• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تنظیم اسلامی کے بانی ڈاکٹر اسرار احمد کا عقیدہ وحدت الوجود !

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اسلام و علیکم

الله نے قرآن میں پرہیز گاروں کی تعریف اس انداز میں فرمائی ہے -

ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ سوره البقرہ ١
یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں پرہیز گارو ں کے لیے ہدایت ہے

الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ ٢
جو ایمان لاتے ہیں غیب کی باتوں پر اور نماز قائم کرتے ہیں ا ور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں خرچ کرتے ہیں

یعنی پرہیز گارو ں کی شان یہ ہے کہ وہ الله کی وہ باتیں جو غیب سے متعلق ہیں ان پر بغیر کسی پس و پیش کے ایمان لاتے ہیں -ان غیب کی باتوں میں الله تعالیٰ کی اپنی ذات، تقدیر کے معاملات ، عذاب اور انعام قبر، عالم برزخ ، جنّت دوزخ ، عالم حشر ، پل صراط وغیرہ شامل ہیں -

ہمارے اکثر علما ء کرام دین کی فہم و فراست رکھنے کے باوجود ان غیب کے معاملات میں صرف اپنی علمی قابلیت ثابت کرنے کے لیے طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں -جس کی وجہ سے خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں - یہ جاننے کے باوجود کہ ان غیب سے متعلق امور کی حقیقت صرف الله تعالیٰ ہی کی ذات جانتی ہے - ہمیں صرف اس حد تک ان چیزوں پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے جتنا الله نے قرآن میں یا رسول صل الله علیہ وسلم نے اپنی احادیث کے ذریے ہمیں بتایا ہے -

ڈاکٹر اسرار نے بھی یہی کیا کہ بلا وجہ وحدت الوجود کے عقیدے پر طبع آزمائی کر کے اپنے معتقدین اور غیر معتقدین کو شک میں مبتلا کر دیا -

ڈاکٹر صاحب کا عقیدہ صحیح ہے یا غلط یہ تو الله ہی بہتر جانتا ہے لیکن ان کا ایسے معاملات میں صفحے سیاہ کرنا اور ابن عربی کی تائید یا مبہم الفاظ میں تنقید کرنا کہاں کی عقل مندی ہے؟؟ - کیا ڈاکٹر صاحب کو نہیں پتا تھا کہ الله نے قرآن میں متشابھات کے پیچھے پڑنے سے سختی سے منع فرمایا ہے - اللہ ان پر رحم فرماے- لیکن بہت سے ایسے موضوعات پر انھوں نے طبع آزمائی کر کے اپنی شخصیت کو لوگوں میں مشکوک اور متنازع بنا لیا -

الله ہم سب کو صحیح عقیدے پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرماے (آ مین )
 

تجمل

مبتدی
شمولیت
مئی 14، 2013
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
0
مسئلہ وحدت الوجود کی پیچیدہ گتھی اور اس کی آسان تفہیم

مولانا اشرف علی تھانویؒ
دراصل وحدۃ الوجودکا مطلب لوگوں نے سمجھا ہی نہیں۔ بعض ناواقفوں نے اس کو وحدت کے معنی منطقی پر محمول کیا ہے۔حالانکہ اس میں صوفیہ نے محاورہ کا اتباع کیا ہے۔ محاورے میں یکتا و بے نظیر اس کو کہتے ہیں' جس کا ہمسر کوئی نہ ہو۔ کہتے ہیں ''فلان واحد فی الحسن واحد فی العلم''وغیرہ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ کوئی دوسرا حسین یا عالم مطلقاً ہے ہی نہیں' بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس کے برابر کوئی نہیں یہی مطلب وحدۃ الوجود کا ہے کہ خدائے تعالیٰ کے وجود کے برابر کسی کا وجود نہیں۔ وجود حقیقی اور کامل ایک ہی ہے اور دوسرے موجودات اس کے سامنے اس قابل نہیں کہ ان کو موجود کہا جا سکے۔ اگرچہ کسی درجہ میں وجود ان کا بھی ہے اور یہ مضمون نصوص کے ذرا خلاف نہیں' بلکہ عین مطابق ہے۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں : (کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلاَّ وَجْھَہ،)(ذاتِ خداوندی کے سوا ہر شے ہلاک ہونے والی ہے) اس کی ایک تفسیر تو مشہور ہے۔ یعنی ھالک فی الاستقبال اور ایک تفسیر اس کی وہی ہے' جو صوفیہ کی ہے' یعنی ھالک فی الحال (ہلاک ہونے والی ہے' فی الوقت بھی) اور یہ تفسیر صاحب شرع عقائد نے بھی لکھی ہے۔ شرح عقائد میں جس کا جی چاہے دیکھ لے' مجھے چونکہ صوفیہ محققین سے محبت ہے' اس لیے میں ان کی تائید کی تلاش میں رہتا ہوں اور ڈھونڈنے والا ہر جگہ سے اپنا مطلب نکال لیتا ہے' اس لیے میں نے اہل ظاہر کی کتابوں ہی سے تائید نکال لی' اب علمائے ظاہر جو صوفیہ پر اعتراض کرتے ہیں' وہ شارح عقائد پر بھی فتویٰ لگائیں ' مگر اس کو سب پڑھتے اور کوئی اعتراض نہیں کرتا اور صوفیہ پر اعتراض کیا جاتا ہے' جہلاء صوفیہ کی تو ہم بھی حمایت نہیں کرتے' مگر محققین کس معنی کر وحدۃ الوجود کے قائل ہیں' اس پر کیا حق اعتراض کا ہے' پس خوب سمجھ لو کہ وحدۃ الوجود کایہ مطلب نہیں کہ کسی شے کا وجود ہے ہی نہیں' بلکہ مطلب یہ ہے کہ وجود تو اغیار کا بھی ہے' مگر کالعدم ہے' جیسے ستارے دن میں موجود تو ہوتے ہیں ' جس کو اہل علم جانتے ہیں۔ مگر آفتاب کے سامنے کالعدم ہوتے ہیں' نیز اس کی ایسی مثال ہے' جیسے ایک تحصیلدار چپڑاسی پر حکومت کرتا ہے اور اس وقت وہ حاکم معلوم ہوتا ہے' مگر وائسرائے کے سامنے بول بھی نہیں سکتا' اس وقت اس کی حکومت کالعدم ہو جاتی ہے' نیز ایک ماہر فن قاری کے سامنے ایک طفل مکتب کو کوئی قاری نہیں کہتا' گو کسی قدر قراء ت اس نے بھی پڑھی ہو' مگر ماہر فن کے سامنے اس کو کوئی قاری کہے تو شرم سے گڑ جائے گا' ہاں کوئی بے حیا ہو تو او ر بات ہے۔ جیسے لکھنؤ میں ایک بچے نے ایک عرب کے لب ولہجہ کی نقل اتاری تھی' بعض بچے نقال بہت ہوتے ہیں تو عوام یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھی عرب صاحب کے برابر پڑھنے لگا ہے' کیونکہ عوام کو فن کی کیا خبر وہ تو لب و لہجہ ہی کو قراء ت سمجھتے ہیں تو بعض جاہل اس لڑکے کو عرب صاحب کے پاس لے گئے اور یہ ظاہر کرنا چاہا کہ یہ قراء ت میں آپ کے برابر ہو گیا ہے' مگر ادباً کہا کہ حضرت اس لڑکے نے جناب کی کچھ تقلید کی ہے' متبرکاً اس کا کچھ قرآن سن لیا جائے۔ انہوں نے سن لیا اور سن کر خاموش رہے' نہ کچھ مدح کی اور نہ مذمت کی۔ لوگوں نے پوچھا کہ حضرت اس نے کیسا پڑھا' فرمایا ایسا پڑھا جیسا ہم نے ایک آمد نامہ تصنیف کیا تھا ' جس کے چند جملے یہ ہیں الخیار' ککری' العنکبوت' مکری' الحطب' لکڑی تو جیسی یہ ہماری اردو ہے ایسے ہی اس بچے کی قراء ت قرآن ہے' غرض محاورات میں ناقص کو کامل کے سامنے لاشے اور کالعدم سمجھا جاتا ہے اور یوں ہی کہا جاتا ہے کہ بس قاری تو فلانا ہے سخی تو وہ ہے' حسین تو یہ ہے۔ اور ناقص سے بالکلیہ اس کی نفی کرتے ہیں' مگرمطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ کامل کے سامنے کوئی چیز نہیں' یہ معنی نہیں کہ فی نفسہ بھی کچھ نہیں' یہی مطلب ہے محققین کا وحدۃ الوجود سے کہ حق تعالیٰ کے وجود کے سامنے کسی کا وجود کچھ نہیں' کسی درجہ میں قابل ذکر نہیں۔ شیخ سعدی نے اس مطلب کو خوب ہی ادا فرمایا ہے :
یکے قطرہ از ابر نیساں چکید خجل شد چو دریائے پنہاں بدید
کہ جائے کہ دریاست بسی کیستم گر اوہست حقاکہ من نیستم
ترجمہ: ایک قطرہ بارش کا ابر نیساں سے ٹپکا' جب بڑا دریا دیکھا تو شرمندہ ہو گیا کہ جہاں اتنا بڑا دریا ہے' بھلا میں کون ہوں اس کی ہستی کے سامنے گویا نیست ہوں:
پھر فرماتے ہیں: ہم ہرچہ ہستند ازاں کمتر اند کہ باہستیش نام ہستی برند
ترجمہ:جو بھی موجود ہیں' اس سے کم ہیں۔ اس لیے کہ اس کی ہستی کی بدولت ہی موجود ہوئے ہیں۔
باقی یہ مطلب نہیں ہے کہ حق تعالیٰ کے سوا فی نفسہ کسی درجہ میں بھی کوئی موجود نہیں کیونکہ حق تعالیٰ خالق ہیں اور خلق کے معنی اعطائے وجود ہیں اور یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ حق تعالیٰ تو موجود کریں اور تم موجود نہ ہو' یہ تو محالات میں سے ہے۔ اس کی تو وہی مثال ہو گی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو عورت کہتی ہے' چاہے تو کتنی ہی طلاق دے میں تو لیتی ہی نہیں۔ سوچیے اس عورت کو سب لوگ بیوقوف کہتے ہیں' کیونکہ طلاق دینے کے بعد کسی سے لینے کی ضرورت نہیں' وہ تو خودبخود واقع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح وہ لوگ بھی بیوقوف ہیں ' جو حق تعالیٰ کو خالق مان کر پھر مخلوق کو موجود نہیںمانتے' مخلوق کا وجود ضرور ہے ' مگر وجود ضعیف اور اعتباری اور برائے نام ہے' پس خوب سمجھ لو کہ محققین ممکنات سے مطلقاً نفی وجود نہیں کرتے' بلکہ وجود حقیقی کامل کے سامنے ان کے وجود کو کالعدم اور لاشئی سمجھتے ہیں' اسی لیے ان کا قول ہے کہ وحدۃ الوجود تو ایمان ہے اور اتحاد وجود کفر ہے۔ کیونکہ اوّل تو اتحاد طرفین کے وجود کو مستلزم ہے۔ اور غیر حق کا وجود ہے کہاں جو وہ وجود حق سے متحد ہو۔ دوسرے اتحاد بین الاثنین محال عقلی ہے۔ اور محال عقلی کا اعتقاد جناب باری میں کفر ہے اور اگر کسی کے کلام میں اتحاد وارد ہے تو معقول کی اصطلاح پر نہیں' اس کا استحالہ تو ابھی مذکور ہوا' بلکہ عوام کے محاورے پر ہے تو ان حضرات نے اصطلاح عوام و اصطلاح فلسفہ کو خلط کر دیا ہے۔ کہیں وہ جو چاہیں' وہ کہیں' اب کوئی ان کی باتوںکو کیا سمجھے خاک پتھر۔ کیونکہ عوام کے محاورے میں اتحاد وجود کے لیے طرفین کی عینیت لازم نہیں' بلکہ وہ منفصل چیزوں کو بھی متحد کہہ دیتے ہیں' مثلاً کہا کرتے ہیں کہ میاں ہم اور تم تو متحد ہیں' اس میں عینیت طرفین اور جس اتحاد وجود کو محققین نے کفر کہا ہے' اس میں عینیت طرفین ملحوظ ہے اور یہ خاص اہل فلسفہ کی اصطلاح ہے۔ اسی لیے صوفیہ کے کلام کو سمجھنے کے لیے صحبت محقق کی ضرورت ہے۔ بہرحال جب ان کے نزدیک اتحاد وجود عین کفر ہے تو اب آپ کو معلوم ہو گیا ہوگا کہ محققین کے قول میں اور جہلاء کے اس قول میں کہ ہر چیز میں خدا ہے' کتنا فرق ہے؟ وہ تو کسی شے کو موجود کہنے کے قابل بھی نہیں سمجھتے اور یہ ظالم ہر چیز کو خدا کہتے ہیں۔ نعوذ باللہ--- اور یہ جو بعض صوفیہ سے ہمہ اوست صادر ہوا ہے یہ غلبہ ئ حال ہے' جس کی حقیقت یہ ہے کہ جب سالک پر محبت حق کا غلبہ ہوتا ہے تو اس کے ادراک سے بجز ذات حق کے ہر شے نکل جاتی ہے' جیسا کہ عاشقانِ مجاز کو بھی یہ حال پیش آتا ہے۔ شیخ سعدی نے اس کی عجیب مثال لکھی ہے:
اگر دیدہ باشی کہ در باغ دراغ بتا بدیکے کرمکے چوں چراغ
کسے گفتش اے کرمکے سب فروز چہ بودت کہ بیروں نیائی بروز
ترجمہ: کسی نے جگنو سے کہا جو رات میں چراغ کی طرح چمکتا ہے کہ میاں تم دن میں کہاں رہتے ہو؟
نہ بینی کہ آن کرمک خاک زاد جواب از سر روشنائی چہ داد
ترجمہ: (تمہیں خبر نہیں کہ اس خاک کے کیڑے نے جواب عقلمندی سے کیا دیا) کیا جواب دیا ہے:
کہ من روز و شب جز بصحرا نیم ولے پیش خورشید پیدا نیم
ترجمہ: اس نے کہا میں تو جنگل ہی میں رہتا ہوں' مگر آفتاب کے سامنے ظاہر نہیں ہو سکتا۔
اسی طرح جن لوگوں کی نظر آفتابِ وجود حقیقی پر ہوتی ہے' اس وقت جگنو یعنی اشیائے عالم کا وجود ان کو نظر نہیں آتا۔ ہاں جو لوگ اندھیرے میں ہیں' جن کی نظر سے آفتاب وجود حقیقی غائب ہے' وہ البتہ اشیائے عالم کے وجود پر نظر رکھتے ہیں' اور جو محقق ہیں جو کہ مغلوب الحال نہیں ہیں' ان کی نظر آفتاب وجود حقیقی پر ہونے کے ساتھ مخلوق پر بھی ہوتی ہے' ان کی مثال ایسی ہے جیسے بعض لوگ تیز نظر ہیں کہ دن میں ستارے دیکھ لیتے ہیں ۔ ایسے ہی یہ باطن کے تیز نظر ہیں۔
---
 
Top