- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
ساتواں شبہہ
بعض مقلدین تقلید کی تعریف یوں کرتے ہیں:
کسی امام کی بات پر بغیر دلیل کے عمل کیا جائے۔ دلیل اس لیے نہ مانگی جائے کہ وہ امام قرآن وحدیث کی بصیرت رکھتا ہے اور جو مسئلہ اس نے قرآن و حدیث سے اخذ کیا ہے قابل قبول ہے ۔ تو ایسی تقلید کرنے میں کیا قباحت ہے؟ ( جس طرح کہ مقلدین کے مقلد نے لکھا ہے)۔
جواب : مذکورہ تقلید بھی چند وجوہات کی بنیاد پر قبیح اور غلط ہے:
1- پہلی وجہ یہ ہے کہ اس امام سے دلیل کیوں نہیں طلب کی جائے گی کیونکہ وہ نبی تو نہیں کہ اس کی بات بغیر چوں چراں کے مان لی جائے؟ اس سے تو مسلمانوں کو منع کی گیا ہے۔ کیونکہ یہ یہودیوں کی صفت تھی کہ وہ اپنے علماء اور پیروں سے دلیل نہیں طلب کرتے تھے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ ) سورہ توبہ ۔۔کہ انہوں نے اپنے مولویوں اور پیروں کو رب بنا لیا تھا۔ اسی طرح اللہ تعالی سورہ یوسف میں ارشاد فرماتے ہیں: (قُلْ هَـٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّـهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي )۔ کہہ دیجئے کہ یہ میرا راستہ ہے میں اللہ کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہوں میں اور میرے پیروکار بصیرت پر ہیں۔
بصیرت دلائل کے ساتھ بات کی تہہ تک پہنچنے کو کہتے ہیں۔ بغیر دلیل کے کسی بات کو مان لینا جہالت کہلاتا ہے کیونکہ تمام اُمت کا اس بات پر اجماع ہے کہ ہر مقلد جاہل ہوتا ہے (تفسیر قرطبی:ج2ص212)۔
2- دوسری وجہ یہ ہے کہ مقلد کو کیسے معلوم ہوگا کہ اس کا امام تمام علماء سے زیادہ جانتا ہے۔ یہ تو اُس وقت ممکن ہے جب مقلد قرآن وحدیث ، اقوال صحابہ اور ان کے دلائل سے اچھی طرح واقف اور باخبر ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں راجح و مرجوح، صحیح اور ضعیف کو بھی جانتا ہو۔ ایسی صورت میں کسی عالم یا امام کے بارے یہ خیال ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ یہ سب سے زیادہ جانتا ہے لیکن جب آدمی کے علم کی حالت یہ ہو تو اس کو تقلید کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ مقلدین خود کہتے ہیں کہ تقلید جاہل کی ضرورت ہوتی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ شرعی احکام میں اپنے آپ کو جاہل سمجھنے والے مقلدین علماء کی علمی قابلیت جانچنے کے لیے تو بڑے ماہر بن جاتے ہیں اور احکام شریعت کی سمجھ اورفہم سے اپنے آپ کو معذور سمجھتے ہیں۔
3- تیسری وجہ یہ ہے کہ کیا صاحب بصیرت عالم سے غلطی ہوسکتی ہے یا نہیں؟ (ہو سکتی ہے کیونکہ یہ انسانیت اور بشریت کا تقاضہ ہے) تو امام ابوحنیفہ رحمہ کے بارے میں ہم پوچھتے ہیں کہ وہ ممتاز عالم ہونے کیساتھ ساتھ احناف یہ مانتے ہیں کہ اُن سے خطاء ہو سکتی ہے کہ نہیں، احناف کی زبان سے جواب یہ کہ امام ابوحنیفہ سے بھی غلطی ہو سکتی ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کیونکہ احناف بہت سے مسائل میں امام ابو حنیفہ کا قول چھوڑ کر صاحبین کے قول پر فتوی دے چکے ہیں اگر فرصت ہو تو فقہ حنفی کا ذرا مطالعہ کیجئے تا کہ تم کو معلوم ہوجائے کہ بہت سے مسائل میں لکھ چکے ہیں کہ "وَالفَتوی عَلی قَولِھِما"۔ مثلا مزارعہ وغیرہ میں۔
اس کے علاوہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ خود ایک متکلم فیہ راوی ہے، علماء اُمت نے اس کو ضعیف راوی کہا ہے۔ آئندہ صفحات پر اس کی تفصیل ملاحظہ کیجئے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو اُمت کے بقیہ تمام علماء کے مقابلے میں سے زیادہ دینی بصیرت کا حامل قرار دینے والوں سے ہم یہ پوچھتے ہیں کہ جب تفاسیر قرآن میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کوئی تفسیر نہیں ہے، کتب احادیث میں ان کی کوئی کتاب نہیں ہے، شروحاتِ حدیث میں ایسی کوئی شرح نہیں ہے جسے ان کی طرف منسوب کیا جائے اور جب دنیا کی لائبریریوں کے ذخیرہ کتب میں ایسی کوئی کتاب نہیں ہے جس کو امام ابوحنیفہ کا علمی کارنامہ کہا جاسکے تو پھر تم کیسے برسرِ ممبر امام صاحب رحمہ اللہ کی دینی بصیرت کے لامنتہی دعوے کرتے ہو؟ کتاب وسنت سے تعلق رکھنے والا ہر مسلمان جب تعصب کو بالائے طاق رکھ کر دیگر مذاہب کے مقابلے میں حنفی مذہب کا تجزیہ کرے گا تو یہ حقیقت اس کے سامنے بالکل ظاہر ہو جائے گی کہ حنفی مذہب کے اکثر احکام ضعیف روایات، موقوفات اور مقطوعات پر مبنی ہیں اور صحیح حدیث پر عمل کرنا اس بدنصیب مسلک کی قسمت میں نہیں ہے۔ نصب الرایہ، اعلاء السنن وغیرہ ملاحظہ کیجئے)۔
(احناف کی کتابوں میں یہ اقرار موجود ہے: کہ احناف کے نزدیک موقوف حدیث بھی حجت ہے، مرسل بھی اور ضعیف بھی حجت ہے دیکھیں (حدیث اور اہل حدیث) خود ہدایہ وغیرہ کے بارے میں مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی لکھتے ہیں: "کہ ان معتبر کتابوں میں ساری حدیثیں موضوع ہیں"ترجمہ مقدمہ عمدۃ الرعایہ مطبع یوسفی ص12۔ مولانا یوسف لدھیانوی فرماتے ہیں: اہل علم جانتے ہیں کہ ہدایہ میں بہت سی روایات بالمعنی ہیں اور بعض ایسی بھی ہیں جن کا حدیث کی کتابوں میں کوئی وجود نہیں ہے۔ ماہنامہ بیّنات دسمبر:1981)
لیکن اس بات کو صرف وہی متجّر عالم سمجھ سکتا ہے جو تعصب سے مبرا ہو۔ ہر طالب علم اور ناقص مولوی اس کو نہیں سمجھ سکتا ہے۔
بعض مقلدین تقلید کی تعریف یوں کرتے ہیں:
کسی امام کی بات پر بغیر دلیل کے عمل کیا جائے۔ دلیل اس لیے نہ مانگی جائے کہ وہ امام قرآن وحدیث کی بصیرت رکھتا ہے اور جو مسئلہ اس نے قرآن و حدیث سے اخذ کیا ہے قابل قبول ہے ۔ تو ایسی تقلید کرنے میں کیا قباحت ہے؟ ( جس طرح کہ مقلدین کے مقلد نے لکھا ہے)۔
جواب : مذکورہ تقلید بھی چند وجوہات کی بنیاد پر قبیح اور غلط ہے:
1- پہلی وجہ یہ ہے کہ اس امام سے دلیل کیوں نہیں طلب کی جائے گی کیونکہ وہ نبی تو نہیں کہ اس کی بات بغیر چوں چراں کے مان لی جائے؟ اس سے تو مسلمانوں کو منع کی گیا ہے۔ کیونکہ یہ یہودیوں کی صفت تھی کہ وہ اپنے علماء اور پیروں سے دلیل نہیں طلب کرتے تھے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ ) سورہ توبہ ۔۔کہ انہوں نے اپنے مولویوں اور پیروں کو رب بنا لیا تھا۔ اسی طرح اللہ تعالی سورہ یوسف میں ارشاد فرماتے ہیں: (قُلْ هَـٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّـهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي )۔ کہہ دیجئے کہ یہ میرا راستہ ہے میں اللہ کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہوں میں اور میرے پیروکار بصیرت پر ہیں۔
بصیرت دلائل کے ساتھ بات کی تہہ تک پہنچنے کو کہتے ہیں۔ بغیر دلیل کے کسی بات کو مان لینا جہالت کہلاتا ہے کیونکہ تمام اُمت کا اس بات پر اجماع ہے کہ ہر مقلد جاہل ہوتا ہے (تفسیر قرطبی:ج2ص212)۔
2- دوسری وجہ یہ ہے کہ مقلد کو کیسے معلوم ہوگا کہ اس کا امام تمام علماء سے زیادہ جانتا ہے۔ یہ تو اُس وقت ممکن ہے جب مقلد قرآن وحدیث ، اقوال صحابہ اور ان کے دلائل سے اچھی طرح واقف اور باخبر ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں راجح و مرجوح، صحیح اور ضعیف کو بھی جانتا ہو۔ ایسی صورت میں کسی عالم یا امام کے بارے یہ خیال ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ یہ سب سے زیادہ جانتا ہے لیکن جب آدمی کے علم کی حالت یہ ہو تو اس کو تقلید کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ مقلدین خود کہتے ہیں کہ تقلید جاہل کی ضرورت ہوتی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ شرعی احکام میں اپنے آپ کو جاہل سمجھنے والے مقلدین علماء کی علمی قابلیت جانچنے کے لیے تو بڑے ماہر بن جاتے ہیں اور احکام شریعت کی سمجھ اورفہم سے اپنے آپ کو معذور سمجھتے ہیں۔
3- تیسری وجہ یہ ہے کہ کیا صاحب بصیرت عالم سے غلطی ہوسکتی ہے یا نہیں؟ (ہو سکتی ہے کیونکہ یہ انسانیت اور بشریت کا تقاضہ ہے) تو امام ابوحنیفہ رحمہ کے بارے میں ہم پوچھتے ہیں کہ وہ ممتاز عالم ہونے کیساتھ ساتھ احناف یہ مانتے ہیں کہ اُن سے خطاء ہو سکتی ہے کہ نہیں، احناف کی زبان سے جواب یہ کہ امام ابوحنیفہ سے بھی غلطی ہو سکتی ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کیونکہ احناف بہت سے مسائل میں امام ابو حنیفہ کا قول چھوڑ کر صاحبین کے قول پر فتوی دے چکے ہیں اگر فرصت ہو تو فقہ حنفی کا ذرا مطالعہ کیجئے تا کہ تم کو معلوم ہوجائے کہ بہت سے مسائل میں لکھ چکے ہیں کہ "وَالفَتوی عَلی قَولِھِما"۔ مثلا مزارعہ وغیرہ میں۔
اس کے علاوہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ خود ایک متکلم فیہ راوی ہے، علماء اُمت نے اس کو ضعیف راوی کہا ہے۔ آئندہ صفحات پر اس کی تفصیل ملاحظہ کیجئے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو اُمت کے بقیہ تمام علماء کے مقابلے میں سے زیادہ دینی بصیرت کا حامل قرار دینے والوں سے ہم یہ پوچھتے ہیں کہ جب تفاسیر قرآن میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کوئی تفسیر نہیں ہے، کتب احادیث میں ان کی کوئی کتاب نہیں ہے، شروحاتِ حدیث میں ایسی کوئی شرح نہیں ہے جسے ان کی طرف منسوب کیا جائے اور جب دنیا کی لائبریریوں کے ذخیرہ کتب میں ایسی کوئی کتاب نہیں ہے جس کو امام ابوحنیفہ کا علمی کارنامہ کہا جاسکے تو پھر تم کیسے برسرِ ممبر امام صاحب رحمہ اللہ کی دینی بصیرت کے لامنتہی دعوے کرتے ہو؟ کتاب وسنت سے تعلق رکھنے والا ہر مسلمان جب تعصب کو بالائے طاق رکھ کر دیگر مذاہب کے مقابلے میں حنفی مذہب کا تجزیہ کرے گا تو یہ حقیقت اس کے سامنے بالکل ظاہر ہو جائے گی کہ حنفی مذہب کے اکثر احکام ضعیف روایات، موقوفات اور مقطوعات پر مبنی ہیں اور صحیح حدیث پر عمل کرنا اس بدنصیب مسلک کی قسمت میں نہیں ہے۔ نصب الرایہ، اعلاء السنن وغیرہ ملاحظہ کیجئے)۔
(احناف کی کتابوں میں یہ اقرار موجود ہے: کہ احناف کے نزدیک موقوف حدیث بھی حجت ہے، مرسل بھی اور ضعیف بھی حجت ہے دیکھیں (حدیث اور اہل حدیث) خود ہدایہ وغیرہ کے بارے میں مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی لکھتے ہیں: "کہ ان معتبر کتابوں میں ساری حدیثیں موضوع ہیں"ترجمہ مقدمہ عمدۃ الرعایہ مطبع یوسفی ص12۔ مولانا یوسف لدھیانوی فرماتے ہیں: اہل علم جانتے ہیں کہ ہدایہ میں بہت سی روایات بالمعنی ہیں اور بعض ایسی بھی ہیں جن کا حدیث کی کتابوں میں کوئی وجود نہیں ہے۔ ماہنامہ بیّنات دسمبر:1981)
لیکن اس بات کو صرف وہی متجّر عالم سمجھ سکتا ہے جو تعصب سے مبرا ہو۔ ہر طالب علم اور ناقص مولوی اس کو نہیں سمجھ سکتا ہے۔
Last edited by a moderator: