آفرین ہے جمشید صاحب آپ پر کہ کسی اچھے کام کی تو آپ کو کبھی توفیق نہیں ہوتی
آپ حضرات کے مغالطات کی تردید ہی میرے لئے بڑااچھاکام ہے۔اورخداکاشکر ہے کہ اس کی توفیق ہوجاتی ہے۔
البتہ اپنے علماء کے کھلے کفر اور شرک کو مشرف بہ اسلام کرنے پر ہی آپ مقلدین کی ساری توانائیاں خرچ ہوتی ہیں۔اللہ اس قبیح اور گھاٹے کے سودے سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے۔آمین
کھلاکفر اورشرک کیاہوتاہے؟یہ شاہد نذیر کو معلوم ہی نہیں ہے۔اسی کھلے کفراورشرک کے مرتکب علماء کرام کے سامنے اہل حدیث علمائ حضرات زانوئے تلمذتہہ کرچکے ہیں۔اورصرف یہی نہیں بلکہ اس پر ان کو فخربھی رہاہے۔حوالہ کیلئے مولانا ثنائ اللہ امرتسری کے بارے میں اپنے مطالعہ کووسیع کریں۔
میری توانائیاں انشاء اللہ کفروشرک کو مشرف بہ اسلام کرنے پر صرف نہیں ہورہی ہیں بلکہ ان لوگوں کے خلاف ہیں جنہوں نے بغیر جانے سمجھے پڑھے لکھے "اپنے لب آزاد"کرلئے ہیں اوراب جوجی چاہتاہے بولتے رہے ہیں کیونکہ "بول کہ لب آزادہیں تیرے"
کہیں کسی پر کفروشرک کا فتوی جڑدیاکہیں کسی کوکچھ کہہ دیاایسے نادانوں کے خلاف اپنی توانائیاں صرف کررہاہوں ۔اوراللہ اس کی توفیق دوسروں کوبھی دے۔
جمشید صاحب آپ لوگوں کو دھوکہ اور مغالطہ دینے میں کامیاب نہیں ہوئے اس لئے کہ آپ کے’’شیخ الہند‘‘ کی پوری عبارت دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ راجح اور مرجوع کا مسئلہ نہیں بلکہ وجوب تقلید کا مسئلہ ہے۔ پوری عبارت ملاحظہ فرمائیں:
والحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسالۃ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفۃ۔ کہ حق اور انصاف یہ ہے کہ خیار مجلس کے مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہم مقلد ہیں ہم پر امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔ (تقریر ترمذی، جلد 1، صفحہ 49)
خدااگربصیرت کے ساتھ بصارت بھی چھین لے تبھی ایسے اعجوبے اورمضحکے پیش آتے ہیں۔ تقریر ترمذی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ کوئی بھی دیکھ سکتاہے کہ شیخ الہند کی یہ عبارت کس تناظر میں ہے۔خیارمجلس کی حدیث پر کلام کرتے وقت ہے یامسئلہ تقلید پر کلام کرتے وقت ہے۔لیکن اس کے باوجود پوری ڈھٹائی کے ساتھ کہاجارہاہے کہ "یہ راجح اور مرجوع کا مسئلہ نہیں بلکہ وجوب تقلید کا مسئلہ ہے"
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
شاہد نذیر صاحب تو اسکین لگانے کے بڑے ماہر ہیں تقریر ترمذی کے زیر بحث صفہ اورآگے پیچھے کے صفحات کے اسکین لگادیں پتہ چل جائے گاعام قارئین کوبھی کہ شیخ الہندخیارمجلس کے موضوع پر بات کررہے ہیں یاتقلید کے وجوب پر۔
اس صاف اور واضح عبارت میں محمود الحسن دیوبندی اپنے نزدیک راجح مسئلہ پر صرف اس لئے عمل کرنے سے گریزاں ہیں کہ ان پر ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان پر ابوحنیفہ کی تقلید کو کس نے واجب کیا ہے؟؟؟؟ چونکہ قرآن وحدیث میں ہم ابوحنیفہ کی تقلید کے واجب ہونے کا کوئی حکم نہیں پاتے اس لئے یقینی طور پرشیطان ہی نے حنفیوں پر ابوحنیفہ کی تقلید واجب کی ہے۔ لیکن یہ لوگ شرم کے مارے عوام کو حقیقی اور درست بات نہیں بتاتے۔
قرآن وحدیث میں اگرکسی چیز کا حکم نہ پایاجائے تو شاہد نذیر صاحب کے خیال میں وہ شیطانی عمل ہوتاہے اوریہ صرف خیال نہیں بلکہ شاہد نذیر صاحب کویقین ہے۔
اگراسی انداز اورلہجہ میں جواب دیاجائے کہ قرآن وحدیث میں شاہد نذیر صاحب جیسے کسی شخص کاکوئی پتہ نہیں چلتا تویقنی موصوف وہی شخصیت ہیں یعنی شیطانی شخصیت جنہوں نے بقول خود حنفیوں پر ابوحنیفہ کی تقلید واجب کی ہے۔ بات اگرچہ تلخ ہے لیکن معقول ہے۔ شاہد نذیر صاحب اس کو کس اندازسے دفاع کریں گے۔
شاہد نذیر صاحب چونکہ عربی زبان سے نابلد ہیں لہذا وجوب لذاتہ اوروجوب لغیرہ کے ابحاث سے ناآشناہوں گے۔ گزارش ہے کہ اصول فقہ کی ان معمولی بحثوں کو پڑھ لیجئے خواہ اردو میں ہی ہو۔ہوسکے تو کفایت اللہ صاحب سے اس سلسلے میں مدد حاصل کرلیجئے ۔ اس کے بعد شاید یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ اگرکوئی حکم براہ راست قرآن وحدیث میں نہ ہو تواس کو شیطانی ماننا خود شیطانی خیال ہے ۔
بات دوبارہ موضوع پر
بحث خیار مجلس کی ہے۔شیخ الہند کہتے ہیں کہ خیارمجلس میں امام شافعی کاموقف راجح ہے۔لیکن ہم امام ابوحنیفہ کی تقلید کرتے ہیں لہذا اس راجح مسئلہ میں ہم انہی کی تقلید کریں گے۔
اس بحث میں دوباتیں سمجھنے کی ہیں۔
اولاتوتقلید کے مختلف درجات ہیں۔ عامی کی تقلید الگ ہے۔ عالم کی تقلید الگ ہے۔ متبحر فی العلم کی تقلید الگ ہے۔مجتید فی المذہب کی تقلید الگ ہے اورخود مجتہد کی تقلید الگ ہے جس کی اچھی وضاحت مولانا تقی عثمانی "تقلید کی شرعی حیثیت "میں کرچکے ہیں۔
شیخ الہند طلباء سے خطاب کررہے ہیں۔ طلباء کے بارے میں آپ اوپرحافظ ذہبی کا نقطہ نظرپڑھ چکے ہیں کہ" نچلے درجے کے فقیہہ کیلئے اجتہاد کی قطعاگنجائش نہیں ہے"۔طالب علم کی حیثیت نچلے درجے کے فقییہ بلکہ اس سے بھی کم ہی ہوتی ہے لہذا اگرشیخ الہند طلباء سے یہ کہ ہ رہے ہیں کہ دلائل تویہہ کہ رہے ہیں کہ اس مسئلہ میں ترجیح امام شافعی کے موقف کو حاصل ہے لیکن چونکہ ہم فقاہت کے مقام کے حامل نہیں ہیں لہذا اس باب میں ہمیں امام ابوحنیفہ کی رائے کی ہی پیروی کرنی چاہئے بالخصوص اس صورت میں جب کہ اس مسئلہ ان کی رائے قطعاغلط نہیں صرف مرجوح ہے۔
حضرت شیخ الہند نے خود کو طلباء کی صف میں نحن مقلدون کے الفاظ سے خطاب کیا۔یہ تعبیروقت کا تقاضہ تھا۔کیونکہ کوئی بھی استاد طلباء سے یہ نہیں کہے گاکہ تم ایسے ہو اورمیں ایساہو اس مسئلہ میں تمہارے لئے یہ بات ہے اورمیرے لئے یہ مقام ہے۔ بلکہ ہمیشہ سے یہی طرز تعبیر رہاہے کہ استاد خود کو ہمیشہ طالب علموں کے ساتھ ملحق کرتاہے۔
ویسے اس بات کاکسی نے جواب نہیں دیاکہ جب حضور کی خواہش معلوم تھی کہ حطیم خانہ کعبہ میں شامل ہوناچاہئے اوروہ خانہ کعبہ کاہی حصہ ہے لیکن انہوں نے نئے نئے قریش کے مسلمانوں کی وجہ سے اس ادارہ کو ترک کردیا بعد میں جب خلیفہ عباسی نے امام مالک سے اس بارے میں دریافت کیاتوانہوں نے کیوں منع کردیا۔ اب جب کہ آل سعود کی حکومت ہے تو وہ اس کارخیر کو انجام کیوں نہیں دیتے۔کوئی سلفی اعظم اس جانب ان کی رہنمائی کیوں نہیں کرتا؟کیایہ حدیث پر عمل نہیں ہوگابلکہ حدیث کے مخالف عمل ہوگا۔
چونکہ بااعتراف محمود الحسن دیوبندی کہ مقلدین پر ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے اور واجب کا چھوڑنا گناہ ہے اس لئے ابوحنیفہ کا مسلک و مذہب چاہے مرجوع ہو، قرآن وحدیث کے خلاف ہو، عقل و دانش پر بھی پورا نہ اترتا ہو اور اجماع کے خلاف ہو۔ ہر حال میں مقلدین ابوحنیفہ کی تقلید کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ ہر مسئلے میں انکی تقلید حنفیوں پر واجب ہے۔ یہ ہے وہ اصل مسئلہ اور تقلید کی نحوست جس کی بنا پر ہم تقلید کو شرک کہتے ہیں کیونکہ اگر ایک مقلد یہ جان بھی لے کہ اسکا مذہب مرجوع اور خلاف قرآن وحدیث ہے لیکن پھر بھی وہ صرف اس لئے قرآن وحدیث کی مخالفت سے باز نہیں آتا کیونکہ وہ اپنے امام کی تقلید کو ہر حال میں واجب جانتا ہے۔
عامی پر مجتہد کی تقلید واجب ہے اس میں توکسی شک وشبہ کی گنجائش ہی نہیں ہے سوائے ایک فرقہ شاذہ قلیلہ منبوذہ کے ۔بات راجح اورمرجوح کی ہے اورموصوف اس کو لے گئے خلاف قرآن وحدیث تک۔
غیرمقلدین کاسب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ اپنے موقف کو جھٹ قرآن وحدیث کانام دے دیتے ہیں۔ماضی میں بڑے بڑے علماء اورفقہاء اپنے موقف کو رائے اوراجتہاد سے تعبیر کرتے تھے لیکن اب جب کہ خود رائی اورعجب پسندی کادور ہے تواپنے موقف کو قرآن وحدیث بتادیاجاتاہے۔لیکن ظاہر ہے کہ زنگی کافور رکھنے سے زنگی کی حقیقت تونہیں بدل جائے گی۔اسی طرح کسی کے اپنے موقف کو قرآن وحدیث کے ممثال درجہ دینے سے وہ موقف قرآن وحدیث نہیں بن جائے گا۔
وہ اصل مسئلہ اور تقلید کی نحوست جس کی بنا پر ہم تقلید کو شرک کہتے ہی
"ہم"کااطلاق کرنے سے پہلے اپنے مختصر سی جماعت کا جائزہ تولے لیتے۔ظاہر ہے کہ آپ اورآپ کی جماعت سوبار ہم کہتی رہے لیکن رہے گی بہت بے وزن۔
جہاں تک امام ابوحنیفہ کے موقف کی بات ہے تواس پر فقہاء احناف پہلے ہی کام کرچکے ہیں کہ کس مسئلہ میں دلیل کے قوت کے لحاظ سے کس کا موقف راجح ہے صاحبین کا،امام ابوحنیفہ، کاامام زفر کایاپھر بعد کے کسی عالم کی رائے حالات اوردلائل کے لحاظ سے راجح ہے۔اس کی مثالیں کتب فقہ وفتاوی میں موجود ہیں لیکن ظاہر سی بات ہے کہ یہ اسی کو معلوم ہوگاجس کو عربی زبان سے واقفیت ہوگی ۔
تقلیدی مذہب وہ شیطانی مذہب ہے جس میں جہنم کا حصول یقینی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اس تقلیدی شیطانی مذہب سے خود بھی بچیں اور دوسرے مسلمانوں کو بھی بچائیں۔
قارئین اس کابرعکس سمجھ لیں ۔کیونکہ خود رائی ،عجب پسندی اورعدم تقلید انسان کو کہاں تک لے جاتی ہیں اس کا صرف اندازہ کیاجاسکتاہے۔کبھی یہی چیزیں اس کو "دین الہی "بنانے تک پہنچادیتی ہیں۔