• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
(۱۱) برق صاحب کا تجویز کردہ گیارہواں معیار

ایک ایک دعا پر لاکھوں جنتیں تقسیم کرنا​
برق صاحب کا مطلب یہ ہے کہ جس حدیث میں یہ ہوا کہ فلاں دعا پڑھنے سے ایک لاکھ جنتیں مل جائیں گی، وہ حدیث جعلی ہے، برق صاحب ایسی صحیح حدیث تو کوئی موجود نہیں، البتہ ایسی آیت ضرور موجود ہے، جو صرف '' ربنا اللہ'' کہنے پر جنت کا ٹھیکیدار بنا دیتی ہے، سنیے:
{ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ } (حم سجدہ)
بے شک جن لوگوں نے کہا '' ربنا اللہ'' ہمارا رب اللہ ہے پھر اسی پر جمے رہے تو ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں، جو کہتے ہیں کہ نہ ڈرو نہ غم کھاؤ اور جنت کی بشارت سنو۔
کیونکہ اس معیار پر قرآن مجید کی آیات بھی پوری نہیں اترتیں، لہٰذا یہ معیار بھی باطل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
(۱۲) برق صاحب کا تجویز کردہ بارہواں معیار

وضو کرنے پر سارے گناہ معاف کرنا​
برق صاحب کا مطلب یہ ہے کہ جس حدیث میں یہ بشارت ہو کہ وضو کرنے سے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، وہ حدیث صحیح نہیں ہے، برق صاحب وضو تو خیر بہت بڑا عمل ہے اور ایک بہت بڑے مقصد کا پیش خیمہ ہے، قرآن تو صرف جھک کر ''حطۃ'' کہنے پر سارے گناہوں کے معاف کرنے کی خوشخبری دیتا ہے، سنیے:
{ وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْ لَکُمْ خَطٰیٰکُمْ } (البقرۃ)
اور جب تم دروازے میں سے داخل ہو، تو جھک جانا اور '' حطۃ'' کہنا، ہم تمہارے سب گناہ معاف کردیں گے۔
اس معیار پر بھی قرآنی آیات پوری نہیں اترتیں، لہٰذا یہ معیار بھی باطل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
(۱۳) برق صاحب کا تجویز کردہ تیرہواں معیار

دوات کی سیاہی کو ایک لاکھ شہیدوں کے خون سے افضل ٹھہرنا​
برق صاحب کا مطلب یہ ہے کہ جس حدیث میں یہ ہو کہ دوات کی سیاہی ایک لاکھ شہیدوں کے خون سے افضل ہے، وہ جعلی ہے، برق صاحب ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے، لہٰذا یہ معیار ہی بے کار ہے، مگر اتنا ضرور عرض ہے کہ ایک عالم کی دوات کی سیاہی کا مقصد کیا ہے، وہی جو ایک شہید کے خون کا مقصد ہے، یعنی دین الٰہی کی حفاظت، پھر مزید برآں سیاہی سے دین الٰہی کی حفاظت ہی نہیں ہوتی، بلکہ دین الٰہی کی تبلیغ بھی ہوتی ہے، گویا سیاہی دونوں کام کرتی ہے، حملہ میں بھی کرتی ہے اور دفاع بھی پھر خون شہید کا اثر عارضی ہوتا ہے، لیکن اس سیاہی سے لکھی ہوئی کتاب کا فیضان قیامت تک جاری رہتا ہے، لہٰذا لکھنے والے کے نامہ اعمال میں ثواب در ثواب کے انبار لگ جاتے ہیں، اس اعتبار سے دیکھا جائے، تو یہ معیار باطل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
(۱۴) برق صاحب کا مجوزہ چودھواں معیار
ذکر خدا کو جان و مال کی قربانی سے بہتر قرار دیتی ہو​
اس سلسلہ میں سنیے کہ قرآن کیا فرماتا ہے:
{ وَلَذِکْرُ اللہِ اَکْبَرُ }
اور بے شک اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے۔
اس آیت کے علاوہ بہت سی آیات میں اللہ کے ذکر کی فضیلت بیان ہوئی ہے، بلکہ بعض آیات میں تو جہاد کو مقامات ذکر کی حفاظت کا ذریعہ بتایا گیا ہے، گویا اصل مقصد ذکر الٰہی ہے اور جہاد اس کا خادم، اس لحاظ سے اور مذکورہ بالا آیت کے لحاظ سے یہ معیار بھی باطل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
(۱۵) برق صاحب کا مجوزہ پندرھواں معیار

سورج کو عرش کے نیچے سجدہ کرانا​
برق صاحب کا مطلب یہ ہے کہ جس حدیث میں ہو کہ سورج عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے وہ باطل ہے۔
سورج کا سجدہ کرنا تو قرآن سے ثابت ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ یَسْجُدُلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَالدَّ وَآبُّ وَ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ } (الحج)
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کو زمین و آسمان کی تمام مخلوقات سجدہ کرتی ہے، اور سورج ، چاند، تارے، اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان بھی سجدہ کرتے ہیں۔
لیجئے قرآن کی رو سے تو سورج ہی سجدہ نہیں کرتا، بلکہ پہاڑ بھی سجدہ کرتے ہیں درخت بھی سجدہ کرتے ہیں، جانور بھی سجدہ کرتے ہیں اور یہاں سجدہ سے حکم گونی مراد نہیں لیا جاسکتا، کیونکہ حکم گونی کے تو تمام انسان تابع ہیں اور آیت میں تمام انسانوں کا ذکر نہیں، لہٰذا سجدہ سے مراد وہی عبادت کا سجدہ ہے اور یہی عبادت کا سجدہ سورج بھی کرتا ہے اور پہاڑ بھی، لہٰذا اس مجوزہ معیار پر آیت قرآنی بھی پوری نہیں اترتی، اور اس لحاظ سے یہ معیار بھی باطل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
(۱۶) برق صاحب کا مجوزہ سولہواں معیار

درختوں کو رُلانا​
برق صاحب کا مطلب یہ ہے کہ جس حدیث میں یہ خبر ہو کہ درخت رویا وہ حدیث موضوع ہے، برق صاحب درختوں کے احساسات کو جدید سائنس نے بھی تسلیم کرلیا ہے، مگر ابھی تک معجزہ پر آپ کو شک ہے، اچھا اب قرآنی آیات سنیے:
{ وَسَخَّرْ اَنَا مَعَ دَاؤدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ } (الانبیاء)
اور ہم نے پہاڑوں کو داؤد کے ساتھ مسخر کردیا تھا، وہ پہاڑ تسبیح پڑھا کرتے تھے۔
اگر پتھر تسبیح پڑھ سکتے ہیں، تو پھر درخت کا روتا تعجب خیز کیوں؟
{ وَلِسُلَیْمَانَ الرِّیحَ عَاصِفَۃً تجری بِاَمْرِہٖ } (الانبیاء)
اور ہوا سلیمان کے تابع تھی، اس کے حکم سے چلتی تھی۔
ہوا جیسی چیز ایک رسول کی محکوم ہو، تو کوئی تعجب نہیں، درخت کا رونا تعجب خیز کیوں؟
{ وَاِنَّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ } (البقرۃ)
اور بعض پتھر ایسے ہیں کہ اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں۔
گویا پتھروں کو خوف محسوس ہوتا ہے، وہ گر پڑتے ہیں، ان میں بغیر دل و دماغ کے احساس ہوتا ہے۔
الغرض اس معیار پر بہت سی آیات پوری نہیں اترتیں، لہٰذا یہ معیار بھی باطل ہے، پھر معجزہ کا نام ہی اس قسم کے معیاروں کے بطلان کے لیے کافی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
(۱۷) برق صاحب کا مجوزہ سترھواں معیار

صوم و حیض میں مباشرت کی اجازت دینا​
برق صاحب مباشرت سے مجامعت مراد لیتے ہیں اور کیونکہ کسی حدیث میں بحالت صوم و حیض مجامعت کی اجازت نہیں، لہٰذا یہ معیار ہی کالعدم ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
(۱۸)برق صاحب کا مجوزہ اٹھارہواں معیار

طریقت اور پیر گری کو اچھالنا​
کسی صحیح حدیث میں یہ مضمون نہیں، لیکن قرآن میں اس کا اشارہ پایا جاتا ہے، سنیے:
سورہ کہف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات اور سفر کا ایک حصہ مذکور ہے، اس سفر میں حضرت خضر نے ایسے کام کئے، جو یا تو خلاف شرع تھے یا خلاف عقل بھی جس کشتی میں سوار تھے، اس کشتی کو توڑ ڈالا، ایک معصوم بچے کو قتل کردیا، ایک دیوار کی بلاوجہ اور بغیر اجرت کے مرمت کردی، ان تینوں باتوں کے رمز تک حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے پیغمبر نہ پہنچ سکے، کہ ہر بات پر اعتراض کیا، بالآخر حضرت خضر نے استادانہ حیثیت سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان باتوں کا راز سمجھا دیا۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ شریعت کے عالم ظاہر پرست ہوتے ہیں، انہیں حقیقت کا علم نہیں ہوتا، طریقت والے شریعت سے ماورا ہوتے ہیں، وہ ایسے کام کر گزرتے ہیں، جو بظاہر خلاف شرع معلوم ہوتے ہیں، لیکن باطن میں وہ عین شرع ہوتے ہیں، دیکھئے موسیٰ علیہ السلام صاحب شریعت پیغمبر تھے، لیکن ان کو صرف ظاہر کا علم تھا، اور حضرت خضر صاحب طریقت و معرفت تھے، وہ ان حقائق سے آشنا تھے، جن سے موسیٰ علیہ السلام قطعاً نابلد تھے، بلکہ اُن تک موسیٰ علیہ السلام کی رسائی نہ ہوسکتی تھی، لہٰذا صاحب طریقت کا مرتبہ صاحب شریعت سے بڑا ہے، اگر کوئی پیر خلاف شریعت کام کرتا نظر آئے، تو اس کو برا مت سمجھو، بلکہ یہ خیال کرو کہ پیر ایسی جگہ پہنچ گیا ہے، جہاں ظاہری شریعت سے بے پرواہ ہو کر وہ کام کرتا ہے، اور وہ حقیقی شرع ہے، الغرض قرآن کے اس حصہ سے بظاہر طریقت اور پیری مریدی کو بڑی تقویت پہنچتی ہے کہیے کیا یہ قصہ بھی محل نظر ہے لیکن قصہ تو محل نظر ہو نہیں سکتا، اس لیے کہ قرآن میں اور معیار بھی صحیح ہے، لہٰذا سوائے تاویل کے اور کوئی چارہ کار نہیں، اسی طرح کوئی بات اگر بفرض محال حدیث میں آجائے تو اس کی بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں تاویل کرلینی چاہیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
(۱۹) برق صاحب کا مجوزہ انیسواں معیار

صرف کلمہ پڑھنے پر زانی کو جنت میں بھیجنا​
برق صاحب کا مطلب یہ ہے کہ جس حدیث میں یہ ہو کہ صرف کلمہ پڑھنے سے جنت مل جائے گی، خواہ کلمہ پڑھنے والا زانی ہی کیوں نہ ہو، تو وہ حدیث موضوع ہے، برق صاحب حدیث تو ایسی کوئی نہیں، جس کا یہ مطلب ہو، آپ کو غلط فہمی ہوگئی، اور آپ کی اس غلط فہمی کا جواب بارھویں باب میں تفصیل سے دیا جاچکا ہے، اب سنیے، قرآن تو صرف '' ربنا اللہ'' کہنے پر جنت کی خوشخبری دیتا ہے۔
{ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ } (سجدہ)
بے شک جن لوگوں نے کہا '' ربنا اللہ'' اور پھر اس پر جمے رہے، تو ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں، جو کہتے ہیں، نہ ڈرو نہ غم کھاؤ اور جنت کی بشارت سنو۔
کیونکہ اس معیار پر قرآن کی آیت بھی پوری نہیں اترتی، لہٰذا یہ معیار ہی باطل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
(۲۰) برق صاحب کا مجوزہ بیسواں معیار

سورج کو شیطان کے سینگوں میں پھنسانا​
حدیث کا یہ مطلب تو نہیں کہ سورج شیطان کے سینگوں میں پھنس جاتا ہے، جس حدیث کی طرف برق صاحب کا اشارہ ہے، اس کا جواب انیسویں باب میں دیا جاچکا ہے، اب قرآن کی آیت سنیے:
{ تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَۃٍ } (الکھف)
سورج کیچڑ کے چشمہ میں ڈوبتا ہے۔
فرمائیے ، جو آیت سورج کو کیچڑ کے چشمہ میں ڈبوتی ہے وہ صحیح ہے یا نہیں، اگر صحیح ہے اور ضرور صحیح ہے، تو پھر یہ معیار ہی باطل ہے، قرآن و حدیث کے ظاہری معنوں پر ایمان لانا چاہیے اگر ان کی حقیقت تک ہم نہیں پہنچ سکتے تو خاموش ہو جانا چاہیے نہ کہ اعتراض کرنا چاہیے۔
 
Top