معیار زائد
برق صاحب نے ایک معیار چھوڑ دیا، اور وہ ہے ''اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف بات بیان کرنا'' یہ بات احادیث میں تو غالباً نہیں ملتی، لیکن قرآن میں ضرور مل جاتی ہے، مثلاً:
{ اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ } (الاحزاب)
جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں، ان پر اللہ کی لعنت ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
اس آیت میں اللہ کو تکلیف پہنچنا مذکور ہے، تو کیا یہ آیت اللہ کی شان کے خلاف ہے؟
{ اَللہُ یَسْتَھْزِیُٔ بِھِمْ } (البقرۃ)
اللہ ان سے مذاق کرتا ہے۔
{ قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِکم } (اٰل عمران)
کہہ دیجئے کہ اپنے غصہ میں مر جاؤ۔
یہ طنز ہے یا بدی کا حکم؟
{ وَمَنْ یُضْلِلِ اللہُ فَلَنْ تَجِدَلَہٗ سَبِیْلاً } (النساء)
اور جس کو اللہ گمراہ کرے، اس کے لیے تمہیں ہرگز راستہ نہیں ملے گا۔
{ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَرَضٌ فَزَادَھُمْ اللہُ مَرَضًا } (البقرۃ)
ان کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے اللہ نے بیماری اور زیادہ کردی۔
{ خَتَمَ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ } (البقرۃ)
اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔
{ بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوْطَتنِ } (النساء)
بلکہ اللہ کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں۔
{ وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللہَ رَمٰی } (الانفال)
اور جب آپ نے مٹی پھینکی تھی، تو آپ نے نہیں پھینکی تھی، بلکہ اللہ نے پھینکی تھی۔
اس آیت سے لوگ حلول کا مسئلہ نکالتے ہیں، بلکہ رسول کو خدا بنا دیتے ہیں۔
{ کَذٰلِکَ کِدْنَا لِیُوْسُفَ } (یوسف)
یہ کید ہم نے یوسف کے لیے کیا تھا۔
{ وَ مَا یَاْتِیْھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِءُ ْنَ ۔ کَذٰلِکَ نَسْلُکُہٗ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَ } (حجر)
اور جب کوئی رسول آتا ہے تو لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں، اور یہ چیز ہم ہی گنہگاروں کے دل میں ڈال دیتے ہیں۔
{ لَعَمْرُکَ اِنَّھُمْ لَفِیْ سَکْرَنِھِمْ یَعْمَھُوْنَ } (الحجر)
تیری جان کی قسم! وہ اپنے نشہ میں بہک رہے تھے۔
{ تِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ کَانَ تَقِیًّا ۔ وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّکَ } (مریم)
یہ جنت ہم اپنے متقی بندوں کو دیتے ہیں اور ہم نازل نہیں ہوتے مگر تیرے رب کے حکم سے۔ اگر ظاہر مطلب کیا جائے!
اللہ تعالی کس کے حکم سے نازل ہوتے ہیں؟
{ اَلَمْ تَرَاَنَّا اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَی الْکَافِرِیْنَ تَؤُزُّھُمْ اَزًّا } (مریم)
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ کافروں پر شیاطین کو ہم نے بھیجا ہے، یہ شیاطین ان کو کفر پر ابھارتے رہتے ہیں۔
{ لَوْ اَرَدُنَا اَنْ نَتَّخِذَ لَھْوًا لَا تَّخَذْنٰہُ مِنْ لَّدُنَا } (الانبیاء)
اور اگر ہم چاہتے کہ کوئی کھلونا بنائیں، تو اپنے پاس ہی بناتے۔
کیا اللہ کے لیے بھی قرب و بعد کا سوال پیدا ہوتا ہے؟ کیا یہ دنیا اللہ سے دور ہے؟
{ وَمَنْ یُضْلِلِ اللہُ فَلَا ھَادِیَ لَہٗ } (الاعراف)
اور جس کو اللہ گمراہ کردے، اس کو ہدایت دینے والا کوئی نہیں۔
{ وَاَرُسَلْنَاہُ اِلٰی مَائَۃِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَ } (الصافات)
اور ہم نے ان کو ایک لاکھ یا اس سے کچھ زیادہ کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔
کیا اللہ تعالیٰ کو صحیح تعداد معلوم نہیں۔
{ وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِہٖ وَلَا تَحْنَثْ } (ص)
اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لو، اور اس سے مارو، اور قسم مت توڑو۔
سو کوڑے مارنے کی قسم کو اس طرح پورا کیا جا رہا ہے۔
{ اَنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ } (تکویر)
یہ قرآن رسول کریم کا قول ہے۔
اور ہم قرآن کو کلام اللہ سمجھے ہیں کیا ہم حق پر ہیں؟
{ عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًا ۔ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ یَسْلُکُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا } (الجن)
اللہ عالم الغیب ہے، وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا، مگر اس کام کے لیے رسول کو منتخب کرلیتا ہے، پھر اس کے آگے پیچھے چوکیدار مقرر کردیتا ہے۔
کیا اللہ کو بھی چوکیدار کی ضرورت ہے؟
{ وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَآ اَنْ یُّرْھِقَھُمَا طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا } (الکھف)
اور وہ لڑکا اس لیے قتل کیا گیا کہ اس کے ماں باپ مومن تھے، ہم ڈرے کہ کہیں وہ ان دونوں کو سرکشی اور کفر میں مبتلا نہ کردے۔
یہ ڈرنے والا کون ہے؟
یہ ہیں چند آیات جو نمونہ پیش کردی گئی ہیں، ظاہر معنوں کے لحاظ سے تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں، کہ یہ آیات قرآن میں نہیں ہوسکتیں، کیونکہ یہ اللہ کی شان اقدس کے خلاف ہیں، لیکن ہیں یہ قرآن ہی کی آیتیں، اور ان پر ہمارا ایمان ہے، اب اگر تاویل کرکے ان کو اعتراض سے بچایا جاسکتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اسی قسم بلکہ اس سے کم اعتراض والی احادیث کے ساتھ یہ رویہ کیوں نہیں اختیار کیا جاتا۔