lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
محدثین کا یہ فرمان بالکل صحیح ہے کہ « الإسناد من الدين، ولولا الإسناد لقال من شاء ما شاء» اسناد دین کا حصہ ہے اگر اسناد نہ ہوتیں تو جو چاہتا من چاہی بات کہہ دیتا ’‘
کیا اس بات کا یہاں بھی خیال رکھا گیا
یہاں بھی محدث میگزین میں یہی حوالہ دیا گیا اور ساتھ میں یہ کہا گیا -
اب خاص امام ابوحنیفہ کا ایک واقعہ ملاحطہ ہو جس کو شاہ محمد اسحاق دہلوی کے ایک شاگرد رشید، مولانا محمد بشیر الدین قنوجی متوفی 1296ھ نے فقہ کی ایک کتاب ''غرائب فی تحقیق المذاہب'' کے حوالہ سے لکھا ہے:
''رأی الإمام أبوحنیفة من یأتي القبور لأھل الصلاح فلیسلم و یخاطب و یتکلم و یقول یاأھل القبور ھل لکم من خبر وھل عندکم من أثر انی أتیتکم من شهور و ولیس سؤالي إلا الدعاء فھل دریتم أم غفلتم فسمع أبوحنیفة بقول یخاطب بھم فقال ھل أجابوالك؟ قال لا فقال له سحقا لك و تربت یداك کیف تکلم أجسادا لا یستطیعون جوابا ولا یملکون شیئا ولا یسمعون صوتا و قرأ ''وما أنت بمسمع من في القبور'' (تفہیم المسائل(8) مولانا بشیر الدین قنوجی)
''امام ابوحنیفہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کچھ نیک لوگوں کی قبروں کے پاس آکر سلام کرکے ان سے کہہ رہا ہے، ''اے قبر والو! کیا تمہیں کچھ خبر بھی ہے اور کیا تمہیں کچھ اثر بھی ہے، میں تمہارے پاس کئی مہینوں سے آرہا ہوں اور تمہیں پکار رہا ہوں۔ تم سے میرا سوال بجز دعاء کرانے کے اور کچھ نہیں۔ تم میرے حال کو جانتے ہو یا میرے حال سے بے خبر ہو؟'' امام ابوحنیفہ نے اس کی یہ بات سن کر اس سے پوچھا، ''کیا (ان قبر والوں نے) تیری بات کا جواب دیا؟'' وہ کہنے لگا ''نہیں'' آپ نے فرمایا ''تجھ پر پھٹکار ہو، تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں، تو ایسے (مُردہ) جسموں سے بات کرتا ہے جو نہ جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں نہ کسی چیز کا اختیار رکھتے ہیں او رنہ کسی کی آواز (فریاد) ہی سن سکتے ہیں۔'' پھرامام صاحب نے قرآن کی یہ آیت پڑھی ''وما انت بمسمع من فی القبور'' (سورة الفاطر) ''اے پیغمبرؐ! تو اُن کو نہیں سنا سکتا جو قبروں میں ہیں۔''
علامہ آلوسی حنفی بغدادی اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں:
''إن الاستغاثة بمخلوق و جعله و سیلم بمعنیٰ طلب الدعاء منه لاشك في جوازه وإن کان المطلوب منه حیا ........ وأما إذا کان المطلوب منه میتا أوغائباً فلا یستریب عالم أنه غیر جائز وأنه من البدع التي لم یفعلها أحد من السلف'' 9
''کسی شخص سے درخواست کرنا او راس کو اس معنی میں وسیلہ بنانا کہ وہ اس کے حق میں دعاء کرے، اس کے جواز میں کوئی شک نہیں بشرطیکہ جس سے درخواست کی جائے وہ زندہ ہو.... لیکن اگر وہ شخص جس سے درخواست کی جائے مُردہ ہو یا غائب ، تو ایسے استغاثے کے ناجائز ہونے میں کسی عالم کو شک نہیں، اور مردوں سے استغاثہ ان بدعات میں سے ہے جن کو سلف میں سے کسی نے نہیں کیا۔''
اس سے معلوم ہوا کہ صحابہؓ و تابعین، ائمہ کرام اور تمام اسلاف صالحین زندہ نیک لوگوں سے تو دعاء کرانے کے قائل تھے لیکن کسی مُردہ کو انہوں نے مدد کے لیے نہیں پکارا، ان سے استغاثہ نہیں کیا، حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ تک سے استغاثہ نہیں کیا۔ اب اپ کے بعد اور کون سی ہستی ایسی ہے جو آپؐ سے زیادہ فضیلت رکھتی ہو کہ اسے مدد کے لیے پکارا جائے او راس سے استعانت کی جائے۔ فہل من مدکر! .......
حوالہ جات میں یہ کہا گیا
شاہ محمد اسحاق دہلوی کے ردّ میں ایک کتاب تصحیح المسائل نامی مولوی فضل رسول بدایونی نے لکھی تھی، جس کا جواب مولانا بشیر الدین قنوجی نے تفہیم المسائل سے دیا تھا ، خوب مدلل کتاب ہے۔ 1200ھ میں پہلی دفعہ مطبع مطیع الرحمٰن جہاں آباد میں طبع ہوئی پھر دوسری دفعہ محمدی پریس لاہور میں چھپی، تاریخ طبع معلوم نہیں۔
Last edited: