- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
'' علاوہ ازیں ہمارے سوانح نگاروں میں ایک خاص نقص بھی تھا کہ وہ کسی کردار پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کے عادی نہیں تھے ہمیشہ حسن ظن سے کام لیتے تھے، اور مبالغہ آمیز مدح سرائی پر اتر آتے تھے، اس وقت ذہبی کا تذکرہ الحفاظ میرے سامنے پڑا ہے، جس میں ہزارہا بڑے بڑے راویان و حفاظ حدیث کے حالات مرقوم ہیں، میں ایک ہی دور کے چند راوی لے کر ذہبی کی زبانی ان کی کہانی سناتا ہوں، جس سے آپ اندازہ لگا سکیں گے کہ ہمارے بزرگوں کا انداز کردار نویسی میں کیا تھا۔ '' (دو اسلام ص ۴۶۔ ۴۷)
ازالہ
برق صاحب آپ کو پھر غلط فہمی ہوگئی، امام ذہبی کا تذکرۃ الحفاظ، اسماء الرجال کی کتاب نہیں ہے بلکہ بقول آپ کے '' بڑے بڑے راویان و حفاظ حدیث'' کے حالات پر مشتمل ہے، یہ لوگ ائمہ دین تھے، متقی تھے، حافظ تھے، ضابط تھے، اگر آپ کو جرح دیکھنی ہو، تو انہی امام ذہبی کی کتاب ''میزان الاعتدال'' ملاحظہ فرمائیے، کتاب آپ وہ دیکھتے ہیں، جس میں حفاظ کا حال ہے، تو جرح آپ کو وہاں کیسے ملے گی، وہ کتاب تذکرۃ الضعفاء نہیں کہ وہاں آپ کو جرح مل سکے، رہا یہ کہ مبالغہ آمیزی تو یہ سوانح نگار کا قصور نہیں ہے بلکہ انہوں نے ہر واقعہ کو سند کے ساتھ بیان کردیا ہے، اب یہ جس کا قول ہے، اس کا مبالغہ ہے، پہلے سند کو دیکھئے کہ صحیح ہے یا نہیں، پھر قائل کو دیکھئے کون ہے اگر ہر طرح سے وہ ثابت ہو جائے، تو بے شک وہ مدح ممدوح کے حق میں صحیح ہوگی، اس میں امام ذہبی کا کوئی قصور نہیں، سندہ پیش کرکے وہ بری الذمہ ہوگئے، پھر انہی حفاظ میں سے اگر کسی پر جرح ہے تو وہ بھی امام ذہبی نے میزان میں نقل کردی ہے، وہاںملاحظہ فرمائیے، جرح و تعدیل کے لیے وہی کتاب مخصوص ہے اور تاریخی حالات کے لیے تذکرہ۔
غلط فہمی
برق صاحب لکھتے ہیں:
'' علی بن الحسین بن ابی طالب کے متعلق لکھتے ہیں آپ رات دن میں ایک ہزار رکعت پڑھا کرتے تھے، اگر سونے کھانے، ضروری حاجات اور وضو کے لیے کم از کم آٹھ گھنٹے الگ کرلیے جائیں تو باقی سولہ گھنٹے بچتے ہیں، اگر ہر رکعت پر اوسطاً پر اوسطاً دو منٹ صرف ہوں، تو یہ تینتیس گھنٹے اور بیس منٹ بنتے ہیں، اور ظاہر ہے کہ سولہ گھنٹوں میں تینتیس گھنٹوں کا کام سر انجام نہیں دیا جاسکتا۔'' (دو اسلام ص ۴۷)
ازالہ
برق صاحب یہ صحیح ہے کہ یہ مبالغہ ہے مگر مغالطہ آپ کو بھی ہوا، وہ یہ کہ اوسطاً ہر رکعت پر ایک منٹ شمار کرتے تو یہ کام آپ کے حساب بھی سولہ، سترہ گھنٹے میں ہوسکتا ہے، اور پھر یہ ممکن تھا، بلاوجہ آپ نے ۲ منٹ فی رکعت حساب میں لگا کر اس کو ناممکن بنا دیا۔
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
'' علاوہ ازیں ہمارے سوانح نگاروں میں ایک خاص نقص بھی تھا کہ وہ کسی کردار پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کے عادی نہیں تھے ہمیشہ حسن ظن سے کام لیتے تھے، اور مبالغہ آمیز مدح سرائی پر اتر آتے تھے، اس وقت ذہبی کا تذکرہ الحفاظ میرے سامنے پڑا ہے، جس میں ہزارہا بڑے بڑے راویان و حفاظ حدیث کے حالات مرقوم ہیں، میں ایک ہی دور کے چند راوی لے کر ذہبی کی زبانی ان کی کہانی سناتا ہوں، جس سے آپ اندازہ لگا سکیں گے کہ ہمارے بزرگوں کا انداز کردار نویسی میں کیا تھا۔ '' (دو اسلام ص ۴۶۔ ۴۷)
ازالہ
برق صاحب آپ کو پھر غلط فہمی ہوگئی، امام ذہبی کا تذکرۃ الحفاظ، اسماء الرجال کی کتاب نہیں ہے بلکہ بقول آپ کے '' بڑے بڑے راویان و حفاظ حدیث'' کے حالات پر مشتمل ہے، یہ لوگ ائمہ دین تھے، متقی تھے، حافظ تھے، ضابط تھے، اگر آپ کو جرح دیکھنی ہو، تو انہی امام ذہبی کی کتاب ''میزان الاعتدال'' ملاحظہ فرمائیے، کتاب آپ وہ دیکھتے ہیں، جس میں حفاظ کا حال ہے، تو جرح آپ کو وہاں کیسے ملے گی، وہ کتاب تذکرۃ الضعفاء نہیں کہ وہاں آپ کو جرح مل سکے، رہا یہ کہ مبالغہ آمیزی تو یہ سوانح نگار کا قصور نہیں ہے بلکہ انہوں نے ہر واقعہ کو سند کے ساتھ بیان کردیا ہے، اب یہ جس کا قول ہے، اس کا مبالغہ ہے، پہلے سند کو دیکھئے کہ صحیح ہے یا نہیں، پھر قائل کو دیکھئے کون ہے اگر ہر طرح سے وہ ثابت ہو جائے، تو بے شک وہ مدح ممدوح کے حق میں صحیح ہوگی، اس میں امام ذہبی کا کوئی قصور نہیں، سندہ پیش کرکے وہ بری الذمہ ہوگئے، پھر انہی حفاظ میں سے اگر کسی پر جرح ہے تو وہ بھی امام ذہبی نے میزان میں نقل کردی ہے، وہاںملاحظہ فرمائیے، جرح و تعدیل کے لیے وہی کتاب مخصوص ہے اور تاریخی حالات کے لیے تذکرہ۔
غلط فہمی
برق صاحب لکھتے ہیں:
'' علی بن الحسین بن ابی طالب کے متعلق لکھتے ہیں آپ رات دن میں ایک ہزار رکعت پڑھا کرتے تھے، اگر سونے کھانے، ضروری حاجات اور وضو کے لیے کم از کم آٹھ گھنٹے الگ کرلیے جائیں تو باقی سولہ گھنٹے بچتے ہیں، اگر ہر رکعت پر اوسطاً پر اوسطاً دو منٹ صرف ہوں، تو یہ تینتیس گھنٹے اور بیس منٹ بنتے ہیں، اور ظاہر ہے کہ سولہ گھنٹوں میں تینتیس گھنٹوں کا کام سر انجام نہیں دیا جاسکتا۔'' (دو اسلام ص ۴۷)
ازالہ
برق صاحب یہ صحیح ہے کہ یہ مبالغہ ہے مگر مغالطہ آپ کو بھی ہوا، وہ یہ کہ اوسطاً ہر رکعت پر ایک منٹ شمار کرتے تو یہ کام آپ کے حساب بھی سولہ، سترہ گھنٹے میں ہوسکتا ہے، اور پھر یہ ممکن تھا، بلاوجہ آپ نے ۲ منٹ فی رکعت حساب میں لگا کر اس کو ناممکن بنا دیا۔