- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
غلط فہمی
یہ فرض کرلینا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملکہ اجتہاد سے عاری تھے اور وحی کے بغیر نہ کچھ سوچ سکتے تھے نہ کچھ کرسکتے تھے، رسالت پناہ کی انتہائی توہین، اگر کوئی شخص آپ کے متعلق یہ کہہ دے کہ آپ ہر معاملہ میں اپنے کسی دوست یا بیوی کے مشورہ پہ چلتے ہیں، تو کیا آپ اسے اپنی توہین نہیں سمجھیں گے؟ (دو اسلام ص ۳۴۴، ۳۴۵)
ازالہ
اگر کوئی شخص یہ کہہ دے کہ یہ قرآن تو اللہ کا کلام ہے، لیکن خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ کوئی ایسی جامع دمانع کتاب تصنیف کردیتے ، جو دوسرے مصنفین کی تصنیف پر بھاری ہوتی، معلوم ہوا کہ وہ خود تو نہ کچھ لکھ سکتے تھے نہ بول سکتے تھے بس وحی کے تابع تھے، وحی آگئی تو بات کرلی '' ما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی'' کا مصداق تھے ، تو بتائیے کیا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قابلیت پر طنز نہ ہوگا، کیا اسے آپ کی توہین نہ تصور کیا جائے گا۔
برق صاحب! محض رنگ آمیزی سے کام نہیں چلتا، حقیقت حقیقت ہے، اسے بدلا نہیں جاسکتا، یہ قرآن کی آیات آپ کے سامنے ہیں، یہ حقائق ہیں، ان کی رو سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بغیر وحی کے آپ بات ہی نہ کرتے تھے، اب اگر یہ توہین ہے، تو وہ بھی توہین ہے کہ بغیر وحی کے آپ قرآن کی تشریح و تفصیل نہ کرتے تھے، برق صاحب بیوی کی راہ نمائی میں کام کرنا تو توہین ہوسکتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی راہ نمائی کو توہین سمجھنا عقل سے بعید ہے، اللہ تعالیٰ کی راہ نمائی ہی تو رسول کو دوسرے انسانوں سے ممتاز کرتی ہے اور آپ اس کو توہین سمجھ رہے ہیں۔
تعجب ہے کہ آپ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ آپ ہر کام صحابہ کے مشورہ سے کرتے تھے اور اس کو توہین نہیں سمجھتے، لیکن اگر کوئی دوسرا یہ کہتا ہے کہ آپ ہر کام اللہ کے مشورہ سے کرتے تھے، تو آپ اس کو توہین سمجھ لیتے ہیں، یعنی صحابہ کے مشورہ کا پابند تو قابل تعریف، اور اللہ تعالیٰ کے اشارات کا پابند قابل توہین، خدارا انصاف کیجئے۔
پھر ہم یہ کب کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ملکہ اجتہاد سے عاری تھے، ہم تو یہ کہتے ہیں کہ آپ کے اجتہادات پر خدا کی نظر تھی، وہ اللہ تعالیٰ کو منظور تھے لہٰذا وہ حجت شرعیہ ہیں، کہئے اس میں کیا الجھن ہے؟
یہ فرض کرلینا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملکہ اجتہاد سے عاری تھے اور وحی کے بغیر نہ کچھ سوچ سکتے تھے نہ کچھ کرسکتے تھے، رسالت پناہ کی انتہائی توہین، اگر کوئی شخص آپ کے متعلق یہ کہہ دے کہ آپ ہر معاملہ میں اپنے کسی دوست یا بیوی کے مشورہ پہ چلتے ہیں، تو کیا آپ اسے اپنی توہین نہیں سمجھیں گے؟ (دو اسلام ص ۳۴۴، ۳۴۵)
ازالہ
اگر کوئی شخص یہ کہہ دے کہ یہ قرآن تو اللہ کا کلام ہے، لیکن خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ کوئی ایسی جامع دمانع کتاب تصنیف کردیتے ، جو دوسرے مصنفین کی تصنیف پر بھاری ہوتی، معلوم ہوا کہ وہ خود تو نہ کچھ لکھ سکتے تھے نہ بول سکتے تھے بس وحی کے تابع تھے، وحی آگئی تو بات کرلی '' ما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی'' کا مصداق تھے ، تو بتائیے کیا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قابلیت پر طنز نہ ہوگا، کیا اسے آپ کی توہین نہ تصور کیا جائے گا۔
برق صاحب! محض رنگ آمیزی سے کام نہیں چلتا، حقیقت حقیقت ہے، اسے بدلا نہیں جاسکتا، یہ قرآن کی آیات آپ کے سامنے ہیں، یہ حقائق ہیں، ان کی رو سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بغیر وحی کے آپ بات ہی نہ کرتے تھے، اب اگر یہ توہین ہے، تو وہ بھی توہین ہے کہ بغیر وحی کے آپ قرآن کی تشریح و تفصیل نہ کرتے تھے، برق صاحب بیوی کی راہ نمائی میں کام کرنا تو توہین ہوسکتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی راہ نمائی کو توہین سمجھنا عقل سے بعید ہے، اللہ تعالیٰ کی راہ نمائی ہی تو رسول کو دوسرے انسانوں سے ممتاز کرتی ہے اور آپ اس کو توہین سمجھ رہے ہیں۔
تعجب ہے کہ آپ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ آپ ہر کام صحابہ کے مشورہ سے کرتے تھے اور اس کو توہین نہیں سمجھتے، لیکن اگر کوئی دوسرا یہ کہتا ہے کہ آپ ہر کام اللہ کے مشورہ سے کرتے تھے، تو آپ اس کو توہین سمجھ لیتے ہیں، یعنی صحابہ کے مشورہ کا پابند تو قابل تعریف، اور اللہ تعالیٰ کے اشارات کا پابند قابل توہین، خدارا انصاف کیجئے۔
پھر ہم یہ کب کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ملکہ اجتہاد سے عاری تھے، ہم تو یہ کہتے ہیں کہ آپ کے اجتہادات پر خدا کی نظر تھی، وہ اللہ تعالیٰ کو منظور تھے لہٰذا وہ حجت شرعیہ ہیں، کہئے اس میں کیا الجھن ہے؟