• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مومنین کی ایک جماعت جہاد سے نفرت کرتی تھی، وہ حق ظاہر ہو جانے کے بعد حق کے معاملہ میں اے رسول آپ سے جھگڑا کر رہے تھے، گویا ان کو آنکھوں دیکھے موت کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے۔
یہ ہے جنگ بدر میں صحابہ کی ایک جماعت کا نقشہ، برخلاف اس کے حدیث میں ہے کہ صحابہ نے کہا ہم سمندر میں کود پڑیں گے، ایسا کریں گے، ویسا کریں گے، کون سی چیز ان دونوں میں صحابہ کے شایان شان ہے؟
یہ بات ذہن نشین رکھیے کہ منافقین اس جنگ تک وجود میں نہیں آئے تھے۔
{ عَلِمَ اللہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَ عَفَا عَنْکُمْ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللہُ لَکُمْ } (البقرۃ)
اللہ تعالیٰ نے معلوم کرلیا کہ تم اپنی جانوں کے ساتھ خیانت کرتے تھے، پس اللہ رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجہ ہوا، اور تمہارا قصور معاف فرما دیا، اب تم عورتوں سے مل جل سکتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اس کی جستجو بھی کرسکتے ہو۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام روزہ کی حالت میں جماع کر بیٹھتے تھے، ہم جیسے کمزور مسلمان اس قسم کے خیال سے بھی پناہ پکڑتے ہیں، وہ کیسے مسلمان تھے کہ روزہ میں بار بار گناہ کرلیا کرتے تھے، کیا اس آیت میں توہین صحابہ نہیں؟ اگر ہے تو کیا یہ آیت معیار پر پوری اترتی ہے۔
{ فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ } (المائدہ)
موسیٰ علیہ السلام کے صحابہ نے کہا اے موسیٰ تم جاؤ اور تمہارا رب تم دونوں لڑو ہم تم یہیں بیٹھے ہیں۔
{ اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ اٰلِھَۃٌ قَالَ اِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْھَلُوْنَ } (الاعراف)
موسیٰ علیہ السلام کے صحابہ نے ایک قوم کو بت پوجتے دیکھ کر کہا کہ ہمارے لیے ایسا خدا بنا دیجئے۔ جیسا ان کا ہے موسیٰ علیہ السلام نے کہا تم جاہل ہو۔
موسیٰ علیہ السلام کے اصحاب نے بچھڑے کی پوجا کی، ہارون علیہ السلام نے منع کیا تو کہنے لگے:
{ لَنْ نَّبْرَحَ عَلَیْہِ عٰکِفِیْنَ حتّٰی یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوْسٰی} (طہ)
ہم تو اس کی پوجا ہرگز نہیں چھوڑیں گے جب تک موسیٰ علیہ السلام نہ آجائیں۔
ایک رسول موجود ہے، اس پر ایمان لاچکے ہیں لیکن اس کا کہنا نہیں مانتے، اور بچھڑے کی پوجا میں مصروف ہیں، یہ ہے دو پیغمبروں کی صحبت میں رہنے والی جماعت۔
موسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم گائے ذبح کرو، تو کہنے لگے:
{ اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا } (البقرۃ)
کیا آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں۔
پھر اس کے بعد طرح طرح کے بچگانہ سوالات کیے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صحابہ کرام فرماتے ہیں:
{ ھَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ } (المائدہ)
(اے عیسیٰ) کیا آپ کے رب میں استطاعت ہے کہ ہم پر آسمان سے ایک دستر خوان نازل فرما دے۔
دیکھئے کتنا بچگانہ سوال ہے؟
خلاصہ
کیا مندرجہ بالا آیات سے صحابہ کی توہین نہیں ہوتی، اگر یہ صحیح ہیں، تو کیا وجہ کسی حدیث میں کوئی ذرا سی بات بھی نظر آجائے تو اسے جعلی سمجھا جائے، کیونکہ اس معیار پر قرآنی آیات بھی پوری نہیں اترتیں، لہٰذا یہ معیار ہی باطل ہے نہ کہ آیات قرآنی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(۴) برق صاحب کا چوتھا مجوزہ معیار

حقائق کو نیہ کے خلاف ہونا​
برق صاحب کا مطلب یہ ہے کہ جو حدیث حقائق کونیہ کے خلاف ہوگی، وہ موضوع ہوگی، اس سلسلہ میں بھی چند آیات قرآنی پیش کر رہا ہوں، ملاحظہ فرمائیے:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ یَا نَارُکُوْنِی بَرْدًا وَسَلَاماً عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ } (الانبیاء)
اے آگ ابراہیم پر ٹھنڈی ہو جا، اور سلامتی والی بن جا۔
آگ کا کام جلانا ہے، اس کی خصوصیت گرم ہونا ہے، لہٰذا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی حقیقت کونیہ کے خلاف ٹھنڈی ہو، اور جلائے نہیں، لہٰذا یہ آیت معیار پر پوری نہیں اترتی۔
{ اَللہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ } (الطلاق)
اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور ان ہی کے مثل (سات) زمینیں۔
چونکہ زمین صرف ایک ہے اور یہ ایک کرہ ہے جو سورج کے گرد گردش کرتا ہے، لہٰذا سات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
{ ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآءُ بَنٰہَا ۔ رَفَعَ سَمْکَہَا فَسَوّٰہَا۔ وَاَغْطَشَ لَیْلَہَا وَاَخْرَجَ ضُحٰہَا } (النازعات)
کیا تم زیادہ ہو مضبوطی میں یا آسمان ، اللہ نے اس کو بنایا، پھر اس کی چھت کو بلند کیا، پھر اس کو ہموار کیا، اور اس کی رات کو ڈھانک دیا اور اس کے دن کو نکال دیا۔
دن اور رات تو سورج کے گرد زمین کے گھومنے سے بنتے ہیں، آسمان کے دن اور رات کہاں سے آگئے۔
{ وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجْعِ } (الطارق)
قسم ہے آسمان کی جو چکر لگاتا ہے یا جس سے بارش ہوتی ہے۔
{خَلَق سَبْعَ سَمٰوَاتٍ طِبَاقًا } (ملک)
اللہ نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔
بلحاظ جدید سائنس آسمان کوئی چیز نہیں، محض حد نگاہ ہے، لہٰذا اس کا سات ہونا، یا چکر لگانا کیا معنی رکھتا ہے۔
{ وَالْاَرْضَ فَرَشْنَاھَا فَنِعْمَ الْمَاھِدُوْنَ }(الذاریات)
اور ہم نے زمین کو بچھایا، پس ہم کیسے اچھے بچھانے والے ہیں۔
زمین تو ایک کرہ ہے، لہٰذا بچھانا کس حد تک صحیح ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
{ وَحِفْظًا مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ مَارِدٍ } (الصافات)
اور ستاروں کو سرکش شیاطین سے بچاؤ کا سبب بنایا۔
کیا جدید سائنس بھی یہی کہتی ہے:
{ وَجَدَھَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَۃٍ } (الکھف)
ذوالقرنین نے سورج کو کیچڑ کے ایک چشمہ میں ڈوبتے ہوئے پایا۔
کیا یہ حقیقت ہے؟
موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے کہا:
{ اٰتِنَا غَدَاءَنَا } (الکھف)
ہمارا ناشتہ لاؤ
ان کے ساتھی نے جواب دیا:
{ وَاتَّخَذَ سَبِیْلَہٗ فِیْ الْبَحْرِ عَجَبًا } (الکھف)
بڑا عجیب و غریب واقعہ ہوا کہ وہ بھنی ہوئی مچھلی زندہ ہو کر سمندر میں چلی گئی۔
{ وَاِنَّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ }(البقرۃ)
اور بعض پتھر ایسے ہیں جو اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں۔
کیا پتھروں میں احساس ہوتا ہے، کیا پتھر کا ڈرنا حقیقت کونیہ ہے؟
تلک عشرۃ کاملۃ ۔ برق صاحب یہ ہیں، قرآنی آیات اور وہ ہے آپ کا معیار ۔
نتیجہ
اب اگر معیار کو صحیح مانیں تو بڑی مشکل ہوتی ہے کہ قرآنی آیات مشکوک ٹھہرتی ہیں، لہٰذا یہ معیار ہی غلط ہے، اگر آیات کی تاویل کی جائے تو پھر یہی چیز حدیث کے سلسلہ میں بھی قابل عمل ہونی چاہیے، خواہ مخواہ فرضی معیاروں پر کسنا نامناسب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(۵) برق صاحب کا پانچواں مجوزہ معیار

انسانی فطرت کو جھٹلانا​
برق صاحب کا مطلب یہ ہے کہ جو حدیث انسانی فطرت کے خلاف ہو وہ موضوع ہوگی، اس سلسلہ میں چند آیات قرآنی ملاحظہ فرمائیں:
{ رَبِّ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ کَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا وَّ قَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْکِبَرِ عِتِیًّا۔ قَالَ کَذٰلِکَ قَالَ رَبُّکَ ھُوَ عَلَیَّ ھَیِّنٌ } (مریم)
حضرت زکریا عرض کرتے ہیں، اے میرے رب میرے لڑکا کیسے ہوگا، حالانکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بے حد بوڑھا ہوگیا ہوں حتیٰ کہ اکڑ گیا ہوں، اللہ نے فرمایا ایسی حالت میں ہی ہوگا، یہ مجھ پر آسان ہے۔
الغرض حضرت یحییٰ علیہ السلام تولد ہوئے، یہ پیدائش انسانی فطرت کے خلاف ہے، مرد بوڑھا اور عورت بانجھ ہو، تو بچہ پیدا ہونا ناممکن ہے، لہٰذا یہ آیات مجوزہ معیار پر پوری نہیں اترتیں۔
حضرت مریم کو بیٹے کی بشارت دی جاتی ہے تو وہ کہتی ہیں:
{ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ وَّ لَمْ اَکُ بَغِیًّا ۔ قَالَ کَذٰلِکِ قَالَ رَبُّکِ ھُوَ عَلَیَّ ھَیِّنٌ } (مریم)
میرے لڑکا کیسے ہوسکتا ہے، حالانکہ مجھے کسی مرد نے ہاتھ نہیں لگایا، اور نہ میں بدکار ہوں ، فرشتے نے کہا اسی حالت میں ہوگا، تیرے رب نے کہا ہے کہ یہ مجھ پر آسان ہے۔
بغیر باپ کے بچہ پیدا ہونا، یہ بھی فطرت انسانی کے خلاف ہے۔
قوم کے لوگ حضرت مریم کے پاس آئے اور انہیں برا بھلا کہنا شروع کردیا، حضرت مریم نے شیر خوار بچے کی طرف اشارہ کردیا کہ اس سے پوچھو، قوم کہنے لگی:
{ کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِیْ الْمَھْدِ صَبِیًّا } (مریم)
ہم گہوارے میں جھولنے والے بچے سے کیسے بات کرسکتے ہیں۔
اس بچہ نے کہا:
{ اِنِّیْ عَبْدُ اللہِ } (مریم)
میں اللہ کا بندہ ہوں۔
نوزائیدہ بچہ کا بولنا انسانی فطرت کے خلاف ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی بشارت دی گئی تو ان کی بیوی بولیں:
{ یٰوَیْلَتٰٓی ءَاَلِدُ وَ اَنَا عَجُوْزٌ وَّ ھٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًا} (ھود)
ہائے افسوس کیا میں جنوں گی، حالانکہ میں بڑھیا ہوچکی ہوں، اور یہ میرے خاوند بھی بہت بوڑھے ہوچکے ہیں۔
پھر اس بشارت کے مطابق حضرت اسحاق علیہ السلام تولد ہوئے، جب مرد و عورت دونوں بوڑھے ہوں تو ان کے اولاد ہونا انسانی فطرت کے خلاف ہے۔
نتیجہ
چونکہ اس معیار سے قرآنی آیات پر زد پڑتی ہے لہٰذا یہ معیار بھی باطل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(۶) برق صاحب کا چھٹا مجوزہ معیار

عقل، تجربہ اور مشاہدہ کے خلاف​
برق صاحب کا مطلب یہ ہے کہ جو حدیث عقل تجربہ اور مشاہدہ کے خلاف ہو، وہ موضوع ہوگی، اس سلسلہ میں چند آیات بینات ملاحظہ ہوں:
{ قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ فَلَمَّا رَاٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ قَالَ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ } (النمل)
اس شخص نے جس کو کتاب کا کچھ علم تھا، کہا کہ میں ملکہ سبا کا تخت اتنی دیر میں لا دوں گا، جتنی دیر میں آپ کی نگاہ واپس آئے اور اتنی دیر میں وہ آگیا، تو اس کو اپنے پاس دیکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا یہ میرے رب کا فضل ہے۔
یہ عقل و تجربہ کے خلاف ہے کہ پلک جھپکنے میں ہزاروں میل دور سے ایک وزنی چیز منتقل ہو جائے گویا یہ آیت بھی مجوزہ معیار پر پوری نہیں اترتی، اب اس کے متعلق کیا کہا جائے۔
{ وَ اِذْ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ وَ قَالَ لَا غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَ اِنِّیْ جَارٌلَّکُمْ فَلَمَّا تَرَآءَتِ الْفِئَتٰنِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیْہِ وَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓئٌ مِّنْکُمْ اِنِّیْٓ اَرٰی مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّیْٓ اَخَافُ اللہَ } (الانفال)
جب شیطان نے کافروں کے اعمال ان کو مزین کرکے دکھائے اور کہا کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا، اور میں تمہارا ساتھی ہوں، دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل ہو ئیں تو الٹے پاؤں واپس ہوگیا، اور کہا میں تم سے بیزار ہوں، میں وہ چیزیں دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے، میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔
شیطان کا سامنے آنا، اور بات کرنا ، تجربہ اور مشاہدہ کے خلاف ہے، پھر اس کا اللہ سے ڈرنا بھی حیرت انگیز ہے، اس کو تو قیامت تک کے لیے ازروئے قرآن مہلت دے دی گئی ہے لہٰذا اس کا خوف الٰہی سے ڈر کر بھاگنا خلاف عقل ہے اور کافروں سے اس کا بیزار ہونا بھی خلاف عقل ہے، اس کے اصلی دوست تو کافر ہی ہوتے ہیں۔
{ وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَ اَشْھَدَھُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَھِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ھٰذَا غٰفِلِیْن} (الاعراف)
اور جب تمہارے رب نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا، اور ان سے ان پر گواہی طلب کی کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں، سب نے کہا کیوں نہیں بے شک تو ہمارا رب ہے، ہم گواہ ہیں، یہ اس لیے کیا کہ کہیں روز قیامت تم یہ نہ کہہ دو کہ ہم تم اپنے رب سے غافل تھے۔
یہ بالکل خلاف عقل ہے کہ پیدائش سے پہلے اقرار کرلیا، اس اقرار سے کیا فائدہ؟ یہ اقرار کس کو یاد ہے، پھر یہ بھی خلاف عقل ہے کہ اولاد آدم جو ابھی وجود میں نہیں آئی تھی ان کی پیٹھیں کہاں سے آگئیں، کہ ان کی پیٹھوں سے تمام اولاد کو نکال لیا۔
{ وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَ اَدْبَارَھُمْ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ } (الانفال)
اور اگر تم دیکھو جس وقت فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہیں، اور ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے جاتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ جلنے کا مزہ چکھو۔
یہ آیت بھی مشاہدہ کے خلاف ہے، نہ کبھی یہ آواز سنائی دیتی ہیں، نہ فرشتے دکھائی دیتے ہیں، اگر وہ مارتے تو کیا آواز نہیں آتی، مارا جائے اور آواز نہ ہو، یہ خلاف عقل و تجربہ ہے۔
نتیجہ
یہ قرآنی آیات ہیں، جو اس معیار پر پوری نہیں اترتیں، لہٰذا یہ معیار غلط ہے نہ کہ قرآنی آیات ہماری عقل اور ہمارا تجربہ حقیقت میں کوئی چیز نہیں، جو شخص جانتا ہے، وہ جانتا ہے، اور جو نہیں جانتا، اس کی سمجھ میں اس جاننے والے کی بات نہیں آسکتی، بذریعہ لاسلکی جوہزاروں میل کی بات ہم سن لیتے ہیں، کیا ہمارے اجداد کی عقل میں یہ بات آسکتی تھی، کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے اور آج بھی بہت سی باتیں ایسی ہیں، جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں، مثلاً پانی کے ایک قطرہ میں کروڑوں جراثیم کا ہونا یہ عقل میں آنے والی بات نہیں، نہ اس کا ہم نے کبھی مشاہدہ کیا، لہٰذا یہ عقل کے بھی خلاف ہے اور مشاہدہ کے بھی خلاف ہے، محض چند فضلا پر اعتبار کرکے ہم یقین کرلیتے ہیں کہ واقعی ایسا ہوگا اور جب فضلاء کے علم و فضل پر اعتبار کرکے ہم ان کی خلاف عقل و مشاہدہ عجیب و غریب بات تسلیم کرلیتے ہیں، تو پھر اس رسول کی کوئی بات، جس رسول پر ہم ایمان لاتے ہیں، اگر ہماری عقل و تجربہ کے خلاف ہو، تو کیوں نہ تسلیم کریں، ہوسکتا ہے کہ ہماری عقل کی رسائی وہاں تک نہ ہو، ہوسکتا ہے کہ ہم مشاہدہ کر ہی نہ سکتے ہوں، ہوسکتا ہے کہ ہمارا تجربہ غلط ہو، لہٰذا صرف ان باتوں کی بنا پر حدیث کی یا رسول کی تکذیب نہیں کرسکتے، نہ پانی کے ایک قطرہ میں لا تعداد جراثیم کا ہم نے مشاہدہ کیا ہے نہ ہماری عقل میں آتا ہے، لیکن پھر بھی ہم اسے صحیح تسلیم کرتے ہیں، یہ بھی ایک قسم کا ایمان بالغیب ہے، اور جب کسی حکیم یا سائنسدان کی بات پر ایمان بالغیب ہوسکتا ہے، تو پھر رسول کی بات پر ایمان بالغیب کیوں نہ لایا جائے، کیوں اس کی بات کو عقل و تجربہ کی میزان میں رکھ کر تولنے لگیں، کیا یہ انصاف ہے؟ رسول پر ایمان بالغیب ہی ذریعہ ہدایت و نجات ہے، اور یہی اللہ تعالیٰ کا ہم سے مطالبہ ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ ھُدًی لِلْمُتَّقِیْنَ ۔ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ } (البقرۃ)
اللہ کی کتاب متقی لوگوں کے لیے ذریعہ ہدایت و نجات ہے، اور یہ وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اب سنیے مشاہدہ کی بات ہم ریل میں سفر کرتے ہیں، تو نزدیک کی چیزیں ایسی معلوم ہوتی ہیں گویا ہماری مخالف سمت میں بھاگ رہی ہیں، یہ نظر کا دھوکہ ہے، پھر دور کی چیزیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہماری ہی سمت جا رہی ہیں، حالانکہ در حقیقت وہ بھی ہماری مخالف سمت میں ہی جاتی ہوتی ہیں لیکن مشاہدہ حقیقت کے خلاف ہے، اب اگر کوئی سائنسدان ہم سے یہ کہے کہ وہ دور کی چیزیں بھی مخالف سمت میں جا رہی ہیں، تو کیا ہم اس کی تکذیب کریں، کیونکہ ہمارے مشاہدہ کے خلاف ہے، نہیں بلکہ حقیقت کو جاننے والے کی بات ماننی چاہیے، مشاہدہ غلط ہوسکتا ہے، آنکھیں خطا کرسکتی ہیں، لہٰذا ہم رسول کی خلاف مشاہدہ بات کو بھی تسلیم کریں گے اور ایمان اسی کا نام ہے اس کے علاوہ کفر ہی کفر ہے۔
اسی طرح جب ہم کہیں جاتے ہیں تو ہمیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چاند بھی ہمارے ساتھ چل رہا ہے، یہ بھی آنکھ کی خطا ہے اسی طرح جب بادل چاند کے نیچے سے گزرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چاند دوڑ رہا ہے، اور بادل ساکن ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے خلاف ہوتی ہے، دو مساوی خطوط علیحدہ علیحدہ کچھ فاصلے پر کھینچے جائیں اور پھر ان میں سے ایک کے پاس ایک بہت لمبا خط کھینچا جائے، تو یہ خط اپنے دوسرے مساوی خط سے چھوٹا معلوم ہوگا، حالانکہ یہ بھی حقیقت کے خلاف ہے، ریگستان میں سراب کا نظر آنا بھی محض دھوکا ہے، غرض یہ کہ اس قسم کی کئی خطائیں ہیں جو آنکھ سے سرزد ہوتی ہیں ، مشاہدہ غلط ہوتا ہے، لہٰذا محض مشاہدہ کی خاطر ہم رسول جیسے مخبر صادق کی خبر پر شبہ کرنے لگیں یہ کسی طرح بھی ایمان کی شان نہیں، اس تمام بحث سے ثابت ہوا کہ یہ معیار بھی غلط ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(۷) برق صاحب کا مجوزہ ساتواں معیار

مسلمہ تاریخی واقعات کی تردید​
برق صاحب کا مطلب یہ ہے کہ جو حدیث کسی مسلمہ تاریخی واقعہ کی تردید کرتی ہو، وہ موضوع ہے اس سلسلہ میں قرآنی آیات ملاحظہ ہوں۔
(۱) یہ مسلمہ تاریخی حقیقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب رسولوں کے آخر میں آئے لیکن قرآن کہتا ہے:
{ ھٰذَا نَذِیْرٌ مِنَ النُّذُّرِ الْاُوْلٰی } (النجم)
یہ پہلے پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر ہیں۔
(۲) کوہ طور آج بھی موجود ہے، لیکن قرآن کہتا ہے:
{ وَجَعَلَہٗ دَکًّا } (الاعراف)
تجلیات الٰہی نے اسے ریزہ ریزہ کردیا۔
{ فَاَخْرَجْنٰہُمْ مِّنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ ۔ وَّکُنُوْزٍ وَّمَقَامٍ کَرِیْمٍ ۔ کَذٰلِکَ وَاَوْرَثْنَاہَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ } (الشعراء)
ہم نے قوم فرعون کو باغات، چشمے اور خزانوں اور محلات سے نکال کر باہر کردیا، اور بنی اسرائیل کو ان کا وارث بنا دیا۔
بنی اسرائیل تو مصر چھوڑ کر چلے آئے تھے، پھر وہ وارث کیسے ہوگئے، یہ تاریخ کے خلاف ہے۔
{ اَوَ لَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْھَا} (اٰل عمران)
جو نقصان کافروں سے تمہیں پہنچا، تم اس سے دگنا انہیں پہنچا چکے ہو۔
یہ مسلمہ تاریخی واقعہ ہے کہ جنگ بدر میں ستر کافر قتل ہوئے اور جنگ احد میں ستر مسلمان شہید ہوئے، یعنی دونوں کا نقصان برابر، برابر ہے، لیکن قرآن کی مذکورہ بالا آیت کافروں کا نقصان دوگنا بتاتی ہے، لہٰذا یہ آیت مسلمہ تاریخی واقعہ کے خلاف ہے، اب بتائیے اس آیت کے متعلق کیا کہیں کیونکہ اس معیار پر قرآنی آیات بھی پوری نہیں اترتیں، لہٰذا یہ معیار بھی باطل ہے، تاریخ غلط ہوسکتی ہے، لیکن قرآن و حدیث غلط نہیں ہوسکتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(۸) برق صاحب کا آٹھواں مجوزہ معیار

اسلام کے اصولوں مثلاً جہاد و ایثار وغیرہ کی منزلت گھٹاتی ہو​
برق صاحب کا مطلب یہ ہے کہ جس حدیث سے جہاد وغیرہ کی منزلت میں فرق آتا ہو، وہ حدیث جعلی ہے، اس سلسلہ میں قرآنی آیات ملاحظہ ہوں:
{ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ۔ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فَاعِلُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ ۔ اِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ ۔ فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَذٰلِکَ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْعَادُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمَانٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَوَاتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ ۔ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْوَارِثُوْنَ ۔ الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ } (مومنون)
بے شک ایمان والے فلاح پائیں گے، وہ جو نماز میں خشوع کرتے ہیں، اور لغو کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور وہ لوگ جو زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سوائے اپنی بیویوں کے اور اپنی لونڈیوں کے، کیوں کہ ان سے ایسا کرنے میں کوئی ملامت نہیں، اور ان کے علاوہ کسی دوسری عورت سے کرنے والے گنہگار ہیں اور وہ جو اپنی امانت اور عہد کی حفاظت کرتے ہیں، اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں، یہ ہی لوگ جنت الفردوس کے وارث ہوں گے اور یہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
ان آیات میں کہیں جہاد کا ذکر نہیں، اور باوجود اس کے جنت الفردوس کا وعدہ ہے، کیونکہ یہ آیات جہاد کی اہمیت گھٹاتی ہیں، لہٰذا ان کے متعلق کیا کہا جائے۔
{ الَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَاتِہِمْ دَآئِمُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ فِیْ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ ۔ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ ۔ وَالَّذِیْنَ یُصَدِّقُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ مِّنْ عَذَابِ رَبِّہِمْ مُّشْفِقُوْنَ ۔ اِنَّ عَذَابَ رَبِّہِمْ غَیْرُ مَاْمُوْنٍ ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَ ۔ اِلَّا عَلٰٓی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ ۔ فَمَنِ ابْتَغَی وَرَآءَذٰلِکَ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْعٰدُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِشَہٰدٰتِہِمْ قَآئِمُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَاتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ ۔ اُوْلٰٓئِکَ فِیْ جَنّٰتٍ مُّکْرَمُوْنَ } (المعارج)
جو لوگ ہمیشہ نماز ادا کرتے رہتے ہیں اور جن لوگوں کے مال میں سائل اور محروم کے لیے حصے مقرر ہیں، اور جو لوگ یوم آخرت کی تصدیق کرتے ہیں اور جو لوگ اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں، بے شک ان کے رب کا عذاب غیر مامون ہے اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سوائے اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے ، ان کے معاملہ میں ان پر کوئی ملامت نہیں اور ان کے علاوہ تلاش کرنے والے گنہگار ہیں، اور جو اپنی امانتوں اور عہدوں کی حفاظت کرتے ہیں اور جو اپنی شہادتوں پر قائم رہتے ہیں اور جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں، یہ لوگ باغوں میں عزت کے ساتھ رہیں گے۔
ان آیات میں جہاد کی طرف اشارہ تک نہیں ، پھر بھی جنت کا وعدہ ہے۔
{ وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا ۔ وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا۔ وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا۔ اِنَّہَا سَآءَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا ۔ وَالَّذِیْنَ اِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا ۔ وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللہِ اِلٰہًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا ۔ یُّضٰعَفْ لَہٗ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہٖ مُہَانًا ۔ اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُوْلٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ وَکَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ۔ وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوْبُ اِلَی اللہِ مَتَابًا۔ وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا ۔ وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوا عَلَیْہَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا ۔ وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا ۔ اُوْلٰٓئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا وَیُلَقَّوْنَ فِیْہَا تَحِیَّۃً وَّسَلٰمًا۔ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا } (الفرقان)
اور اللہ کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہلوں سے بات کرتے ہیں تو صاحب سلامت کی بات کہتے ہیں، راتوں کو نماز پڑھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ہم کو عذاب دوزخ سے بچا، اس کا عذاب بہت برا ہے، اور وہ بہت بری جگہ ہے اور وہ لوگ جو کفایت سے خرچ کرتے ہیں، نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخل کرتے ہیں اور وہ لوگ جو اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں پکارتے نہ کسی ایسی جان کو قتل کرتے ہیں، جس کا قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہے اور قتل کرتے ہیں، تو حق کے ساتھ اور جو لوگ زنا نہیں کرتے اور جو شخص ایسا کرے، تو وہ گنہگار ہے، اس کے لیے قیامت کے دن کئی گنا عذاب ہے، اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا، مگر وہ جو توبہ کرے اور ایمان لے آئے، اور نیک عمل کرتا رہے تو اس کی برائیوں کو ہم نیکیوں سے بدل دیں گے اور اللہ غفور ہے رحیم ہے اور جو توبہ کرے اور پھر نیک عمل کرے ، تو ایسا ہی شخص در حقیقت اللہ کے ہاں تائب شمار ہوتا ہے اور جو لوگ بے ہودہ کاموں میں حاضر نہیں ہوتے اور جب بیہودہ مشاغل کے پاس سے ان کا گزر ہوتا ہے، تو وقار سے گزر جاتے ہیں اور وہ لوگ کہ جب ان کے سامنے اللہ کی آیات بیان کی جائیں، تو اندھے اور بہرے نہیں بن جاتے، جو اس طرح دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہماری بیویوں اور اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دے اور ہمیں متقین کا پیشر دبنا دے۔ ان لوگوں کو ان کے صبر کے عوض جنت کے بالا خانے ملیں گے، ان کی ملاقات تحیہ دسلام سے ہوا کرے گی، ان اچھے مقامات میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
نیک اعمال کی اتنی لمبی فہرست ہے ، لیکن کہیں بھی جہاد کا ذکر نہیں اور نہ ایثار کا اس قسم کی بہت سی آیات ہیں۔
نتیجہ
کیونکہ اس مجوزہ معیار پر قرآنی آیات بھی پوری نہیں اترتیں، لہٰذا یہ معیار بھی باطل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(۹) برق صاحب کا مجوزہ نواں معیار

رہبانیت اور نفس کشی کو جہاد اکبر قرار دیتی ہو​
اگرچہ ایسی کوئی حدیث نہیں، جس میں رہبانیت اور نفس کشی کو جہاد اکبر قرار دیا ہو، تاہم معیار کی قوت ملاحظہ فرمائیے، قرآن میں ہے:
{ وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا } (المزمل)
اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو اور تمام دنیاوی علائق سے قطع تعلق کرکے اس کی طرف رجوع کرو۔
(۲) یحییٰ علیہ السلام کی تعریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ} (ال عمران)
وہ سردار ہوں گے، نفس کشی کرنے والے ہونگے اور نبی ہوں گے صالحین میں سے۔
{ اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّی } (اٰل عمران)
جب عمران کی بیوی نے کہا اے رب میں نذر مانتی ہوں کہ جو کچھ میرے پیٹ میں ہے، اس کو تیرے لیے آزاد چھوڑ دوں گی پس تو اسے قبول فرما۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ فَتَقَبَّلَھَا رَبُّھَا بِقُبُوْلٍ حَسَنٍ }
اللہ نے اسے بوجہ احسن قبول فرمالیا۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ ترک دنیا اللہ کو پسند ہے، اور اگر مرد و عورت راہبانہ زندگی گزاریں، تو یہ اس کو محبوب ہے، یعنی راہب و راہبہ بن جانا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔
کیونکہ ان آیات میں بظاہر رہبانیت اور نفس کشی کی ترغیب پائی جاتی ہے، لہٰذا یا تو یہ آیات محل نظر ہیں، یا پھر یہ معیار باطل ہے، اور یہی صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(۱۰) برق صاحب کا مجوزہ دسواں معیار

مسلمانوں کو دنیا سے بیزار کرنا​
برق صاحب کا مطلب یہ ہے کہ جو حدیث مسلمانوں کو دنیا سے بیزار کرے، وہ جعلی ہے، اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ ہوں۔
{ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ وَ الْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰی وَ لَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا } (النساء)
کہہ دیجئے کہ دنیا کی پونجی بہت تھوڑی ہے اور آخرت بہتر ہے اس کے لیے جو تقویٰ اختیار کرے۔
{ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْھُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ } (اٰل عمران)
تم میں سے بعض دنیا کے طالب ہیں اور بعض آخرت کے طالب ہیں، پھر اللہ نے تم کو ان سے پھیر دیا تاکہ تم کو مبتلائے مصیبت کرے۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ دنیا طلبی کی سزا میں مسلمانوں کو جنگ احد میں مبتلائے مصیبت کیا گیا اسی سلسلہ میں اللہ تعالیٰ آگے فرماتا ہے:
{ فَاثَابَکُمْ غَمًّا بِغَمٍّ } (ال عمران)
پس تم کو غم پر غم پہنچایا گیا۔
{ مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَۃِ نَزِدْ لَہٗ فِیْ حَرْثِہٖ وَمَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤتِہٖ مِنْہَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ نَّصِیْبٍ } (الشوری)
جو شخص آخرت کی کھیتی کا طالب ہے، تو ہم اس کی کھیتی میں زیادتی کردیں گے، اور جو شخص دنیا کی کھیتی کا خواہش مند ہے، تو ہم اس کو اس میں سے کچھ دے دیتے ہیں، لیکن آخرت میں اس کے لیے کچھ نہیں۔
(۴) ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے دنیا مانگی، تو جواب ملا کہ:
{ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَھَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَ اُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا ۔ وَاِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللہَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْکُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا } (الاحزاب)
اگر تمہیں دنیا کی زندگی اور دنیا کی زیب و زینت چاہیے تو آؤ ، میں تم کو مال دے کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کئے دیتا ہوں اور اگر اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اور آخرت کے گھر کی طالب ہو، تو پھر بے شک اللہ نے تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔
گویا اللہ، رسول اور آخرت کے طلب گار کو دنیا سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہیے۔
{ لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَابِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْھُمْ } (طہ)
اپنی آنکھ اٹھا کر بھی اس مال و متاع کو مت دیکھئے، جو ہم نے ان لوگوں کو دے رکھا ہے۔
الغرض اس قسم کی بیسیوں آیتیں ہیں، جو دنیا سے بیزار کرتی ہیں، لہٰذا یہ معیار بھی باطل ہے۔
 
Top