• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(۲) برق صاحب کا مجوزہ دوسرا معیار

قرآن میں تحریف​
برق صاحب کا مطلب یہ ہے کہ جو حدیث قرآن میں تحریف تسلیم کرتی ہو، وہ جعلی ہے، لیکن یہ معلوم نہیں کہ تحریف سے برق صاحب کی کیا مراد ہے اگر یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت جو قرآن تھا، بعد میں اس میں تحریف ہوگئی تو اس تحریف کی خبر دینے والی حدیث یقینا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث تو ہوگی نہیں، کسی اور کا قول ہوگا اور اس معیار کی زد میں وہ قول آئے گا نہ کہ حدیث، لہٰذا اس معیار سے حدیث کو پرکھنا کسی حالت میں صحیح نہیں ہوسکتا۔
اور اگر برق صاحب کا یہ مطلب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں قرآن میں تحریف ہوئی اور اس سے مراد ان کی یہ ہے کہ قرآن کی بعض آیات منسوخ ہوگئیں تو بے شک یہ چیز حدیث میں ملتی ہے ، اور وہ حدیث صحیح ہے، یہ معیار صحیح نہیں، وجہ یہ ہے کہ جس نبی نے یہ کہا کہ اس آیت کو قرآن کی آیت سمجھو اور تلاوت کرتے رہو، اگر وہی نبی یہ کہے کہ اب یہ آیت منسوخ ہوگئی اس کی تلاوت منسوخ کردو، تو کیا وجہ ہے کہ ہم اسے سچا نہ سمجھیں، اگر آپ کہیں کہ نبی ایسا کہہ ہی نہیں سکتا، یہ تو بعد میں لوگوں نے اس کی طرف منسوب کردیا ہے، تو اس کی آپ کے پاس کیا دلیل ہے، پھر اس معیار پر تو بعض آیات قرآنی بھی نہیں اترتیں۔ مثلاً
{مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَآ اَوْ مِثْلِھَا } (البقرۃ)
جب ہم کوئی آیت منسوخ کرتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اسی کے مثل نازل کردیتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اگر آپ یہ فرمائیں کہ اس سے مراد قرآنی آیت نہیں، بلکہ شریعت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ پھر آپ یہ مان لیجئے کہ تورات و انجیل منسوخ ہوگئیں، یا بھلا دی گئیں لیکن یہ آپ بھی تسلیم نہیں کرتے بلکہ آپ تو یہ کہتے ہیں کہ تورات و انجیل محفوظ ہیں، اور غیر منسوخ ہیں، اور صرف تورات یا انجیل پر ایمان لا کر اور اس پر عمل کرکے انسان نجات پاسکتا ہے ، قرآن پر ایمان لانے کی اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں، اب اس اشکال کو آپ کیسے دفع کریں گے، پھر یہ بھی تو بتائیے کہ آیت کے معنی شریعت کرنا کس دلیل سے ہے، کیا اللہ تعالیٰ کو شریعت کا لفظ معلوم نہ تھا، جو آیت کا لفظ استعمال کیا، لہٰذا اس بات کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آیت سے مراد قرآنی آیت ہے اور یہ کہ وہ منسوخ بھی ہوسکتی ہے اور بھلائی بھی جاسکتی ہے، تو کیا اب اس آیت کو بھی جعلی کہہ سکتے ہیں، جس سے قرآنی آیات کا نسخ اور طاق نسیاں ہونا ثابت ہوتا ہے، دوسری آیت ملاحظہ فرمائیے:
{ سَنُقْوِئُکَ فَلَا تَنْسٰی اِلاَّ مَا شَآءَاللہُ } (الاعلی)
(اے رسول) ہم آپ کو پڑھائیں گے پس آپ نہیں بھولیں گے، سوائے اس کے جو اللہ ہی آپ کو بھلانا چاہے۔
اس آیت سے بھی قرآنی آیات میں کمی بیشی ہونے کا امکان پایا جاتا ہے، اب بتائیے کیا یہ آیت بھی جعلی ہے؟ کیونکہ اس سے تحریف کا امکان ثابت ہوتا ہے، اس قسم کی اور بھی آیات ہیں جن سے قرآنی آیات کا نسخ ثابت ہوتا ہے، تو کیا ان سب کو جعلی کہا جائے گا اگر نہیں تو کیوں؟ کیا یہ معیار غلط ہے۔
آخر میں اتنا اور عرض کرتا ہوں کہ اصطلاح شریعت میں تحریف اس تغیر و تبدل کا نام ہے جو بعض لوگ کتب الٰہیہ میں کرتے رہتے ہیں، لیکن جو تغیر و تبدل اللہ تبارک و تعالیٰ خود کردے وہ تحریف کی تعریف میں نہیں آتا، لہٰذا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں آیت یا حکم منسوخ کردیا، تو یہ تحریف نہ ہوگی، اس کو تحریف کہنا ہی غلطی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(۳) برق صاحب کا مجوزہ تیسرا معیار

رسول اکرم ، ازواج مطہرات اور صحابہ کرام کی توہین​
برق صاحب کا مطلب یہ ہے کہ جس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی زوجہ مطہرہ یا کسی صحابی کی توہین ہو، وہ حدیث موضوع ہوگی، میں پوچھتا ہوں اگر یہ معیار درست ہے تو کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس معیار پر قرآن پورا اترتا ہے، ہرگز نہیں ملاحظہ فرمائیے:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور قرآن مجید
اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
{ عَبَسَ وَتَّوَلّٰی اَنْ جَآءَہُ الْاَعْمٰی } (عبس)
رسول نے تیوری چڑھائی، اور منہ پھیر لیا جب کہ اس کے پاس ایک نابینا آیا۔
کہیے کیا اس آیت میں شان رسالت کی توہین نہیں کہ اخلاق کریمانہ کے مجسمہ کو بداخلاق بتایا گیا ہے، پھر یہ آیت قرآنی تعلیمات کے بھی خلاف ہے، قرآن کی تعلیم اس آیت میں بیان ہوئی ہے، جو درج ذیل ہے:
{ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ } (القلم)
اے رسول آپ کے اخلاق عظیم الشان ہیں۔
لہٰذا سورہ عبس کی مذکورہ بالا آیت سے متعارض ہونے کے لحاظ سے:
{ يٰٓاَيُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللہُ لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ } (التحریم)
اے نبی تم اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو کیوں حرام کرتے ہو، تم اپنی بیویوں کی رضا کے متلاشی ہو۔
کیا اس آیت میں توہین رسول نہیں ہے، وہ یہ کہ اللہ کا مقدس رسول محض اپنی بیویوں کی رضا کی خاطر شریعت بدل دیا کرتا تھا، حلال کو حرام کردیا کرتا تھا، پھر بیویوں کی رضا کا طالب اور جویا ہونا یہ خود بھی ایک معیوب سی بات ہے۔
{ اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا ۔ لِّیَغْفِرَ لَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ } (الفتح)
ہم نے آپ کو فتح مبین دے دی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
{ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ } (محمد)
اپنے گناہوں کی معافی مانگئے۔
تیسری جگہ ارشاد ہے:
{ وَاسْتَغْفِرْہُ انَّہَ کَانَ تَواباً }
اللہ تعالیٰ سے معافی مانگئے، بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔
ان تینوں آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ گنہگار تھے، کیا یہ توہین نہیں، اگر ہے تو بتائیے ان آیات کے متعلق کیا خیال ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
حضرت آدم علیہ السلام کی توہین اور قرآن مجید
اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
{ عَصٰی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَفَوٰی ۔ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا } (طہ)
آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور گمراہ ہوگئے، ہم نے آدم میں عزم نہیں پایا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی توہین اور قرآن مجید
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، ابراہیم علیہ السلام نے بت توڑ ڈالے تو کفار نے پوچھا:
{ أ اَنْتَ فَعَلْتَ ھٰذَا بِالِھَتِنَا یَا اِبْرَاھِیْمُ } (الانبیاء)
اے ابراہیم ہمارے بتوں کے ساتھ یہ معاملہ تم نے کیا ہے۔
ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا:
{ بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُھُمْ ھٰذَا } (الانبیاء)
نہیں بلکہ یہ کام اس بڑے بت نے کیا ہے۔
یعنی ابراہیم علیہ السلام نے خلاف واقعہ بات کہی، بتائیے ابراہیم علیہ السلام کی طرف کذب کی نسبت کرنا، ان کی توہین نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی توہین اور قرآن مجید
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دو آدمیوں کو لڑتے ہوئے دیکھا، ایک ان کی قوم کا فرد تھا، اور دوسرا دوسری قوم کا فرد تھا۔
{ فَاسْتَغَاثَہُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِہٖ عَلَی الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّہٖ فَوَکَزَہٗ مُوْسٰی فَقَضٰی عَلَیْہِ قَالَ ھٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ } (القصص)
ان کی قوم کے آدمی نے موسیٰ علیہ السلام کی دشمن قوم کے آدمی کے مقابلہ میں موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کی، پس موسیٰ علیہ السلام نے اس کے ایسا مکا مارا کہ اس کا کام تمام ہوگیا موسیٰ علیہ السلام نے کہا یہ شیطانی کام ہے۔
گویا موسیٰ علیہ السلام حمیت قومی کے جذبہ میں سرشار تھے، بے سوچے سمجھے، بغیر تحقیق کئے انہوں نے دوسرے آدمی کو مار ڈالا، بعد میں پچھتائے اور اپنے اس فعل کو شیطانی فعل سمجھے، کیا اس آیت میں ان کی توہین نہیں ہے۔ اور سنیے:
{ وَ اَلْقَی الْاَلْوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْہِ یَجُرُّہٗٓ اِلَیْہِ } (الاعراف)
موسیٰ علیہ السلام نے تورات کو پٹخ دیا، اور اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کا سر پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹا۔
حضرت ہارون علیہ السلام بالکل بے قصور تھے، انہوں نے کہا:
{ لَا تَاْخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَ لَا بِرَاْسِیْ } (طہ)
میرے سر اور داڑھی کو نہ پکڑئیے۔
میں بالکل بے قصور ہوں، انہوں نے میرا کہا نہ مانا، اور بچھڑا پوجا وغیرہ وغیرہ ،
کہیے کیا ان آیات میں موسیٰ علیہ السلام کی توہین نہیں ہے کہ غصہ میں آکر کتاب الٰہی کو دے پٹخا، اور اللہ کے ایک مقدس پیغمبر کو مارا، اس کی بے عزتی کی، اور یہ سب کچھ بغیر تحقیق و تفتیش کے کر ڈالا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
حضرت یعقوب اور حضرت یوسف کی توہین اور قرآن مجید
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
{ وَرَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَہٗ سُجَّدًا } (یوسف)
یوسف علیہ السلام نے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا اور وہ سب حضرت یوسف کے لیے سجدہ میں گر گئے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ماں باپ نے بھی بیٹے کو سجدہ کیا، پھر حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا:
{ یَا اَبَتِ ھٰذَا تَاْوِیْلُ رُوْ یَایَ } (یوسف)
اے ابا جان یہ میرے خواب کی تعبیر ہے۔
بچپن میں انہوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ گیارہ تارے اور سورج و چاند ان کو سجدہ کر رہے ہیں تو یہ گویا اس خواب کی تعبیر تھی، سورج سے مراد حضرت یعقوب علیہ السلام ، چاند سے مراد حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ محترمہ اور گیارہ تاروں سے مراد حضرت یوسف علیہ السلام کے گیارہ بھائی تھے کمال ہوگیا، ایک رسول نے دوسرے رسول کو سجدہ کیا، بلکہ رسول نے اپنے بیٹے کو سجدہ کیا، کیا یہ انبیاء کی توہین نہیں، کہ نعوذ باللہ اس قسم کے شرک کا ارتکاب کرتے رہے، کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ اکبر اور جہانگیر کے دور میں جو سجدہ بادشاہ کو کیا جاتا تھا، اس کا ماخذ یہی قرآنی آیات تھیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
حضرت لوط علیہ السلام کی توہین اور قرآن مجید
حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کے مقابلہ میں فرمایا:
{ لَوْ اَنَّ لِیْ بِِکُمْ قُوَّۃً اَوْ اٰوِیْٓ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ }
کاش مجھے تمہارے مقابلہ کی طاقت ہوتی، یا میں کسی مضبوط قلعہ میں پناہ گزین ہوتا۔
کیا یہ توہین نہیں ہے کہ اللہ کا نبی بجائے اللہ کا سہارا ڈھونڈھنے کے دنیاوی وسائل کا سہارا تلاش کر رہا ہے۔
حضرت ایوب علیہ السلام کی توہین اور قرآن مجید
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ایوب علیہ السلام مبتلائے مصیبت ہوئے تو انہوں نے فرمایا:
{ اِنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ } (ص)
مجھے شیطان نے اس مصیبت اور عذاب میں مبتلا کردیا ہے۔
کیا شیطان کا یہ تسلط توہین رسول نہیں ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
خلاصہ
الغرض ان آیات اور ان جیسی دوسری آیات سے (جن کو بخوف طوالت قلم انداز کر رہا ہوں) توہین انبیاء ظاہر و باہر ہے، کوئی اللہ کی نافرمانی کر رہا ہے، کسی کا جھوٹ بولنا ثابت ہو رہا ہے، کوئی حمیت قومی میں سرشار، کوئی کتاب الٰہی اور رسول اللہ کی توہین و تذلیل کرتا نظر آرہا ہے کوئی غیر اللہ کو سجدہ کرتے دکھایا گیا ہے، کوئی اللہ کے بجائے قوت اور قلعہ کی پناہ تلاش کر رہا ہے کوئی اپنے اوپر شیطان کا تسلط تسلیم کر رہا ہے، کوئی سانپ سے ڈر کر بھاگ رہا ہے، کوئی انسان سے ڈر رہا ہے، کوئی کسی کی جدائی میں روتے روتے بینائی کھو دیتا ہے، کوئی گھوڑوں کو دیکھتے دیکھتے نماز عصر کھو دیتا ہے، کوئی ہر وقت جسادت خانہ میں مصروف عبادت ہے، کوئی بغیر اجازت کفار کی بستی چھوڑ کر ہجرت کر جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ کہیے ان آیات کے متعلق کیا خیال ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ازواج مطہرات کی توہین اور قرآن مجید
دو ازواج مطہرات کے بارے میں قرآن کہتا ہے:
{ اِنْ تَنُوْبَا اِلَی اللہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا }(التحریم)
اگر تم توبہ کرو (تو اچھا ہے) اس لیے کہ تمہارے دل ٹیڑھے ہوگئے ہیں۔
تمام ازواج مطہرات کے متعلق قرآن کا بیان سنیے:
{ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَھَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَ اُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا } (الاحزاب)
اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت کی خواہش مند ہو، تو آؤ میں تم سب کو مال و دولت دے کر اچھی طرح رخصت کردوں۔
گویا ازواج مطہرات نے کوئی نہ کوئی بات دنیا طلبی کی کی ہوگی، یہ وہ عورتیں ہیں جن کے متعلق قرآن ہی کہتا ہے:
{ لَسْتُنَّ کَاحَدٍ مِنَ النِّسَآءِ } (احزاب)
تم کسی عورت کے مثل نہیں ہو۔
یعنی یہ وہ جماعت ہے جو تمام عورتوں سے افضل ہے، ان میں ہی وہ زوجہ مطہرہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں، جو دنیاکی بہترین عورت ہیں، کیا یہ آیات جن سے ازواج مطہرات کی طمع، دنیا طلبی اور قلوب کی کجی ظاہر ہوتی ہے، قرآن ہی کی آیات ہیں، اور اگر یہ آیات قرآن ہی کی آیات ہیں، تو برق صاحب کا مجوزہ معیار غلط ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین اور قرآن مجید
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{ وَ لَقَدْ صَدَقَکُمُ اللہُ وَعْدَہٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِہٖ حَتّٰی۔ٓ اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَ عَصَیْتُمْ مِّنْ بَعْدِ مَآ اَرٰکُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ } (اٰل عمران)
اللہ نے اپنا وعدہ سچا کردیا، جب تم اس کے حکم سے کافروں کو قتل کر رہے تھے، یہاں تک کہ جب تم نے نامردی دکھلائی اور حکم رسول میں اختلاف کیا، اور خاطر خواہ فتح آجانے کے بعد تم نے اس کی نافرمانی کی تم میں سے بعض دنیا کے طالب اور بعض آخرت کے طالب ہیں۔
یہ جنگ احد کا بیان ہے، اور اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ سب مسلمانوں ہی کے متعلق ہے اس لیے کہ منافقین تو لڑائی میں شریک ہی نہیں ہوئے تھے، وہ تو لڑائی سے پہلے ہی مدینہ منورہ واپس چلے آئے تھے اور اس نافرمانی اور دنیا طلبی کی وجہ سے جو مصیبت آئی تھی،اس میں وہ شریک نہیں تھے، اس مصیبت کا ذکر مذکورہ بالا الفاظ کے آگے سورہ اٰل عمران ہی میں بیان ہوا ہے:
{ اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ اِنَّمَا اسْتَزَلَّھُمُ الشَّیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْا وَ لَقَدْ عَفَا اللہُ عَنْھُمْ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ } (اٰل عمران)
تم میں سے جن لوگوں نے میدان جنگ سے منہ موڑا، یہ اس لیے ہوا کہ شیطان نے ان کے بعض گناہوں کے سبب ان کو بہکا دیا اور تحقیق اللہ نے انہیں معاف کردیا، بے شک اللہ غفور اور حلیم ہے۔
گناہ کئے ،شیطان نے بہکایا، میدان چھوڑ کر بھاگ گئے، یہ سب کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے کیا اور پھر مزہ یہ کہ اللہ نے بغیر توبہ کے معاف کردیا، اور برق صاحب یہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ معاف ہی نہیں کرتا، اگر آپ کہیں کہ سزا دے کر معاف کردیا، تو پھر وہ معافی ہی کیا ہوئی، سزا دے کر معاف کرنا بھی کوئی معاف ہے۔
{ ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَۃً نُّعَاسًا یَّغْشٰی طَآئِفَۃً مِّنْکُمْ وَ طَآئِفَۃٌ قَدْ اَھَمَّتْھُمْ اَنْفُسُھُمْ یَظُنُّوْنَ بِاللہِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاھِلِیَّۃِ} (اٰلعمران)
پھر اللہ نے غم کے بعد امن نازل فرمایا، ایک اونگھ نے تم میں سے ایک جماعت کو ڈھانک لیا اور تم میں سے ایک جماعت کو اپنی جان کی فکر تھی، وہ اللہ تعالیٰ کے متعلق جاہلیت کا گمان رکھتے تھے۔
{ وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَہْوًا انْفَضُّوْٓا اِلَیْہَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا } (الجمعۃ)
اور یہ لوگ جب کوئی تجارت یا تماشہ دیکھتے ہیں تو اس کی طرف چلے جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا چھوڑ جاتے ہیں۔
{ وَیَوْمَ حُنَیْنٍ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا ...ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَ } (التوبۃ)
جب حنین کی لڑائی میں تم نے اپنی کثرت پر ناز کیا، اور پھر کوئی چیز تمہارے کام نہ آئی ... پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگے۔
{ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکٰرِھُوْنَ۔ یُجَادِلُوْنَکَ فِی الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَیَّنَ کَاَنَّمَا یُسَاقُوْنَ اِلَی الْمَوْتِ وَ ھُمْ یَنْظُرُوْنَ } (الانفال)
 
Top