی اسرائیل پر پہاڑ کو اٹھا کر سائبان کی مانند کردیا اور وہ سمجھے کہ اب یہ ہم پر گرنے والا ہے۔
غرض یہ کہ مسلمانوں کو بھی معجزے دکھائے جاتے رہے ہیں، لہٰذا اعتراض لاعلمی پر مبنی ہے۔