• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
'' علاوہ ازیں ہمارے سوانح نگاروں میں ایک خاص نقص بھی تھا کہ وہ کسی کردار پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کے عادی نہیں تھے ہمیشہ حسن ظن سے کام لیتے تھے، اور مبالغہ آمیز مدح سرائی پر اتر آتے تھے، اس وقت ذہبی کا تذکرہ الحفاظ میرے سامنے پڑا ہے، جس میں ہزارہا بڑے بڑے راویان و حفاظ حدیث کے حالات مرقوم ہیں، میں ایک ہی دور کے چند راوی لے کر ذہبی کی زبانی ان کی کہانی سناتا ہوں، جس سے آپ اندازہ لگا سکیں گے کہ ہمارے بزرگوں کا انداز کردار نویسی میں کیا تھا۔ '' (دو اسلام ص ۴۶۔ ۴۷)
ازالہ
برق صاحب آپ کو پھر غلط فہمی ہوگئی، امام ذہبی کا تذکرۃ الحفاظ، اسماء الرجال کی کتاب نہیں ہے بلکہ بقول آپ کے '' بڑے بڑے راویان و حفاظ حدیث'' کے حالات پر مشتمل ہے، یہ لوگ ائمہ دین تھے، متقی تھے، حافظ تھے، ضابط تھے، اگر آپ کو جرح دیکھنی ہو، تو انہی امام ذہبی کی کتاب ''میزان الاعتدال'' ملاحظہ فرمائیے، کتاب آپ وہ دیکھتے ہیں، جس میں حفاظ کا حال ہے، تو جرح آپ کو وہاں کیسے ملے گی، وہ کتاب تذکرۃ الضعفاء نہیں کہ وہاں آپ کو جرح مل سکے، رہا یہ کہ مبالغہ آمیزی تو یہ سوانح نگار کا قصور نہیں ہے بلکہ انہوں نے ہر واقعہ کو سند کے ساتھ بیان کردیا ہے، اب یہ جس کا قول ہے، اس کا مبالغہ ہے، پہلے سند کو دیکھئے کہ صحیح ہے یا نہیں، پھر قائل کو دیکھئے کون ہے اگر ہر طرح سے وہ ثابت ہو جائے، تو بے شک وہ مدح ممدوح کے حق میں صحیح ہوگی، اس میں امام ذہبی کا کوئی قصور نہیں، سندہ پیش کرکے وہ بری الذمہ ہوگئے، پھر انہی حفاظ میں سے اگر کسی پر جرح ہے تو وہ بھی امام ذہبی نے میزان میں نقل کردی ہے، وہاںملاحظہ فرمائیے، جرح و تعدیل کے لیے وہی کتاب مخصوص ہے اور تاریخی حالات کے لیے تذکرہ۔
غلط فہمی
برق صاحب لکھتے ہیں:
'' علی بن الحسین بن ابی طالب کے متعلق لکھتے ہیں آپ رات دن میں ایک ہزار رکعت پڑھا کرتے تھے، اگر سونے کھانے، ضروری حاجات اور وضو کے لیے کم از کم آٹھ گھنٹے الگ کرلیے جائیں تو باقی سولہ گھنٹے بچتے ہیں، اگر ہر رکعت پر اوسطاً پر اوسطاً دو منٹ صرف ہوں، تو یہ تینتیس گھنٹے اور بیس منٹ بنتے ہیں، اور ظاہر ہے کہ سولہ گھنٹوں میں تینتیس گھنٹوں کا کام سر انجام نہیں دیا جاسکتا۔'' (دو اسلام ص ۴۷)
ازالہ
برق صاحب یہ صحیح ہے کہ یہ مبالغہ ہے مگر مغالطہ آپ کو بھی ہوا، وہ یہ کہ اوسطاً ہر رکعت پر ایک منٹ شمار کرتے تو یہ کام آپ کے حساب بھی سولہ، سترہ گھنٹے میں ہوسکتا ہے، اور پھر یہ ممکن تھا، بلاوجہ آپ نے ۲ منٹ فی رکعت حساب میں لگا کر اس کو ناممکن بنا دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
چند اکابر کے متعلق تذکرہ الحفاظ سے مدحیہ جملے نقل فرمانے کے بعد برق صاحب لکھتے ہیں:
'' دیکھا آپ نے سوانح نویسی کا انداز، یہ سب محدثین ہم عصر تھے، ذہبی ہر ایک کو بے مثال، سب سے بڑا عالم، سردار قرار دے گیا ہے، ظاہر ہے کہ ایک ہی زمانہ اور تقریباً ایک ہی ملک کے سب لوگ بے نظیر و بے مثال نہیں ہوسکتے۔'' (دو اسلام ص ۴۹)
ازالہ
برق صاحب آپ کو پھر غلط فہمی ہوگئی، امام ذہبی نے یہ کہاں لکھا ہے کہ سب لوگ بے نظیر و بے مثال تھے'' ہاں چند محدثین کے متعلق بے نظیر یا بے مثال کے لفظ ضرور استعمال کیے ہیں مگر یہ قصیدہ گوئی امام ذہبی کی نہیں ہے، بلکہ وہ دوسرے اماموں کے اقوال نقل کر رہے ہیں، کسی امام نے شعبی کو سب سے بڑا عالم کہہ دیا اور کسی نے عطا کو، یہ تضاد نہیں ہے۔حقیقت صرف اتنی ہے کہ شعبی اور عطاء دونوں بہت بڑے عالم ہیں، کسی کے نزدیک کوئی زیادہ ہے، کسی کے نزدیک کوئی زیادہ ہے، ہر ایک کا اپنا اندازہ ہے، اگر ایک ہی شخص کے یہ جملے ہوتے تو تضاد کا شبہ ہوسکتا تھا، حالانکہ ہونا اس وقت بھی نہیں چاہیے، اس لیے کہ جب دو عالم برابر درجے کے ہوں، تو پھر کسی ایک کے متعلق زیادہ بڑا ہونے کا فیصلہ مشکل ہوتا ہے، اور ایسی ہی حالت میں دونوں کو سب سے بڑا عالم کہدیا جاتا ہے۔
اچھا برق صاحب قرآن کی ایک آیت سنیے، ارشاد باری ہے:
{ وَلَا یَجْرِ مَنَّکُمْ سَنَانُ قَوْمٍ عَلٰی اَنْ لَا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی } (المائدہ)
'' یعنی کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم نا انصافی کرو، بلکہ انصاف ہی کرو، یہی تقوے کے زیادہ قریب ہے۔''
برق صاحب کیا اس آیت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نا انصافی بھی تقویٰ کے قریب ہے، لیکن انصاف زیادہ قریب ہے، ہرگز نہیں تو پھر اقرب کا صیغہ جو استعمال ہوا، اس کی کیا تاویل ہوگی، اقرب تفضیل بعض یا تفضیل کل کا صیغہ ہے، لیکن یہاں تفضیل کا مفہوم ادا نہیںکرتا، اسی طرح کسی عالم کے متعلق اعلم کا لفظ تفضیل کل کا مفہوم ادا نہیںکرتا، بلکہ اس سے اس کے علم کی انتہائی عظمت مراد ہونی ہے، کاش ان معنوں میں اگر آپ ان مدح سرائیون کا مطالعہ فرماتے، تب بھی کوئی غلط فہمی نہ ہوتی۔
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
'' امام مالک نے اپنے ہاتھ سے ایک لاکھ حدیث لکھی ، نو سو اساتذہ سے تعلیم حاصل کی، اور سترہ برس کی عمر میں فارغ التحصیل ہو کر درس دینا شروع کردیا ... جب مؤطا لکھ چکے تو اسے پانی میں پھینک کر کہنے لگے کہ اگر اس میں سچی احادیث ہیں تو یہ نہیں بھیگے گی، چنانچہ وہ نہ بھیگی، ایک دن حدیث پڑھا رہے تھے، کہ بچھو کپڑوں میں گھس گیا، اس نے سولہ مرتبہ امام صاحب کو کاٹا لیکن امام صاحب نے درس ختم کرکے ہی اس کی طرف توجہ دی۔ ''
اتنا لکھنے کے بعد برق صاحب فرماتے ہیں:
'' نو سو اساتذہ سے پڑھا بھی اور پھر سترہ برس میں فارغ التحصیل بھی ہوگئے، کوئی پوچھے کہ اس زمانہ میں نو سو اساتذہ عرب میں جمع کہاں سے ہوگئے تھے؟ اگر بالفرض ہو ہی گئے تھے تو یہ نہ بتایا کہ امام مالک ہر استاد کے پاس کتنا عرصہ رہے تھے، اگر ایک استاد کے پاس صرف ایک مہینہ بھی بسر کیا تھا، تو بھی ان کا زمانہ تعلیم پچھتر برس بنتا ہے۔'' (دو اسلام ص ۵۰)
ازالہ
برق صاحب کو پھر غلط فہمی ہوئی ، آپ اس خیال میں ہیں، کہ ہر استاد کے پاس جانے کے لیے علیحدہ زمانہ مقرر تھا۔ حالانکہ ایسا نہیں ایک ہی مہینہ میں مختلف استادوں کے پاس حاضری دی جاسکتی ہے، بلکہ ایک ہی دن کے مختلف اوقات میں مختلف استادوں کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا جاسکتا ہے، پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر استاد کے پاس کم از کم ایک مہینہ ہی صرف ہوا، ہوسکتا ہے کہ بعض کے پاس صرف ایک دن یا صرف ایک گھنٹہ ہی صرف ہوا ہو، بلکہ اگر کسی استاد سے صرف ایک ہی حدیث سنی ہوگی، تو صرف چند منٹ صرف ہوئے ہوں گے، پھر نوسو اساتذہ کا ایک جگہ جمع ہونا ضروری نہیں، ایک ہی شہر میں متعدد استاد ہوتے تھے، اور ان کے پاس سفر کر کے جانا کوئی مشکل نہ تھا، پھر نو سو اساتذہ کا ایک جگہ جمع ہونا بھی ناممکن نہیں، مثلاً حج کے موقعہ پر ہزارہا شیوخ جمع ہوتے تھے، اور اگر اس وقت ان کی صحبت سے کوئی شخص فیض یاب ہو جائے اور کئی سال ایسا ہوتا رہے تو اس کے استادوں کی تعداد کا ہزاروں تک پہنچ جانا کیا مشکل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب پھر فرماتے ہیں:
'' اس گپ کے علاوہ، وہ کتاب نہ بھیگنے، اور بچھو کاٹنے کا گپوڑ بھی قابل داد ہے۔'' (دو اسلام ص ۵۰)
ازالہ
برق صاحب یہ واقعات امام مالک کی کرامات میں سے ہیں، آخر آپ حضرت مریم کی کرامتوں کے تو معترف ہیں، اس لیے کہ قرآن میں بیان ہوئی ہیں، مثلاً فرشتہ ان کے پاس تنہائی میں آتا ہے اور کہتا ہے '' لاھب لک غلاما زکیا '' میں تجھ کو پاک لڑکا بخشنے آیا ہوں، پھر جو کچھ ہوا، وہ آپ کو معلوم ہے، عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے، گہوارے میں بات کرنے لگے، اپنی والدہ کی بریت ثابت کی، کیوں صاحب جو کچھ قرآن میں ہے، اس پر تو ایمان ہے، اور جو کچھ قرآن میں نہ ہو، اور ہوسکتا ہے کہ صحیح ہو اس پر اعتراض ! یہ کہاں کا انصاف ہے، پھر اگر یہ واقعہ صحیح نہیں تو آپ کو چاہیے تھا کہ اس کا اصل ماخذ تلاش کرتے، اور سنداً اس کو لغو ثابت کرتے، اگر محض عقل سے پرکھنا ہے، تو پھر ہر واقعہ کو پرکھیے خواہ وہ قرآن میں ہو یا غیر قرآن میں۔
غلط فہمی
تو یہ تھے وہ سوانح نگار جن کی تحریرات کو ہم وحی سمجھ کر بعض راویوں کو سچا اور بعض کو جھوٹا قرار دیتے تھے، اور پھر ان سچے راویوں کی احادیث ایک کتاب میں جمع کرکے اس کا نام رکھ دیتے تھے۔ صحیح بخاری، صحیح مسلم۔ (دو اسلام ص ۵۱)
ازالہ
برق صاحب کو پھر غلط فہمی ہوئی سوانح نگاروں کی یہ مبالغہ آمیز تعریفیں محدثین کے فن جرح و تعدیل پر اثر انداز نہ ہوئیں، کسی شخص کا صادق، عابد، متقی، عالم ہونا اور بات ہے، اور ثقہ ہونا اور بات ہے، اگر یہ تمام محاسن بھی ایک شخص میں جمع ہو جائیں، تب بھی ضروری نہیں کہ وہ شخص ثقہ ہو، اور اگر ثقہ ہو بھی جائے، تب بھی لازمی نہیں کہ اس کی روایت کردہ تمام احادیث صحیح ہوں، غلطی کا امکان موجود ہے غلطی پر گرفتار کرنا یہ ایک مستقل فن ہے جس کی بنیاد پر احادیث کو صحیح یا ضعیف کہا جاتا ہے ، کسی شخص کا امام وقت ہونا، محدثین کو مرعوب نہیں کرنا، بہت سے اہل زہد اور اہل خیر حضرات کی غلط بیانی پر محدثین نے گرفت کی، غرض یہ کہ ادنی ادنی بات پر پکڑ کی گئی، اور اس طرح احادیث کی تنقیح عمل میں آئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب فرماتے ہیں:
'' حضرت عبداللہ بن یسار فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تمام صحابہ کو جمع کرکے حکم دیا کہ یہاں سے واپس جانے کے بعد ہر شخص پہلا کام یہ کرے کہ اپنے ذخیرہ احادیث کو جلا ڈالے۔'' (دو اسلام ص ۵۱)
ازالہ
برق صاحب نے اس اثر کا مطلب غلط سمجھا۔ عربی عبارت میں اصل الفاظ '' احادیث علماء ہم'' یعنی علماء کی باتیں ہیں۔ یعنی علماء کے فتوے اور اقوال کو جلانے کا حکم دیا نہ کہ احادیث رسول اللہ کو۔ احادیث علماء سے احادیث رسول آپ نے کیسے سمجھ لیا۔
(۲) دوم یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تو خود احادیث لکھتے تھے، ان کے صحیفہ کا ذکر صحیح بخاری کے حوالہ سے اوپر گزر چکا ہے، لہٰذا عقلاً یہ روایت باطل ہے۔
(۳) قطع نظر اصل مفہوم کے یہ روایت بالکل جھوٹ اور سر تا پاکذب ہے، اس کی سند میں بقیہ راوی قابل وثوق بنیں، اور عبداللہ بن یسار جس کو آپ نے حضرت لکھا ہے مجہول ہے۔ (برق اسلام ص ۱۰۰)
غلط فہمی
برق صاحب لکھتے ہیں:
'' ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کو روایت احادیث کی بنا پر پیٹنے پر نل گئے، اور اس جرم میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، حضرت ابو ذرا رضی اللہ عنہ اورحضرت ابودردا رضی اللہ عنہ جیسے عظیم المرتبت اصحاب کو قید کر دیا تھا۔'' (دو اسلام ص ۵۱)
ازالہ
یہ روایت بھی بالکل جھوٹ ہے، عقلاً بھی اور سنداً بھی۔
(۱) عقلاً اس وجہ سے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابو درداء اور عبادہ بن صامت کو شام بھیجا تھا اور لوگوں کو بھی تاکید کردی تھی کہ ان کی احادیث سے تجاوز نہ کریں، ایسے ہی دوسرے لوگوں کو دوسرے مقامات پر بھیجا اور لوگوں کو وہی تاکید کی۔ (برق اسلام ص ۳۷)
عمار بن یاسر اور ابن مسعود کو کوفہ روانہ فرمایا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خط اہل کوفہ کے نام تھا، اس میں لکھا تھا کہ '' عمار کو تمہارا امیر بنا کر بھیجا ہے، اور ابن مسعود کو وزیر اور معلم، یہ دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برگزیدہ اصحاب اور اہل بدر سے ہیں، تم ان دونوں کی پیروی کرنا، اور ان کی سننا ۔ (برق اسلام ص ۳۸) لہٰذا ان اصحاب کو قید کرنے کی روایت باطل ہے۔
(۲) سنداً یہ روایت باطل ہے، توجیہ النظر میں ہے:
ھذ امرسل ومشکوک فیہ من شعیۃ فلا صیح ولا یجوز الاحتجاج بہ ثم ھو فی نفسہ ظاھر الکذب۔ (برق اسلام ص۳۷)
'' یہ روایت مرسل ہے (یعنی سند متصل نہیں) شعبہ سے مشکوک ہے لہٰذا صحیح نہیں۔ اس سے احتجاج جائز نہیں بلکہ در حقیقت اس کا جھوٹ ہونا بالکل ظاہر ہے۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
'' عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے، جب تمہیں حصول علم کی ضرورت پیش آئے تو قرآن پڑھو، اس لیے کہ اس میں اولین و آخرین کا علم موجود ہے۔ '' (دو اسلام ص ۵۲)
ازالہ
برق صاحب اگر آپ اس کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ ابن مسعود حدیث کو حجت نہیں سمجھتے تھے تو یہ تو قطعاً صحیح نہیں، وہ تو فرمایا کرتے تھے:
لو ترکتم سنۃ نبیکم لضللتم۔
'' اگر تم اپنے نبی کی سنت چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔''
پھر فرماتے ہیں:
ان رسول اللہ ﷺ علمنا سنن الھدی
'' بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو سنن ہدیٰ کی تعلیم دی۔''
بلکہ ابن مسعود تو یہاں تک عقیدہ رکھتے ہیں کہ تمام سنتیں من جانب اللہ ہیں، وہ فرماتے ہیں:
ان اللہ شرع لنبیکم ﷺ سنن الھدی ۔ (مسلم باب صلوٰۃ الجماعۃ)
'' بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سنن ہدی مقرر فرمائی تھیں۔''
بلکہ ابن مسعود کا تو یہ عالم تھا کہ وہ حدیث کو کتاب اللہ سمجھتے تھے، ام یعقوب حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس آئیں، اور کہا:
بلغنی عنک انک لعنت الواشمات والمستوشمات والمتنصات و المتفلجات للحسن المغیرات لخلق اللہ
'' یعنی مجھے خبر ملی ہے کہ تم گودنے والی، گدوانے والی، چہرہ پر سے بال اکھیڑنے والی، خوبصورتی کے لیے دانوں پر سوہن کرنے والی اللہ تعالیٰ کی پیدائش میں تغیر کرنے والی عورت پر لعنت کرتے ہو۔''
حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا:
وما لی لا العن من لعن رسول ﷺ وھو فی کتاب اللہ
'' یعنی میں کیوں نہ اس پر لعنت کروں، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہو اور کتاب اللہ میں بھی ہو۔''
اس عورت نے کہا:
لقد قرأت ما بین الوحی المصعت فما وجدتہ
'' میں نے پورا قرآن پڑھا ہے مگر اس میں تو یہ نہیں ہے۔''
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
لئن کنت قرآنیہ لقد وجدتیہ قال اللہ عزوجل ما اتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا
'' اگر تو نے قرآن پڑھا ہوتا تو تجھے یہ بات مل جاتی اللہ عزوجل فرماتا ہے،جو رسول حکم دے اس پر عمل کرو اور جس سے منع کرے باز رہو۔''
اس عورت نے کہا تمہاری بیوی میں بھی یہ بات موجود ہے، انہوں نے کہا جاؤ اور دیکھو، وہ گئی اور اس کو ان کی بیوی میں اس قسم کی کوئی بات نظر نہیں آئی، پھر واپس آئی اور کہا مجھے ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی، ابن مسعود نے کہا:
امالو کان ذلک لم نجا معھا ۔ (بخاری مسلم تحریم فعل الواصلۃ)
'' یعنی اگر ایسا ہوتا تو ہم اس کو اپنے ساتھ کیسے رکھ سکتے تھے۔''
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ تو ہر حدیث کو کتاب اللہ سمجھتے تھے اور اس پر سختی سے عمل کرتے تھے اور عمل کراتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
ایک شخص نے ابی بن کعب سے کہا، مجھے کوئی نصیحت کیجئے، فرمایا کتاب اللہ کو ہاتھ میں لو، اور صرف اسی کی فیصلوں پر عمل کرو۔ (دو اسلام ص ۵۳)
ازالہ
اولاً: حضرت ابی بن کعب کا مطلب وہ نہیں جو برق صاحب سمجھتے ہیں، قرآن تو خود اتباع رسول اور اسوہ رسول اور اطاعت رسول کی طرف دعوت دیتا ہے، بلکہ یہاں تک فرماتا ہے:
فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک۔ (سورہ نساء)
'' یعنی تیرے رب کی قسم لوگ مومن نہیں ہوسکتے جب تک تیرے فیصلہ کو تسلیم نہ کریں۔''
لہٰذا صرف کتاب اللہ کو پکڑ لینے کے یہ معنی ہوئے کہ جو کچھ کتاب اللہ میں ہے اس پر عمل کیا جائے اور کتاب اللہ میں فیصلہ رسول ماننے کا حکم موجود ہے، لہٰذا بنیادی طور پر کتاب اللہ کافی ہے اور اس کے ذریعہ سے اسوہ رسول کا اتباع لازمی ہے۔
ثانیاً: ابی بن کعب کی اصل عبارت میں لفظ '' صرف'' نہیں ہے، یہ ترجمہ میں برق صاحب نے اضافہ کردیا۔
ثالثاً: کتاب اللہ سے مراد صرف قرآن ہی نہیں ہوتا، بلکہ قرآن اور حدیث دونوں ہوتے ہیں، اور یہ گذشتہ اوراق میں ثابت کیا جاچکا ہے۔ اور ابن مسعود کی حدیث مذکورہ بالا بھی اس پر شاہد ہے، لہٰذا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے الفاظ سے حجیت حدیث پر کوئی اثر نہیں پڑتا،متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ وہ احادیث کو حجت سمجھتے تھے، اور ان پر عمل کرتے تھے۔
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
حضرت عبداللہ بن عباس سینکڑوں احادیث کے راوی ہیں، لیکن علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ رحلت رسول کے وقت آپ کی عمر صرف ۱۳ برس کی تھی، تیرہ برس کا بچہ بے حد غیر ذمہ دار ہوتا ہے، اسے کیا خبر کہ نبی دنیا میں کیوں آتا ہے، اس کے اقوال کو کیا اہمیت حاصل ہوتی ہے، اور اگر ان اقوال میں رد و بدل کردیا جائے، تو کیا قبائح پیدا ہوتے ہیں، اس طرح کے غیر ذمہ دار بچے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں اسناد کی کوئی کڑی قائم نہ کرنا، اور خود انہیں عاقل ، بالغ اور ثقہ سمجھ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا واسطہ روایت کے قابل قرار دینا درست نہیں۔ (دو اسلام ص ۵۳)
ازالہ
برق صاحب کو اس بات کا اعتراف ہے کہ نبی دنیا میں ایک عظیم الشان مقصد کے لیے آتا ہے اس کے اقوال کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے اور اگر ان اقوال میں رد و بدل کردیا جائے، تو بڑے بڑے قبائح پیدا ہوتے ہیں، برق صاحب جب بات یہ ہے تو نبی کے اقوال لازماً دین ہونے چاہئیں، ورنہ اہمیت ختم ہو جائے گی اور رد و بدل سے قبائح پیدا نہیں ہوں گے۔
برق صاحب تیرہ سال کا بچہ اس زمانہ میں جب کہ حافظہ کا قحط ہے، چھ چھ، سات سات مضامین میں میٹرک کا امتحان پاس کرسکتا ہے۔ ریاضی، سائنس وغیرہ کے بڑے بڑے دقیق مسئلے اور مشکل سوالات حل کرسکتا ہے، بڑی بڑی ضخیم کتابیں پڑھ کر امتحان دے سکتا ہے، بلکہ چھ ، سات سال کی عمر میں پورا قرآن حفظ کرسکتا ہے، تو کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صحبت یافتہ تیرہ سال کا بچہ اتنا بھی نہیں کرسکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کو حفظ کرسکے، یہ بتا سکے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح وضو کرتے تھے، کس طرح نماز پڑھتے تھے، کس طرح یہ کام کرتے تھے، وہ کام کرتے تھے، یہ تو بہت آسان ہے، اس پر تعجب کیوں ہے، یہ تو وہ بچہ ہے جس کی قدر و منزلت کے فاروق اعظم معترف تھے، مشیر خاص کی حیثیت سے ارکان شوری میں جگہ دیتے تھے، لوگوں نے اعتراض بھی کیا، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عملاً اس بچہ کی علمی قابلیت کو ان پر ثابت کردیا، تمام لوگوں کا امتحان لیا، لیکن کوئی صحابی صحیح جواب نہ دے سکا، صحیح جواب دیا، تو اسی تیرہ سالہ بچہ نے جہاں ان بزرگوں کی سمجھ کی رسائی نہ ہوسکی، وہاں اس بچہ کے فہم کی رسائی ہوئی، اور وہ معترض بھی معترف ہوگئے۔ ملاحظہ فرمائیے۔ صحیح بخاری تفسیر اذاجاء نصر اللہ
دوسری بات یہ ہے کہ ابن عباس نے تحصیل علم میں کبھی پہلوتہی نہیں کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زیادتی علم کے لیے دعا کی، وہ خود صحابہ کے گھر پر جاتے اور ان سے احادیث حاصل کرتے تھے، اور پھر ان ہی سے روایت کرتے تھے، لہٰذا ان کی روایت میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
ایک مرتبہ کاتب وحی حضرت زید بن ثابت معاویہ کے دربار میں گئے، انہوں نے احادیث کی فرمائش کی آپ نے چند احادیث سنائیں، اور منشی دربار ساتھ ساتھ لکھتا گیا، آپ نے وہ کاغذ لے کر چیر ڈالا اور فرمایا کہ رسول اللہ نے احادیث لکھنے سے منع فرمایا تھا۔ (دو اسلام ص ۵۳)
ازالہ
یہ روایت صحیح نہیں، اس کا راوی کثیر بن عبداللہ ضعیف ہے (تذکرۃ الموضوعات ص ۲۸۶)لابن طاہر فتنی دوسرا راوی مطلب بن عبداللہ ہے، وہ بھی ضعیف ہے (برق اسلام ص ۹۰) بھلا جس سند میں دو راوی ضعیف ہوں وہ کس طرح قابل اعتماد ہوسکتی ہے، مزید برآں توجیہ النظر میں ہے کہ حضرت زید بن ثابت نے خود فرائض کے متعلق ایک کتاب لکھی تھی (برق اسلام ص ۹۱) لہٰذا یہ روایت جو برق صاحب نے نقل فرمائی ہے بالکل گھڑنت ہے۔
غلط فہمی
اسود بن بلال کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس ایک بیاض یا کتاب لے کر گیا۔ جس میں کچھ احادیث درج تھیں آپ نے پانی منگوا کر پہلے اس کتاب کو دھویا اور پھر جلا دیا۔ (دو اسلام ص۵۴)
ازالہ
یہ روایت بالکل کذب و افترا ہے، ابن عبدالبر نے اس کو ابن ابی شیبہ سے روایت کیا ہے اور ان دونوں کے درمیان کئی واسطے گم ہیں (برق اسلام ص ۱۰۲) پھر ابن ابی شیبہ سے اوپر بھی دو جگہ لفظ'' عن'' سے روایت ہے۔ لہٰذا دو مزید مقامات پر شبہ انقطاع ہے (برق اسلام ص ۱۰۲) عقلاً بھی یہ محال ہے ، اس لیے کہ عبداللہ بن مسعود نے خود ایک کتاب لکھی تھی۔ (جامع بیان العلم لابن عبدالبر ص۱۷۰)
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
ضحاک بن مزاحم فرمایا کرتے تھے، وہ زمانہ جلد آرہا ہے، جب احادیث کی کثرت ہو جائے گی لوگ کتاب الٰہی کو ترک کر دیں گے۔ مکڑیاں اس پر جا لے تنیں گی۔ (دو اسلام ص ۵۴)
ازالہ
برق صاحب آج تک تو ایسا ہوا نہیں سنیے ، یہ روایت سر تا پا جھوٹ ہے، بہتان عظیم ہے، اس کی سند میں سیف بن ہارون برجمی ضعیف، متروک الروایات ہے، امام ابن حبان کہتے ہیں، یہ جھوٹی روایتیں نقل کرتا ہے، دوسرا راوی احمد بن ہارون کذاب ہے۔ (برق اسلام ص ۶۲)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب نے ص۵۵ پر ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا وہ واقعہ دوبارہ نقل فرمایا ہے، جس میں ہے کہ انہوں نے احادیث کو دھو ڈالا تھا۔
ازالہ
اس کا جواب پہلے گزر چکا ہے، یہ روایت جھوٹ ہے، اس کی سند میں سے کئی راوی غائب ہیں۔
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
جریر بن عبدالحمید کہتے ہیں کہ منصور مغیرہ اور الاعمش جیسے محدثین کی کتابت حدیث کو گناہ سمجھتے تھے۔ (ص۵۵)
ازالہ
یہ روایت بھی بالکل جھوٹی ہے اس کی سند میں عبدالرحمن بن یحییٰ اور عمر بن محمد حجمی مجہول اور نامقبول ہیں، علی بن عبدالعزیز اور اسحاق بن اسمٰعیل طانفانی مجروح ہیں۔(برق اسلام ص ۱۰۷) ظلمات بعضہا فوق بعض۔
غلط فہمی
قرظہ بن کعب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم عراق کو روانہ ہوئے، حضرت عمر مقام حرا تک ہمارے ساتھ آئے وہاں نماز ادا کی، پھر فرمایا، دیکھو میں ایک نہایت اہم بات کہنے کے لیے تمہارے ہمراہ یہاں آیا ہوں، اور وہ یہ کہ عراق کی سرزمین سے تلاوت قرآن کی سریلی آوازیوں اٹھ رہی ہے، جیسے چھتے کے اردگرد شہد کی مکھیاں، بھنبھنا رہی ہوں، خدا کے لیے انہیں احادیث میں پھنسا کر قرآن سے دور نہ پھینکنا ۔ (دو اسلام ص ۵۶)
ازالہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اصل الفاظ عربی میں اس طرح منقول ہیں:
لھم دوی بالقرآن کدوی النحل فلا تصدقولھم بالاحادیث فتشغلوھم جردوا القرآن واقدوا الروایۃ عن رسول اللہ ﷺ وانا شریککم۔ (برق اسلام ص۳۵، ابن ماجہ ص۱۶،۱ نخوہ)
'' یعنی عراق کے لوگ اس طرح قرآن پڑھنے میں مشغول ہیں جس طرح شہد کی مکھیاں بھنبھناتی ہیں ان کو باتوں میں مشغول نہ کرنا قرآن مجید کو علیحدہ رکھنا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث تھوڑی تھوڑی بیان کرنا اور اس میں میں بھی تمہداً شریک ہوں۔''
غالباً برق صاحب نے پوری عبارت ملاحظہ نہیں فرمائی، ورنہ غلط فہمی نہ ہوتی، احادیث سے مراد یہاں محض باتیں قصہ ، کہانیاں ہیں، جیسا کہ قرآن میں ہے '' وجعلنا ھم احادیث'' یعنی ان تباہ شدہ قوموں کو ہم نے کہانیاں بنا دیا، احادیث سے مراد یہاں کہانیاں ہیں، اس پر یہ قرینہ ہے کہ اس ہی عبارت میں آگے فاروق اعظم نے یہ فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث تھوڑی تھوڑی بیان کرنا، یعنی احادیث رسول اللہ کو بیان کرنے کا حکم دیا تھا، مگر تھوڑی تھوڑی اور اس معاملہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حدیث ہی پر عمل کیا، خود سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، اور منبر پر کھڑے ہو کر فرماتے ہیں:
ایاکم وکثرۃ الحدیث عنی فمن قال علی فلیقل وصدقاً (ابن ماجہ باب التغلیظ فی تعد الکذب)
'' یعنی خبردار مجھ سے کثرت سے حدیث مت بیان کرو، پھر جو کوئی حدیث بیان کرے تو بالکل ٹھیک اور سچ اور صحیح بیان کرے۔''
جو حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر عمل کیا اور کرایا، اور اس میں یہ مصلحت ہے کہ تھوڑا تھوڑا بیان کرنے سے باتیں حافظہ میں جڑ پکڑ لیتی ہیں ، مثلاً پورا قرآن ایک مرتبہ نازل نہیں ہوا، اللہ تعالیٰ نے اس کی مصلحت خود بیان فرمائی ہے:
{ وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً کَذٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلًا } (الفرقان)
'' یعنی کافر کہتے ہیں کہ پورا قرآن اس پر ایک ہی دفعہ میں کیوںنہ نازل کردیا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس کو آپ کے دل پرنقش کریں اور ہم نے تھوڑا تھوڑا ہی پڑھا ہے۔''
یہاں تک تو اس روایت کا جواب اسی روایت سے دیا گیا، اب سنیے:
(۲) یہ روایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر بہتان ہے، اس کی سند منقطع ہے شعبی اور قرظہ بن کعب کی ملاقات نہیں ہوئی، اور شعبی نے اس کو قرظہ سے روایت کیا ہے، لہٰذا روایت ہی سراسر بہتان ہے (برق اسلام ص ۳۶)
(۳) عقلاً بھی یہ محال ہے، اس لیے کہ عراقی برائے نام مسلمان تھے نہ انہیں قرآن سے محبت تھی نہ حدیث سے، وہ فتنہ پرور اور دین کے دشمن تھے۔ (ملاحظہ ہو کتب حدیث و کتب تاریخ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
رحلت حضور سے صرف تین برس پہلے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مشرف باسلام ہوئے تھے لیکن روایات احادیث میں سب سے بازی لے گئے۔ (دو اسلام ص ۵۶)
ازالہ
اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں، اس کا جواب انہوں نے خود دے دیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ مہاجرین و انصار اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے تھے اور میں ہمہ اوقات حضور کے ساتھ رہتا تھا، لہٰذا جو کچھ وہ نہ سن سکے میں نے سن لیا۔ (صحیح بخاری)
غلط فہمی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے متعلق برق صاحب لکھتے ہیں:
ایک مرتبہ پٹے بھی، لیکن روایت سے باز نہ آئے، واقعہ یوں ہے کہ آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں تشریف لے گئے، حضور نے فرمایا کہ اے ابوہریرہ جا اور ہر اس شخص کو جنت کی بشارت دے دے جس نے زبان سے لا الہ کہہ دیا ہو ابوہریرہ باہر نکلے، تو سب سے پہلے حضرت عمر بن الخطاب سے ملاقات ہوئی، اور یہ بشارت سنائی، عمر رضی اللہ عنہ نے ابوہریرہ کو ایک زور کا تھپڑ رسید کیا، ابوہریرہ روتے ہوئے دربار رسالت میں پہنچے، پیچھے پیچھے عمر رضی اللہ عنہ بھی پہنچ گئے، حضور نے پوچھا اسے کیوں پیٹا ہے، کہا کیا آپ نے صرف لا الہ کہنے پر جنت کی بشارت دی ہے، فرمایا ہاں، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ازراہ نوازش ایسا نہ کیجئے ورنہ تمام لوگ اعمال ترک کردیں گے فخلھم یعملون (آپ لوگوں کو کام کرنے دیں) حضور نے فرمایا تو بہت اچھا، لوگوں کو کہہ دو کہ کام کریں۔ (دو اسلام ص ۵۶۔ ۵۷)
ازالہ
برق صاحب اصل واقعہ تو اس طرح نہیں، جس طرح آپ نے نقل فرمایا ہے آپ نے صحیح مسلم کا حوالہ دیا ہے، اور اسی سے میں اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتا ہوں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرہ سے فرمایا:
من یشھد ان لا الہ الا اللہ مستیقنا بھا قلبہ فبشرہ بالجنۃ ۔ (مسلم)
یعنی جو شخص اس بات کی شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی حاکم و معبود نہیں اور اس پر اسے دلی یقین ہو تو اس کو جنت کی بشارت دو۔
یعنی صرف زبان سے کہنا کافی نہیں بلکہ دلی یقین ہونا بھی شرط ہے، برق صاحب حدیث کا یہ ٹکڑا بالکل قرآن کے مطابق ہے، قرآن میں ہے:
{ اِنَّ الَّذیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمْ الْمَلٰٓئِکَۃُ الاَّ تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ } (فصلت)
یعنی جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور اسی پر جمے رہے ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور تم کو خوشخبری ہو اس جنت کی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔
لہٰذا برق صاحب کا یہ فرمانا کہ '' کتنی دلچسپ حدیث ہے، صرف دو لفظ لا الہ منہ سے نکالو، اور جنت لے لو، نہ صوم و صلوۃ کی ضرورت ، نہ میدان جہاد میں لہو بہانے کی حاجت'' (دو اسلام ص ۵۷) دراصل قرآن پر اعتراض ہے۔ کیونکہ قرآن میں بھی یہی ہے کہ صرف دو لفظ '' ربنا اللہ'' منہ سے نکالو، اور جنت لے لو، آیت میں جو کلمہ '' ثم استقاموا'' ہے وہ بالکل حدیث کے الفاظ '' مستیقنا بہا قلبہ'' کے قائم مقام ہے یعنی دل میں یہ چیز بیٹھ گئی کہ اللہ ہی الہ ہے، دوسرا کوئی نہیں، تو پھر جنت مل گئی، استقامت اور ایقان قلبی یہی وہ چیزیں ہیں جو خود اعمال کی طرف دعوت دیتی ہیں، اور ان ہی چیزوں کی موجودگی میں عمل کا موجود ہونا لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہٰذا نہ حدیث میں عمل کی نفی ہے، نہ آیت میں، ہاں غلط فہمی ہوسکتی ہے۔
یہ حدیث بیان کرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس خوشخبری کا اعلان کرنے کے لیے روانہ کیا، جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روانہ ہوئے، تو سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے وہ بشارت سنائی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے سینہ پر ہاتھ مارا، جس سے وہ گر پڑے، پھر فرمایا اے ابوہریرہ واپس چلو، برق صاحب نے ان الفاظ سے یہ سمجھا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پٹ گئے، حالانکہ سینہ پر ہاتھ مارنے کی غرض مارنا نہیں تھی، بلکہ واپس چلنے کے لیے تنبیہ تھی، یہ دوسری بات ہے کہ وہ اس قوت کو برداشت نہ کرسکے، کیونکہ اکثر اوقات بھوکا رہنے کی وجہ سے وہ بہت کمزور تھے، انہوں نے فاقہ کشی اور اس کی وجہ سے اکثر اوقات خود بخود گر جانے کو خود ہی بیان کیا ہے (کتب حدیث) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نیت ان کو گرانے یا زد و کوب کرنے کی نہ تھی، اور اسی وجہ سے دربار رسالت میں اس بات پر جواب طلب نہ ہوا، نہ قصاص لیا گیا، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے قرآن میں مذکور ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے ایک تھپڑ مار کر ایک قبطی کو قتل کردیا، موسیٰ علیہ السلام کی نیت قتل کرنے کی نہ تھی، لیکن یہ اتفاق کی بات ہے کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کے تھپڑ کی تاب نہ لاسکا اور مر گیا، اور اگر ہم یہ بھی فرض کرلیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابوہریرہ کو احادیث کی روایت پر مارا کرتے تھے تو پھر یہ قصور حضور عمر رضی اللہ عنہ کا ہوا نہ کہ حضرت ابوہریرہ کا اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کی روایت پر مارا، جو حقیقتاً صحیح تھی، اور صحیح بات کے بیان پر مارنا مارنے والے کا قصور ہے نہ کہ بیان کرنے والے کا قصور ہے نہ کہ بیان کرنے والے کا لیکن برق صاحب اس کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قصور کے اثبات میں نقل فرما رہے ہیں، اور یہی غلط فہمی ہے۔
الغرض حضرت ابوہریرہ واپس ہوئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شکایت کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، اے عمر رضی اللہ عنہ تم انہیں کیوں لے آئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ کیا آپ نے اس بشارت کا اعلان کرنے ابوہریرہ کو بھیجا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ایسا نہ کیجئے، مجھے ڈر ہے کہ کہیں لوگ اس پر بھروسہ نہ کرلیں آپ انہیں چھوڑ دیجیے تاکہ عمل کرتے رہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا انہیں چھوڑ دو۔ (صحیح مسلم)
یہ حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دونوں نے سنی، لیکن ان میں سے کسی نے نہ نماز چھوڑی نہ جہاد، اس لیے کہ وہ اس حدیث کی صداقت کے ساتھ اس کی منشا سے بھی واقف تھے ، بلکہ اسی مضمون کی حدیث متعدد صحابہ سے مروی ہے، ان میں سے کوئی بھی تارک الصلوٰۃ تھا نہ تارک الجہاد، ان کو اس حدیث نے غلط فہمی میں مبتلا نہ کیا تھا، بلکہ وہ اس کی رمز سے واقف تھے، برق صاحب کو غلط فہمی ہوئی، اور وہی غلط فہمی ہوئی، جس کا اندیشہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ہوا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس غلط فہمی کو دور کرنے کی سعی کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مشورہ کو قبول فرما کر اصل غلط فہمی کے انسداد کے لیے اشاعت عام سے روک دیا ، تاکہ نا اہل اور نافہم لوگ گمراہ نہ ہو جائیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
اس حدیث پر مزید اعتراض کرتے ہوئے برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
مذہب کے معاملہ میں حضرت عمر سرور کائنات کی راہ نمائی فرما رہے ہیں۔ (دو اسلام ص ۵۷)
ازالہ
برق صاحب ہر کام کی ایک مصلحت ہوا کرتی ہے ہوسکتا ہے کہ ہماری عقل کی رسائی وہاں تک نہ ہو اس حدیث کی اشاعت اور پھر اس کی روک تھام میں کیا مصلحت تھی، اللہ ہی جانتا ہے، مشورہ آپ نے اس لیے قبول فرمایا کہ اس کی مصلحت کوآپ بھی جانتے تھے، مشورہ کو قبول کرنے سے ایک چھوڑ دو دینی سنتوں کا قائم کرنا مقصود تھا۔
(۱) اگر کسی خبر کی اشاعت سے لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہونے کا اور اس کی وجہ سے گمراہ ہونے کا خوف ہو، تو اس خبر کی اشاعت خلاف سنت ہوگی۔
(۲) دوسرے یہ کہ اگر کوئی کم درجہ کا آدمی بھی کوئی صحیح مشورہ دے تو اس کے مشورہ کو قبول کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کرنا چاہیے۔ اور اگر ایسے موقع پر کوئی شخص صحیح مشورہ قبول نہ کرے، تو وہ سنت کا مخالف ہوگا۔ بلکہ اس کا یہ فعل تکبر اور ہٹ دھرمی کی تعریف میںآئے گا۔
غرض یہ کہ کم از کم دو سبق تو ہمیں اس حدیث سے ملتے ہی ہیں۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس حدیث کو بیان ہی نہ کرتے تو نہ یہ حدیث علماء راسخین کو ملتی نہ یہ اسباق حاصل ہوتے، اب رہا یہ اعتراض کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جس نتیجہ پر پہنچے، خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس تک نہ پہنچ سکے، یہ بھی صحیح نہیں ہم یہ نہیں کہتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو نہ جانتے تھے، ضرور جانتے تھے، لیکن مشورہ کی سنت کو قائم کرنا بھی ضروری تھا، اور یہ معاملہ اسی طرح مقدر تھا، اور اسی طرح اللہ کو منظور تھا، اس کی مثال قرآن سے سنیے اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں کیا ہے، لیکن پھر بھی پوچھتا ہے۔
وَمَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ یَا مُوْسٰی
'' اے موسیٰ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟''
یہاں موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے کہلوانا مقصود تھا، اس سے اللہ تعالیٰ کی لا علمی ثابت نہیں ہوتی، ہاں اس میں کوئی مصلحت ضرور تھی، جس کو اللہ ہی خوب جانتا ہے اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، ہمیں اختیار نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں دخل دیں، اور اس کی مصلحتوں کی بے ضرورت چھان بین کریں اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے قرآن مجید کی مزید چند آیات درج ذیل ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کا واقعہ قرآن مجید میں مذکور ہے، اس قصہ میں ہے کہ حضرت خضر نے ایک معصوم بچے کو قتل کر ڈالا، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بطور اعتراض فرمایا۔
اقتلت نفسا زکبۃ بغیر نفس لقد جئت شیئا نکرا
یہ آپ نے کیا کیا؟ کہ ایک معصوم لڑکے کو بغیر کسی قصاص کے قتل کردیا یہ تو آپ نے بہت ہی برا کام کیا۔
انہوں نے اس اعتراض کا جو کچھ جواب دیا، اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں سنیے:
{ اَمَّا الْغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَآ اَنْ یُّرْھِقَھُمَا طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا }
اس لڑکے کو اس لیے قتل کیا گیا کہ اس کے ماں باپ مومن تھے پس ہم ڈرے کہ کہیں وہ ان دونوں کو سرکشی میں مبتلا نہ کردے۔
ان قرآنی آیات پر بھی طرح طرح کے اعتراض وارد ہوتے ہیں، مثلاً بے جرم کسی معصوم بچے کو قتل کرنا انتہائی ظلم ہے، اور اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے:
{ وَاَنَّ اللہَ لَیْسَ بِظَلَامٍ لِلْعَبِیْدِ }
اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظالم نہیں ہے۔
 
Top