• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تمام مقلدین کو کھلا چیلنج ہے (کہ کسی صحابی سے تقلید کا حکم اور اس کا واجب ہونا ثابت کر دیں)

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
محترم
میں شاید صحیح طور پر اپنا مؤقف سمجھا نہیں پایا۔
جب ایک چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر حضرت ابو بکر صدیق کے زمانے میں سنت مؤکدہ کے درجے میں نہیں پہنچی۔تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں کیسے سنت مؤکدہ ہوگئی۔
اہل حدیث کے مطابق نماز تروایح ، قیام الیل ،تہجد ایک ہی نمازیں ہیں جو نفل ہیں ۔ اور حنفیوں کے تحت نفلی نماز کی تو جماعت ہی مکروہ ہے۔ پھر اس کے نہ پڑھنے والے گناہ گا ر کیسے ہو گئے ہاں ثواب سے محروم ضرور قرار دئیے جاسکتے ہیں۔
مروجہ طریقہ سنت عمر تو کہلاسکتا ہے سنت نبوی نہیں اگر ہم اس طریقہ کو سنت نبوی کہیں تو پھر حضرت ابوبکر کے دور میں جو طریقہ تھا کیا وہ سنت نہیں تھا۔
یا خلفاء راشدین جو بھی تبدیلی کریں وہ سنت ہی کہلائی گی اگر یہی قرینہ ہے تو اس پر یا اس طرح کی کسی اور تبدیلی پر تبادلہ خیال محض عبث ہے۔
دیکھیں بھائی ایک چیز یہ ہے کہ کیا تراویح سنت موکدہ ہے یا نہیں اور دوسری چیز یہ ہے کہ اسکا حکم کیا ہے
تو پیارے بھائی تراویح سنت موکدہ ہے بدعت نہیں ہے کیونکہ دعوت وہ ہوتی ہے کہ جس پہ رسول اللہ ﷺ کا عمل نہ ہو اب یہاں پہ یہ سوال ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا اس تراویح پہ عمل کم از کم ہمیشگی کے لحاظ سے تو نہیں ہے پس ہمیشگی اختیار کرنا تو بدعت ہو گی
تو پیارے بھائی یہ بات بھی نا سمجھی کی وجہ سے کی جاتی ہے دیکھیں رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں مثلا قولی فعلی یا تقریری حکم اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا کسی فعل کی خوایش رکھنا بھی حکم میں ہی آتا ہے مثلا رسول اللہ ﷺ کی خواہش تھی کہ ہر نماز کے ساتھ مسواک کیا جائے مگر اس بات سے ڈرتے تھے اگر لازمی کر دیا تو کہیں مشقت نہ ہو جائے پس دلی خواہش تو یہی تھی کہ جس کو طاقت ہو وہ ہر نماز کے ساتھ مسواک کے مگر حکم اس لئے نہیں دیا کہ امت کے آرام کا خیال تھا پس جو طاقت رکھتا ہوں وہ یہ خواہش پوی کرے گا تو وہ سنت موکدہ پہ ہی عمل کہلایا جائے گا کیونکہ خواہش کے لحاظ سے وہ تاکید والی سنت (یعنی سنت موکدہ) ہی ہے
یہی حکم تراویح کا ہے
 
Last edited:

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
محترم اسحاق صاحب
میرا سوال یہاں پھر وہی ہوگا کہ کیا خلفاء راشدین معصوم ہیں اور ان کا ہر فیصلہ درست ہوگا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ تعالیٰ کو تیمم کو درست نہ سمجھتے تھے۔ عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ بھی اسے درست نہ سمجھتے تھے۔ جب ان سے اجتہادی خطا ہوسکتی ہے تو ان کی سنت کا دانتوں سے پکڑ نا امت کیلئے کس طرح کار آمد ہوسکتا ہے ۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ میں تو مروجہ تروایح نہیں پڑھوں گا بلکہ وہی کروں گا جیسا رسول اللہ اور حضرت ابوصدیق کے زمانے میں ہوتا رہا تو کیا میرایہ استدلال درست ہوگا۔
بھائی تو پھر کیا آپ کے نزدیک وہ خلفاء راشدین کی پیروری کرنے والی حدیث غلط ہے اگر صحیح ہے اور آپ کو اشکال صرف اوپر صحابہ کے تفردات سے ہے یعنی ایسے احکامات جن میں بعض صحابہ متفرد تھے تو پیارے بھائی پھر آپ نے اس حدیث کو درست نہیں سمجھا یہ حدیث تفردات میں انکی پیروری کی بات کرتی ہی نہیں ہے بلکہ صحابہ کے اجماع کی بات کرتی ہے اسی طرح واضح قرآن و حدیث آ جانے کی صورت میں بھی کسی صحابی کی پیروری کی بات نہیں کرتی واللہ اعلم
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
یہ تو پھر سیدھا سیدھا تقلید کا حکم ہے۔
بھائی جان اللہ قرآن میں جو حکم دیتا ہے یا رسول اللہ ﷺ حدیث میں جو حکم دیتے ہیں اسکو تقلید نہیں کہتے چاہے بظاہر ہمیں وہ تقلید ہی کیوں نہ نظر آ رہی ہو
مثلا اللہ قرآن میں والدین کی بات ماننے کا حکم دیتا ہے رسول اللہ ﷺ بھی ایسا ہی حکم دیتے ہیں اسی طرح قرآن اور رسول ﷺ کا فرمان ہمیں خلیفہ کی اطاعت کا حکم بھی دیتے ہیں
تو جب ہم والدین کی یا خلیفہ کی اطاعت کریں گے تو کیا یہ تقلید ہو گی؟ نہیں بلکہ یہ تو حکم ماننا تو رسول اللہ ﷺ کی وجہ سے ہی ہے اس طرح تو اللہ ہمیں معشرے کی تقلید کا حکم بھی دیتا ہے قرآن میں مختلف جگہوں پہ سکیل کے طور پہ بالمعروف کا لفظ استعمال کیا گیا ہے چاہے وہ حق مہر میں ہو یا کسی اور معاملے میں ہو اور معرعف سے مراد وہ چیز جس کو معاشرہ مانتا ہو تو کیا یہ تقلید ہو گی؟
یہ سب چیزیں تقلید اس وقت بنتی ہیں جب قرآن و حدیث کے خلاف ہوں پس والدین کی اطاعت میں بھی کہا گیا ہے کہ
وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا
اسی طرح خلیفہ کے بارے کہا گیا کہ
ون تنازعتم فی شئی۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اگ تنازع ہو جائے تو قرآن و حدیث کی طرف لوٹا دو
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
بھائی عرض تو یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ امت پر مشکل نہ ہو ترک کی ۔ علماء نے تو تروایح بلا عذر چھوڑنا گناہ قرار دیا ہے ۔تو اس کو کیا کہیں گے۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی ہررات تو نہیں پڑھی۔
بھائی میرے علم میں ایسا نہیں ہے
اسکے لئے آپ یہ فتوی دیکھ لیں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بریڈ فورڈ سے سلیم خان لکھتے ہیں:
تارک سنت موکدہ (سنت موکدہ کوچھوڑنے والا یا بسبب غفلت ادا نہ کرنے والا) گناہ کا مرتکب ہوگا یا نہیں ؟
مثال کے طور پر فرض نمازوں کے ساتھ ہم جو سنتیں (موکدہ) پرھتے ہیں۔ اگر صرف فرض پڑھے جائیں اور سنتوں کو چھوڑدیں تو کیا ایسا اقدام باعث گناہ ہوگا یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح احادیث میں سنن و نوافل کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور خاص طور پر سنن موکدہ کی نبی کریمﷺ نے بہت زیادہ تر غیب بھی دلائی ہے ۔ اس سلسلے میں درج ذیل احادیث خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
عن عائشه رضی الله عنها قالت کان النبی ﷺ یصلی قبل الظهر اربعا و بعدها رکعتیں و بعد المغرب ثنتین و بعد العشاء رکعتین و قبل الفجر رکعتیں (ابو داؤد کتاب الصلاۃ باب تفریع ابواب اتطوع (۱۲۵۱)مسلم کتاب صلاۃ المسافرین باب جواز النافلۃ و قاعدا (۱۰۵۔۷۳۰)

‘‘ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ ظہرسے پہلے چار اور بعد میں دو رکعت پڑھتے اور مغرب کے بعد دو عشاء کے بعد دو اور فجر سےپہلے دو رکعت پڑھتے تھے۔’’
ایک دوسری حدیث میں حضرت عائشہؓ سےمروی ہے کہ آپ نے ان مذکورہ بارہ رکعات کےبارے میں فرمایا کہ جس نے ان کی پابندی کی اللہ تعالیٰ اس کےلئے جنت میں گھر بنائے گا۔
حضرت ام حبیبہ ؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا جس شخص نے فرضوں کے علاوہ بارہ رکعت پڑھیں اللہ کے لئے جنت میں گھر بنائے گا۔
مسلم شریف کہ ایک اور روایت ہے کہ جس نے فجر کی دورکعت پڑھیں تو اس کےلئے دنیا اور اس میں جو کچھ ہے ان سب سے بہتر ہے۔
ا س کے علاوہ مختلف نمازوں کے ساتھ سنن ونوافل کی فضیلت کا الگ ذکر بھی احادیث میں آتا ہے۔
اب رہی یہ بات کہ ان سنن راتبہ کہ حیثیت کیا ہے اور کیا انہیں چھوڑنے والا گناہ کا مرتکب ہوگا؟
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بڑی فضیلت اور اجر کے باوجود یہ سنتیں فرض اور واجب بہر حال نہیں ہیں اس لئے ان کےترک کرنے پر وہ گناہ ہرگز لازم نہیں آتے جیسے فرض یا واجب کےترک کرنے سے آتا ہے۔
اس مسئلے کو ذرا تفصیل کےساتھ بیان کرنے اور سمجھانے کے لئے ہم اسے تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
۱۔عذر یا بغیر عذر کے ان سنتوں کا کبھی کبھی ترک کردینا۔
۲۔عذر یا بغیر عذر کے ان سنتوں کو اکثر و بیشتر یا ہمیشہ ترک کردینا۔
۳۔ ان سنتوں کو حقیر یا معمولی سمجھ کرترک کردینا۔
(۱)جہاں تک پہلی شرط کا تعلق ہے یعنی کبھی کسی مجبوری جیسے وقت کی قلت وغیرہ یا محض غفلت کی بنا پر ان سنتوں کا ترک کردینا بلاشبہ ایسا شخص ایک افضل عمل سے محروم تو ضرور ہوگا مگر اسے گناہ گار قرار دینے کے لئے ہمارے پاس کوئی شرعی دلیل نہیں ہے کیونکہ نمازیں پانچ ہیں۔ ان پانچ نمازوں سے مراد فرض ہیں نہ کہ سنن و نوافل۔
جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ نجد کا ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور پوچھا : اللہ نے مجھ پر کتنی نمازیں فرض کہ ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا پانچ۔ اس نے عرض کیا کہ ھل علی غیرھا؟ (سنن ابوداؤد مترجم ج ۱ کتاب الصلاۃ باب فرض الصلاۃ ص ۱۸۹ رقم الحدیث ۳۹۰)
کہ کیا ان کےعلاوہ بھی مجھ پر کچھ ہے ؟ تو آپ نے فرمایا: لا ان نطوع کہ نہیں الا یہ کہ تواپنی مرضی سےسنتیں یا نفل پڑھے۔ ظاہر ہے اگر سنتیں لازمی ہوتیں اور ان کے ترک سے گناہ لازم آتا تو آپ اس موقع پر اس کی ضرور وضاحت فرماتے۔
ایک دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ بنیﷺ نے جب حضرت معاذ کو یمن بھیجا تو انہیں دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی بتایا کہ «ان اللہ افتراض علیهم خمس صلوت فی الیوم واللیلة» (ابن خزیمۃ کتاب الصلاۃ ج ۱ باب فرض الصلاۃ الخمس والدلیل علی ان لا فرض من الصلاۃ الخمس ص ۱۵۷ ابوداؤد ج۱ کتاب الصلاۃ ص ۶۲)

کہ اللہ نے ان لوگوں پر (یعنی مسلمان ہونے والوں پر) دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں ۔یہاں بھی سنن و نوافل کا ذکر نہیں۔
اور حضرت معازؓ کا یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے آخری ایام کا ہے۔
یہ مذکورہ دونوں حدیثیں بخاری و مسلم میں ہیں۔ ان سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سنن کے تارک کو گناہ گار یا معصیت کامرتکب قرار نہیں دیا جاسکتا ۔اور اسے گناہ کا مرتکب ثابت کرنے کے کوئی واضح دلیل ہمارے سامنے نہیں ہے۔
مولانا اشرف علی تھانوی نے ‘‘بہشتی زیور ’’ میں لکھا ہے کہ قضا فقط فرض نمازوں اور وتر کی پڑھی جاتی ہے’ سنتوں کی قضا نہیں ہے۔
اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی سنتوں کا ترک گناہ نہیں ورنہ ان کی قضا لازم ہوتی۔
ہمارے ہاں بعض لوگوں میں یہ عجیب روایت چل نکلی ہے کہ وہ سنن و نوافل کی پابندی بھی فرض نماز کی طرح کرتے اور نفلوں کی مختلف نمازوں کےساتھ تعداد مقرر کرکے ان کو ہر حال میں ادا کرتے ہیں اور پھر بیٹھ کر پڑھتے اور انہیں چھوڑنا گناہ خیال کرتے ہیں۔
حالانکہ نوافل کے بارے میں تو خاص طور پر یہ چیز بالکل بے اصل اور غیر ثابت ہے پھر اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ نماز کی شکل اور اس کی صحیح ادائیگی کے بجائے تعداد رکعات پوری کرنے کے چکر میں رہتے ہیں اور اطمینان و سکون سے پڑھنے کی بجائے جلدی جلدی رکعات پوری کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں ۔ مثلاً عشاء کی نماز کی برصغیر کے لوگو ں نے ۱۷ رکعات اس طرح مقرر کی ہوئی ہیں جس طرح یہ ۱۷ کا عدد فرض ہے اور پھر جلدی جلدی اس تعداد سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسرا نقصان یہ بھی ہے کہ بچے یا نئے نمازی تو ۱۷ کا نام سن کر ہی گھبرا جاتے ہیں۔ اس لئے بہتر و افضل یہی ہے کہ فرائض کے بعد ان سنن و نوافل کو ان کے مقام کے لحاظ سے ہی ادا کیا جائے۔
(۲)دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو عذر یا بغیر عذر کے اسن سنتوں کو اکثروبیشتر ترک کردیتے ہیں اور بہت کم ادا کرتے ہیں۔ قرآن وحدیث کو کوئی ایسی دلیل تو ہمارے پاس نہیں کہ ان لوگوں کو ہم گناہ کا مرتکب قرار دے سکیں لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ یہ لوگ خیر کثیر ار اجر جزیل سےمحروم رہتے ہیں اور یہ محرومی کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ خاص طور پر نبی کریمﷺ کے اس فرمان کی روشنی میں جس میں آپ نے فرمایا کہ فرض نماز کے ادا کرنے والے کے فرض میں جو نقص اور کمی رہ جاتی ہے’ اسے سنتوں اور نفلوں کے ذریعے پورا کیا جاتاہے۔
اور ہم میں سے کون ہے جو یہ دعویٰ کرسکے کہ اس کے فرض کامل اور مکمل ہیں اور نقص و کمی سے خالی ہیں ؟ ہم میں سے ہر ایک اس کمی کو پورا کرنے کا محتاج ہے اور اگر وہ سنن ونوافل سے بھی محروم ہوگیا تو پھر اس کی یہ کمی کیسے پوری ہوگی؟ اس لئے بہتر اور افضل یہی ہےکہ ان سنن کا اہتمام کیا جائے تا کہ یہ نقصان اسے گناہ کے قریب نہ لے جائے۔
(۳)جس طرح بعض لوگوں نے نفلوں کو فرض کا درجہ دے رکھا ہے اور وہ نفل کی پابندی بھی فرض کی طرح کرتے ہیں ۔ اسی طرح ایک تیسری قسم ان لوگوں کی بھی ہے جو ان سنن کو حقیر اور معمولی سمجھ کر ترک کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کیا ہوا سنتیں ہی تو تھیں۔ ان کی کیا حیثیت ہے؟سنت کی تحقیرواستخفاف جرم ہے اور ایسا شخص یقیناً گناہ کامرتکب ہوگا بلکہ سنت کو خاطر میں نہ لانے والا یا اس کا مذاق اڑانے والا کفر تک بھی پہنچ سکتا ہے ۔ اسلئے جو شخص نماز کی ان سنتوں کو حقیر و معمولی سمجھ کر ان کی ناقدری کرتا ہے اور انہیں ترک کردیتا ہے ایسا شخص اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی ناراضگی مول لیتا ہے۔ اس حد تک جانے سے احتراز کرناچاہئے اور معصیت سےبچنا چاہئے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ فرض نمازیں پانچ ہی ہیں وتر کے وجوب کےبارے میں اختلاف ہے بعض نے واجب کہا بعض نے سنت کہالیکن وتر کے بارے میں احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس کی پابندی کی جائے۔ جہاں تک سنتوں کا تعلق ہے تو ترک کی تینوں اشکال کی شرعی حیثیت اپنے علم کے مطابق اپنے علم کے مطابق ہم نے تحریر کردی ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

ص181
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
1- أخرجه اللالكائي في"شرح أصول اعتقاد أهل السنة"(130)،والطبراني في"الكبير"(9/152)، وأبو نعيم في"الحلية"(1/136) من طريق الأعمش ،عن سلمة بن كهيل ،عن أبي الأحوص ،عن عبد الله -رضي الله عنه -قال :

(( ألا لا يقلدنّ أحدكم دينه رجلاً ،إن آمن آمن وإن كفر كفر ،فإن كنتم لا بد مقتدين فبالميت ،فإنّ الحيَّ لا يؤمن عليه الفتنة )).

وإسناده صحيح،وقال الهيثمي في"مجمع الزوائد"(1/188): "ورجاله رجال الصحيح".

2-وأخرجه اللالكائي في"شرح أصول اعتقاد أهل السنة"(131)من طريق عبيد الله بن موسى ،عن إسرائيل ،عن أبي حصين ،عن يحيى بن وثاب ،عن مسروق ،عن عبد الله - رضي الله عنه -قال:

(( لا تقلدوا دينكم الرجال ،فإن أبيتم فبالأموات لا بالأحياء )).

وإسناده صحيح.

3-وأخرجه البيهقي في"السنن الكبرى"(10/116): أخبرنا أبو عبد الله الحافظ ،ثنا أبو الحسين محمد بن أحمد القنطري ،ثنا أبو الأحوص القاضي، ثنا محمد بن كثير المصيصي ،ثنا الأوزاعي ،حدثني عبدة بن أبي لبابة، أن بن مسعود -رضي الله عنه- قال :

(( ألا لا يقلدن رجل رجلاً دينه ،فإن آمن آمن وإن كفر كفر ،فإن كان مقلداً لا محالة ،فليقلد الميت ويترك الحي، فإنّ الحي لا تؤمن عليه الفتنة )).


وهذا إسناد صحيح رجاله ثقات.

4-وأخرجه الخطيب البغدادي في"الفقيه والمتفقه"(757)من طريق أبي جعفر:محمد بن جرير الطبري،حدثني أحمد بن الوليد،نا عبد الله بن داود،قال:ذكر الأعمش ،عن أبي عبد الرحمن قال :قال عبد الله - رضي الله عنه -:

(( لا يقلدنّ رجلٌ دينه [ رجلاً ]،إن آمنَ آمنَ،وإن كفرَ كفرَ ))
.

وإسناده صحيح ،وأبو عبد الرحمن هو:عبد الله بن حبيب،أبو عبد الرحمن السلمي ،من كبار التابعين ثقة ثبت.
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
بھائی تو پھر کیا آپ کے نزدیک وہ خلفاء راشدین کی پیروری کرنے والی حدیث غلط ہے اگر صحیح ہے اور آپ کو اشکال صرف اوپر صحابہ کے تفردات سے ہے یعنی ایسے احکامات جن میں بعض صحابہ متفرد تھے تو پیارے بھائی پھر آپ نے اس حدیث کو درست نہیں سمجھا یہ حدیث تفردات میں انکی پیروری کی بات کرتی ہی نہیں ہے بلکہ صحابہ کے اجماع کی بات کرتی ہے اسی طرح واضح قرآن و حدیث آ جانے کی صورت میں بھی کسی صحابی کی پیروری کی بات نہیں کرتی واللہ اعلم
اگر اجماع کی بات ہے تو پھر خلفاء راشدین کیوں مخصوص کر دیے گئے یہ کیوں نہ کہا گیا کہ میرے صحابہ کا اجماع سنت ہے۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
بھائی جان اللہ قرآن میں جو حکم دیتا ہے یا رسول اللہ ﷺ حدیث میں جو حکم دیتے ہیں اسکو تقلید نہیں کہتے چاہے بظاہر ہمیں وہ تقلید ہی کیوں نہ نظر آ رہی ہو
مثلا اللہ قرآن میں والدین کی بات ماننے کا حکم دیتا ہے رسول اللہ ﷺ بھی ایسا ہی حکم دیتے ہیں اسی طرح قرآن اور رسول ﷺ کا فرمان ہمیں خلیفہ کی اطاعت کا حکم بھی دیتے ہیں
تو جب ہم والدین کی یا خلیفہ کی اطاعت کریں گے تو کیا یہ تقلید ہو گی؟ نہیں بلکہ یہ تو حکم ماننا تو رسول اللہ ﷺ کی وجہ سے ہی ہے اس طرح تو اللہ ہمیں معشرے کی تقلید کا حکم بھی دیتا ہے قرآن میں مختلف جگہوں پہ سکیل کے طور پہ بالمعروف کا لفظ استعمال کیا گیا ہے چاہے وہ حق مہر میں ہو یا کسی اور معاملے میں ہو اور معرعف سے مراد وہ چیز جس کو معاشرہ مانتا ہو تو کیا یہ تقلید ہو گی؟
یہ سب چیزیں تقلید اس وقت بنتی ہیں جب قرآن و حدیث کے خلاف ہوں پس والدین کی اطاعت میں بھی کہا گیا ہے کہ
وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا
اسی طرح خلیفہ کے بارے کہا گیا کہ
ون تنازعتم فی شئی۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اگ تنازع ہو جائے تو قرآن و حدیث کی طرف لوٹا دو
محترم بھائی
جب یہ اصول ہے کہ ہر سنت میں قران و سنت کو مقدم رکھنا ہے تو پھر خلفاء راشدین والی حدیث پر عمل نہیں کر سکتے ۔ہر صحابی کو ہر حدیث معلوم نہیں تھی اس طرح ائمہ کرام کی بھی دسترس میں بھی ہر حدیث اور قول نہیں تھا۔ آج کے اس جدید دور میں ہم ہر حدیث کا حوالہ روایوں کا حال اور اپن فنگر ٹپس سے معلوما ت کر سکتے ہیں تو پھر ایسا کیوں نہیں کیا جاتا کہ قرون اولی اور متاخرین کی تحقیق سے ہٹ کر نئے سرے سے ہر اختلافی مسئلے کو علماء کر مل کر دیکھیں اور اس کا حل پیش کریں۔اس طرح امت میں اتفاق بھی ہوگا۔
جب اقتدا صرف قران و حدیث کی ہے تو پھر کسی کا قول اور کسی کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
دیکھیں بھائی ایک چیز یہ ہے کہ کیا تراویح سنت موکدہ ہے یا نہیں اور دوسری چیز یہ ہے کہ اسکا حکم کیا ہے
تو پیارے بھائی تراویح سنت موکدہ ہے بدعت نہیں ہے کیونکہ دعوت وہ ہوتی ہے کہ جس پہ رسول اللہ ﷺ کا عمل نہ ہو اب یہاں پہ یہ سوال ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا اس تاویح پہ عمل کم از کم ہمیشگی کے لحاظ سے تو نہیں ہے پس ہمیشگی اختیار کرنا تو بدعت ہو گی
تو پیارے بھائی یہ بات بھی نا سمجھی کی وجہ سے کی جاتی ہے دیکھیں سول اللہ ﷺ کے حکم کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں مثلا قولی فعلی یا تقریری حکم اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا کسی فعل کی خوایش رکھنا بھی حکم میں ہی آتا ہے مثلا رسول اللہ ﷺ کی خواہش تھی کہ ہر نماز کے ساتھ مسواک کیا جائے مگر اس بات سے ڈرتے تھے اگر لازمی کر دیا تو کہیں مشقت نہ ہو جائے پس دلی خواہش تو یہی تھی کہ جس کو طاقت ہو وہ ہر نماز کے ساتھ مسواک کے مگر حکم اس لئے نہیں دیا کہ امت کے آرام کا خیال تھا پس جو طاقت رکھتا ہوں وہ یہ خواہش پوی کرے گا تو وہ سنت موکدہ پہ ہی عمل کہلایا جائے گا کیونکہ خواہش کے لحاظ سے وہ تاکید والی سنت (یعنی سنت موکدہ) ہی ہے
یہی حکم تراویح کا ہے
سنت مؤکدہ کیا وہ نہیں جو فرض کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پابندی سے کی ہو۔؟
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
بھائی تو پھر کیا آپ کے نزدیک وہ خلفاء راشدین کی پیروری کرنے والی حدیث غلط ہے اگر صحیح ہے اور آپ کو اشکال صرف اوپر صحابہ کے تفردات سے ہے یعنی ایسے احکامات جن میں بعض صحابہ متفرد تھے تو پیارے بھائی پھر آپ نے اس حدیث کو درست نہیں سمجھا یہ حدیث تفردات میں انکی پیروری کی بات کرتی ہی نہیں ہے بلکہ صحابہ کے اجماع کی بات کرتی ہے اسی طرح واضح قرآن و حدیث آ جانے کی صورت میں بھی کسی صحابی کی پیروری کی بات نہیں کرتی واللہ اعلم
خلفاء راشدین والی حدیث میں مجھے یہ اشکا ل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو خلیفہ مقر ر نہیں کیا۔ پھر خلفاء راشدین میں اول چار ہی کو کیوں شامل کرتے ہیں۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اس میں کیوں شامل نہیں ہوسکتے یہ دو نوں بھی صحابی رسول ہیں۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
1- أخرجه اللالكائي في"شرح أصول اعتقاد أهل السنة"(130)،والطبراني في"الكبير"(9/152)، وأبو نعيم في"الحلية"(1/136) من طريق الأعمش ،عن سلمة بن كهيل ،عن أبي الأحوص ،عن عبد الله -رضي الله عنه -قال :
(( ألا لا يقلدنّ أحدكم دينه رجلاً ،إن آمن آمن وإن كفر كفر ،فإن كنتم لا بد مقتدين فبالميت ،فإنّ الحيَّ لا يؤمن عليه الفتنة )).
وإسناده صحيح،وقال الهيثمي في"مجمع الزوائد"(1/188): "ورجاله رجال الصحيح"
اس میں اعمش کا عنعنہ ہے جو آپ کے نزدیک مدلس ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے
2-وأخرجه اللالكائي في"شرح أصول اعتقاد أهل السنة"(131)من طريق عبيد الله بن موسى ،عن إسرائيل ،عن أبي حصين ،عن يحيى بن وثاب ،عن مسروق ،عن عبد الله - رضي الله عنه -قال:
(( لا تقلدوا دينكم الرجال ،فإن أبيتم فبالأموات لا بالأحياء )).
وإسناده صحيح.
اس میں تقلید کی بات ہے اقتداء کی نہیں یہ روایت آپ کے خلاف حجت ہے
3-وأخرجه البيهقي في"السنن الكبرى"(10/116): أخبرنا أبو عبد الله الحافظ ،ثنا أبو الحسين محمد بن أحمد القنطري ،ثنا أبو الأحوص القاضي، ثنا محمد بن كثير المصيصي ،ثنا الأوزاعي ،حدثني عبدة بن أبي لبابة، أن بن مسعود -رضي الله عنه- قال :
(( ألا لا يقلدن رجل رجلاً دينه ،فإن آمن آمن وإن كفر كفر ،فإن كان مقلداً لا محالة ،فليقلد الميت ويترك الحي، فإنّ الحي لا تؤمن عليه الفتنة )).
وهذا إسناد صحيح رجاله ثقات.
اس میں بھی مردہ افراد کی تقلید کی بات ہے جو آپ کے موقف سے متصادم ہے
3-وأخرجه البيهقي في"السنن الكبرى"(10/116): أخبرنا أبو عبد الله الحافظ ،ثنا أبو الحسين محمد بن أحمد القنطري ،ثنا أبو الأحوص القاضي، ثنا محمد بن كثير المصيصي ،ثنا الأوزاعي ،حدثني عبدة بن أبي لبابة، أن بن مسعود -رضي الله عنه- قال :
(( ألا لا يقلدن رجل رجلاً دينه ،فإن آمن آمن وإن كفر كفر ،فإن كان مقلداً لا محالة ،فليقلد الميت ويترك الحي، فإنّ الحي لا تؤمن عليه الفتنة )).
وهذا إسناد صحيح رجاله ثقات.
اس میں بھی تقلید کی بات ہے آپ تو اقتداء کو ثابت کرنے چلے تھے
ہم جن مجتہدین کی تقلید کرتے ہیں وہ وفات پا چکے ہیں اور ان روایت میں بھی مردہ افراد کی تقلید کی بات ہے
 
Top