• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تمام مقلدین کو کھلا چیلنج ہے (کہ کسی صحابی سے تقلید کا حکم اور اس کا واجب ہونا ثابت کر دیں)

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
جس چیز کا حکم اللہ تعالی اور اس کے رسول اکرمﷺ دیں ، اس کی پیروی عین اطاعت ہے ،
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین خصوصاً خلفاء راشدین کے طریقہ کی پیروی کاحکم پیارے نبی ﷺ نے دیا ہے یعنی اللہ نے دیا ہے
تو اب انکے طریقہ پر چلنا اصل میں اللہ کی اطاعت ہے ؛
( فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۔۔۔ ) البقرۃ
اسکا حوالہ دے دیں جناب عالی!
بڑی مہربانی ہوگی

2. صحیح بخاری --- کتاب: تیمم کے احکام و مسائل --- باب : تیمم میں ایک ہی دفعہ مٹی پر ہاتھ مارنا کافی ہے ۔ [صحیح بخاری]
حدیث نمبر: 347 --- ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ، کہا ہمیں ابومعاویہ نے خبر دی اعمش سے ، انہوں نے شقیق سے ، انہوں نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن مسعود ؓ اور ابوموسیٰ اشعری ؓ کی خدمت میں حاضر تھا ۔ ابوموسیٰ ؓ نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے کہا کہ اگر ایک شخص کو غسل کی حاجت ہو اور مہینہ بھر پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کر کے نماز نہ پڑھے ؟ شقیق کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے جواب دیا کہ وہ تیمم نہ کرے اگرچہ وہ ایک مہینہ تک پانی نہ پائے (اور نماز موقوف رکھے) ابوموسیٰ ؓ نے اس پر کہا کہ پھر سورۃ المائدہ کی اس آیت کا کیا مطلب ہو گا ” اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کر لو ۔ “ عبداللہ بن مسعود ؓ بولے کہ اگر لوگوں کو اس کی اجازت دے دی جائے تو جلد ہی یہ حال ہو جائے گا کہ جب ان کو پانی ٹھنڈا معلوم ہو گا تو وہ مٹی سے تیمم ہی کر لیں گے ۔ اعمش نے کہا میں نے شقیق سے کہا تو تم نے جنبی کے لیے تیمم اس لیے برا جانا ۔ انہوں نے کہا ہاں ۔ پھر ابوموسیٰ اشعری ؓ نے فرمایا کہ کیا آپ کو عمار کا عمر بن خطاب ؓ کے سامنے یہ قول معلوم نہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے کسی کام کے لیے بھیجا تھا ۔ سفر میں مجھے غسل کی ضرورت ہو گئی ، لیکن پانی نہ ملا ۔ اس لیے میں مٹی میں جانور کی طرح لوٹ پوٹ لیا ۔ پھر میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے لیے صرف اتنا اتنا کرنا کافی تھا ۔ اور آپ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر ایک مرتبہ مارا پھر ان کو جھاڑ کر بائیں ہاتھ سے داہنے کی پشت کو مل لیا یا بائیں ہاتھ کا داہنے ہاتھ سے مسح کیا ۔ پھر دونوں ہاتھوں سے چہرے کا مسح کیا ۔ عبداللہ نے اس کا جواب دیا کہ آپ عمر کو نہیں دیکھتے کہ انہوں نے عمار کی بات پر قناعت نہیں کی تھی ۔ اور یعلیٰ ابن عبید نے اعمش کے واسطہ سے شقیق سے روایت میں یہ زیادتی کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں عبداللہ اور ابوموسیٰ کی خدمت میں تھا اور ابوموسیٰ نے فرمایا تھا کہ آپ نے عمر سے عمار کا یہ قول نہیں سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اور آپ کو بھیجا ۔ پس مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ لیا ۔ پھر میں رات رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے صورت حال کے متعلق ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں صرف اتنا ہی کافی تھا اور اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کا ایک ہی مرتبہ مسح کیا ۔

11. سنن نسائی --- ابواب: جن چیزوں سے غسل واجب ہو جاتا ہے اور جن سے نہیں ہوتا --- باب : تیمم کا ایک اور طریقہ ۔ [سنن نسائی]
حدیث نمبر: 318 --- حکم البانی: صحيح... عبدالرحمٰن بن ابزی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عمر بن خطاب ؓ سے تیمم کے متعلق سوال کیا ، تو وہ نہیں جان سکے کہ کیا جواب دیں ، عمار ؓ نے کہا : کیا آپ کو یاد ہے ؟ جب ہم ایک سریہ (فوجی مہم) میں تھے ، اور میں جنبی ہو گیا تھا ، تو میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ لیا ، پھر میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تمہارے لیے اس طرح کر لینا ہی کافی تھا “ ، شعبہ نے (تیمم کا طریقہ بتانے کے لیے) اپنے دونوں ہاتھ دونوں گھٹنوں پر مارے ، پھر ان میں پھونک ماری ، اور ان دونوں سے اپنے چہرہ اور اپنے دونوں ہتھیلیوں پر ایک بار مسح کیا “

3. سنن ابي داود --- کتاب: طہارت کے مسائل --- باب : تیمم کا بیان ۔ [سنن ابي داود]
حدیث نمبر: 321 --- حکم البانی: صحيح... ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود اور ابوموسیٰ اشعری ؓ کے درمیان بیٹھا ہوا تھا کہ ابوموسیٰ ؓ نے کہا : ابوعبدالرحمٰن ! (یہ عبداللہ بن مسعود کی کنیت ہے) اس مسئلے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کوئی شخص جنبی ہو جائے اور ایک مہینے تک پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کرتا رہے ؟ عبداللہ بن مسعود نے کہا : تیمم نہ کرے ، اگرچہ ایک مہینہ تک پانی نہ ملے ۔ ابوموسیٰ ؓ نے کہا : پھر آپ سورۃ المائدہ کی اس آیت : « فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا » ” پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو “ کے متعلق کیا کہتے ہیں ؟ تو عبداللہ بن مسعود نے کہا : اگر تیمم کی رخصت دی جائے تو قریب ہے کہ جب پانی ٹھنڈا ہو تو لوگ مٹی سے تیمم کرنے لگیں ۔ اس پر ابوموسیٰ ؓ نے ان سے کہا : آپ نے اسی وجہ سے اسے ناپسند کیا ہے ؟ ابن مسعود ؓ نے کہا : ہاں ، تو ابوموسیٰ ؓ نے ان سے کہا : کیا آپ نے عمار ؓ کی بات (جو انہوں نے عمر ؓ سے کہی) نہیں سنی کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے کسی ضرورت کے لیے بھیجا تو میں جنبی ہو گیا اور مجھے پانی نہیں ملا تو میں مٹی (زمین) پر لوٹا جیسے جانور لوٹتا ہے ، پھر میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تمہیں تو بس اس طرح کر لینا کافی تھا “ ، اور آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا ، پھر اسے جھاڑا ، پھر اپنے بائیں سے اپنی دائیں ہتھیلی پر اور دائیں سے بائیں ہتھیلی پر مارا ، پھر اپنے چہرے کا مسح کیا ، تو عبداللہ ؓ نے ان سے کہا : کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ عمر ؓ ، عمار ؓ کی اس بات سے مطمئن نہیں ہوئے ؟ ! ۔ ... (ص/ح)
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ بھی اسے درست نہ سمجھتے تھے۔
عبداللہ بن مسعود ؓ بولے کہ اگر لوگوں کو اس کی اجازت دے دی جائے تو جلد ہی یہ حال ہو جائے گا کہ جب ان کو پانی ٹھنڈا معلوم ہو گا تو وہ مٹی سے تیمم ہی کر لیں گے
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
پیارے بھائی!
کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں باجماعت تراویح نہیں ہوئی تھی؟

1. سنن نسائی --- کتاب: نماز میں سہو کے احکام و مسائل --- باب : نماز پڑھنے اور فارغ ہونے تک اس کے ساتھ رہنے والے کے ثواب کا بیان ۔ [سنن نسائی]
حدیث نمبر: 1365 --- حکم البانی: صحيح... ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رمضان میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ روزے رکھے ، لیکن رسول اللہ ﷺ ہمیں تراویح پڑھانے کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ رمضان کے مہینہ کی سات راتیں رہ گئیں ، تو آپ ہمیں تراویح پڑھانے کھڑے ہوئے (اور پڑھاتے رہے) یہاں تک کہ تہائی رات کے قریب گزر گئی ، پھر چھٹی رات آئی لیکن آپ ہمیں پڑھانے کھڑے نہیں ہوئے ، پھر جب پانچویں رات آئی تو آپ ہمیں تراویح پڑھانے کھڑے ہوئے (اور پڑھاتے رہے) یہاں تک کہ تقریباً آدھی رات گزر گئی ، تو ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کاش آپ یہ رات پوری پڑھاتے ، آپ نے فرمایا : ” آدمی جب امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے تو اس کے لیے پوری رات کا قیام شمار کیا جاتا ہے “ ، پھر چوتھی رات آئی تو آپ ہمیں تراویح پڑھانے نہیں کھڑے ہوئے ، پھر جب رمضان کے مہینہ کی تین راتیں باقی رہ گئیں ، تو آپ نے اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو کہلا بھیجا اور لوگوں کو بھی جمع کیا ، اور ہمیں تراویح پڑھائی یہاں تک کہ ہمیں خوف ہوا کہیں ہم سے فلاح چھوٹ نہ جائے ، پھر اس کے بعد مہینہ کے باقی دنوں میں آپ نے ہمیں تراویح نہیں پڑھائی ۔ داود بن ابی ہند کہتے ہیں : میں نے پوچھا : فلاح کیا ہے ؟ تو انہوں نے (ولید بن عبدالرحمٰن نے) کہا : سحری کھانا ۔ ...

حدیث نمبر: 2009 --- ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی ، انہیں ابن شہاب نے ، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے اور انہیں ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے رمضان کی راتوں میں (بیدار رہ کر) نماز تراویح پڑھی ، ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ ، اس کے اگلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے ۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ کی وفات ہو گئی اور لوگوں کا یہی حال رہا (الگ الگ اکیلے اور جماعتوں سے تراویح پڑھتے تھے) اس کے بعد ابوبکر ؓ کے دور خلافت میں اور عمر ؓ کے ابتدائی دور خلافت میں بھی ایسا ہی رہا ۔

حدیث نمبر: 1327 --- حکم البانی: صحيح... ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے ، آپ نے کسی بھی رات ہمارے ساتھ نماز تراویح نہ ادا فرمائی ، یہاں تک کہ جب سات راتیں باقی رہ گئیں ، تو ساتویں (یعنی تیئیسویں) رات کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا ، یہاں تک کہ رات تہائی کے قریب گزر گئی ، پھر اس کے بعد چھٹی (یعنی چوبیسویں) رات کو جو اس کے بعد آتی ہے ، آپ نے قیام نہیں کیا یہاں تک کہ اس کے بعد والی پانچویں یعنی (پچیسویں) رات کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ رات آدھی کے قریب گزر گئی ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کاش آپ باقی رات بھی ہمیں نفل پڑھاتے رہتے ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” جو کوئی امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے ، تو وہ ساری رات کے قیام کے برابر ہے ، پھر جب اس کے بعد والی چوتھی (یعنی چھبیسویں) رات آئی تو آپ نے اس میں قیام نہیں کیا ، جب اس کے بعد والی تیسری (یعنی ستائیسویں) رات آئی تو آپ ﷺ نے اپنی بیویوں اور گھر والوں کو جمع کیا ، اور لوگ بھی جمع ہوئے ، ابوذر ؓ نے کہا : تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہمیں خدشہ ہوا کہ ہم سے « فلاح » فوت نہ ہو جائے ، ان سے پوچھا گیا : « فلاح » کیا ہے ؟ کہا : سحری : پھر آپ ﷺ نے ماہ رمضان کے باقی دنوں میں تراویح باجماعت نہیں پڑھی ۔ ... (ص/ح)

حدیث نمبر: 2195 --- حکم البانی: صحيح الإسناد لكن قوله متوفى الخ مدرج إنما هو من قول الزهري... ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ آدھی رات کو نکلے ، اور آپ نے مسجد میں نماز پڑھائی ۔ راوی نے پوری حدیث بیان کی ، اس میں یہ بھی تھا کہ انہوں نے کہا : ـ آپ ﷺ لوگوں کو بغیر کوئی تاکیدی حکم دیئے رمضان (کی راتوں میں) قیام یعنی صلاۃ تراویح پڑھنے کی ترغیب دیتے ، اور فرماتے : ” جس نے شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب چاہنے کے لیے قیام کیا ، یعنی صلاۃ تراویح پڑھی اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے “ ، رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے ، اور معاملہ اسی پر قائم رہا

حدیث نمبر: 2011 --- ہم سے اسماعیل بن اویس نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عروہ بن زبیر ؓ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک بار نماز (تراویح) پڑھی اور یہ رمضان میں ہوا تھا ۔


حدیث نمبر: 2010 --- اور ابن شہاب سے (امام مالک رحمہ اللہ) کی روایت ہے ، انہوں نے عروہ بن زبیر ؓ سے اور انہوں نے عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے روایت کی کہ انہوں نے بیان کیا میں عمر بن خطاب ؓ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا ۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے ، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا ، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے ۔ اس پر عمر ؓ نے فرمایا ، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا ، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب ؓ کو ان کا امام بنا دیا ۔ پھر ایک رات جو میں ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز (تراویح) پڑھ رہے ہیں ۔ عمر ؓ نے فرمایا ، یہ نیا طریقہ بہتر اور مناسب ہے اور (رات کا) وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں ۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ (کی فضیلت) سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
1. سنن نسائی --- کتاب: نماز میں سہو کے احکام و مسائل --- باب : نماز پڑھنے اور فارغ ہونے تک اس کے ساتھ رہنے والے کے ثواب کا بیان ۔ [سنن نسائی]
حدیث نمبر: 1365 --- حکم البانی: صحيح... ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رمضان میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ روزے رکھے ، لیکن رسول اللہ ﷺ ہمیں تراویح پڑھانے کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ رمضان کے مہینہ کی سات راتیں رہ گئیں ، تو آپ ہمیں تراویح پڑھانے کھڑے ہوئے (اور پڑھاتے رہے) یہاں تک کہ تہائی رات کے قریب گزر گئی ، پھر چھٹی رات آئی لیکن آپ ہمیں پڑھانے کھڑے نہیں ہوئے ، پھر جب پانچویں رات آئی تو آپ ہمیں تراویح پڑھانے کھڑے ہوئے (اور پڑھاتے رہے) یہاں تک کہ تقریباً آدھی رات گزر گئی ، تو ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کاش آپ یہ رات پوری پڑھاتے ، آپ نے فرمایا : ” آدمی جب امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے تو اس کے لیے پوری رات کا قیام شمار کیا جاتا ہے “ ، پھر چوتھی رات آئی تو آپ ہمیں تراویح پڑھانے نہیں کھڑے ہوئے ، پھر جب رمضان کے مہینہ کی تین راتیں باقی رہ گئیں ، تو آپ نے اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو کہلا بھیجا اور لوگوں کو بھی جمع کیا ، اور ہمیں تراویح پڑھائی یہاں تک کہ ہمیں خوف ہوا کہیں ہم سے فلاح چھوٹ نہ جائے ، پھر اس کے بعد مہینہ کے باقی دنوں میں آپ نے ہمیں تراویح نہیں پڑھائی ۔ داود بن ابی ہند کہتے ہیں : میں نے پوچھا : فلاح کیا ہے ؟ تو انہوں نے (ولید بن عبدالرحمٰن نے) کہا : سحری کھانا ۔ ...

حدیث نمبر: 2009 --- ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی ، انہیں ابن شہاب نے ، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے اور انہیں ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے رمضان کی راتوں میں (بیدار رہ کر) نماز تراویح پڑھی ، ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ ، اس کے اگلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے ۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ کی وفات ہو گئی اور لوگوں کا یہی حال رہا (الگ الگ اکیلے اور جماعتوں سے تراویح پڑھتے تھے) اس کے بعد ابوبکر ؓ کے دور خلافت میں اور عمر ؓ کے ابتدائی دور خلافت میں بھی ایسا ہی رہا ۔

حدیث نمبر: 1327 --- حکم البانی: صحيح... ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے ، آپ نے کسی بھی رات ہمارے ساتھ نماز تراویح نہ ادا فرمائی ، یہاں تک کہ جب سات راتیں باقی رہ گئیں ، تو ساتویں (یعنی تیئیسویں) رات کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا ، یہاں تک کہ رات تہائی کے قریب گزر گئی ، پھر اس کے بعد چھٹی (یعنی چوبیسویں) رات کو جو اس کے بعد آتی ہے ، آپ نے قیام نہیں کیا یہاں تک کہ اس کے بعد والی پانچویں یعنی (پچیسویں) رات کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ رات آدھی کے قریب گزر گئی ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کاش آپ باقی رات بھی ہمیں نفل پڑھاتے رہتے ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” جو کوئی امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے ، تو وہ ساری رات کے قیام کے برابر ہے ، پھر جب اس کے بعد والی چوتھی (یعنی چھبیسویں) رات آئی تو آپ نے اس میں قیام نہیں کیا ، جب اس کے بعد والی تیسری (یعنی ستائیسویں) رات آئی تو آپ ﷺ نے اپنی بیویوں اور گھر والوں کو جمع کیا ، اور لوگ بھی جمع ہوئے ، ابوذر ؓ نے کہا : تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہمیں خدشہ ہوا کہ ہم سے « فلاح » فوت نہ ہو جائے ، ان سے پوچھا گیا : « فلاح » کیا ہے ؟ کہا : سحری : پھر آپ ﷺ نے ماہ رمضان کے باقی دنوں میں تراویح باجماعت نہیں پڑھی ۔ ... (ص/ح)

حدیث نمبر: 2195 --- حکم البانی: صحيح الإسناد لكن قوله متوفى الخ مدرج إنما هو من قول الزهري... ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ آدھی رات کو نکلے ، اور آپ نے مسجد میں نماز پڑھائی ۔ راوی نے پوری حدیث بیان کی ، اس میں یہ بھی تھا کہ انہوں نے کہا : ـ آپ ﷺ لوگوں کو بغیر کوئی تاکیدی حکم دیئے رمضان (کی راتوں میں) قیام یعنی صلاۃ تراویح پڑھنے کی ترغیب دیتے ، اور فرماتے : ” جس نے شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب چاہنے کے لیے قیام کیا ، یعنی صلاۃ تراویح پڑھی اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے “ ، رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے ، اور معاملہ اسی پر قائم رہا

حدیث نمبر: 2011 --- ہم سے اسماعیل بن اویس نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عروہ بن زبیر ؓ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک بار نماز (تراویح) پڑھی اور یہ رمضان میں ہوا تھا ۔


حدیث نمبر: 2010 --- اور ابن شہاب سے (امام مالک رحمہ اللہ) کی روایت ہے ، انہوں نے عروہ بن زبیر ؓ سے اور انہوں نے عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے روایت کی کہ انہوں نے بیان کیا میں عمر بن خطاب ؓ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا ۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے ، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا ، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے ۔ اس پر عمر ؓ نے فرمایا ، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا ، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب ؓ کو ان کا امام بنا دیا ۔ پھر ایک رات جو میں ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز (تراویح) پڑھ رہے ہیں ۔ عمر ؓ نے فرمایا ، یہ نیا طریقہ بہتر اور مناسب ہے اور (رات کا) وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں ۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ (کی فضیلت) سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے ۔
؟؟؟؟؟
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
میں نے اس جملے کو کوٹ نہیں کیا ۔ آپ نے کیا ہے تو جواب دے رہا ہوں۔
کیا صحیح احکام اس لئے بیان نہیں کریں کہ لوگ ان سے غلط فائدہ نہ اٹھالیں۔
حدیث نمبر: 124 --- حکم البانی: صحيح ، المشكاة ( 530 ) ، صحيح أبي داود ( 357 ) ، الإرواء ( 153 ) ... ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” پاک مٹی مسلمان کو پاک کرنے والی ہے گرچہ وہ دس سال تک پانی نہ پائے ، پھر جب وہ پانی پا لے تو اسے اپنی کھال (یعنی جسم) پر بہائے ، یہی اس کے لیے بہتر ہے “ ۔ محمود (محمود بن غیلان) نے اپنی روایت میں یوں کہا ہے : پاک مٹی مسلمان کا وضو ہے “ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ، ۲- اس باب میں ابوہریرہ ، عبداللہ بن عمرو اور عمران بن حصین ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں ، ۳- اکثر فقہاء کا قول یہی ہے کہ جنبی یا حائضہ جب پانی نہ پائیں تو تیمم کر کے نماز پڑھیں ، ۴- ابن مسعود ؓ جنبی کے لیے تیمم درست نہیں سمجھتے تھے اگرچہ وہ پانی نہ پائے ۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے اپنے قول سے رجوع کر لیا تھا اور یہ کہا تھا کہ وہ جب پانی نہیں پائے گا ، تیمم کرے گا ، یہی سفیان ثوری ، مالک ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں ۔ ... (ص/ح)

20. صحیح بخاری --- کتاب: تیمم کے احکام و مسائل --- باب : جب جنبی کو ( غسل کی وجہ سے ) مرض بڑھ جانے کا یا موت ہونے کا یا ( پانی کے کم ہونے کی وجہ سے ) پیاس کا ڈر ہو تو تیمم کر لے ۔ [صحیح بخاری]
کہا جاتا ہے کہ عمرو بن العاص ؓ کو ایک جاڑے کی رات میں غسل کی حاجت ہوئی ۔ تو آپ نے تیمم کر لیا اور یہ آیت تلاوت کی « ولا تقتلوا أنفسكم إن اللہ كان بكم رحيما » ” اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرو ، بیشک اللہ تعالیٰ تم پر بڑا مہربان ہے ۔ “ پھر اس کا ذکر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ہوا تو آپ ﷺ نے ان کی کوئی ملامت نہیں فرمائی ۔

. سنن ابي داود --- کتاب: طہارت کے مسائل --- باب : زخمی تیمم کر سکتا ہے ۔ [سنن ابي داود]
حدیث نمبر: 336 --- حکم البانی: حسن دون قوله إنما كان يكفيه... جابر ؓ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نکلے ، تو ہم میں سے ایک شخص کو ایک پتھر لگا ، جس سے اس کا سر پھٹ گیا ، پھر اسے احتلام ہو گیا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا : کیا تم لوگ میرے لیے تیمم کی رخصت پاتے ہو ؟ ان لوگوں نے کہا : ہم تمہارے لیے تیمم کی رخصت نہیں پاتے ، اس لیے کہ تم پانی پر قادر ہو ، چنانچہ اس نے غسل کیا تو وہ مر گیا ، پھر جب ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو اس واقعہ کی خبر دی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” ان لوگوں نے اسے مار ڈالا ، اللہ ان کو مارے ، جب ان کو مسئلہ معلوم نہیں تھا تو انہوں نے کیوں نہیں پوچھ لیا ؟ نہ جاننے کا علاج پوچھنا ہی ہے ، اسے بس اتنا کافی تھا کہ تیمم کر لیتا اور اپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا (یہ شک موسیٰ کو ہوا ہے) ، پھر اس پر مسح کر لیتا اور اپنے باقی جسم کو دھو ڈالتا “ ۔ ... (ض)
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
میں نے اس جملے کو کوٹ نہیں کیا ۔ آپ نے کیا ہے تو جواب دے رہا ہوں۔
کیا صحیح احکام اس لئے بیان نہیں کریں کہ لوگ ان سے غلط فائدہ نہ اٹھالیں۔
حدیث
کیا آپ نے حدیث نہیں دیکھی؟؟؟
جس میں واضح طور پر علت موجود ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے تیمم کی نفی کیوں کی.
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا کہیں گے؟؟؟
يا رسول أفلا أبشر الناس ؟ قال : لا تبشرهم فيتكلوا
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
؟؟؟؟؟
محترم عمرصاحب
بتانا مقصو د یہ ہے کہ ہر سال رمضان میں تروایح نہیں پڑھی۔ اس کی ترغیب دی بغیر کسی تاکیدی حکم کے۔ پورے رمضان نہیں پڑھی۔
یہ سنت رسول ہے ۔
صحابہ ہر رمضان پڑھتے تھے ۔ الگ الگ بھی اور جماعت کے ساتھ بھی یہ عام سنت صحابہ ہے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور تک یہی طریقہ رہا۔ مروجہ طریقہ تراویح سنت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنت ہے ۔

تروایح ترک کرنے والا گناہ گار نہیں ہے۔(مروجہ طریقہ سے)
 
Top