- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
مومنین کی ایک جماعت جہاد سے نفرت کرتی تھی، وہ حق ظاہر ہو جانے کے بعد حق کے معاملہ میں اے رسول آپ سے جھگڑا کر رہے تھے، گویا ان کو آنکھوں دیکھے موت کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے۔
یہ ہے جنگ بدر میں صحابہ کی ایک جماعت کا نقشہ، برخلاف اس کے حدیث میں ہے کہ صحابہ نے کہا ہم سمندر میں کود پڑیں گے، ایسا کریں گے، ویسا کریں گے، کون سی چیز ان دونوں میں صحابہ کے شایان شان ہے؟
یہ بات ذہن نشین رکھیے کہ منافقین اس جنگ تک وجود میں نہیں آئے تھے۔
{ عَلِمَ اللہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَ عَفَا عَنْکُمْ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللہُ لَکُمْ } (البقرۃ)
اللہ تعالیٰ نے معلوم کرلیا کہ تم اپنی جانوں کے ساتھ خیانت کرتے تھے، پس اللہ رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجہ ہوا، اور تمہارا قصور معاف فرما دیا، اب تم عورتوں سے مل جل سکتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اس کی جستجو بھی کرسکتے ہو۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام روزہ کی حالت میں جماع کر بیٹھتے تھے، ہم جیسے کمزور مسلمان اس قسم کے خیال سے بھی پناہ پکڑتے ہیں، وہ کیسے مسلمان تھے کہ روزہ میں بار بار گناہ کرلیا کرتے تھے، کیا اس آیت میں توہین صحابہ نہیں؟ اگر ہے تو کیا یہ آیت معیار پر پوری اترتی ہے۔
{ فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ } (المائدہ)
موسیٰ علیہ السلام کے صحابہ نے کہا اے موسیٰ تم جاؤ اور تمہارا رب تم دونوں لڑو ہم تم یہیں بیٹھے ہیں۔
{ اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ اٰلِھَۃٌ قَالَ اِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْھَلُوْنَ } (الاعراف)
موسیٰ علیہ السلام کے صحابہ نے ایک قوم کو بت پوجتے دیکھ کر کہا کہ ہمارے لیے ایسا خدا بنا دیجئے۔ جیسا ان کا ہے موسیٰ علیہ السلام نے کہا تم جاہل ہو۔
موسیٰ علیہ السلام کے اصحاب نے بچھڑے کی پوجا کی، ہارون علیہ السلام نے منع کیا تو کہنے لگے:
{ لَنْ نَّبْرَحَ عَلَیْہِ عٰکِفِیْنَ حتّٰی یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوْسٰی} (طہ)
ہم تو اس کی پوجا ہرگز نہیں چھوڑیں گے جب تک موسیٰ علیہ السلام نہ آجائیں۔
ایک رسول موجود ہے، اس پر ایمان لاچکے ہیں لیکن اس کا کہنا نہیں مانتے، اور بچھڑے کی پوجا میں مصروف ہیں، یہ ہے دو پیغمبروں کی صحبت میں رہنے والی جماعت۔
موسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم گائے ذبح کرو، تو کہنے لگے:
{ اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا } (البقرۃ)
کیا آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں۔
پھر اس کے بعد طرح طرح کے بچگانہ سوالات کیے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صحابہ کرام فرماتے ہیں:
{ ھَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ } (المائدہ)
(اے عیسیٰ) کیا آپ کے رب میں استطاعت ہے کہ ہم پر آسمان سے ایک دستر خوان نازل فرما دے۔
دیکھئے کتنا بچگانہ سوال ہے؟
خلاصہ
کیا مندرجہ بالا آیات سے صحابہ کی توہین نہیں ہوتی، اگر یہ صحیح ہیں، تو کیا وجہ کسی حدیث میں کوئی ذرا سی بات بھی نظر آجائے تو اسے جعلی سمجھا جائے، کیونکہ اس معیار پر قرآنی آیات بھی پوری نہیں اترتیں، لہٰذا یہ معیار ہی باطل ہے نہ کہ آیات قرآنی۔
یہ ہے جنگ بدر میں صحابہ کی ایک جماعت کا نقشہ، برخلاف اس کے حدیث میں ہے کہ صحابہ نے کہا ہم سمندر میں کود پڑیں گے، ایسا کریں گے، ویسا کریں گے، کون سی چیز ان دونوں میں صحابہ کے شایان شان ہے؟
یہ بات ذہن نشین رکھیے کہ منافقین اس جنگ تک وجود میں نہیں آئے تھے۔
{ عَلِمَ اللہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَ عَفَا عَنْکُمْ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللہُ لَکُمْ } (البقرۃ)
اللہ تعالیٰ نے معلوم کرلیا کہ تم اپنی جانوں کے ساتھ خیانت کرتے تھے، پس اللہ رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجہ ہوا، اور تمہارا قصور معاف فرما دیا، اب تم عورتوں سے مل جل سکتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اس کی جستجو بھی کرسکتے ہو۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام روزہ کی حالت میں جماع کر بیٹھتے تھے، ہم جیسے کمزور مسلمان اس قسم کے خیال سے بھی پناہ پکڑتے ہیں، وہ کیسے مسلمان تھے کہ روزہ میں بار بار گناہ کرلیا کرتے تھے، کیا اس آیت میں توہین صحابہ نہیں؟ اگر ہے تو کیا یہ آیت معیار پر پوری اترتی ہے۔
{ فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ } (المائدہ)
موسیٰ علیہ السلام کے صحابہ نے کہا اے موسیٰ تم جاؤ اور تمہارا رب تم دونوں لڑو ہم تم یہیں بیٹھے ہیں۔
{ اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ اٰلِھَۃٌ قَالَ اِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْھَلُوْنَ } (الاعراف)
موسیٰ علیہ السلام کے صحابہ نے ایک قوم کو بت پوجتے دیکھ کر کہا کہ ہمارے لیے ایسا خدا بنا دیجئے۔ جیسا ان کا ہے موسیٰ علیہ السلام نے کہا تم جاہل ہو۔
موسیٰ علیہ السلام کے اصحاب نے بچھڑے کی پوجا کی، ہارون علیہ السلام نے منع کیا تو کہنے لگے:
{ لَنْ نَّبْرَحَ عَلَیْہِ عٰکِفِیْنَ حتّٰی یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوْسٰی} (طہ)
ہم تو اس کی پوجا ہرگز نہیں چھوڑیں گے جب تک موسیٰ علیہ السلام نہ آجائیں۔
ایک رسول موجود ہے، اس پر ایمان لاچکے ہیں لیکن اس کا کہنا نہیں مانتے، اور بچھڑے کی پوجا میں مصروف ہیں، یہ ہے دو پیغمبروں کی صحبت میں رہنے والی جماعت۔
موسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم گائے ذبح کرو، تو کہنے لگے:
{ اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا } (البقرۃ)
کیا آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں۔
پھر اس کے بعد طرح طرح کے بچگانہ سوالات کیے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صحابہ کرام فرماتے ہیں:
{ ھَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ } (المائدہ)
(اے عیسیٰ) کیا آپ کے رب میں استطاعت ہے کہ ہم پر آسمان سے ایک دستر خوان نازل فرما دے۔
دیکھئے کتنا بچگانہ سوال ہے؟
خلاصہ
کیا مندرجہ بالا آیات سے صحابہ کی توہین نہیں ہوتی، اگر یہ صحیح ہیں، تو کیا وجہ کسی حدیث میں کوئی ذرا سی بات بھی نظر آجائے تو اسے جعلی سمجھا جائے، کیونکہ اس معیار پر قرآنی آیات بھی پوری نہیں اترتیں، لہٰذا یہ معیار ہی باطل ہے نہ کہ آیات قرآنی۔