• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقلید کی حقیقت اور مقلدین کی اقسام

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
دوسری بحث

یہ بحث مقلدین کے باطل شکوک و شبہات کے جوابات کے بارے میں ہے۔
ہم مکمل ذمہ داری اور وثوق سے کہتے ہیں کہ تقلید کے اثبات کی دلیل نہ قرآن و حدیث میں موجود ہے اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار سے کہیں اس کی دلیل ملتی ہے اس کے برعکس تقلید کا رد قرآن وحدیث میں واضح ہے اور صحابہ کرام کی پوری زندگی تقلید جیسی لعنت کے رد اور بطلان پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔
ہاں: تقلید کے اثبات سے متعلق مقلدین کے دلوں میں شکوک و شبہات شیطان نے ضرور ڈالے ہیں۔ اس کے اثبات پر مقلدین کی طرف سے منظر عام پر آنے والی تمام کتابوں میں دو پہاڑوں کی بلند و بالا چوٹیوں کو باہم ملانے کی منافئ عقل کوشش کی گئی ہے اور وہ دلائل دیئے گئے ہیں جن کا تقلید کے اثبات سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے کہ دعویٰ تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کا کرتے ہیں لیکن جب دلائل کی باری آتی ہے تو یا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی اقتداء کا ذکر کرتے ہیں یا کسی بقیدِ حیات عالم سے مسائل کے بارے میں سوالات اور معاملات کو تقلید کا نام دیتے ہیں اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے طور طریق کی تابعداری کو تقلید سے تعبیر کرتے ہیں۔
آئندہ صفحات پر اسکی تفصیل ملاحظہ کیجئے ( ان شاء اللہ) اگر اپنے دین کی خیرخواہی کے پیش نظر تعصب اور عناد کو بالائے طاق رکھ کر سنجیدگی سے اس مسئلے پر غور کیا جائے تو یقیناََ اللہ کے فضل سے تمام شکوک و شبہات رفع ہوجائیں گے۔
ایک اہم نکتہ:
مقلدین کے شبہات کا ذکر کرنے سے پہلے اس نکتہ کو ذہن نشین کرانا ضروری سمجھتے ہیں:
"ہر بدعتی اپنی بدعت کے جواز کےلیے قرآن وحدیث سے جو دلیل پیش کرتا ہے اگر اس پر غور کیا جائے تو اسی دلیل میں اس بدعت کا رد موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح مقلدین کی جانب سے تقلید کے اثبات میں پیش کردہ شبہات کی بھی یہی حالت ہے کہ ان کا دوسرا پہلو مقلدین کے مقصود کو باطل کرسکتا ہے۔"
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
مقلدین کے شبہات مع جوابات

پہلا شبہہ
(وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ)۔ سورۃ السجدۃ آیت:24
"اور ہم نے ان میں سے ـ چونکہ ان لوگوں نے صبر کیا تھا ـ اسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کا راستہ بتاتے تھے وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے"۔
مقلدین کا خیال ہے کہ اس آیت سے تقلید ثابت ہوتی ہے کیونکہ بنی اسرائیل میں بھی امام تھے اور اپنی قوم کی رہنمائی کرتے تھے اور اسی رہنمائی کا نام تقلید ہے۔
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ آیت بنی اسرائیل کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور انہی کی حالت اس میں بیان کی گئی ہے جبکہ آپ اس سے چاروں اماموں کی تقلید ثابت کرنا چاہتے ہیں؟۔
دوسری بات یہ ہے کہ لفظ (يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا) خود تقلید کے رد پر دلالت کرتا ہے کیونکہ وہ اللہ تعالی کی مخلوق کو اپنی رائے کی طرف نہیں بلاتے تھے بلکہ "بامرنا" اللہ کےحکم سے ہدایت کا راستہ دکھاتے تھے اس سے بالکل تقلید ثابت نہیں ہوتی کیونکہ لوگ اللہ کی طرف سے نازل شدہ وحی کی تابعداری کرتے تھے جبکہ تقلید تو کسی خاص اُمتی کی بات کو بغیر دلیل کے ماننے کا نام ہے۔
قارئین محترم! قرآن مجید کی آیتوں کا غلط مفہوم بیان کرنا کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔
یہ ہر مسلمان کے ایمان و اسلام کے منافی حرکت ہے۔ جب ہم تقلید کے رد میں قرآن مجید سے آیتیں پیش کرتے ہیں تو ان کو یہ کہہ کر مقلدین جھٹلا دیتے ہیں کہ یہ مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہیں لیکن خود اپنے بعید از حقیقت استدلال نظر نہیں آتے۔
تیسری بات یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی گمراہی کا سبب بھی تو یہی تقلید بنی تھی، قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے:
(اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ )۔ سورۃ التوبہ، آیت:31
"بنی اسرائیل نے اپنے پیروں اور مولویوں کو اللہ کے علاوہ رب بنا لیا"
بنی اسرائیل کے طرزِ عمل کو دلیل میں پیش کرنے کا مطلب تو یہ ہوا کہ آج کے مقلدین مقہور و مغضوب بنی اسرائیل کی طرح ہیں۔
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
دوسرا شبہہ
مقلدین قرآن مجید کی یہ آیت دلیل میں پیش کرتے ہیں:
(وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ )۔ سوۃ العنکبوت، آیت:43
"(قرآن مجید کی مثالوں کو) صرف علماء حق ہی سمجھ سکتے ہیں"
جب علماءِ حق قرآن کو سمجھتے ہیں تو ظاہر بات ہے کہ عام لوگ ان سے قرآن سمجھیں گے اور ان کی بتائی ہوئی تشریح کو قبول کریں گے اور یہی چیز تقلید کہلاتی ہے۔
جواب: تقلید سے انسان کی عقل بغض و عناد کی نذر ہوجاتی ہے۔ حقیقی فرزانگی کی دولت سے وہ یکسر محروم ہو جاتا ہے اور یوں وہ عقل سے بے گانہ ہو کر اپنے مدعا کے لیے ایسے دلائل پیش کرتا ہے جو اس کے دعوی کی نفی کے سبب بن جاتے ہیں۔
مندرجہ بالا آیت سے تقلید کا رد ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالی نے جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے (علماء کرام جانتے ہیں) جبکہ احناف تو اس سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو دین کے تمام مسائل کے سمجھنے کا نایاب طرّہ امتیاز دیتے ہیں۔ اُمت کے باقی علماء تو ان کی شرمندہ انصاف نگاہوں میں کوئی وقعت نہیں رکھتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالی کسی عالم کو قرآن فہمی کی نعمت سے نوازے تو کیا وہ عالم عوام کو اپنی رائے بتائے گا یا قرآن مجید کا مطلب؟۔ اس آیت میں تو قیاس و آراء کا ذکر تک نہیں، آپ اس سے کیسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے کا جواز ثابت کرتے ہیں؟۔
اگر غور کیا جائے، امام صاحب کی تقلید تو دور کی بات ہے احناف نے تو مقلدین کی تقلید شروع کردی ہے جیسے شامی، صاحب ہدایہ اور علماءِ دیوبند وغیرہم۔
تیسری بات یہ ہے کہ مقلدین کی تمام تر کوشش امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید ثابت کرنے پر ہوتی ہے اور وہ ان کی فقاہت، زہد و تقویٰ کو عوام الناس کے ذہنوں کی ہموار تختیوں پر مبالغہ آمیزی کی میخوں سے پیوست کرنے میں ہمیشہ سرگرم عمل رہتے ہیں۔
جبکہ اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ قرآن فہمی کی نعمت علماء کرام کو دی گئی ہے۔ انہی علماء سے متعلق، مقلدین سے ہمارا یہ سوال ہے کہ کیا ان علماء سے مراد وہ علماء ہیں جو زندہ ہیں یا وہ جو وفات پاچکے ہیں؟
اگر اس سے مراد زندہ علماء کرام ہیں تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کے اثبات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اور اگر وہ علماء مراد ہیں جو وفات پاچکے ہیں تو تب بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید ناممکن ہے کیونکہ ان سات براعظموں پر محیط اس کرہ ارض پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کسی بھی کتاب کا وجود نہیں ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے احادیث کی تشریح اور قرآن کی تفسیر کی ہے۔ لیکن ان کا یہ خیال باطل ہے کیونکہ امام صاحب کی نہ تو احادیث میں کوئی شرح ہے اور نہ کوئی تفسیر لکھی ہے تو یہ تشریح کہاں پر موجود ہے؟۔ اگر احناف فقہ حنفی کو قرآن کی تفسیر اور حدیث کی شرح قرار دیتے ہیں تو ہمارا دعویٰ ہے کہ یہ ان کی جذباتی اور بے حقیقت بات ہے کیونکہ فقہ کی کسی بھی کتاب سے قرآن کی تفسیر اور حدیث کی تشریح محال ہے۔ لیکن اگر مقلدین کو اصرار ہے تو پھر ہدایہ لیکر ہمیں صحیح بخاری کی شرح اور تفصیل کر کے دیں یا قرآن مجید کی کسی سورۃ کا ہدایہ وغیرہ سے حل پیش کریں۔ یہ بات تو بالاتفاق تمام علماء جانتے ہیں کہ فقہ کی تائید کے لیے قرآن و حدیث سے دلائل لیے جاتے ہیں لیکن قرآن و حدیث اپنا معنی و مقصود بتانے میں کسی فقہ کے محتاج نہیں ہیں۔ یہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اے مسلمانو! ذرا غور و فکر کرو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
تیسرا شبہہ
مقلدین، حذیفہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت پیش کرتے ہیں:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:اقتدوا باللذین من بعدی ابی بکر و عمر۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میرے بعد ابوبکرو عمر (رضی اللہ عنہما) کی اقتداء کرو۔
(ترمذی:ج2ص207، مستدرک:ج2ص75، مشکوۃ:ج2ص560)
سرفراز صفدر اس حدیث کے بارے میں "الکلام المفید" ص91 میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے تقلید شخصی ثابت ہوتی ہے۔
جواب: مولانا سرفراز صفدر نے اس حدیث سے جو استدلال کیا ہے اس قسم کے استدلالات کی توقع تو صرف بچوں اور دیوانوں سے ہی کی جاسکتی ہے لیکن جو فرزانگی کی نعمت سے مالامال ہو کر بھی دیوانوں جیسی حرکت کرے اس کی نام نہاد عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس حدیث سے تقلید کو ثابت کرنا ہی جہالت ہے۔ آگ اور پانی کو باہم ملانے کی منافی از عقل کوشش ہے۔ اس حدیث سے تقلید بالکل ثابت نہیں ہوتی، مندرجہ ذیل وجوہ سے:
1-پہلی وجہ: یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امور خلافت کی اقتداء کا حکم دیا ہے نہ کہ امور دین کی، جیسا کہ آگے چل کر واضح ہوگا۔
2- دوسری بات یہ ہے کہ بہت سارے مسائل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ اختلاف کیا ہے جیسا کہ کتب حدیث میں اسکی بہت سارے مثالیں ذکر ہیں، تو انہوں نے ابو بکر و عمر کی تقلید کیوں نہیں کی؟۔ تو کیا آپ اس حدیث کی روشنی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بغاوت کا فتوی لگا سکتے ہیں؟۔
3- تیسری وجہ یہ ہے: ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں مانعینِ زکوۃ سے جہاد کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا خلیفہ وقت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اختلاف ہو اتھا، لیکن جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دلائل دیئے تو وہ مان گئے اور جہاد شروع کیا۔تو کیا دلائل کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کو تقلید کہتے ہیں؟۔
4-چوتھی بات یہ ہے کہ اگر حقیقتاََ اس حدیث سے تقلید شخصی ثابت ہوتی ہے جیسا کہ آپ کا زعمِ باطل ہے تو پھر دنیا میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب مذہب کیوں نہیں؟۔ کیا کوئی اپنے آپ کو مذہباََِ صدیقی یا عمری کہلانا پسند کرتا ہے؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟۔
پھر احناف کا مذہب تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تقلید کو ناجائز سمجھتا ہے جیسا کہ مسلم الثبوت، ج2ص407 میں لکھا ہے۔
مقلدین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کا انداز بھی نرالہ اپنایا ہوا ہے۔ بقول احناف، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہ کی تقلید کا حکم دیا ہے لیکن یہ اپنی تقلید کے لیے کوفہ جا کر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا انتخاب کرتے ہیں۔
5- پانچویں وجہ یہ ہے کہ بہت سے ایسے مسائل ہیں جو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیے ہیں لیکن احناف ان کو نہیں مانتے، مثلا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما قربانی نہیں کرتے تھے جبکہ احناف اس کو واجب سمجھتے ہیں جیسا کہ المحلی لابن حزم ،ج2ص9 میں لکھا ہوا ہے۔
اسی طرح عمر فاروق رضی اللہ عنہ "مس المرأة "یعنی عورت کو چھونے سے وضوء کے ٹوٹنے کے قائل تھے۔ (مشکوٰۃ: ج1ص41)۔
جبکہ احناف اس کے قائل نہیں ہیں۔ اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت کے مطابق عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے تھے (جمعوا حیث کنتم) جمعہ کی نماز ہر جگہ ادا کرو۔ جبکہ حنفی علماء کے نزدیک ہر جگہ جمعہ کی نماز نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ کتب احادیث میں اور بھی کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں احناف کا ابوبکر و عمر رضی ا للہ عنہما سے اختلاف ہے۔ تفصیل کے لیے ہماری مستقل کتاب (احناف اور خلفاء راشدین) دیکھیں۔
بقول احناف اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی تقلید کا حکم دیا ہے تو پھر احناف کا متعدد مسائل میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے اختلاف کیوں ہے؟۔
6- چھٹی وجہ یہ کہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اقتداء دلائل کی روشنی میں کی جائے گی یا دلائل کے بغیر؟ اگر دلائل کے بغیر کی جائيگی تو پھر چار اماموں کی ضرورت ہی کیا تھی؟ بس صحابہ کرام کی اقتداء بغیر دلیل کے ہر شخص کرتا۔ لیکن اگر مقلدین کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام کی اقتداء بھی دلائل کے مطابق کیجائے گی تو پھر اس اقتداء سے تقلید کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔
7- ساتویں وجہ: اگر اس حدیث کی مخاطب پوری اُمت ہے تو کیا چار امام اس حدیث پر عمل کریں گے یا وہ اس حدیث کے حکم سے مستثنیٰ ہیں۔
اگر ائمہ اربعہ بھی اس پر عمل کریں گے تو پھر یہ مقلد ہوئے اور آج کے مقلدین، مقلدین کے مقلد بنیں۔ جبکہ یہ حقیقت بھی ہے کہ آج کے حنفی مقلدین امام ابو حنیفہ تو درکنار، صاحب ہدایہ، قاضی خان، بلکہ ابن عابدین کی تقلید کرتے ہیں۔
اگر چاروں اماموں نے اس حدیث پر عمل نہیں کیا تو آپ نے اس سے تقلید کے وجوب پر استدلال کیسے کیا؟ ممکن ہے یہ حدیث اُن کے نزدیک منسوخ، ضعیف یا خاص ہو، اور اگر آپ کے خیال میں اس حدیث میں ائمہ اربعہ سے خطاب نہیں ہے جیسا کہ سرفراز صفدر نے اس طرف اشارہ کیا ہے تو اس تخصیص اور استثناء کی دلیل کیا ہے؟۔
8- آٹھویں وجہ یہ ہے: کیا تمام صحابہ کرام ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے مقلد تھے یا ان میں مجتہدین بھی تھے؟ اگر سارے مقلد تھے تو یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ خود آپکے نزدیک مجتہد تھے (اور یہ حقیقت بھی ہے) اور اگر ان میں مجتہدین بھی تھے تو وہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے مقلد تو نہ ہوئے اور اس حدیث کی خلاف ورزی بھی اُن سے سرزد ہوئی!!۔
9- نویں وجہ یہ ہے کہ کیا ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے بھی غلطی کا احتمال ہے یا نہیں؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ وہ معصوم عن الخطاءتھے تو یہ بات آپ کے اپنے اصول کے خلاف ہے کیونکہ آپ کا بھی تو یہ قاعدہ ہے کہ "المجتھد یخطی ویصیب"( ہر مجتہد کبھی حقیقت تک رسائی حاصل کرتا ہے اور کبھی اس میں غلطی کر جاتا ہے) اگر آپ ان کی غلطی تسلیم کرتے ہیں تو پھر ان کی غلط اور صحیح بات کو پرکھنے کا معیار کیا ہوگا؟۔ اگر قرآن اور حدیث کی پہلی اور آخری کسوٹی پر اس کو پرکھا جائے گا تو اس سےتقلید ثابت نہیں۔ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عمر رضی اللہ عنہ کے اقوال کے رد میں دلائل پیش کیے اور جناب عمر رضی اللہ عنہ نے اپنےقول سے رجوع کیا۔ جس طرح کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، دیوانی عورت پر حد جاری کرتے تھے۔ لیکن جب علی رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پیش کرکے مخالفت کی، جس کے مقابلے میں عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا۔ (ابوداؤد رقم: 3499، ج2ص252)۔
اسی طرح جب جناب عمر رضی اللہ عنہ نے زیادہ مہر دینے سے منع کیا تو ایک عورت نے قرآن کی یہ آیت پیش کی "وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا" کہ شوہر اپنی بیوی کو مہر میں خزانہ بھی دے سکتا ہے۔ اور آپ زیادہ مہر دینے سے منع کر رہے ہیں؟ اس آیت کے جواب میں عمر رضی اللہ عنہ نے رجوع کر لیا۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ : عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں: وکان وقافا عند کتاب اللہ۔
یعنی عمر رضی اللہ عنہ ، کتاب اللہ سے آگے بڑھنے کا تصور بھی نہیں کرتے تھے۔
تو اس حدیث سے تقلید ثابت کرنا بے وقوفی کی علامت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا غلط مطلب بیان کرنا اتنا ہی بڑا جرم ہے جتنا کہ جھوٹی حدیث گھڑنے کا جرم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"من کذب علي متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار " جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ منسوب کیا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھ لے۔ (بخاری و مسلم)
 
Last edited by a moderator:

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
بھائی نعیم صاحب ! جزاک اللہ خیر الجزاء۔ ماشاءاللہ استدلال قوی ہے ،،، آپ عالم بھی ہیں ،مفتی بھی ہیں رہبر بھی ہیں ۔۔۔ آپ کے فکر میں واضح ہے تقید سے نجات ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اراکین سے التماس ہے، جب تک کتاب مکمل نہ ہوجائے اس پر تبصرہ نہ کریں۔ جزاک اللہ خیرا!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
چوتھا شبہہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
(رَضِيتُ لَكُم مَا رَضِيَ ابنُ اُمِٗ عَبدِِ) ۔ مستدرک :ج3ص319
جو چیز تمہارے لیے عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پسند کرے اسی چیز پر میں تمہارے لیے راضی ہوں۔ مقلدین کہتے ہیں کہ فقہ حنفی کی بنیاد ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اقوال پر رکھی گئی ہے۔ جبکہ ابن مسعود رضی اللہ کی باتوں سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر اللہ تعالٰی خوش ہیں لہذا اللہ اور رسول دونوں فقہ حنفی پر راضی ہیں اور اس سے خوش ہیں۔ (الکلام المفید،سرفراز صفدر:ص291)
جواب: قارئین محترم! حسب معمول مذکورہ استدلال میں بھی تقلید جیسے بے ہودہ عمل کے اثبات کے لیے احادیث رسول میں تحریف اور تقول علی اللہ والرسول سے کام لیا گیا ہے۔ اس تحریف کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
1- کیا اللہ تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسی فقہ پر راضی ہوسکتے ہیں؟ جس میں لکھا ہو "اصغرھم عضواََ" (امام بننے کا زیادہ حقدار وہ شخص ہے جس کا ذکر سب سے چھوٹا ہو یا سب سے بڑا ہو(مراقی الفلاح:ص70)
کیا اللہ تعالی اس فقہ سے خوش ہوسکتا ہے؟ جس میں کرائے پر حاصل کی جانے والی عورت کے ساتھ زنا کی کوئی حد نہ ہو۔ (فتاوی عالمگیری وغیرہ)
کیا اللہ تعالی ایسی فقہ سے خوش ہو سکتا ہے جس میں شرعی احکام کا مذاق اُڑایا گیا ہو؟
ایسی پُر از خرافات فقہ سے تو ایک ادنیٰ قسم کا مومن بھی خوش نہیں ہوسکتا ؟ افسوس! آج مسلمانوں میں بھی اللہ کی غیرت کو للکارنے والے پیدا ہوئے جن کے دل میں نہ خوفِ الہی رہا اور نہ شرمِ خلق۔۔
2- کیا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اُمت کے لیے فقہ حنفی اور تقلید کے انتخاب پر خوش ہیں یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اتباع کے انتخاب پر خوش ہیں؟۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں: ( لا يقلدن احدكم دينه رجلا) تاکید پر تاکید لا کر بڑی سختی کے ساتھ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ کوئی مسلمان دین کے معاملے میں کسی بھی آدمی کی تقلید نہ کرے۔ (مجمع الزوائد:ج1ص180، اعلام الموقعین:ج2ص194) اسی طرح کتاب ہذا ص279 ملاحظہ کیجئے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اُمت کو تقلید سے بچنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ مزید فرماتے ہیں: ( اُولٰئِكَ اَصحَابُ مُحَمدِِ )مشکوہ:ج1ص302
تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اُمت کے لیے نہ تو تقلید پر خوش ہیں اور نہ فقہ حنفی پر۔ اور حدیث کا جو مطلب سرفراز نے بیان کیا ہے وہ سراسر غلط ہے۔
3- تیسرا جواب یہ ہے کہ فقہ حنفی میں اکثر مقامات پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے فتوے کے خلاف مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ جس طرح عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر شوہر اپنی بیوی کا بوسہ لے تو وہ دوبارہ وضوء کرے گا ( موطا امام مالک:ج1ص31، مشکوۃ ج1ص49)
جبکہ فقہ حنفیہ کے نزدیک ایسا شخص دوبارہ وضوء کرنے کا پابند نہیں ہے۔ اسی طرح عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک جنبی کےلیے تیمم کا حکم نہیں ہے۔ (بخاری:ج1ص49)
جبکہ فقہ حنفی کے نزدیک جنبی تیمم کر سکتا ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عنہ کا فتوی ہے کہ نماز میں سلام کا جواب ہاتھ کے اشارے سے دیا جاسکتا ہے۔ جبکہ فقہ حنفی اس کو ممنوع قرار دیتی ہے۔
(فتاوی الدین الخالص:ج1ص227، ابن شیبہ ج2ص74، مجمع الزوائد: ج2ص82)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مسجد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے جبکہ احناف کے نزدیک مسجد کو منتقل کرنا مطلقا ناجائز ہے۔ (مسندالخلال، مجموعۃ الفتاوی)
اس طرح عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تسبیح کو بدعت سمجھتے ہیں۔
جبکہ احناف کے ہاں جائز ہے۔(کما فی کتاب البدع والنہی عنہا، ص:10 و فتاوی الدین الخالص: ج1ص221)
اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ جن کو یہاں بیان کرنا ضروری نہیں ہے۔ حنفیوں کے غلط استدلال کو رد کرنے کے لیے مذکورہ مثالیں ہی کافی ہیں۔ بقول احناف کے اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم فقہ حنفی سے صرف اس لیے راضی ہیں کہ وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اقوال پر مبنی ہے تو پھر مندرجہ بالا مسائل میں فقہ حنفی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اقوال کی تائید کیوں نہیں کرتی؟۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مقلد کو صرف اپنی خواہش سے غرض ہوتی ہے اس کے نزدیک دلیل کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔
4- چوتھا جواب یہ ہے کہ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تقلید کی ہے یا نہیں کی؟
اگر کی ہے تو پھر ہم آپ سے دلیل کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن جناب آپ کو مایوسی ہوگی ایسی دلیل آپ سے بن نہ پائے گی کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نعوذ باللہ بدعتی نہیں تھے جو تقلید کی لعنت میں پڑتے۔
لیکن اگر آپ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تقلید نہیں کی ہے تو پھر جس حدیث سے آپ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تقلید ثابت کرنا چاہتے ہیں صحابہ کرام کا عمل تو اس حدیث کے خلاف ہوا اور مقلد صاحب صرف آپ اس حدیث پر عمل کرنے والے رہ گئے۔
5- پانچویں بات یہ ہے کہ کیا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے غلطی ہوسکتی تھی یا نہیں؟۔
اگر آپ کے خیال میں ان سے غلطی نہیں ہوسکتی تھی تو یہ بات غلط ہے کیونکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ معصوم عن الخطاء نہیں تھے اور "المجتھد یخطی ویصیب"کے تحت ان سے غلطی کا احتمال ہر وقت موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بعض موقوف باتیں خطاء قرار پائی ہیں۔
جیسا کہ جنبی کے لیے تیمم کا نہ ہونا۔ حالانکہ جنبی کے لیے بھی تیمم ثابت ہے۔ لیکن اگر آپ کہتے ہیں کہ ان سے غلطی کا احتمال موجود تھا تو پھر ان کی خطاء اور صواب کو پرکھنے کا معیار کیا ہوگا؟۔
یقیناََ یہ معیار صرف قرآن و حدیث ہے۔ اس معیار پر پور اُترنے کی صورت میں اس کے قول کو لیا جائے گا لیکن یہ قرآن وحدیث کی دلیل کی اتباع کہلائے گی نہ کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی رائے اور اجتہاد کی تقلید۔
6- چھٹا جواب یہ ہے کہ (رَضِيتُ لَكُم مَا رَضِيَ ابنُ اُم عَبدِِ) کیا اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن مسعود رضی اللہ عنہا کی آراء ماننے کا حکم دیا ہے یا کسی اور چیز کا؟ اگر اس حدیث میں مامور بہ سے مراد ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی آراء ہیں تو اس سے نعوذ باللہ کسی اُمتی کی آراء ماننے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم لازم آتا ہے۔ حالانکہ یہ کبھی ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ کسی کی رائے ماننے کی ترغیب بالکل نہیں دے سکتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (ستفترق امتي على بضع وسبعين فرقة اعظمھا فتنة على امتي قوم يقيسون الامور برايھم فيحرمون الحلال ويحللون الحرام)
(مستدرك:ج4ص430۔ وقال صحيح على شرط الشيخين وقال الھيثمي في المجمع: ج1ص179، رجاله رجال الصحيح وابن بطة الابانة: ج1ص274)، تعظيم السنة :16)۔
میری اُمت تقریباََ تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی ان فِرَق ضالہ میں سے میری اُمت کےلیے سب سے زیادہ فتنے کا باعث وہ فرقہ ہوگا جو اپنی رائے اور قیاس کے ذریعے حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دیگا۔
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مقصود یہ ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ میری اُمت کے لیے قرآن وحدیث کی اتباع کو پسند کرتا ہے اور قرآن وحدیث کے مقابلے میں میری اُمت کےلوگوں کے دلوں میں بدعت و تقلید کی نفرت اور اہل بدعت وتقلید سے بیزاری کو متمکن کرنا چاہتے ہیں۔ اس بات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالی بھی اس سے خوش ہے ہم بھی اس کو پسند کرتے ہیں اور یقینا ہر مومن اسکو دل سے پسند کرتا ہے۔
7- ساتواں اور آخری جواب یہ ہے کہ یہ حدیث مستدرک میں موجود ہے (ج3ص319) جبکہ تقلید کے اثبات کے لیے مولانا سرفراز صفدر اور دیگر حنفی مقلدین نے اس کا ایک ٹکڑا لیا ہے باقی حدیث کو نظر انداز کردیا ہے۔ جس میں تقلید کا رد موجود ہے۔ پوری حدیث یوں ہے:
(عن عمرو بن حريث عن ابيه قال قال النبي لعبدالله بن مسعود:اقرا! قال: أأقرأ و عليك اُنزل ؟قال:اني احب ان اسمعه من غيري۔ قال: فافتتح سورة النساء حتى بلغ: فيكف اذا جئنا من كل امة برسول وجئنابك على ھولاء شھيدا۔ فاستعبر رسول الله وكف عبدالله فقال له رسول الله تكلم فحمدالله في اول كلامه واثنى على الله وصلى على النبي وشھد شھادة الحق وقال: رضينا بالله ربا وبالاسلام دينا ورضيت لكم ما رضي الله ورسوله فقال رسول الله: رضيت لكم ما رضي لكم ابن ام عبد)
اس حدیث میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
ہم اس بات پر خوش ہیں کہ اللہ تعالی ہمارا رب ہے اور اسلام ہمارا دین ہے۔ مزید فرماتے ہیں: اُمت کے لیے وہ کچھ پسند کرتا ہوں جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہو۔
اس مکمل حدیث پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اُمت کے لیے کیا پسند کرتے ہیں اور مقلدین اپنے باطل دعوے کی تائید کے لیے حدیث کا کتنا غلط مفہوم بیان کرتے ہیں واللہ المستعان۔
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
پانچوں شبہہ
بعض مقلدین صحیح بخاری کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ "ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تک تمہارے درمیان یہ عالم یعنی ابن مسعود رضی اللہ عنہ موجود ہے تم مجھ سے کوئی مسئلہ مت پوچھو بلکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھو" اس حدیث کے بارے میں مقلدین کہتے ہیں کہ اس سے تقلید شخصی ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن روانہ کیا تھا جہاں وہ لوگوں کو اسلامی تعلیمات دیا کرتے تھے۔ (بخاری: ج2ص997) مقلدین اس سے بھی تقلید شخصی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف علاقوں میں امیر بھی مقرر کئے تھے جو مقامی لوگوں کے مسائل حل کیا کرتے تھے (بخاری:ج1ص1076)
اس کے علاوہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:" لم نتجاوزھا"یعنی اگر کوئی معتمد علیہ شخص ہمیں علی رضی اللہ عنہ کا فتوی سنائے تو ہم اس فتویٰ کو قبول کریں گے۔
اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسئلہ پوچھنے کے لیے ایک عورت آئی، نبی علیہ السلام نے اس کو دوبارہ آنے کا حکم دیا تو اُس عورت نے کہا کہ اگر میں دوبارہ آؤں اور آپ نہ ہوں تو پھر کیا کروں؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر میں نہ ہوں تو پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آؤ!
مقلدین اس حدیث سے بھی تقلید شخصی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تقلید کے اثبات کےلیے اس قسم کے اور بھی بہت سارے دلائل سرفراز صفدر کے "الکلام المفید" میں موجود ہیں، ص(94،95)
الجواب: قارئین محترم! محکمات کو چھوڑ کر مقلدین کے یہ بعید از حقیقت استدلالات ڈوبتے کو تنکے کے سہارے کی مانند ہیں۔ مقلدین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ایک ایسے عمل کا مرتکب ٹھہراتے ہیں جس سے وہ نہ صرف بری ہیں بلکہ خود اس کی تردید بھی کرچکے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان اور نبی علیہ السلام سے محبت کی حالت تو یہ تھی کہ وہ نبی علیہ السلام کی احادیث کے مقابلے میں کسی اور بات کو دیکھنا بھی ایمان کے خاتمے کا پیش خیمہ خیال کرتے تھے جبکہ آج کا مقلد احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پھٹے پرانے کپڑے سے بڑھ کر حیثیث دینا ایمان کا تقاضہ خیال کرتا ہے۔
ہم سرفراز صفدر ، تقی عثمانی اور اس طرح کے دیگر حنفی مصنفین کی کتابیں پڑھنے سے پہلے ان کی علمیت اور زہد و تقویٰ کے بارے حسنِ ظن رکھتے تھے لیکن:
جب ان کتابوں کا مطالعہ کیا تو ان کے علم اور تقویٰ کے سارے حقائق ہم پر افشاں ہو گئے اور انکی طبیعت کا شیشہ تقلید و جہالت کے تہہ در تہہ گردوغبار سے اٹا نظر آیا اگر مقلدین کے مشہور ضدِ عام کھوکھلے علماء کے دینی اور اسلامی تصور کی یہ منفی حالت ہے تو پھر ان کے عوام کی حالت کیا ہوگی؟۔ والله يھدي من يشاء الی صراط مستقيم۔ اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔
اب مقلدین کے مذکورہ شبہات کے جوابات ملاحظہ فرمائیں:
1- پہلا یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کسی کے مقلد نہیں تھے اس کے بارے کچھ احادیث صفحہ۔۔ موجود ہیں باقی یہاں پر ملاحظہ کیجئے۔
قال عمران بن حصین رضی اللہ عنه: نزلت آیة المتعة فی کتاب اللہ ففعلنا ھا مع رسول اللہ ولم ینزل قرآن یحرمه ولم ینه عنھا حتی مات، قال رجل برایه ماشاء قال محمد:یقال انه عمر ( بخاری:ج2ص648)۔
جناب عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں حج تمتع کا حکم نازل ہوا اور ہم نے نبی علیہ السلام کے ساتھ حج تمتع کیا نہ قرآن نے ہم کو منع کیا اور نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو روکا۔ یہاں تک کہ آپ علیہ السلام فوت ہوگئے لیکن ایک آدمی نے اپنی رائے کے مطابق کچھ اور کہنا چاہا۔ محمد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آدمی جناب عمر رضی اللہ عنہ تھے۔
اس حدیث میں عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر رد کر رہے ہیں کہ وہ حج تمتع کے قائل نہیں تھے۔ عمران بن حصین فرماتے ہیں: جب قرآن و حدیث میں کسی مسئلے کا حل موجود ہوتو پھر کسی بڑے سے بڑے صحابی کا قول اگر اسکے خلاف ہو تو اس کو رد کر دیا جائے چاہے وہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ہی کیوں نہ ہوں۔ اسی طرح بخاری میں آتا ہے:
"اِتھموا الراي و في رواية اتھموا رايكم علی دينكم "۔ بخاری: ج2ص1087
سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دین کے مقابلے میں اپنی رائے کو کوئی اہمیت نہ دو بلکہ اس کو تہمت سمجھو۔ یعنی اکثر علماء کی عقل اور رائے حديث كے خلاف ہوگی لیکن تم حدیث رسول علیہ السلام کی تابعداری کرو اگرچہ وہ عقل اور قیاس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو کیونکہ دینی فہم سب سے اعلی ہے۔
اس طرح بخاری ج1ص219 کی حدیث میں آتا ہے کہ: ایک آدمی ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حجر اسود کے بوسے کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ جواب میں فرماتے ہیں : کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے۔ آدمی نے پھر سوال کیا: (أرأيت إن زوحمت أرأيت إن غلبت) بتائیں اگر میں ہجوم میں پھنس جاؤں یا مغلوب ہوجاؤں تو کیا کروں؟ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر غصہ میں فرمانے لگے: اجعل "أرأيتك" باليمن رايت رسول الله يستلمه ويقبله ۔ اپنی رائے یمن پھینک آؤ میں نے اللہ کے رسول کو حجر اسود کا بوسہ لیتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور اس کو ہاتھ لگاتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
یہ صحابہ کرام کی حالت تھی کہ وہ احادیث رسول کے مقابلے پر کسی کی بات کو لینے کے ذرہ برابر بھی قائل نہ تھے۔ جبکہ مقلدین احادیث کے ذخیرہ کو ایک امام کی خاطر قربان کر دیتے ہیں۔ ایک امام کی اطاعت اور مخالفت کو دوستی اور دشمنی کا معیار بنا دیتے ہیں۔
اگر صحیح حدیث کو رد کر دیا جائے تو ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی جبکہ صحیح کے مقابلے پر اگر ان کےامام کی کسی بات کو رد کر دیا جائے تو بے ادب، متعصب اور متشدد کے القاب عطا کرتے ہیں۔
تو محترم قاری! ان کی اس قسم کی تہمتوں سے نہ گھبرانا۔ اللہ تعالی آپکا معاون ہے ، ان شاء اللہ!
2- دوسرا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اپنی آراء کے مطابق تعلیم دیا کرتے تھے یا قرآن و حدیث کے احکام کے مطابق۔۔؟ تو کیا قرآن و حدث کی تعلیم سے تقلید ثابت ہوتی ہے؟ کیا مقلدین کے دلوں میں خوفِ خدا اور شرمِ خلق کی معمولی سی رمق بھی نہ رہی؟
3- تیسرا جواب یہ ہے کہ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کسی امیر، کسی خلفیہ یا کسی عالم کی بات مطلقا مانتے تھے یا قرآن و حدیث کی موافقت میں ان کی بات مانتے تھے؟ اگر قرآن وحدیث کی مطابقت میں مانتے تھے تو یہی ہم کہتے ہیں کہ امامانِ دین اور علماء کرام کی باتیں قرآن و سنت کی مطابقت میں مانا کرو۔ لیکن اگر آپ کا خیال ہے کہ وہ مطلقاََ ہر کسی کی بات مانا کرتے تھے تو یہ اندحی تقلید ہوئی اور صحابہ کرام کی طرف اس کی نسبت سراسر جھوٹ ہے کیونکہ انہوں نے قرآن وحدیچ کے مقابلے پر ایک دوسرے کے اقوال کو رد کیا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ یعنی اگر کسی مسئلے میں تم باہمی اختلاف کا شکار ہوجاؤ تو اس کو قرآن وحدیث پر پیش کرو۔ اختلاف یا تو کسی خلفیہ اور امیر سے ہوتا ہے یا کسی عالم اور مجتہد سے۔ اس کو ختم کرنے کا واحد حل قرآن وحدیث ہے۔
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
چھٹا شبہہ
بعض مقلدین اعتراض کرتے ہیں کہ تم بھی تو علماء کی باتیں مانتے ہو، ان کی کتابوں کے حوالے پیش کرتے ہو۔ جرح و تعدیل کے باب میں ان کی باتیں تسلیم کرتے ہو۔ اسی طرح مفسرین کی تفسیر اور ترجمہ کو بغیر چوں چراں کےمان لیتے ہو۔ علماء دین سے مسائل بھی پوچھے جاتے رہے ہیں۔ چاہے صحابہ کرام کے زمانے میں ہو یا کسی اور زمانے میں ہو۔ یہ تمام صورتیں تقلید کے اثبات پر دلالت کرتی ہیں۔
جواب: یہ مقلدین کا بڑا اہم شبہہ ہے جس کا انہوں نے اپنی کتابوں میں بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے اور انتہائی مزخرف طریقے سے تقلید کے اثبات پر اس سے استدلال کیا ہے۔
ایک عالم کی رائے ہوتی ہے اور ایک اسکی روایت ہوتی ہے۔ عالم کی رائے کو بغیر دلیل کے ماننا تو ناجائز تقلید ہے جبکہ اس کی روایت بالقرآن والحدیث کو ماننا تمام اُمت کے نزدیک بالاجماع اتباع کہلاتا ہے۔ جس طرح کے علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اسکو "القول المفيد في ادلة الاجتھاد والتقليد" میں ذکر کیا ہے۔ اسی طرح جب کوئی عالم کسی راوی حدیث پر جرح یا تعدیل کرتا ہے اور اُس کی اطلاع آگے اُمت کو دیتا ہے تو یہ اس کی رائے نہیں ہوتی بلکہ اسکا مشاہدہ ہوتا ہے کیونکہ وہ اُس راوی کے کذب اور کمزوری کو بالمشاہدہ محسوس کرتا ہے پھر اس کی اطلاع مسلمانوں کو دیتا ہے اور دین میں مسلمان کا مشاہدہ قبول کرنا لازمی ہے۔ اگر مقلدین کو فقہ پڑھنے سے فرصت ملی ہو اور اصولِ حدیث کا مطالعہ کیا ہو تو یقیناََ جرح و تعدیل کا یہ قاعدہ ان کو مل گیا ہوگا کہ " کسی جارح کی جرح مبہمہ اس وقت تک ناقابل قبول ہو گی جب تک اس پر مشاہدہ کی واضح دلیل پیش نہ کی جائے"۔ دونوں میں یہ نہ صرف واضح فرق ہے بلکہ تقلید پر رد بھی ہے۔ اگر تقلید جائز ہوتی تو پھر تمام علماء کسی کی جرح مبہمہ کو بغیر دلیل کے کیوں نہیں مانتے؟ یہ مقلدین پر واضح اور مضبوط رد ہے کہ ایک طرف تقلید کے قائل ہیں اور دوسری طرف جرح مبہمہ ماننے سے انکار بھی کرتے ہیں۔ یا تو جرح مبہم مانیں اور یا تقلید سے تائب ہو جائیں۔ مقلدین کو اپنی بے علمی اور ناقص طرزِ فکر پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اسی طرح تقلید اور کسی عالم سے مسئلہ پوچھنے میں بڑا واضح فرق ہےکیونکہ تقلید دین کے کسی معاملے میں کسی مخصوص امام کی تمام باتوں کو بغیر دلیل کے ماننے کا نام ہے یا پھر کسی امام کے مقلدین کی تمام باتوں کو بغیر دلیل کے ماننے کا۔ جس طرح کہ آج کے احناف شامی، قاضی خان اور صاحب ہدایہ وغیرہ کے مقلدین ہیں۔
استفتاء یعنی کسی ایسے عالم سے مسئلہ پوچھنا جو قرآن و حدیث کا فہم رکھتا ہو یہ صحیح اور جائز ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا فہم اور علم اس کے مقصودِ نظر ہوتا ہے نہ کہ یہ عالم۔ کیونکہ یہ تو سنت تک رسائی کا ایک ذریعہ ہوتا ہے اور جب سائل کو معلوم ہو جائے کہ اس کو قرآن و حدیث کے مطابق فتویٰ نہیں دیا گیا تو دوسرے عالم کے پاس جاتا ہے اور اس سے کتاب و سنت کے مطابق مسئلہ دریافت کرتا ہے۔ یہ ایک مخالف طرزِ عمل ہے جو تقلید سے سرِے سے تعلق نہیں رکھتا۔ کیونکہ مقلدین اپنے امام کی غلط باتوں کو بھی صحیح ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ زندہ عالم اور فوت شدہ عالم سے مسئلہ پوچھنے میں فرق ہے۔ زندہ عالم سے قرآن وحدیث کے مطابق کسی مسئلہ کے حل کی درخواست کی جاتی ہے اور اگر قرآن وحدیث میں اُس کو مسئلہ نہ ملے تو دوسرے عالم کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اس کے مقابلے میں کسی آنجہانی عالم کی تقلید کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی، کیونکہ اس سے دوبدو (بالمقابل) مسئلہ پوچھا نہیں جاسکتا۔
اگر مقلدین یہ کہیں کہ ان کی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ تو کیا ان کی کتب کی موجودگی میں قرآن وحدیث اس قابل نہیں کہ ان کی طرف رجوع کیا جائے جبکہ قرآن وحدیث مکمل دین ہے اور پھر ایک اُمی آدمی کس طرح امام صاحب کا مقلد بن سکتا ہے کیونکہ وہ نہ تو اس سے دوبدو مسئلہ پوچھ سکتا ہے اور نہ وہ کتابوں کو سمجھ سکتا ہے۔
قارئین محترم: حنفی حضرات امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی فقاہت اور ان کے فضائل بیان کر کے ان کی تقلید کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن جب دلائل دینے پر آتے ہیں تو زندہ عالم سے مسئلہ پوچھنے کو تقلید کا نام دیتے ہیں۔ تقلید کے سارے مسائل وہم اور خیالات پر مبنی ہیں۔ حقائق سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
آج کے مقلدین کو تقلید کی پُرخار وادی سے نکل کر اس شاہراہ حق پر قدم رکھنے کی ضرورت ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موصل الی الجنة قرارد دیا ہے۔ صرف اسی صورت میں مقلدین تحقیق کی اصل حلاوت سے متمتع ہو سکتے ہیں۔
نیز مفسرین کے ترجمے اور تفسیر ماننا بھی تقلید نہیں ہےکیونکہ وہ تو ایک سند پیش کرتے ہیں ( جیسا کہ بعض مفسرین کا طریقہ ہے) اگر وہ کسی آیت کی توجیہ اپنی طرف سے کرتے ہیں جو کہ قرآن و حدیث کی موافق ہو تو ہم اس کو مان لیتے ہیں۔ لیکن اگر قرآن وحدیث کے مخالف ہو تو ہم اس کو چھوڑ دیتے ہیں۔ کیونکہ ہم اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اندھے تو نہیں ہیں کہ مفسر کی اچھی اور بری تفسیر دونوں کو بدون تمییز کے مان لیں۔ جب کوئی مفسر یا محدث قرآن وحدیث کی موافق توجیہ بیان کرتا ہے جس میں حکمت کی کوئی بات ہو تو اس کو ماننے میں کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ وہ توجیہ یا حکمت کا وہ نکتہ لغتِ عربی سے معلوم ہوتا ہے۔ جبکہ قرآن و حدیث دونوں عربی زبان میں نازل ہوئے ہیں لہذا اس کو تقلید نہیں کہہ سکتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر احناف مفسرین کی تفسیر کو تسلیم کرنا تقلید سے تعبیر کرتے ہیں تو پھر وہ خود اس سعادت سے محروم کیوں ہیں؟ اور اپنے آپ کو ابن جریری یا ابن کثیری وغیرہ کیوں نہیں کہلاتے؟ حالانکہ احناف کی حالت یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے علاوہ اُمت میں کسی اور امام کو عالم ماننے کےلیے تیار نہیں ہیں۔
ہم احناف سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ آپ امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں یا مفسرین کے مقلد ہیں؟ اگر امام ابوحنیفہ کے مقلدین ہیں تو پھر مفسرین کی توجیہات کیوں مانتے ہیں؟ یہ تو تلفیق ہوئی ( آپ کے خیال میں۔۔اور تلفیق کپڑے کے دونوں پرتوں کو ملانے کا نام ہے اس طرح اپنے مطلب کی کوئی چیز تلاش کرنا اور نہ پانا بھی تلفیق کہلاتی ہے۔)
دوسری بات یہ ہے کہ احناف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تفسیر کی تقلید کیوں نہیں کرتے؟ اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب کی کوئی تفسیر ہی نہیں ہے یا اگر تھی بھی تو شائد حوادثِ زمانہ کی نظر ہوچکی ہو۔ اور اگر احناف مفسرین کے مقلد ہیں تو امام ابوحنیفہ کی تقلید کا دعویٰ کیوں کرتے ہیں؟ یا تو احناف یہ کہہ دیں کہ مفسرین کے ترجمے کو لینا اور ان کی تفسیر کو قبول کرنا تقلید نہیں ہے اور یا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید سے دست بردار ہو کر مفسرین کی تقلید کریں۔
مقلدین کا یہ اعترض بھی اپنی جگہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا کہ " ہر دور میں علماء سے مسائل کا پوچھا جانا" چاہے وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دور ہی کیوں نہ ہو اس بات کی دلیل ہے کہ تقلید جائز ہے لیکن یہ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ صحابہ کرام ایک دوسری کی تقلید کرتے تھے اور ایک دوسرے کو صدیقی، عمری یا عباسی کہاتے تھے۔
"ہاں" آپس میں ایک دوسرے سے قرآن وحدیث کے مسائل پوچھتے ہیں۔ قرآن وحدیث کے حکم کے مقابلے پر ایک دوسرے کی آراء کو مسترد کیا ہے اور قرآن وحدیث کو سینے لگایا ہے۔ آج ایسا ہی کرنے کی ضرورت ہے۔
جس طرح کہ شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ایضاح الحق الصریح میں لکھتے ہیں: " اپنا طور طریقہ خالص محمدی رکھنا چاہیے اور قدیم سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر گامزن رہنا چاہیے اور کسی مخصوص (فقہی) مذہب و مسالک پر چلنے یا کسی مخصوص صوفیانہ طریقہ میں داخل ہونے کی ضروری نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ ان فقہی مذاہب اور صوفی طریقوں کو عطار اور پنساری کی دکانوں کی طرح سمجھنا چاہیے کہ جب کسی چیز کی ضرورت پڑی تو ان میں سے کسی بھی دکان سے جا کر لے لی جائے اور اپنے آپ کو صرف محمدی فوج کا سپاہی سمجھنا چاہیے"۔۔۔الخ۔
 
Last edited by a moderator:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
کوئی عالم کسی راوی حدیث پر جرح یا تعدیل کرتا ہے اور اُس کی اطلاع آگے اُمت کو دیتا ہے تو یہ اس کی رائے نہیں ہوتی بلکہ اسکا مشاہدہ ہوتا ہے کیونکہ وہ اُس راوی کے کذب اور کمزوری کو بالمشاہدہ محسوس کرتا ہے
اہل علم کے درمیان یہ متفق علیہ رائے ہے کہ ائمہ جرح وتعدیل کے راویوں پر احکام بھی ازقبیل اجتہاد ہیں اوراس حقیقت سے علم حدیث سے واقفیت رکھنے والا معمولی طالب علم بھی واقف ہے،اس کو مشاہدہ اورگواہی کے قبیل سے بتلانا صرف یہ ظاہر کرتاہے کہ قائل کو یاتو علم حدیث سے واقفیت نہیں یاپھر جان بوجھ کر غلط بات کہہ رہاہے۔
 
Top