جس چیز کا حکم اللہ تعالی اور اس کے رسول اکرمﷺ دیں ، اس کی پیروی عین اطاعت ہے ،
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین خصوصاً خلفاء راشدین کے طریقہ کی پیروی کاحکم پیارے نبی ﷺ نے دیا ہے یعنی اللہ نے دیا ہے
تو اب انکے طریقہ پر چلنا اصل میں اللہ کی اطاعت ہے ؛
( فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۔۔۔ ) البقرۃ
اسکا حوالہ دے دیں جناب عالی!
بڑی مہربانی ہوگی
2. صحیح بخاری --- کتاب: تیمم کے احکام و مسائل --- باب : تیمم میں ایک ہی دفعہ مٹی پر ہاتھ مارنا کافی ہے ۔ [صحیح بخاری]
حدیث نمبر: 347 --- ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ، کہا ہمیں ابومعاویہ نے خبر دی اعمش سے ، انہوں نے شقیق سے ، انہوں نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن مسعود ؓ اور ابوموسیٰ اشعری ؓ کی خدمت میں حاضر تھا ۔ ابوموسیٰ ؓ نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے کہا کہ اگر ایک شخص کو غسل کی حاجت ہو اور مہینہ بھر پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کر کے نماز نہ پڑھے ؟ شقیق کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے جواب دیا کہ وہ تیمم نہ کرے اگرچہ وہ ایک مہینہ تک پانی نہ پائے (اور نماز موقوف رکھے) ابوموسیٰ ؓ نے اس پر کہا کہ پھر سورۃ المائدہ کی اس آیت کا کیا مطلب ہو گا ” اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کر لو ۔ “ عبداللہ بن مسعود ؓ بولے کہ اگر لوگوں کو اس کی اجازت دے دی جائے تو جلد ہی یہ حال ہو جائے گا کہ جب ان کو پانی ٹھنڈا معلوم ہو گا تو وہ مٹی سے تیمم ہی کر لیں گے ۔ اعمش نے کہا میں نے شقیق سے کہا تو تم نے جنبی کے لیے تیمم اس لیے برا جانا ۔ انہوں نے کہا ہاں ۔ پھر ابوموسیٰ اشعری ؓ نے فرمایا کہ کیا آپ کو عمار کا عمر بن خطاب ؓ کے سامنے یہ قول معلوم نہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے کسی کام کے لیے بھیجا تھا ۔ سفر میں مجھے غسل کی ضرورت ہو گئی ، لیکن پانی نہ ملا ۔ اس لیے میں مٹی میں جانور کی طرح لوٹ پوٹ لیا ۔ پھر میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے لیے صرف اتنا اتنا کرنا کافی تھا ۔ اور آپ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر ایک مرتبہ مارا پھر ان کو جھاڑ کر بائیں ہاتھ سے داہنے کی پشت کو مل لیا یا بائیں ہاتھ کا داہنے ہاتھ سے مسح کیا ۔ پھر دونوں ہاتھوں سے چہرے کا مسح کیا ۔ عبداللہ نے اس کا جواب دیا کہ آپ عمر کو نہیں دیکھتے کہ انہوں نے عمار کی بات پر قناعت نہیں کی تھی ۔ اور یعلیٰ ابن عبید نے اعمش کے واسطہ سے شقیق سے روایت میں یہ زیادتی کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں عبداللہ اور ابوموسیٰ کی خدمت میں تھا اور ابوموسیٰ نے فرمایا تھا کہ آپ نے عمر سے عمار کا یہ قول نہیں سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اور آپ کو بھیجا ۔ پس مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ لیا ۔ پھر میں رات رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے صورت حال کے متعلق ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں صرف اتنا ہی کافی تھا اور اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کا ایک ہی مرتبہ مسح کیا ۔
11. سنن نسائی --- ابواب: جن چیزوں سے غسل واجب ہو جاتا ہے اور جن سے نہیں ہوتا --- باب : تیمم کا ایک اور طریقہ ۔ [سنن نسائی]
حدیث نمبر: 318 --- حکم البانی: صحيح... عبدالرحمٰن بن ابزی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عمر بن خطاب ؓ سے تیمم کے متعلق سوال کیا ، تو وہ نہیں جان سکے کہ کیا جواب دیں ، عمار ؓ نے کہا : کیا آپ کو یاد ہے ؟ جب ہم ایک سریہ (فوجی مہم) میں تھے ، اور میں جنبی ہو گیا تھا ، تو میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ لیا ، پھر میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تمہارے لیے اس طرح کر لینا ہی کافی تھا “ ، شعبہ نے (تیمم کا طریقہ بتانے کے لیے) اپنے دونوں ہاتھ دونوں گھٹنوں پر مارے ، پھر ان میں پھونک ماری ، اور ان دونوں سے اپنے چہرہ اور اپنے دونوں ہتھیلیوں پر ایک بار مسح کیا “
3. سنن ابي داود --- کتاب: طہارت کے مسائل --- باب : تیمم کا بیان ۔ [سنن ابي داود]
حدیث نمبر: 321 --- حکم البانی: صحيح... ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود اور ابوموسیٰ اشعری ؓ کے درمیان بیٹھا ہوا تھا کہ ابوموسیٰ ؓ نے کہا : ابوعبدالرحمٰن ! (یہ عبداللہ بن مسعود کی کنیت ہے) اس مسئلے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کوئی شخص جنبی ہو جائے اور ایک مہینے تک پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کرتا رہے ؟ عبداللہ بن مسعود نے کہا : تیمم نہ کرے ، اگرچہ ایک مہینہ تک پانی نہ ملے ۔ ابوموسیٰ ؓ نے کہا : پھر آپ سورۃ المائدہ کی اس آیت : « فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا » ” پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو “ کے متعلق کیا کہتے ہیں ؟ تو عبداللہ بن مسعود نے کہا : اگر تیمم کی رخصت دی جائے تو قریب ہے کہ جب پانی ٹھنڈا ہو تو لوگ مٹی سے تیمم کرنے لگیں ۔ اس پر ابوموسیٰ ؓ نے ان سے کہا : آپ نے اسی وجہ سے اسے ناپسند کیا ہے ؟ ابن مسعود ؓ نے کہا : ہاں ، تو ابوموسیٰ ؓ نے ان سے کہا : کیا آپ نے عمار ؓ کی بات (جو انہوں نے عمر ؓ سے کہی) نہیں سنی کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے کسی ضرورت کے لیے بھیجا تو میں جنبی ہو گیا اور مجھے پانی نہیں ملا تو میں مٹی (زمین) پر لوٹا جیسے جانور لوٹتا ہے ، پھر میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تمہیں تو بس اس طرح کر لینا کافی تھا “ ، اور آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا ، پھر اسے جھاڑا ، پھر اپنے بائیں سے اپنی دائیں ہتھیلی پر اور دائیں سے بائیں ہتھیلی پر مارا ، پھر اپنے چہرے کا مسح کیا ، تو عبداللہ ؓ نے ان سے کہا : کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ عمر ؓ ، عمار ؓ کی اس بات سے مطمئن نہیں ہوئے ؟ ! ۔ ... (ص/ح)