• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
نمونہ آپ نے دیکھ لیا، انصافاً کہیے کہ ان اقوال کو وحی سمجھ کر ان پر کیسے عمل کریں۔ (دو اسلام ص ۳۴۰)
ازالہ
نمونۃً میں نے بھی قرآنی آیات پیش کردی ہیں، جو ان احادیث سے مماثل ہیں، بلکہ ان سے زیادہ حیرت انگیز کچھ اور آخری باب کے جواب میں ان شاء اللہ پیش کروں گا، اگر بایں ہمہ ان آیات کو وحی سمجھ کر عمل کیا جاسکتا ہے تو پھر ان احادیث کو بھی وحی مان کر عمل کیا جاسکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اور اس دستور العمل کو کیسے چھوڑ دیں، جس کی ہر ہدایت روشن، ہر لفظ حقیقت، ہر حرف صداقت۔ (دو اسلام ص ۳۴۰)
ازالہ
چھوڑئیے نہیں، بلکہ احادیث کی روشنی میں اس کا مطلب سمجھئے یہ نہیں کہ صلاۃ کے معنی بقول محمد احمد بٹلا پریڈ کرلیے جائیں، یا پھر بقول غلام احمد پرویز ''نظام ربوبیت'' کرلیے جائیں، بلکہ اس کے معنی وہی کئے جائیں، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائیے ہیں اور جس پر امت متواتر عمل کرتی آئی ہے۔ قرآن چند اوقات میں نماز فرض کرتا ہے، لیکن ان اوقات کی تصریح اور تعداد حدیث میں آتی ہے، لہٰذا قرآن کو بھی پکڑئیے اور حدیث کو بھی، نماز پڑھیے، لیکن پانچ وقت وعلیٰ ہذا لقیاس۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سوالات
(۱) برق صاحب فرماتے کہ '' قرآن کی ہر ہدایت روشن ہے'' میں بھی مانتا ہوں لیکن کیا غلط فہمی کی بنا پر میں سوال کرسکتا ہوں کہ یہ جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ کَذٰلِکَ نَسْلُکُہٗ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَ } (الحجر)
ہم مجرمین کے دلوں میں اسی طرح یہ بات ڈال دیتے ہیں (کہ وہ رسول کا مذاق اڑائیں)
اس میں کون سی روشن ہدایت ہے؟ کیا اللہ ان کے دلوں میں ڈالتا ہے کہ وہ رسول کا مذاق کریں۔
(۲) برق صاحب فرماتے ہیں '' قرآن کا ہر لفظ حقیقت، ہر حرف صداقت'' میں بھی اس پر ایمان رکھتا ہوں، لیکن کیا میں غلط فہمی سے پوچھ سکتا ہوں کہ ''کھیعص'' کے ان پانچ حرفوں میں کیا صداقت ہے، اس لفظ کی کیا حقیقت ہے؟ یہ مہمل ہے یا موضوع؟
(۳) برق صاحب فرماتے ہیں '' ہر حکم دنیوی و اخروی فلاح کا ضامن'' میرا بھی اس پر ایمان ہے، لیکن کیا میں غلط فہمی سے پوچھ سکتا ہوں کہ قرآن کی مندرجہ ذیل آیت میں جو حکم ہے کہ:
{ وَ لَا تَحْلِقُوْا رُءُ وْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْھَدْیُ مَحِلَّہٗ } (البقرۃ)
اور اپنے سر نہ منڈاؤ، جب تک قربانی اپنی جگہ پر نہ پہنچ جائے۔
اس میں کیا دنیاوی مفاد ہے؟ جوئیں سر میں پڑ جائیں تو بھی نہ منڈائے، بلکہ یہاں تک ہے کہ:
{ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِہٖٓ اَذًی مِّنْ رَّاْسِہٖ فَفِدْیَۃٌ } (البقرۃ)
اگر تم میں کوئی بیمار ہو یا سر میں جوئیں وغیرہ ہو جائیں تو سر منڈانے کا فدیہ دے۔
یعنی ایسی مجبوری کی حالت میں بھی سر منڈانے کا جرمانہ ادا کرے، آخر اس میں کیا راز ہے؟ پھر یہ حج کا حکم اضاعت مال کا سبب نہیں؟ کیا حج میں ایک مکان اور دو پہاڑوں کا طواف توحید کے خلاف تو نہیں؟
(۴) برق صاحب فرماتے ہیں کہ قرآن کا ہر قول تمام شبہات سے دراء الوراء میں بھی اسے تسلیم کرتا ہوں، لیکن کیا میں غلط فہمی سے پوچھ سکتا ہوں کہ قرآن کا یہ حکم کہ تم پر نماز چند اوقات میں فرض ہے تو یہ اوقات کتنے ہیں اور کون کون سے ہیں؟ کیا جس صلوٰۃ کے متعلق قرآن میں سینکڑوں مرتبہ حکم یا ترغیب دی گئی ہو، اس کی کوئی ترکیب بھی اس میں موجود ہے۔
(۵) برق صاحب فرماتے ہیں '' ہم نے قرآن کی ہر بات کو سائنس کی کسوٹی پر رکھا، فطرت کی میزان میں تولا اور اعمال خدا سے اس کا مقابلہ کرکے دیکھا، ہمیں ہر جگہ صرف حقیقت اور ٹھوس حقیقت نظر آئی۔ '' (دو اسلام ص ۳۴۰)
برق صاحب بات تو صحیح ہے لیکن کیا میں غلط فہمی سے سوال کرسکتا ہوں کہ سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں ایک آدمی پلک جھپکنے میں تخت بلقیس کو ہزاروں میل دور سے کیسے لے آیا تھا؟ عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے کیسے پیدا ہوگئے تھے؟ گہوارہ میں انہوں نے کیسے بات کی تھی، والدہ کے بڑھاپے میں اور بانجھ ہونے کے باوجود حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کیسے پیدا ہوگئے تھے؟ قارون کا آخر کتنا خزانہ تھا، کہ ایک بڑی جمعیت بھی اس کی کنجیاں اٹھانے کی متحمل نہ ہوسکتی تھی؟ یوسف علیہ السلام میں وہ کون سا حسن تھا کہ تمام عورتیں ان پر فریفتہ ہوگئی تھیں اور ان کو دیکھ کر اتنی بدحواس ہوگئی تھیں کہ اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے؟ کیا یہ سب چیزیں سائنس اور فطرت کے مطابق ہیں اور اگر ہیں تو یقین رکھئے کہ احادیث میں بیان کردہ عجائبات بھی ٹھوس حقائق ہیں، اور سائنس اور فطرت کے عین مطابق ہیں، اگرچہ ظاہر میں خلاف ہی کیوں نہ معلوم ہوں، ہماری عقل کی رسائی وہاں تک نہ ہوسکے تو اس میں حیرت و استعجاب کی کونسی بات ہے، آخر ہماری عقلیں بھی تو ناقص ہیں، رسول پر ایمان لانا عقل کی ٹھوکروں سے بچنے کا ذریعہ ہے۔
(۶) برق صاحب فرماتے ہیں '' قرآن حقائق سے بحث کرتا ہے'' ہمیں اس سے اتفاق ہے لیکن کیا میں غلط فہمی سے یہ پوچھ سکتا ہوں کہ ذوالقرنین کا سورج کو کیچڑ کے چشمہ میں ڈوبتے دیکھنا، کونسی حقیقت ہے؟ کیا یاجوج ماجوج قوم تاریخی حقیقت ہے؟ کیا حضرت خضر کا معصوم بچہ کو قتل کردینا حقائق میں سے ہے؟ کیا جرم سے پہلے اس بچے کا قتل حقائق میں سے ہے؟ کیا اس بچہ کو سیفٹی ایکٹ (جس کے خلاف آج کل بھی ہم آواز اٹھاتے رہتے ہیں) کے ماتحت قتل کردینا جائز تھا؟ اس کو پیدا کرنے میں کیا مصلحت تھی؟ کہ پیدا کرکے قتل کرا دیا گیا؟ کیا اللہ کے رسول کی بے عزتی کرنا، اس کی داڑھی اور سر کے بال پکڑ کر گھسیٹنا، اور ان افعال کو کسی انسان کی طرف منسوب کرکے پھر اس انسان کو برگزیدہ ماننا دینی حقیقت ہے؟ کیا کتاب الٰہی کو زمین پر پٹخنے والا اللہ تعالیٰ کے ہاں صاحب وجاہت ہوسکتا ہے؟ کیا یہ ٹھوس دینی حقیقت ہے؟
اگر ان سب باتوں کے باوجو جو بظاہر اچھی نظر نہیں آتیں، قرآن قرآن ہے، تو اس سے کم درجہ کی باتوں پر جو غلط تھی، احادیث میں ہوتی ہے، اس غلط فہمی سے احادیث پر کوئی آنچ نہیں آتی، وہ بھی قرآنی حقائق ہی بیان کرتی ہے، ہمارے نزدیک حقائق ہی وہ ہیں، جو قرآن و حدیث میں ہیں اور ان حقائق کے خلاف اگر کوئی بات کہیں ملے، تو وہ باطل ہے، دھوکہ ہے، خواہ یہ قرآنی و حدیثی حقائق عقل کے خلاف نظر آئیں، تاریخ کے خلاف معلوم ہوں، سائنس کے معیار پر پورے نہ اتریں، میزان فطرت کے مخالف ہوں۔
حق و صداقت کا معیار ایک مومن کے لیے صرف قرآن و حدیث ہے نہ کہ ان کو چھوڑ کر دوسری چیزیں، اگر دوسرے معیاروں پر پورا اترنے کے بعد ہم نے قرآن و حدیث کو مانا، تو پھر یہ ایمان بالغیب نہیں، جس کا قرآن مطالبہ کرتا ہے، بلکہ اپنی عقل ناقص، غلط تاریخ، نامکمل سائنس پر اصل ایمان ہے اگر رسول کی بات ان کے خلاف نہ ہو، تو صحیح ورنہ غلط، یہ ایمان کی شان نہیں، اس معیار پر پرکھ کر تو ہر کس و ناکس کی بات تسلیم کی جاسکتی ہے، رسول کا امتیاز ہی کیا باقی رہا، یہ تو کفر کی شان ہے، مومن کے لیے قرآن و حدیث کی بات عین ایمان ہے، اور وہ اپنی صداقت کے لیے غیر کی محتاج نہیں ہے، ایمان کی تکمیل ہی جب ہوتی ہے کہ ہم ہر طرف سے منہ موڑ کر صرف رسول کی باتوں کو مانیں، ہماری عقل تو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ قرآن ایسا ہونا چاہیے تھا، اس طرح اس کی ترتیب ہوتی، مضامین میں تسلسل ہوتا، تکرار نہ ہوتی، کوئی حرف مہمل نہ ہوتا وغیرہ وغیرہ، مگر کیا کریں اللہ نے اپنی مصلحت کے مطابق جیسا ترتیب دید یا ہمیں تو اب اسی پر ایمان لانا ہے، اور اگر اسی حالت میں ایمان نہیں لانا، تو پھر اللہ تعالیٰ کو بھی ہمارے ایمان کی پرواہ نہیں ہے۔
{ مَنْ شَآءَفَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَآءَفَلْیَکْفُرْ } (الکھف)
جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر اختیار کرے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باب ۲۰
'' صحیح احادیث کو تسلیم کرنا پڑے گا''

غلط فہمی
برق صحب تحریر فرماتے ہیں:
خلفائے راشدین احادیث کو ڈھونڈ کر جلاتے رہے۔ (دو اسلام ص ۳۴۱)
ازالہ
یہ بالکل غلط ہے، تفصیل کے لیے باب اول ملاحظہ ہو، اور اگر اس کو صحیح مان لیا جائے تو پھر یہ بتائیے کہ یہ احادیث کہاں سے آگئیں، جن کے متعلق آپ کے باب کا عنوان ہے '' صحیح احادیث کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ '' (دو اسلام ص ۳۴۱)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
حضور نے کتابت احادیث سے منع فرما دیا تھا۔ (دو اسلام ص ۳۴۱)
ازالہ
یہ بھی صحیح نہیں، تفصیل کے لیے باب اول ملاحظہ ہو، اور اگر اس کو صحیح مان لیا جائے تو پھر معصیت رسول کے جرم پر ناز کرنا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے، برق صاحب لکھتے ہیں:
یہ تمام تفاصیل حدیث میں ملتی ہیں اور یہی وہ بیش بہا سرمایہ ہے جس پہ ہم نازاں ہیں۔ (ص ۳۴۳)
برق صاحب لوگ رسول کی نافرمانی کریں اور آپ اس پر ناز کریں، غور فرمائیے:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
اڑہائی سو برس تک احادیث ہر کہ دمہ کی زبان پر جاری رہیں، اور بگڑتے بگڑتے خدا جانے کیا سے کیا بن گئیں۔ (دو اسلام ص ۳۴۱)
ازالہ
یہ بھی غلط ہے، تفصیل کے لیے باب اول و دوم ملاحظہ ہو۔
قولہ
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی صحیح حدیث موجود ہی نہیں۔ (دو اسلام ص ۳۴۱)
تائید
بالکل سچ فرمایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
صحیح حدیث کے دو مفہوم ہیں اول یہ کہ کسی حدیث کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صحیح ہو، یعنی ہم بدلائل ثابت کرسکیں کہ یہ قول حضور کی زبان مبارک سے واقعی نکلا، ان معنوں میں کوئی حدیث یقینی طور پر صحیح نہیں، البتہ ظن غالب یہ ہے کہ بعض اقوال صحیح ہوں گے۔ (دو اسلام ص ۳۴۱)
ازالہ
بے شمار احادیث یقنی طور پر صحیح ہیں اور اگر آپ اسے تسلیم نہیں کرتے، تو خیر ظن غالب ہی سہی، یہ کیا کم ہے، قرآن مجید کے متعلق بھی صحیح یقین کا کون سا خارجی ذریعہ ہے، یہاں بھی وہی شکوک ہیں اور وہ بھی کئی اعتبار سے، خصوصاً مسلمانوں کے ایک بہت بڑے فرقہ کا اس کی صحت سے انکار کرنا، تضاد آیات، حروف مقطعات وغیرہ۔
برق صاحب کیا اسی اسلام پر آپ کو ناز ہے، جس کے پیغمبر کا ایک قول بھی یقینی طور پر صحیح و محفوظ نہیں، براہ کرم غور کیجئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قولہ
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
دوم کہ حدیث کا مضمون صحیح ہو، اور ان معنوں میں ہزاروں احادیث صحیح ہیں۔ (ص ۳۴۱)
تائید
ہم آپ کی تائید کرتے ہیں احادیث کے سلسلہ میں الفاظ اتنے ضروری نہیں، جتنا کہ ان کا مفہوم، اس لیے کہ الفاظ کا مدعاً قرآن مجید کی تفسیر ہے، اگر قرآن کی آیات کا صحیح مطلب سمجھ میں آگیا، تو بس کافی ہے، مدعا پورا ہوگیا، مفہوم حدیث اگر محفوظ ہے، تو مقصود حاصل ہوگیا، یہ بھی کیا کم ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
اس صورت میں ہمیں صرف یہ دیکھنا پڑے گا کہ حدیث قرآن سے تو نہیں ٹکراتی وغیرہ وغیرہ۔ (دو اسلام ص ۳۴۱)
ازالہ
اس کا جواب آگے آرہا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب حدیث کی صحت کے لیے چند شرائط مقرر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
پس ہر ایسی حدیث صحیح ہے خواہ اس کا راوی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہو، یا بابا رتن۔ (دو اسلام ص ۳۴۲)
ازالہ
صحیح بات تو بے شک صحیح ہے، خواہ اسے بیان کرنے والا کوئی ہو، اگر اس بات کی صحت کسی دوسرے ذریعہ سے ثابت ہوچکی ہے، تو پھر اگر کوئی کذاب و دجال بھی اس کو بیان کرے تو وہ بات اس کے بیان کرنے سے جھوٹ نہیں ہو جائے گی، اس کی صحت کے لیے دوسرے شواہد ہیں، اور ان ہی کی وجہ سے وہ صحیح ہے، ہاں اگر کسی بات کی صحت کے لیے دوسرے شواہد موجود نہ ہوں، اور بات ایسی ہو کہ اس کے قبول کرنے میں بظاہر کوئی حرج بھی نہ ہو، تو ایسی بات ہرگز کسی کذاب کے بیان کرنے سے قبول نہیں کی جائے گی، یہاں دیکھا جائے گا کہ راوی ابوہریرہ ہیں یا بابا رتن، اگر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں تو قبول کی جائے گی اور اگر بابا رتن ہے، تو مسترد کردی جائے گی، مثلاً بابا رتن اگر یہ بیان کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ '' ظہر کی نماز میں سورہ نساء پڑھا کرو'' یہ بات ایسی ہے کہ برق صاحب کے پیش کردہ تمام معیاروں پر پوری اترتی ہے، کیا ہم اس کو تسلیم کرلیں؟ برق صاحب ایسے موقع پر آپ ضرور کہیں گے کہ بابا رتن ثقہ بھی ہے یا نہیں اور اگر نہیں تو آپ اس حدیث کو فرضی قرار دیں گے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بابا رتن کو کذاب تسلیم کرنے کے بعد بھی اس حکم کو امت کے سر پر رکھ دیں، لہٰذا یہ کہنا کہ سچا اور جھوٹا راوی دونوں برابر ہیں بالکل لغو ہے۔
دوم: ہر سچی بات کو تسلیم کرنے سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ وہ سچی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے، ہر اچھی بات کو خواہ مخواہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تو منسوب نہیں کیا جاسکتا، ایک عالم کے منہ سے نکلی ہوئی سچی بات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلی ہوئی بات میں ایک مومن کے لیے تو بڑا فرق ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی بات میں جو تقدس اور خیر ہے وہ دوسرے کی بات میں کہاں ہوسکتا ہے اور اگر دونوں برابر ہوں، تو پھر کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ بے شک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بھی اچھی اور سچی ہے، لیکن میں اس معاملہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ زیادہ قرین مصلحت ہے ، لہٰذا میری پیروی کرو، نہ کہ حدیث رسول کی ، بتائیے کیا ایک مومن اسے برداشت کرسکتا ہے۔
 
Top