• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
یہ فرض کرلینا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملکہ اجتہاد سے عاری تھے اور وحی کے بغیر نہ کچھ سوچ سکتے تھے نہ کچھ کرسکتے تھے، رسالت پناہ کی انتہائی توہین، اگر کوئی شخص آپ کے متعلق یہ کہہ دے کہ آپ ہر معاملہ میں اپنے کسی دوست یا بیوی کے مشورہ پہ چلتے ہیں، تو کیا آپ اسے اپنی توہین نہیں سمجھیں گے؟ (دو اسلام ص ۳۴۴، ۳۴۵)
ازالہ
اگر کوئی شخص یہ کہہ دے کہ یہ قرآن تو اللہ کا کلام ہے، لیکن خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ کوئی ایسی جامع دمانع کتاب تصنیف کردیتے ، جو دوسرے مصنفین کی تصنیف پر بھاری ہوتی، معلوم ہوا کہ وہ خود تو نہ کچھ لکھ سکتے تھے نہ بول سکتے تھے بس وحی کے تابع تھے، وحی آگئی تو بات کرلی '' ما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی'' کا مصداق تھے ، تو بتائیے کیا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قابلیت پر طنز نہ ہوگا، کیا اسے آپ کی توہین نہ تصور کیا جائے گا۔
برق صاحب! محض رنگ آمیزی سے کام نہیں چلتا، حقیقت حقیقت ہے، اسے بدلا نہیں جاسکتا، یہ قرآن کی آیات آپ کے سامنے ہیں، یہ حقائق ہیں، ان کی رو سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بغیر وحی کے آپ بات ہی نہ کرتے تھے، اب اگر یہ توہین ہے، تو وہ بھی توہین ہے کہ بغیر وحی کے آپ قرآن کی تشریح و تفصیل نہ کرتے تھے، برق صاحب بیوی کی راہ نمائی میں کام کرنا تو توہین ہوسکتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی راہ نمائی کو توہین سمجھنا عقل سے بعید ہے، اللہ تعالیٰ کی راہ نمائی ہی تو رسول کو دوسرے انسانوں سے ممتاز کرتی ہے اور آپ اس کو توہین سمجھ رہے ہیں۔
تعجب ہے کہ آپ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ آپ ہر کام صحابہ کے مشورہ سے کرتے تھے اور اس کو توہین نہیں سمجھتے، لیکن اگر کوئی دوسرا یہ کہتا ہے کہ آپ ہر کام اللہ کے مشورہ سے کرتے تھے، تو آپ اس کو توہین سمجھ لیتے ہیں، یعنی صحابہ کے مشورہ کا پابند تو قابل تعریف، اور اللہ تعالیٰ کے اشارات کا پابند قابل توہین، خدارا انصاف کیجئے۔
پھر ہم یہ کب کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ملکہ اجتہاد سے عاری تھے، ہم تو یہ کہتے ہیں کہ آپ کے اجتہادات پر خدا کی نظر تھی، وہ اللہ تعالیٰ کو منظور تھے لہٰذا وہ حجت شرعیہ ہیں، کہئے اس میں کیا الجھن ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ہمارے علماء نے بھی سرور کائنات کے متعلق کچھ اس قسم کا تصور قائم کر رکھا ہے، کہ ان کا ہر قول وحی تھا، یعنی روٹی مانگتے (آخر یہ بھی قول ہے) تو وحی کا انتظار کرتے، اگر یہ پوچھنا ہوتا کہ '' میرا دوسرا جوتا کہاں ہے'' تو جبریل کی راہ دیکھتے رہتے کہ وہ آئے میرے لیے فقرہ تجویز کرے اور میں بولوں۔ (دو اسلام ص ۳۴۵)
ازالہ
یہ خلط مبحث ہے ، سوال ہے دینی احکام کا قرآن کی تشریحات کا اس سے روٹی مانگنے اور جوتا پوچھنے کا کیا تعلق ہے، احکام قرآنی کی تشریح میں آپ جو کچھ فرماتے تھے، وہ یا تو وحی قولی ہوتا تھا، یا وحی تقریری اور ان وحیوں کے مجموعہ کو علماء دین نے وحی خفی کا نام دے دیا ہے، آپ چاہیں تو خفی کے بجائے کچھ اور کہہ دیجئے، مگر بہرحال ہے وہ وحی۔
علماء کے متعلق برق صاحب کو غلط فہمی ہوگئی، علماء کا تو صرف اتنا قصور ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے کہا تھا اس کو دوہرا دیا، یہ تصور کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول وحی تھا، اللہ تعالیٰ کے کلام سے ماخوذ ہے، اب آپ جو کچھ چاہیں، اللہ تعالیٰ کو کہیے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی۔ اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی } (النجم)
اور رسول اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتا، وہ جو کچھ بولتا ہے، وحی ہوتی ہے۔
ان آیات سے ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول وحی ہے، کہئے اب بھی آپ کے ہر قول کو وحی ماننے سے انکار ہے۔
ہر مرتبہ جبریل کا انتظار کرنے کی کیا ضرورت تھی، اللہ تعالیٰ نے القا کیا وہی لفظ زبان پر آگئے، یہ بھی تو وحی کی ایک قسم ہے۔
برق صاحب کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ وحی کی بس ایک قسم ہے، یعنی قولی حالانکہ وحی کی کئی قسمیں ہیں، قولی (الفاظ کا نزول) فعلی (جبریل علیہ السلام کا کسی کام کو کرکے بتانا، مثلاً نماز کا طریقہ اور اوقات نماز کی تعلیم اسی قسم میں شامل ہے) تقریری (آپ کے تمام اجتہادات بعض فیصلے و تشریحات اسی کے ذیل میں آتے ہیں، برق صاحب کو غالباً اس وحی کا خیال نہیں رہا، ورنہ بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جاتیں) القاء والہام، خواب اور بالمشافہ کلام بھی نبی کے لیے وحی کی قسمیں ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
قرآن کے بغیر حضور کو اور چیز بذریعہ وحی نہیں دی گئی تھی۔
{ اُوْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا لْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ } (قرآن)
تمہیں گناہوں سے بچانے کے لیے مجھے بذریعہ وحی یہ قرآن دیا گیا ہے۔ (دو اسلام ص ۳۴۶)
ازالہ
برق صاحب قرآن کی آیت تو آپ کی تائید نہیں کرتی، اگر کوئی یہ کہہ دے کہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ صحابی ہیں، تو اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ حضرت جابر صحابی نہیں، اسی طرح مذکورہ بالا آیت سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ قرآن وحی ہے، لیکن یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ''حدیث'' وحی نہیں ہے بلکہ سورہ نجم کی آیات جو میں نے ابھی اوپر نقل کی ہیں، ان سے صاف یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کا ہر قول وحی ہے، لہٰذا حدیث بھی وحی ہے۔
برق صاحب آخر ان آیات کے مضمون کو تسلیم کرنے سے آپ کیوں گریز کرتے ہیں، آخر یہ بھی تو قرآن کی آیات ہیں، آپ کہیں گے کہ پھر آپ کے بعض قول غلط کیوں نکلے ، میں کہتا ہوں کہاں نکلے قرآنی تشریحات میں آپ کا ایک قول بھی غلط نہیں نکلا، اور جو دو ایک اجتہادات یا فیصلے غلط نکلے وہ قرآنی تشریحات کے سلسلہ میں نہیں تھے، بلکہ اس سلسلہ میں قرآنی آیات کا نزول ہی بعد میں ہوا گویا کہ قرآنی قانون کی عدم موجودگی میں کیا ہوا فیصلہ غلط نکلا نہ کہ قرآنی قانون کی روشنی میں کیا ہوا فیصلہ غلط نکلا۔
دوسرے یہ کہ جو غلط فیصلہ ہوا، وہ قائم کب رہا؟ اس کو برقرار کب رکھا گیا، فوراً اس کی تصحیح ہوگئی لہٰذا جو قول یا فیصلہ آپ کا برقرار رہنے دیا گیا، وہ کبھی غلط نہیں ہوسکتا اور جو تصحیح کے بعد برقرار رکھا گیا وہ بھی صحیح ہوا، لہٰذا آپ کا ہر وہ قول جو باقی رہنے دیا گیا یا برقرار رکھا گیا وہ وحی ہے اور یہی ان تمام آیات میں تطبیق کی صورت ہے۔
تیسرے یہ کہ جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرکے کوئی بات کہی، اس میں غلطی کا امکان نہیں، غلطی کا امکان صرف اجتہادات میں ہوسکتا ہے اور ایسا صرف دو ایک مرتبہ ہوا، اور فوراً اس اجتہاد کو وحی تقریری کے ذیل سے نکال کر وحی جلی کی تحویل میں دے دیا گیا، اللہ تعالیٰ کی اس تنقیدی نظر کی وجہ سے آپ کے اجتہادات بھی غلطی سے پاک رہے اور اس طرح یہ اجتہادات مع دوسرے اقوال و افعال کے جو پہلے ہی غلط سے پاک تھے دینی نمونہ قرار پائے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
{ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ } (الاحزاب)
بے شک رسول اللہ کی زندگی میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اس مضمون پر ایک مشتبہ سی حدیث بھی ملتی ہے۔
ابو حجیفہ نے حضرت علی سے پوچھا کہ آپ کے پاس قرآن کے بغیر کوئی اور وحی موجود ہے، فرمایا خدا کی قسم اس صحیفہ کے بغیر اور اس فہم کے بغیر جو وحی کے متعلق ہر مسلمان کو حاصل ہے، ہمارے پاس کوئی اور وحی موجود نہیں۔ (بخاری جلد ۲، ص۱۱۷)
میں نے اس حدیث کو مشتبہ اس لیے کہا کہ اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ قرآن کے بغیر ایک اور صحیفہ کو بھی الہامی سمجھتے ہیں، نسائی میں اس صحیفہ کی تفصیل یہ دی ہوئی ہے کہ حضور علیہ السلام نے اہل بیت کے لیے چند خاص وصایا ارشاد فرمائی تھیں، جو اس صحیفہ میں درج تھیں اور جسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نیام ذوالفقار میں رکھا کرتے تھے، علامہ صنعافی کہتے ہیں کہ یہ وصایا جعلی تھیں اور ان کا واضع حماد بن عمرو النصیبی تھا، سیوطی فرماتے ہیں کہ بعض وصایا عبداللہ بن زیاد بن سمعان نے تراشی تھیں۔ (تذکرۃ الموضوعات ص۸)، (دو اسلام ص ۳۴۶۔ ۳۴۷)
ازالہ
برق صاحب یہ بھی کوئی انصاف ہے کہ جہاں کوئی روایت آپ کے مفروضہ کے خلاف ہوئی، آپ نے اسے مشتبہ کہہ دیا، حالانکہ یہ حدیث آپ کے مفروضہ خلفائے راشدین احادیث کو جلاتے رہے کے خلاف نص قاطع ہے اور آپ کے اس عروضہ کے بھی خلاف ہے کہ ڈھائی سو سال تک احادیث لکھی نہیں گئی۔
برق صاحب نے جو عبارت بحوالہ نسائی لکھی ہے در حقیقت اس میں یہ عبارت سرے سے ہے ہی نہیں، معلوم نہیں برق صاحب نے نسائی کا حوالہ کیسے دے دیا ہے، نسائی میں البتہ صحیفہ صحیحہ کا ذکر موجود ہے، جو حضرت علی نے خود مرتب فرمایا تھا اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منظور شدہ تھا، نسائی میں اس صحیفہ کا ذکر جو وصایائے نبوی کے نام سے موسوم ہے قطعاً نہیں ہے صحیفہ بے شک جعلی ہے، صحیفہ '' وصایائے نبوی'' حضرت علی رضی اللہ عنہ کا لکھا ہوا نہیں ہے، بعد میں کسی نے وضع کیا ہے۔
تذکرۃ الموضوعات جس کا حوالہ برق صاحب نے دیا ہے، اس میں بھی '' وصایائے نبوی'' ہی ہے، اس ہی صحیفہ '' وصایائے نبوی'' کو تذکرۃ الموضوعات کے مصنف نے جعلی کہا ہے، اس صحیفہ کے جعلی ہونے سے وہ صحیفہ جو خود حضرت علی نے لکھا تھا کیسے جعلی ہوسکتا ہے، وہ تو کتب صحاح میں ہے، اور ''وصایائے نبوی'' کتب صحاح کے مولفین ہی کے نزدیک جعلی ہے، کمال ہوگیا کہ برق صاحب نے دونوں کو ایک سمجھ لیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
بہرحال اس حدیث سے اتنا تو واضح ہوگیا کہ قرآن اور اس صحیفہ کے بغیر کوئی اور وحی موجود نہیں اس لیے احادیث کو وحی خفی کہنا نہ عقلا درست ہے، اور نہ نقلا۔ (دو اسلام ص ۳۴۷)
ازالہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق سبائی جماعت نے یہ مشہور کردیا تھا کہ ان کے پاس وصایائے نبوی ہیں، جو اور مسلمانوں کے پاس نہیں ہیں اور یہ بھی مشہور کردیا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تمام مسلمانوں میں کوئی ممتاز مقام رکھتے ہیں ، اسی شبہ کو دور کرنے کے لیے لوگوں نے آپ سے سوال کیا، مثلاً ابو حجیفہ سوال کرتے ہیں:
ھل عندکم کتاب قال لا الا کتاب اللہ اوفھم اعطیہ رجل مسلم او ما فی ھذہ الصحیفۃ۔ (صحیح بخاری، کتاب العلم)
کیا آپ (اہل بیت) کے پاس کوئی کتاب ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا نہیں سوائے کتاب اللہ کے اور اس قسم کے جو ہر مسلم کو ملتا ہے اور جو کچھ اس صحیفہ میں ہے (پھر انہوں نے اس صحیفہ کی احادیث سنائیں)۔
ابو ابراہیم تیمی کے سوال پر حضرت علی جواب دیتے ہیں:
ما عتدنا الا کتاب اللہ وھذہ الصحیفۃ عن النبی ﷺ (صحیح بخاری باب حرم المدینۃ)
ہمارے پاس کچھ نہیں سوائے کتاب اللہ کے اور اس صحیفہ کے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھے دستیاب ہوا ہے۔
جس حدیث کا ترجمہ برق صاحب نے نقل فرمایا ہے، اس میں بھی یہ سوال ہے:
ھل عندکم شئی من الوحی الا ما فی الکتاب (صحیح بخاری)
آپ (اہل بیت) کے پاس کتاب اللہ کے علاوہ بھی کوئی وحی ہے۔
حضرت علی نے جواب دیا '' نہیں سوائے کتاب اللہ کے اور اس صحیفہ احادیث کے'' یعنی یہ جو مشہور ہوگیا تھا کہ اہل بیت کو وحی کی ایک خاص قسم عطا ہوئی ہے، جو عام مسلمانوں کو نہیں ملی، حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کی تردید فرما رہے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی چیز نہیں، سوائے کتاب اللہ کے اور اس صحیفہ کے اور اس صحیفہ میں فلاں فلاں احادیث ہیں، یعنی کوئی خاص چیز ہمارے پاس نہیں ہے، علامہ سندھی لکھتے ہیں:
الخطاب لاھل البیت والمراد ھل عندکم علم مخصوص بکم مکتوب اولا خصکم النبی ﷺ بہ کما یقول الشیعۃ (بخاری کتاب العلم حاشیۃ ص۲۰)
یہ خطاب اہل بیت سے ہے اور مراد یہ ہے کہ کیا اہل بیت کو کسی علم کے ساتھ خاص کیا گیا ہے، جیسے کہ شیعہ کہتے ہیں۔
یہ غلط بات جو سبائی جماعت نے تراش لی تھی، اس کے متعلق لوگ اپنے شبہات دور کرنے کے لیے سوال کر رہے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور اس کی تردید کردی، فرمایا:
من زعم ان عندنا شیئا نقرأہ الا کتاب اللہ وھذہ الصحیفۃ فقد کذب (صحیح مسلم باب فضل المدینۃ)
جو شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ ہمارے پاس کوئی خاص کتاب ہے، جس ہم پڑھتے ہیں، سوائے کتاب اللہ اور اس صحیفہ کے وہ جھوٹ کہتا ہے۔
مالک اشتر کہتے ہیں، میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا:
ان الناس قد تشفع بھم ما یسمعون فان کان رسول اللہ ﷺ عھد الیک عھد فحدثنا بہ قال ما عھد الی رسول اللہ ﷺ لم یعھدہ الی الناس غیر ان فی قراب سیفی صحیفۃ (نسائی ج۲، کتاب الدیات)
لوگ جو سنتے ہیں اس کی اشاعت کرتے ہیں پس اگر واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی خاص وصیت آپ کو کی ہے تو ہمیں بتا دیجئے، حضرت علی نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسی کوئی بھی وصیت نہیں کی، جو دوسرے لوگوں کو نہیں کی، سوائے اس کے کہ میری تلوار کے دستہ میں ایک صحیفہ ہے۔
پھر حضرت علی نے اس صحیفہ کا مضمون سنایا، یہ مضمون بھی کتب صحاح میں محفوظ ہے، اس میں وہی احادیث تھیں، جو دوسرے مسلمانوں کے پاس بھی موجود تھیں۔
اس تمام بیان سے واضح ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان وصایائے مخصوصہ کا انکار کر رہے ہیں، جو ان کے پاس نہیں تھیں، لیکن لوگ کہتے تھے کہ میں اس انکار اور تردید کے باوجود ان کی وفات کے بعد کسی مفتری نے یہ '' وصایائے نبوی'' گھڑیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف ان کو منسوب کردیا۔
بہرحال اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ احادیث کو بھی وحی سمجھا کرتے تھے کیونکہ وحی کی ذیل ہی میں انہوں نے اس صحیفہ احادیث کا تذکرہ فرمایا تھا، اور سوا ل میں بھی وحی کے متعلق ہی سوال تھا، برق صاحب! حدیث کے ایک ٹکڑے سے استدلال کرنا، اور دوسرے کا جو آپ کے خلاف ہو انکار کردینا انصاف سے بعید ہے، غور کیجئے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
ایک سلیم الفطرت مسلمان کا وطیرہ ہونا چاہیے کہ وہ ہر ایسی حدیث کو تسلیم کرے جو قرآن سے متعارض نہ ہو، خواہ وہ بخاری میں ہو، یا کسی مسند میں اور ہر ایسی حدیث کو بلا دریغ ٹھکرا دے خواہ وہ بخاری ہی میں ہو، جو ...۔ (دو اسلام)
ازالہ
محض قرآن سے متعارض نہ ہونا صحت کی دلیل نہیں، مثلاً '' ہر نماز میں سورۂ اخلاص پڑھا کرو'' یہ قرآن سے متعارض نہیں ہے، تو کیا یہ حدیث ہو جائے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
احادیث کے لیے برق صاحب کے تجویز کردہ معیار

قرآن کی روشنی میں​
کتاب دو اسلام کے ختم کرنے سے پہلے برق صاحب نے حدیث کو پرکھنے کے لیے چند معیار درج فرمائے ہیں، ان معیاروں کا سلسلہ وار جواب درج ذیل ہے، لیکن جواب سے پہلے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ:
سوال
اگر ان معیاروں پر قرآن مجید بھی پورا نہ اترے، تو پھر یہ معیار سچے ہیں، یا قرآن؟ اگر قرآن سچا ہے اور در حقیقت قرآن ہی سچا ہے تو پھر یہ معیار یقینا باطل ہیں اور ان میں سے کسی معیار کو حتمی سمجھ کر حدیث کو پرکھنا سراسر ظلم ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
برق صاحب کا تجویز کردہ پہلا معیار

تعلیمات قرآنی کے منافی ہونا​
برق صاحب کا مطلب یہ ہے کہ جو حدیث تعلیمات قرآنی کے منافی ہوگی، وہ حدیث جعلی ہوگی، یہ معیار اگرچہ صحیح ہے، لیکن اس میں تفصیل ہے، مثلاً قرآن ہر مردار کو حرام کرتا ہے، لیکن حدیث میں ہے کہ مردار مچھلی حلال ہے، تو کیا یہ حدیث قرآن کے منافی کہلائے گی، نہیں بلکہ قرآنی حکم عام کو خاص کرنے والی کہی جائے گی، لہٰذا یہ حدیث موضوع نہیں ہوگی۔
پھر اس اصول و معیار کو کلیۃً تسلیم کرنے سے ایک اور امر بھی مانع ہے ، وہ یہ کہ کوئی فتنہ پرور اٹھے تو قرآن کی کسی آیت کے معنی اپنے رنگ میں کرلے اور جب اس سے کہا جائے کہ حدیث میں اس طرح ہے تو وہ فوراً کہہ دے کہ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے، لہٰذا جعلی ہے ، میں اسے نہیں مانتا، حالانکہ وہ حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہوگی، بلکہ اس کے مخترعہ معنوں کے خلاف ہوگی۔
مثلاً کراچی میں ایک فرقہ ابھی نکلا ہے جو '' لقمانی'' کہلاتا ہے، اس فرقہ کے بانی سید رضا لقمان بھی زندہ ہیں، اس فرقہ کا عقیدہ ہے کہ حضرت جبریل رسول اعظم بن کر آنے والے ہیں، جب ان کے ایک مبلغ کے سامنے میں نے '' خاتم النبیین'' والی آیت پڑھی تو اس مبلغ نے جواب دیا کہ بیشک اس آیت کی رو سے نبی ختم ہوگئے لیکن رسول ختم نہیں ہوئے، رسول آتے رہیں گے، میں نے حدیث پڑھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ رسالت اور نبوت دونوں منقطع ہوگئیں، اب میرے بعد نہ کوئی رسول بن سکتا ہے، نہ نبی، تو وہ مبلغ کہنے لگے کہ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے۔ قرآن میں تو رسول کے آنے کا ذکر ہے، لہٰذا یہ حدیث موضوع ہے، اب قرآن کی جس آیت کو انہوں نے اپنی دلیل میں پیش کیا، وہ یہ ہے اور جو ترجمہ انہوں نے کیا، وہ بھی آیت کے مقابل درج ہے:
{ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی تَاْتِیَہُمُ الْبَیِّنَۃُ۔ رَسُوْلٌ مِّنَ اللہِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً } (بینہ)
اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر ہیں، یہ باز نہیں آسکتے، جب تک ان کے پاس دلیل نہ آئے یعنی اللہ کا رسول جو پاک صحیفے پڑھتا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
اب تک مسلمان اس کا مطلب یہ سمجھتے رہے کہ یہ کافر باز آنے والے نہیں تھے، جب تک ان کے پاس اللہ کا رسول نہ آتا، تو گویا اب آگیا، تو یہ لوگ باز آگئے، گویا تمام مسلمانوں کے نزدیک اس آیت میں رسول سے مراد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے آنے سے بہت سے کافر اپنے کفر سے باز آگئے، وہ مبلغ کہنے لگے کہ سب کافر کہاں باز آئے اور آیت میں یہ ہے کہ سب باز آجائیں گے، لہٰذا کوئی ایسا رسول آنا چاہیے جس کے آنے کے بعد سب باز آجائیں اور یہ رسول سب سے بڑا رسول ہوگا، یعنی ''رسول اعظم'' اور یہ خود حضرت جبریل علیہ السلام ہوں گے یہ تھا ان کا مخترعہ مطلب، اور اس مطلب کے خلاف حدیث پڑھنا گویا گھڑی ہوئی حدیث پڑھنا ہے کیونکہ وہ قرآن کے خلاف ہے، حالانکہ در حقیقت حدیث قرآن کے خلاف نہیں بلکہ ان کے ایجاد کردہ معنی کے خلاف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
تیسری بات جو اس سلسلہ میں مجھے عرض کرنی ہے وہ یہ کہ اس معیار پر تو قرآن کی بعض آیات بھی پوری نہیں اترتیں، مثلاً قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ قرآن لوگوں کے لیے ہدایت ہے لیکن ایک آیت میں ہے کہ:
{ یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا } (البقرۃ)
اللہ اس کے ذریعہ بہت سوں کو گمراہ کردیتا ہے۔
یعنی قرآن ذریعہ گمراہی بھی ہے اور یہ قرآنی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے کہ قرآن لوگوں کو گمراہ کرے، لہٰذا یہ آیت معیار پر پوری نہیں اترتی، تو اس آیت کے متعلق کیا کہیں۔
(۲) قرآن مجید میں متعدد جگہ حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا ہے، ہر جگہ یہی ہے کہ ابلیس فرشتہ تھا، مثلاً:
{ وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ } (البقرۃ)
جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔
لہٰذا اس آیت اور اس جیسی اور کئی آیات سے ثابت ہوا کہ ابلیس فرشتہ تھا ، یہ ہے تعلیمات قرآنی اب اس تعلیمات قرآنی کے خلاف ہمیں یہ آیت ملتی ہے۔
{ کَانَ مِنَ الْجِنِّ } (الکھف)
ابلیس جنوں میں سے تھا۔
بتائیے کیا یہ آیت بھی قرآنی تعلیمات کے منافی ہونے کی وجہ سے جعلی ہوگئی؟
(۳) اللہ تعالیٰ کا کام ہدایت کرنا ہے اور اس نے اپنے ذمہ اس کو فرض کرلیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ اِنَّ عَلَیْنَا لَلْھُدٰی } (واللیل)
ہدایت دینا ہمارے ذمہ واجب ہے۔
تو گویا تعلیمات قرآنی کا مسلمہ اصول ہے کہ اللہ تعالیٰ ہدایت کرتا ہے، گمراہ نہیں کرتا، اب یہ آیت سنیے:
{ اَتْرِیْدُوْنَ اَنْ تَھْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللہُ } (النساء)
کیا تم اس کو ہدایت کرنا چاہتے ہو، جس کو اللہ نے گمراہ کردیا۔
گویا یہ آیت بھی معیار پر پوری نہیں اترتی، اس لیے کہ اس میں اللہ کو گمراہ کرنے والا بتایا گیا ہے، اسی قسم کی یہ آیت ہے:
{ وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِ } (الانعام)
اور جس کو اللہ تعالیٰ گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے، تو اس کے سینہ کو تنگ کردیتا ہے گویا ہدایت پر آنا اس کے لیے اتنا مشکل ہو جاتا ہے، جتنا آسمان پر چڑھنا۔
یہ آیت بھی تعلیمات قرآنی کے خلاف ہے، بھلا وہ رحمن و رحیم اللہ، جو ہزارہا انبیاء کو لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجے، وہ ایسا کرسکتا ہے کہ بعض لوگوں کو خود ہی ہدایت سے روک دے اور ان کے سینے کو ایسا تنگ کردے کہ ہدایت پر آنا ان کے لیے ناممکن ہو جائے۔
(۵) قرآن کی تعلیمات یہ ہے:
{ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٍ }
اللہ تعالیٰ کے مثل کوئی چیز نہیں ہے۔
یعنی وہ بے مثل ہے، لا ثانی ہے، بے جسم ہے، اس کو جسم والوں سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی اب یہ آیت سنیے:
{ بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوْطَتٰنِ }
اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ وہ کوئی جسم رکھتا ہے ، جس میں ہماری طرح دو ہاتھ ہیں، لہٰذا یہ آیت سراسر شان الوہیت اور قرآنی تعلیمات کے منافی ہے، اب اس آیت کو کیا کہیں؟ کیا وہی الفاظ استعمال کرسکتے ہیں جو ایسی حدیث کے متعلق برق صاحب استعمال فرما رہے ہیں، اس قسم کی تقریباً سو آیات میں پیش کرسکتا ہوں، جو تعلیمات قرآنی کے خلاف نظر آتی ہیں، تو کیا وہ اس مجوزہ معیار پر پوری نہ اترنے کے باعث جعلی کہی جاسکتی ہیں، اور اگر جعلی نہیں اور حقیقت بھی یہی ہے تو پھر یہ معیار جعلی ہے، باطل ہے، کلیہ بنانا محض دھوکا ہے، اور اگر ان آیات کا باوجود قرآنی تعلیمات کے منافی ہونے کے کوئی مقام ہے اور کوئی مطلب ہے تو وہی مقام اور وہی مطلب حدیث کے لیے بھی ہوسکتا ہے، یہ کیا کہ اگر آیت معیار پر نہ اترے، تو تاویل کرکے اس کو تعلیمات قرآنی کے مطابق بنا لیا جائے، اور حدیث پوری نہ اترے، تو اسے مسترد کردیا جائے، کیا یہ انصاف ہے۔
 
Top