• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقلید کی جامع تعریف

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
یہ ہے وہ اصل مسئلہ اور تقلید کی نحوست جس کی بنا پر ہم تقلید کو شرک کہتے ہیں کیونکہ اگر ایک مقلد یہ جان بھی لے کہ اسکا مذہب مرجوع اور خلاف قرآن وحدیث ہے لیکن پھر بھی وہ صرف اس لئے قرآن وحدیث کی مخالفت سے باز نہیں آتا کیونکہ وہ اپنے امام کی تقلید کو ہر حال میں واجب جانتا ہے۔
جزاک اللہ خیرا شاہد نذیر بھائی
جب اس بات کا بھی معلوم ہوجائے کہ یہ بات قرآن وحدیث کے خلاف ہے لیکن پھر بھی تقلیدی ڈور کومضبوطی سے تھامتے ہوئے اسی کو ہی گلے لگایاجائے تو کیا یہ کم جرم ہے ؟
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
عامیوں سے آپ کی ہمدردی قابل ستائش ہے اورکیوں نہ ہولگتاہے کہ آنجناب خود بھی اسی صف میں شامل ہیں ورنہ کفایت اللہ صاحب سے سوال کرنے کے بجائے خود تحقیق کرنے کی زحمت گوارہ کرتے۔
جی بھائی جان، یقینا میں ایک عامی طالب علم ہوں، لیکن الحمدللہ مقلد ہرگز نہیں ہوں!

مجھے تویہ بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ بدیع الدین راشدی شیخ العرب والعجم کس طرح ہوگیا۔اس کا ایک معمولی کتابچہ پڑھاخداکی پناہ اتنے مغالطات۔
اور مجھے یہ سن کر حیرانگی ہو رہی ہے کہ ایک مقلد ایک مجتہد کے مغالطات کی نشاندہی کر رہا ہے!!؟؟ آپ کو اتنا علم کہاں سے آیا کہ یہ طے کر سکیں کہ شیخ بدیع الدین کا کتابچہ مغالطات سے بھرا پڑا ہے؟؟

جہاں تک شیخ الہند کی جملہ کا تعلق ہے اردومجلس پرماقبل میں وضاحت کرچکاہوں۔کتاب وسنت فورم پربھی کرچکاہوں۔براہ کرم ایک نگاہ دیکھ لیں۔
اس کا جواب تو شاہد نذیر بھائی دے ہی چکے ہیں۔

میں تویہ سمجھتاہوں کہ یہ ان کے عین انصاف کی دلیل ہے کہ انہوں نے یہ بھی وسعت قلبی سے اعتراف کیاکہ اس مسئلے میں دوسرے امام کی رائے قوی ہے ۔
انہوں نے کہاکہ حدیث کی رو سے امام شافعی کا مذہب راجح ہے یانہیں کہاکہ وہ صحیح ہے اورہمارامسلک غلط ہے ۔اگرصحیح اورغلط کی بات ہوتی توایک حد تک آنجناب کا اعتراض صحیح ہوسکتاہے لیکن یہاں صرف راجح اورمرجوح کا مسئلہ ہے۔
بھائی جان راجح اور مرجوح کا علم ہوتے ہوئے بھی مرجوح پر عمل کرنا کس کتاب میں لکھا ہے؟

’’جیساکہ نچلے درجہ کا فقیہہ اورعامی جوقرآن کاحافظ یااکثر حصے کاحافظ ہے اس کیلئے قطعاًاجتہاد کی گنجائش نہیں ہے۔وہ کیوں کر اجتہاد کرے گا اورکیاکہے گا اورکس پر (اپنی باتوں کی) بنیاد رکھے گا اورکیسے اڑسکتاہے جب کہ اس پر ہی نہیں ہیں۔
بھائی جان، امام ذہبی نے بالکل ٹھیک ہی تو فرمایا ہے۔ کوئی اہل حدیث عالم بھی یہ نہیں کہتا کہ جو شخص اجتہاد کا اہل نہیں اسے اجتہاد جائز ہے۔ یہی بات امام ذہبی نے فرمائی ہے۔ لیکن آگے سے آپ نے امام ذہبی کے قول کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ:
آپ نے غورکیایہاں حافظ ذہبی نچلے درجہ کے فقیہہ کو بذات خود اجتہاد کی اجازت نہیں دے رہے ہیں اورنہ ہی اس کو ائمہ کے دلائل میں غورکرکے کسی ایک جانب عمل کی اجازت دے رہے ہیں بلکہ یہ مقام متبحر علماء بتارہے ہیں ۔ اب اگریہی بات شیخ الہند نے دوسرے پیرائے میں بیان کردی تو اس میں آسمان ٹوٹنے اورطنز وتشنیع کی کیابات ہے۔
تو بھائی جان، امام ذہبی کے اس قول سے آپ نے یہ کہاں سے اخذ کر لیا جو اوپر ہائی لائٹ کیا گیا ہے؟ امام ذہبی نے دلائل پر نا غور کرنے کے بارے میں کہاں پر فرمایا ہے، ذرا وضاحت کر دیں؟ کیا غیر مجتہد فقیہ اتباع نہیں کر سکتا، یا تقلید ہی کرنی ضروری ہے؟ اگر اسطرح ہے تو امام مسلم، ترمذی، ابن خزیمۃ وغیرہ بھی مقلد بن جائیں گے، حالانکہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے فرمایا کہ وہ نا تو مجتہد تھے اور نا مقلد۔

ویسے تقلید پر ماقبل میں جومیں نے بحث کی ہے۔اس سے کچھ جملے کوٹ کردیتاہوں۔تاکہ ذہن شریف کچھ مجلااورمصفاہوجائے اوربات کو صحیح تناظر میں سمجھنے کی توفیق ملے۔
اولاتوضرورت ہے تقلید اوراجتہاد کی حقیقت سمجھنے کی۔ ایک شخص اگر مجتہد مطلق ہے اوردوسرا مجتہد فی المذہب ہے تووہ اپنے علم کے مطابق اجتہاد کرے گا اورجہاں تک اس کی رسائی نہیں ہے وہاں وہ تقلید کرے گا۔یہ ہر علم وفن میں ہوتاہے۔
بھائی جان میں صرف اتنا پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک شخص جو "عالم" کہلاتا ہے کیا وہ ذرہ برابر بھی اجتہاد کا اہل نہیں؟ شا ولی اللہ دہلوی نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص ایک مسئلے میں بھی اجتہاد کر سکتا ہے، تو اس مسئلے میں اس پر تقلید حرام ہے۔ اور حنفی علماء کی حیثیت اتنی تو گری گزری نہیں ہو سکتی کہ وہ ایک معمولی مسئلے میں بھی اجتہاد نا کر سکیں! حالانکہ اپنی کتابوں میں وہ دنیا جہان کی تحقیق پیش کر دیتے ہیں، لیکن پھر بھی اس مسئلے میں وہ تقلید نہیں چھوڑتے۔ آپ سمیت سب یہ بات جانتے ہیں کہ آپ کے مشہور حنفی علماء، پورے مذہب میں نہیں تو کئی ایک مسائل میں تو اجتہاد کے قائل ہوں گے ہی۔ لیکن پھر بھی وہ مقلد کے مقلد کے ہی رہتے ہیں! ایسا کیوں؟

والسلام!
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
آفرین ہے جمشید صاحب آپ پر کہ کسی اچھے کام کی تو آپ کو کبھی توفیق نہیں ہوتی
آپ حضرات کے مغالطات کی تردید ہی میرے لئے بڑااچھاکام ہے۔اورخداکاشکر ہے کہ اس کی توفیق ہوجاتی ہے۔
البتہ اپنے علماء کے کھلے کفر اور شرک کو مشرف بہ اسلام کرنے پر ہی آپ مقلدین کی ساری توانائیاں خرچ ہوتی ہیں۔اللہ اس قبیح اور گھاٹے کے سودے سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے۔آمین
کھلاکفر اورشرک کیاہوتاہے؟یہ شاہد نذیر کو معلوم ہی نہیں ہے۔اسی کھلے کفراورشرک کے مرتکب علماء کرام کے سامنے اہل حدیث علمائ حضرات زانوئے تلمذتہہ کرچکے ہیں۔اورصرف یہی نہیں بلکہ اس پر ان کو فخربھی رہاہے۔حوالہ کیلئے مولانا ثنائ اللہ امرتسری کے بارے میں اپنے مطالعہ کووسیع کریں۔
میری توانائیاں انشاء اللہ کفروشرک کو مشرف بہ اسلام کرنے پر صرف نہیں ہورہی ہیں بلکہ ان لوگوں کے خلاف ہیں جنہوں نے بغیر جانے سمجھے پڑھے لکھے "اپنے لب آزاد"کرلئے ہیں اوراب جوجی چاہتاہے بولتے رہے ہیں کیونکہ "بول کہ لب آزادہیں تیرے"
کہیں کسی پر کفروشرک کا فتوی جڑدیاکہیں کسی کوکچھ کہہ دیاایسے نادانوں کے خلاف اپنی توانائیاں صرف کررہاہوں ۔اوراللہ اس کی توفیق دوسروں کوبھی دے۔
جمشید صاحب آپ لوگوں کو دھوکہ اور مغالطہ دینے میں کامیاب نہیں ہوئے اس لئے کہ آپ کے’’شیخ الہند‘‘ کی پوری عبارت دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ راجح اور مرجوع کا مسئلہ نہیں بلکہ وجوب تقلید کا مسئلہ ہے۔ پوری عبارت ملاحظہ فرمائیں:
والحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسالۃ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفۃ۔ کہ حق اور انصاف یہ ہے کہ خیار مجلس کے مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہم مقلد ہیں ہم پر امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔ (تقریر ترمذی، جلد 1، صفحہ 49)
خدااگربصیرت کے ساتھ بصارت بھی چھین لے تبھی ایسے اعجوبے اورمضحکے پیش آتے ہیں۔ تقریر ترمذی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ کوئی بھی دیکھ سکتاہے کہ شیخ الہند کی یہ عبارت کس تناظر میں ہے۔خیارمجلس کی حدیث پر کلام کرتے وقت ہے یامسئلہ تقلید پر کلام کرتے وقت ہے۔لیکن اس کے باوجود پوری ڈھٹائی کے ساتھ کہاجارہاہے کہ "یہ راجح اور مرجوع کا مسئلہ نہیں بلکہ وجوب تقلید کا مسئلہ ہے"
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
شاہد نذیر صاحب تو اسکین لگانے کے بڑے ماہر ہیں تقریر ترمذی کے زیر بحث صفہ اورآگے پیچھے کے صفحات کے اسکین لگادیں پتہ چل جائے گاعام قارئین کوبھی کہ شیخ الہندخیارمجلس کے موضوع پر بات کررہے ہیں یاتقلید کے وجوب پر۔
اس صاف اور واضح عبارت میں محمود الحسن دیوبندی اپنے نزدیک راجح مسئلہ پر صرف اس لئے عمل کرنے سے گریزاں ہیں کہ ان پر ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان پر ابوحنیفہ کی تقلید کو کس نے واجب کیا ہے؟؟؟؟ چونکہ قرآن وحدیث میں ہم ابوحنیفہ کی تقلید کے واجب ہونے کا کوئی حکم نہیں پاتے اس لئے یقینی طور پرشیطان ہی نے حنفیوں پر ابوحنیفہ کی تقلید واجب کی ہے۔ لیکن یہ لوگ شرم کے مارے عوام کو حقیقی اور درست بات نہیں بتاتے۔
قرآن وحدیث میں اگرکسی چیز کا حکم نہ پایاجائے تو شاہد نذیر صاحب کے خیال میں وہ شیطانی عمل ہوتاہے اوریہ صرف خیال نہیں بلکہ شاہد نذیر صاحب کویقین ہے۔
اگراسی انداز اورلہجہ میں جواب دیاجائے کہ قرآن وحدیث میں شاہد نذیر صاحب جیسے کسی شخص کاکوئی پتہ نہیں چلتا تویقنی موصوف وہی شخصیت ہیں یعنی شیطانی شخصیت جنہوں نے بقول خود حنفیوں پر ابوحنیفہ کی تقلید واجب کی ہے۔ بات اگرچہ تلخ ہے لیکن معقول ہے۔ شاہد نذیر صاحب اس کو کس اندازسے دفاع کریں گے۔
شاہد نذیر صاحب چونکہ عربی زبان سے نابلد ہیں لہذا وجوب لذاتہ اوروجوب لغیرہ کے ابحاث سے ناآشناہوں گے۔ گزارش ہے کہ اصول فقہ کی ان معمولی بحثوں کو پڑھ لیجئے خواہ اردو میں ہی ہو۔ہوسکے تو کفایت اللہ صاحب سے اس سلسلے میں مدد حاصل کرلیجئے ۔ اس کے بعد شاید یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ اگرکوئی حکم براہ راست قرآن وحدیث میں نہ ہو تواس کو شیطانی ماننا خود شیطانی خیال ہے ۔
بات دوبارہ موضوع پر
بحث خیار مجلس کی ہے۔شیخ الہند کہتے ہیں کہ خیارمجلس میں امام شافعی کاموقف راجح ہے۔لیکن ہم امام ابوحنیفہ کی تقلید کرتے ہیں لہذا اس راجح مسئلہ میں ہم انہی کی تقلید کریں گے۔
اس بحث میں دوباتیں سمجھنے کی ہیں۔
اولاتوتقلید کے مختلف درجات ہیں۔ عامی کی تقلید الگ ہے۔ عالم کی تقلید الگ ہے۔ متبحر فی العلم کی تقلید الگ ہے۔مجتید فی المذہب کی تقلید الگ ہے اورخود مجتہد کی تقلید الگ ہے جس کی اچھی وضاحت مولانا تقی عثمانی "تقلید کی شرعی حیثیت "میں کرچکے ہیں۔
شیخ الہند طلباء سے خطاب کررہے ہیں۔ طلباء کے بارے میں آپ اوپرحافظ ذہبی کا نقطہ نظرپڑھ چکے ہیں کہ" نچلے درجے کے فقیہہ کیلئے اجتہاد کی قطعاگنجائش نہیں ہے"۔طالب علم کی حیثیت نچلے درجے کے فقییہ بلکہ اس سے بھی کم ہی ہوتی ہے لہذا اگرشیخ الہند طلباء سے یہ کہ ہ رہے ہیں کہ دلائل تویہہ کہ رہے ہیں کہ اس مسئلہ میں ترجیح امام شافعی کے موقف کو حاصل ہے لیکن چونکہ ہم فقاہت کے مقام کے حامل نہیں ہیں لہذا اس باب میں ہمیں امام ابوحنیفہ کی رائے کی ہی پیروی کرنی چاہئے بالخصوص اس صورت میں جب کہ اس مسئلہ ان کی رائے قطعاغلط نہیں صرف مرجوح ہے۔
حضرت شیخ الہند نے خود کو طلباء کی صف میں نحن مقلدون کے الفاظ سے خطاب کیا۔یہ تعبیروقت کا تقاضہ تھا۔کیونکہ کوئی بھی استاد طلباء سے یہ نہیں کہے گاکہ تم ایسے ہو اورمیں ایساہو اس مسئلہ میں تمہارے لئے یہ بات ہے اورمیرے لئے یہ مقام ہے۔ بلکہ ہمیشہ سے یہی طرز تعبیر رہاہے کہ استاد خود کو ہمیشہ طالب علموں کے ساتھ ملحق کرتاہے۔
ویسے اس بات کاکسی نے جواب نہیں دیاکہ جب حضور کی خواہش معلوم تھی کہ حطیم خانہ کعبہ میں شامل ہوناچاہئے اوروہ خانہ کعبہ کاہی حصہ ہے لیکن انہوں نے نئے نئے قریش کے مسلمانوں کی وجہ سے اس ادارہ کو ترک کردیا بعد میں جب خلیفہ عباسی نے امام مالک سے اس بارے میں دریافت کیاتوانہوں نے کیوں منع کردیا۔ اب جب کہ آل سعود کی حکومت ہے تو وہ اس کارخیر کو انجام کیوں نہیں دیتے۔کوئی سلفی اعظم اس جانب ان کی رہنمائی کیوں نہیں کرتا؟کیایہ حدیث پر عمل نہیں ہوگابلکہ حدیث کے مخالف عمل ہوگا۔
چونکہ بااعتراف محمود الحسن دیوبندی کہ مقلدین پر ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے اور واجب کا چھوڑنا گناہ ہے اس لئے ابوحنیفہ کا مسلک و مذہب چاہے مرجوع ہو، قرآن وحدیث کے خلاف ہو، عقل و دانش پر بھی پورا نہ اترتا ہو اور اجماع کے خلاف ہو۔ ہر حال میں مقلدین ابوحنیفہ کی تقلید کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ ہر مسئلے میں انکی تقلید حنفیوں پر واجب ہے۔ یہ ہے وہ اصل مسئلہ اور تقلید کی نحوست جس کی بنا پر ہم تقلید کو شرک کہتے ہیں کیونکہ اگر ایک مقلد یہ جان بھی لے کہ اسکا مذہب مرجوع اور خلاف قرآن وحدیث ہے لیکن پھر بھی وہ صرف اس لئے قرآن وحدیث کی مخالفت سے باز نہیں آتا کیونکہ وہ اپنے امام کی تقلید کو ہر حال میں واجب جانتا ہے۔
عامی پر مجتہد کی تقلید واجب ہے اس میں توکسی شک وشبہ کی گنجائش ہی نہیں ہے سوائے ایک فرقہ شاذہ قلیلہ منبوذہ کے ۔بات راجح اورمرجوح کی ہے اورموصوف اس کو لے گئے خلاف قرآن وحدیث تک۔
غیرمقلدین کاسب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ اپنے موقف کو جھٹ قرآن وحدیث کانام دے دیتے ہیں۔ماضی میں بڑے بڑے علماء اورفقہاء اپنے موقف کو رائے اوراجتہاد سے تعبیر کرتے تھے لیکن اب جب کہ خود رائی اورعجب پسندی کادور ہے تواپنے موقف کو قرآن وحدیث بتادیاجاتاہے۔لیکن ظاہر ہے کہ زنگی کافور رکھنے سے زنگی کی حقیقت تونہیں بدل جائے گی۔اسی طرح کسی کے اپنے موقف کو قرآن وحدیث کے ممثال درجہ دینے سے وہ موقف قرآن وحدیث نہیں بن جائے گا۔
وہ اصل مسئلہ اور تقلید کی نحوست جس کی بنا پر ہم تقلید کو شرک کہتے ہی
"ہم"کااطلاق کرنے سے پہلے اپنے مختصر سی جماعت کا جائزہ تولے لیتے۔ظاہر ہے کہ آپ اورآپ کی جماعت سوبار ہم کہتی رہے لیکن رہے گی بہت بے وزن۔
جہاں تک امام ابوحنیفہ کے موقف کی بات ہے تواس پر فقہاء احناف پہلے ہی کام کرچکے ہیں کہ کس مسئلہ میں دلیل کے قوت کے لحاظ سے کس کا موقف راجح ہے صاحبین کا،امام ابوحنیفہ، کاامام زفر کایاپھر بعد کے کسی عالم کی رائے حالات اوردلائل کے لحاظ سے راجح ہے۔اس کی مثالیں کتب فقہ وفتاوی میں موجود ہیں لیکن ظاہر سی بات ہے کہ یہ اسی کو معلوم ہوگاجس کو عربی زبان سے واقفیت ہوگی ۔
تقلیدی مذہب وہ شیطانی مذہب ہے جس میں جہنم کا حصول یقینی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اس تقلیدی شیطانی مذہب سے خود بھی بچیں اور دوسرے مسلمانوں کو بھی بچائیں۔
قارئین اس کابرعکس سمجھ لیں ۔کیونکہ خود رائی ،عجب پسندی اورعدم تقلید انسان کو کہاں تک لے جاتی ہیں اس کا صرف اندازہ کیاجاسکتاہے۔کبھی یہی چیزیں اس کو "دین الہی "بنانے تک پہنچادیتی ہیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
جی بھائی جان، یقینا میں ایک عامی طالب علم ہوں، لیکن الحمدللہ مقلد ہرگز نہیں ہوں!
سبحان اللہ !یہ ہے الٹے ہاتھ سے ناک پکڑنے کی تدبیر۔حافظ ذہبی کے نقل کردہ اقتباسمیں غورکریں ۔ اس میں تین درجے بتائے گئے ہیں۔
ایک مجتہد
دوسری متبحر عالم
تیسرے نچلے درجے کا فقیہہ عامی وغیرہ
اوراسی تیسرے والے کیلئے وہ تقلید کے قائل ہیں۔اب آپ خود وضاحت کردیں کہ خود کس کس صف میں سمجھتے ہیں۔
ویسے توجس جماعت سے آپ منسلک ہیں اس لحاظ سے آپ کو مجتہد ہوناچاہئے۔کیونکہ وہاں اجتہادکیلئے شرائط بڑی سستی ہیں۔ بس صحاح ستہ کا اردو ترجمہ پڑھ لیں اوراجتہاد کریں۔یہ آپ کی کسرنفسی ہے کہ خود کو عامی طالب علم سے ملقب کررہے ہیں لیکن اسی کے ساتھ دوسرے سانس میں یہ بھی تعلی فرمارہے ہیں کہ میں مقلد ہرگز نہیں ہوں ۔
ایک ہی جملہ میں کسرنفسی اورتعلی کوآنجناب نے جس طرح جمع کیاہے اسے دیکھ کرحالی کا یہ شعرتازہ ہوگیا جس میں انہوں نے خاکساری اورتعلی کو جمع کیاہے۔
ہم نے ہرادنی کو اعلیٰ کردیا
خاکساری اپنی کام آئی بہت
عامی طالب مقلد نہیں ہوگا توکیاہوگا؟اس کی وضاحت کردیجئے گا۔

اور مجھے یہ سن کر حیرانگی ہو رہی ہے کہ ایک مقلد ایک مجتہد کے مغالطات کی نشاندہی کر رہا ہے!!؟؟ آپ کو اتنا علم کہاں سے آیا کہ یہ طے کر سکیں کہ شیخ بدیع الدین کا کتابچہ مغالطات سے بھرا پڑا ہے؟؟
میں ماقبل میں اس کی وضاحت کرچکاہوں دوسرے تھریڈ میں کہ غیرمقلد جتنے علم کے بل بوتے پر اجتہاد کادعویٰ کرتے ہیں اتناعلم ہمیں بھی بحمداللہ نصیب ہے ۔بس بات یہ ہے کہ
دلتوں کیلئے ہندوستان میں تعلیم میں بڑی سہولتیں اوررعایتیں ہیں۔ کم نمبرات کے باوجودان کومشکل امتحان میں پاس نمبرات مل جاتے ہیں
جب کہ مسلمانوں کو اس سلسلے میں پوری جانفشانی سے کام لیناپڑتاہے
یہ مثال اگرتلخ لگی ہوتومعذرت کے ساتھ دوسری مثال پر غورکریں۔
کسی یونیورسٹی میں طلبہ کے داخلہ اورپاس ہونے کے شرائط بہت آسان ہواکرتے ہیں اورکسی میں بہت سخت
بہت سارے کالج ایسے بھی ہیں کوڑیوں کے مول ایم بی اے کی ڈگری ملتی ہےاورکچھ کالجز ایسے بھی ہیں جہاں ایم بی اے میں داخلے کیلئے آپ کو ننانوے فیصد سے زیادہ نمبرات درکار ہوتے ہیں۔آپ حضرات کے یہاں اجتہاد بڑاسستاہے توہرشخص مجتہد ہے۔ شاہ بدیع الدین راشدی،زبیر علی زئی،طالب الرحمن توصیف الرحمن اورنہ جانے کون کون۔جب کہ ہمارے یہاں اجتہاد کیلئے تھوڑی کڑی شرائط ہیں اسی لئے آپ کی طرح تھوک کے حساب سے مجتہدین تیار نہیں ہوپاتے۔

اس کا جواب تو شاہد نذیر بھائی دے ہی چکے ہیں۔
جوجواب دے چکے ہیں اس پر خود اپنے ذہن سے بھی غورکرلیں بحمداللہ مقلد ہرگز نہیں ہیں۔گرچہ عامی طالب علم ہیں۔


بھائی جان راجح اور مرجوح کا علم ہوتے ہوئے بھی مرجوح پر عمل کرنا کس کتاب میں لکھا ہے؟
اسی سوال کو ہم یوں کردیں کہ کس کتاب میں منع کیاگیاہے کہ مرجوح مسئلہ پر عمل نہ کیاجائے۔ویسے آپ کی تشفی کیلئے تو حضورپاک کا عمل کافی ہوناچاہئے تھاکہ باوجود خواہش کے اورباوجود اس حقیقت کے اظہار کے ،کہ حطیم خانہ کعبہ میں شامل تھا محض نومسلم قریشیوں کے تالیف قلب کیلئے اس پر راجح پر عمل نہیں کیا۔



بھائی جان، امام ذہبی نے بالکل ٹھیک ہی تو فرمایا ہے۔ کوئی اہل حدیث عالم بھی یہ نہیں کہتا کہ جو شخص اجتہاد کا اہل نہیں اسے اجتہاد جائز ہے۔ یہی بات امام ذہبی نے فرمائی ہے۔ لیکن آگے سے آپ نے امام ذہبی کے قول کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ:تو بھائی جان، امام ذہبی کے اس قول سے آپ نے یہ کہاں سے اخذ کر لیا جو اوپر ہائی لائٹ کیا گیا ہے؟ امام ذہبی نے دلائل پر نا غور کرنے کے بارے میں کہاں پر فرمایا ہے، ذرا وضاحت کر دیں؟ کیا غیر مجتہد فقیہ اتباع نہیں کر سکتا، یا تقلید ہی کرنی ضروری ہے؟ اگر اسطرح ہے تو امام مسلم، ترمذی، ابن خزیمۃ وغیرہ بھی مقلد بن جائیں گے، حالانکہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے فرمایا کہ وہ نا تو مجتہد تھے اور نا مقلد۔
حافظ ذہبی کا موقف دوبارہ پڑھیں بات سمجھ میں آجائے گی۔ اتباع اورائمہ کے دلائل میں غوروفکر کرکے کسی ایک جانب کو راجح ومرجوح قراردینے کیلئے بھی کثیرعلم کی ضرورت ہوتی ہے جس کا مصداق حافظ ذہبی نے دوسرے درجہ کے شخص کو ٹھہرایاہے جو بیدارمغز ہے۔ مختصرات فقہ اوراصول فقہ حفظ کرچکاہے احادیث سے بھی اچھی واقفیت ہے ۔



بھائی جان میں صرف اتنا پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک شخص جو "عالم" کہلاتا ہے کیا وہ ذرہ برابر بھی اجتہاد کا اہل نہیں؟ شا ولی اللہ دہلوی نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص ایک مسئلے میں بھی اجتہاد کر سکتا ہے، تو اس مسئلے میں اس پر تقلید حرام ہے۔ اور حنفی علماء کی حیثیت اتنی تو گری گزری نہیں ہو سکتی کہ وہ ایک معمولی مسئلے میں بھی اجتہاد نا کر سکیں! حالانکہ اپنی کتابوں میں وہ دنیا جہان کی تحقیق پیش کر دیتے ہیں، لیکن پھر بھی اس مسئلے میں وہ تقلید نہیں چھوڑتے۔ آپ سمیت سب یہ بات جانتے ہیں کہ آپ کے مشہور حنفی علماء، پورے مذہب میں نہیں تو کئی ایک مسائل میں تو اجتہاد کے قائل ہوں گے ہی۔ لیکن پھر بھی وہ مقلد کے مقلد کے ہی رہتے ہیں! ایسا کیوں؟
آپ نے جوپوچھاہے ۔وہ اصولی طورپر صفحات سیاہ کرنے کا تقاضاکرتاہے لیکن اس کیلئے نہ وقت ہے نہ فرصت۔
تجزی فی الاجتہاد ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ کچھ علماء اس کے حق میں ہیں اورکچھ اس کے مخالف ۔
جولوگ اجتہاد میں تجزی اورتقسیم کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ انسان مکمل طورپر مجتہد نہ ہو لیکن کسی ایک خاص مسئلہ میں جس پر اس نے وقت کا بڑاحصہ صرف کیاہے ۔اس تعلق سے کتابوں کا مطالعہ وغیرہ کیاہے وہ اس خاص مسئلہ کی حد تک مجتہد ہوسکتاہے۔
دوسرے علماء کاکہناہے کہ اجتہاد "جزء الذی لایتجزی"کے قبیل سے ہے۔(ابتسامہ)یعنی اجتہادہول سیل کی دوکان ہے وہاں پر مال ہول سیل اورتھوک کے حساب سے ہی بکے گا۔پوااورکیلوکے حساب سے نہیں بکے گا۔ان کاکہنایہ ہے کہ اجتہادمیں مختلف علوم کی ضرورت پڑتی ہے اوربغیر ان مختلف علوم میں درک اورمہارت حاصل کئے اجتہاد کا تصورنہیں کیاجاسکتا۔
ظاہر ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی فریق اپنی رائے کو دوسرے پر تھوپ نہیں سکتا۔ویسے آپ کس رائے کے حق میں ہیں؟
والسلام
 

arshedali

مبتدی
شمولیت
جون 08، 2012
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
0
طالب الرحمن صاحب كي يه تعريف بالكل من بطنه تعريف هى

هذالتعريف اخترعه طالب الرحمن من بطنه
 

arshedali

مبتدی
شمولیت
جون 08، 2012
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
0
میاں نذیر حسین صاحب اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں :باقی رہی تقلید وقت لاعلمی سو یہ چار قسم ہے:قسم اول واجب ہےاور وہ مطلق تقلید ہے مجتہد کی،مجتہد اہلالسنۃ کی لا علی التعین جس کو شاہ ولی اللہ نے عقدالجیدمیں کہا ہے کو یہ تقلید واجب ہے اور صحیح ہے باتفاق امت(معیار الھق صفحہ ۴۲) شاہ صاحبؒ کی عبارت یہ ہے”تقلید واجب ہے جو دلالتا (یعنی ما ہر شریعت کی رہنمائی میں) اتباع روایت(قرآن و سنت کی پیروی ہے)تفصیل اسکی یہ ہے کتاب وسنت سے ناواقف جو از خود تتبع اور استنباط احکام نہیں کر سکتا اس کا فرض ہے کہ کسی فقیہ سے پوچھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلہ میں کیا حکم دیا ہے۔جب بتادے تو اس کی اتباع کرے خواہ وہ صریح نص سے ماخوذ ہو یا اس سے مستنبط ہو یا کسی نص پر قیاس ہو، ان میں سے ہر ایک اگرچہ دلالتا ہی سہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہی رجوع ہے اور اسکی صحت پر امت کا یکے بعد اتفاق ہے بلکہ ساری ہی امتیں اپنی شریعتوں میں متفق ہیں۔(عقد الجید ص ۱۳۰،۱۳۱) گویا جس طرح توحید،رسالت،قیامت وغیرہ تمام شریعتوں کے متفقہ مسائل ہیں اسی طرح عامی کو مسائل اجتہاد یہ میں مجتہد کی تقلید کرنا سب کا متفق علیہ مسئلہ ہے۔نوٹ ۔۔۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جناب میاں نذیر حسین صاحب نے شاہ ولی اللہ کی اصل عربی عبارت میں بھی لا علی التعین کا لفظ اپنی طرف سے بڑھا دیا ہے اور اردو میں بھی یہ قید اپنی طرف سے برھائی ہے جو بہت بڑی علمی خیانت ہے اور علماء کی شان سے بہت بعید ہے۔مولانا موصوف لکھتے ہیں کہ قتادہ نےامام بخاری ؒ کو دیکھ کر کہا کہ اس کو امام احمد سمجھ لو(معیارالحق ص۲۶) حالانکہ قتادہ ۱۱۸ ھ میں فوت ہوچکے تھے۔میاں صاحب نے شاہ صاحب کی عبارت میں ایک جملہ بڑھایا ہے،مگر صفحہ ۳۵ پر تو پوری ایک کتاب”القول السدید”ان کے ذمہ لگا دی ہے جو ان کی ہرگز نہیں،یہ حضرات ایسی حرکتیں حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی کرتے ہیں۔معیار الحق صفحی ۲۱۹ پر حدیث کے عربی الفاظ یہ ہیں میلین او ثلاثۃ، جس کا صحیح ترجمہ دو میل یا تین تھا مگر میاں صاحب ترجمہ کر رہے ہیں دو تین کوس،کس طرح دو میل کو نو میل بنا لیا۔معیارالحق صفحہ ۲۲۵ پر ایک صحیح حدیث کو جھوٹا کرنے کیلئے میاں صاحب نے سلیمان الاعمش جو نہایت ثقہ راوی ہے اور سب صحاح والوں کا اجماعی شیخ ہے،سلیمان بن ارقم بنا دیا اور اس طرح صحیح حدیث کو ضعیف کہہ کر ماننے سے انکار کردیا اور ایک سند میں راوی خالد بن الحارث تھا اور حدیث صحیح تھی مگر حدیث رسول کے انکار کت شوق میں خالد بن الحارث کی بجائے خالد بن مخلد کا حال لکھ کر حدیث کو ضعیف بنا دیا اور صحیح حدیث کو ماننے سے انکار کردیا۔اسی طرح صفحہ ۲۳۴ پر ایک حدیث کا انکار کرنے کے شوق میں اسمہ بن زید اللیثی کو اسامہ بن زید العدوی بنایا،یہ محض سینہ زوری ہے۔کاش! احناف کی ضد میں یہ رسول دشمنی سے احتراز کرتے۔
 

arshedali

مبتدی
شمولیت
جون 08، 2012
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
0
کا جواز اور ترک تقلید کی مذمت علماء اہل حدیث سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ِِِِِِِِِِ ِِِِِِ۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔مولانا محمد حسین بٹالوی وکیل اہلحدیث ہند جنہوں نے پوری جماعت کی طرف سے ایک رسالہ شائع کیا”الاقتصاد فی مسائل الجہاد”جس میں انگریزوں سے جہاد کو حرام قرار دیا۔البتہ مسلمانون میں افتراق اور شقاق پیدا کرنے کیلئے چیلنج بازی اور اشتہار بازی کا آغاز کیا اور بقول مولانا مسعود عالم غیر مقلد،ان خدمات کی بناء پر ان کو حکومت برطانیہ نت جاگیر سے بھی نوازہ۔مولانا فرماتے ہیں ”تقلید واجب جو درھقیقت روایت کی پیروی ہوتی ہے،جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص قرآن و حدیث سے بے خبر ہے،اپنے آپ قرآن و حدیث سے مسائل نہیں نکال سکتا اس کا یہی کام ہے کہ وہ کسی مجتہد سے سوال کرے کہ اس مسئلہ میں خدااور رسول کا کیا حکم ہے،جب وہ اس کو حکم بتا دے صریح نص سے ثابت ہو خواہ اس سے استنباط کیا گیا ہو تو وہ اس کی پیروی کرے۔اس تقلید کا رجوع روایتِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے اور اس کے صحیح ہونے پرہر زمانے کا اتفاق چلا آیا ہے۔”( اشاعت السنۃ النبویہ ج ۱۱ ص ۳۱۶) دلیل اس تقلید کے جواز پر یہ ہے کہ صحابہ وغیرہ بلا ذکر دلیل اقوال خود فتویٰ دیا کرتے تھے اور لوگ بلا انکار ان کی پیروی کرتے تھے۔(ایضا ج ۱۱ ص ۳۱۶) اس تقلید کے جواز پر سب شریعتوں کا اتفاق ہے اور اسلام میں بھی عہد نبوی اور عہد صحابہ سے بلا نکیر متوارث ہے چنانچہ مولانا موصوف لکھتے ہیں” ایسی تقلید آنحضرتﷺ کے عہد سے متوارث چلی آئی ہے ایسی تقلید ہمیشہ کیلئے ایک کی ہو یا کبھی کسی کی اس میں کوئی فرق نہیں”(اشاعۃ السنۃج۱۱ ص ۳۱۵) مولانا موصوف فرماتے ہیں”ہمارے بھائیوں میں اب ترک تقلید اور عمل بالحدیث میں غلو ہوگیا ہے اور افراط شدید نے ان پر غلبہ اور تسلط پایا،وہ تقلید کا نام سنکر ایسے چونک پڑتے ہیں جیسے آگ کا ڈرا ہوا کرمک شب تاب کو دیکھ کر ڈر جاتا ہے اور تقلید کے نشہ میں ایسے سرشار ہیں کہ محل ضرورت تقلید میں بھی کسی کی تقلید جائز نہیں سمجھتے اور اپنے فکر نارسا اور اجتہاد ناروا سے کام لیتے ہیں۔تقلید کو بلا استثناء صلوٰتیں سناتے ہیں اور مقلدین کو بر ملا برائی سے یاد کرتے ہیں”(اشاعۃ السنۃ ج ۱۱ ص ۳۰۳) نیز لکھتے ہیں”ایک صاحب فرماتے ہیں اب لوگ اللہ کے فضل سے اس پیر زال قحبہ کو طلاق دے چکے ہیں”کہ ہمارے خواص کا ترک تقلید میں غلو ثابت ہے تو اس سے عوام کے غلو کا اندازہ بخوبی ہوسکتا ہے لہٰذا اس غلو کا تدارک بھی ایک بڑا بھاری فرض ہے۔”(ایضا ج ۱۱ ص ۳۰۶)
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
اب وقت آگیاہے کہ بات کو دوبارہ موضوع پر لایاجائے۔
اس تھریڈ کا موضوع یہ تھاکہ تقلید کی جوتعریف طالب الرحمن اوررفیق طاہر نے پیش کی ہے وہ جامع ہے یانہیں۔
بقول رفیق طاہر،طالب الرحمن کا پیش کردہ تقلید کی تعریف "جامع"نہیں ہے اورجامع تعریف وہ ہے جو انہوں نے پیش کی ہے۔
انہوں نے ابن ہمام کی پیش کردہ تعریف کو بھی جامع اورمانع قراردیاہے۔
ابن ہمام کی پیش کردہ تعریف پر جواعتراض واردہورہے ہیں۔ وہ سابق میں مذکورہوچکے۔
رفیق طاہر صاحب کاکہناہے کہ ہم ایک ایک کرکے اعتراض پیش کریں۔
ان کی بات مانتے ہوئے ہم ایک ایک کرکے اعتراض پیش کررہے ہیں۔
اولا:تقلید کون کرے گااس کی وضاحت نہیں ہے۔
ثانیا:تقلید کس کی کرے گااس کی وضاحت نہیں ہے۔
ثالثا:تقلید کس چیز میں ہوگی اس کی وضاحت نہیں ہے۔
رابعا:ابن ہمام کی تقلید کی تعریف سے جو تقلید کی "جامع ومانع"تعریف رفیق طاہر صاحب نے مستنبط کی ہے۔وہ ماقبل میں بھی کسی سے منقول ہے یاپھریہ ان کا ذاتی "اجتہاد"ہے۔
باتیں اوربھی ہیں۔ فی الحال اتناہی سہی!
 
Top