• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اس کے آگے برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
'' ایک واقعہ کو پچاس آدمی دیکھتے ہیں اگر آپ ان کے پاس علیحدہ علیحدہ جا کر اس واقعہ کی تفصیل قلمبند کریں تو آپ کو ان تفاصیل میں کافی اختلافات نظر آئیں گے۔'' (دو اسلام ص ۳۹)
جواب
بات یہاں یہ نہیں ہے جو برق صاحب نے لکھی ہے یہاں تو یہ بات ہے کہ حدیث کو پچاس آدمی سنتے ہیں، اور پچاس کے پچاس ایک ہی مفہوم روایت کرتے ہیں اور اگر بالفرض محال ایک دو آدمی غلطی کر بھی جائیں تو اکثریت کے مقابلہ میں ان کی بات قابل رو ہوگی۔
غلط فہمی
پھر برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
'' اگر چھ ماہ یا سال بھر بعد انہی لوگوں کے پاس جا کر اسی واقعہ کی تفصیل دوبارہ قلم بند کریں تو اختلافات اور نمایاں ہوگا۔'' (دو اسلام ص ۴۰)
جواب
حدیث کے سلسلہ میں یہ بات بھی صحیح نہیں۔ اس کی آزمائش بھی ہوچکی ہے سال سال بھر بعد ان سے بغیر انکے علم کے ان کی بیان کردہ احادیث کو دہرا دیا گیا۔ اور سر موفرق نہیں آیا۔ برق صاحب علم حدیث کا مطالعہ کیجئے محدثین کے حالات کو غور سے پڑھیے، پھر برق صاحب احادیث کو واقعات سے تشبیہ دینا بھی تو صحیح نہیں ، احادیث مسائل ہیں اور مسائل کا یاد کرلینا، اور ان کے بیان پر متفق ہونا کوئی مشکل نہیں، اگر کسی حدیث میں کوئی واقعہ بھی مذکور ہو، تو واقعہ اصل چیز نہ ہوگی، بلکہ وہ مسئلہ جو اس واقعہ کے اختتام پر بصورت حدیث واقع ہوگا، اصل چیز ہوگی، اور صرف اس مسئلہ کی حفاظت کافی ہوگی نہ کہ پورے واقعہ کی واقعہ کی نوعیت بالکل شان نزول کی سی ہوگی جس طرح شان نزول کی عدم حفاظت سے آیات قرآنی مشکوک نہیں ہوتیں، اسی طرح اگر کسی واقعہ کی تفصیل پوری طرح محفوظ نہ ہو، تو اصل مسئلہ مشکوک نہ ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
پھر برق صاحب فرماتے ہیں:
'' مرد و زمانہ کے ساتھ ساتھ یہ تفاصیل یوں بدلتی جائیں گی کہ ان کا تعلق حقیقت سے بالکل منقطع ہو جائے گا۔'' (دو اسلام ص ۴۰)
جواب
حدیث کے سلسلہ میں یہ بھی غلط ہے صحابہ کرام اور بعد کے محدثین نے احادیث قلم بند کرلی تھیں۔ ان پر عمل کرتے تھے۔ مذاکرہ کرتے تھے درس و تدریس جاری تھا۔ لہٰذا تفصیل کا بدلنا ناممکن ہے، اور اگر بالفرض محال بدل بھی جائے تو وہ مضطرب المتن کہلائیں گی اور ضعیف سمجھی جائیں گی لیکن اس ضعیف کی وجہ سے جو صحیح ہوں گی، ان پر اس ضعف کا کیا اثر پڑے گا، ضعیف کو رد کیا جائے گا نہ کہ صحیح کو برق صاحب پھر گزارش کرتا ہوں کہ فنون حدیث کا گہرا مطالعہ کیجئے گا، جب کوئی حدیث محدثین کے نزدیک صحیح ہوتی ہے تو وہ ان تمام مشکوک سے بالاتر ہوتی ہے جو آپ وارد کر رہے ہیں، بلکہ ان سے بہت زیادہ معیاروں اور مزعونہ شکوک کو عبور کرتی ہوئی درجہ صحت پہنچتی ہے۔
مزید غلط فہمی اور اس کا ازالہ
پھر برق صاحب نے مسٹر محمد علی جناح کی تقاریر کی مثال دی ہے یہ مثال بھی صحیح نہیں ، اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور ایک لیڈر کے اقوال میں زمین و آسمان کا فرق ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایک لفظ بیش قیمت قانون اور شریعت اسلامیہ کا ماخذ ہے، علم و عمل کا سرمایہ اور توشہ آخرت ہے، لیڈر کے اقوال کو یہ اہمیت حاصل نہیں، پھر کہاں تین تین گھنٹہ کی تقریر اور کہاں معلم کتاب و حکمت، مزکی و مدثر کی تعلیم، درس و تدریس، دونوں میں بعد المشرقین ہے، نبی کی بات اس لیے سنی جاتی ہے کہ یاد رکھی جائے، عمل کیا جائے، عمل کرایا جائے، لیڈر کی بات کو محض دماغی عیاشی کے لیے سناجاتا ہے اور الا ماشاء اللہ کوئی اس سے فیض حاصل نہیں کرتا، نہ وہ حفظ رکھنے کی کوشش کرتا ہے، پھر نبی کی مجلس ایک تربیت گاہ ہوتی ہے، جہاں صبح و شام بلکہ ہر وقت ہر شخص کے اعمال و اقوال پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے، اس کو مبلغ بنایا جاتا ہے اور دیگر مقامات پر بھی بھیجا جاتا ہے، لیڈر کی تقریر میں لفاظی اور سحر بیانی ہوتی ہے، وہ جذبات سے کھیلتا ہوا کچھ کا کچھ کہتا چلا جاتا ہے، اس کے بعض بیان اور بعض مفروضے بالکل سیاسی حربے ہوتے ہیں، برخلاف اس کے نبی کی ہر بات حقائق پر مبنی ہوتی ہے، وہاں نہ لفاظی ہوتی ہے نہ سحر بیانی، وہ جستہ اور جامع فقرے استعمال کرتا ہے، جو قلوب میں پیوست ہو جاتے ہیں اور جوارح سے عمل کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں، بھلا کہاں لیڈر اور کہاں نبی، برق صاحب کچھ تو غور کرکے لکھا ہوتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
پھر برق صاحب لکھتے ہیں کہ :
'' عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں عراق کا قرآن حجاز سے مختلف ہوگیا تھا... عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا علاج یہ کیا کہ قرآن کے کافی نسخے لکھوا کر قلمرو کے مختلف حصوں میں بھیج دئیے۔'' (دو اسلام ص ۴۰)
جواب
اس واقعہ کی نسبت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف صحیح نہیں، بخاری میں ہے کہ یہ واقعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں پیش آیا تھا، حضرت انس رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں '' افزع حذیفۃ اختلافھم فی القرأۃ'' یعنی حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو لوگوں کے قرأت میں اختلاف کرنے سے اندیشہ ہوا۔ پھر حضرت انس فرماتے ہیں '' ان حذیفہ بن الیمان قدم علی عثمان'' یعنی حضرت حذیفہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور اس اندیشہ کا اظہار کیا، انہوں نے حضرت حفصہ کے پاس سے قرآن شریف منگوایا اور نقلیں کرا کے مختلف ممالک کو روانہ فرمائیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا۔ '' اکتبوہ بلسان قریش'' یعنی قرآن کو قریش کی زبان میں لکھا جائے غرض یہ کہ اختلافِ لب و لہجہ اور اس کی وجہ سے بعض مقامات پر اسم الخط میں اختلاف کا جو اندیشہ تھا اس کا سدباب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نہیں کیا تھا، بلکہ حضرت عثمان نے کیا تھا۔
اسی سلسلہ میں برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
غلط فہمی
'' صحابہ کرام عشق خدا میں ڈوبے ہوئے تھے ... اگر ان عاشقان خدا کو قرآن کی آیات بھول گئی تھیں تو حدیث کے بھولنے پر انہیں کون ملامت کرسکتا تھا۔'' (دو اسلام ص ۴۱)
جواب
صحابہ رضی اللہ عنہم کا قرآن کی آیات بھلا دنیا خلاف واقعہ ہے اور صحیح نہیں معلوم نہیں برق صاحب کس حوالہ سے ایسا لکھ رہے ہیں، اختلاف لب و لہجہ اور چیز ہے اور بھلا دنیا اور چیز ہے پھر روایت زیر بحث میں جو اختلاف مذکور ہے، وہ صحابہ کے متعلق نہیں ہے، بلکہ عام لوگوں کا اختلاف مراد ہے، برق صاحب کو غلط فہمی ہوگئی، صحابہ نہ آیات بھولے نہ احادیث، اگر انفرادی طور پر بھول ہو بھی جائے، تو اکثریت کے مقابلہ میں اس کی کوئی حقیقت نہیں، احادیث کے سلسلہ میں انفرادی بھول کا تدارک کرلیا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اس کے بعد برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
'' حضور کا مقصد بھی یہی تھا کہ قرآن حکیم کے بغیر کوئی اور کتاب ہدایت باقی نہ رہے۔'' (دو اسلام ۴۱)
جواب
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تو یہ مقصد نہیں تھا، نہ اس کا آپ نے کوئی ثبوت دیا، بلکہ اس کے خلاف ثبوت ملتا ہے، سنیے:
(۱) عن ابن عباس قال قال رسول اللہ ﷺ فی خطبۃ حجۃ الوداع ... ایھا الناس انی قد ترکت فیکم ما ان اعتصمتم بہ فلن تضلوا ابدا کتاب اللہ وسنۃ نبیہ ( مستدرک حاکم ج۱، ص۹۳)
'' یعنی ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں فرمایا تھا اے لوگو! میں تم میں ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر اس کو پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔''
(۱) عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ انی قد ترکت فیکم شیئین لن تضلوا بعدھما کتاب اللہ وسنتی ۔
(مستدرک حاکم ج۱ ص۹۳)
'' یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ان کے ہوتے ہوئے تم ہرگز گمراہ نہیں ہوگے اللہ کی کتاب اور میری سنت۔''
عن مقدام عن رسول اللہ ﷺ انہ قال الا انی ادتیت الکتاب ومثلہ معہ الا یوشک رجل شبعان علی اریکتہ یقول علیکم بھذا القران فما وجدتم فیہ من حلال فاحلوہ وما وجدتم فیہ من حرام فحرموہ الا لا یحل لکم الحمار الاھلی (ابوداؤد کتاب السنۃ)
'' یعنی مقدام کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے کتاب دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اور بھی چیز دی گئی ہے خبردار! عنقریب ایک پیٹ بھرا شخص چھپر کھٹ پر بیٹھ کر کہے گا کہ بس قرآن کو لازم سمجھو جو اس میں حلال ہے اس کو حلال مانو۔ اور جو اس میں حرام ہے اس کو حرام مانو۔ خبردار تمہارے لیے شہری گدھا حلال نہیں۔''
بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا تھا:
الاوان ما حرم رسول اللہ مثل ما حرم اللہ (ابن ماجہ جلد ج۱، باب تعظیم حدیث)
'' خبردار جو چیز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کی وہ اللہ کی حرام کردہ چیز کے مثل ہے۔''
حضرت ابو رافع کہتے ہیں، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(۴) لا الفین احدکم متکثا علی اریکتہ یاتیہ الا مومن امری مما امرت بہ اونھیت عنہ فیقول لاندری ما وجدنا فی کتاب اللہ اتبعناہ (ابوداؤد، جلد۲، کتاب السنۃ)
'' یعنی میں تم سے کسی کو نہ پاؤں کہ اپنے چھپر کھٹ پر تکیہ لگائے بیٹھا ہو۔ جب میرا کوئی حکم اس کو پہنچے یا میری ممانعت اس کو پہنچے تو وہ کہے ہم نہیں جانتے ہم تو جو کچھ کتاب اللہ تعالیٰ میں ہے اسی کا ہی اتباع کرتے ہیں۔''
عرباض بن ساریہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(۵) ایحسب احدکم متکثا علی اریکتہ یظن ان اللہ لم یحرم شیئا الا ما فی ھذا القرآن الا وانی واللہ قد امرت ووعظت ونھیت عن اشیاء انھا لمثا القرآن ادا کثروان اللہ لم یحل لکم ان تدخلوا بیوت اھل الکتاب الاباذن (ابوداؤد مشکوۃ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)
'' کیا تم میں کوئی شخص چھپر کھٹ پر تکیہ لگائے ہوئے بدگمان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز حرام نہیں کی سوائے اس کے جو قرآن پاک میں ہے اس ذات پاک کی قسم میں نے حکم دئیے ہیں اور نصیحت کی ہے اور بہت سی چیزوں کو ممنوع قرار دیا ہے اور یہ احکام تعداد میں قرآن حکیم کے مثل ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب اس سے آگے فرماتے ہیں: حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم نے احادیث اس لیے جمع نہیں کیں کہ '' اقوال رسول میں تحریف ہوچکی تھی''۔ (دوم اسلام ص ۴۲)
جواب
برق صاحب اس جملہ کی تحریر کے وقت آپ نے کچھ غور بھی فرمایا کہ آخر تحریف کرنے والے کون تھے، اس لیے کہ حضرت ابو بکر صدیق یا حضرت عمر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی راوی تو تھا ہی نہیں پھر تحریف کرنے والے صدیق یا فاروق ہی ہوسکتے ہیں، اور اگر بالفرض محال چند حدیثیں ایسی ہوتیں، جو دوسرے صحابی سے سن کر قلمبند کرتے تو کیا اس صحابی نے تحریف کی تھی۔
غلط فہمی
پھر برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
'' حضرت ابوبکر صدیق نے پانچ سو احادیث کا ایک مجموعہ تیار کیا ہوا تھا، ظاہر ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق کے مجموعہ سے زیادہ قابل اعتماد اور کون سا مجموعہ ہوسکتا تھا لیکن ایک صبح اٹھ کر اسے جلا دیا۔'' (دو اسلام ص ۴۲)
جواب
برق صاحب کو اعتراف ہے کہ یہ مجموعہ سب سے زیادہ قابل اعتماد تھا، لیکن پھر بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے جلا دیا، برق صاحب نے یہ نہیں لکھا کہ کیوں جلا دیا، سیاق وسباق سے ظاہر ہوتا ہے کہ برق صاحب کا منشاوہی ہے کہ احادیث میں تحریف ہوچکی تھی ۔ لہٰذا حضرت ابو بکر صدیق اکبر اس کی صحت پر مطمئن نہیں تھے، لیکن یہاں پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ تحریف کرنے والے تھے کون؟ کیا پانچ سو احادیث بھی ایسی نہ تھیں کہ وہ خود براہِ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوں، کیا ان روایات میں کوئی سلسلہ اسانید تھا، جس میں کذاب و وضاع راویوں کی بھرمار تھی؟ کیا حضرت ابو بکر صدیق کو صحابہ کرام میں کوئی صادق القول راوی دستیاب نہ ہوسکا؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ برق صاحب کیسے اس بے سرو پا خلاف قیاس و عقل روایت کو اپنے ثبوت میں پیش فرما رہے ہیں۔
(۲) یہ روایت جس طرح عقلاً باطل ہے اسی طرح نقلاً بھی سر تا پا کذب اور جھوٹ ہے، اس کی سند میں دو راوی علی بن صالح اور مفضل مجہول ہیں، اور تیسرا راوی موسی بن عبداللہ کذاب ہے (برق اسلام ص ۹۲۰۹۱) برق صاحب کو بڑی غلط فہمی ہوئی، کہ ایسی جھوٹی روایت کو اپنے ثبوت میں پیش فرما دیا، واضح رہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حدیث کی کتاب کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
پھر برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
'' حضرت عمر کے متعلق مذکور ہے کہ آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور آپ کا اسوہ لکھوانے کا ارادہ کیا، مہینہ بھر استخارہ کرتے رہے، اور پھر فرمایا '' تم سے پہلے ایسی قومیں گزر چکی ہیں جنہوں نے کتابیں لکھیں اور خدائی کتاب کا چھوڑ کر انہی پہ جھک پڑیں، خدا کی قسم میں قرآن کے راستہ میں کسی اور کتاب کو قطعاً نہیں آنے دوں گا۔'' (دو اسلام ص ۴۲۔ ۴۳)
جواب
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کردہ قول کے آخری حصہ کے الفاظ یہ ہیں '' واللہ لا اشوب کتاب اللہ بشئی ابدا'' (دو اسلام ص ۴۳) برق صاحب نے اس کا ترجمہ صحیح نہیں کیا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ''میں کتاب اللہ میں کسی قسم کی آمیزش نہیں کروں گا'' اور اس کے تو سب ہی قائل ہیں کہ متن قرآن میں ملاوٹ ممنوع ہے، بہرحال ترجمہ کچھ بھی ہو، یہ روایت ہی باطل ہے، سنداً غیر متصل اور منقطع ہے (برق اسلام ص۹۳) لہٰذا ایسی جھوٹی روایت سے مدعا ثابت نہیں ہوگا، یہاں کھرا سکہ چلتا ہے کھوٹا سکہ نہیں چلتا۔
غلط فہمی
پھر برق صاحب فرماتے ہیں:
'' جب حضرت ابو بکر صدیق مسند خلافت پر جلوہ آرا ہوئے تو آپ نے ایک دن ایک مجمع عام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا '' تم لوگ آج احادیث میں اختلاف رکھتے ہو'' آئندہ یہ اختلاف بڑھتا جائے گا، اس لیے تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث روایت نہ کرو، اور اگر کوئی پوچھے تو کہو کہ ہمارے پاس قرآن ہے، جو اس نے جائز قرار دیا ہے، اسے جائز، اور جسے ناجائز قرار دیا ہے، اسے ناجائز سمجھو۔'' (دو اسلام ص۴۳)
جواب
برق صاحب یہ روایت بھی جھوٹی ہے، اس کی سند منقطع ہے متصل نہیں، توجیہ النظر میں ہے '' واما الروایۃ عن ابی بکرہ الصدیق فمن قطعہ لا تصلح'' یعنی اس روایت کا سلسلہ سند منقطع ہے ، لہٰذا صحیح نہیں (برق اسلام ص ۳۱) برق صاحب ایسی ضعیف روایتیں آپ کیوں پیش فرماتے ہیں۔ دیکھئے حضرت ابوبکر صدیق سے تو صحیح سند سے یہ مروی ہے جو درج ذیل ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لست تارکا شیئا کان رسول اللہ ﷺ یعمل بہ الا عملت بہ فانی اخشی ان ترکت شیئا من امرہ ان ازیغ (صحیح بخاری کتاب الجھاد)
'' یعنی میں ایسی کوئی چیز نہیں چھوڑ سکتا جو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے تحقیق میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں کوئی چیز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل میں سے چھوڑوں گا تو گمراہ ہو جاؤں گا۔''
اور وہ چھوڑ بھی کیسے سکتے تھے جب کہ وہ سمجھتے تھے کہ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ اللہ کا فرمان ہے۔ حضرت ابوبکر اپنی کتاب کے شروع میں لکھتے ہیں:
بسم اللہ الرحمن الرحیم ھذہ فریضۃ الصدقۃ التی فرض رسول اللہ ﷺ علی المسلمین والتی امر اللہ بھا رسولہ فمن سئلھا من المسلمین علی وجھا ذلیعطھا ومن سئل فوقھا فلایعط۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الزکوۃ)
'' بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ زکوٰۃ کے یہ وہ فرائض ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر فرض کیا ہے اور اسی کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے پس جس سے اس کے مطابق مانگا جائے تو اسے دے دینا چاہیے اور جو اس سے زیادہ مانگا جائے تو نہ دے۔''
یہ ہے حضرت ابوبکر صدیق کی کتاب کا تمہیدی بیان، اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق اکبر کے فرائض بیان کئے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق کے اس تمہیدی بیان سے ثابت ہوا کہ:
(۱) جو کچھ حدیث میں ہے، اسی کے موافق عمل کیا جائے۔
(۲) جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض کیا ہے، وہ من جانب اللہ فرض ہے، گویا حدیث بھی من جانب اللہ نازل ہوئی ہے۔
(۳) اگر کوئی حاکم حدیث کی مقرر کردہ شرح سے زیادہ مانگے ، تو نہ دیا جائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرح کو اپنی رعایا پر فرض نہیں فرمایا، بلکہ مسلمانوں پر مقرر فرمایا ہے، یعنی حدیث کے احکام وقتی نہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ میں بھی اس کو نافذ کیا، اور آیندہ کے لیے بھی ہدایت چھوڑ گئے کہ اس سے زیادہ مانگا جائے تو نہ دیا جائے یعنی حاکم وقت مختار نہیں ہے کہ اس میں حالات زمانہ کے لحاظ سے تبدیلی کرسکے یہ ہیں ابوبکر صدیق اور یہ ہے ان کا بیان ان کی اپنی کتاب میں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اس کے آگے برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
'' ایک مرتبہ حضرت عمر نے تمام صحابہ سے فرمایا کہ گھر جاؤ اور احادیث کا تمام ذخیرہ اٹھا لاؤ جب یہ ذخیرہ جمع ہوگیا، تو آپ نے تمام صحابہ کے سامنے اسے جلا دیا۔'' (دو اسلام ص ۴۳۔ ۴۴)
جواب
یہ روایت بھی منقطع ہے متصل نہیں (برق اسلام ص۹۹) یہ روایت سنداً صحیح ہے اور نہ عقلاً، سنداً اس لیے کہ منقطع ہے، عقلاً اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خود حدیث کی کتاب لکھوائی، جو ان کی اولاد میں منتقل ہوتی رہی، امام مالک نے اس کتاب کو خود پڑھا تھا (موطا امام مالکؒ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن عبدالعزیز نے اس کی نقل کرا کر اس پر عمل کرایا تھا (دارقطنی) اس کتاب کا مفصل حال اوپر گزر چکا ہے۔ وہاں ملاحظہ فرمائیں۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور صحابہ کے پاس بھی کتابیں تھیں۔ ان کا تذکرہ بھی اوپر گزر چکا ہے، یہ کتابیں ان کی اولاد کے پاس باقی رہیں، حضرت عبداللہ بن عمرو کی کتاب صادقہ بڑی مشہور و معروف کتاب ہے، جو ان کے پڑپوتے پڑھایا کرتے تھے، تفصیل کے لیے گزشتہ صفحات ملاحظہ ہوں اگر سب کتابیں جلا دی گئی تھیں۔ تو یہ کتابیں کہاں سے آگئیں، حضرت علی تو اپنی خلافت کے زمانہ میں اپنی کتاب کا مظاہرہ مجمع عام میں فرمایا کرتے تھے، اس کا مضمون سنایا کرتے تھے (صحیح بخاری) لہٰذا یہ جلانے کی روایت کسی دشمن اسلام کی گھڑی ہوئی ہے حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر اور دیگر صحابہ ہی کی یہ کتابیں ہیں، جن کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں جمع کردیا اور برق صاحب کے الفاظ میں ہم سب نے مل کر نعرہ لگایا:
ھذا اصح الکتب بعد کتاب اللہ (دو اسلام ص۴۴)
'' یعنی قرآن کریم کے بعد صحیح بخاری صحیح ترین کتاب ہے۔''
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
'' وہ صحابہ جن کی دیانت اور سچائی پر کچھ بھروسہ کیا جاسکتا تھا، فوت ہوچکے تھے اور بعد میں آگئے تھے ہم جیسے لوگ ، امام حسین کے قاتل، حضرت علی کے باغی کعبہ ڈھا دینے والے، حاکم شرابی امراء راشی، غنی عیاش، فقیر پست کردار، کیا ایسے ماحول (انیہ کا دور) میں کسی حدیث کا اپنی اصلی حالت میں رہنا ممکن تھا۔'' (دو اسلام ص۴۴۔ ۴۵)
جواب
برق صاحب کا خیال ہے کہ محدثین یہی لوگ تھے، افسوس نہ محدثین کا ان لوگوں سے کوئی تعلق تھا۔ نہ وہ ان کی روایتوں کو قابلِ اعتماد سمجھتے تھے۔ اگر کوئی راوی کسی روایت میں آبھی گیا تو اس روایت سے بیزاری کا اظہار کیا گیا، اسے سن کر کہا گیا، پھر برق صاحب نے خلاف بنو امیہ کا جو نقشہ کھینچا ہے، سر تا پالغو ہے، سنداً بالکل نامعتبر ہے، اس کی حیثیت محض سیاسی فریب سے زیادہ نہیں جو بنو امیہ کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے وضع کیا گیا تھا، برق صاحب کچھ تو تحقیق کرلیا ہوتا، اس سلسلہ میں محمود احمد عباسی صاحب کی کتاب '' خلافت معاویہ و یزید'' ملاحظہ فرمائیں، پھر برق صاحب کا یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ بنی امیہ کا دور صحابہ کے فوت ہو جانے کے بعد شروع ہوا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ خلافت بنو امیہ کا اکثر دور صحابہ کے زمانہ میں گزرا۔
اعتراض
برق صاحب فرماتے ہیں:
'' یعنی صحابہ سے بھی اخلاقی لغزشیں سرزد ہوتی رہتی تھیں، بخاری میں مذکور ہے کہ ایک صحابی روزے کی حالت میں جماع کر بیٹھے تھے۔'' (دو اسلام ص۴۵)
جواب
برق صاحب لغزش اور چیز ہے اور قصداً جھوٹ بولنا اور چیز ہے، لغزش ایک ہنگامی چیز ہوتی ہے اور ایسے وقت سرزد ہوتی ہے کہ دل و دماغ ساتھ نہیں دیتا، عقل بے کار ہو جاتی ہے لیکن جھوٹ بولتے وقت کسی ایسی چیز کا غلبہ نہیں ہونا، پھر لغزش کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا کرنے سے کیا نسبت ! کسی صحابی پر اس قسم کی تہمت نہیں ہے، نہ ایسا ہوا، نہ ایسا ہوسکتا قرین قیاس ہے، پھر رد ایک صحابہ کی منفرد لغزش سے تمام صحابہ کیسے ناقابل اعتماد ہوگئے۔
اعتراض
برق صاحب لکھتے ہیں:
'' رحلت رسول کے بعد بعض مرتد ہوگئے اور بعض نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔'' (دو اسلام ص ۴۵)
جواب
برق صاحب ! یہ صحابہ نہیں تھے بلکہ عہد رسالت کے وہ مسلمان تھے جنہوں نے فتوحات اسلامی سے خائف ہو کر کلمہ پڑھ لیا تھا اور ابھی ایمان نے قلوب میں جگہ نہیں پکڑی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور یہ مال کے بندے دوسری طرف جھک گئے ان لوگوں کو حضور کی صحبت میں رہنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
اعتراض
برق صاحب فرماتے ہیں:
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی جنگ میں دونوں طرف صحابہ کی ایک بہت بڑی تعداد تھی اور ظاہر ہے کہ دونوں راستی پر نہیں ہوسکتے تھے، ان حالات میں بالکل ممکن ہے کہ کسی صحابی نے عمداً حدیث کے الفاظ بدل دئیے ہوں۔'' (دو اسلام ص۴۵)
جواب
برق صاحب اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ صحابہ کرام ایسے بد دیانت تھے، تو پھر اللہ ہی حافظ ہے نہ اسلام پہلے تھا اور نہ اب ہے، شکایت ہی بے کار ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آئے بھی، اللہ نے کتاب بھی نازل فرمائی، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جماعت تیار کی وہ بد دیانت تھی، جب اپنے رسول پر افترا پردازی سے نہ چوکتی تھی، تو پھر ظاہر ہے کہ دوسرے معاملات میں اور بھی زیادہ بددیانت ہوگی، تو پھر تو ان لوگوں کی بات بھی کافی وزنی ہے، جو کہتے ہیں کہ بعض صحابہ نے قرآن میں تحریف کرکے چالیس پاروں کے تیس کردئیے جن میں سے اصلی صرف دس ہیں، باقی بیس المحاقی ہیں، اور وہ دس بھی ان بیس کے ساتھ مخلوط میں علیحدہ نہیں۔ لہٰذا پورا قرآن ناقابل اعتماد ہے، خلاصہ یہ ہوا کہ صحابہ آپس میں لڑتے تھے ، جھوٹ بولتے تھے، بددیانت تھے، قرآن کی آیات اور احادیث گھڑتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو مزکی اور معلم حکمت بنا کر بھیجے گئے تھے۔ وہ دنیا سے قطعاً ناکام گئے العیاذ باللہ۔
برق صاحب سنئے! حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا میں کوئی جنگ نہیں ہوئی، یہ چند سبائی منافقین کا بلوہ تھا، صحابہ ہرگز بلوہ میں شریک نہیں ہوئے بلکہ فوراً بلوہ کو روک دیا گیا۔
صحابہ رضی اللہ عنہم کاجنگ کرنا ازسر تا پا لغو ہے، سنداً بالکل غیر معتبر ہے، مورخین نے بغیر جرح و تعدیل کے اس کو نقل کیا ہے، اور ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے، پھر صحابہ کا لڑنا قرآن کے بھی خلاف ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اشداء علی الکفار رحماء بینھم (الفتح)
'' یعنی صحابہ کفار پر سخت ہیں، اور آپس میں بڑے رحیم ہیں۔''
پھر بددیانتی کا الزام بھی غلط ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
الزمھم کلمۃ التقوی وکانوا احق بھا واھلھا (الفتح)
'' اللہ نے ان کے ساتھ پرہیزگاری کی بات کو لازم کردیا اور وہ اس کے حق دار ہیں اور اہل بھی۔''
یہ ہیں وہ صحابہ جن سے اللہ تعالیٰ نے راضی ہونے کا اعلان فرمایا ہے کیا ایسے لوگ بد دیانت ہوسکتے ہیں۔
اعتراض
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
'' دو سو پچاس برس تک یہ حدیثیں کروڑوں زبانوں پر جاری رہیں، ہر نیک و بد کے پاس پہنچیں، الفاظ بدلے، مفہوم بدلا، اضافے ہوئے۔'' (دو اسلام ص ۴۵)
جواب
برق صاحب کا مطلب یہ ہے کہ احادیث دو سو پچاس برس بعد لکھی گئیں، حالانکہ یہ قطعاً غلط ہے، صحابہ کرام کی کتابوں کا حال اوپر گذر چکا ہے پھر تابعین کے دور میں تو بے شمار کتابیں لکھی گئیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا صحیفہ جو ان کے شاگرد ہمام کے نام سے مشہور ہے چھپ چکا ہے حضرت امام مالک کی کتاب بھی موجود ہے۔ جو تقریباً صرف سو سال بعد لکھی گئی، ان کی اکثر روایتوں میں یہ دو راوی ہیں۔ نافع اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بتائیے ان میں سے کون سے راوی نیک ہیں اور کون سے بد؟ موطا میں دوسری مشہور سند یہ ہے، امام محمد بن شہاب، سالم بن عبداللہ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہے کوئی راوی جس کو ان میں سے بد کہا جاسکے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سند میں یہ دو راوی ہیں، ہشام بن عروہ اور عروہ بن زبیر، حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں صرف امام زہری راوی ہیں، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی سند میں امام ابو الزناد، اور امام اعرج ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کی سند میں امام زہری اور حضرت سعید بن مسیب ہیں غرض یہ کہ اس قسم کی صدہا سندیں ہیں جن میں صحابی اور امام مالک کے درمیان ایک یا دو راوی ہیں، اور سب زبردست امام ہیں، امام مالک سے یہ کتاب بڑے بڑے ائمہ نے نقل کی اور ان سے امام بخاری نے نقل کر لی بتائیے جھوٹ، تحریف اور غلط بیان کہاں سے داخل ہوئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
اعتراض
برق صاحب لکھتے ہیں:
''ان مشتبہ گوش بریدہ اور خود تراشیدہ احادیث کا سیلاب عظیم جب حضرت امام بخاری کے دور میں داخل ہوا تو آپ نے چھ لاکھ احادیث میں سے جو آپ کو یاد تھیں صرف ۷۲۷۵، انتخاب کیں اور باقی تمام کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔'' (دو اسلام ص ۴۵،۴۶)
جواب
برق صاحب کی عبارت کا خلاصہ یہ ہوا کہ:
(۱) امام بخاری نے خود تراشیدہ احادیث میں سے احادیث کا انتخاب کیا اور صحیح بخاری میں درج کیا۔
(۲) امام بخاری سے پہلے حدیث کی کتاب ہی نہ تھی اور انہوں نے اس کو زبانی حاصل کیا تھا دونوں باتیں قطعاً صحیح نہیں، جواب سلسلہ وار ملاحظہ فرمائیے۔
امام بخاری فرماتے ہیں:
ما ادخلت فی کتابی الجامع الاماصح وترکت کثیر امن الصحاح حتی لا یطول الکتاب (مقدمہ ابن صلاح وغیرہ)
''یعنی میں نے اپنی جامع میں کوئی ایسی حدیث نقل نہیں کی جو صحیح نہ ہو، اور بہت سی صحیح احادیث کو کتاب کی طوالت کے خوف سے چھوڑ دیا۔''
اس قول سے معلوم ہوا کہ جو احادیث امام بخاری نے چھوڑ دیں، ان میں بھی بہت سی حدیثیں صحیح تھیں، امام بخاری فرماتے ہیں:
احفظ مانۃ الف حدیث صحیح (مقدمہ ابن صلاح)
''یعنی مجھے ایک لاکھ صحیح احادیث یاد ہیں۔''
علامہ عینی لکھتے ہیں:
نقل عن البخاری انہ صنف کتابا اورد فیہ مائۃ الف حدیث صحیح (نصرہ الباری ص ۷ بحوالہ عمدۃ القاری)
''یعنی امام بخاری نے ایک کتاب ایسی بھی لکھی تھی جس میں ایک لاکھ صحیح حدیثیں تھیں۔''
غرض یہ کہ امام بخاری نے ایک لاکھ صحیح احادیث یعنی ایک لاکھ صحیح سندوں میں سے کم و بیش صرف سات ہزار صحیح سندیں نقل کیں، اس سے معلوم ہوا کہ یہ سندیں غایت درجہ کی صحیح تھیں جو صحیح سند میں سے چھانٹ کر لکھی گئیں، نہ کہ خود تراشیدہ احادیث میں سے چھانٹ کر لکھی گئیں، محدثین کی اصطلاح میں ہر سند کو حدیث کہتے ہیں لہٰذا ایک لاکھ یا اس سے زیادہ احادیث سے مراد احادیث کی سندیں ہیں کہ ایک لاکھ متن، برق صاحب کی تحریر کے مطابق صحیح بخاری میں ۷۲۷۵، احادیث ہیں، حالانکہ ۷۲۷۵، سندیں ہیں نہ کہ متن، متن تو تقریباً اس تعداد کا نصف ہیں، ایک ہی حدیث امام بخاری کو متعدد اسناد سے پہنچی، ان میں سے جو بہترین سند تھی، اس کو انہوں نے اپنی جامع میں نقل کیا۔ ([الف] امام بخاری رحمہ اللہ)
(۲) امام بخاری کے دور سے پہلے بے شمار کتابیں لکھی جاچکی تھیں
(الف) امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ '' سولہ سال کی عمر میں حضرت عبداللہ بن مبارک اور امام وکیع وغیرہ کی کتب حدیث میں نے حفظ کرلی تھیں۔'' (نصرۃ الباری ص۴۱ بحوالہ مقدمہ فتح الباری)
(ب) امام بخاری کے استاد امام داخلی چڑھا رہے تھے کہ سند میں ایک راوی کا نام غلط لے دیا، امام بخاری نے شیخ کو متوجہ کیا، شیخ نے اپنی کتاب دیکھی اور فرمایا تم نے سچ کہا۔ (نصرۃ الباری ص۴۶)
(ج) امام بخاری کے استاد اسمٰعیل بن ابی اویس کی کتاب سے امام بخاری نے چند احادیث کا انتخاب کرلیا۔ تو ان منتخب احادیث کو امام اسمٰعیل نے علیحدہ لکھ لیا، اور ان پر یہ الفاظ لکھے یہ وہ حدیثیں ہیں جن کو محمد بن اسمٰعیل (بخاری) نے میری حدیثوں میں سے منتخب کرلیا ہے۔ (نصرۃ الباری ص ۴۷)
(د) امام بخاری کے شیخ عبداللہ بن یوسف نے امام بخاری سے فرمایا تھا:
یا ابا عبداللہ انظر فی کتبی واخبر بما فیھا من السقط (نصرۃ الباری ص ۴۸)
'' یعنی آپ میری کتابوں کو دیکھئے اور اس میں جو کچھ لغزشیں ہوں ان سے مطلع فرمائیے۔''
(۵) امام بخاری کے استاد شیخ محمد بن سلام نے بھی فرمایا تھا:
انظر فی کتبی فما وجدت فیھا من خطا فاضرب علیہ۔ (نصرۃ الباری)
'' یعنی میری کتب کو دیکھئے اور جہاں خطا ہوگی ہو وہاں نشان لگا دئیے۔''
الغرض جب امام بخاری نے ہوش سنبھالا تو بے شمار کتب حدیث تھیں، مثلاً صحیفہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ المشہور بہ صحیفہ امام بن منبہ، صحیفہ صادقہ، مولفہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ، صحیفہ معمر، موطا امام مالک ، موطا امام محمد، کتاب آثار، کتاب الخراج، مسند شافعی، کتاب الام، مسند امام احمد، مسند اسحق بن راہویہ، سنن ابن قطان، کتب وکیع، کتب عبداللہ بن مبارک، مسند حمیدی،مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبدالرزاق، کتب علی بن مدینی، وغیرہ وغیرہ ان میں سے اکثر کتابیں طبع ہوچکی ہیں، اور آج بھی موجود ہیں اور آسانی سے دستیاب ہوسکتی ہیں، لہٰذا یہ کہنا کہ امام بخاری سے پہلے احادیث مکتوب نہ تھیں، قطعاً صحیح نہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
اعتراض
برق صاحب فرماتے ہیں:
'' امام بخاری اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تقریباً اڑھائی سو سال کا طویل زمانہ حائل تھا۔'' (دو اسلام ص ۴۶)
جواب
اس جملہ سے پھر وہی غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ ڈھائی سو سال تک احادیث قلمبند ہی نہیں ہوئی تھیں، غیر محفوظ تھیں، حالانکہ یہ بالکل غلط ہے، ہر دور میں حدیث کی بے شمار کتابیں لکھی گئیں ائمہ دین نے حدیث کی حفاظت کا بے مثل نظام قائم کیا، ان بے شمار کتب حدیث، ائمہ حدیث اور اہتمام درس و تدریس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا ڈھائی سو سال کا طویل زمانہ پاٹ دیا گیا ہے، اور مختلف ائمہ دین اور کتب کے ذریعہ ایسا محسوس ہوتا ہے، کہ امام بخاری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھے حدیث نقل کر رہے ہیں، جس طرح آج ہم صحیح بخاری پڑھتے ہیں، تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا امام بخاری درس دے رہے ہیں، محض اس لیے کہ یہ گیارہ بارہ سو سال کا زمانہ صحیح بخاری کے راویوں سے پٹا ہوا ہے، اور صحیح بخاری اپنے مصنف تک متواتر ہے۔
اعتراض
برق صاحب فرماتے ہیں:
'' چھ لاکھ حدیث، ہر حدیث کے کم از کم چھ چھ راوی یعنی چھتیس لاکھ راوی ، جن میں سے تیس بتیس لاکھ لازماً مرچکے ہوں گے، نہ ان کے حالات محفوظ، نہ انہیں کوئی جاننے والا موجود ، امام بخاری کو کیسے پتہ چل گیا، کہ اس کے تمام راوی سچے تھے۔'' (دو اسلام ص ۴۶)
جواب
برق صاحب آپ نے غالباً صحیح بخاری کا غور سے مطالعہ نہیں فرمایا، صحیح بخاری کی سند میں کم سے کم تین راوی ہوتے ہیں، نہ کہ چھ اور یہ حدیثیں ثلاثیات بخاری کہلاتی ہیں، اگر آپ نے زیادہ سے زیادہ چھ چھ راوی کہتے تو بھی غنیمت تھا، اس لیے کہ چند حدیثوں میں چھ چھ راوی ہیں لیکن اکثر سندوں میں چار سے زیادہ داری نہیں ہوتے یہ برق صاحب کی پہلی غلط فہمی تھی۔ دوسری غلط فہمی یہ ہوئی کہ ان کے خیال میں ایک راوی سے ایک ہی حدیث منقول ہے ، لہٰذا چھ لاکھ حدیثوں میں ۳۶ لاکھ راوی ہوگئے حالانکہ یہ بھی قطعاً غلط ہے۔ ایک راوی سے دس، دس، بیس بیس، سو سو ، بلکہ ہزار ہزار احادیث مروی ہیں لہٰذا راویوں کی تعداد چند ہزار سے زائد نہیں، اور پھر ان میں سے صحیح بخاری کی اسناد کے راوی چند سو سے زائد نہیں، لہٰذا اس قلیل تعداد راویوں کے حالات کا مفصل تذکرہ ملنا، اور اس کا محفوظ ہونا کچھ مشکل امر نہیں، پھر اگر بالفرض محال کسی راوی کا حال معلوم نہ ہو تو وہ مجہول الحال ہوگا، اس کی روایت صحیح بخاری میں آنے ہی کیوں لگی، لہٰذا صحیح بخاری کی احادیث پر یہ اعتراض کالعدم ہے، تیسری غلط فہمی یہ کہ امام بخاری کو ان راویوں کے حالات کیسے پہنچے، جب کہ وہ مر چکے تھے، سنیے! ان کے حالات کا علم اس طرح ہوا جس طرح حدیث کا علم ہوا، جس طرح حدیث ان تک سنداً پہنچی، اسی طرح راوی کے ہم عصر علماء کی جرح و تعدیل بھی سنداً ساتھ ساتھ پہنچی، آخر اس میں اشکال ہی کیا ہے، امام بخاری نے اپنے اساتذہ کو خود دیکھا تھا، ان استادوں نے اپنے اساتذہ کا حال بیان کیا، ان استادوں نے اپنے اساتذہ کا حال بیان کیا، اور اس طرح ہر زمانہ کے راویوں کا حال امام بخاری تک سنداً پہنچ گیا، پھر جس طرح حدیث کی کتابیں امام بخاری سے پہلے تصنیف ہوچکی تھیں، جرح و تعدیل کی بھی کتابیں تصنیف ہوچکی تھیں، اسماء الرجال کا فن باقاعدہ منضبط ہوچکا تھا، اور یہ سب تحریری مواد تھا جو امام بخاری کے سامنے موجود تھا۔
 
Top