• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقلید کی حقیقت اور مقلدین کی اقسام

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
خیرالقرون کے بعد مذہبی اختلافات اور انتشارات کا سیاہ ترین باب ہے۔ اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو اندیشہ ہے کہ اندرونی منافرت اور بیرونی عداوت کی پھیلتی آگ کے سامنے امت کی بقیہ سطوت بھی " چوب خشک صحرا" ثابت ہو۔
مذاہبِ اربعہ کے مقلدین سے التجاء ہے کہ تقلید کے قعرِ ضلالت و مذلت سے نکل کر صراط مستقیم کو اختیار کریں اور امت کو تقلیدِ مذاہب کی پیچیدگیوں میں نہ اُلجھائیں، کیونکہ امت اس کی متحمل نہیں ہے۔
مقلدین میں اسی شعور کو بیدار کرنے کی غرض سے شیخ امین اللہ پشاوری نے "التحقيق السديد في مسئلة التقليد" کے نام سے ایک منفرد اور اپنے موضوع کے لحاظ سے ایک انتہائی مؤثر کتاب تالیف کی جس میں مؤلف نے مختلف مکاتبِ فقہ کے اصول، احکام اور مسائل کا بالعموم اور حنفی مکتبِ فقہ کا بالخصوص مدلّل اور محققانہ جائزہ پیش کیا ہے۔ صحیح اور راجح مسلک کو صریح دلائل کی بنیاد پر واضح کیا ہے۔
زیر نظر کتاب"تقلید کی حقیقت" اسی کا اردو قالب ہے جس میں حتی الامکان کوشش کی گئی ہے کہ مؤلف کے مدعا، دلائل اور معروضات کو کچھ اس طرح اردو زبان میں قارئین کے سامنے رکھیں کہ اصل کتاب کی روح بھی مجروح نہ ہو اور قاری اس سے آسانی سے فائدہ بھی حاصل کر سکے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس کتاب کو مؤلف کے لیے اجر جزیل اور ذخیرہ آخرت بنا دے اور مسلمانوں کو اس سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
میں اپنے ان اساتذہ و احباب کا تہہ دل سے ممنون ہوں جن کے تعاون کے بغیر میرے لیے اس ذمہ داری کو پورا کرنا ممکن نہ تھا۔
از محمد حیدر 15۔12۔2001
ہے فقط توحید و سنت، امن و راحت کا طریق
فتنہ جنگ و جدل تقلید سے پیدا نہ کر (اقبال)
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
ان الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونعوذ بالله من شرور انفسنا ومن سيئات اعمالنا من يھده الله فلا مضل له ومن يضلله فلا ھادي له واشھد ان لا اله الا الله وحده لاشريك له واشھد ان محمدا عبده ورسوله۔
امابعد:
اللہ تعالی کے فضل سے یہ کتاب تو 1416ھ کو مکمل ہو چکی تھی، علماء کرام، طلباء اور عوام نے اس کو بڑے شوق سے حاصل کیا اور میرے اندازے کے مطابق ان گنت لوگوں نے اس سے استفادہ بھی کیا۔ پھر اشاعت کے بعد جلد ہی اس کے مطبوعہ نسخے قارئین کے ہاتھوں بازار سے ختم ہو گئے۔
بعد ازاں چند مخلص دوستوں کے اصرار اور توجہ کی وجہ سے دوبارہ اس کی اشاعت کا اہتمام کیا اور مزید فائدے کے لیے شروع میں اس مقدمے کا اضافہ بھی کیا جو کہ مندرجہ ذیل ضروری مباحث پر مشتمل ہے:
پہلی بحث : تقلید کی تقسیم باعتبار ممدوح و مذموم۔
دوسری بحث : تقلید سے متعلق شکوک و شبہات کے صحیح جوابات۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
پہلی بحث: تقلید کی اقسام

(1) ۔ تقلید مذموم
(2) ۔ تقلید ممدوح
1- تقلید مذموم: ( یعنی ناجائز غیر مناسب تقلید) اس کو کہتے ہیں کہ ایک شخص قرآن و حدیث کی مخالفت میں کسی عالم کی بات مانے یا صرف باپ دادا اور اپنے بڑوں کے طور طریقے اپنا کر قرآن و حدیث سے یکسر اغماض برتے۔ قرآن صرف تبرک کے لیے تو پڑھے لیکن عملاََ اس کو دستورِ حیات ماننے سے انکار کرتا ہو اور اگر کوئی اس کو قرآن وحدیث کا حوالہ دے تو اس کا جواب یہ دے کہ کیا بڑے سمجھتے نہیں تھے؟۔ کیا وہ نبی کی سیرتِ مبارکہ سے بیگانے تھے؟
نیز تقلید مذموم کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آدمی کسی ایسے نامعلوم شخص کو اپنا پیشوا سمجھے جس کے بارے میں وہ یہ تک جاننے سے قاصر ہو کہ میرا پیشوا عالم ہے کہ نہیں۔ فتویٰ دینے کا اہل ہے کہ نہیں؟ اسی طرح مذموم تقلید کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کسی مسئلہ میں صحیح بیّن حدیث کے آنے کے بعد اس کو اپنے مذہب کے خلاف سمجھ کر چھوڑ دیا جائے یا اس میں تاویل کر کے اس کا صحیح مفہوم ہی بدل دیا جائے یا یہ کہہ کر اس حدیث سے جان چھڑائی جائے کہ یہ ہمارے مذہب کے خلاف اور امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب کے موافق ہے۔ مذکورہ بالا تمام صورتیں تقلید مذموم کے ضمن میں آتی ہیں جو کہ سراسر ناروا اور قابل مذمت ہیں۔ (اعلام الموقعین ص:187)
میرے خیال میں آج دنیا میں بالعموم اور پاکستان ، افغانستان اور ہندوستان میں بالخصوص جو تقلید مروّج ہے وہ یہی تقلید مذموم ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
ان ممالک میں ایک مخصوص امام کی اجتہادی اور غیر اجتہادی باتوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث پر نہ صرف ترجیح دی جاتی ہے بلکہ احادیث صحیحہ کو ترک کرنے کے لیے مختلف غیر شرعی بہانے بھی بنائے جاتے ہیں، مقلدین کی تمام کتابوں میں، خاص طور پر تنظیم الاشتات اور ہدایہ میں "کتاب الطہارت" سے لیکر "کتاب الوصایا" تک کسی بھی مقام پر یہ نہیں کہا گیا کہ اس مسئلے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ضعیف ہے، امام شافعی رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب صحیح ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ تو درکنار۔
قارئین کرام!: آپ کو اللہ تعالی نے عقل و خرد کی نعمت سے نوازا ہے اپنے مذہب کی خاطر احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور علماء اُمت کے ساتھ کیے جانے والے روئیے کے بارے میں کبھی آپ نے غور و فکر کیا ہے؟۔
تقلید کے بے آب و گیاہ صحراء میں پھرنے والے مقلدین جہاں اُمت کے تمام علماء کو قعرِ مذلت میں گرانے کا اہتمام کرتے ہیں وہاں اُمت کے ایک بہت بڑے عالم اور بلند پایہ علمی شخصیت امام شافعی رحمہ اللہ کو طفل مکتب کے مساوی علمی حیثیت کا حامل قرار دیکر ان کی مسلمہ فہم و فراست کو یکسر مفلوج ثابت کرنے کی مذموم اور متعصبابہ کوشش کرتے ہیں اپنی اس متعصبانہ روش کے باوجود اُلٹا ہمیں بزرگانِ دین اور علماء اُمت کا بے ادب کہتے نہیں تھکتے حالانکہ اس سے بڑی بے ادبی اور کیا ہو سکتی ہے کہ نبی آخرالزمان کی محفوظ من اللہ زبان مبارک سے نکلی ہوئی احادیثِ کاملہ کی تاویلیں کی جائیں اور اپنے امام کے اقوال کو ان پر ترجیح دی جائے۔
اسی طرح مقلدین اُمت کے تمام علماء کو چھوڑ کر صرف ایک عالم کو اپنا "امام فی الدیں" مانتے ہیں۔
قارئین محترم: مقلدین کے اس طرز فکر و عمل پر سنجیدگی سے سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ضد اور عناد کو ترک کر کے اپنے دین و ایمان کی حفاظت کرے۔
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
2- تقلید ممدوح:
ایک ایسا شخص جو دین کے کسی مسئلے کو سمجھنے سے قاصر ہو اس کے حل کے لیے کسی عالم کے پاس جائے یا کسی کو قرآن و حدیث میں کسی مسئلے کا حل نہ ملے اور وہ سمجھنے کے لیے کسی عالم کے پاس جائے اسی طرح کوئی ایسا حادثہ رونما ہو جس کا حل قرآن و حدیث میں ایک عام آدمی کو ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے۔ یقیناََ ایسے مسائل کے حل کے لیے علماء سے رابطہ کرنا پڑے گا۔ تحقیقِ حق یا تحصیل علم کی مندرجہ بالا تمام صورتیں تقلید ممدوح کہلاتی ہیں۔
تقلید کی اس قسم کو کچھ لوگ یہ کہہ کر جائز قرار دیتے ہیں کہ ہم تو قرآن وحدیث کا مقابلہ نہیں کرتے بلکہ قرآن و حدیث کو ہم قابل قدر نگاہوں سے دیکھتے ہیں محض مجبوری کی بناء پر کسی ایک امام کی تقلید کرتے ہیں۔ لیکن تقلید کی یہ قسم بھی چند وجوہات کی بنا پر غلط ہے کیونکہ:
(1)- تقلید بدعت ہے اس لیے کہ خیرالقرون میں اس کا نام و نشان تک نہیں تھا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: كل بدعة ضلالة وكل ضلالة في النار(مشكوة ، ج1ص30)
دین میں ہر نیا کام بدعت ہے ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں پہنچا دیتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس صحیح مرفوع حدیث کے آنے کے باوجود تقلید کو ممدوح اور مذموم کے اعتبار سے منقسم کرنا تو ایسا ہے جیسے بدعت کی دو قسمیں سیئہ اور حسنہ قرار دی جائیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ہر بدعت گمراہی ہے۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے علامہ شاطبی رحمہ اللہ کی "االاعتصام،ج1ص191۔ اسی طرح: السنن والمبتدعات ص15 اور فتاوی الدین الخالص ج1ص104 پر بھی اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔
(2)۔ تقلید ممدوح کے غلط ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کے جواز سے مقلدین تقلید جامد اور تقلید شخصی کو جائز قرار دیکر غلط فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے مذہب کی خاطر قرآن و حدیث میں تاویلیں کرنے کی سعیِ لاحاصل کرتے ہیں اگر کوئی اس روئ یے پر اعتراض کرے تو تقلید ممدوح کا حوالہ دیکر بڑے فخر سے اپنے آپ کو متبعِ سنت گرداننا شروع کر دیتے ہیں۔ یوں مقلدین غلط کام کو اچھے نام سے موسوسم کر کے جائز ثابت کرنے کی مذموم سعی کرتے ہیں۔
(3)۔ مذکورہ تقلید کے غلط ہونے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ اس کی بیان کی جانے والی صورتیں ہی سراسر غلط ہیں۔ کیا ایک جاہل آدمی اپنے درپیش مسائل کے حل کے لیے کسی زندہ عالم کا انتخاب کرے گا یا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا؟ (جو کہ وفات پاچکے ہیں) اگر آپ کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کا انتخاب کرے گا تو وہ بحیثیث "جاہل" امام صاحب کے مذہب سے ہی نا آشنا ہے وہ کیسے اس کو امام صاحب کا مذہب سمجھ کر اس پر عمل کرے گا؟ دوسری وجہ یہ ہے کہ دنیا میں امام صاحب کی کسی کتاب کا وجود نہیں ہے جسکی طرف رجوع کیا جائے۔ اور اگر کسی بقیدِ حیات عالم کے پاس جائے گا تو پھر اس کو حنفی اور شافعی کہنے کا مطلب کیا ہوا؟ کیونکہ وہ جس عالم کے پاس جائے گا اسی عالم کی طرف اس کی نسبت ہونی چاہیے نہ کہ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف اس کی نسبت ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ عالم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رہنمائی کرے گا یا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب کی طرف؟۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
مقلدین کا یہ طرزِ فکر ماتم کرنے کے قابل ہے کہ دلائل تو زندوں کی تقلید کے اثبات کے پیش کرتے ہیں لیکن ان سے مردوں کی تقلید ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ تقلید ممدوح کے اثبات کے ضمن میں پیش کیجانی والی اس مثال کی بھی کوئی وقعت نہیں کہ قرآن و حدیث میں کسی مسئلے کا حل نہ ملنے کی صورت میں کسی عالم سے رابطہ کرنا پڑے گا۔
ہمارے نزدیک ان فرضی اور موہوم مسائل کی کوئی حقیقت نہیں ایسا کونسا مسئلہ ہے جو قرآن اور حدیث میں نہیں ہے اور لوگ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟ مقلدین کے اس طرزِ عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قرآن و حدیث کو ناقص سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جس عالم سے یہ مسئلہ پوچھا جائے گا کیا وہ اس مسئلہ کو قرآن وحدیث سے حل کرے گا یا اپنی رائے کے مطابق؟۔
اگر آپ کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث کے مطابق حل کرے گا تو پھر قرآن وحدیث مکمل ہوئے اور آپ کی رائے باطل قرار پائی۔ لیکن اگر یہ عالم اس کا حل اپنی رائے سے نکالے گا تو دین کے معاملے میں کسی عالم کی رائے حجت نہیں۔ اگر کوئی آدمی کسی عالم کا قرآن و حدیث سے اخذ کیا ہوا مسئلہ مانتا ہے تو یہ قرآن و حدیث کی اس دلیل کی اتباع ہے جس سے اس مسئلے کو حل کیا گیا ہے نہ کہ تقلید کی۔۔۔
قارئینِ کرام : اسلام میں تقلید کے نتائج بڑی حد تک خطرناک ثابت ہوئے ہیں جس کا اندازہ آپ مندرجہ ذیل نقصانات کی جھلک سے بخوبی کرسکتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
تقلید کے کچھ نقصانات

1- تقلید کی وجہ سے انسان قرآن وحدیث کے اسرار و رموز سے محروم ہو جاتا ہے مقلد صرف تقلید کی وجہ سے قرآن و حدیث کے صحیح معنی و مفہوم سے نا واقف رہتا ہے اس بات کو تو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس کو دینی معاملات میں خاصہ تجربہ ہو۔ مقلد صرف اپنے امام کی باتوں پر اکتفاء کر کے اُمت کے بقیہ علماء کی علمیت سے استفادہ کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔
2- تجربہ شاہد ہے کہ صرف تقلید کی وجہ سے انسان یا تو ضعیف اور موضوع روایات کو صحیح ثابت کرنے کی اور صحیح کو ضعیف ثابت کرنے کی گھٹیا کوشش کرتا ہے یا اس کو ایسے غلط معنی کے پیرہن میں ڈھالتا ہے جس کا دین کے کسی دوسرے حکم سے ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہبہ کو واپس لینے سے منع فرمایا ہے اور ایسا کرنے والے کی تشبیہ ایسے کتے سے دی ہے جو قے کر کے دوبارہ چاٹ لیتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
جبکہ بعض احناف اس حدیث کا یہ غلط معنی کرتے ہیں: اگر کتے کے لیے قے دوبارہ چاٹنا جائز ہے تو ہمارے لیے ہبہ واپس لینا بھی جائز ہے۔ سوچیئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکمِ مقصد کو یہاں کیسے یکسر اُلٹ دیا گیا ہے۔ کما فی اللمعات بحوالہ حاشیہ مشکوۃ ،ج1ص260، واللہ المستعان۔
3- تقلید آدمی کو نہ صرف بدعتی بنا دیتی ہے بلکہ اس کو اپنے بدعتی ہونے کا احساس بھی نہیں ہونے دیتی۔ تقلید بذات خود ایسی بدعتِ قبیحہ ہے جو بحیثیث مجموعی اُمت مسلمہ کے کمزور وجود میں ناسور کی حیثیت رکھتی ہے تاریخ شاہد ہے کہ تقلید جیسی لعنت سے ہمیشہ شریعت اسلامیہ کا مجلّٰی و مصفّٰی آئینہ گرد آلود ہوتا رہا ہے۔
علامہ شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے "ایضاح الحق الصریح" ص81 میں تقلید کو بدعتِ حقیقی قرار دیا ہے۔
4- تقلید کی وجہ سے آدمی کو جھوٹ جیسی لعنت کی عادت پڑ جاتی ہے کیونکہ اکثر نام نہاد علماء تقلید کے اثبات میں اللہ تعالی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف جھوٹ منسوب کرتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے تقلید کا حکم دیا ہے حالانکہ یہ اللہ تعالی کی ذات پر صریح جھوٹ ہے۔ کبھی احادیث رسول کی تاویلیں کر کے تقلید کے اثبات کے لیے سامان بہم پہنچاتے ہیں۔ حالانکہ شریعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تقلید سے مبّرا ہے اور کبھی صحابہ رضی اللہ عنہم کو مقلد ثابت کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان تقلید سے کہیں اعلٰی ہے۔
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
صحابہ رضی اللہ عنہم نے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل اور فرمان عالی کے مقابلے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ جیسے بلند پایہ صحابہ کی باتوں کو رد کیا ہے جیسے کہ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول موجود ہے:
(يوشك ان تنزل عليكم حجارة من السماء اقول: قال رسول الله ﷺ وتقولون: قال ابو بكر و عمر)
میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تم ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی بات کرتے ہو، مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں تم پر آسمان سے پتھروں کی بارش نہ آئے۔
جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما حج تمتع کو جائز سمجھتے تھے جبکہ ابو بکر صدیق اور عمر رضی اللہ عنہما حج تمتع کے قائل نہیں تھے۔
یہ صورتحال دیکھ کر کسی نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ یہ دونوں بزرگ صحابہ تو حج تمتع کے قائل نہیں ہیں اور آپ اس کے قائل ہیں تو جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہمارے لیے ابوبکر صدیق اور عمر رضی اللہ عنہما کا طرز عمل حجت نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول حجت ہے۔ میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تم ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی بات کرتے ہو۔ اگر تمہارا یہی طرزِ عمل و فکر رہا تو مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں تم پر آسمان سے پتھروں کی بارش نہ ہو جائے۔
قارئین محترم!
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے تقلید کے رد میں اس بے مثال قول میں سوچنا چاہیئے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے مقابلے میں کسی بڑے سے بڑے انسان کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے، تو مقلدین کیسے ہوئے اور صحابہ کرام آج کے مقلدین کی طرح بے باک لوگ نہیں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے ساتھ طرح طرح کے ظلم کرتے ہیں۔ واللہ المستعان۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تقلید کی نحوستوں میں سے ایک نحوست یہ ہے کہ آدمی جھوٹ کہنے میں مبتلا کر دیتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
5- تقلید کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اُمت کے علماء کے مراتب کے درمیان فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے، بلکہ بسا اوقات ایک عالم کو اتنا بڑھایا جاتا ہے کہ اس کی علمیت کی حدیں مقام نبوت سے تجاوز کرتی نظر آتی ہیں۔ یہ تقلید ہی کی تو ضلالت ہے جس کی وجہ سے انسان عالم کو نبی کا درجہ دیتا ہے اس کے اقوال کو نبی کے اقوال کے مقابلے میں قابل قدر نگاہوں سے دیکھتا ہے اور نبی کےفرامین کو فراموش کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا اگر کسی نے ایک امام کی بات کو دلیل کے بنا پر رد کیا تو وہ اس پر بہت غصہ میں آتا ہے اور اگر نبی کی بات رد کیجاتی ہے تو اس کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔
اگر کسی نے کہا کہ امام صاحب سے اس مسئلے میں خطاء ہوگئی ہے تو وہ ناراض ہو جاتا ہے اور اگر کسی نے کہا کہ یہ فلاں حدیث خطاء ہے یا منسوخ ہے یا ہمارے مذہب کیساتھ موافق نہیں تو وہ محقق جانتے ہیں۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے اس کا کیسا بہترین نقشہ کھینچا ہے:
والله لو خالفت نص رسوله۔۔نصا صريحاََ واضح التبيان
وتبعتَ قول شيوخھم او غيرھم۔۔كنت المحقق صاحب العرفان
حتي اذا خالفت آراء الرجال۔۔ لسنة المبعوث بالقرآن
نادوا عليك ببدعة وضلالة۔۔قالوا وفي تكفيره قولان
قالوا تنقصت الكبائر وسائر۔۔العلماء بل جاھرت بالبھتان
ترجمہ: اللہ کی قسم اگر آپ اللہ کے رسول کی صریح واضح البیان نص کی مخالفت کریں گے اور مقلدین کے شیوخ اور علماء کی تابعداری کریں گے تو یہ آپ کو محقق اور صاحب عرفان سمجھیں گے۔
اور جب آپ قرآن مجید میں نازل شدہ قانون کے مقابلے میں ان کے امام کی رائے کی مخالفت کریں گے تو یہ نہ صرف آپ کو بدعتی اور گمراہ کہیں گے بلکہ آپ کی تکفیر میں زبان درازی بھی کریں گے اور کہیں گے کہ نہ صرف آپ نے علماء اور بڑوں کی تنقیصِ شان کی ہے بلکہ صریح بہتان بھی لگایا ہے۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ ان اشعار میں مقلدین کی حالت بیان کرتے ہیں کہ اگر آپ مقلدین کے اماموں کے مقابلے میں صحیح اور صریح احادیث کی مخالفت کریں گے تب تو یہ آپ کو محقق سمجھیں گے لیکن اگر آپ احادیث کی وجہ سے ان کے اماموں کی آراء کو چھوڑ دیں گے تو یہ کبھی تو آپ کو بدعتی کہیں گے اور کبھی گمراہ۔ بلکہ کبھی تو کافر بھی کہنا شروع کر دیتے ہیں اور علماء کرام کی تنقیصِ شان کا الزام بھی لگا دیتے ہیں۔
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
6- تقلید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پاک سے تجاوز کرنے کا سبب بن جاتی ہے کیونکہ تقلید کے اثبات کی غرض غایت ہی یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے لوگوں کو متنفر کر کے کسی امام کے اجتہادی مسائل کا پابند بنایا جائے۔ یہاں حق اور باطل میں امتیاز کا یہ اہم نقطہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ جس کی دعوت اللہ جل شانہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ حق پرست ہے اور جس کی دعوت اولیاء کرام یا علماء کرام کی طرف ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ باطل پرست ہے یا شرک کی بیماری میں مبتلا ہے کیونکہ یہ اللہ تعالٰی کے مقابلے میں اولیاء کی عظمت لوگوں کے دلوں میں راسخ کرنا چاہتا ہے یا تقلید کی بیماری موجود ہے کیونکہ یہ علماء کرام کی ایسی صفات بیان کرتا ہے کہ عام لوگ یہ سمجھیں کہ دین کے کسی مسئلے میں بھی یہ علماء غلطی نہیں کریں گے اور بالکل معصوم عن الخطاء ہے۔
گذشتہ تمام بحث کا خلاصہ اور لبِ لباب یہ ہےکہ تقلید ایک ایسی مضر بیماری ہے جو دین اور ایمان کو داؤ پر لگا دیتی ہے جو سراسر بدعت ہے جس میں ممدوح ہونے کا احتمال ہی باطل ہے۔
جو حضرات لوگوں کو تقلید کی دعوت دیتے ہیں وہ یا تو اسلام کے صحیح تصور سے نا آشنا ہیں یا تقلید کے تباہ کن نتائج سے بے خبر ہیں اور یا اس کے انجامِ بد کو سمجھتے ہوئے بھی تعصب و عناد کے ہاتھوں ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو قرآن و حدیث کا پابند بنا دیں۔ آمین!
 
Top