تلمیذ صاحب،
پہلی بات تو یہ کہ آپ کا مضمون نکتہ اتفاق ڈھونڈنے کی کوشش نہیں ہے بلکہ اپنے مسلک کے اثبات و تائید کے لئے ایک عدد ایسی دلیل ڈھونڈنے کی کاوش ہے جسے فریق مخالف کسی طور تسلیم کر سکے۔ اسے عموماً الزامی دلیل کہا جاتا ہے۔
دلوں کے حال اللہ بہتر جانتا ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس موضوع پر جمشید صاحب سے بھی اسی فورم پر کچھ تھوڑی سی گفتگو ہوئی تھی۔ وہ تقلید شخصی کو تقلید حکمی قرار دیتے ہیں۔ اور آپ بھی اصطلاح میں پڑے بغیر کم و بیش وہی بات کہنا چاہ رہے ہیں۔ ان سے بھی ہم نے سوال کیا تھا، جس کا کوئی جواب انہوں نے اب تک نہیں دیا، اور آپ سے بھی یہی سوال ہے کہ ہمیں اپنے ان چند علماء کے نام گنوا دیں جو تقلید شخصی کی تعریف ، کسی ایک امام کے اقوال کی پیروی کے بجائے ایک مکتبہ فکر کے اقوال کی پیروی قرار دیتے ہوں؟
جمشید صاحب نے مفتی سعید احمد پالن پوری کا حوالہ دیا تھا کہ وہ بھی تقلید شخصی کو تقلید حکمی قرار دیتے ہیں، حوالہ دیا کتاب، حدیث اور اہلحدیث کا۔ اور مجھے وہاں یہ بات کہیں نہیں ملی۔ دوبارہ صفحہ نمبر طلب کرنے پر اب تک خاموشی چھائی ہوئی ہے۔
محترم تقی عثمانی تقلید کی شرعی حیثیت کتاب میں تقلید شخصی کے متعلق لکھتے ہیں
"یہ فتوی دیا کہ اب لوگون کو صرف تقلید شخصی پر عمل کرنا جآہیئے اور کبھی کسی امام اور کبھی کسی امام کی تقلید کی بجائے ایک مجتھد کو متعین کرکے اس کے
مذھب کی پیروی کرنی چاہئیے
تقلید کی شرعی حیثیت صفحہ 60-61
ایک امام کو متعین کرنے سے ان کی جو مراد ہے ان کو انہوں نے کئی جگہ واضح کیا ہے ان میں سے ایک اقتباس اوپر دیا گيا ہے ۔ اس سے مراد امام کے
مذھب کی پیروی کی جائے
آگے چل کر صفحہ 66 پر علامہ نووی کا قول ذکر کرتے ہیں جس میں انہوں نے ایک فقہی مذہب پر عمل کرنے کو کہا ہے تو تقی عثمانی صاحب نے بریکٹ میں تقلید شخصی ہی لکھا ہے ۔ یعنی ان کے نذدیک ایک فقہی مذہب پر عمل کرنا ہی تقلید شخصی ہے
اور تقلید شخصی کے زمرے میں انہوں نے جگہ جگہ ایک مذھب کی تقلید ہی مراد لیا ہے ۔ في الحال اس کتاب سے دو حوالے ہی کافی ہیں
محترم اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب تقلید و اجتھاد میں صفحہ 53 میں واضح طور پر تقلید شخصی کو ایک مذھب کی تقلید کے طور پر لیا ہے اور صفحہ 54 پر انتقال عن المذھب کو تقلید شخصی کا مخالف گردانا ہے
اگر آپ کو یہ صفحات نہ ملیں تو بتائیے گا میں اسکین کرکے لگادوں گا ان شاء اللہ
اگر جواب میں آپ یہ فرمائیں کہ ہم "شخصیات کے اقوال"کے بجائے عملی صورتحال دیکھ لیں۔ تو گزارش یہ ہے کہ آخر علمائے احناف کے پاس علم کی کمی ہے یا وہ اپنے مؤقف و مدعا کے اظہار پر عبور نہیں رکھتے، کیونکر کسی نے یہ نرالا نکتہ نہیں پیش کیا کہ تقلید شخصی دراصل ایک طرح سے تقلید مطلق ہی ہے۔ جب دل چاہے امام کی پیروی کر لو، جب دل چاہے، ان کے شاگردوں کی اور جب دل چاہے اپنے مسلک کے کسی بھی بڑے کی۔
آپ کی حنقی کتب سے واقفیت انتاہی کم ہے ۔ ایک مسلک یا مذہب کی پیروی تقلید شخصی کہلاتی ہے ۔ اور تقلید مطلق سے مراد کبھی شافعی مذھب پر عمل کرنا اور کبھی مالکی مذھب پر عمل کرنا اور کبھی حنفی مذھب پر علم کرنا ہے
رہی اہلحدیث کے "فہم سلف صالحین"کی شرط اور تقلید شخصی بحیثیت تقلید حکمی سے مماثلت، تو عرض ہے کہ اہلحدیث کے نزدیک سلف صالحین سے مراد اہل حدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں۔ فرق بین و ظاہر ہے۔ مماثلت "پیدا"کرنے کی خواہش کا پورا ہونا ناممکن ہے۔
فتوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام جلد دوم میں صفحہ 24 اور 25 پر ابراہیم بن یذید النخعی ، امام مالک بن انس ، امام قتادہ کے کچھ بیان کرنے کے بعد حافظ زیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں کہ
سلف صالحین کے نذدیک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا کتنا احترام تھا
یہ ائمہ صحابی تو ہے نہیں ۔ پھر ان کو سلف صالحین کیوں کہا گيا
اگر آپ کے اس بات کی کوئی دلیل ہے کہ علماء اہل حدیث کے ہاں سلف صالحین سے مراد
صرف صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں تو آپ اپنے علماء کرام سے حوالاجات پیش کریں