حرب بن شداد صاحب جب اردو مجلس فورم پرتھے تو وہاں انہوں نے شاید سید اعجاز علی شاہ کو کسی مراسلہ میں "جید جاہل"کا تمغہ عطاکیاتھا۔یہی کام آپ بھی کررہے ہیں۔
مراسلے لکھ رہے ہیں لیکن جوکچھ میں نے پوچھاہے اس پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔آپ نے اتباع اورتقلید کا جوہری فرق ایک سطر میں بتانے کے بجائے ایک پورامضمون کاپی پیسٹ کردیاہے۔یہ طریقے کس نے سکھائے ہیں؟
دوسروں کی تقلید کرنے کے بجائے خود سے بتائیے
کہ آپ کے نزدیک تقلید کس کو کہتے ہیں اوراتباع اورتقلید میں جوہری فرق کیاہے۔
جمشیدبھائی نے پوچھا ہے
اتباع اورتقلید میں جوہری فرق کیاہے؟
بھائی اس آپکو احسان الفاظ میں سمجھ لے
1- ایک طرف ٖقرآن و صحیح حدیث کی بات ہو اور دوسری طرف کسی امتی کا قول ہو جو قرآن و حدیث سے ٹکراتا ہو اگر آپ قرآن و حدیث کی بات کو قبول کر لے تو وہ اتباع ہے -
2- ایک طرف ٖقرآن و صحیح حدیث کی بات ہو اور دوسری طرف کسی امتی کا قول ہو جو قرآن و حدیث سے ٹکراتا ہو اگر آپ امتی کے قول کو قبول کرے تو وہ تقلید ہے -
مثال کے طور پر :
1- ایمان زیادہ اور کم ہوتا ہے:
امام بخاری نے ایمان کے بارے میں فرمایا:
''وھو قول و فعل و یزید و ینقص'' اور وہ قول و عمل ہے، زیادہ اور کم ہوتا ہے۔
(صحیح بخاری، کتاب الایمان باب ۱ قبل ح ۸)
اور یہی تمام محدثین و سلف صالحین کا عقیدہ ہے، جبکہ دیوبندیہ و بریلویہ کے عقیدے کی کتاب، عقائد نسفیہ میں اس کے سراسر برعکس درج ذیل عبارت لکھی ہوئی ہے:
''الایمان لایزید ولا ینقص'' اور ایمان نہ زیادہ ہوتا ہے اور نہ کم ہوتا ہے۔
(ص ۳۹)!
2- اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی ہے:
استوی علی العرش والی آیت کی تشریح میں امام بخاری نے مشہور ثقہ تابعی اور مفسر قرآن امام مجاہد بن جبیر رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ ''علا'' یعنی عرش پر بلند ہوا۔ (صحیح بخاری کتاب التوحید باب ۲۲ قبل ح ۷۴۱۸ ۔، تغلیق التعلیق ج ۵ ص ۳۴۵)
ثابت ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی ہے، جبکہ اس سلفی عقیدے کے مخالف لوگ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بذاتہ ہر جگہ میں ہے!!
3- رائے کی مذمت:
امام بخاری نے صحیح بخاری کی ایک ذیلی کتاب ( جس میں کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا ذکر ہے) کے تحت لکھا:
''باب ما یذکر من ذم الرأی و تکلف القیاس ''
باب: رائے کی مذمت اور قیاس کے تکلف کا ذکر ۔
( کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ باب ۷ قبل ح ۷۳۰۷)
اس باب میں امام بخاری وہ حدیث لائے ہیں، جس میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ جاہل لوگ باقی رہ جائیں گے، ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ اپنی رائے سے فتوے دیں گے، وہ گمراہ کریں گے اور گمراہ ہوں گے۔ ( ح ۷۳۰۷)
اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک کتاب و سنت کے خلاف رائے پیش کرنا گمراہوں کا کام ہے، لہٰذا وہ ناپسندیدہ لوگ ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نے اہل الرائے کے ایک امام کا اپنی کتاب میں نام لینا بھی گوارا نہیں کیا بلکہ 'بعض الناس' کہہ کر رد کیا اور اپنی دوسری کتابوں (التاریخ الکبیر اور الضعفاء الصغیر) میں اسماء الرجال والی جرح لکھ دی تاکہ سند رہے۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ مقلّد نہیں تھے، جیسا کہ دیوبندیہ کے مشہور عالم سلیم اللہ خان (مہتمم جامعہ فاروقیہ کراچی) نے لکھا ہے:
''بخاری مجتہد مطلق ہیں۔''
(فضل الباری ج۱ ص ۳۶)
4 - نماز میں رفع یدین:
امام بخاری نے صحیح بخاری میں باب باندھا ہے:
''باب رفع الیدین اذا کبّر واذا رکع واذا رفع''
رفع یدین کا باب جب تکبیر کہے، جب رکوع کرے، اور جب (رکوع سے) بلند ہو۔
(قبل ح ۷۳۶)
یہ حدیث ہر نماز پر منطبق ہے، چاہے ایک رکعت وتر ہو یا صبح کے دو فرض ہوں اور اگر نماز دو رکعتوں سے زیادہ ہو تو امام بخاری کا درج ذیل باب مشعل راہ ہے:
''باب رفع الیدین اذا قام من الرکعتین''
رفع یدین کا باب جب دو رکعتوں سے اٹھ جائے۔
(قبل ح ۷۳۹)
رفع یدین کے مسئلے پر امام بخاری صحیح بخاری میں پانچ حدیثیں لائے ہیں اور انہوں نے ایک خاص کتاب: جزء رفع الیدین لکھی ہے ، جو کہ ان سے ثابت اور بے حد مشہور و معروف ہے، یہ کتاب راقم الحروف کی تحقیق و ترجمے کے ساتھ مطبوع ہے۔
یاد رہے کہ دیوبندیہ و بریلویہ کو امام بخاری کے اس مسئلے سے اختلاف ہے۔
یہ کچھ مسائل ہے جو حدیث سے میں نے پیش کیے کیا صحیح حدیث کو چھوڑنا کیا یہ تقلید نہیں