ماں کی دعا
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 08، 2012
- پیغامات
- 74
- ری ایکشن اسکور
- 136
- پوائنٹ
- 32
محترم حسن صاحب!
آپ شکایت کریں گے کہ میں نے ایک ہی جملہ کو تکیہ کلام بنایا ہوا ہے کہ" آپ دھوکہ دیتے ہیں یا خود دھوکہ کھائے بیٹھے ہیں"
آپ اپنے عقیدہ کی بنیاد پر فرماتے ہیں " تقلید حرام ہے" کوئی تقلید کو شرک کہتا ہے۔ کوئی تقلید کو فساد کی بنیاد قرار دیتا ہے۔
شیخ صاحب فرماتے ہیں تقلید واجب نہیں اور وہ بھی بڑی احتیاط کے ساتھ ۔۔۔لیکن آپ لوگ شیخ صاحب کی عبارت سے ایک باطل اور من گھڑت مفہوم تراش کر اسے حرام، شرک ، فساد کی جڑ بنادیتے ہیں۔
اگر دل میں ذرہ برابر بھی رب العالمین کا خوف ہوتا تو ضرور اپنی بات پر شرمندگی ہوتی،
ایک عالم دین فتوی دیتا ہے ڈاڑھی واجب ہے، دوسرا عالم دین فتوی جاری کرتا ہے ڈاڑھی رکھنا واجب نہیں،
کوئی غیر مقلد دوسرے فتوی کو لے کر شور شرابہ مچادے کہ ڈاڑھی رکھنا حرام ہے، شرک ہے، فساد کی جڑ ہے ( العیاذ باللہ)
خود فیصلہ کریں فساد، جھگرا، انتشار کہاں سے ہے؟؟؟؟؟؟
يہ مشہور مذاہب اربعہ كى صورت ميں ہے: يعنى حنفى، مالكى، شافعى اور حنبلى مسلكوں پر لوگوں كا لازم رہنے ميں بذاتہ ان مسالك كا بہت بڑا دخل ہے، كيونكہ اس سلسلہ ميں لوگ جن قوانين اور اصول قواعد پر عمل كرتے ہيں، اور مساجد و مدارس ميں جو تعليمى منہج مقرر ہے، علمى ميدان كے مراتب جن ميں علوم فقہ اور شريعت كے ماہر افراد بتدريج چلتے ہيں، اور وہ ورثہ جس كا عوام كے ذہنوں ميں مستقر ہونا ضرورى ہے جو ان كى فقہى ثقافت كى تشكيل كرے، اور اكثر مسائل كى سرچ كرنے كى فرصت نہ ركھنے اور اس ميں كسى نتيجہ پر نہ پہنچے والے مجتہدين كے ليے سيراب ہونے كى جگہ، اور معاشرے ميں نزاع و اختلاف كى بيخ كنى كرنے كا ضابطہ، اور شاذ قسم كى آراء و خواہشات كا دروازہ بند اس سے ہو سكتا ہے كہ مذاہب اربعہ كى طرف رجوع كيا جائے اور اتباع و پيروى اختيار كى جائے.
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اللہ كى حكمت كہ اس كے دين كى حفاظت و ضبط اس طرح ہوئى كہ: لوگوں كے ليے آئمہ كرام كھڑے كيے جن كا علم و فضل اور درايت احكام و فتوى ميں انتہائى درجہ كو پہنچا ہوا ہے، وہ آئمہ اہل رائے ميں بھى ہوئے اور اہل حديث ميں بھى، اس طرح سب لوگ ان كے فتاوى پر چلنے لگے، اور احكام معلوم كرنے كے ليے ان آئمہ كرام كى طرف رجوع كرتے ہيں.
اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے ايسے افراد پيدا كيے جنہوں نے ان كے مذاہب احاطہ تحرير ميں لايا اور ان كے قواعد لكھے حتى كہ ہر ايك امام كا مسلك اور اس كے اصول و قواعد اور فصول مقرر كر ديے كہ احكام معلوم ہوں اور حلال و حرام كے مسائل معلوم ضبط كيے جا سكيں.
يہ اللہ تعالى كى اپنے بندوں پر مہربانى و رحمت تھى اور اس دين كى حفاظت ميں ايك اچھا احسان تھا، اگر يہ نہ ہوتا تو لوگ ہر احمق كى جانب سے عجيب و غريب اشياء ديكھتے جو بڑى جرات كے ساتھ اپنى احمقانہ رائے لوگوں كے سامنے بيان كرتا پھرتا، اور اس رائے پر فخر بھى كرتا، اور امت كے امام ہونے كا دعوى كر ديتا، اور يہ باور كراتا كہ وہ اس امت كا راہنما ہے، اور لوگوں كى اسى كى طرف رجوع كرنا چاہيے، كسى اور كى جانب نہيں.
ليكن اللہ كا فضل اور اس كا احسان ہے كہ اس نے اس خطرناك دروازے كو بند كر ديا، اور ان عظيم خرابيوں كى جڑ سے كاٹ پھينكا، اور يہ بھى اللہ كى اپنے بندوں پر مہربانى ہے.
لكن اس كے باوجود ايسے افراد اب تك ظاہر ہوتے اور سامنے آتے رہتے ہيں جو اجتھاد كے درجہ تك پہنچنے كا دعوى كرتے، اور ان آئمہ اربعہ كى تقليد كيے بغير علم ميں باتيں كرتے ہيں، اور باقى سارے لوگ جو اس درجہ تك نہيں پہنچے انہيں ان چاروں كى تقليد كيے بغير كوئى چارہ نہيں، بلكہ جہاں سارى امت داخل ہوئى ہے انہيں بھى داخل ہونا ہو گا. انتہى
ديكھيں: الرد على من اتبع غير المذاہب الاربعۃ ( 2 / 624 )
محترم حسن صاحب! ذرا آنکھیں کھول کر اور جاگ .اسے بگور پڑھیں، پھر اپنے عقیدہ پر غور و فکر کریں ، انشائ اللہ ضرور شرمندگی ہوگی اور توبہ کا دروازہ ابھی بھی کھلا ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔
آپ شکایت کریں گے کہ میں نے ایک ہی جملہ کو تکیہ کلام بنایا ہوا ہے کہ" آپ دھوکہ دیتے ہیں یا خود دھوکہ کھائے بیٹھے ہیں"
شیخ صاحب فرماتے ہیں آئمہ اربعہ میں سے ایک کی تقلید واجب نہیں۔ ٹھیک ؟حیرانی کی بات یہ ھے کہ جب شیخ نےمذاھب اربعہ کی اتباع کو واجب ہی نہیں کہا
آپ اپنے عقیدہ کی بنیاد پر فرماتے ہیں " تقلید حرام ہے" کوئی تقلید کو شرک کہتا ہے۔ کوئی تقلید کو فساد کی بنیاد قرار دیتا ہے۔
شیخ صاحب فرماتے ہیں تقلید واجب نہیں اور وہ بھی بڑی احتیاط کے ساتھ ۔۔۔لیکن آپ لوگ شیخ صاحب کی عبارت سے ایک باطل اور من گھڑت مفہوم تراش کر اسے حرام، شرک ، فساد کی جڑ بنادیتے ہیں۔
اگر دل میں ذرہ برابر بھی رب العالمین کا خوف ہوتا تو ضرور اپنی بات پر شرمندگی ہوتی،
ایک عالم دین فتوی دیتا ہے ڈاڑھی واجب ہے، دوسرا عالم دین فتوی جاری کرتا ہے ڈاڑھی رکھنا واجب نہیں،
کوئی غیر مقلد دوسرے فتوی کو لے کر شور شرابہ مچادے کہ ڈاڑھی رکھنا حرام ہے، شرک ہے، فساد کی جڑ ہے ( العیاذ باللہ)
خود فیصلہ کریں فساد، جھگرا، انتشار کہاں سے ہے؟؟؟؟؟؟
2 - مراجع التراثيہ:اس پورے مضمون میں آئمہ اربعہ کی حقانیت کو بیان کرنے کے ساتھ ان میں سے کسی ایک کی تقلید کو لازم قرار دینے کی دعوت پر زور دے رہا تھا اور کس نے اور اس سے باہر نکلنے والے کو غلط کہا"-[/COLOR]
یہ اشارہ شیخ المنجد کی طرف ہے یا اللجنۃ کی طرف؟
يہ مشہور مذاہب اربعہ كى صورت ميں ہے: يعنى حنفى، مالكى، شافعى اور حنبلى مسلكوں پر لوگوں كا لازم رہنے ميں بذاتہ ان مسالك كا بہت بڑا دخل ہے، كيونكہ اس سلسلہ ميں لوگ جن قوانين اور اصول قواعد پر عمل كرتے ہيں، اور مساجد و مدارس ميں جو تعليمى منہج مقرر ہے، علمى ميدان كے مراتب جن ميں علوم فقہ اور شريعت كے ماہر افراد بتدريج چلتے ہيں، اور وہ ورثہ جس كا عوام كے ذہنوں ميں مستقر ہونا ضرورى ہے جو ان كى فقہى ثقافت كى تشكيل كرے، اور اكثر مسائل كى سرچ كرنے كى فرصت نہ ركھنے اور اس ميں كسى نتيجہ پر نہ پہنچے والے مجتہدين كے ليے سيراب ہونے كى جگہ، اور معاشرے ميں نزاع و اختلاف كى بيخ كنى كرنے كا ضابطہ، اور شاذ قسم كى آراء و خواہشات كا دروازہ بند اس سے ہو سكتا ہے كہ مذاہب اربعہ كى طرف رجوع كيا جائے اور اتباع و پيروى اختيار كى جائے.
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اللہ كى حكمت كہ اس كے دين كى حفاظت و ضبط اس طرح ہوئى كہ: لوگوں كے ليے آئمہ كرام كھڑے كيے جن كا علم و فضل اور درايت احكام و فتوى ميں انتہائى درجہ كو پہنچا ہوا ہے، وہ آئمہ اہل رائے ميں بھى ہوئے اور اہل حديث ميں بھى، اس طرح سب لوگ ان كے فتاوى پر چلنے لگے، اور احكام معلوم كرنے كے ليے ان آئمہ كرام كى طرف رجوع كرتے ہيں.
اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے ايسے افراد پيدا كيے جنہوں نے ان كے مذاہب احاطہ تحرير ميں لايا اور ان كے قواعد لكھے حتى كہ ہر ايك امام كا مسلك اور اس كے اصول و قواعد اور فصول مقرر كر ديے كہ احكام معلوم ہوں اور حلال و حرام كے مسائل معلوم ضبط كيے جا سكيں.
يہ اللہ تعالى كى اپنے بندوں پر مہربانى و رحمت تھى اور اس دين كى حفاظت ميں ايك اچھا احسان تھا، اگر يہ نہ ہوتا تو لوگ ہر احمق كى جانب سے عجيب و غريب اشياء ديكھتے جو بڑى جرات كے ساتھ اپنى احمقانہ رائے لوگوں كے سامنے بيان كرتا پھرتا، اور اس رائے پر فخر بھى كرتا، اور امت كے امام ہونے كا دعوى كر ديتا، اور يہ باور كراتا كہ وہ اس امت كا راہنما ہے، اور لوگوں كى اسى كى طرف رجوع كرنا چاہيے، كسى اور كى جانب نہيں.
ليكن اللہ كا فضل اور اس كا احسان ہے كہ اس نے اس خطرناك دروازے كو بند كر ديا، اور ان عظيم خرابيوں كى جڑ سے كاٹ پھينكا، اور يہ بھى اللہ كى اپنے بندوں پر مہربانى ہے.
لكن اس كے باوجود ايسے افراد اب تك ظاہر ہوتے اور سامنے آتے رہتے ہيں جو اجتھاد كے درجہ تك پہنچنے كا دعوى كرتے، اور ان آئمہ اربعہ كى تقليد كيے بغير علم ميں باتيں كرتے ہيں، اور باقى سارے لوگ جو اس درجہ تك نہيں پہنچے انہيں ان چاروں كى تقليد كيے بغير كوئى چارہ نہيں، بلكہ جہاں سارى امت داخل ہوئى ہے انہيں بھى داخل ہونا ہو گا. انتہى
ديكھيں: الرد على من اتبع غير المذاہب الاربعۃ ( 2 / 624 )
محترم حسن صاحب! ذرا آنکھیں کھول کر اور جاگ .اسے بگور پڑھیں، پھر اپنے عقیدہ پر غور و فکر کریں ، انشائ اللہ ضرور شرمندگی ہوگی اور توبہ کا دروازہ ابھی بھی کھلا ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔