تقلید شخصی کرنی ہے یا نقطہ اتفاق پر اکٹھا ہونا ہے ؟؟؟
بحث ہمیشہ کسی نہ کسی ایک نقطہ اتفاق سے شروع ہوتی ہے۔ یاکم ازکم اصول بحث پر فریقین متفق ہوتے ہیں۔ اگرایسانہ ہوتوتبادلہ خیال کس طرح ممکن ہوسکے گا۔تلمیذ صاحب کے کہنے کا منشاء یہ ہے کہ جس چیز کو تقلید شخصی کے نام سے آپ معنون بلکہ مطعون کرتے ہین وہ کسی حصے اورجثے کے ساتھ آپ کے یہاں بھی موجود ہے یہ اوربات ہے کہ آپ نے رنگ وروغن لگاکر اورنام بدل کر اسے اختیار کرلیاہو۔اورشاعر کے الفاظ میں ہمیں کہیں تو تلمیذ صاحب کہناچاہ رہے ہیں کہ
این گناہے است کہ درشہر شمانیز کنند
نقطہ اتفاق تو میں صرف قرآن و حدیث کو سمجھتا ہوں
خوارج نعرہ لگایاکرتے تھے کہ
ان الحکم الاللہ حکومت صرف اللہ کی،فیصلہ صرف اللہ کا
بات بڑی اچھی اورمعقول تھی لیکن دوربین اوردوراندیش اکابرصحابہ سمجھ گئے تھے کہ یہ
کلمۃ حق اریدبھاالباطل کا مصداق ہے۔اوردین سے باہر نکلنے کا راستہ ہے لہذا اسے خوراج قراردیا۔
معتزلہ نے خود کو اہل العدل والتوحید کانام دیا۔نام کتناخوبصورت ہے لیکن اکابرتابعین سمجھ گئے کہ یہ اہل سنت والجماعت کے نظریات سے علاحدگی اوراپنی الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے لہذااسے معتزلہ کانام دیا۔
اہل ظاہر نے بھی یہی پوز کیاکہ وہی صرف حقیقی کتاب وسنت پر عمل کرنے والے ہیں لیکن اکابرعلماء کرام نے ظاہریوں کا رد کیا۔ ابن عربی جنہوں نے العواصم والقواصم میں ظاہریوں کو
امۃ سخیفۃ تک سے تعبیر کردیا۔ان کی بات اگرچھوڑبھی دیں توابن رجب الحنبلی نےفضل علم السف علی الخلف میں جوکچھ لکھاہے اس کا مطالعہ کریں۔وہ لکھتے ہیں۔
وفي زماننا يتعين كتابة كلام أئمة السلف المقتدى بهم إلى زمن الشافعي وأحمد وإسحاق وأبي عبيد: وليكن الإنسان على حذر مما حدث بعدهم فإنه حدث بعدهم حوادث كثيرة وحدث من انتسب إلى متابعة السنة والحديث من الظاهرية ونحوهم وهو أشد مخالفة لها لشذوذه عن الأئمة وانفراده عنهم بفهم يفهمه أو يأخذ مالم يأخذ به الأئمة من قبله.
(فضل علم السلف6)
لہذا گزارش ہے کہ خوبصورت الفاظ،نعرے اورماٹو نہ دوہرائیں۔ کام کی بات کریں۔
لطیفہ یہ ہے کہ احناف کو کہاجاتاہے کہ دلائل سے بات کیجئے امام ابوحنیفہ کے علم وفضل کو مت گنوایئے۔اوربیشتر کا عالم یہ ہے ہے کہ انہوں نے نعروں کو ہی حقیقت کابدل سمجھ رکھاہے اورکیوں نہ کریں۔ جب حقیقت سمجھ میں نہیں آئے گی تو انہیں نعروں سے کام چلاناپڑے گا۔
چوں ندیدند حقیقت رہ افسانہ زدند
جو قرآن کی آیت اور صحیح حدیث پر مشتمل ہو
یہ بھی غلط فکر کانمونہ ہے۔ کیاضعیف احادیث کی کوئی اہمیت نہیں ہواکرتی ۔کیاصحابہ کے اپنے اقوال اورتابعین کے ارشادات کی اہمیت نہیں ہوتی۔حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کم علمی اورلاعلمی کے طورطریقے ہیں۔اگرعلمی افق عریض اورمعلومات کا دائرہ وسیع ہوتومعلوم ہوگاکہ قرآن کی آیت اورصحیح احادیث کے علاوہ بھی بہت ساری چیزیں ہیں جس کو امت مسلمہ تسلیم کرتی آئی ہے۔
رہ گئے اکابر اگر وہ قرآن وصحیح حدیث کے خلاف کسی مسئلہ پر فیصلہ دیں تو اُس کا رد کرنا لازم ہے
ایساہوناکہ تمام اکابرین کسی قرآن کی آیت یاصحیح حدیث کے خلاف فیصلہ دے دیں بہت مشکل بلکہ ازقریب ناممکن ہے۔ وہ ہم سے زیادہ علم وفضل اورفقہ وفہم اوردینی غیرت والے تھے۔اگرکسی کافیصلہ قرآن وحدیث کے خلاف ہوابھی ہے توبعد والوں نے اس کی درستگی کردی ہے اس انتظار میں نہیں چھوڑاہے کہ تیرہویں صدی کی ابتداء میں ایک جماعت ابھرے گی اور ان کی غلطیوں کی اصلاح کرے گی۔
ایک معمولی مثال لیں۔ غیرمقلدین کو عموماشوق ہواکرتاہے کہ ہدایہ کی غلطیاں اورخامیاں گنائی جائیں۔ مجھے دکھادیجئے غیرمقلدین نے کسی ایسی غلطی کی نشاندہی کی ہو جس کی ہدایہ کے شراح،محشیان اورتخریج کرنے والے پہلے ہی وضاحت نہیں کرچکے ہوں۔
اگرکسی سے استنباط واجتہاد میں بھی غلطی ہوئی ہے توبعد والوں نے اس کی درستگی کردی ہے۔امام محمد اورامام ابویوسف نے خاصی تعداد کے مسائل میں امام ابوحنیفہ سے اختلاف کیاہے اورایسے مسائل کی بھی تعداد کم نہیں جہاں پر فتوی امام ابوحنیفہ نہیں بلکہ صاحبین کے قول پر ہے۔ اس سے آنجناب کے فہم شریف میں کیاسمجھ میں آتاہے؟یامیرتقی میر کے مصرعہ
"سرسری اس جہان سے ہم گزرے"کی طرح ان تمام امور کو سمجھے سوچے اورغوروفکر کئے بغیر آگے بڑھ گئے تھے؟
ویسے میں آپ کے اکابرین کو اچھی طرح جانتا ہوں
جاننے کا شکریہ۔ لیکن جاننے کی دوجہتیں ہوتی ہیں۔ ایک ابوجہل کی طرح جاننا ہوتاہے اورایک صدیق اکبر کی طرح جاننا۔آپ نے کس طرح سے جانایہ آپ نے ہی جانا۔ہم نے آپ کے جاننے کو قطعاًنہیں جانا۔
اسی لئے تو میں الحمد اللہ اہلحدیث ہوا ہوں
یعنی پہلے آپ اہل حدیث نہیں تھے اہل حدیث کا ٹیگ اپنے اوپر لگایااس کے بعد اہل حدیث ہوئے سبحان اللہ۔
ہماراتوخیال ہے کہ ہروہ مسلمان جو حدیث کو تسلیم کرتاہے وہ اہل حدیث ہے۔ حنفیہ شافعیہ مالکیہ اورحنابلہ سبھی کے سبھی اہل حدیث ہیں۔جیسے کے سبھی کے سبھی اہل قرآن ہیں۔
طفلانہ باتیں ہیں معذرت کے ساتھ
حقیقت بیانی کیلئے شکریہ قبول کیجئے۔
چونکہ آپ کے بیان سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کااہل حدیث کی جانب سفر کسی غوروفکر اور سنجیدگی کی وجہ سے نہیں بلکہ طفلانہ اوربچکانہ خیالات کی وجہ سے تھا۔درخواست ہے کہ اپنی ان طفلانہ باتوں جن کی بناء پر اہل حدیث ہوئے ۔ ذہن کی پختگی اوربالغ نظری کے ساتھ نظرثانی کیجئے ۔
ہم آپ کیلئے دعاگوہیں آپ بھی ہمارے لئے دعاکرتے رہئے اوراپنے دعاؤں میں فراموش مت کیجئے۔والسلام