• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
اگر کوئی انگریز کہہ دے کہ خدا ایک ہے، چوری، زنا اور قمار بازی گناہ ہیں تو کیا کسی مسلمان میں یہ جرأت ہے کہ وہ ان اقوال کے صحیح ہونے سے انکار کردے۔ (دو اسلام ص ۳۴۲)
ازالہ
کوئی مسلمان ان کا انکار نہیں کرے گا، اس وجہ سے کہ یہ باتیں اس کے بیان کرنے سے پہلے قرآن میں موجود ہیں، اور قرآن پر اس کا ایمان ہے، یہ اس انگریز کی تصدیق نہیں ہے بلکہ در حقیقت قرآن کی تصدیق ہے، اگر وہ انگریز
(۱) قیامت کے متعلق ایسی باتیں بیان کرے جو قرآن و حدیث میں نہیں ہیں۔
(۲) میدان محشر کے حالات بیان کرے۔
(۳) دوزخ کے عذاب کا حال بیان کرے۔
(۴) جنت کی نعمتوں کا ذکر کرے۔
(۵) نماز عید اور جمعہ کے فضائل بیان کرے۔
(۶) نماز استسقاء کے لیے بعض شرائط مقرر کرے۔
(۷) آیندہ واقعات کی پیشین گوئی کرے۔
(۸) گزشتہ اخبار کو بیان کرے۔
(۹) ساتوں آسمانوں کے رنگ بیان کرے۔
(۱۰) تاروں کی مخلوقات کا ذکر کرے۔
(۱۱) نماز کے نواقض میں کچھ اضافہ کرے۔
(۱۲)صفا و مروہ کے طواف کو لغو کہے اور اسے شرک بتائے، یا
(۱۳) صفا و مروہ کے گرد طواف کرنے کو صحیح قرار دے، اور ان کے مابین دوڑنے کو بلحاظ لغت قرآن غلط قرار دے وغیرہ وغیرہ۔
اور ان چیزوں کی وضاحت اللہ کے رسول نے بیان نہ کی ہو تو بتائیے کیا ان سب چیزوں کو ہم تسلیم کرلیں، صرف اس لیے کہ یہ باتیں قرآن سے نہیں ٹکراتیں، نہ تاریخی و جغرافیائی حقائق کے خلاف ہیں نہ حقائق کو نیہ کا انکار کرتی ہیں، برق صاحب میرا تو حسن ظن یہی ہے کہ آپ بھی یہ باتیں تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ ان باتوں کی صحت کے لیے راوی کا ثقہ ہونا ضروری ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
لہٰذا ثابت ہوا کہ حضرت ابوہریرہ اور بابا رتن کی مرویات میں بڑا فرق ہوگا '' چہ نسبت خاک را عالم پاک'' یہ دو اور دو چار والا معاملہ نہیں کہ جو کہے تسلیم کرلیا جائے، پھر دو اور دو کو بھی تسلیم کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی فرمایا کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب کو حساب سکھایا کرتے تھے، ہر صحیح بات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا ، آخر یہ بھی غلط بیانی ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ غلط بیانی کو ہم صحیح بیانی تسلیم کرکے خود بھی غلط بیانی کے مرتکب ہوں اور خلاف واقعہ بات یعنی کذب کو صدق سمجھ لیں اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں۔
میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص یہ بیان کرے کہ نیوٹن کے حرکات قوانین کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا تھا، یا فلوجسٹن کے نظریہ احتراق پر ہمفری ڈیوی سے بہت پہلے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرب کاری لگائی تھی تو کیا آپ ان باتوں پر صرف اس لیے یقین کرلیں گے یہ باتیں صحیح ہیں، میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ یقین نہیں کریں گے، بلکہ سند و ثبوت طلب کریں گے پس ثابت ہوا کہ صحیح بات کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا اور اگر کوئی کرے گا تو اس کو اپنی ثقاہت اور سند ثابت کرنا ہوگی، ورنہ اس کی بات مسترد کردی جائے گی، خلاصہ یہ ہوا کہ اصل چیز راوی کی ثقاہت اور سند ہے، نہ کہ کچھ اور۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قولہ
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
ہمارے محدثین اسناد و روایت یہ تکیہ کرتے رہے اور انہیں کرنا بھی چاہیے تھا۔ (دو اسلام ص ۳۴۲)
قولی
بہت خوب ! آپ نے بہت صحیح بات کہی اور اسی کو میں نے اوپر ثابت کیا ہے۔
قولہ
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
آخر کسی قول کو آنحضرت کی طرف منسوب کرنے کے لیے روایت کا سلسلہ ضروری تھا۔ (ص ۳۴۲)
قولی
ہم بھی آپ کی تائید کرتے ہیں، لیکن ایک بات دریافت طلب ہے ، وہ یہ کہ اگر کسی قول کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کے لیے سلسلہ روایت ضروری ہے تو پھر یہ سلسلہ روایت سچوں کا ضروری ہے، یا جھوٹوں اور کذابوں کا سلسلہ بھی کافی ہے، غالباً آپ یہی کہیں گے کہ جھوٹا اور سچا کیسے برابر ہوسکتا ہے، اگر جھوٹوں کا سلسلہ کافی اور مستند سمجھا جائے ، تو پھر اس سلسلہ اسناد کی ضرورت ہی کیا ہے، پھر تو سلسلہ اسناد کا پیش کرنا یا اس کا مطالبہ کرنا ہی لغو اور لا یعنی ہے، اگر بات یہ ہے اور در حقیقت یہ ہے تو پھر صادق اور کاذب راوی برابر نہیں ہوسکتے اور اسی بنا پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور بابا رتن کی مرویات برابر نہیں ہوسکتیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
حضور پر بذریعہ وحی صرف قرآن نازل ہوا تھا۔ (دو اسلام ص ۳۴۳)
ازالہ
میں تمہید میں ثابت کرچکا ہوں کہ احادیث بھی بذریعہ وحی نازل ہوئی تھیں، تفصیل کے لیے تمہید ملاحظہ فرمائیں، ذیل میں کچھ مزید معروضات پیش کرتا ہوں ، انصاف فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللہَ اصْطَفٰکِ وَ طَھَّرَکِ وَ اصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ [3:42] یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَ اسْجُدِیْ وَ ارْکَعِیْ مَعَ الرّٰکِعِیْنَ } (اٰل عمران)
اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم بے شک اللہ نے تجھے منتخب کرلیا ہے، اور تجھے پاک کردیا ہے اور تمام دنیا کی عورتوں پر تجھے برگزیدہ کیا ہے اے مریم اپنے رب کی فرمانبرداری کرتی رہ ، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع اور سجدہ کرتی رہ۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ:
(۱) حضرت مریم کے پاس فرشتے آیا کرتے تھے۔
(۲) فرشتے حضرت مریم سے باتیں کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا پیغام حضرت مریم کو پہنچایا کرتے تھے۔
(۳) شرعی احکام بھی فرشتوں کے ذریعہ حضرت مریم کے پاس آیا کرتے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ ان فرشتوں کے ذریعہ جو پیغامات الٰہیہ اور احکام شرعیہ حضرت مریم کر پہنچتے تھے، وہ کیا اللہ کی کتاب تھی، جو حضرت مریم کو دی گئی تھی، اور کیا اس کتاب کے ذریعہ حضرت مریم کو اللہ تعالیٰ نے اصلاح قوم اور اس کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا تھا، کیا حضرت مریم اللہ کی رسول تھیں، کیا وہ نبیہ تھیں؟ کیا وہ قوم کو تبلیغ کرتی تھیں، ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے اور یقینا برق صاحب کو بھی اس سے اتفاق ہوگا، پس ثابت ہوا کہ کتاب اللہ کے علاوہ بھی فرشتوں کے ذریعہ وحی آیا کرتی ہے، اور جب ایک غیر نبی پر فرشتوں کا نزول ہو، اور وحی آئے تو کیسے ممکن ہے کہ ایک اولو العزم نبی پر سوائے قرآن کے فرشتوں کا نزول ہی نہ ہو سوائے قرآن کے دوسری وحی نہ آئے، الغرض کتاب اللہ کے علاوہ بھی وحی آتی رہی ہے اور آسکتی ہے، اور سنیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ } (ال عمران)
اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم اللہ تعالیٰ تم کو بشارت دیتا ہے ایک بیٹے کی جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا۔
گویا اللہ تعالیٰ بار بار حضرت مریم کی طرف وحی بھیجتا رہا، حضرت مریم پوچھتی ہیں کہ بغیر باپ کے بیٹا کیسے ہوگا، جواب ملتا ہے:
{ کَذٰلِکِ اللہُ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ } (ال عمران)
اللہ تعالیٰ اسی طرح پیدا کرے گا وہ جو چاہے پیدا کرسکتا ہے۔
پھر جب انہیں دردزہ شروع ہوا، تو فرمایا:
{ لَا تَحْزَنِیْ } (مریم)
اے مریم غمگین نہ ہوا
پھر ارشاد فرمایا:
{ وَھُزِّیْ اِلَیْکِ بِجِذْعِ النَّخُلَۃِ تُسَاقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا } (مریم)
اے مریم کھجور کے تنے کو ہلاؤ تم پر تازہ کھجوریں جھڑیں گی۔
پھر ارشاد فرمایا:
{ کُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّیْ عَیْنًا } (مریم)
کھاؤ، پیو ، اور خوش رہو۔
غرض یہ کہ مختلف حالات میں مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ حضرت مریم پر وحی بھیجتا رہا، اور یقینا یہ کتاب اللہ کی وحی نہیں تھی، اور سنیے:
{ اِذْ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اُمِّکَ مَا یُوْحٰٓی ۔ اَنِ اقْذِ فِیْہِ فِی التَّابُوْتِ فَاقْذِ فِیْہِ فِی الْیَمِّ } (طہ)
اور (اے موسیٰ) جب ہم نے تمہاری والدہ کی طرف وحی کی جو کی وہ یہ کہ اس بچہ کو تابوت میں رکھ کر دریا میں بہا دو۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ محترمہ کے پاس بھی وحی آیا کرتی تھی اور یقینا یہ وحی تورات میں نہیں تھی بلکہ تورات سے پہلے نازل ہوئی تھی اور تورات کے علاوہ تھی ، دوسری جگہ ارشاد باری ہے:
{ وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اُمِّ مُوْسٰٓی اَنْ اَرْضِعِیْہِ فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْہِ فَاَلْقِیْہِ فِی الْیَمِّ وَ لَا تَخَافِیْ وَ لَا تَحْزَنِیْ اِنَّا رَآدُّوْہُ اِلَیْکِ وَ جَاعِلُوْہُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ } (القصص)
اور ہم نے موسیٰ کی والد کی طرف وحی بھیجی کہ ان کو دودھ پلاؤ، پھر جب تمہیں خوف ہو تو ان کو دریا میں ڈال دینا، اور نہ ڈرنا نہ غمگین ہونا، ہم تمہارے پاس انہیں واپس لے آئیں گے اور ہم اس کو رسول بنائیں گے۔
کیا ان آیات میں صراحت کے ساتھ وحی کا ذکر نہیں، وحی کو دل میں ڈالنے کے معنوں میں ہرگز نہیں لیا جاسکتا، اس لیے کہ اس میں وعدہ ہے اور آیندہ کی خبر ہے، اور یہ چیز بغیر وحی کے معلوم نہیں ہوسکتی۔
نتیجہ
اگر غیر نبی کے پاس کتاب الٰہی کے علاوہ وحی آسکتی ہے، تو ایک نبی کے پاس بھی کتاب الٰہی کے علاوہ وحی آسکتی ہے، آخر اس میں اشکال ہی کیا ہے، تمہید میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے، لیکن اس زاویہ سے اس پر بحث نہیں ہوئی تھی، لہٰذا اس کی تکمیل یہاں کردی گئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
چونکہ قرآن میں صرف مہمات مسائل سے بحث کی گئی ہے اور چھوٹی چھوٹی تفاصیل کو انسانی عقل پر چھوڑ دیا گیا ہے، اس لیے حضور تمام غیر الہامی مسائل میں صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ (دو اسلام ص ۳۴۳)
ازالہ
کسی دینی معاملہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مشورہ نہیں لیا، اور نہ کوئی دینی کام مشورہ سے طے پایا، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پانچ وقت کی نماز مشورہ سے طے کی گئی، نمازوں کی رکعات، نمازوں کی ہیئت، کیا یہ سب مشورہ سے طے ہوئیں، ہرگز نہیں، بلکہ نماز کے تمام طریقہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے، ارشاد ہے:
{ حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَ قُوْمُوْا لِلہِ قٰنِتِیْنَ ۔ فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُکْبَانًا فَاِذَآ اَمِنْتُمْ فَاذْکُرُوا اللہَ کَمَا عَلَّمَکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ } (البقرۃ)
نمازوں کی حفاظت کرو، خصوصاً بیچ والی نماز کی اور اللہ کے سامنے ادب سے کھڑے رہا کرو، پھر اگر دشمن کا خوف ہو، تو سوار یا پیدل جس طرح ہوسکے نماز پڑھ لو، لیکن جب امن ہو تو پھر نماز کو اسی طرح ادا کرو، جس طرح اللہ نے تمہیں سکھایا ہے، اور جس طریقہ کو تم نہیں جانتے تھے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ حالت امن میں نماز پڑھنے کا کوئی خاص طریقہ ہے، جس طریقہ سے نماز ادا کی جاتی ہے، اور اس طریقہ سے نماز کی ادائیگی بحالت خوف ممکن نہیں اگر یہ طریقہ مشورہ سے طے پایا تھا، تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف منسوب نہ کرتا، نہ یہ فرماتا کہ اس طریقہ کو تم تو جانتے ہی نہ تھے، پس معلوم ہوا کہ یہ طریقہ اللہ تعالیٰ نے سکھایا اور بذریعہ وحی سکھایا، لہٰذا قرآن کے علاوہ وحی کا آنا ثابت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ حضور کی ہر حرکت ، ہر قول اور ہر اقدام تابع وحی ہوا کرتا تھا تو پھر '' شاورھم'' (تم صحابہ سے مشورہ کرلیا کرو) کی ہدایت بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ (دو اسلام ص ۳۴۳، ۳۴۴)
ازالہ
'' شَاوِرْھُمْ '' کے آگے '' فِی الْاَمْرِ '' ہے، جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ سیاست میں مشورہ کا حکم دیا جا رہا ہے، نہ کہ دین میں امور سیاست میں بھی صرف اس شعبہ میں مشورہ کا حکم ہے، جس کا تعلق قوانین دینیہ سے نہیں، بلکہ جو شبہ امور دنیا اور مصالح ملکی سے تعلق رکھتا ہے مثلاً ان احکام میں مشورہ نہیں لیا گیا کہ:
کن کافروں سے لڑا جائے کب اور کن مہینوں میں لڑا جائے، لڑائی میں کون کون سے کام ناجائز ہیں، حرم میں لڑا جائے یا نہیں، حرام مہینوں میں اور حرم میں کس حالت میں جنگ جائز ہے، ان اصول و احکام کا تعلق براہِ راست قوانین الٰہیہ سے ہے، لہٰذا ان احکام میں کوئی مشورہ نہیں لیا گیا۔
آپ فرمائیں گے کہ یہ احکام تو قرآن میں موجود ہیں، لیکن جناب قرآن میں یہ تفصیل کہاں ہے کہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو مت قتل کرو، پھل دار درخت مت کاٹو، ناک، کان و دیگر اعضا مت کاٹو، آگ میں مت جلاؤ، سفیر کو قتل نہ کرو، جاسوس کو قتل کردو، وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام احکام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مشورہ نہیں کیا، ہاں مشورہ کیا تو صرف یہ کیا کہ مدینہ میں رہ کر لڑیں، یا باہر نکل کر، ظاہر ہے کہ اندر رہ کر لڑنا، یا باہر جا کر لڑنا یہ کوئی اصولی و دینی حکم کی حیثیت نہیں رکھتا، اس کا تعلق دنیاوی مصالح سے ہے، لہٰذا اس پر مشورہ لیا گیا اور مشورہ پر عمل بھی کیا گیا، دینی احکام میں قطعاً کبھی آپ نے مشورہ نہیں لیا، نہ زکوٰۃ کے نصاب کے متعلق مشورہ ہوا، نہ زکوٰۃ کی مقدار کے متعلق، نہ عیدین کے انعقاد کے سلسلہ میں مشورہ ہوا، نہ نماز استسقا کے متعلق، نہ نماز کسوف کے متعلق، ان میں سے کوئی کام بھی مشورہ کی بناء پر مقرر نہیں ہوا۔
یہاں تک کہ امیر المومنین اور حکمران کی حیثیت سے بھی دیکھا جائے، تو آپ بغیر صحابہ کے مشورہ کے حکمران بنے تھے، اور جب کبھی آپ نے سپہ سالار اور گورنر مقرر کئے، تو کبھی مشورہ نہیں لیا، بلکہ اگر لوگوں نے کسی کی سپہ سالاری پر اعتراض بھی کیا، تو آپ نے اس اعتراض کی کوئی پرواہ نہیں کی، بلکہ جو چاہا عمل کیا اور ہمارے لیے یہ دستور العمل مرتب فرما دیا کہ اگر حاکم وقت کسی شخص کو کسی عہدہ کے مناسب سمجھے تو رعایا کو حق حاصل نہیں ہے کہ اس میں مداخلت کرے، یہ تھا اصول دین، اور اس اصول دین کے نفاذ میں بھی کسی سے مشورہ نہیں لیا گیا، پھر خلفائے راشدین ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتب کردہ اصول اور سنن ہی کی پیروی کرتے رہے، انہوں نے کبھی یہ خیال نہیں کیا یہ اصول و فروع کیونکہ مشورہ سے طے ہوئے تھے، لہٰذا مشورہ ہی سے پھر طے کئے جاسکتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ایک شبہ اور اس کا ازالہ
یہاں ایک شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ اذان کے متعلق مشورہ کیا گیا میں کہتا ہوں کہ مشورہ کی حیثیت شروع میں بالکل دنیاوی تھی، یعنی لوگوں کو اطلاع کرنے کا ذریعہ کیا ہونا چاہیے، لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ تھی کہ اس اطلاع و اعلان کو بھی دینی حیثیت دے دی جائے، لہٰذا بذریعہ وحی و بذریعہ خواب اس اعلان و اذان کی تعلیم دی گئی اور اس وحی کی بنا پر اذان مشروع ہوگئی۔
اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ جزئیات کو آپ نے مشورہ سے متعین فرمایا، پھر بھی اس نافذ شدہ مشورہ کو ماننا شرعاً لازم ہے، اس لیے کہ اس مشورہ پر اللہ تعالیٰ کی نگاہ تھی، اگر وہ مشورہ غلط ہوتا تو فوراً بذریعہ وحی اس کی اصلاح کردی جاتی، جیسا کہ اسیران بدر کے سلسلہ میں بذریعہ وحی اصلاح کی گئی اور آئندہ کے لیے اس مشورہ کے مطابق عمل کرنے سے روک دیا گیا۔
غرض یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ سے مشورہ کرنا، اور اس مشورہ کے مطابق لائحہ عمل بنانا اور پھر اس لائحہ عمل کے خلاف وحی کا نہ آنا، یہ بھی وحی ہی کی ایک صورت ہے کہ اللہ تعالیٰ اس لائحہ عمل کو شرف منظوری بخش کر برقرار رکھتا ہے، لہٰذا بفرض محال جو تفصیلی احکام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مرتب کئے، یا مشورہ کے بعد نافذ فرمائے، بہرحال ان کو اللہ تعالیٰ کی منظوری حاصل ہے اور جب اللہ تعالیٰ کی منظوری حاصل ہے، تو گویا وہ اللہ تعالیٰ کو پسندیدہ ہیں، لیکن کسی دوسری تفصیل و تشریح کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے یا نہیں، صحیح ہے یا نہیں، لہٰذا ایسی غیر یقینی چیز کے مقابلہ میں یقینی چیز کو چھوڑ دینا یقینا حق سے انحراف کرنا ہے اور یہ عقلاً بھی محال ہے اور نقلاً بھی ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرما دیا ہے:
{ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا } (النجم)
محض گمان سے حق کو ذرا سا بھی چھوڑا نہیں جاسکتا۔
جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، وہ یقینا حق ہے اور اس کو چھوڑنا یقینا اللہ کے پسندیدہ لائحہ عمل کو چھوڑنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ لائحہ عمل کو چھوڑنا یقینا گمراہی ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے صاف اعلان فرما دیا ہے:
{ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ } (الاعراف)
رسول کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت یاب ہو جاؤ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
حدیث میں کئی ایسے واقعات موجود ہیں کہ حضور نے کچھ کہا، صحابہ نے کچھ اور مشورہ دیا اور وحی نے صحابہ کی تائید کردی۔ (دو اسلام ص ۳۴۴)
ازالہ
احادیث میں ایسا ایک بھی واقعہ موجود نہیں جس میں وحی نے صحابہ کی تائید کی اور آپ کی تردید کی ہو، اسیران بدر کا جو واقعہ آپ نے پیش کیا ہے، وہ اس کی نظیر نہیں اس واقعہ میں تو جو کچھ طے پایا، وہ صحابہ کی اکثریت کا فیصلہ تھا، اور وحی نے اقلیت کی تائید کی تھی، یعنی اکثریت کے فیصلہ کو وحی الٰہی نے رد کردیا، اس واقعہ سے تو الٹا یہ ثابت ہونا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشورہ کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے ، اکثریت کی رائے غلط بھی ہوسکتی ہے اور صحیح بھی لہٰذا اس کا فیصلہ کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا مشورہ صحیح ہے یا غلط بذریعہ وحی ہوگا، اگر بذریعہ وحی تردید نہ ہو، تو وہ فیصلہ صحیح سمجھا جائے گا اور اگر بذریعہ وحی اس کی تردید ہو جائے ، تو وہ فیصلہ کالعدم ہو جائے گا، گویا اصل اہمیت اللہ تعالیٰ کی منظوری کو ہے، اب خواہ وہ اس منظوری کو بذریعہ وحی جلی ظاہر فرما دے، یابذریعہ وحی خفی یا محض خاموشی سے اس کو برقرار رہنے دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اسیران بدر کا واقعہ آپ کے سامنے ہے کہ حضور فدیہ لینے کا فیصلہ کیا تھا، حضرت عمر نے قتل کا مشورہ دیا، اور اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تائید فرما دی۔ (دو اسلام ص ۳۴۴)
ازالہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کیا، اور کثرت آراء کے فیصلہ پر فدیہ لیا گیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ قتل کردیا جائے ، لیکن ان کا مشورہ اکثریت کے مقابلہ میں تسلیم نہیں کیا گیا، اب اگر مشورہ کو دینی حیثیت حاصل تھی، تو پھر وحی نے اکثریت کے خلاف فیصلہ کیوں دیا، اکثریت کا فیصلہ غلط تھا، اور کیونکہ معاملہ محض دنیاوی تھا، لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے ذاتی رحم و کرم کے بناء پر کثرت رائے سے اتفاق فرمایا، لیکن اللہ تعالیٰ نے مشورہ سے کیا ہوا، فیصلہ ناپسند فرمایا، کیونکہ اس وقت یہ فیصلہ دینی سنت اختیار کر رہا تھا، وہ یہ کہ فدیہ لے کر چھوڑنے کے شرائط کیا ہونے چاہئیں اور کب فدیہ لے کر چھوڑا جاسکتا ہے، اگر اس فیصلہ پر اللہ تعالیٰ خاموش رہتا، تو یہ سنت بن جاتی کہ کسی حالت میں بھی اسیران جنگ کو قتل کیا جاسکتا ہے، یا فدیہ لے کر رہا کیا جاسکتا ہے، حالات کے تقاضہ سے اس میں کوئی رد و بدل نہیں ہوسکتا، ہر حالت میں اکثریت کا فیصلہ نافذہوگا، لیکن اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ نہیں ہر حالت میں مشورہ پر عمل نہیں ہوگا، بلکہ ہم اصول دین کی حیثیت سے یہ بات نافذ کرنا چاہتے ہیں کہ جب تک دشمن کی طاقت کو اچھی طرح کچل نہ دیا جائے، اور خوب خونریزی کے بعد اسلامی حکومت کا رعب غالب نہ ہو جائے، اس وقت تک اسیران جنگ کو رہا نہ کیا جائے۔
بہرحال اللہ تعالیٰ نے اکثریت کے فیصلے کو برقرار رکھا، اپنے گزشتہ نازل کردہ حکم کی رو سے جو سورہ محمد میں ہے، اسی فیصلہ کو سند جواز بخشا، اللہ تعالیٰ نے ناراضگی کا اظہار صرف اس لیے کیا تھا کہ بعض لوگوں کی نیت اچھی نہیں تھی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے:
{ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا } (الانفال)
تم لوگ دنیا کے مال کے طالب تھے۔
یعنی اکثر لوگوں نے محض دنیاوی لالچ سے ایسی رائے دی تھی، للہیت نہ تھی۔
برق صاحب آپ اس واقعہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے حجت شرعیہ نہ ہونے کے منافی سمجھ رہے ہیں، حالانکہ اس واقعہ سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فیصلہ خواہ مشورہ سے ہو یا بغیر مشورہ کے صحیح ہوتا تھا، اور اگر صحیح نہیں ہوتا تھا، تو فوراً وحی کے ذریعہ اس کی تصحیح کردی جاتی تھی، لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام فیصلوں پر اللہ تعالیٰ کی مہر تصدیق ثبت ہے اور یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام فیصلے اللہ تعالیٰ کے فیصلے سمجھے جاتے ہیں اگر یہ فیصلے غلط ہوتے، تو اللہ تعالیٰ کبھی خاموش نہ رہتا، اللہ تعالیٰ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کو دیکھتے رہنا، غلط فیصلہ پر ٹوک دینا، یہ وحی قولی ہے، جلی ہو یا خفی، صحیح فیصلہ پر خاموش رہنا، یہ وحی تقریری ہے اور حدیث کا ایک بہت بڑا حصہ اس وحی تقریر پر بھی مشتمل ہے، علاوہ اس تقریری وحی کے بے شمار مرتبہ قولی وحی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کرتی تھی ، اور یہ قرآن کے علاوہ تھی، ان کا انکار تواتر کا انکار ہے، اس قسم کی احادیث جن میں وحی کا نزول موجود ہے، حد تواتر کو پہنچ چکی ہیں، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ علاوہ قرآن کے بھی وحی آیا کرتی تھی۔ تفصیل کے لیے تمہید ملاحظہ فرمالیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اللہ نے قرآن میں صرف اہم قوانین و ضوابط سے بحث کی ہے، اور غیر اہم مسائل انسانی اجتہاد پر چھوڑ دئیے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام ایسے معاملات میں اجتہاد سے کام لیا کرتے تھے اور احادیث کا بیشتر حصہ انہی اجتہادات پر مشتمل ہے۔ (دو اسلام ص ۳۴۴)
ازالہ
ہمیں اس کے تسلیم کرنے سے انکار نہیں، اگر آپنے بعض مسائل میں اجتہاد سے فیصلہ کیا ہے تو پھر بھی ان کے حق ہونے میں شبہ نہیں، ان کی صحت پر اللہ تعالیٰ کا سکوت سند ہے اور یہ وحی تقریری ہے، اور جس طرح وحی قولی حجت شرعیہ ہے، اسی طرح وحی تقریری بھی حجت شرعیہ ہے اگر آپ کا اجتہاد غلط ہوتا تو وحی قولی سے راہ نمائی نازل ہوتی، جیسا کہ ایک دو مرتبہ ہوا، اور کیونکہ ساری زندگی میں دو ایک ہی اجتہادی غلطیاں ہوئیں، اور وہ صحیح کردی گئیں۔ لہٰذا اب آپ کی پوری زندگی میں کوئی دغدغہ نہیں، اور آپ کے اجتہادات بالکل صحیح ہیں اور وہ قرآن کی ایسی تشریح ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی رضا سند ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہم بے کھٹکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کی پیروی کرسکتے ہیں اور { وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ} (اعراف) کے مطابق ہدایت یاب ہوسکتے ہیں۔
یہی وہ مقام ہے جس کو عصمت انبیاء کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور یہی وہ معصوم ہستیاں ہیں، جن کو منتخب کرکے اللہ تعالیٰ ہمارے لیے نمونہ مقرر فرماتا ہے ، اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ نمونہ کو چھوڑ کر دوسرے کو نمونہ بنانا، اللہ تعالیٰ کے کام میں مداخلت بے جا ہے اور یہی شرک فی الرسالت ہے، رسول کے اقوال و افعال پر اللہ تعالیٰ کی رضا ہوتی ہے، اور بعض احکام براہِ راست وحی کے ذریعہ رسول تک پہنچتے ہیں، لہٰذا رسول کا ہر قول و فعل وحی الٰہی ہوتا ہے، شریعت ہوتا ہے ، حکم الٰہی ہوتا ہے، اگر رسول کے اقوال و افعال کے علاوہ یا ان کو چھوڑ کر دوسرے کے اقوال و افعال کو مشعل ہدایت بنایا جائے ، تو گویا ان کے اقوال و افعال کو احکام الٰہی کا درجہ دینا ہے اور یہ شرک فی الحکم ہے، اور شرک فی الرسالت ہے، تقلید کی بدعت بھی اسی شرک فی الرسالت و شرک فی الحکم کی ذیل میں آتی ہے۔
 
Top