• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(۲۱) برق صاحب کا مجوزہ اکیسواں معیار

مشکل اسلام کو چھوڑ کر آسان اسلام کی دعوت دینا​
برق صاحب کا مطلب یہ ہے کہ جس حدیث میں یہ مذکور ہو کہ بغیر محنت و مشقت کے جنت مل جائے گی، تو وہ حدیث موضوع ہوگی، غالباً ان کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کوئی مسلمان تکالیف برداشت نہ کرے، صدمے نہ سہے وہ حقیقتاً مسلمان ہی نہیں، حالانکہ بات در حقیقت یہ نہیں ہے ، آسان اسلام تو خود اللہ تعالیٰ پیش کرتا ہے، سنیے:
{ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الد،ّیْنِ مِنْ حَرَجٍ } (الحج)
اللہ تعالیٰ نے دین کے معاملہ میں تم پر کوئی مشکل نہیں ڈالی۔
{ یُرِیْدُ اللہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ } (البقرۃ)
اللہ تم پر آسانیوں کا ارادہ کرتا ہے اور تم پر مشکلات ڈالنا نہیں چاہتا۔
{ لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَا } (البقرۃ)
اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں ڈالتا۔
{ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلَالَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ } (الاعراف)
اللہ کا رسول لوگوں سے ان کے بوجھ اتار کر الگ رکھ دیتا ہے اور مشکلات کی بیڑیوں کو توڑ کر پھینک دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تعلیم دیتا ہے کہ اس طرح دعا مانگو۔
{ رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ } (البقرۃ)
اے ہمارے رب ہم پر ایسے بھاری احکام نافذ مت فرما، جو تو نے ہم سے پیشتر لوگوں پر نافذ فرمائے تھے، اور ایسے احکام بھی نافذ نہ فرما، جن کی تعمیل کی ہم میں طاقت نہیں۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ قرآن آسان اسلام کی دعوت دیتا ہے، لہٰذا اس معیار پر قرآن بھی پورا نہیں اترتا، پس دونوں میں سے ایک چیز صحیح ہے اور ایک چیز غلط ہے، یعنی یا تو قرآن صحیح ہے یا معیار، اور قرآن قطعی الصحت ہے، لہٰذا یہ معیار باطل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
دوسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں احکام بہت مجمل ہیں، نماز کے نہ اوقات ہیں، نہ شرائط، نہ رکعات کی تعداد، نہ ان کی ہیئت، احادیث میں جو جو باتیں مذکور ہیں، ان کی وجہ سے نماز ایک باقاعدہ اور منظم عبادت بن جاتی ہے، صرف قرآن کی رو سے تو نماز کو آسان بنانے والا آسان بنا سکتا ہے، لیکن حدیث ایسا کرنے سے روکتی ہے، یعنی وہ نماز کو مشکل بنا دیتی ہے پھر سود کے احکام اور مختلف صورتیں، خرید و فروخت کے مفصل احکام وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب مشکلیں ہیں جو احادیث میں ملتی ہیں، پھر جہاد کے متعلق مختلف ہدایات اور پابندیاں یہ بھی احادیث میں ملتی ہیں، احادیث میں ناچ گانے ، فنون لطیفہ اور لغو کھیلوں کی ممانعت ملتی ہے، غرض یہ کہ احادیث کی وجہ سے کچھ مشکلات بڑھ ہی جاتی ہیں، لہٰذا احادیث کا پیش کیا ہوا اسلام قرآن کے اسلام سے کچھ زیادہ ہی مشکل ہے، اس لحاظ سے اس معیار کی زد احادیث سے زیادہ قرآن پر پڑتی ہے لہٰذا یہ معیار باطل ہے۔
خلاصہ
یہ کل اکیس معیار تھے جو برق صاحب نے پیش کئے ہیں اور ان میں سے کسی معیار پر قرآن بھی پورا نہیں اترتا، لہٰذا تمام معیار لغو اور باطل ہیں۔
احادیث کو پرکھنے کے لیے یہ معیار آخری سند نہیں ہوسکتے، صادق، حافظ، ضابطہ اشخاص کا بیان تسلیم کرنا ہی پڑے گا، خواہ ہمارے فہم میں آئے یا نہ آئے۔ احادیث کی اصل کسوٹی یہی ہے کہ بیان کرنے والا صدق، حفظ، ضبط کے اوصاف سے متصف ہو ، اور اگر کسی راوی میں یہ اوصاف نہ پائے جائیں تو پھر ان معیاروں پر بھی غور ہوسکتا ہے، ورنہ نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
معیار زائد

برق صاحب نے ایک معیار چھوڑ دیا، اور وہ ہے ''اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف بات بیان کرنا'' یہ بات احادیث میں تو غالباً نہیں ملتی، لیکن قرآن میں ضرور مل جاتی ہے، مثلاً:
{ اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ } (الاحزاب)
جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں، ان پر اللہ کی لعنت ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
اس آیت میں اللہ کو تکلیف پہنچنا مذکور ہے، تو کیا یہ آیت اللہ کی شان کے خلاف ہے؟
{ اَللہُ یَسْتَھْزِیُٔ بِھِمْ } (البقرۃ)
اللہ ان سے مذاق کرتا ہے۔
{ قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِکم } (اٰل عمران)
کہہ دیجئے کہ اپنے غصہ میں مر جاؤ۔
یہ طنز ہے یا بدی کا حکم؟
{ وَمَنْ یُضْلِلِ اللہُ فَلَنْ تَجِدَلَہٗ سَبِیْلاً } (النساء)
اور جس کو اللہ گمراہ کرے، اس کے لیے تمہیں ہرگز راستہ نہیں ملے گا۔
{ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَرَضٌ فَزَادَھُمْ اللہُ مَرَضًا } (البقرۃ)
ان کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے اللہ نے بیماری اور زیادہ کردی۔
{ خَتَمَ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ } (البقرۃ)
اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔
{ بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوْطَتنِ } (النساء)
بلکہ اللہ کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں۔
{ وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللہَ رَمٰی } (الانفال)
اور جب آپ نے مٹی پھینکی تھی، تو آپ نے نہیں پھینکی تھی، بلکہ اللہ نے پھینکی تھی۔
اس آیت سے لوگ حلول کا مسئلہ نکالتے ہیں، بلکہ رسول کو خدا بنا دیتے ہیں۔
{ کَذٰلِکَ کِدْنَا لِیُوْسُفَ } (یوسف)
یہ کید ہم نے یوسف کے لیے کیا تھا۔
{ وَ مَا یَاْتِیْھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِءُ ْنَ ۔ کَذٰلِکَ نَسْلُکُہٗ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَ } (حجر)
اور جب کوئی رسول آتا ہے تو لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں، اور یہ چیز ہم ہی گنہگاروں کے دل میں ڈال دیتے ہیں۔
{ لَعَمْرُکَ اِنَّھُمْ لَفِیْ سَکْرَنِھِمْ یَعْمَھُوْنَ } (الحجر)
تیری جان کی قسم! وہ اپنے نشہ میں بہک رہے تھے۔
{ تِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ کَانَ تَقِیًّا ۔ وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّکَ } (مریم)
یہ جنت ہم اپنے متقی بندوں کو دیتے ہیں اور ہم نازل نہیں ہوتے مگر تیرے رب کے حکم سے۔ اگر ظاہر مطلب کیا جائے!
اللہ تعالی کس کے حکم سے نازل ہوتے ہیں؟
{ اَلَمْ تَرَاَنَّا اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَی الْکَافِرِیْنَ تَؤُزُّھُمْ اَزًّا } (مریم)
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ کافروں پر شیاطین کو ہم نے بھیجا ہے، یہ شیاطین ان کو کفر پر ابھارتے رہتے ہیں۔
{ لَوْ اَرَدُنَا اَنْ نَتَّخِذَ لَھْوًا لَا تَّخَذْنٰہُ مِنْ لَّدُنَا } (الانبیاء)
اور اگر ہم چاہتے کہ کوئی کھلونا بنائیں، تو اپنے پاس ہی بناتے۔
کیا اللہ کے لیے بھی قرب و بعد کا سوال پیدا ہوتا ہے؟ کیا یہ دنیا اللہ سے دور ہے؟
{ وَمَنْ یُضْلِلِ اللہُ فَلَا ھَادِیَ لَہٗ } (الاعراف)
اور جس کو اللہ گمراہ کردے، اس کو ہدایت دینے والا کوئی نہیں۔
{ وَاَرُسَلْنَاہُ اِلٰی مَائَۃِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَ } (الصافات)
اور ہم نے ان کو ایک لاکھ یا اس سے کچھ زیادہ کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔
کیا اللہ تعالیٰ کو صحیح تعداد معلوم نہیں۔
{ وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِہٖ وَلَا تَحْنَثْ } (ص)
اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لو، اور اس سے مارو، اور قسم مت توڑو۔
سو کوڑے مارنے کی قسم کو اس طرح پورا کیا جا رہا ہے۔
{ اَنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ } (تکویر)
یہ قرآن رسول کریم کا قول ہے۔
اور ہم قرآن کو کلام اللہ سمجھے ہیں کیا ہم حق پر ہیں؟
{ عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًا ۔ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ یَسْلُکُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا } (الجن)
اللہ عالم الغیب ہے، وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا، مگر اس کام کے لیے رسول کو منتخب کرلیتا ہے، پھر اس کے آگے پیچھے چوکیدار مقرر کردیتا ہے۔
کیا اللہ کو بھی چوکیدار کی ضرورت ہے؟
{ وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَآ اَنْ یُّرْھِقَھُمَا طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا } (الکھف)
اور وہ لڑکا اس لیے قتل کیا گیا کہ اس کے ماں باپ مومن تھے، ہم ڈرے کہ کہیں وہ ان دونوں کو سرکشی اور کفر میں مبتلا نہ کردے۔
یہ ڈرنے والا کون ہے؟
یہ ہیں چند آیات جو نمونہ پیش کردی گئی ہیں، ظاہر معنوں کے لحاظ سے تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں، کہ یہ آیات قرآن میں نہیں ہوسکتیں، کیونکہ یہ اللہ کی شان اقدس کے خلاف ہیں، لیکن ہیں یہ قرآن ہی کی آیتیں، اور ان پر ہمارا ایمان ہے، اب اگر تاویل کرکے ان کو اعتراض سے بچایا جاسکتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اسی قسم بلکہ اس سے کم اعتراض والی احادیث کے ساتھ یہ رویہ کیوں نہیں اختیار کیا جاتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
معیار مزید

برق صاحب چاہتے، تو ایک معیار کا اور اضافہ کردیتے، وہ یہ کہ اگر کوئی حدیث کسی جاہلیت کی رسم کی سرپرستی کرتی ہو، تو وہ بھی موضوع ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ اس معیار کے لیے قرآن ہی سد راہ ہے، قرآن میں ہے:
{فَلَمَّا جَآءَہَا نُوْدِیَ اَنْ بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَہَا وَسُبْحٰنَ اللہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ یٰمُوْسٰٓی اِنَّہٗٓ اَنَا اللہُ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ} (النمل)
جب موسیٰ علیہ السلام اس آگ کے پاس آئے تو آواز آئی کہ جو ہستی آگ میں ہے، وہ برکت والی ہے اور جو اس کے آس پاس ہے، وہ بھی برکت والا ہے، پاک ہے وہ اللہ جو رب العالمین ہے، اے موسیٰ وہ ہستی میں ہوں، زبردست اور حکمت والا۔
کیا ان آیات سے آتش پرستی کو تقویت نہیں پہنچتی؟
{ فَلَمَّآ اَتٰھَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِیِٔ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَۃِ الْمُبٰرَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ اَنْ یّٰمُوْسٰٓی اِنِّیْٓ اَنَا اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ } (قصس)
پھر جب موسیٰ علیہ السلام اس آگ کے پاس پہنچے تو وادی ایمن کے کنارے مبارک مقام میں ایک درخت سے آواز آئی کہ اے موسیٰ میں اللہ ہوں رب العالمین۔
اگر کسی تاویل سے ان آیات پر ایمان ہے، تو پھر بہت ہی کم اعتراض والی احادیث پر ایمان کیوں نہ لایا جائے، بظاہر یہ آیات قابل اعتراض نظر آتی ہیں، لیکن حقیقت میں اعتراض سے بالکل پاک ہیں، اسی طرح بعض احادیث بظاہر قابل اعتراض معلوم ہوتی ہیں، لیکن حقیقت میں وہ بھی اعتراض سے بالکل پاک ہوتی ہیں، غرض یہ کہ یہ تمام معیار باطل ہیں، معتبر آدمی کی بات قابل تسلیم ہونی چاہیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سب سے بڑا معیار

احادیث کو پرکھنے کا سب سے بڑا معیار یہ بتایا جاتا ہے کہ قرآن کی کسی آیت کے خلاف نہ ہو، کسی قرآنی آیت سے متعارض نہ ہو، واقعی بظاہر تو یہ بڑا زبردست معیار ہے، اور بہت ہی خوشنما اور دیدہ زیب معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے، تو یہ بھی بالکل قابل وقعت نہیں ہے، کچھ بحث تو اس پر معیار اول کے ضمن میں گزر چکی ہے، لیکن اس معیار کی اہمیت کے پیش نظر اس پر کچھ مزید تحریر کر رہا ہوں، سوال یہ ہے کہ اگر کوئی حدیث کسی قرآنی آیت کے خلاف ہو، تو وہ موضوع ہے، تو کیا اگر کوئی قرآنی آیت کسی دوسری آیت کے خلاف ہو، تو کیا وہ بھی موضوع ہے یا نہیں؟ اگر وہ آیت موضوع نہیں، تو حدیث کیوں؟ آپ کہیں گے ایسی تو کوئی بھی آیت نہیں، جو دوسری آیت کے خلاف ہو، میں کہتا ہوں، ایسی بہت سی آیات ہیں، ملاحظہ فرمائیے:
{ تَنْزِیْلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ } (الحاقہ)
یہ قرآن رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے۔
{ اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ } (التکویر)
یہ رسول کریم کا قول ہے۔
ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، دوسری سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہے، یا کسی فرشتہ کا۔
{ فَلَمَّا جَآءَہَا نُوْدِیَ اَنْ بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَہَا وَسُبْحٰنَ اللہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ یٰمُوْسٰٓی اِنَّہٗٓ اَنَا اللہُ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ} (النمل)
پس جب موسیٰ علیہ السلام آگ کے پاس پہنچے تو آواز آئی کہ جو ہستی آگ میں ہے وہ برکت والی ہے اور جو آگ کے اطراف میں ہے وہ بھی اور اللہ رب العالمین پاک ہے، اے موسیٰ وہ ہستی میں ہوں اللہ زبردست حکمت والا۔
{ فَلَمَّآ اَتٰھَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِیِٔ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَۃِ الْمُبٰرَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ اَنْ یّٰمُوْسٰٓی اِنِّیْٓ اَنَا اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ } (القصص)
پس جب حضرت موسیٰ علیہ السلام آگ کے پاس پہنچے تو وادی ایمن کے کنارے مبارک مقام میں ایک درخت سے آواز آئی کہ اے موسیٰ میں اللہ رب العالمین ہوں۔
پہلی آیت میں ہے کہ آگے سے آواز آئی، دوسری میں ہے کہ درخت سے آواز آئی۔
{ وَاِذْ وَاعَدْنَا مُوْسٰی اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً } (البقرۃ)
اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا وعدہ لیا۔
{ وَوَاعَدْنَا مُوْسٰی ثَلَاثِیْنَ لَیْلَۃ } (الاعراف)
اور ہم نے موسیٰ سے تیس رات کا وعدہ لیا۔
پہلی میں چالیس رات اور دوسری میں تیس رات
{ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللہِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ } (بقرۃ)
یہ لوگ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اور نبیوں کونا حق قتل کرتے تھے۔
{ کَتَبَ اللہُ لَا غْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ }
اللہ نے فیصلہ کردیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے۔
پہلی آیت میں رسول کے مغلوب اور مقتول ہونے کا ذکر ہے اور دوسری میں رسول کے غالب رہنے کی بشارت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
{ کُلُّ الطَّعَامِ کَانَ حِلًّا لِّبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَآءِ یْلُ عَلٰی نَفْسِہٖ } (اٰل عمران)
ہر طعام بنی اسرائیل کے لیے حلال تھا، سوائے اس کے جو حضرت یعقوب نے اپنے لیے خود حرام کرلیا۔
{ یَا اَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللہُ لَکَ } (التحریم)
اے نبی تم اس چیز کو کس طرح حرام کرسکتے ہو، جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے حلال کردیا ہے۔
پہلی آیت میں نبی کو حرام کرنے کی اجازت اور دوسری میں ممانعت۔
{ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ کُلَّہٗ لِلہِ } (اٰل عمران)
کہہ دیجئے کہ تمام کام اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔
{ اَوَ لَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْھَا قُلْتُمْ اَنّٰی ھٰذَا قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ} (اٰل عمران)
جب تم کو مصیبت پہنچی جس سے دگنی تم انہیں پہنچا چکے تھے، تو تم نے کہا یہ کیوں؟ کہہ دیجئے کہ یہ مصیبت تمہاری ہی طرف سے ہے۔
پہلی آیت میں مصیبت اللہ کی طرف سے اور دوسری میں انسانوں کی طرف سے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
{ وَ الّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآئِکُمْ فَاسْتَشْھِدُوْا عَلَیْھِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ فَاِنْ شَھِدُوْا فَاَمْسِکُوْھُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰھُنَّ الْمَوْتُ} (النساء)
جو عورتیں بے حیائی کا کام کر گزریں تو چار گواہوں کی گواہی کے بعد ان کو موت تک قید میں رکھو۔
{ اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِا ئَۃَ جَلْدَۃٍ } (النور)
زانیہ اور زانی کو سو سو کوڑے مارو۔
پہلی آیت میں سزا قید اور دوسری میں سزا سو کوڑے، نیز پہلی آیت میں مرد کی کوئی سزا نہیں اور دوسری میں مرد کو بھی سو کوڑے۔
{ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً } (النساء)
اگر تم کو نا انصافی کا خوف ہو، تو ایک ہی عورت سے نکاح کرو۔
{ وَ لَنْ تَسْتَطِیْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآءِ وَ لَوْ حَرَصْتُمْ } (النساء)
اور تم ہرگز بیویوں میں انصاف نہیں کرسکتے، اگرچہ تم کو اس کی حرص ہی کیوں نہ ہو۔
پہلی آیت میں نا انصافی کی ممانعت اور دوسری میں نا انصافی کی اجازت کیونکہ انصاف ناممکن العمل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
{ ھَُوَ الَّذِیْ اَنْشَاکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ } (الانعام)
اس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ہے۔
{ اِنَّا خَلَقْنَا کُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَاُنْثٰی } (الحجرات)
ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔
پہلی آیت میں ایک جان سے پیدا کیا ہے اور دوسری میں دو جانوں سے پیدا کیا۔
{ فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْھِمْ } (الاعراف)
ہم ضرور ان لوگوں سے سوال کریں گے جن کے پاس رسول بھیجے گئے ہیں۔
{ وَ لَا یُسْئَلُ عَنْ ذُنُوْبِھِمُ الْمُجْرِمُوْنَ } (القصص)
اور مجرمین سے ان کے گناہ کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا۔
پہلی آیت میں ہے کہ سوال ہوگا اور دوسری میں ہے کہ سوال نہیں ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
{ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌ۔ یُّرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ } (الاعراف)
قوم فرعون کے سرداروں نے کہا یہ بڑا جادوگر ہے، یہ چاہتا ہے کہ تم کو تمہارے ملک سے نکال دے۔
{ قَالُوْٓا اِنْ ھٰذٰنِ لَسٰحِرٰنِ یُرِیْدٰنِ اَنْ یُّخْرِجٰکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ } (طہ)
انہوں نے کہا کہ یہ دونوں جادوگر ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ تم کو تمہارے ملک سے نکال دیں۔
{ قَالَ لِلْمَلَاِِ حَوْلَہٗٓ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌ یُرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ } (الشعراء)
فرعون نے سرداروں سے کہا کہ یہ بڑا جادوگر ہے، یہ چاہتا ہے کہ تم کو تمہارے ملک سے نکال دے۔
پہلی آیت میں ہے کہ یہ تم کو نکال دے، دوسری میں ہے کہ یہ دونوں تم کو نکال دیں، ایک میں واحد دوسری میں تثنیہ۔
پہلی آیت میں ہے کہ سرداروں نے یہ بات کہی تھی اور تیسری میں ہے کہ خود فرعون نے سرداروں سے یہ بات کہی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
{ قَالَ فِرْعَوْنَ یَا اَیُّھَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِنْ اٰلِہٍ غَیْرِیْ } (القصص)
فرعون نے کہا اے سردارو میں نہیں جانتا کہ میرے سوا بھی تمہارا کوئی معبود ہے۔
{ وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰی وَ قَوْمَہٗ لِیُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ یَذَرَکَ وَ اٰلِھَتَک } (الاعراف)
سرداروں نے کہا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑ دے گا کہ وہ ملک میں فساد برپا کریں اور تجھ کو اور تیرے معبود کو چھوڑ دیں۔
پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کسی کو الٰہ نہیں مانتا تھا، دوسری میں ہے کہ اس کا بھی کوئی معبود تھا۔
{ قُلْ لَنْ یُّصِیْبَنَا اِلاَّ مَا کَتَبَ اللہُ لَنَا } (التوبۃ)
آپ کہہ دیجئے کہ ہم کو کوئی مصیبت ہرگز نہیں پہنچ سکتی، مگر وہی جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے۔
{ وَمَا اَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ }
اور جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے، وہ تمہارے ہی اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔
پہلی آیت میں تقدیر ہی سب کچھ ہے اور دوسری میں تدبیر ہی سب کچھ ہے۔
 
Top